ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 18 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-05

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 18

kali-dunya-siraj-anwar-ep18


پچھلی قسط کا خلاصہ :
جب فیروز کی ٹیم نجمہ کو ساتھ لے کے سفر پر آگے بڑھی تو غاروں میں ان کا واسطہ خونی چمگادڑوں سے پڑا جنہوں نے ان کے جسموں سے گوشت نوچ کر انہیں زخمی کر ڈالا۔ ان سے بچ کر جب وہ دوسری سرنگ میں پہنچے تو وہاں ان کی مڈبھیڑ ایک عظیم جثے کے گرگٹ سے ہوئی۔ کسی طرح امجد نے گرگٹ کے منہ میں لکڑی پھنسا کر اس مفلوج کر دیا اور پھر سب نے اس پر اپنی اپنی پستول سے گولیاں برسا کر اسے ختم کر ڈالا۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

اونچے اونچے ٹیلوں اور ناہموار راستوں کو طے کرنے کے بعد ہم لوگ ایک تنگ راستے پر سے گزرنے لگے۔ یہ راستہ بھی پل جیسا تھا۔ فرق اتنا تھا کہ تنگ ہونے کے باوجود یہ سپاٹ اور ہموار تھا ہاں البتہ اس کے دونوں طرف گہرے کھڈ اور کھائیاں تھیں۔
اس راستے کو طے کرنے میں ہمیں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ گھنٹے کی آواز اب بہت قریب معلوم ہوتی تھی۔ اس کالی دنیا کے اوپر جب ہم نے پہلے پہل گھنٹے کی آواز سنی تھی تو ہمارے کانوں کے پردے پھٹنے لگے تھے۔ مگر یہاں نہ جانے کیا بات تھی کہ گھنٹے کی آواز اتنی تیز نہیں نکل رہی تھی اور اس آواز میں اب ایک ترنم تھا اور یہ کانوں کو بھلی لگ رہی تھی۔ ہم اس آواز میں کھو کر آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔ جب یہ راستہ ختم ہو گیا تو ہم ایک تنگ سی گھاٹی کے قریب آگئے۔ دو طرف دو اونچی چٹانیں تھیں اور ان کے بیچ میں تقریباً دس فٹ چوڑی جگہ تھی۔ یوں سمجھئے کہ جیگا کے علاقے میں جانے کا یہ ایک دروازہ تھا۔ اور جب ہم اس دروازے کے قریب پہنچے تو ہمارے دل دھڑک رہے تھے۔ بدن پسینے میں ڈوب گئے تھے۔ اور اندر ہی اندر کوئی ہم سے کہہ رہا تھا کہ بس اب ہماری زندگی ختم ہونے والی ہے اور یہ دروازہ دراصل موت کا دروازہ ہے۔

جیسے ہی ہماری پارٹی کے آخری آدمی نے پل کو پار کیا اچانک ایک زبردست دھماکہ ہو اور وہ پل روئی کے گالوں کی طرح اڑ گیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے گہرے کھڈوں میں جاکر گرنے لگے۔ ہمارے دلوں میں اگر کوئی امید اپنی زندگی کی باقی تھی تو وہ بھی اب ختم ہو گئی۔ پیچھے جانے کا راستہ برباد ہو چکا تھا اور اب ہمیں گھاٹی سے گزرنا ضروری تھا۔ نجمہ اور اختر کو اپنے بیچ میں لئے ہوئے ہم لوگ چوکنے ہو کر گھاٹی سے گزرنے لگے جب یہ راستہ ختم ہو گیا تو ہمیں سامنے کا منظر دکھائی دیا۔
حیرت اور خوف کی وجہ سے گھبرا کر میں پیچھے ہٹ گیا۔ کسی انسان نے ایسا منظر شاید کبھی نہ دیکھا ہوگا ، ہم سب آنکھیں پھاڑ ے سامنے دیکھ رہے تھے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں کہ سامنے کیا تھا؟ بس ایک نرالی دنیا تھی۔ سائنس کا کرشمہ تھا ، اور انسان کو چونکا دینے والے آلات تھے ، جہاں تک نظر کام کرتی تھی مجھے ایک صاف اور ہموار میدان نظر آتا تھا۔ اس میدان میں جگہ جگہ عجیب سی کلیں اور مشینیں لگی ہوئی تھیں اور ان مشینوں کے پاس لا تعدا د جکاری ادب کے ساتھ کسی کے حکم کے منتظر کھڑے تھے!

یہ مشینیں ایسی عجیب و غریب تھیں کہ جان بھی انہیں حیرت سے دیکھنے لگا اور اس کی سمجھ میں بھی نہیں یا۔ کہ یہ مشینیں کیسی ہیں؟ یہ ایک نرالی قسم کی لمبی چوڑی لیباریٹری دکھائی دیتی تھی۔ جو ایک بہت بڑے ہال میں بنائی گئی تھی۔ اس حال کی چھت سے ویسی ہی لمبی اور مخروطی چٹانیں لٹکی ہوئی تھیں اور ان میں روشنی ہو رہی تھی۔
اس روشنی سے پورا ہال جگمگا رہا تھا اور دائیں طرف ایک خوب صورت اور بڑی آبشار گر رہی تھی اور اس آبشار کے پانی کے نیچے مختلف سائزوں کی چکیاں لگی ہوئی تھیں اور ان چکیوں کے چلنے سے گڑ گڑاہٹ پیدا ہورہی تھی۔ گھنٹے کی آواز اب بھی آ رہی تھی مگر پہلے کے مقابلے میں کافی مدھم تھی۔ ہماری ہمت نہ ہوتی تھی کہ ہم آگے بڑھیں۔ بس جیسے بے خودی کے عالم میں ہم یہ عجائبات دیکھ رہے تھے۔ سامنے لگی ہوئی مشینوں میں جو آلات لگے ہوئے تھے وہ پلاسٹک جیسے شیشے کے بنے ہوئے تھے اور کچھ شیشے جیسی نالیوں میں سرخ رنگ کی گاڑھی گاڑھی کوئی چیز ادھر سے اُدھر چکر لگا رہی تھی۔ میرے اپنے خیال میں یہ یقینا سوبیا دھات تھی جسے جیگا عمل کیمیائی سے گزار کر نہ جانے کس کام میں لینا چاہتا تھا؟
سب سے زیادہ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ جکاری ہمیں چپ چاپ کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے ، حالانکہ یہ وہی جکاری تھے جو ہمارے خون کے پیاسے تھے اور جن کی بہت بڑی تعداد کو ہم نے سوبیا دھات کی بدولت ختم کر دیا تھا۔ جکاریوں سے کچھ دور کے فاصلے پر زوک کھڑے ہوئے تھے اور وہ بھی ہمیں اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ہماری آمد نے انہیں کچھ زیادہ متاثر نہ کیا ہو۔ زوک اور جکاریوں نے ایک خاص قسم کا باریک پلاسٹک جیسا لباس پہنا ہوا تھا۔ میرے خیال میں اسی لباس کی بدولت وہ سوبیا کی زہریلی کرنوں سے محفوظ تھے۔ جب ہم نے دیکھا کہ زوکوں اور جکاریوں سے کوئی ہم سے کچھ نہیں کہتا تو ہم نے ڈرتے ڈرتے آگے قدم بڑھایا۔

بڑی عجیب جگہ تھی بڑے عجیب راستے تھے۔ ہم ہر چیز کو حیرت اور خوف سے دیکھتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے جارہے تھے۔اس مقام پرمشینوں کا جیسے جال بچھا ہوا تھا۔بہت سی مشینیں تو خود بخود کام کررہی تھیں اور ان کے پاس کوئی جکاری یا زوک نہیں کھڑا تھا۔ اس جگہ بھی جیسے سرنگوں کا جال بچھا ہوا تھا اور ان سرنگوں کے اندر شاید لوہے کی ایک چھوٹی سی لائن بالکل ریل کی پٹری جیسی بچھی ہوئی تھی۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ پٹری کس مقصد کے لئے ہے ؟
غور سے دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ ایسی پٹریاں اس جگہ ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ ایک مشین کو دیکھتے دیکھتے جیسے ہی میں نے اپنی بائیں طرف نظر ڈالی تو دہشت کی ایک لمبی چیخ میرے مونہہ سے نکل گئی۔۔۔ اس مشین کے پاس دو آدم خور کھڑے ہوئے تھے ، انہوں نے ہمیں دیکھ کر اس طرح مونہہ پھیر لیا جیسے ان کی نظروں میں ہماری کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ کچھ ہی فاصلے پر مجھے آدم خوروں کی ایک دوسری ٹولی اوردکھائی دی۔ یہ سب زمین کے اندر سے کوئی چیز نکال نکال کر لا رہے تھے۔

"تم کچھ سمجھے فیروز۔۔۔" جان نے آہستہ سے کہا:
" یہ آدم خور زمین کے سینے میں سے سوبیا نکال کر لانے پر مامور ہیں۔ سوبیا کو انسانوں کے علاوہ اور کوئی ہاتھ ہی نہیں لگا سکتا۔ اس لئے جیگا نے ان آدم خوروں کو اس کام پر لگایا ہے کہ وہ کنویں کے اندر سے سوبیا نکال کر لائیں۔ اسے بوائلر میں ڈالیں اور پھر باقی کام مشینوں کے ذریعے ہوتا رہے۔ سوبیا جب ایک خاص قسم کے شیشے کے مرتبان اور نلکیوں میں سے گزر ے تو جکاریوں اور زوکوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ جیگا کو بھلا آدم خوروں سے اچھا آدمی اور کون مل سکتا تھا۔ اس نے نہ جانے کس طرح ان درندوں کو رام کر لیا ہے ؟"
"لیکن جکاری ہم پر حملہ کیوں نہیں کرتے؟ "امجد نے پوچھا۔
"وہ سب جیگا کے غلام ہیں اور اس کے حکم کے بغیر یہاں پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔"
"آپ تو یہ بات اس طرح کہہ رہے ہیں جیسے آپ ہی جیگا ہوں۔" میں نے ہنس کر کہا۔
"میں جیگا کے ان آلات اور طریقوں سے بہت مرعوب ہوا ہوں فیروز۔ میں زہرہ کے اس عظیم سائنس داں کو سلام کرتا ہوں۔۔ کاش وہ کسی طرح ہم سے ملاقات کرے۔"

ابھی اتنی ہی باتیں ہوئی تھیں کہ اچانک ہمیں اپنے سر پر کسی کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی۔ میں یہ سوچ کر نیچے جھک گیا کہ کہیں یہ خونی چمگادڑیں نہ ہوں۔ مگر جیسے ہی میں نے اوپر دیکھا تو میں حیرت زدہ رہ گیا ایک لوہے کا پرندہ اپنے پر پھڑ پھڑاتا ہوا نیچے اتر رہا تھا۔ یہ پرندہ ایک قسم کی مشین تھی اور اس کی شکل ہماری دنیا کے کسی بھی پرندے سے نہیں ملتی تھی۔ یہ پرندہ ایک چھوٹی سی چٹان پر آکر بیٹھ گیا۔ اس کی چونچ کھلی اور پھر یکایک ہمیں ایک آواز سنائی دی۔
"کالی دنیا میں آنے والے میرے معزز مہمانوں کو میرا سلام پہنچے۔۔ مسٹر جان، آپ کی خواہش جلد ہی پوری ہوگی اور آپ مجھ سے ملاقات کریں گے۔ آپ حیرت میں نہ پڑیں یہ پرندہ میری اپنی ایجاد ہے۔ یہ ایک خاص قسم کی دھات کابنا ہوا ہے۔ اس کی آنکھوں میں دو لینس لگے ہوئے ہیں جو آپ کی تصویر مجھ تک پہنچا رہے ہیں اور اس کے گلے میں ایک اسپیکر لگا ہوا ہے جو میری آواز کے ساتھ ساتھ آپ کی آواز بھی مجھ تک پہنچا رہا ہے۔۔۔ میں بھی آپ کی قدر کرتا ہوں مسٹر جان کہ آپ نے مجھے اچھے لفظوں سے یاد کیا۔ مجھے آپ جیسے مخلص دوستوں سے ٹکر لینا کچھ اچھا بھی نہیں لگتا۔ مگر کیا کروں اپنے مشن سے مجبور ہوں۔"
"تمہارا مشن کیا ہے؟" میں نے ہمت کر کے دریافت کیا۔

"میرا مشن ہے کہ اس جزیرے کی سوبیا پر مکمل قبضہ کر لوں اور جیسا کہ مسٹر فیروز آپ دیکھ ہی رہے ہیں میں اس میں کامیاب بھی ہو گیا ہوں۔ اس کے بعد، معاف کیجئے گا کہ میں آپ کی دنیا کو تباہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ کوئی مجھے اس کام سے نہیں روک سکتا۔"
"خیر یہ تو وقت بتائے گا، جس طرح تمہیں اپنا مشن پیارا ہے اسی طرح ہمیں اپنی دنیا پیاری ہے۔۔ ہم اپنی دنیا کو تباہ نہیں ہو نے دیں گے۔" میں نے بے خوفی سے کہا۔

"تمہاری ہمت کی داد دینی پڑتی ہے۔ تم اور تمہارے ساتھی کافی بہادر ہیں جو مختلف آفتوں سے گزر کر یہاں تک پہنچ گئے۔ یہاں تک ابھی کسی انسان کا گزر نہیں ہوا تھا۔ " جیگا نے ہنس کر جواب دیا۔
"مگر خیر مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اب تم یہ نہ بھولو کہ تم میرے قیدی ہو اور میرے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ میں تم لوگوں کی بہادری کو اس وقت سے جانتاہوں جب کہ تم اپنے اسٹیمر میں بیٹھ کر اس سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ مگر یہ بہادری میری اس دنیا میں تمہارے کام نہیں آئے گی۔"
"غرور ہمیشہ انسان کو لے ڈوبتا ہے۔" جان نے کہا۔
"لیکن میں تو انسان نہیں ہوں۔" جیگا نے جواب دیا۔
"اچھا اتنا بتا دو کہ تمہارے کہنے کے مطابق جیگا ہم میں سے کون ہو سکتا ہے۔" میں نے بے صبری سے کہا۔
"یہ بات ظاہر ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں ہے دوست۔۔۔ صبر کرو صبر۔۔" جیگا نے کہا:
"اگر میں نے بتا دیا تو تم آپس میں لڑنے لگو گے۔ جیگا کے بارے میں تمہیں معلوم ہی ہے کہ ایک وقت میں دو جگہ موجود ہو سکتا ہے۔ اس لئے ممکن ہے جیگا تم میں موجود ہو اور اس کی آواز تمہیں اس پرندے کے مونہہ سے آ رہی ہو۔ جیگا ہمیشہ سے تمہاری ہی پارٹی کا ایک ممبر رہا ہے۔ اس بات میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے۔۔۔ اچھا اب میں ایک کام آپ سے اور چاہوں گا مسٹر جان۔۔۔ میں اپنے ایک آدم خور کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں ، آپ براہ کرم اپنے گلے میں لٹکا ہوا سوبیا کا ڈبہ اور نجمہ کے گلے کا آفاقی ہار دے دیں۔ جب تک یہ دو چیزیں آپ کے پاس ہیں، مجھے افسوس ہے کہ میری زندگی کو خطرہ ہے۔ خود کو بچانے کی خاطر مجھے آپ سے یہ دونوں چیزیں لینی ہی ہوں گی۔"
"نہیں نہیں۔۔۔ میں اپنا ہار کسی قیمت پر نہیں دوں گی۔۔۔"نجمہ نے چلا کر کہا۔
"دے دو نجمہ، ضد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، کسی نہ کسی وقت یہ تمہیں یہ ہار اتارنا تو پڑے گا ہی اس لئے بہتر ہے کہ ابھی اتار دو۔۔" جیگا نے نرمی سے کہا۔
"نہیں تم مجھے بہکا کر یہ ہار لینا چاہتے ہو۔ مجھے یہ ہار پسند ہے بھلا ایک معمولی سا ہار تمہاری جان کو کس طرح ختم کر سکتا ہے۔ تم مجھے دھوکا دے رہے ہو۔" نجمہ نے ہٹ دھرمی سے کہا۔

پرندے کے مونہ سے جیگا کے ہنسنے کی آواز بہت دیر تک آتی رہی۔ اس کے بعد اس نے کہا:
"تم بہت عقلمند ہو نجمہ۔ مجھ سے میری ہی موت کا راز دریافت کرنا چاہتی ہو۔ مگر خیر کوئی حرج نہیں۔ میں تم سب کی بے بسی سے اچھی طرح واقف ہوں اور یہ جانتاہوں کہ تم لوگ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس لئے سنو۔۔۔ غور سے سنو۔۔ شاگو کا بھیجا ہوا آفاقی ہار درحقیقت میرے اور میری طاقتوں کے لئے موت کا پیغام ہے۔ زہرہ کی مٹی کے جس مادے سے میرا جسم بنا ہے۔ آفاقی ہار کے دانے اس مادے کو مٹا دینے والی مٹی سے بنے ہیں۔ یہ دانے میری زندگی کو ایک لمحے میں ختم کر سکتے ہیں ، لیکن آفاقی ہار کا کیا میں کچھ نہیں کر سکتا؟ شاگو نے جان کو امریکا سے چلتے وقت جو سوبیا کا ڈبہ دیا تھا وہ دراصل اسی مقصد کے لئے ہے۔ آفاقی ہار کو اگر میرے سامنے نکال کر سوبیا میں ڈال دیا جائے تو میں اور میری تمام طاقتیں فوراً دم توڑ دیں گی۔ یہ سب نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ لیکن میری بھولی لڑکی میں یہ سب کچھ ہونے ہی کب دوں گا۔ تم لوگوں کو اپنی حدود میں آسانی سے لے آنے کا میرا مقصد ہی یہی ہے کہ سوبیا اور آفاقی ہار حاصل کرلوں۔۔ اس لئے اب تم خاموشی سے ہار اتار دو۔۔۔"
"نہیں میں یہ ہار نہیں دوں گی۔"نجمہ نے چلانا شروع کردیا۔
میں نے سامنے دیکھا تو ایک آدم خور پرندے کے پاس آکر مودب کھڑا ہوگیا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ سوبیا کا ڈبہ اور آفاقی ہار لینے کے لئے آیا ہے ، اس لئے میں نے گھبرا کر نجمہ سے کہا۔
"نجمہ بیٹی! ہمیں افسوس ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں۔ تم یہ ہار دے دو۔"
"نہیں۔۔ خبردار نجمہ ہار مت دینا۔" امجد نے چلا کر کہا:
"صرف اسی کے ذریعے ہم جیگا کو ختم کر سکتے ہیں۔"
"میں ہار نہیں دوں گی ابا جی۔۔۔ میں ہار نہیں دوں گی۔" نجمہ نے ہار کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔

کافی دیر تک یہی ہوتا رہا۔ نجمہ روتی جاتی تھی اور ہاراپنے سے علاحدہ نہ کرتی تھی۔ جان بھی ہار دے دینے کے خلاف تھا۔ سوامی اور جیک بھی یہی چاہتے تھے کہ ہار نہ دیاجائے۔ مگرمیں نجمہ کی زندگی بچانے کی خاطر یہ کہہ رہا تھا کہ وہ ہا دے دے۔ جیگا کی آواز بار بار دھمکی دے رہی تھی کہ ہار فوراً دے دیا جائے۔ مگر نجمہ کسی کی ایک نہ سنتی تھی۔
"بہت اچھا میں جانتا ہوں سیدھی انگلیوں گھی نہ نکلے گا۔" جیگا نے غصے سے کہا:
"میں تم لوگوں کو زندہ رکھنا چاہتا ہوں مگر تم شاید مرنے کے خواہش مند ہو۔ بہت بہتر، تمہاری یہ خواہش بھی پوری کی جائے گی۔ میں اپنے خادم آدم خور کو حکم دیتا ہوں کہ وہ تم سے زبرستی دونوں چیزیں چھین لے۔"
"میرا ہار مت لو، ابا جی یہ ہار مجھے بہت پیارا ہے۔" نجمہ پھر چیخنے لگی۔

اچانک پرندے کے مونہہ سے ایک باریک آواز نکلی اور اس کے ساتھ ہی ایک نارنجی رنگ کی روشنی بھی۔ اس روشنی میں ہم سب نہا گئے۔ ہمیں یکایک یہ محسوس ہوا کہ جیسے ہمارے جسم سن ہو کر اکڑ گئے ہیں۔ ہمارے دماغ جاگ رہے تھے مگر پورا جسم سو رہا تھا۔ ایک عجیب کیفیت تھی جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ آنکھیں سب کچھ دیکھ رہی تھیں مگر ہاتھ بے بس تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے زمین نے ہمارے قدم پکڑ لئے ہیں اور ہاتھ بے جان ہو گئے ہیں۔ میں نے بولنا چاہا تو میری آواز بھی نہیں نکل سکی۔ پرندے کی آنکھوں سے روشنی برابر نکل رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے مونہہ سے ایک آواز اور نکلی اور اس آواز کو سن کر وہ لمبا تڑنگا اور خوفناک آدم خور ہماری طرف آنے لگا۔ ہم بالکل بے بس تھے اس لئے اسے اپنی طرف آتے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہے۔

آدم خور سب سے پہلے جان کے پاس آیا اور اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر جان کے گلے میں سے سوبیا کا ڈبہ اتار لیا، اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ نجمہ کی طرف بڑھا اور اس کے گلے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ نجمہ کے چہرے پر دہشت طاری تھی مگر وہ غریب کچھ نہ کرسکتی تھی۔ ایک جھٹکے کے ساتھ آدم خور نے نجمہ کے گلے سے آفاقی ہار توڑ لیا اور پھر یہ دونوں چیزیں حاصل کرنے کے بعد واپس پرندے کے قریب جاکر کھڑا ہو گیا۔ پرندے کی چونک کھلی اور پھر آواز آئی۔
"دیکھا میرے طریقے کتنے عجیب ہیں۔ تم لوگ کچھ بھی نہ کر سکے اور دونوں چیزیں میرے پاس آئیں۔ تم سمجھتے تھے کہ میں تمہیں مار ڈالوں گا۔ ہرگز نہیں مسٹر جان، مجھے اپنی اس دنیا میں تم جیسے سائنس دانوں کی بہت سخت ضرورت ہے۔ مجھے تم سے بہت کام لینے ہیں، اس لئے میں تمہیں اور تمہاری پارٹی کو زندہ رکھوں گا۔ مگر تمہاری حالت ایسی ہو جائے گی کہ تمہیں خود اپنے اوپر ہنسی آیا کرے گی۔ اس حالت میں تم اس جگہ سے کسی طرح واپس نہ جا سکو گے۔ کیونکہ ہر چیز تمہارے قد سے پچاس گنا بڑی ہوجائے گی۔ یہاں سے نکلنے کا راستہ صرف وہی غار ہے جسے تمہارے ملازم نے تلاش کیا تھا اور جس کے ذریعے تم مجھ تک پہنچے ہو۔ تم سمجھتے تھے کہ وہ زلزلہ تھا جس نے تمہیں پاتال میں پہنچایا۔۔ جی نہیں وہ زلزلہ میرا بھیجا ہوا تھا۔ تاکہ تمہیں آدم خوروں کے پنجے سے چھڑایا جا سکے۔ تمہیں میرا احسان مند ہونا چاہئے۔"
جیگا کچھ دیر تک خاموش رہا۔ اس کے بعد لوہے کے پرندے میں سے پھر آواز آئی۔
"اوہ۔۔۔ معاف کرنا، میں نے تمہیں ابھی تک مفلوج کر رکھا ہے لو میں ان شعاؤں کو بند کر دیتا ہوں۔"
فوراً ہی روشنی کی وہ لکیریں ختم ہو گئیں اور ہم سب پھر اپنی اصلی حالت پر آگئے کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ اور آخر کار جیگا کی آواز پھر آئی۔
"نجمہ کو اپنے ہار کے جانے کا بہت رنج ہے۔ مگر ہم اسے اس سے بھی اچھا ہار دے دیں گے۔"
"نہیں مجھے اور کوئی ہار نہیں چاہئے۔۔" نجمہ نے جھنجھلا کر جواب دیا۔
"تمہاری مرضی۔۔۔" جیگا نے آہستہ سے کہا:
"تم بہت ضدی ہو اور تمہاری یہ ضد تمہیں کسی وقت بہت نقصان پہنچائے گی۔ اچھا مسٹر جان اب میں چلتا ہوں ، جلد ہی آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔ کچھ ہی لمحوں میں میری خاص گاڑیاں اور خاص ملازم آپ کو لینے آئیں گے۔ براہ کرم ان کا کہنا مانیے گا ورنہ نتیجے کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔کیونکہ وہ ملازم گوشت پوست کے نہیں بلکہ خالص لوہے کے ہیں"۔

پرندے کی چونچ بند ہوگئی اور پھر وہ فوراً ہی اپنے لوہے کے پر ہوا میں ہلاتا ہوا اوپر اڑنے لگا۔ اسے اڑتے دیکھ کر آدم خور بھی آفاقی ہار اور سوبیا کا ڈبہ اپنے ساتھ لے کر کسی طرف چلا گیا اب ہم اکیلے رہ گئے جان نے فوراً آہستہ سے کہا۔
"فیروز۔۔۔ یہ کتنی خوش قسمتی ہے کہ سوبیا کی تھوڑی سی مقدار ابھی تک نجمہ کے پاس ہے۔ نجمہ بیٹی خبردار۔۔۔ اسے کبھی اپنے جسم سے جدا نہ کرنا۔"
"آپ بے فکر رہئے انکل، نجمہ اس کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کرے گی۔" میں نے جواب دیا۔
"افسوس تو اس بات کا ہے کہ آفاقی ہار ہاتھ سے نکل گیا۔" جان نے کہنا شروع کیا:
"جیگا نے خود ہی اپنی موت کا راز ہمیں بتا دیا ہے۔ سوبیا اور آفاقی ہار اس کی موت کے لئے بہت ضروری ہے۔ مگر افسوس یہ ہار اب جا چکا ہے۔"
"آپ فکر مت کیجئے وہ بار میں جیگا سے حاصل کر لوں گا۔" امجد نے بے خوفی سے کہا۔
"کیا بچوں کی سی باتیں کرتے ہو امجد۔" جان نے پھیکی سی ہنسی کے ساتھ کہا:
" جیگا سے وہ ہار واپس لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔"

میں نے کچھ کہنے کے لئے مونہہ کھولا ہی تھا کہ اچانک ایک زبردست گڑگڑاہٹ کی آواز مجھے بائیں طرف کی سرنگ سے آتی ہوئی سنائی دی۔ ابھی میں یہ سمجھنے بھی نہ پایا تھا کہ یہ آواز کس چیز کی ہے کہ اچانک ایک نرالی قسم کی گاڑی ، ہال میں بھچی ہوئی اس لائن پر چلتی ہوئی ہمارے سامنے آکر رک گئی۔ یہ گاڑی ہر طرف سے بند تھی اور اس کی شکل ناریل جیسی تھی۔ اوپر دو تابنے کے تار کھڑے ہوئے تھے۔ بالکل ایسے جیسے آج کل کے ٹرانسیٹر ریڈیو میں لگے ہوتے ہیں۔ شاید یہ ایریل کا کام دیتے ہوں گے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس گاڑی میں سے ایک دروازہ آہستہ آہستہ ایک طرف کھسکنا شروع ہوا اور پھر فوراً ہی اس میں سے دو سائے اترے۔ پہلی نظر میں تو وہ مجھے سائے ہی نظر آئے مگر جب میں نے غور سے دیکھا تو چونک گیا۔ وہ دراصل روبوٹ تھے۔
آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ روبوٹ لوہے کے بنے ہوئے اس بجلی سے چلنے والے آدمی کو کہتے ہیں جس کے اندر مشینیں اور کل پرزے لگے ہوتے ہیں۔ آپ اسے ایک قسم کا فولاد ی آدمی سمجھ لیجئے۔ اس کی ٹانگیں ہاتھ اور جسم سب پینچوں سے کسے ہوتے ہیں۔ اس کا دماغ تو ہوتا نہیں۔ بس یہ اپنے مالک کے اشارو ں پر چلتا ہے اورجو وہ چاہتا ہے ، کرتا ہے۔ دیکھاجائے تو جکاریوں ، زوکوں اور آدم خوروں سے زیادہ خوفناک چیز یہ فولاد کے آدمی یا روبوٹ تھے!

گاڑی سے اترنے کے بعد وہ سیدھے ہماری طرف آئے ، اور پھر قریب آکر رک گئے تعداد میں وہ صرف دو تھے۔ ان کے چہروں پر میں نے عجیب کلیں دیکھیں۔ آنکھوں کی جگہ دو بلب لگے ہوئے تھے جو جل بجھ رہے تھے۔ ناک سرے سے تھی ہی نہیں۔ مونہہ کی جگہ ایک سوراخ تھا جسمیں شاید لاؤڈ اسپیکر لگا ہوا تھا۔ کانوں کے مقام پر دو دو ایریل لگے ہوئے تھے۔ ان کو دیکھتے ہی اختر اور نجمہ سہم گئے ہمیں بھی اتنا خوف محسوس ہوا کہ ہم بھی گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ یکایک ان میں سے ایک ہمارے سامنے ادب سے جھکا اور پھر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ اور اس کے اندر سے کل پرزوں کی کھٹ پٹ سنائی دینے لگی۔ اس کے بعد اس کے مونہہ سے آواز نکلی۔
"اپنے آقا اور زہرہ کے عظیم مالک جیگا کی طرف سے ہم آپ کو لینے آئے ہیں۔ ہم سے ڈرئیے مت، ہم آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ بس آپ صرف ہمارے ساتھ اس گاڑی میں چل کر بیٹھ جائیے۔"
م۔۔۔مگر تم ہمیں کہاں لے جاؤ گے؟" میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
افسوس ہے کہ ان سوالوں کا جواب دینا، میرے بس میں نہیں۔ میں تو اپنے آقا کا غلام ہوں، اس کا جواب وہی آپ کو دیں گے۔آئیے دیر مت کیجئے۔ ہمیں اور بھی کام کرنے ہیں۔"

ہم نے بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر جان کا اشارہ پا کر خاموشی سے روبوٹ کے ساتھ اس گاڑی میں جا کر بیٹھ گئے۔ بڑی اچھی اور کھلی ہوئی گاڑی تھی اور اس میں بڑی آرام دہ کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ہمارے بیٹھتے ہی دروازہ بند ہوگیا اور گاڑی خود بخود چلنے لگی۔ باہر کی چیز ہمیں ایک بھی نظر نہ آرہی تھی۔ گاڑی کافی دیر تک چلتی رہی اور ہم اس میں بیٹھے بیٹھے اکتا گئے۔ شاید آدھ گھنٹے تک ہم اس گاڑی میں ہی بیٹھے رہے ، آدھ گھنٹے کے بعد وہ خود بخود رک گئی۔ دروازہ کھلا اور میں باہر کا منظر دیکھ کرحیران رہ گیا۔

مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کہ میں بمبئی کے کسی کارخانے میں آگیا ہوں۔ ہر چیز اعلیٰ درجے کی اور نفیس تھی۔ جہاں تک نظر جاتی تھی مجھے عجیب و غریب مشینیں اور شفاف شیشے کے آلات نظر آتے تھے۔ روبوٹ نے ہمیں نیچے اترنے کا اشارہ کیا تو ہم سہمے سہمے سے اترنے لگے۔ پہلے ہال کے مقابلے میں اس ہال کی چھت ایسی ہی تھی جیسی کہ کسی بڑے خارنے کی ہوتی ہے۔ جگہ جگہ بجلی کے بلب روشن تھے اور ان میں سے دودھیا رنگ کی روشنی نکل رہی تھی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کارخانے کے مختلف دروازوں میں سے پندرہ بیس روبوٹ اندر داخل ہوگئے اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ ہر ایک روبوٹ کوئی نہ کوئی کام کررہا تھا۔ شیشے کے مختلف برتنوں میں ہمیں ایک دھواں سا نظر آیا۔ پتہ نہیں یہ کیا چیز تھی۔ دھوئیں کے ساتھ ہی ہلکے سرخ رنگ کی ایک گاڑھی سی چیز بھی برتنوں میں نظر آتی تھی۔

"تم ہمیں کہاں لے آئے ہو؟" میں نے روبوٹ سے سوال کیا۔
" اس سوال کا جواب دینے کی مجھے اجازت ہے" روبوٹ نے آہستہ سے کہا:
"یہ عظیم جیگا کی خاص لیباریٹری ہے۔ یہاں عظیم جیگا مختلف تجربے کرتا ہے یہاں پر وہ کمزوروں کو طاقت عطا کرتا ہے اور طاقتوروں سے ان کی طاقت چھین لیتا ہے۔ یہیں پر بیٹھے بیٹھے وہ پورے نظام شمسی کے حالات دیکھتا رہتا ہے۔ یہیں بیٹھ کر اس نے آپ کی پارٹی کی ایک ایک حرکت کو دیکھا تھا۔ او ر اس وقت بھی وہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔" روبوٹ ایک بڑے دروازے کے پاس جاکر رک گیا اور پھر بولا۔
"بس۔۔۔ مجھے اس سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں۔ یہاں سے آپ لوگ خود آگے جائیے۔ بائیں طرف مڑنے کے بعد آپ کو ایک دوسری لیباریٹری ملے گی، وہاں سے ماڈل نمبر آٹھ کے دو روبوٹ آپ کو عظیم جیگا تک لے جائیں گے۔۔۔"اتنا کہہ کر وہ روبوٹ واپس چلے گئے۔

اب ہم اس دروازے کے پاس سہمے ہوئے کھڑے تھے جس کے اندر شاید ہماری موت ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ بڑی دیر تک ہم آپس میں بحث کرتے رہے کہ اندر جائیں یا نہیں۔ لیکن اندر جائے بغیر اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ اس لئے ہم نے ڈرتے ڈرتے اندر قدم بڑھائے۔ روپوٹ نے جیسا کہا تھا وہی ہوا۔ بائیں طر ف مڑنے کے بعد ہمیں ایک چھوٹی سی لیباریٹری دکھائی دی جس کے بیچ میں شیشے کا ایک بہت بڑا کیبن بنا ہوا تھا۔ کیبن کے برابر ہی کالے رنگ کے دو روبوٹ کھڑے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ ادب سے جھکے اور ان میں سے ایک بولا۔
" ہم موڈل نمبر آٹھ کے روبوٹ ہیں۔۔ تشریف لائیے اور اس کمرے میں داخل ہوجائیے۔ عظیم جیگا آپ سے یہیں ملاقات کریں گے۔"
اتنا کہہ کر اس نے شیشے کے کیبن کا ایک دروازہ کھول دیا۔ دروازے کی طرف صرف اس نے اشارہ کیا تھا اور وہ اپنے آپ ہی کھل گیا۔ ایک شش و پنج کی حالت میں ہم لوگ اس شیشے کے کیبن میں داخل ہوگئے۔ کیبن کی چھت میں ایک سوراخ تھا اور اس سوراخ میں سے ایک بہت بڑا دوربین جیسا لینس باہر نکلا ہوا تھا۔ بیچ میں عجیب قسم کی کچھ کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ہم ان پر جا کر بیٹھ گئے۔ روبوٹ نے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ پھر بند کر دیا اور خاموش کھڑا ہو گیا کچھ ہی لمحے بعد کیبن کے اندر ایک آواز گونجنے لگی۔

"آداب عرض مسٹر جان اور مسٹر فیروز۔۔۔ یہ میری خاص جگہ ہے اسی جگہ میں آپ سے ملاقات کروں گا اور اسی مقام پر آپ میری صورت دیکھیں گے۔ آپ میرے مہمان ہیں اور مجھے یہ دیکھ کر شرم محسوس ہورہی ہے کہ آپ حضرات کے پاس اب ایک بھی ایسا فالتو کپڑا نہیں ،جس سے آپ اپنا بدن ڈھک سکیں۔ آپ کی خاطر و مدارات کا انتظام میں نے پہلے ہی سے کر رکھا ہے اور بمبئی سے آپ کی ناپ کے کپڑے سلوا کر منگوارکھے ہیں۔ کیبن کے ایک کونے میں لکڑی کا ایک چھوٹا سا کمرہ آپ دیکھ رہے ہیں ، براہ کرم اس کمرے میں باری باری جاکر لباس تبدیل کرلیجئے ، زرا جلدی کیجئے مجھے کچھ اور بھی کام ہیں۔"
جیگا کے اتنے کہنے پر جان نے ایک خاص نظر سے نجمہ کو دیکھا۔ نجمہ نے بے فکری کے انداز میں گردن ہلا دی۔ میں دونوں کی نظروں کا مطلب اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ جان نجمہ کو ہدایت دے رہا تھا کہ سوبیا کے ڈبے کو وہ اپنے جسم سے الگ نہ کرے اور نجمہ نے اسے اطمینان دلا دیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ اپنی داستان کو مختصر کرتے ہوئے میں اتنا ہی کہوں گا کہ ہم لوگ لباس تبدیل کرکے پھر کیبن کے اندر آگئے۔ یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ لباس بہت اچھا تھا اور ہم لوگ اب خاصے معقول انسان نظر آتے تھے۔
"بہت خوب۔۔۔ دیکھئے نا اب بھی تو آپ آدمی نظر آتے ہیں" جیگا کی ہنسی کی آواز آئی۔
"اچھا اب آپ حضرات ان کرسیوں پر بیٹھ جائیے ، میں آپ کو ایک تماشہ دکھاتا ہوں۔"


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:18

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں