داؤدی بوہرہ جماعت - تاریخ کے آئینے میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-23

داؤدی بوہرہ جماعت - تاریخ کے آئینے میں

bohra-muslim-community
تقدس مآب سیدنا اس عظیم فاطمی میراث کے وارث ہیں جس نے اسلام کی تاریخ میں زریں باب کا اضافہ کیا ہے۔ وہ فاطمی دعوت کے سربراہ اور امام مولا علی کے سچے نائب ہیں۔ یہ وہی فرقہ ہے جس نے ادب، فنون لطیفہ، فلسفہ، فن تعمیرات ، فن نجوم اور علم ریاضی میں زبردست کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ فاطمی اماموں کی جدوجہد کا مرکز ہمیشہ مذہب رہا ہے۔ علم و ادب کا یہ کارواں عرب کے ریگ زاروں سے گزرتا ہوا وادئ نیل کی شاداب وادی میں پہنچا، اور "جامعہ الازہر"، جامعہ ازہر مسجد کی شکل میں قاہرہ میں رکا۔ قاہرہ فاطمی دور حکومت میں مسلمانوں کا دارالسلطنت تھا۔ اب یہ کارواں گجرات کی سرزمین سورت میں "الجامعۃ السیفیہ" کی شکل میں ظہور پذیر ہے۔ فاطمی اپنے ابتدائی زمانہ سے لے کر آج تک علم و ادب کے شائق رہے ہیں۔

الجامعۃ السیفیہ
یہ شان دار عربی کالج جو سورت میں واقع ہے ، علم و ادب کا گہوارہ ہے۔ یہ ادارہ دراصل جامعہ الازہر کی نقل ہے۔ شہر قاہرہ اور جامعہ الازہر کی بنیاد فاطمی اماموں نے رکھی۔ الازہر مسجد کے بانی امام المعیز الدین اللہ تھے، یہی وجہ ہے کہ مذہب اور علم کی ترقی ہمیشہ فاطمی اماموں کا شیوہ رہا ہے۔ سورت میں واقع عربی کالج کی ایک محراب جامعہ الازہر کی محرابوں کی عمدہ شبیہ ہے۔

نایاب لائبریری
فاطمی عہد کے بارے میں جن مقتدر لوگوں نے علمی و ادبی تحقیات کی اور کتابیں مرتب کیں، ان میں سیدنا ابی حاتم اے رازی، سیدنا فدحی النعمان ،سیدنا معیذ شیرازی، سیدنا المعیز قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ فدحی النعمان بن محمد نے "المجالس والمسائرت"، افتخار والدعوت، اور دائم الاسلام نامی کتابیں لکھیں جو فاطمی عقائد اور طرز زندگی کی ترجمان ہیں۔ ان کے علاوہ ہزاروں مخطوطات ، دستاویزات اور قلمی نسخے سیدنا کی لائبریری میں موجود ہیں ، جن سے بیش قیمت معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ لائبریری 946ء میں ہندوستان میں منتقل ہو گئی، جب فاطمی اماموں نے اپنا مرکز عمل اس ملک میں منتقل کر دیا۔ یہ لائبریری اب تک نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اس میں بہت سی عمدہ اور نادر کتابوں کے اضافے بھی ہوئے ہیں۔

عین الاخبار
مسودات کا یہ مجموعہ جو سیدنا کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ فاطمی عہد حکومت کے بارے میں قیمتی معلومات کا ایک خزانہ ہے ، اس کے مرتب سیدنا ادریس امام الدین ہیں ، جنہوں نے 72ء میں اسے مرتب کیا تھا۔ اس کی سات ضخیم جلدیں ہیں، جن میں بڑی تحقیق کے ساتھ تاریخی حالات و واقعات کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ اس طرح سیدنا ادریس امام الدین پہلے مورخ تھے۔ جنہوں ںے بڑی مشقت سے فاطمی عہد کے حالات کی تفاصیل اکٹھا کیں اور اسے ایک مثالی تاریخ میں تبدیل کر دیا۔ علاوہ ازیں اس تاریخ سے مصریوں کی تہذیب و عقائد کے بارے میں بھی عمدہ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ داؤدی بوہرہ فرقہ کی طرز معاشت بڑی حد تک مصری تہذیب کی ہندوستانی شکل ہے۔ علاوہ ازیں بے شمار کتابیں ایسی ہیں جو فاطمیوں کی تہذیب و معاشرت پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اور جن سے بوہروں کے ماضی کے کارناموں کا اندازہ ہوتا ہے۔

تہہ دار شخصیت
تقدس مآب سیدنا برہان الدین صاحب اپنی فصاحت و بلاغت ، زور بیان اور بلند تخیل کے لئے مشہور ہیں۔ آپ ہزاروں افراد پر مشتمل مجمع کو اشک زار کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں قہقہ لگانے پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔ آپ انتہائی تیز شعور اور بےحد حساس دماغ رکھتے ہیں، آپ تقریر کرتے وقت سامعین کو بالکل مسحور کردیتے ہیں۔ جب کبھی آپ کلاس لیتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا آپ پیدائشی معلم ہیں۔ آپ حافظ قرآن ہیں، جب کبھی تنہا ہوتے ہیں تو آیات قرآنی کے ورد انہیں روحانی لذت و سکون بخشتے ہیں۔ جب داؤدی بوہرہ فرقہ نے 1957ء میں امام علی کی چودہ سو ویں برسی نہایت عظیم الشان طریقے سے بمبئی میں منائی تو اس تقریب کے روح رواں بھی آپ ہی تھے۔ یہ تقریب آج بھی حاضرین کے دماغوں سے محو نہیں ہوئی۔

باعث فخر
تقدس مآب سیدنا برہان الدین صاحب ایک مذہبی پیشوا ہی نہیں بلکہ زندگی کے دشوار، استوار کے عمدہ رہبر بھی ہیں۔ آپ امیروغریب سب سے مخلصانہ طور پر ملتے ہیں۔ آپ کی شیرینی دلوں میں گھلتی محسوس ہوتی ہے، آپ کی باتیں عقل و دانش کے اوراق ہیں آپ کے مشورے پرخلوص اور صادق ہیں آپ کی ذات ہر لحاظ سے بوہرہ فرقہ کے لئے باعث فخر ہے ، جو آج 52 ویں داعی المطلق اور سیدنا مرحوم کے جانشین اور امام علی کے سچے نائب ہیں۔

زبردست تنظیم
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمانوں کے بے شمار فرقوں میں چند ہی فرقے ایسے ہیں جو ہر لحاظ سے ترقی یافتہ اور خوش حال ہیں۔ ان میں داؤدی بوہرہ جماعت بھی شامل ہے۔ اگرچہ بوہروں کی تنظیم 75 کروڑ مسلمانوں کے مقابلہ میں چھوٹی ہے۔ مگر یہ بے حد مضبوط اور مستحکم ہے۔ ان کے باہمی تعلقات مثالی ہیں، یہ ایک دوسرے کی معاونت دل و جان سے کرتے ہیں۔ مذہب کو دنیاوی معاملات سے الگ نہیں کرتے بلکہ دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ عام مسلمانوں کے بہ نسبت یہ زیادہ روشن خیال اور تعلیم یافتہ ہیں۔ شادی بیاہ کے معاملات میں مذہب کی سختی سے پیروی کرتے ہیں۔ ان کی عورتوں نے اگرچہ عام طور پر پردے کو خیرباد کہہ دیا ہے اور اپنے آپ کو بہت حد تک جدید تہذیب میں ڈھال لیا ہے مگر اس کے باوجود وہ مذہب سے بیگانہ نہیں۔ روزہ نماز کی پابند اور داعی المطلق کے پیرو ہیں۔ ان کے مذہبی پیشواؤں کے گھروں کی عورتیں آج بھی انتہائی سخت کا پردہ کرتی ہیں۔

بوہروں نے ملک اور قوم کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا ہے ، مگر اس کے باوجود یہ بات لائق افسوس ہے کہ عام مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلقات گہرے نہیں اور نہ ہی یہ ان کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ بوہرہ برادران عام مسلمانوں سے گھل مل جائیں اور ان کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ جاننے لگیںِ تو مسلمانوں کی پوزیشن کچھ بہتر ضرور ہو جائے۔ بوہرہ بھائیوں کی معاونت مسلمانوں کے بدتر معاشی حالات کو یقیناً کچھ بہتر بنا سکتی ہے۔ یہ بوہرہ یا فاطمی مسلمانوں کے ہی بازو ہیں۔
کاش! ایک اللہ ایک رسول، ایک قرآن اور ایک اسلام کی بنیادوں پر یہ اپنے فرقے کی محدود چہار دیواری سے نکل کر اپنے ہی بھائیوں کے لئے باعث رحمت بنتے۔


Dawoodi Bohra sect.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں