464 سالہ بابری مسجد کا 107 سالہ قضیہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-04

464 سالہ بابری مسجد کا 107 سالہ قضیہ

case of demolition of the Babri Masjid

(پہلی قسط) : سازش میں تو تم بھی شریک تھے
بابری مسجد کے قضیہ پر پچھلے 70 برسوں میں اور خاص طورپر آخری 34 برسوں میں جتنا لکھا گیا ہے اتنا شاید ہی آزاد ہندوستان میں کسی اور موضوع پر لکھا گیا ہو۔۔ شمالی ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے قصبہ ایودھیا میں 1528میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد 464 سال تک قائم رہی لیکن اب اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔۔ اب وہاں حکومت ہند کی فعال شمولیت کے ساتھ رام مندر کی تعمیر شروع ہوگئی ہے۔۔اس مندر کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2020 کو خود رکھا تھا۔شاید یہ اس کا جواب تھا کہ جس طرح 1528 میں شہنشاہ بابر (کے کمانڈر میر باقی) نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی تھی اسی طرح ٹھیک 492 سال بعد 2020 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔۔
لیکن یہاں ایک بڑا فرق ہے۔۔ یہ فرق ہمیشہ تاریخ کے صفحات میں درج رہے گا اور آنے والی نسلیں یہ جانتی رہیں گی کہ شہنشاہ بابر نے 1528میں جو مسجد بنائی تھی اس کے کسی مندر کو توڑ کر بنانے کا کوئی ثبوت سپریم کورٹ تک کو نہیں ملا تھا۔۔ جبکہ نریندر مودی نے جس رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا وہ یقینی طور پر ایک مسجد کو توڑ کر بنایا گیا تھا۔۔ یہ مسجد 6 دسمبر 1992 کو دن کے اجالے میں بی جے پی‘بجرنگ دل‘وی ایچ پی اور شو سینا کے ہزاروں کارسیوکوں نے منہدم کردی تھی۔۔ اس موقع پر بی جے پی کے تین درجن سے زائد ممتاز لیڈر بھی وہاں موجود تھے اور کارسیوکوں کو جوش دلا رہے تھے۔ان میں رام مندر تحریک کے سرخیل لال کرشن اڈوانی‘مرلی منوہر جوشی‘اوما بھارتی‘اشوک سنگھل‘ ونے کٹیار اور وشنو ہری ڈالمیا بھی شامل تھے۔
تاریخ یہ بھی یاد دلاتی رہے گی کہ جس طرح مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہ ملنے کے باوجود اور بابری مسجد کی زمین کی ملکیت ہندؤں کے حق میں ثابت نہ ہونے کے باوجود ملک کی سب سے اعلی عدالت سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کو رام مندر کی تعمیر کے لئے ہندؤں کے حوالہ کردیا تھا اسی طرح مسجد کے انہدام کے 28سال بعد 2020 میں لکھنؤ میں سی بی آئی کی اسپیشل عدالت نے مذکورہ تمام ملزمین کو (اور تاریخ کی نظر میں مجرمین کو) سازش اور انہدام کے ہر الزام سے بری کردیاتھا۔۔ واقعہ یہ ہے کہ بابری مسجد کے ساتھ ناانصافی کے عمل میں فیض آباد اور لکھنؤ کی مقامی عدالتوں کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بھی برابر شامل رہی۔ اس ضمن میں الہ آبادہائی کورٹ کو قدرے مستثنی رکھا جاسکتا ہے۔تاریخ بتائے گی کہ مقامی عدالتوں اور سپریم کورٹ سے ہزار درجہ بہتر فیصلہ تو الہ آباد ہائی کورٹ نے ہی کردیا تھا۔اس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔لیکن اس نکتہ پرمورخ یہ سوال بھی اٹھائے گا کہ (گوکہ خود ہندو فریق بھی اس فیصلہ سے مطمئن نہیں تھا) حکومتوں‘عدالتوں اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی شرپسندی سے واقف ہوجانے کے باوجود بابری مسجد کا فریق کیوں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر اکتفا نہ کرسکا۔۔

آئیے اب ذرا دوسری طرف رخ کرتے ہیں۔ ہندوستان میں اس وقت (2020 میں) سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نوجوانوں کی آبادی 34.33 فیصد ہے۔ظاہر ہے کہ اس وقت جن کی عمریں 30 تا 35 برس ہیں انہیں بھی بابری مسجد کے قضیہ اوراس کے انہدام کا کچھ زیادہ اندازہ نہیں ہوگا۔پھر 1992میں الیکٹرانک میڈیا بھی اس پیمانہ کا نہیں تھا۔ذرائع ابلاغ بھی وسیع تر نہیں تھے۔زیر نظر مضمون کی دوسری قسط میں لکھنؤ کی عدالت کے تازہ فیصلہ کا بھی جائزہ لیا جائے گا لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصر ہی سہی دور حاضر کی نسلوں کے لئے ایک سلسلہ وارٹائم لائن بیان کردی جائے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا بابری مسجد کی تعمیر شہنشاہ بابر کے کمانڈر میر باقی نے 1528میں کی تھی۔اس مسجد میں 421 سال تک باجماعت نماز ادا ہوتی رہی۔۔ تین صدیوں کے بعد سخت گیر عناصر نے مسجد کے خلاف سازش شروع کردی لیکن پہلی معلوم سازش 1885میں رونما ہوئی۔ مسجد کی تعمیر کے 357 برس بعد مہنت رگھوبیر داس نے فیض آباد کی ضلع عدالت میں ایک درخواست دائر کی اوربابری مسجد کے احاطہ کے باہر ایک سائبان (Canopy) بنانے کی اجازت مانگی۔لیکن ضلع عدالت نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔1885میں ہندوستان کے انتظام وانصرام پر مکمل طورپر انگریزوں کا قبضہ تھا۔عدالت کے ذریعہ ہندؤں کی درخواست کو مسترد کرنے کی وجہ لازمی طورپر قانونی استدلال کی کمی تھی۔عدالت کوہندؤں کا کوئی مالکانہ حق نہ بابری مسجد پر نظر آیا ہوگا اور نہ ہی اس کے باہر کے حصہ پر۔۔

انگریزوں پر ہندو مسلم آبادی کو آپس میں لڑانے کا الزام لگتا رہا ہے۔۔لیکن یہاں انگریزوں نے اس موقع کو استعمال نہیں کیا اور ہندؤں کے دعوے کو بے بنیاد پاکر اس درخواست کو مسترد کردیا۔مسجد کے احاطے کے باہر سائبان کی تعمیر کی درخواست یقینی طوپر ایک سازش کے تحت ہی کی گئی تھی لیکن انگریزوں نے سازش کے اس موقع کا استعمال نہیں کیا۔اس سازش کے 64 سال کے بعد اور ملک کی آزادی کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد ہندؤں نے پھر ایک بڑی سازش کی اور 23 دسمبر 1949 کی شب 50-60 لوگوں نے بابری مسجد کی دیوار پھاند کر مرکزی محراب میں رام کی مورتی رکھ دی۔اس سے پہلے اکھل بھارتیہ راماین مہاسبھا نے بابری مسجد کے باہر 9 دنوں تک بغیر کسی وقفہ کے راماین کا پاٹھ پڑھنے کا پروگرام منعقد کیا اور آخری دن وہ حرکت انجام دیدی۔بالکل اسی طرح جس طرح 43 سال بعد 1992 میں پہلے علامتی کارسیوا کے نام پر ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور پھربابری مسجد کو منہدم کردیا۔۔

چوری چھپے مورتی رکھنے کے چند ہفتوں بعد 1950 کے اوائل میں فیض آباد کی عدالت میں دو درخواستیں دائر کی گئیں۔گوپال سملا وشارد نے بابری مسجد کے اندر چوری سے رکھی اس مورتی کی پوجا کرنے کی اجازت مانگی جبکہ پرم ہنس رام چندر داس نے پوجا کے تسلسل اور مورتی کو نہ ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا۔۔اس کے 9 سال بعد نرموہی اکھاڑا نے بابری مسجد کو اس کے حوالہ کئے جانے کیلئے درخواست دائر کی۔۔
23 دسمبر 1949 کو بابری مسجد میں آخری بار عشاء کی نماز باجماعت ادا ہوئی تھی۔اس کے بعد پھر اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی جاسکی۔اور پھر 43 سال بعد اس کی شہادت واقع ہوگئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 1885سے 1992تک یعنی کل 107سال تک سازش کے علاوہ بھی کچھ ہوا؟
1961 میں یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ نے بابری مسجد کو اس کے حوالہ کئے جانے کی درخواست عدالت میں دائر کی۔
درخواست گزار کے طور پر ہاشم انصاری پیش ہوئے ۔۔۔۔ فیض آباد کی ضلع عدالت میں یہ مقدمہ 36 سال تک چلتا رہا اور فروری 1986میں اچانک عدالت نے بابری مسجد کا تالہ کھول کر اسے پرستش کے لئے ہندؤں کے حوالہ کئے جانے کا فیصلہ کردیا۔۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح غلام ہندوستان میں 1885میں انگریزوں کے تسلط کے دوران اسی فیض آباد کی عدالت نے ہندو فریقوں کی عیاری پر مبنی دائر درخواستوں کو مسترد کرکے ایک بڑی سازش کو ناکام بنادیا 1950سے 1986 تک آزاد ہندوستان میں (کانگریس حکومت کے دوران) فیض آباد کی اسی عدالت نے کیوں معاملہ کو اتنا طول دیا اور کیوں آخر کار اس سازش کو کامیاب کردیا۔۔
اس سوال کا جواب شاید اس سوال کے اندر پوشیدہ مل جائے کہ 23 دسمبر 1949 کی شب چوری چھپے مورتیاں رکھنے ہی کیوں دی گئیں اور جب وہاں پچھلے نو دنوں سے سخت گیر ہندؤں کا راماین پاٹھ پروگرام چل رہا تھا تو انتظامیہ اور حکومت نے حفظ ماتقدم کے تحت کوئی سخت انتظام کیوں نہیں کیا؟۔۔۔
اسی سے وابستہ سوال یہ ہے کہ جب 1528 سے 1949 تک وہاں نماز باجماعت ادا ہو رہی تھی تو انتظامیہ اور حکومت نے چوری چھپے مورتیاں رکھنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی؟ کیوں مسجد میں تالہ لگایا گیا اور کیوں مسلمانوں کو وہاں نماز پڑھنے سے محروم کیا گیا؟چوری چھپے مورتی رکھنا ایک مجرمانہ عمل تھا لیکن اس مجرمانہ عمل کو جاری رکھنا حکومت کا اس سے بڑا مجرمانہ عمل تھا۔۔ کیا اس عمل میں کانگریس کے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی شمولیت نہیں تھی؟
بہر حال فروری 1986میں مقامی عدالت کا فیصلہ آتے ہی مسجد کا تالہ کھول دیا گیا۔اس وقت یوپی میں کانگریس کے ویر بہادر سنگھ وزیر اعلی تھے جبکہ ملک کے وزیر اعظم راجیو گاندھی تھے۔آخر اس فیصلہ کے خلاف فوری طورپر حکومت کیوں ہائی کورٹ نہیں گئی؟ کیوں ہنگامی حکم کی درخواست نہیں کی گئی؟
اس کے بر خلاف سرکاری ٹیلیویزن دور درشن پر اس فیصلہ کی خوب تشہیر کی گئی اور وہاں ہندؤں کو پوجا کیلئے ساری آسانیاں فراہم کی گئیں۔۔پورے ملک سے ہندوؤں نے وہاں جانا شروع کردیا۔اگست 1989 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کا حکم دیا۔۔ یعنی مسلمان بابری مسجد سے دور رہیں اور ہندو بدستور پوجا کرتے رہیں۔۔۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بابری مسجد کا تالہ کھلنے کے بعد مسلمانوں کی طرف سے سیاسی اقدام کی تحریک مرکزی طور پر دہلی سے شروع ہوئی۔اس تحریک میں چند نام بہت بڑے تھے۔مثال کے طورپر سید شہاب الدین‘شاہی امام عبداللہ بخاری‘ابراہیم سلیمان سیٹھ‘غلام محمود بنات والا اورسلطان صلاح الدین وغیرہ۔۔۔ اس کے علاوہ دوسری سطح کے مسلم لیڈر بھی اس تحریک سے وابستہ ہوئے۔ان میں ظفر یاب جیلانی‘قاسم رسول الیاس‘جاوید حبیب وغیرہ تھے۔ لیکن دوسری جانب تالہ کھلنے‘پوجا شروع ہونے اور ہائی کورٹ سے "اسٹیٹس کو" کے حکم کے باوجود بی جے پی نے اس تحریک کو مزید آگے بڑھایا۔

راجیو گاندھی کے خلاف ان کی جماعت کے وشوناتھ پرتاپ سنگھ جب الگ ہوکر سیاسی میدان میں آئے تو ان کے ساتھ اتحاد میں شامل ایک طرف جہاں بایاں محاذ تھا وہیں بی جے پی بھی تھی۔... بی جے پی کے پاس اس وقت تک لوک سبھا میں صرف دو سیٹیں (اٹل بہاری باجپائی اور ایل کے اڈوانی کی) ہوا کرتی تھیں۔لیکن وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی عنایت اور رام مندر تحریک کے سبب بی جے پی دوسے 88 سیٹوں تک پہنچ گئی۔ اڈوانی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے مطالبہ کو لے کر 25 ستمبر 1990 کو سومنات سے رتھ یاترا لے کر نکلے اور پھر جہاں جہاں گئے فسادات کی ایک خونی لکیر چھوڑتے چلے گئے۔۔ وہ ایک دن میں 300 کلو میٹر کا سفر کرتے اور کم سے کم 6 جلسوں کو خطاب کرتے۔۔ اس رتھ کو صرف بہار میں جاکر بریک لگا جب اس وقت کے وزیر اعلی لالو پرساد یادو نے اڈوانی کو سمستی پور میں گرفتار کرکے دہلی واپس بھیج دیا۔۔۔
ادھر مسلمانوں کی تحریک بھی عروج پر تھی۔شاید آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دہلی کے بوٹ کلب پر لاکھوں مسلمان پہلی بار جمع ہوگئے تھے۔لیکن اسٹیج پر مسلم قائدین ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوگئے اور مسلمانوں کی بنی بنائی ہوا اکھڑ گئی۔۔۔سید شہاب الدین اور شاہی امام دونوں اپنی گرم طبیعت کو اعتدال میں نہ رکھ سکے۔۔۔ اڈوانی کی تحریک بڑھتی چلی گئی اور ان کے ساتھ کئی سخت گیر تنظیمیں بھی جڑ گئیں۔۔۔

اکتوبر 1990 میں سخت گیر کار سیوکوں نے بابری مسجد پر چڑھ کر اسے منہدم کرنے کی کوشش کی۔لیکن اس وقت یوپی میں ملائم سنگھ کی حکومت تھی۔پولس نے گنبد پر چڑھے ہوئے کارسیوکوں پر گولی چلائی اور ایک درجن سے زائد ہلاک ہوگئے ۔۔ اس کے بعد 1991 کے الیکشن میں بی جے پی حکومت میں آگئی‘ کلیان سنگھ یوپی کے وزیر اعلی بنے اورشرپسندوں کی بہار آگئی۔۔1992 میں مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی لیکن وہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت کو بابری مسجد کے خلاف منصوبے کو آگے بڑھانے سے روکنے میں ناکام رہی۔اسوقت وزیر اعظم نرسمہاراؤ تھے۔۔ رام مندر کی تحریک اب نکتہ ارتکاز (Saturation point) پر تھی۔۔۔

دسمبر 1992 میں ایودھیا میں ہزاروں کارسیوکوں کو جمع کرکے پھر کارسیوا کا پروگرام بنایا گیا۔نرسمہاراؤ کو اپوزیشن سمیت خود ان کی پارٹی کے لوگوں نے بھی متنبہ کیا۔ یہاں تک کہ قومی یکجہتی کونسل National Integration Council کی میٹنگ میں نرسمہاراؤ سے کہا گیا کہ وہ یوپی حکومت کو برخاست کردیں کیونکہ انٹلی جنس رپورٹوں کے مطابق بھی شرپسندوں کے عزائم اچھے نہیں ہیں اور یوپی حکومت فعالیت کے ساتھ انہیں راہ دے رہی ہے۔۔۔اسی دوران معاملہ سپریم کورٹ میں گیا اور بی جے پی/وی ایچ پی کی کارسیوا کو روکنے کی گزارش کی گئی۔عدالت نے تمام تر اندیشوں کے باوجود یوپی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ کے اس حلف نامہ پر یقین کرکے محدود کارسیوا کی اجازت دیدی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ محض علامتی کارسیوا ہوگی اور حکومت مسجد کو کوئی گزند نہ پہنچنے دے گی۔۔۔

ادھر قومی یکجہتی کونسل نے نرسمہا راؤ سے کہا کہ وہ بابری مسجد کے تحفظ کے لئے اقدامات کریں اور یوپی حکومت پر بھروسہ نہ کریں۔نرسمہاراؤ نے کہا کہ ہنگامی حالات سے نپٹنے کیلئے ہماری تیاری پوری ہے اور پیرا ملٹری فورسز پوری طرح تیار ہیں۔ 5دسمبر 1992 کو لکھنؤ میں ونے کٹیار کے گھر پر بی جے پی لیڈروں کی میٹنگ ہوئی جس میں (سی بی آئی کی چارج شیٹ کے مطابق) یوپی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تعمیر پر پابندی لگائی ہے توڑ پھوڑ پر نہیں۔۔۔ 6دسمبر کو صبح سے ہی ان تمام لیڈروں نے مائک پر نفرت انگیز تقریریں کرنی شروع کردی تھیں اور کارسیوکوں کا حوصلہ بڑھایا جارہا تھا۔۔
آخر کار کارسیوک مسجد کے گنبدوں پر چڑھ گئے اور کدالوں سے توڑنے لگے۔۔بعد میں رسیاں باندھ کر گنبدوں کو گرادیا گیا۔چند گھنٹوں میں ہی 464 سال پرانی مسجد کو زمیں بوس کردیا گیا۔اور وہاں رام للا کو بٹھاکر میک شفٹ (عارضی مندر) بنادیا گیا۔۔۔ اسی رات وہاں بھجن کیرتن بھی شروع کردیا گیا۔۔۔
پورا ملک دیکھتا رہا۔۔۔حکومت دیکھتی رہی۔۔۔وزیر اعظم دیکھتے رہے۔۔۔۔اور سپریم کورٹ بھی دیکھتا رہا۔۔۔ تمام وعدے اور حلف نامے دھرے کے دھرے رہ گئے۔۔۔ اپوزیشن سمیت متعدد لیڈر اور مسلم قائدین چیختے رہے لیکن پہلے گنبد کی شہادت سے آخری اینٹ کے گرنے تک نرسمہاراؤ خاموشی سے دیکھتے رہے۔۔ وہ چاہتے تو سریع الحرکت کارروائی کرکے ٹوٹی پھوٹی بابری مسجد کو بکھرنے سے بچاسکتے تھے۔۔ان کی بھیجی ہوئی فورس کوئی زیادہ دور نہیں تھی۔۔۔لیکن انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی اور بابری مسجد کو مکمل طور پر شہید ہوجانے دیا۔۔۔

میرا موقف یہ ہے کہ بابری مسجد کے خلاف سازش تیار کرنے میں ایک طرف جہاں ہندو جماعتوں سے لے کر بی جے پی تک سرگرم عمل تھی وہیں پنڈت جواہر لعل نہرو‘راجیو گاندھی اور نرسمہاراؤ بھی اس سازش کا متحرک حصہ نہ سہی تو خاموش حصہ ضرور تھے۔

(دوسری قسط) : ظلم و نا انصافی کے 28 سال
6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے دہشت گردانہ انہدام کے بعد ایک طرف جہاں مسلمان صدمہ میں تھے وہیں دوسری طرف بی جے پی اور اسی قبیل کی دوسری شرپسند جماعتوں نے خوشیاں منائیں اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔۔ان شرپسند جماعتوں سے وابستہ کارسیوکوں نے مختلف اخبارات کے صحافیوں کو جو بیانات اور انٹرویو دئے تھے ان میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے اپنے لیڈروں کے جوش دلانے پر بابری مسجد کو ڈھاکر "غلامی کے کلنک" کو مٹادیا ہے۔۔
تیسری طرف کانگریس پارٹی میں ایک طبقہ نرسمہاراؤ کے خلاف غصہ میں تھا۔۔ نرسمہاراؤ نے، اس وقت ٹی وی پر آکر قوم سے خطاب کیا جب سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔۔انہوں نے یوپی کی بی جے پی حکومت پر حلف شکنی کا الزام لگایا اور اعلان کیا کہ بابری مسجد کو اسی جگہ از سر نو تعمیرکیا جائے گا۔۔

یہاں یہ بتانا بہت اہم ہوگا کہ کانگریس میں اس وقت کئی مسلم قائد موجود تھے۔۔ان میں سے کچھ تو وزیر بھی تھے۔۔ غلام نبی آزاد‘احمد پٹیل اور سی کے جعفر شریف چند بڑے نام تھے۔۔ موخرالذکر اب زندہ نہیں ہیں لیکن جب دوسری صف کے مسلم قائدین ان سب کے ساتھ اکٹھے ہوکر نرسمہا راؤ سے ملنے گئے تو ان کا ارادہ استعفی دینے کا تھا۔۔سی کے جعفر شریف تو جیب میں استعفی رکھ کر لے گئے تھے۔۔ان لیڈروں کے ساتھ ہفت روزہ نئی دنیاکے ایڈیٹر اور مشہور صحافی شاہد صدیقی بھی تھے۔۔ وہ بھی بہت غصہ میں تھے۔۔اور بقول ان کے انہوں نے نرسمہاراؤ کو بہت سخت سست کہا بھی تھا۔۔ والله اعلم بالصواب۔۔۔ لیکن یہ مسلم لیڈرجب راؤ کے دربار میں پہنچے تو سب کا غصہ ٹھنڈا ہوچکا تھا اور کسی نے اپنی جیب سے استعفی نہیں نکالا۔۔

شرپسندوں کے حوصلے بلند تھے اور اب وہ نعرے لگارہے تھے کہ اب متھرا اور کاشی کی باری ہے۔۔ نرسمہاراؤ پراپوزیشن کا مسلسل دباؤ بڑھ رہا تھا۔۔انہوں نے بہر حال پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کرالیا جس کی رو سے 15اگست 1947 کو جس عبادتگاہ کی جو پوزیشن تھی اس کو بدلنا ممنوع قرار دیدیا گیا۔۔اس ایکٹ کو عرف عام میں عبادتگاہوں کے تحفظ کا قانون کہتے ہیں۔۔ لیکن بابری مسجد کے قضیہ کو اس ایکٹ کے نفاذ سے باہر رکھا گیا۔۔کہا یہ گیا کہ چونکہ اس کا معاملہ عدالتوں میں ہے اور وہ انتہائی متنازعہ ہوچکا ہے اس لئے اسے اس ایکٹ سے الگ رکھا گیاہے۔۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ پھر نرسمہاراؤ نے ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے 6 دسمبر 1992 کی شام ٹی وی پر یہ وعدہ کیوں کیا تھا کہ بابری مسجد کو اسی جگہ از سر نو تعمیر کیا جائے گا؟

مسلمان چونکہ غصہ اور صدمہ میں تھے اور دوسری طرف خوشیاں منائی جارہی تھیں اس لئے انہوں نے جہاں جہاں بن پڑا احتجاج کیا۔۔لیکن ان کا احتجاج کرنا بھی شرپسندوں اور بی جے پی کو گوارا نہ ہوا۔۔ان پر حملے کئے گئے اور مابعد انہدام ملک بھر میں جو فسادات پھوٹے ان میں دو ہزار کے آس پاس بے گناہ جاں بحق ہوگئے۔۔فیض آباد میں بی جے پی کے ایک مسلم لیڈر تک کو نہیں بخشا گیا اوراس کی داڑھی نوچ کر خود اسے آگ کے حوالہ کردیا گیا۔۔
اس نے دہائی دی کہ وہ بی جے پی میں ہے لیکن شرپسندوں نے کہا کہ مسلمان تو ہے اس لئے تجھے چھوڑ نے کا کوئی مطلب نہیں۔۔ یہ تمام معلومات اس وقت کے مختلف اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔۔ دنیا بھر سے انٹر نیشنل میڈیا نے بھی اس موقع پر کوریج کی اور پوری دنیا میں بابری مسجد کے انہدام اور مابعد مسلم کش فسادات پر غصہ کا اظہار کیا گیا۔۔شرپسندوں نے بہت سے صحافیوں پر بھی حملے کئے۔۔
شر پسندوں کے حوصلے بڑھتے چلے گئے اور مسلمان سر اٹھاکر چلنے سے گھبرانے لگے۔۔

پورا دسمبر اسی میں گزرگیا۔جنوری 1993 میں بھی حالات سنور نہ سکے۔۔ممبئی، مالیگاؤں اور بھیونڈی جیسے مقامات بھی فسادات اور فرقہ وارانہ کشمکش سے بہت متاثر ہوئے۔۔ ممبئی میں جنوری 1993میں لگاتار ایک سے زائد بم دھماکے ہوئے اور اسٹاک ایکسچینج کی بلڈنگ سمیت کئی مقامات کو سخت نقصان پہنچا۔۔257 لوگ جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔۔ نہیں معلوم کہ یہ بم دھماکے کس نے کئے تھے۔۔ لیکن پولس اور حکومت کا یہی کہنا تھا کہ یہ بم دھماکے داؤد ابراہیم نے کئے تھے۔۔اس ضمن میں اس کے خاندان کے کئی افراد کو سزا بھی ہوئی۔۔ لیکن یہ بھی ہوا کہ اس کے بعد شرپسندوں کے حوصلے بھی ٹوٹ گئے اور مسلمان خوف ودہشت کے سائے سے باہرآئے۔۔

ادھر انہدام سے پہلے سپریم کورٹ نے جس اسٹیٹس کو (صورتحال کا جوں کا توں رکھنے) کا حکم دیا تھا ہرچند کہ اس میں ہمالیائی تبدیلی آگئی تھی اور بابری مسجد کی جگہ اب مٹی کا ڈھیر اور اس پر رام کی مورتی تھی۔۔اس کی پوجا بھی شروع کردی گئی تھی اور درشن بھی جاری تھے۔۔لیکن مسلمانوں کے لئے اب بھی "اسٹیٹس کو" ہی تھا۔۔الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی انہدام کے بعدایک اور ’اسٹیٹس کو‘ لگادیا تھا۔۔ یعنی مسلمان اب بابری مسجد کے ملبہ کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتے تھے۔۔اب وہاں پوری طرح شرپسندوں کا قبضہ تھا۔۔ ملک بھر میں جو فسادات ہوئے تھے ان میں بھی نقصان انہی کا ہوا تھا۔۔ اب وہ ہرطرف سے اور ہر طرح سے ٹوٹ چکے تھے۔۔ یہ فہم سے بالاتر ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہوئی تھی اور یوپی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے عدالت میں دئے گئے حلف نامہ کی دھجیاں اڑائی تھیں توصورت حال کو درست کرنے کیلئے مرکز ی حکومت کے ہاتھ کس نے پکڑ رکھے تھے۔۔

نرسمہاراؤ سے تمام اپوزیشن پارٹیاں جو مطالبہ 6 دسمبر 1992 سے پہلے کر رہی تھیں اس پر بابری مسجد کے انہدام کے بعد عمل کیاگیا۔۔ راؤ نے یوپی کی حکومت کے ساتھ ہی راجستھان اور مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومتوں کو بھی برخاست کردیا۔۔ اس کا کوئی فائدہ نہ ہونا تھا نہ ہوا۔۔ابھی راؤ کے پاس پورے چار سال تھے۔۔مگر راؤ نے بابری مسجد کی از سر نوتعمیر کیلئے کچھ نہیں کیا۔۔ 1996 میں جب لوک سبھا انتخابات ہوئے تو نرسمہاراؤ نے پوری طاقت جھونک دی اور مسلم مذہبی قائدین کو خریدنے کیلئے تجوریوں کے دہانے کھول دئے۔۔چونکہ عام مسلمان ان سے سخت ناراض تھے لہذا انہوں نے بعض نام نہاد مسلم قائدین کی خدمات حاصل کیں اور انہیں اس کا ’نذرانہ‘ بھی دیا گیا۔۔ کیا بریلوی، کیا دیوبندی سبھی کو خریدنے کیلئے اپنے قاصد دوڑائے۔۔لیکن مسلمانوں کی ناراضگی میں کمی نہیں آئی اور نرسمہاراؤ کا دوبارہ وزیر اعظم بننے کا خواب بھی بابری مسجد کی طرح منہدم ہوگیا۔۔ کہتے ہیں کہ نرسمہاراؤ سے کانگریس قیادت خاصی ناراض رہی اور وہ کانگریس میں شجر ممنوعہ بن گئے۔۔ سونیا گاندھی نے قیادت سنبھالی اور راؤ نواز لوگوں کو حاشیہ پر لگادیا۔۔ 1996 میں حکومت بی جے پی کی بن گئی اور اٹل بہاری باجپائی وزیر اعظم بن گئے۔۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نرسمہاراؤ نے جن نام نہاد مسلم قائدین اور دانشوروں کو خرید کر ان کی خدمات حاصل کی تھیں 1997 میں ان قائدین اور دانشوروں نے اٹل بہاری باجپائی کیلئے کام کیا۔۔

اب آئیے ایک بار پھر دسمبر 1992میں لوٹتے ہیں۔۔ بابری مسجد کے مجرمانہ اور دہشت گردانہ انہدام کے بعد یوپی پولیس نے دو ایف آئی آر درج کیں۔۔ پہلی ایف آئی آر (نمبر197-92) لاکھوں نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف درج کی گئی۔۔ دوسری ایف آئی آر (نمبر 198-92) بی جے پی کے چند بڑے لیڈروں کے خلاف درج کی گئی۔۔ان میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، اشوک سنگھل، ونے کٹیار اور وشنو ہری ڈالمیا وغیرہ شامل تھے۔ اس کے علاوہ 47 ایف آئی آر مزید درج کی گئیں جن میں صحافیوں پر حملے سے متعلق شکایات تھیں۔۔

اسی کے ساتھ 16دسمبر 1993کو مرکزی وزارت داخلہ نے ریٹائرڈ جسٹس من موہن سنگھ لبراہن کی سربراہی میں ایک کمیشن آف انکوائری بھی قائم کردیا۔اس کمیشن کو لبراہن کمیشن کے نام سے جانا گیا۔بنیادی طورپراس کمیشن کو ان تمام سلسلہ وار واقعات کی تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ تین مہینے کے اندر پیش کرنی تھی جوبابری مسجد کے انہدام کا سبب بنے۔۔اس کی تحقیقات کے لئے 6 نکات قائم کئے گئے تھے جن کی رو سے کمیشن کو یہ بھی تفتیش کرنی تھی کہ انہدام میں حکومت یوپی اور اس کے وزیروں اور افسروں کا کیا کردار رہا، سیکیورٹی میں کہاں کمی رہی اور مختلف تنظیموں کا کیا کردار رہا۔۔اسی طرح میڈیا پر حملوں کی بھی تفتیش اسی کمیشن کو کرنی تھی۔۔ ہم اس کمیشن کی تفصیلی رپورٹ پر تیسری قسط میں روشنی ڈالیں گے۔۔ لیکن اتنا جاننا اہم ہوگا کہ جس کمیشن کو محض تین مہینے کے لئے بنایا گیا تھا اس نے رپورٹ تیار کرنے میں 17سال لگادئے۔۔ کمیشن کو 48 مرتبہ ایکسٹنشن دیا گیا۔۔یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ بات تھی۔۔

بابری مسجد اب موجود نہیں تھی۔۔لیکن یوپی حکومت کی سازش کا ایک نیا رخ سامنے آیا۔۔ نامعلوم لاکھوں کارسیوکوں کے خلاف درج ایف آئی آر تو سی بی آئی کو سونپی گئی جو مرکز کے تحت آتی ہے۔لیکن بی جے پی کے بڑے لیڈروں کے خلاف درج دوسری ایف آئی آر کو یوپی کی مقامی انٹلی جنس یونٹ سی آئی ڈی کے سپرد کیا گیا۔پھر 27 اگست 1993 کو تمام معاملات سی بی آئی کے سپرد کردئے گئے۔اس وقت یوپی میں صدر راج نافذ تھا۔اکتوبر 1993 میں سی بی آئی نے اڈوانی اور دوسروں کو سازش کا ملزم مانتے ہوئے چارج شیٹ داخل کردی۔۔

حیرت انگیز طورپر سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ نے مئی 2001 میں بی جے پی کے ان تمام لیڈروں کے خلاف جاری کارروائی کو ختم کردیا۔۔سی بی آئی کو اس کے خلاف اپیل کرنے میں تین سال لگے اور اس نے نومبر 2004 میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بی جے پی لیڈروں کے خلاف کارروائی کو ختم کرنے کے خلاف اپیل دائر کی۔۔اس پر مزید حیرت انگیز طور پر ہائی کورٹ نے 6سال لگائے اورمئی 2010 میں سی بی آئی کی اس اپیل کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ اس میں کوئی دم نہیں ہے۔۔ فروری 2011 میں سی بی آئی نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔۔اس پر سپریم کورٹ نے بھی 6 سال لگادئے اور مارچ 2017 میں اڈوانی وغیرہ کے خلاف سازش کے الزامات کو برقرار رکھنے اور اڈوانی وغیرہ اور کارسیوکوں کے خلاف جاری الگ الگ مقدمات کویکجا کرنے کے احکامات دیدئے۔۔

ادھر 1986 میں مقامی عدالت کے ذریعہ بابری مسجد کا تالہ کھولنے کے حکم کے خلاف جو اسٹیٹس کو الہ آباد ہائی کورٹ نے لگایا تھا اس میں ٹائٹل سوٹ (یعنی بابری مسجد کس کی ملکیت کی زمین پر بنی ہے) کا مقدمہ بھی چل رہا تھا۔اس مقدمہ کا فیصلہ 24 سال بعدستمبر 2010 میں آیا۔تین رکنی بنچ نے 2:1کی اکثریت سے یہ فیصلہ کردیا کہ بابری مسجد اور اس سے ملحق زمین (2.77 ایکڑ) کو تین حصوں میں تقسیم کرکے سنی سینٹرل وقف بورڈ، رام للا براجمان اور نرموہی اکھاڑے کو دیدیا جائے۔۔ دو ججوں کی رائے ایک تھی جبکہ تیسرے جج کی رائے مختلف تھی۔۔ لیکن اس نکتہ پر تینوں متفق تھے کہ جس جگہ اس وقت رام کی مورتی رکھی ہے اور جو مسجد کی کلیدی محراب تھی، وہی جگہ رام للا براجمان کو دی جائے گی۔۔ حالانکہ تینوں نے یہ تسلیم کیا کہ یہ مورتی 23 دسمبر 1949کی شب میں وہاں رکھی گئی تھی۔۔

8000 صفحات پر مشتمل اس فیصلہ میں جسٹس سدھیر اگروال نے کہا کہ اندرونی احاطہ پر ہندو مسلم دونوں کا حق ہے۔جسٹس ایس یو خان نے کہا کہ ہندو اور مسلمان دونوں صدیوں سے ایک ساتھ عبادت کرتے آئے ہیں اور یہی اس مقدمہ کی بے مثال خوبی ہے۔۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی تاہم یہ ضرور کہا کہ بابر کے حکم پر مسجد اس جگہ بنائی گئی تھی جہاں ایک لمبے عرصہ سے ٹوٹے ہوئے مندر کے باقیات پڑے ہوئے تھے۔۔ لیکن باقی دو ججوں نے کہا کہ مسجد مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔۔

بہر حال اس فیصلہ پر مسلمانوں کے تو اتفاق کرنے کا سوال ہی نہیں تھا خود ہندو فریقوں نے بھی اس سے عدم اطمینان ظاہر کیا۔۔نرموہی اکھاڑے کو اس پر اعتراض تھا کہ اسے اندرونی احاطہ سے محروم کردیا گیا اور اسے صرف رام چبوترہ دیا گیا جبکہ رام للا براجمان (بی جے پی وغیرہ) کو 2.77 ایکڑ زمین کی تقسیم پر ہی اعتراض تھا۔۔لہذامئی 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر اسٹے لگادیا۔۔

اب تین نکتے بہت اہم باقی رہ گئے ہیں۔۔جسٹس لبراہن کمیشن کی رپورٹ، سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ اور اڈوانی وغیرہ کو سازش کے تمام الزامات سے بری کرنے کا لکھنؤ کی اسپیشل کورٹ کا تازہ فیصلہ۔۔سچی بات یہ ہے کہ بابری مسجد کے صاف ستھرے قضیہ کو کانگریس، بی جے پی، ان دونوں کی حکومتوں، مقامی عدالتوں، ہائی کورٹ اور خود سپریم کورٹ نے بھی خوب الجھایا اور اتنا پیچیدہ بنادیا کہ آخر میں خود سپریم کورٹ کو ہی بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کے حوالہ کرنے کے لئے آرٹیکل 142 کے تحت اپنے انتہائی خصوصی اختیارات کا استعمال کرنا پڑا۔۔ یعنی کوئی ثبوت نہیں، کوئی شہادت نہیں لیکن چونکہ بابری مسجد کا نام ونشان مٹانا تھا اور مسلمانوں کو محروم کرتے ہوئے جگہ ہندؤں کے حوالہ کرنی تھی اس لئے سپریم کورٹ نے آئین کی سب سے خطرناک دفعہ 142 کا استعمال کر ڈالا۔ میں دوبارہ لکھ رہا ہوں کہ آئین کی دفعہ 142 سب سے خطرناک ہے۔ اور جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں تو انتہائی خطرناک ترین ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں