ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 17 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-28

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 17

Novel Kaali Dunya by Siraj Anwar Ep.-17



پچھلی قسط کا خلاصہ :
جب لاتعداد بونوں کو بندوق کی گولیوں سے فیروز اور اس کی ٹیم نے مار گرایا تو بونوں کی ملکہ بنی نجمہ بپھر گئی اور اس نے ان سب کو سزا سنائی کہ وہ پاتال کے دوسرے کونے میں جا کر اس کے دشمن کی حکومت کو ختم کر دیں۔ پھر نجمہ خود بونوں کی فوج کو ساتھ لیے انہیں چھوڑنے نکلی۔ پھر اپنی چال کے تحت نجمہ نے بونوں کی فوج کو ختم کرا دیا اور وہ سب لوگ نجمہ کے ہمراہ بونوں کی دنیا سے باہر نکل آئے۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

" جی ہاں۔۔ خیر آگے سنئے۔ خدا کی قدرت کہ اس نے اس موقع پر مجھے ہمت اور عقل عطا کی۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں یہ ظاہر کروں کہ درحقیقت میں ان بونوں ہی کی ملکہ ہوں اور جو وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے۔ جب آپ سب زومبو میں پہنچے تو میں نے اتنے عرصے میں بہت سی ضروری معلومات مہیا کرلی تھیں۔ میں آپ کے ساتھ بہت بری طرح پیش آئی۔ میرے اس سلوک سے جہاں آپ کو رنج ہوا وہاں بونوں کے وزیر اعظم کو یقین ہوگیا کہ میں ہی اصلی ملکہ ہوں اور آپ لوگوں کی جانی دشمن۔ میں نے آپ سب کو برا بھلا کہہ کر بونوں کے دل میں جگہ پیدا کرلی۔ میں بھی موقع کی تلاش میں تھی مگر موقع نہ ملتا تھا۔ میں نے آپ کو یہ سزا دی کہ آپ جاکر بونوں کے دشمن سے لڑیں جو درحقیقت جیگا ہے۔ یہ سزا سب بونوں نے بڑی خوشی سے سنی۔ میری تجویز یہی تھی اور جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے میری یہ تجویز کامیاب رہی اور اب میں نے نہ صرف آپ کو اس خوفناک قوم سے نجات دلوا دی ہے بلکہ خود بھی آپ کے سامنے ہوں۔"

مجھے نجمہ کی یہ باتیں اتنی پیاری معلوم ہوئیں کہ میں نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔ اختر نے بھی جلدی سے اپنی بہن کے گلے میں باہیں ڈال دیں۔ نجمہ روتی جاتی تھی اور ہم سب سے اپنے الفاظ کی معافی مانگتی جاتی تھی۔ جب ہم نے اسے دلاسا دیا تو وہ خاموش ہو گئی۔ اس کے بعد ہم لوگ آپس میں یہ مشورہ کرنے لگے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ راستے کی تھکن اتنی سوار تھی کہ ہماری نگاہیں بند ہوئی جاتی تھیں مگر ہم اس ڈر سے نہیں سوتے تھے کہ کہیں وہ بونی مخلوق ہمارا پیچھا نہ کررہی ہو، جب کافی دیر اسی طرح بیٹھے بیٹھے ہوگئی تو جان نے کہا۔
"میرے خیال میں اب ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔"
" جی ہاں، اسی طرح ایک جگہ بیٹھے رہنے سے تو کچھ نہ ہوگا۔" امجد نے رائے دی۔
سوامی اور جیک کا بھی یہی خیال تھا کہ آگے بڑھا جائے۔
سب کی رائے پر عمل کرتے ہوئے آخر میں کھڑا ہوگیا اور پھر ہال کو طے کرکے ہم لوگوں نے سامنے نظر آنے والی سرنگ میں قدم رکھا۔ جان ایک بات نجمہ سے پوچھنی بھول گیا تھا اور وہ اب اس نے پوچھ لی۔ اس نے سوبیا کے ڈبے کے بارے میں پوچھا تھا اور نجمہ نے یہ کہہ کر اسے اطمینان دلادیا تھا کہ وہ ابھی تک اسی کے پاس ہے۔ رہا آفاقی ہار تو وہ نجمہ کے گلے میں نظر آہی رہا تھا۔ یہ سرنگ کچھ زیادہ لمبی نہیں تھی۔ جگہ جگہ اس میں نوکیلے پتھر دائیں اور بائیں طرف لگے ہوئے تھے۔ ہم لوگ ان پتھروں سے خود کو بچاتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جارہے تھے۔کبھی راستہ رنگ ہوجاتا اور کبھی کشادہ کئی بار ہمارے سر مخروطی چٹانوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچے۔ اگر ایسا ہوگیا تو ہمارے سر ضرور زخمی ہوجاتے۔

جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں ہم جس غار نما سرنگ میں چل رہے تھے وہ پہلے کی طرح زیادہ لمبی نہیں تھی کیونکہ جلد ہی ہم دوسری طرف نکل آئے۔ یہاں کا منظر بھی پہلے جیسا ہی تھا۔ ویسی ہی مخروطی لٹکتی ہوئی چٹانیں لاتعداد تھیں۔ جگہ جگہ گڑھے تھے ، اور تھوڑے ہی فاصلے پر ایک گہری دراڑ بھی تھی جو اوپر سے کافی چوڑی تھی۔ گہرائی کا اندازہ ہم نہیں کرسکتے تھے۔ ہاں یہ دیکھ سکتے تھے کہ اوپر سے دس گز کا فاصلہ اس دراڑ کا ضرور تھا۔ اگر کوئی بھولے سے اس دراڑ میں گر جاتا تو بس پھر اس کا خدا حافظ۔ ہم نے ابھی اس حصے میں قدم رکھا ہی تھا کہ اچانک ایک سرسراہٹ بلند ہوئی اور پھر یہ سرسراہٹ بڑھ کر شور بن گئی۔ دراڑ میں سے گرم ہوا کا ایک زبردست جھونکا آیا اور ہماری مشعل کو بجھا گیا۔ مشعل کے بجھتے ہی ہمیں یوں لگا جیسے ہماری بینائی جاتی رہی ہو۔ چٹانوں کی گہ جگمگاہٹ اور پتھروں کی چمک سب یکایک جاتی رہی۔ شور لگاتار بڑھتا جارہا تھا اور کچھ ہی دیر بعد یہ شور اتنا بڑح گیا کہ ہمارے کانوں کے پردے پھٹنے لگے اور پھر اس کے ساتھ ہی کسی نے زور سے میرے سر پر کوئی نوکیلی چیز ماری۔ ایک خاص قسم کی بونے یکایک جان کو بتا دیا کہ یہ خونی چمگادڑوں کا ایک غول تھا۔

"بیٹھ جاؤ۔۔۔ زمین پر بیٹھ جاؤ۔۔ اور جلدی سے مشعل روشن کرو۔" جان نے چلا کر کہا۔
چمگادڑوں کا یہ حملہ اتنا زبردست تھا کہ ہم لو گ اپنے حواس کھو بیٹھے اور ایک دوسرے سے بری طرح لپٹ گئے۔ میں ایک ہاتھ سے چمگادڑوں کو اپنے جسم سے پرے ہٹا رہا تھا اور دوسرے سے اپنے تھیلے میں سے ٹارچ نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔ ٹارچ نکالنے کے بعد جیسے ہی میں نے اسے جلایا تو دیکھا کہ ڈھائی فٹ لمبی چمگادڑوں کا ایک زبردست غول ہے۔ جو ہم پر چاروں طرف سے حملہ کررہا ہے اور یہ چمگاڑیں اسی دراڑ میں سے نکل رہی ہیں جو ہم سے کچھ ہی فاصلہ پر تھی۔

چمگادڑیں ہمارے ننگے جسموں سے بوٹیاں نوچنے میں مصروف تھیں اور ادھر جیک بغیر اف کئے مشعل جلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے جسم سے تین چمگادڑیں چمٹی ہوئی تھیں۔ مگر وہ وقت ضائع کئے بغیر مشعل جلارہا تھا۔ اور آخر کار اس نے مشعل جلالی۔ مشعل کے جلتے ہی چمگادڑیں بری طرح چیخنے لگیں اور جیک سے دور دور ہٹ گئیں۔ میں نے چلا کر کہا سب جلد سے جلد جیک کے چاروں طرف اکٹھے ہوجائیں میرا کہنا مان کر سب نے یہی کیا۔ اس سے ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ چمگادڑیں ہم پر حملہ کرنے سے کترانے لگیں اور اپنے پر پھیلا کر چیخنے لگیں نجمہ اور اختر کے جسموں سے بھی ان کم بخت چمگادڑوں نے بوٹیاں نوچ لیں تھیں اور وہ دونوں بھی تکلیف کی وجہ سے کراہ رہے تھے۔ مشعل آگے بڑھا کر ہم نے چلنے کی کوشش کی تو چمگادڑوں نے ہمارا راستہ روک لیا۔ اب تو ہم بڑے گھ برائے ، چمگادڑیں ہمیں ایک ہی جگہ روکے رکھنا چاہتی تھیں۔یہ حالت دیکھ کر میں نے جلدی سے اپنے پستول کی ایک گولی سامنے والی چمگادڑ پر داغ دی۔ ایک خوفناک چیخ مار کر وہ چمگادڑ نیچے گر پڑی اور باقی اسی ہیبت ناک آواز میں چیخنے لگیں۔

اچانک ہم نے دیکھا کہ چمگادڑوں کی چیخیں سن کر اوپر چھت سے لٹکتی ہوئی ایک مخروطی چٹان میں حرکت ہوئی اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ چٹان نیچے سرکنے لگی۔ جب میں نے اپنی ٹارچ کی روشنی اس طرف ڈالی تو خوف کے باعث میرا ہاتھ لرز گیا۔ ایک بہت بڑا اژہا اس ہال کی چھت میں نہ جانے کب سے لٹکا ہوا تھا۔ پہلی نظر میں مجھے وہ بھی ایک مخروطی چٹان نظر آیا تھا۔دھم سے وہ زمین پر گر پڑا اور اپنا خوفناک مونہہ آگے بڑھا کر اس نے ایک چمگادڑ کو دبوچ لیا اور پھر اسے زندہ نگل گیا۔ یہ حالت دیکھ کر چمگادڑیں ہمیں تو بھول گئیں اور انہوں نے اژدہے پر حملہ کردیا۔ اس موقع کو غنیمت جان کر میں نے سب کو اشارہ کیا کہ وہ بغیر آواز کئے آہستہ آہستہ آگے کی طرف کھسکیں اور بائیں طرف جو سرنگ نظر آرہی ہے اس میں پناہ لیں۔ کچھ ہی دیر بعد ہم لوگ سرنگ کے دھانے پر کھڑے ہوکر اژدہے اور چمگادڑوں کی لڑائی دیکھ رہے تھے۔ جیک نے ایک مخروطی چٹان اوپر سے توڑ کراس دہانے پر رکھ دی تاکہ اگر چمگادڑیں ہمارا پیچھا کرنا چاہیں تو نہ کرسکیں۔ دہانے کے ایک سوراخ سے میں نے دیکھا کہ چمگادڑوں نے اژدہے پر قابو پالیا ہے اور اب اس کی تکا بوٹی کرنے میں مصروف ہیں۔

میں نے گھبرا کر اپنے ساتھیوں سے آگے بڑھنے کو کہا۔ اور پھر ہم اس سرنگ میں تیزی سے بھاگنے لگے۔ دوسری طرف نکلنے کے بعد ہم لوگ اچنبھے میں رہ گئے اور سانس روک کر سامنے کے منظر کو دلچسپی سے دیکھنے لگے۔ ہمارے بالکل سامنے ایک جھیل تھی جو کافی دور تک پھیلی ہوئی تھی اور اس جھیل کے اوپر ایک قدرتی چھت تھی۔ جس میں جگہ جگہ مخروطی چٹانیںلٹکی ہوئی تھیں۔ اس جھیل میں دور دور سے آنے والے چشموں کا پانی گر رہا تھا۔ مشعل کی روشنی نے پورے حصے کو جگمگادیا تھا۔ چٹانوں سے ٹکرا کر یہ روشنی اتنی تیز ہوگئی تھی کہ ہم کو ہر چیز بالکل ویسی ہی نظر آرہی تھی جیسی کہ دن کی روشنی میں نظر آتی ہیں۔ یہ اتنا عجیب منظر تھا کہ کبھی کسی انسانی آنکھ نے نہ دیکھا ہوگا۔ جھیل کا پانی آہستہ آہستہ ہلکورے لے رہاتھا۔
جکاریوں والے گھنٹے کی آواز اب بہت تیز سنائی دینے لگی تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ اب وہ ہم سے کچھ زیادہ دور نہیں تھے۔ ہمیں اب تھکن بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ سورج تو نکل نہیں رہا تھا کہ ہم وقت کا اندازہ کرتے۔ اس تھکن سے ہم سمجھ گئے کہ شاید باہر کی دنیا میں رات ہوگئی ہے۔ ہماری آنکھیں بند ہوئی جارہی تھیں۔ اس لئے ایک چھوٹے سے غار کے اندر جاکر ہم سو گئے۔ وقت کا چونکہ کوئی اندازہ نہ ہوسکتا تھا اس لئے نہ جانے کب تک پڑے سوتے رہے۔ نیندیوں بھی اچھی آئی کہ ہم اس جگہ اپنے زخموں پر مرہم لگا لیا تھا۔

جب میں جاگا تو میں نے دیکھا اختر اور نجمہ جھیل کے کنارے پڑے ہوئے گول گول پتھر چننے میں مصروف تھے۔ مجھے جاگتے دیکھ کر نجمہ دوڑ کرمیرے پاس آئی اور کہنے لگی۔
"دیکھئے ابا جی! یہ خوبصورت پتھر آفاقی ہار جیسے ہی ہیں نا۔"
میں نے ان پتھروں کو نجمہ کے گلے میں پڑے ہوئے ہار سے ملا کر دیکھا تو مجھے بڑا تعجب ہوا۔ واقعی جس طرح کے دانے آفاقی ہار میں تھے۔ یہ پتھر ہو بہو ان جیسے تھے۔ جب میں نے اختر سے پوچھا کہ وہ ان کا کیا کرے گا تو اس نے جواب دیا۔
"میں اس کا ایک دوسرا آفاقی ہار بناؤں گا اور اپنے گلے میں پہنوں گا۔"
اختر یہ کہہ کر ہنسنے لگا اور اس کے ساتھ ہی میں بھی بری طرح قہقہے لگانے لگا۔ یہ ہنسی بہت عرصے کے بعد میرے ہونٹوں پر آئی تھی۔ ان قہقہوں کو سن کر باقی سب بھی جاگ گئے۔ سونے کے بعد چوں کہ ہم تازہ دم ہوچکے تھے اس لئے آپس میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہئے ؟

انسان آگے کے بارے میں تو اس وقت سوچتا ہے جب کہ اس کے سامنے کوئی پروگرام ہوتا ہے۔ ہمارے پاس کیا پروگرام تھا؟ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہمیں آگے کرنا کیا ہے۔ اس وقت ہر ایک نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق باتیں کہیں۔ طریقے بتلائے کہ یوں کرو اور دوں کرو۔ لیکن جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں یہ باتیں بیکار تھیں۔ اس لئے ہم لوگ پھر خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ سب سے بڑا فکر تو ہمیں اب لباس کا تھا ہم تو مرد تھے ہمارا تو خیر کچھ نہیں مگر نجمہ کی ہمیں بہت فکر تھی۔ اپنا جسم ڈھانکنے کے لئے اب وہ کسی پودے یا درخت کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتی تھی۔ کہ کہیں وہ درخت اس کو پکڑ نہ لے۔ فی الحال جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔ اس لئے نجمہ دائیں سمت والے ایک غار کی طرف جانے لگی۔ میں سمجھ گیا کہ شاید وہ کسی درخت یا پودے کی تلاش میں جارہی ہے۔ اس لئے میں نے امجد سے کہا کہ وہ بھی ذرا اس کی حفاظت کے لئے ساتھ چلا جائے۔ اور اسے کسی درخت یا پودے کو چھونے نہ دے۔

کچھ ہی دیر بعد امجد نے مجھے آکر بتایا کہ نجمہ کو ایسا ایک درخت مل گیا ہے جس کی چھال کو وہ کپڑے کی جگہ استعمال کر سکتی ہے۔ اور چوں کہ اس وقت وہ اس چھال کو کوٹ کر سیدھا کرنے میں مصروف ہے۔ اس لئے امجد واپس آ گیا ہے۔ مجھے سن کر اطمینان ہوا کہ چلو اس فکر سے تو نجات ملی۔ اس کے بعد میں نے بلند آواز سے پکا ر کر کہا نجمہ! زیادہ وقت مت لگانا۔ جلد واپس آجاؤ۔"
"بہت اچھا ابا جی۔۔ میں آ رہی ہوں۔۔" نجمہ نے اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک مجھے اس کی چیخ سنائی دی۔ میں نے پلٹ کر غار کی طرف دیکھا۔ غار میں سے نجمہ کے اسی طرف بھاگنے کی آواز آرہی تھی۔ جیک اور سوامی نے شاید کسی خطرے کی بو سونگھ لی تھی، اس لئے وہ اپنے لمبے چاقو نکال کر تیار ہوگئے تھے۔
نجمہ کی دوسری چیخ سنتے ہی میں بے قابو ہوگیا اور غار کی طرف دوڑا۔ مگر اس عرصے میں نجمہ غار سے باہر نکل آئی تھی۔ اس نے کافی چوڑی چھال کو اپنے جسم کے اوپری حصہ پر لپیٹ لیا تھا۔ لیکن یہ وقت اس کے لباس کی تعریف کرنے کا نہیں تھا۔ میں تو تب یہ سوچ کر پریشان تھا کہ آخر وہ چیخی کیوں تھی؟ نجمہ دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی اور لرزتے ہوئے کہنے لگی۔
"ابا جی وہ۔۔۔۔ وہ۔۔کوئی عجیب چیز ہے؟"

ابھی اس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک مجھے یوں لگا جیسے اس حصے میں زلزلہ آگیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی ایک زبردست چنگھاڑ بھی سنائی دی۔ ایسی خوفناک آواز تھی کہ ہم لوگ گھبرا گئے ہم نے جلدی جلدی اپنا سامان اٹھایا اور بندوقیں سنبھال لیں۔ نجمہ ابھی تک کپکپا رہی تھی۔
"نجمہ۔۔۔! کیا چیز دیکھی ہے تم نے؟" میں نے غار کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"میں نے تو صرف دو بڑی بڑی آنکھیں دیکھی تھیں ابا جی۔ پتہ نہیں وہ کس کی آنکھیں ہیں۔ جب میں بھاگنے لگی تو وہ چیز میری طرف لپکی۔ دیکھئے دیکھئے وہ آرہی ہے۔"

نجمہ کو جلدی سے اپنے پیچھے کر کے میں نے غار کے دہانے کی طرف دیکھا۔ ایک بڑی بد ہیئت شکل اس غار میں سے نمودار ہوئی ابھی میں نے اس کا صرف سرہی دیکھا تھا۔ جب یہ سر باہر آگیا تو میں نے دیکھا کہ وہ کوئی جانور ہے۔ مگر معمولی سا جانور نہیں بلکہ کافی بڑا جانور اس کا مونہہ کھلا ہوا تھا اور اس مونہہ میں لمبے لمبے دانتوں کی قطار مجھے صاف نظر آرہی تھی۔ یہ دانت نوکیلے تھے اور ان سے باہر اس کی لمبی اور دو شاخی زبان نکل رہی تھی۔ یہ جانور زیادہ پھرتیلا نہیں تھا بلکہ زمین پر دھب دھب کرکے چل رہا تھا اور اس کی چال بھی بہت سست تھی۔ ہم لوگ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے گئے۔ پچھلے غار میں اس لئے داخل نہیں ہوئے کہ وہاں خونی چمگادڑوں کے آجانے کا خوف تھا۔ اب ہمارے دائیں طرف تو گہرے نیلے پانی کی جھیل تھی۔ بائیں طرف دیوار اور سامنے کی طرف وہ غار جس میں سے وہ جانور آہستہ آہستہ ہماری طرف آ رہا تھا۔

جب وہ پوری طرح غار سے باہر آ گیا تو میں نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ بوبہو گرگٹ سے ملتا جلتا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ کہ گرگٹ تقریباً ایک فٹ لمبا ہوتا ہے اور یہ کوئی ساٹھ فٹ لمبا تھا۔ اسی لحاظ سے اس کی جسامت تھی۔ اس کا پیٹ اتنا بڑا تھا کہ ہم سب آسانی سے اس میں سما سکتے تھے۔ جب وہ اپنا منہ کھولتا تھا تو نچلے جبڑے سے اوپر کے بڑے تک اتنا فاصلہ نظر آتا تھا کہ جیک اس میں کھڑا ہوسکتا تھا۔ ایسے ہی اس کی دم تھی۔ لمبی اور نوکیلی آنکھیں سرخ اور لمبوتری تھیں۔ کھال کا رنگ سرخ تھا اور اس پر گول گول سی کالی چٹیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ہمیں دیکھ کر اس نے ایک چنگھاڑ ماری اور اپنی دو گز لمبی دو شاخی زبان بار بار باہر نکالنے لگا۔ جان نے جب یہ منظر دیکھا تو چلا کر بولا۔
"سب لوگ غار کے اندر جانے کی کوشش کریں۔"
"مگر جان صاحب اس طرف تو چمگادڑوں کا خطرہ ہے۔"امجد نے پوچھا۔
"امجد ٹھیک کہتے ہیں جناب۔۔ جیک نے کہا، کیوں کہ ہم پر گولی چلادیں؟"
"گولی اس پر شاید ہی کار گر ہو۔۔۔" جان نے شش و پنج کے عالم میں کہا۔

ابھی میں اس بات کا جواب دینا ہی چاہتا تھا کہ اس خوفناک جانور نے اپنا مونہہ جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھا کر ہمیں پکڑنا چاہا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے جلدی سے سب کو پیچھے دھکیل دیا اور پھر اپنی رائفل سے ایک گولی اس کے جسم پر داغ دی۔ مگر مجھے یہ دیکھ کربے حد حیرت ہوئی کہ گولی کھاکر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنا ایک پیر ہمیں کچلنے کے لئے آگے بڑھانے لگا۔ میں نے اور جان نے اس بار پھر گولیاں چلائیں مگر ایسا لگتا تھا کہ گولیاں کھاکر اسے شاید اور طیش آگیا۔ اور اس بار اس نے اپنا مونہہ آگے بڑھایا۔ نجمہ اور اختر نے زور کی چیخیں ماریں اور شاید ڈر کر تیزی سے اس غار کی طرف بھاگے جہاں سے نکل کر وہ خوفناک جانور آیا تھا ، ان دونوں نے اپنے بچاؤ کا یہی طریقہ مناسب سمجھا ہوگا۔ مگر جیسا کہ آپ دیکھیں گے اس سے الجھن اور بڑھ گئی۔ وہ قد آور گرگٹ کافی ہوشیار تھا۔اس نے جلدی سے اپنی دم غار کے دہانے پر رکھ دی اور یوں اندر جانے کا راستہ بند ہوگیا۔ اب حالت یہ تھی کہ اس کا مونہہ ہماری طرف تھا ، دم غار کے دہانے پر اور درمیان میں اختر و نجمہ۔ وہ دونوں گھبرا کر دیوار سے لگ کر کھڑے ہوگئے تھے اور ان کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا کریں؟

گرگٹ نے بہتر یہی سمجھا کہ ہمیں چھوڑ کر اختر اور نجمہ پر حملہ کردے۔ اس لئے وہ آہستہ آہستہ دائیں طرف مڑنے لگا۔ یہ حالت دیکھ کر ہم نے پھر گولیاں چلائیں مگر سب بے سود۔ نجمہ خوف کی وجہ سے چلا رہی تھی۔ گرگٹ خوفناک آوازیں نکالتا ہوا آہستہ آہستہ اس طرف مڑ رہا تھا۔ اس کی دم اب جھیل کے پانی میں ڈوبنے لگی تھی اور کسی بھی لمحہ وہ اب نجمہ پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ نجمہ کا نام میں نے یوں لیا ہے کہ بڑی بہن ہونے کی وجہ سے وہ اختر کے سامنے آگئی اور چاہتی تھی کہ اسے گرگٹ کے حملے سے محفوظ رکھے۔ بہن کی محبت اور پیار دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے پے در پے کئی گولیاں اس گرگٹ کی سخت کھال پر چلا دیں۔ مگر اس پر اثر کچھ بھی نہ ہوا۔ اس کے مڑتے مڑتے، سوامی، جیک اور امجد نے اپنے تیز اور لمبے چاقوؤں سے اس کے جسم کو چھید کر رکھ دیا۔ خون بھی نکلا مگر وہ ذرا بھی نہ ڈگمگایا۔
اب وہ نجمہ کے بالکل سامنے تھا اور تقریباً پانچ گز دور سے اسے گھور رہا تھا۔ نجمہ کا چہرہ پیلا پڑا ہوا تھا۔ خوف کی وجہ سے وہ لرز رہی تھی مگر اختر کو آگے نہ آنے دیتی تھی حالانکہ بے چارہ اختر اس کی کوشش بھی کررہا تھا۔

نجمہ کو کافی دیر تک گھورنے کے بعد، گرگٹ نے اپنی زبان دو تین مرتبہ باہر نکالی اور پھر اپنے جسم کو پیروں پر تول کر اپنا خوفناک مونہہ جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھانا چاہتا ہی تھا کہ ایک زبردست للکار کے ساتھ امجد دوڑتا ہوا اس کے مونہہ کے سامنے پہنچ گیا۔ میں نے حیرت اور خوف کے ساتھ دیکھا کہ امجد دونوں ہاتھوں سے ایک سوکھے سے درخت کا مضبوط سا تنا گھسیٹ رہا تھا۔ یہ تنا کافی بھاری تھا لیکن وہ جذبہ ہی ایسا تھا جس سے مجبور ہوکر امجد نے اتنا وزنی تنا زمین سے اکھاڑ لیا تھا اور پھر اسے گھسیٹتا ہوا نجمہ کے سامنے پہنچ گیا تھا۔۔ ہم نے اپنے چاقوؤں کے وار اور تیزی سے کرنے شرو ع کردئیے ۔ اپنے شکار کو سامنے کھڑا دیکھ کر گرگٹ نے ایک زوردار جھٹکے سے اپنا مونہہ آگے بڑھایا مگر امجد نے جلدی سے وہ تنا اس کے آگے کردیا۔ گرگٹ نے گھبراکر ا پنا مونہہ پیچھے کرلیا۔ ہم لوگ چاقوؤں سے برابر اپنا کام کررہے تھے اور جان بھی گولیاں چلا رہا تھا۔ لیکن ہم بڑی مشکل سے دوسری طرف کا حال دیکھ سکتے تھے۔گرگٹ کا جسم ایک دیوار بن کر ہمارے سامنے آگیا تھا۔ ہم نے اس کی پرواہ نہ کی کہ نجمہ اور امجدپر کیا بیت رہی یہ، ہم تو بس چاقوؤں سے لگاتار وار پر وار کئے جارہے تھے۔ گرگٹ نے ایک زبردست چنگھاڑ کے ساتھ امجد پر حملہ کیا اور اس بار اس نے امجد کو درخت کے تنے سمیت اپنے مونہہ میں اٹھا لیا۔
نجمہ کی چیخوں سے وہ مقام گونج اٹھا۔ ہم لوگ دوڑ کر آگے بڑھے تاکہ دیکھیں کیا مصیبت پیش آئی ہے۔۔۔ مجھے یقین تھا کہ گرگٹ امجد کے جسم کو چبا رہا ہوگا،نجمہ شاید اسی لئے چیخ رہی ہے ، مگر آگے بڑھ کر میں نے جوکچھ دیکھا وہ مجھے حیران کردینے کے لئے کافی تھا۔

میں نے دیکھا کہ امجد درخت کے تنے سے چمٹا ہوا ہے اور زور لگا کر وہ تنا اس نے گرگٹ کے مونہہ میں بالکل سیدھا کھڑا کردیا ہے تنے کی لمبائی امجد کے قد سے شاید دو فٹ زیادہ ہوگی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اب تک محفوظ تھا۔ درخت کا تنا ایک ستون کی طرح گرگٹ کے اوپر کے جبڑے سے نچلے جبڑے تک کھڑا ہوا تھا۔ امجد اسے اپنے ہاتھوں سے اور سیدھا کررہا تھا۔چونکہ اب گرگٹ کا مونہہ بند نہ ہوسکتا تھا اس لئے میں نے دیکھا کہ امجد باربار گرگٹ کے مونہہ کے لعاب سے پھسل جاتا تھا۔ وہ پھر بمشکل کھڑا ہوتا اور تنے کو مضبوطی سے اس کے دانتوں کے درمیان جمانے کی کوشش کرتا۔ گرگٹ نے جب یہ دیکھا کہ اس کا مونہہ بند نہیں ہوسکتا تو تکلیف کی وجہ سے وہ اپنے پاؤں پٹخنے لگا۔ یہ دیکھ کر نجمہ بری طرح چلانے لگی۔
"نیچے اتر جائیے۔۔۔ نیچے کود جائیے۔"

نجمہ کا کہنا مان کر امجدنے جلدی سے نیچے چھلانگ لگادی اور پھر اختر و نجمہ کو تقریباً گھسیٹتا ہوا ہماری طرف لے آیا۔ ہم نے گرگٹ کو بے بس دیکھ کر اس پر گولیاں چلانی شروع کردیں۔ اس مرتبہ ہم نے اس کے دما غ اور پیٹ کو نشانہ بنایا۔ ہم گولیاں چلاتے جاتے تھے اور سامنے والے غار کی طرف بڑھتے جاتے تھے۔ گولیاں کھاکر گرگٹ اور سست ہونے لگا۔ تکلیف کی وجہ سے وہ بلبلارہا تھا اور بار بار اپنی دم جھیل کے پانی پر مارتا تھا جس کے باعث جھیل کا پانی کافی اوپر تک اچھل جاتا تھا۔ غار میں آنے کے بعد ہم نے لگا تار کئی گولیاں چلا کر گرگٹ کو ختم کردیا۔ اس نے اپنی دم پٹخنی بند کردی اور اپنا سر زمین پر دے مارا۔ اس کا یہ حشر دیکھ کر ہم لوگ غار کے اندر تیزی سے بھاگنے لگے۔
بھاگتے جاتے تھے اور پیچھے مڑ کر دیکھتے جاتے تھے کہ کہیں وہ خوفناک گرگٹ ہمارا پیچھا تو نہیں کررہا ، مگر خدا کا شکر تھا کہ وہ کم بخت وہیں جھیل کے کنارے پڑا اپنا سر پٹخ رہا تھا اور غار نما سرنگ میں سے صرف اس کی آواز آرہی تھی۔

اس سرنگ سے نکل کر ہم جس جگہ پہنچے وہ سب سے عجیب تھی۔ یوں سمجھئے کہ پاتال کا ہر عجوبہ اور ہر چیز یہاں موجود تھی۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ اس مقام کی چھت سے جو مخروطی چٹانیں لٹکی ہوئی تھیں وہ ایک توبہت لمبی تھیں اور دوسرے نیچے سے سوئے کی طرح باریک۔ پوری جگہ عجیب عجیب رنگوں سے جگمگا رہی تھی۔ کہیں سرخ رنگ تھا کہیں پیلا اور کہیں فیروزی۔ جان نے مجھے بعد میں بتایا کہ یہ رنگ مختلف دھاتوں کے ہیں۔ ایسی دھاتوں اور ایسے ہیروں کے جو خو دبخود روشنی دیتے ہیں۔ ہال کے فرش پر نرالی قسم کے درخت اگے ہوئے تھے۔ ان میں وہ خونی درخت بھی تھا جس سے ہمیں بہت پہلے واسطہ پڑ چکا تھا اس لئے ہم اس درخت سے بچ بچ کر چل رہے تھے۔ کچھ ہی فاصلے پر ہمیں ایک چھوٹی سی آبشار نظر آئی جس کے کنارے پر مخمل جیسی گھاس اگی ہوئی تھی۔ہم لوگ اس گھاس پر جلدی بیٹھ گئے اور اپنی سانسوں کو قابو میں کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ جکاریوں والے گھنٹے کی آواز یہاں بہت تیز آرہی تھی۔ ہم سمجھ گئے تھے کہ جکاری اب ہم سے کچھ زیادہ دور نہیں ہیں۔

سوامی نے سب سے پہلے مولی کے مزے والی اس جڑ کو تلاش کرنا شروع کردیا۔ جو ہم خونی درخت والے ہال میں کھاچکے تھے۔ اس عرصے میں ہم سب آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتیں کرتے جاتے تھے اور ایک دوسرے کی مرہم پٹی بھی کرتے جاتے تھے۔ کیوں کہ اب تک اس کا پورا موقع نہیں ملا تھا کہ زخموں کو دھوئیں اور ان پر دوائیں لگائیں۔ نجمہ اور اختر کے جسموں پر مرہم لگاتے ہوئے میں نے کہا۔
"افوہ،، کتنا خوفناک گرگٹ تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی معجزہ ہی تھا کہ ہم اس کے چنگل سے بچ گئے۔"

"یقیناً ہمیں اسے معجزہ ہی سمجھنا چاہئے"۔ جان نے کہنا شروع کیا۔
"تم نے دیکھا نہیں کہ کتنی مصیبت کا وقت تھا۔ جس سرنگ سے نکل کر ہم اس جھیل کے قریب آئے تھے اس کا سوراخ بیشک چھوٹا تھا ، اور اگر ہم چاہتے تو واپس اسی سرنگ میں گھس کر گرگٹ کے حملے سے بچ سکتے تھے۔ مگر ایک تو کسی کو اس کا ہوس ہی نہ تھا، دوسرے سرنگ کے دوسری طرف خونی چمگادڑیں ہمارے انتظار میں پر پھڑ پھڑا رہی تھیں۔ ایک طرف کنواں تھا تو دوسری طرف کھائی اور پھر وہ وقت تو سب سے خطرناک تھا جب کہ گرگٹ نے سامنے والے غار کے مونہہ پر اپنی دم رکھ دی تھی اور نجمہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ لیکن میں اس موقع پر امجد کی بہادری کی تعریف جتنی بھی کروں کم ہے۔ اس نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر درخت کا وہ تنا گرگٹ کے حلق میں خوب پھنسایا۔"

"یقیناً یہ کام غیرمعمولی بہادری کا تھا" جیک نے بھی امجد کی تعریف کی۔
"بہادری کی تعریف تو اس وقت اچھی لگتی جب کہ ہم لوگ اس کالی دنیا میں نہ ہوتے جہاں قدم قدم پر موت اپنا بھیانک مونہہ کھولے ہماری راہ دیکھ رہی ہے۔" امجد نے اتنا کہہ کر نجمہ کو دیکھا اور پھر مسکراکر کہنے لگا۔
" اس میں بہادری کی کوئی بات نہیں ، نہ جانے اچانک کیوں میں نے ایسا کیا تھا؟"
سوامی جڑیں لے آیا تھا۔ ہم زخم صاف کر کے ان پر پٹیاں باندھ چکے تھے۔ اس لئے ہم تو ہم نے جڑیں کھائیں اور پھر سوچنے لگے کہ اب ہمارا اگلا قدم کیا ہو؟
نہ جانے کیا سوچ کر جان نے سوبیا کا ڈبہ نکالا۔ کچھ دیر تک اسے آبشار کے پانی میں ڈبوئے رکھا اور پھر اس کی تھوڑی سی مقدار ٹین کے ایک چھوٹے سے ڈبے میں نکال کر نجمہ کو دے دی۔ اور کہا،"لو بیٹی، احتیاطاً تم بھی تھوڑی سی سوبیا اپنے پاس رکھ لو۔ہوسکتا ہے کہ اس کی ضرورت پڑ جائے اور ہوسکتا ہے کہ نہ بھی پڑے۔ پھر بھی اس کا تمہارے پاس ہونا بہت ضروری ہے۔"
جان نے جب سوبیا کو ڈب میں الٹ رہا تھا۔تو میں نے پہلی بار اس عجیب و غریب دھات کو قریب سے دیکھا۔ وہ بالکل پارے جیسی تھی۔ پارے کا رنگ چاندی جیسا ہوتا ہے مگر سوبیا کا گہرا سرخ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے سیندور کو پارہ بناد یا ہے۔ کتنی عجیب دھات تھی یہ۔ ہم اسے ہاتھوں مین ؒئے بیٹھے تھے اور ہمارا کچھ نہ بگڑا تھا ، لیکن یہی دھات اگر جکاریوں یا زوکوں کے قریب رکھ دی جاتی تو وہ پکے آدم کی طرح زمین پر ٹپ ٹپ گر پڑتے۔

نجمہ نے اس ڈبے کو اپنے پاس رکھ لیا۔ اور اداسی سے ہر ایک کی صورت دیکھنے لگی۔ خدا کی قدرت دیکھئے کہ ہم سب کی زندگیوں کو بچانے والی ہستی اس کالی دنیا میں صرف نجمہ ہی تھی۔ اسی کی بدولت ہم بعد میں پیش آنے والے خطروں سے محفوظ رہ سکتے تھے۔ اسی کے پاس آفاقی ہار تھا اور اس ہار کی کرامتوں کے بارے میں آپ جانتے ہی ہیں۔ ہم مجبور تھے کہ نجمہ کے سہارے جئیں۔ ایک کمزور سی نوجوان لڑکی اب ہماری زندگیوں کی محافظ بنی ہوئی تھی۔ ہمیں ایک ہی مقام پر ٹک کر بیٹھنا تو تھا نہیں کہ وہیں ہری گھاس پر بیٹھے رہتے۔ گھنٹے کی آواز اب اتنی تیز آنے لگی تھی کہ اسے سن سن کر ہمیں اب اتنی وحشت ہونے لگی تھی کہ ہم چاہتے تھے جو کچھ بھی ہونا ہے وہ فوراً ہوجائے۔ اس لئے ہم نے فیصلہ کرلیا کہ اب تیزی سے ہمیں جکاریوں کی طرف چلنا چاہئے، یہ طے کرکے ہم اٹھے اور آگے چلنے کے لئے تیار ہوگئے۔

جیگا نے کالی دنیا میں آنے کے بعد جان کو یہ دھمکی دی تھی کہ اب اسے نجمہ کی حفاظت پہلے سے بھی زیادہ کرنی ہوگی۔ دیکھا جائے تویہ دھمکی غلط نہ تھی۔ خونی درخت ، خونخوار چمگادڑ اور اب اس گرگٹ سے نمٹنے کے بعد اس دھمکی کی اہمیت کا احساس ہوتا تھا۔ ہم نے آگے بڑھتے وقت نجمہ اور اختر کو اپنے بیچ میں لے لیا تاکہ اگر نجمہ پر کوئی آفت آنے والی ہو تو وہ پہلے ہم پر آئے۔ راستہ پھر دشوار ہونے لگا تھا۔ پاتال کی چھت سے لٹکی ہوئی نوکیلی اور گاؤ دمی چٹانیں اب زیادہ ملنے لگی تھیں۔ کبھی راستے میں بڑی سی چٹان آجاتی تو کبھی گہرا سا گڈھا۔ ہم لوگ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے۔ راستہ چوں کہ خراب ہوتا جارہا تھااس لئے ہم نے اب بقیہ مشعلیں بھی جلا لی تھیں۔ کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہی تھا کہ اس جگہ سے زندہ واپس جانا مشکل ہے۔ جب ہم ہی نہ ہوں گے تو بعد میں ان مشعلوں کو کون جلائے گا۔
مشعلوں کی روشنی ہر طرف پھیل گئی تو میں نے دیکھا کہ قوسِ قزح کے دل کش رنگ چاروں طرف بکھر گئے۔ یہ اتنا حسین منظر تھا کہ ایک لمحے کے لئے تو ہم اپنی اس وقت کی تکلیفیں اور مصیبتیں بھول کر اس میں محو ہوگئے۔ آبشار کے گرنے کا مدھم شور گھنٹے کی آواز کے ساتھ مل کر ایک عجیب سماں پیش کررہا تھا۔ چھت سے لٹکتی ہوئی چٹانیں یا تو سنگ مرمر کی تھیں، یا شور کی تھیں یا پھر نمک کی۔ کیونکہ مختلف رنگ کی روشنیاں ان چٹانوں میں سے گزر کر آرہی تھیں۔ اور یوں لگتا تھا جیسے قدرت نے رنگ برنگے فانوس چھت میں لٹکا دئیے ہوں۔ یہ منظر اتنا دل کش تھا کہ جب تک میں زندہ ہوں اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:17

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں