مولانا تاجور نجیب آبادی - خاکہ از عبدالمجید سالک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-24

مولانا تاجور نجیب آبادی - خاکہ از عبدالمجید سالک

maulana-tajvar-najibabadi
نجیب آباد کے مولوی احسان اللہ خاں تاجور (پیدائش: 2/مئی 1894 ، وفات: 30/جنوری 1951) نے نو سال دیو بند کے دارالعلوم میں بسر کر کے علوم دینی میں فراغت تحصیل کی سند حاصل کی، تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا علم و فضل حصول معاش میں معاون نہ ہوگا۔ کسی مسجد میں پیش امام بننا، ختم درود پڑھنا اور جنازے کی نمازیںپڑھانا نہ مولوی تاجور کے ذوق کو گوارا تھا نہ اس سے قوت لا یموت بآسانی میسر آسکتی تھی۔ وہ شاعر آدمی تھے ، اور شاعری کے جراثیم جس شخص کے ذہن میں پرورش پارہے ہوں اس کا علمائے دین کی صف میں کھڑے ہونا اور اپنی زندگی میں زہد و تقوی کا اہتمام کرنا بے حد دشوار ہے۔ اس احساس کے ماتحت انہوں نے فیصلہ کیا کہ پنجاب جاکر مشرقی امتحانات پاس کئے جائیں اور مدرسی کا پیشہ اختیار کیاجائے۔ چنانچہ 1915ء میں لاہور پہنچ کر اورینٹیل کالج میں داخل ہوگئے۔

دیال سنگھ سکول میں
مولانا تاجور استاذی رسا رام پوری کے شاگرد تھے، اس لئے میرے ساتھ خواجہ تاشی کے تعلقات رکھتے تھے۔ ہماری خط و کتابت جاری تھی، فانوس خیال میں ان کا ایک مکتوب بھی شائع ہوچکا تھا۔ جب 15ء کے اواخر میں مَیں نے لاہور میں مولوی سید ممتاز علی کے ہاں ملازمت اختیار کی تو مولانا تاجور سے پہلی دفعہ نیاز حاصل ہوا۔ وہ اس زمانے میں اورینٹیل کالج کے ہاسٹل میں رہتے تھے ، جو شاہی مسجد اور قلعہ کے درمیانی کمروں میں قائم ہوا تھا۔ منشی فاضل کا امتحان پاس کرکے تاجور صاحب دیال سنگھ ہائی اسکول میں اورینٹیل ٹیچر ہوگئے۔ اس سکول کے ہیڈ ماسٹر لالا رگھوناتھ سہائے نہایت باوضع، غیر متعصب اور بلند اخلاق آدمی تھے، اور مولانا تاجور ان کی خوبیوں کے اس قدر گرویدہ تھے کہ انہیں فرشتہ کہاکرتے تھے ، رگھوناتھ سہائے جیسے ہندوؤں کے حسن سلوک ہی کا نتیجہ تھاکہ مولانا تاجور کے مخلصانہ روابط زندگی بھر ہندوؤں اور سکھوں ہی کے ساتھ رہے۔ مسلمان اکابر میں سے صرف دو تین ہی سے مولانا کی رسم و راہ رہی۔

مخزن کی ایڈیٹری
رسالہ"مخزن" سر عبدالقادر کے قبضے سے نکل کر ایک ریٹائرڈ تحصیلدار غلام رسول صاحب کی ملکیت میں منتقل ہوگیا، جن کے انتقال کے بعد ان کے بھائی ظہورالدین اسکو چلاتے رہے۔ مولانا تاجور نے مخزن کی ایڈیٹری قبول کرلی، زمانے کی کیفیت دیکھئے کہ مدیر"مخزن" کی حیثیت سے مولانا تاجور کی تنخواہ پندرہ روپے ماہانہ تھی۔ اور جن دنوں مولانا کھانا بھی ظہور الدین صاحب ہی کے ہاں کھاتے، ان دنوں نقد صرف پانچ روپے ملتے۔ جب مولانا موسم گرما کی تعطیلات میں نجیب آباد چلے جاتے تو "مخزن" کی ایڈیٹری کا پشتارہ میرے کاندھوں پر رکھ جاتے اور میں بلا معاوضہ اس خدمت کو انجام دیتا۔

ہمایوں میں
مولانا تاجور زبان کی سوجھ بوجھ خاصی رکھتے تھے اور غزل بہت اچھی کہتے تھے۔ ان ہی دنوں جسٹس شاہ دین مرحوم نے انہیں یاد فرمایا۔ کیونکہ میاں بشیر احمد نے "ہمایوں" جاری کردیا تھا اور انہیں صرف ایک مدیر معاون ہی کی ضرورت نہ تھی، بلکہ وہ ابتدائی عربی کتابیں بھی پڑھنا چاہتے تھے۔ مولانا تاجور میاں بشیر احمد صاحب کے رفیق کار بن گئے اور"ہمایوں" کو حسن ترتیب کے ساتھ بلند معیار پر مرتب کرنا شروع کردیا ، تاجور صاحب کی یہ تمام ادبھی مصروفیتیں اپنی مستقل ملازمت کے علاوہ تھیں۔ دیال سنگھ ہائی اسکول کی ٹیچری سے ترقی کرکے وہ دیال سنگھ کالج میں فارسی کے لکچرر مقرر ہوگئے تھے۔ لیکن ادبی رسالوں کا مرتب کرنا اور نوجوانوں کو نثر ونظم میں اصلاح دینا ان کا دائمہ مشغلہ رہا۔ اسی سلسلے میں انہوں نے ایک انجمن ارباب علم کی بنیاد رکھی، جس کے پر رونق مشاعرے ایس پی ایس کے ہال میں ہونے لگے۔ مولانا تاجور کے احباب اور ان کے شاگرد اس مشاعرے میں ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔اور میں بھی اکثر اپنا کلام انہی مشاعروں میں پڑھتا تھا۔

"بزم ادب"
کچھ مدت جب جب حفیظ جالندھری لاہور کے ادبی افق پر نمودار ہوئے تو ہم نے ان کا تعارف بھی انجمن اربابن علم ہی کے سٹیج پر کرایا اور حفیظ کی پہلی نظمیں اسی انجمن کے مشاعروں میں پڑھی گئیں۔ لیکن حفیظ کی روز افزوں ہر دلعزیزی سے مولانا کچھ کھٹک سے گئے ، ادھر وہ کوتاہی ظرف میں مبتلا ،ادھر یہ زود رنج ،نتیجہ یہ ہوا کہ کشمکش شروع ہوگئی اور حفیظ صاحب نے جھٹ ایک ‘بزم ادب پنجاب’ کی بنا ڈالی اور مجھے اس کا صدر مقرر کرکے پہلے مشاعرے کا اعلان کردیا، اب تاجور صاحب بے حد پریشان ہوئے، انجمن ارباب علم کے مشاعرے بہت دبلے ہوگئے اور سالک و حفیظ کے دوستوں نے بزم ادب کو چار چاند لگادئیے۔ لیکن یہ حفیظ صاحب کا ایک عارضی سا جوش تھا جو چند روز میں ٹھنڈا پڑ گیا اور بزم ادب درہم برہم ہوگئی۔

کانگریسیوں کا ہنگامہ
اس سے قبل 23ء میں مولانا تاجور نے ایک مشاعرہ رائے بہادر دولت رام کا لیہ بیرسٹر فیروز پور کی صدارت میں منعقد کیا۔ رائے بہادر حکومت کے نہایت خوشامدی اور کانگریس کے دشمن واقع ہوئے تھے اور قومی تحریک ابھی باقی تھی۔ ہزاروں مجاہدین حریت جیل خانوں میں مقید تھے۔اس لئے کانگریسیوں اور دوسرے آزادی پسندوں کو ایک ادبی انجمن کی طرف سے ایک ٹوڈی کی اس عزت افزائی پر بہت غصہ آیا، اور کانگرسی رضا کاروں نے مشاعرے میں ابتری پید اکرنی شروع کردی۔ اتنے میں مَیں ایس پی ایس کے ہال میں پہنچ گیا۔ چونکہ حال ہی میں سیاسی قید سے رہا ہوکر آیا تھا اس لئے پرزور تالیوں سے میرا خیر مقدم کیا گیا۔ مولانا تاجور نے مجھے سٹیج پر بٹھایا کانگرسیوں کی حرکت کا قصہ سنایا اور کہا کہ آپ ذرا سی کوشش سے اس مشاعرے کو کامیاب بناسکتے ہیں۔ خیر۔ مَیں اٹھا، ایک دو لطیفے سنا کر مجلس کو شگفتہ کردیا۔ پھر اپنا کلام سنایا اور دوسرے شعراء کو پڑھوایا۔ کانگرسیوں نے میرے لحاظ کی وجہ سے اس کے بعد شور نہ مچایا۔
مولانا تاجور اس داغ کو دھونے اور انجمن ارباب علم کو بدنامی اور غیر ہر دلعزیزی سے بچانے کے لئے بے حد مضطرب تھے۔ وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے خدا کے لئے آئندہ اجلاس کی صدارت آپ کردیجئے۔ مَیں نے قبول کیا اور اخباروں میں اعلان ہوگیا۔ دوسرے ہی دن ڈاکٹر ستیہ پال سکریٹری کانگرس کمیٹی کا ایک خط مجھے موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ مولوی تاجور نے رائے عامہ کی توہین کی ہے ، اور کانگرس کی دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ جب تک اس توہین کی تلافی نہ ہوجائے آپ مشاعرے کی صدارت نہ کریں۔ میں نے جواب میں لکھ دیا، کہ آپ یقین رکھئے میں کسی حالت میں کانگرس اور رائے عامہ کی توہین کو محض صدارت مشاعرہ کی خاطر برداشت نہ کروں گا اور انتہائی کوشش کروں گا کہ مولانا تاجور معقول رویہ اختیار کریں۔ آپ بھی اپنے کارکنوں اور رضا کاروں کو ہدایت کردیں کہ بیکار شور و غوغا سے محترز رہیں۔

مشاعرہ کامیاب ہوا
مشاعرے سے پہلے میں نے مولانا تاجور کو اس امر پر آمادہ کرلیا کہ وہ انعقاد مجلس کے آغاز ہی میں سٹیج پر آکر معقول الفاظ میں معذرت کردیں، اور اعلان کردیں کہ انجمن ارباب علم اگرچہ سیاست سے بے تعلق ہے لیکن اپنی قومی انجمن کانگرس اور آزادی ہند کے نصب العین کی کسی توہین کو روا نہ رکھے گی۔ مشاعرہ ہوا ، اور میں نے دیکھا کہ اس میںبہت سی گاندھی ٹوپیاں موجود ہیں۔ میں الگ بیٹھا رہا۔ جب مولانا تاجور اپنی معذرت پڑھ چکے اور تجویز صدارت ہوگئی، تو میں آکر کرسی صدارت پر بیٹھ گیا۔ اس پر جلسے نے بے حد خوشنودی اور جوش و خروش کا اظہار کیا۔ میں نے کھڑے ہوکر کہا۔ کہ دیش بندھو چتر نجن داس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے بڑے بڑے جرنیلوں میں سے تھے اور اس کے علاوہ بنگلہ زبان کے نہایت شیوا شاعر تھے ، خود ڈاکٹر ٹیگور ان کی شاعری کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، اس لئے میری تجویز یہ ہے کہ دیش بندھوداس اس کے اعزاز میں انجمن ارباب علم کے اس مشاعرے کے حاضرین سر و قد کھڑے ہوکر دو منٹ کی خاموشی اختیار کریں۔ اس کے بعد مشاعرے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔
غرض فضا بالکل صاف ہوگئی، گاندھی ٹوپیاں جو اس نے جمع تھیں کہ ضرورت پڑے تو مولوی تاجور پر پل پڑیں نہایت سکون سے مشاعرہ سنتی رہیں اور انجمن ارباب علم اس آفت سے بچ گئی۔

فیروز پور کا مشاعرہ
1926ء میں ڈاکٹر اقبال پنجاب کی مجلس قانون ساز کے ممبر منتخب ہوئے۔ تو بعض مقامات سے انہیں دعوتیں آنے لگیں کہ تشریف لائے کیونکہ لوگ آپ کی زیارت کے خواہاں ہیں۔ فیروز پور میں میاں تصد ق حصین خالہ امی اے سی تھے وہ ایک دن لاہور آئے اور ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاجر ہوکر گزارش کی کہ آپ فلاں تاریخ کو فیروز پور آئیے۔ آپ کا جلوس نکالاجائے گا۔ آپ کی صدارت میں ایک مشاعرہ کیاجائے گا۔ اور شام کو گارڈن پارٹی دی جائے گی ، ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جلوس میرے ذوق کے خلاف ہے۔ مشاعرے کی صدارت میری جگہ سالک صاحب کریں گے اور میں پارٹی میں شامل ہوجاؤں گا۔
یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب نے مجھے بلوایا اور حکم دیا کہ آپ فلاں تاریخ فیروز پور جاکر مشاعرے کی صدارت کریں۔ میں نے سر تسلیم خم کیا، گھر واپس آکر حفیظ صاحب کو بلایا اورکہا کہ کل صبح چند شعراء کو ساتھ لیجئے۔ اور میرے ساتھ فیروز پور چلئے۔ وہ اٹح کر پنڈت ہری چند اختر کی طرف چلے گئے ، سردار اودھے سنگھ شائق وکیل فیروز پور تاجور صاحب کے شاگرد تھے۔ اور اہل فیروز پور کی طرف سے شعراء کو یوالے جانے کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے۔ دوسرے دن صبح کو ہم لوگ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ مولانا تاجور بھی پنڈت کیفی دہلوی، میلا رام وفا، منوہر سہائے انور، دین محمد فاخر وغیرہ کو ساتھ لے کر جارہے ہیں۔ یہ واقعہ اس لئے بیان کررہا ہوں کہ حفیظ صاحب کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے مولانا نے مجھ سے سلسلہ کلام و سلام بند کردیا تھا اوروہ مجھے اپنا حریف سمجھتے تھے۔ اس قافلہ شعراء کی ترتیب بھی اسی سلسلے میں کی گئی تھی ، چونکہ میں پہلی دفعہ بیرون لاہور کے کسی مشاعرے میں گیا تھا اور پھر علامہ اقبال کا نامزدہ صدر تھا۔ اس لئے فیروز پور میں میری آؤ بھگت بہت تپاک سے کی گئی اور مولانا تاجور چونکہ روز کے آنے جانے والے تھے ، اس لئے ان کی طرف توجہ نسبتاً کم رہی۔ اس لئے مولانا نے سردار اودھے سنگھ شائق کی کوٹھی پر جاکر اپنے آدمیوں کی ایک خفیہ کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی کہ مشاعرے کی صدارت پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی دہلوی کریں۔ کیونکہ وہ سب کے بزرگ ہیں اور سالک صاحب کو بھی ان کے نام سے اختلاف نہ ہوگا۔ لیکن پیشتر اس کے کہ مجھ سے استصواب کیاجاتا۔ میاں تصدق حسین خالد نے کہہ دیا کہ جس شخص کے اعزاز میں آج کی تقریب ہورہی ہے جب اسی نے مشاعرے کی صدارت کے لئے اپنا قائم مقام نامزد کررکھا ہے تو پھر ہم کیونکر کسی دوسرے آدمی کا نام لے سکتے ہیں۔ غرض تاجور قافلہ مجبوراًمشاعرے میں شریک ہوا، اور مشاعرے کے اواخر میں مَیں نے حفیظ جالندھری سے پہلے کیفی، تاجور، وفا اور انور کو پڑھوایا۔ جب حفیظ کھڑے ہوئے تو یہ قافلہ چلے جانے کے لئے پر تولنے لگا، جانتے تھے کہ صدر بے ڈھب آدمی واقع ہوا ہے۔ سر مشاعرہ دو تین چوٹیں کردے گا اس لئے پنڈت کیفی کو میرے پاس بھیجا کہ صدر جلسہ اجازت دیں توہم لوگ چلے جائیں۔ شہر میں کچھ کام ہے۔ پنڈت جی کے ارشاد پر میں کیا عرض کرسکتا تھا۔ بخوشی اجازت دے دی، اور یہ لوگ چلے گئے۔

علماء دیوبند کی ڈانٹ
میرا اور مولانا کا رابطہ کلام و سلام ایسا بند ہوا کہ سالہا سال تک یہی کیفیت رہی۔ حالانکہ میں کسی جانی دشمن سے بھی بات چیت کا سلسلہ بند نہیں کیاکرتا، اور مولانا تو بچپن کے دوست تھے لیکن مولانا کی آزردگی نہ گئی۔ پہلے لکھ چکا ہوں کہ مولانا لاہور میں زیادہ تر ہندوؤں اور سکھوں سے تعلقات رکھتے تھے۔ مسلمانوں سے چنداں واسطہ نہ تھا اور دیوبند کے عالم ہونے کے باوجود غیر شری داڑھی اور آزادانہ رویہ کی وجہ سے ایک دفعہ مولانا انور شاہ کاشمیری، اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ان پر ناراض بھی ہوئے تھے۔ انجمن خدام الدین کے اجلاس پر یہ بزرگ تشریف لائے تو مولانا انور شاہ نے فرمایا کہ ہمارے دارالعلوم کا عالم اور حلیہ یہ؟ تم نے پڑھ لکھ کر کھودیا اور دارالعلوم کو بدنام کیا۔ مولانا سر جھکائے سب کچھ سنتے رہے اور اف نہیں کی۔ تھوڑی دیر میں اٹھ کر چلے گئے۔

مولانا کی ادبی صحافت
اس میں شک نہیں کہ مولانا تاجور نے اپنی دیوبندی تعلیم سے نہ کوئی فائدہ خود اٹھایانہ دوسروں کو پہنچایا۔ انہوں نے عمر بھر فارسی پڑھا کر معاش پیدا کی اور اردو ادب و شعر کی خدمت میں مصروف رہے۔ مولانا کی تصانیف صرف چند غزلوں نظموں اور رسالوں تک محدود ہیں۔ ان کے سکولی اور کالجی شاگردوں کے علاوہ زبان و فن میں بھی ان کے تلامذہ کی تعداد کافی ہے۔ جن کی اکثریت ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھی۔ انہوں نے"مخزن" اور "ہمایوں" کی ادارت کی۔ اس کے بعد"ادبی دنیا" اور شاہکار جاری کئے۔ بچوں کا رسالہ"پریم"جاری کیا، غرض پوری زندگی ادب شعرا و صحافت میں صرف کی۔ سر سکندر حیات خان کی وزارت کے زمانے میں راجا نرنذر ناتھ اور بعض دوسرے ہندو بزرگوں کی تحریک پر حکومت پنجاب نے مولانا کو شمس العلماء کا خطاب دلوایا۔ لیکن مولانا کو بڑھاپے میں دو ا پلے پلائے فرزندوں کے انتقال کا جو صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ اس کے بعد ان کی صحت بالکل سنبھل نہ سکی۔ جسم تو پہلے ہی دوہرا تھا لیکن آخری عمر میں بہت بھاری ہوگئے تھے اور پیٹ میں سانس نہ سماتا تھا۔ بعض دوسرے عوارض بھی لاحق ہوگئے تھے، آخر چھیاسٹھ برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔

سلام کلام کی تجدید
لکھ چکا ہوں کہ مجھ سے سلسلہ کلام منقطع تھا لیکن اس انقطاع کے باوجود ہم دونوں کے قلوب ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف تھے۔ اور تکدر کا کہیں نام بھی نہ تھا ، یہ محض ضد اور وضع کا معاملہ تھا۔ جس کی وجہ سے ہم مصالحت نہ کرسکے۔ سچ پوچھئے تو یہ ہم دونوں کی حماقت تھی، انتقال سے چند ماہ پیشتر ایک دن یونیورسٹی کے دفتر کے سامنے کھڑے تھے ، سر پر ترکی ٹوپی، بھری سی ترشی ہوئی داڑھی جس میں با قاعدہ خضاب کرتے تھے۔ شیروانی اور آڑا پاجامہ پہنے۔ ہاتھ میں ایک چھڑی لئے کھڑے تھے۔ مجھے انہیں دیکھ کر کشش ہوئی، اور کیوں نہ ہوتی، مدۃ العمر کے دوست ، ہم ذوق، استاد بھائی اور راہ ادب کے ہمسفر تھے۔میں نے آگے بڑھ کر بے تکلف اپنی چھڑی سے ان کی توند پر ٹہوکا دیا اور کہا"کیا حال ہے مولوی!"یہ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، اور مجھے بڑے زور سے لپٹا لیا۔ کہنے لگے:"کم بخت! ساری عمر ضد میں ضائع کردی۔" میں نے کہا۔ میں اور ضد؟ کیا میں کوئی نجیب آبادی روہیلا ہوں کہ ضد پر پوری عمر قربان کردوں۔ یہ سب تمہارا اڑیل پنا تھا، ورنہ میں تو ہر وقت ملنے کے لئے تیار تھا۔ اس کے بعد ادھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں اور پرانے دوستوں کی باتوں میں جو خاص لذت اور خاص اشارات ہوتے ہیں وہ اہل ذوق سے پوشیدہ نہیں، اس کے بعد دو تین دفعہ اسی طرح سر راہ ملے یہاں تک کہ ایک دن یہ سن کر دل بیٹھ گیا کہ تاجور بھی رخصت ہوئے۔
پنڈت ہری چند اختر میر کا یہ شعر یوں پڑھا کرتے تھے۔
اے حب جاہ والو جو آج تاجور ہے
کل اس کو دیکھنا تم نے تاج ہے نہ ور ہے
انہوں نے بھی مولانا تاجور کی موت کی خبر سنی تو پندرہ منٹ تک بالکل مبہوت بیٹھے رہے۔ اور پھر مولانا کی محبت، ان کی عداوت ، ان کے جھگڑوں ، ان کے رسالوں، ان کے شعر اور ان کی ایڈیٹری کی باتیں جو چلیں تو گھنٹوں گزر گئے۔


Maulana Tajvar Najibabadi, sketch by Abdul Majeed Salik

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں