ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 16 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-21

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 16

kaali-dunya-siraj-anwar-ep16



پچھلی قسط کا خلاصہ :
زمین دور دنیا میں فیروز اور اس کی ٹیم کے تمام لوگ ایک عجیب و غریب مختصر قد کی بونا قوم کے شکنجے میں گرفتار ہو گئے۔ وہ انہیں پکڑ کر اپنی ملکہ کے محل میں لے چلے۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

اونچی کرسی پر جومسند بچھی تھی۔ وہ ابھی تک خالی تھی اور اب میں یہ اچھی طرح جان چکاتھا کہ اس اونچے رتبے کی مسندپر سوائے ملکہ کے اور کوئی نہیں بیٹھ سکتا۔ اور ملکہ سوائے نجمہ کے اور کوئی نہ تھی۔ بگل تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد برابر بج رہے تھے اوربگل جب آخری بار ایک لمبی آواز نکال کر خاموش ہوگئے تو مجھے اونچی کرسی پر نجمہ آتی ہوئی دکھائی دی۔ مگر کس حلیے میں! میں اگر آپ کو بتاؤں تو آپ بھی تعجب کریں گے۔سر سے پاؤں تک نجمہ ایک بہترین اور جگمگاتے ہوئے لباس میں ملبوس تھی۔ اس کے سر پر سونے کا تاج رکھا ہوا تھا۔ اور اس تاج میں پاتال میں پائے جانے والے بہترین ہیرے جگمگارہے تھے۔ نجمہ کے گلے میں قیمتی ہار پڑے ہوئے تھے اور اس کی کمر کے پیچھے ایک شال لٹکی ہوئی تھی جیسی کہ آپ نے کبھی کبھار ملکہ برطانیہ کی تصویر میں دیکھی ہوگی۔ نجمہ کے ہاتھ میں ایک خوبصورت عصا تھا اور اس نے اس خوبصورت عصا کو ہاتھ میں پکڑ کر اوپر اٹھا رکھا تھا۔

نجمہ کو دیکھتے ہی تمام بونے خوشی سے چلا اٹھے اور اپنی زبان میں انہوں نے بہت سے نعرے لگائے۔ نجمہ کے چہرے پر جو شاہی دبدبہ نظر آرہاتھا اس نے ایک بار تو مجھے بھی حیرت زدہ کردیا۔ کیا یہ میری وہی بیٹی نجمہ ہے ! بونے ابھی تک چلا رہے تھے۔ لیکن جب نجمہ نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں خاموش رہنے کو کہا تو وہ چپ ہوگئے اور نجمہ کے کرسی پر بیٹھتے ہی سجدے میں گر گئے۔ اپنی بیٹی کی یہ عزت افزائی دیکھ کر میں خوشی سے پھولا نہ سمایااور جوش میں چلاتا ہوا نجمہ کی طرف بڑھا۔
"نجمہ۔۔۔میری بیٹی! تم ان بونوں کی ملکہ کس طرح بن گئیں؟"

شاید کوہ ہمالیہ کو اگر کسی چھوٹے سے ڈبے میں بند کر دیا جاتا تو مجھے اتنا تعجب نہ ہوتا یا پھر اگر سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہونے لگتا تو مجھے اتنی حیرت نہ ہوتی جتنی یہ دیکھ کر ہوئی کہ میری اپنی ہی بیٹی نجمہ مجھے آگے بڑھتے دیکھ کر اچانک غصے کی وجہ سے بپھر گئی اور یکایک کھڑی ہوگئی۔ اس نے اپنے عصا والے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کیا اور نہایت ہی غضب ناک آواز میں کہنے لگی۔
"کون ہے یہ بدتمیز جسے بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں۔۔۔ کیا تم نہیں جانتے کہ میں مقدس بام بو کی بیٹی ہوں!"

میں تو حیرت زدہ ہوکر اچانک پیٹھے ہٹ گیا مگر پورے ہال میں ایک بھنبھناہٹ سی گونجنے لگی۔ بونے اپنے سر سجدے سے اٹھا چکے تھے اور مجھے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔نجمہ غصے کی وجہ سے کھڑی ہوئی اور تھر تھر کانپ رہی تھی۔ بونوں کا وزیر اعظم اور فوج کا کمانڈر مجھے یوں دیکھ رہا تھا جیسے ابھی قتل کردے گا۔ مگر میں ان سب کی نظروں سے بے پروا، حیرت زدہ کھڑا ہوا تھا اور نجمہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ نجمہ کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ اور اس کا سانس زور زور سے چل رہا تھا۔ بڑی دیر کے بعد نے خود پر قابو پایا اور دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ کچھ لمحوں تک وہ ہال میں بھرے ہوئے بونوں کو دیکھتی رہی اور پھر بولی۔
"میں نہیں جانتی تم کون لوگ ہو ، کوئی اور ہوتا تو اسے اس گستاخی کی سزا مل جاتی۔ مگر تم چونکہ قیدی ہو اور چند گھڑی کے مہمان، اس لئے تمہاری اس پہلی خطاکو معاف کیاجاتا ہے۔"‘

نجمہ کے ان الفاظ سے مجھے اتنا صدمہ پہنچا کہ میں گردن جھکاکر خاموش ہو گیا اور میری آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔
"وزیرا عظم۔۔۔ تم کھڑے ہوکر بتاؤ کہ قیدیوں کا کیا قصور ہے ؟" نجمہ نے اسی رزق برق پوشاک والے بونے سے کہا۔"میری عزیز ملکہ اور اے مقدس بوم بو کی بیٹی۔۔۔ وزیرا عظم نے ادب سے ایک چھوٹے سے لمبے آلے میں، جو شاید ان لوگوں کا مائیکرو فون تھا کہنا شروع کیا۔" یہ لوگ سورج کی دنیا کے رہنے والے ہیں، ان جگہوں کے جہاں مقدس اندھیرا صرف رات کو پیدا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اس شخص کے ساتھی ہیں جس نے ایک بار ہماری دنیا پر قبضہ کرنا اور ہماری لال طاقت کو چرانا چاہا تھا۔ اس کے بعد وہ شخص کافی آگے پاتال کے دوسرے کونے پر اپنی حکومت بناکر بیٹھ گیا۔ وہ بہت بڑی طاقت کا مالک ہے اور ان لوگوں کو بلا کر ان کی مدد سے ہماری دنیا کو ختم کرنا چاہتا ہے۔"
"انہیں اس کی سزا ملے گی۔۔۔ آگے کہو۔" نجمہ نے کہا۔
" اور جیسا کہ ملکہ کو معلوم ہے ملکہ مقدس بام بو کی بیٹی ہے اور اسے سب باتوں کا پہلے ہی سے پتہ چل جاتا ہے۔ یہ لوگ ملکہ کو چراکراپنے ساتھ سورج کی دنیا میں لے گئے ، وہاں اس لمبے شخص نے ملکہ کو اپنی بیٹی بنالیا، لیکن ملکہ سے اپنے خادموں کی بے بسی دیکھی نہیں گئی اس لئے وہ ان لوگوں کو چکمہ دے کر واپس بام بو کی دنیا میں آگئی۔"

"ہاں یہ سچ ہے ، ہم نے ایسا ہی کیا تھا۔" نجمہ نے جواب دیا۔
"ملکہ ہماری ہے اور ہماری ہی رہے گی۔۔۔۔" سب بونوں نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا۔
"قیدیو۔۔۔۔ سنو، غور سے سنو۔۔۔ "وزیر نے کہا:
"اب تم سب سمجھ گئے کہ ملکہ ہماری تھی اور تم نے اسے چرا لیا تھا۔ اگر یہ ہماری ملکہ نہ ہوتی تو کس طرح تمہارے خلاف بولتی؟ اس لئے اب بتاؤ کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیاجائے۔۔۔؟"
اس سے پہلے کہ میں کچھ جواب دیتا ،نجمہ نے چیخ کر کہا۔
"انہیں زندہ جلا دو۔۔۔"

ان الفاظ سے مجھے اتنا رنج پہنچا کہ میں رو پڑا۔ نہ جانے خدا مجھے میرے کون سے گناہوں کی سزا دے رہا تھا۔ میری اپنی ہی بیٹی ایک تو مجھے پہچانتی نہ تھی اور اوپر سے مجھے زندہ جلا ڈالنے کا حکم صادر کررہی تھی۔ جان اور میرے باقی ساتھی بھی حیرت میں پڑے ہوئے تھے اور مجھے بار بار دلاسہ دے رہے تھے لیکن میرا دل تھا کہ بھرا آرہا تھا۔ نجمہ کا یہ فیصلہ سنتے ہی بونے پھر خوشی سے چیخنے لگے۔ میرے مونہہ سے تو کوئی آواز نکلی نہیں مگر جان سے نہ رہا گیا۔ اس نے دو قدم آگے چل کر کہا۔
"خاموش۔۔۔ خاموش، مقدس بام بو کے پجاریو خاموش میں تمہاری ملکہ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔"

بونے جب خاموش ہوگئے تو ملکہ نے غصیلی نظروں سے جان کو دیکھتے ہوئے کہا،"بولو تم کیا کہنا چاہتے ہو، ہم تمہاری بکواس ضرور سنیں گے بڈھے احمق۔۔۔"
نجمہ کی زبان سے جان کی شان میں ایسے گستاخانہ الفاظ سن کر ہم سب کا تو خون کھولنے لگا مگر بونا کمانڈر اور بونا وزیر اعظم لفظ بڈھے احمق کو مزے لے لے کر باربار دہرانے لگے۔ ہنستے جاتے تھے اور دہراتے جاتے تھے۔ جیسے اس خطاب سے زیادہ واہیات خطاب جان کے لئے اور کوئی مناسب نہ تھا۔
"بونوں کی ملکہ اس عزت افزائی کا شکریہ" جان نے طنزاً کہا۔
"نجمہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ تم مذاق کررہی ہو یا واقعی سنجیدہ ہو۔ ہم تمہیں ڈھونڈنے آئے تھے کہ یہاں خود پھنس گئے۔ اس مخلوق کا سب سے بڑا دشمن جیگا ہے اور تم اب اس بونی قوم کی مدد کررہی ہو۔تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جیگا اس طرح اور دشمن ہوجائے گا۔ خدا کے لئے نجمہ ذرا عقل سے کام لو اور ابھی ہمارے ساتھ چلو۔"
"بوڑھے آدمی سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کیا کہہ رہے ہو ،"نجمہ نے کہا۔
"ملکہ ان لوگوں کی باتوں میں مت آئیے۔یہ بہت چالاک ہیں۔ " کمانڈر نے آگے بڑھ کر ویسے ہی ایک آلے میں کہا۔
"تم ٹھیک کہتے ہو۔ مگر پھر ان کا کیا کیا جائے؟"
"میرے خیال میں انہیں زندہ جلا دینا چاہئے۔ مقدس بام بو پر بھینٹ چڑھائے ہوئے بھی عرصہ ہو گیا۔ ان کی بھینٹ پاکر مقدس بام بو خوش ہوجائیں گے۔"وزیر اعظم نے جلدی سے کہا۔
"تمہارا خیال ٹھیک ہے۔ ہم ایسا ہی کریں گے۔"نجمہ نے اتنا کہہ کر تالی بجائی اور بولی۔ان سب کو ابھی آگ میں جلا دیاجائے۔"

چند بونے یہ حکم سنتے ہی آگے بڑھے۔ ان کے ہاتھوں میں وہی گیندیں تھیں جن کا دھواں انسان کو مفلوج کردیتا تھا۔ شاید وہ ہمیں گرفتار کرنے آرہے تھے۔ یہ حالت دیکھ کر اختر سے نہ رہا گیا۔ وہ ابھی تک حیرت سے نجمہ کی باتیں سن رہا تھا مگر اب اچانک چیخنے لگا۔
"نجمہ آپا یہ ظلم ہے۔۔ یہ تم کیا کررہی ہو نجمہ آپا، تم اپنے بھائی تک کو نہیں پہچانتیں۔ مجھے نہیں پہچانتیں۔"
" یہ لڑکا خواہ مخواہ چیخ رہا ہے۔ اس کی زبان کاٹ لی جائے۔" نجمہ نے دوسرا حکم صادر کیا۔

میری حالت عجیب تھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ بونوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہماری طرف بڑھ رہی تھی اور ہم بے بسی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ ہمارے ہاتھوں میں ریوالور اور بندوقیں موجود ہیں۔ کیوں نہ ان بندوقوں سے اس وقت کام لیا جائے۔ اپنا یہ خیال میں نے چپکے سے اپنے ساتھیوں پر ظاہر کردیا۔ بونے قریب آتے جارہے تھے اور جب وہ ہم سے دس گز دور رہ گئے تو میں نے اشارہ کیا اور یہ اشارہ پاتے ہی ہم سب نے گولیوں کی ایک باڑھ ماری۔ گولیوں سے تو لاتعداد بونے مرے ہی مگر گولیوں کی آواز سے بھی بہت سے سہم کر گر گئے اور فوراً مر گئے۔ باقی جو بچے تو وہ چیختے چلاتے ہال سے باہر بھاگنے لگے۔ عجیب افراتفرقی مچ گئی۔
"رک جاؤ۔۔۔ رک جاؤ۔ کہاں بھاگے جاتے ہو۔" نجمہ نے اپنا عصا اٹھا کر ہوا میں لہرایا اور چلانے لگی۔

اس کی آواز سن کر بونے رک گئے ، میں نے دیکھا کہ اس وقت نجمہ کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ وہ ان نگاہوں سے ہمیں کافی دیر تک دیکھتی رہی اور پھر بولی۔
"قیدیو! تم نے میرے بہت سے آدمیوں کو مار ڈالا۔ تمہارے پاس جادو کی لکڑیاں ہیں جو آگ اگلتی ہیں۔ ایسی ہی لکڑی ہمارے اس دشمن کے پاس بھی ہے جس نے میری اس دنیا پر قبضہ کرنا چاہا تھا۔"
"بالکل ٹھیک بالکل ٹھیک۔"کمانڈر نے جوش میں بھر کر کہا۔
"اس کے پاس ایک لکڑی تھی اور تمہارے پاس کئی ہیں۔" نجمہ نے کہا۔
"ہاں ان کے پاس کئی ہیں۔" کمانڈر نے ہاں میں ہاں ملائی۔
"میں تمہارا یہ قصور معاف کرتی ہوں کہ تم نے میرے آدمیوں کو مار ڈالا۔ مگر میں اب تمہیں ایک اور سزا دیتی ہوں۔تم زندہ آگ میں نہیں جلائے جاؤ گے۔ بلکہ اپنی ان لکڑیوں کے ساتھ تم پاتال کے اس کونے میں جاؤ گے جہاں ہمارے دشمن کی حکومت ہے۔ وہاں جاکر تم ہمارے اس دشمن کو یا تو ختم کردوگے یا پھر خود ختم ہوجاؤگے۔ مجھے یقین ہے کہ میری رعایا کو یہ بات پسند آئے گی۔"

نجمہ جب اتنا کہہ کر چپ ہوگئی تو بونے خوشی کے نعرے لگانے لگے اور پھر وزیر اعظم نے اٹھ کر کہا۔
"مقدس بام بو کی بیٹی نے ان لوگوں کی بڑی اچھی سزا تجویز کی ہے ہم سب کو ان کی یہ سزا منظور ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ملکہ جلد سے جلد ان کو پاتال کے کونے میں بھیجے۔"
"ٹھیک ہے" نجمہ نے کہنا شروع کیا۔
"بس تو اے قیدیو! تمہاری زندگی کے دن پورے ہوگئے۔ تم لوگ اب قید خانے میں جاؤ۔ تم اتنے آرام کرو اور خود کو ہمارے دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرو۔اس کے بعد ہم تمہیں آزاد کر کے پاتال کے کونے کی طرف بھیج دیں گے۔"

نجمہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی اور جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ تمام بونے ایک دم پھر سجدے میں گر گئے اور نجمہ ان پر ایک نظر ڈالتی ہوئی واپس چلی گئی۔ نجمہ کے جانے کے بعد بونوں نے اپنا سر اٹھایا اور پھر وہ کھڑے ہوگئے۔ بونوں کا کمانڈر اپنے ہاتھ میں وہی گیند تھامے ہوئے آہستہ آہستہ ہماری آنے لگا۔یہ دیکھ کر میں نے جیک سے کہا۔ "ایسا لگتا ہے جیسے اس بونی مخلوق کے پاس اس گیند کے علاوہ اور کوئی دوسرا ہتھیار نہیں ہے۔"
" جی ہاں آپ کا خیال درست ہے۔ اگر دوسرا کوئی ہتھیار ہوتا تو اسے یہ لوگ تھوڑی دیر پہلے ضرور استعمال کرتے۔"جیک نے جواب دیا۔
"فیروز تم نے کچھ اندازہ لگایا۔۔۔ جان نے کہنا شروع کیا۔ "نجمہ اچانک اتنے جلد کیسے بدل گئی؟"‘
"کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ میں عجیب شش و پنج میں تھا۔ میرا تو سوچتے سوچتے دماغ خراب ہوگیا ہے۔"
"میں سمجھتا ہوں کہ یہ نجمہ نہیں ہے بلکہ اس کی صورت سے ملتی جلتی کوئی اور عورت ہے۔" امجد نے جواب دیا۔
"نہیں یہ کیسے ممکن ہے ، کیا میں اپنی بیٹی کو نہیں پہچان سکتا۔"
"یا پھر ہوسکتا ہے کہ اسے بونی مخلوق نے نجمہ کو کوئی ایسی چیز سنگھا دی ہو، جس کی وجہ سے اس کی یادداشت کھو گئی ہو۔"جان نے کہا۔
"ہاں یہ بات دل کو لگتی ہے۔ میں نے کہا۔ "ہو سکتا ہے کہ یہی بات ہو۔ مگر اب خاموش رہئے، بونا کمانڈر آرہا ہے۔"

بونا کمانڈر اس گیند کو اپنے ہاتھ میں گھماتا ہوا ہمارے پاس آگیااور اپنی گردن اونچی کر کے ہم سے کہنے لگا۔
"ملکہ کا حکم ہے کہ تمہیں آزاد کردیاجائے۔ تم لوگ اب خود کو آزاد سمجھو۔ میں جانتا ہوں کہ تمہارے پاس آگ اگلنے والی لکڑیاں ہیں اور اور ان کے آگے ہم تمہار کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم تم سے صلح کرلیں۔ تم لوگ کچھ دیر آرام کرلو۔ اس کے بعدتمہیں پاتال کے دوسرے کونے تک جانے والے راستے پر چھوڑ دیاجائے گا یعنی اسی جگہ جہاں سے تمہیں پکڑا گیا تھا۔"
یہ سن کر مجھے خوشی تو بہت ہوئی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کمانڈر کو یہ حقیقت بتاؤں کہ ہم لوگ تو خود ہی جیگا تک جارہے ہیں۔ اس مقام کی باتیں الٹی تھیں۔ ممکن تھا کہ یہ لو گ تب یہ سمجھ کر ہمیں روک لیتے کہ شاید ہم جیگا کے ساتھی ہیں جو وہاں جارہے ہیں۔ ہماری خیریت اسی میں تھی کہ ہم اس وقت ڈر کی نمائش کرتے۔
"نہیں نہیں۔ تم ہمیں پاتال کے کونے میں مت بھیجو ، وہ آدمی ہمیں مار ڈالے گا۔" میں نے جلدی سے کہا۔
"نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ بونے نے خوشی سے پھول کر کہا،"ہم تمہیں وہیں بھیجیں گے۔"

بونا تو اکڑ دکھاتا ہوا واپس چلا گیا اور ہم لوگ وہیں ہال میں ایک طرف بیٹھ گئے۔ بونی فوج بھی ایک ایک کر کے باہر چلی گئی۔ اب ہم اس ہال میں اکیلے تھے۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ بونوں کی ملکہ بد قسمتی سے اب میں نجمہ کو یہی کہوں گا۔ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ اپنی دانست میں وہ چاہتی ہے کہ ہم جیگا کے ہاتھوں مارے جائیں یا پھر اسے مار دیں۔ اسی لئے اس نے ہمیں آزاد کیا ہے، ہمیں شہر میں گھومنے پھرنے کی اجازت شاید اس لئے نہیں دی گئی کہ ہمارے قدموں کے دھماکوں سے مکانات کے گر جانے کا اندیشہ تھا۔ یہ زومبو اس وقت ہمارا قید خانہ تھا اور ہمیں نہ جانے اس میں کتنی دیر تک اور رہنا تھا؟ میرا دل چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح میں اونچی کرسی پر چڑھ جاؤں اور اس راستے کی طرف چلوں جدھر نجمہ گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح نجمہ کا کچھ پتہ چل جائے۔

اس ارادے کو پورا کرنے کی خاطر میں نے پہلے تو پنجوں کے بل اچک کر اونچی کرسی کی طرف دیکھا اور پھر مونہہ پر انگلی رکھ کر ہر ایک کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتا ہوا آہستہ آہستہ اس طرف چلا۔ اونچی کرسی کے ایک حصے کو میں نے ہاتھ سے پکڑ کر اوپر چڑھنا شروع کیا۔ مگر پھر فوراً ہی میرے ارادوں پر اوس پڑ گئی۔ جیسے ہی میرا سر اونچی کرسی پر پہنچا، مجھے راستے میں چار بونے کھڑے ہوئے نظر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں گیندیں تھیں اور مجھے دیکھتے ہی یہ گیندیں انہوں نے میری طرف پھینک دیں۔ اور پھر وہی ہوا جو اب سے کافی دیر پہلے ہوچکا تھا۔ میں بالکل مفلوج ہو گیا اور میرے ہاتھوں میں جان نہ رہی۔ دھڑام سے نیچے گر پڑا۔ میرے ساتھی تیزی سے میری طرف دوڑے اور مجھے اٹھا کر واپس لے گئے۔ میں دیکھ بھی رہا تھا اور سن بھی رہا تھا مگر میرے ہاتھ پاؤں کام نہ دیتے تھے۔ میرے ساتھی مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کررہے تھے مگر مجھے ہوش نہ آتا تھا۔ میری یہ حالت اندازاً دو گھنٹے تک رہی اور اس کے بعد میرے ہاتھوں میں حرکت ہونے لگی اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بونوں کا یہ گیند والا ہتھیار کافی خطرناک تھا ، وہ انسان کو ختم تو نہیں کرسکتا تھا مگر اسے عارضی طور پر بیکار ضرور بنا سکتا تھا۔

میرے اپنے حساب سے تقریباً چھ گھنٹے بعد بونوں کا کمانڈر ہال میں داخل ہوا اور مجھ سے اپنے مائیکرو فون جیسے آلے میں مونہہ کر کے کہنے لگا۔
"اب تم چلنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ تمہیں اسی سڑک سے واپس چلنا ہے۔"
ہم فوراً تیار ہوگئے اور بونے کمانڈر کے ساتھ ساتھ ہال سے باہر آگئے۔ سڑک کے دونوں طرف ہزارہا بونوں کا ہجوم تھا۔ بونوں کے آگے ان کی فوج ایک لمبی قطار میں کھڑی ہوئی تھی۔ فوج کے پر سپاہی کے ہاتھ میں ایک ایک گیند تھی۔ دور دور تک ہمیں بس بونے ہی بونے نظر آتے تھے۔ وہ اپنی زبان میں چلا رہے تھے کمانڈر نے مجھے بتایا کہ وہ وداعی گیت گارہے ہیں۔ سپاہی جب دشمن سے لڑنے کے لئے جاتا ہے تو اسی قسم کے گیت گائے جاتے ہیں۔ ہم لوگ ہال کی سیڑھیوں سے اتر کر اب سڑک پر آگئے تھے۔ میں یہ سوچ کر افسردہ تھا کہ نجمہ کا کیا ہوگا؟ میں نے پکا ارادہ کرلیا تھا کہ نجمہ کو یہاں سے لئے بغیر ہرگز نہ جاؤں گا۔ اور جیسے ہی کمانڈر مجھے سڑک پر چلنے کے لئے کہے گا، پہلے تو میں اسے مار ڈالوں گا اور اس کے بعد بندوقوں اورریوالوروں سے گولیاں برساتا ہوا اپنے ساتھیوں کے ساتھ اندر زومبو میں جاؤں گا اور نجمہ کو زبردستی پکڑ کر اپنے ساتھ لے آؤں گا۔ میرا یہ ارادہ پورا ہونے میں اب کچھ دیر نہیں تھی کہ اچانک مجھے شور سنائی دیا۔ میں نے دائیں طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ بہت سے بونے ایک اونچی سی گاڑھی کو کھینچتے ہوئے اسی طرف آرہے ہیں۔ اس گاڑی میں پہئے لگے ہوئے تھے اور بہت غور سے دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس گاڑی میں نجمہ بڑے شاہانہ انداز میں بیٹھی ہوئی تھی۔

نجمہ کا لباس بڑا خوبصورت تھا۔ وہ ایک لمبا گاؤن پہنے ہوئے تھی جو کھڑے ہونے پر یقینا اس کے قدموں تک آتاہوگا۔ اس کے سر پر ابھی تک وہ حسین تاج رکھا ہوا تھا اور ہاتھ میں وہ جگمگاتا ہوا عصا ابھی تک موجود تھا۔ گاڑی ہمارے قریب آکر رک گئی نجمہ غضب ناک نظروں سے ہمیں اس وقت بھی دیکھ رہی تھی۔ اپنا عصا والا ہاتھ اس نے اوپر اٹھایا اور ہجوم خاموش ہوگیا۔
"قیدیو! مجھے خوشی ہے کہ تم ہمارے دشمن سے لڑنے جارہے ہو۔ ابھی تمہارے لئے بہت عمدہ کھانا لایاجائے گا تم اسے کھاؤگے اور ہم تمہاری سلامتی کی دعائیں مانگیں گے۔ اس کے بعد تمہیں اسی جگہ لے جایاجائے گا جہاں سے تمہیں پکڑا گیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ تم کوئی ایسی حرکت نہیں کرو گے جس کی وجہ سے تمہیں پھر مفلوج ہونا پڑے۔ تمہارے ساتھ صرف دس بڑے بڑے افسر جائیں گے۔ ان کے ہاتھوں میں مفلوج کردینے والی گیندیں ہوں گی۔ ان افسروں کے ساتھ میں بھی چلوں گی۔ اور جب تک تمہیں اس مقا م پر غائب ہوتے ہوئے نہ دیکھ لوں گی۔ جہاں سے تم ہماری دنیا میں کودے تھے ، مجھے چین نہ آئے گا۔ واپسی پر مجھے مقدس باپ بام بو کے درشن بھی کرنے ہیں۔۔ کیوں میری رعایا۔۔۔ کیا میں نے ٹھیک کہا۔۔۔؟"
نجمہ کے یہ پوچھتے ہی ہزاروں آوازیں آئیں۔۔۔
"ملکہ سچی ہے، ملکہ نے ٹھیک کہا ہے۔"
"بس تو پھر میرے حکم کی تعمیل کی جائے۔۔۔"

نجمہ کے حکم کی فوراً ہی تعمیل کی گئی۔ ہمارے لئے بڑے مزے دار کھانے لائے گئے۔ اس میں گوشت اور عجیب و غریب سبزیاں شامل تھیں، یہ سوچے سمجھے بغیر یہ گوشت کس کا ہے اور سبزیاں کیسی ہیں؟ ہم نے کنگلوں کی طرح فوراً ہی سارا کھانا چٹ کرلیا۔ اس کے بعد سنکھ کی آواز والے بگل بجنے لگے اور بونی مخلوق چیخ چیخ کر نعرے لگانے لگی۔ فوج میں سے دس افسر نکل کر ہمارے دائیں بائیں کھڑے ہوگئے۔ ہمیں چلنے کے لئے مجبور کیا گیا تو ہم آہستہ آہستہ آگے قدم بڑھانے لگے۔ میں دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ نجمہ کو اغوا کرنے کا موقع اس وقت بالکل نہیں ہے ، فی الحال تو اسے اپنے ساتھ چلنے دینا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ آگے جاکر کوئی صورت اسے ان بونوں سے بچانے کی نکل آئے۔ اب ہوا یہ کہ سب سے آگے آگے تو ہم چلنے لگے اور ہمارے پیچھے نجمہ کا رتھ جسے پچاس بونے کھینچ رہے تھے۔ راستے میں ہر طرف سے ملکہ کو سلامی ملتی رہی۔ لوگ سجدے میں گرتے رہے ، پھول برستے رہے اور نعرے لگتے رہے۔ آخر کار کچھ دیر کے بعد ہم لوگ اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے اوپر چڑھنے کا راستہ شروع ہوتا تھا۔ یہاں پہنچ کر ملکہ گاڑی سے اتر گئی اور اس نے بونوں کو رخصت کردیا۔ صرف وہی دس بڑے افسر باقی رہ گئے جن کے ذمے ہمیں آخر تک پہنچانے کا کام تھا۔ نجمہ اب پیدل چل رہی تھی۔ جب بھی میں اس کی طرف دیکھتا وہ مجھے ایسی غضب ناک نظروں سے گھورتی کہ میں پیچ و تاب کھاکر رہ جاتا۔ اختر نے کئی بار کوشش کی کہ اپنی بہن سے بات کرے مگر نجمہ اس کی طرف دیکھتی ہی نہیں تھی۔

جب وہ سرنگیں آگئیں جن سے گزر کر ہم اس مقام پر آئے تھے جہاں سے بونوں کی دنیا بہت نیچے نظر آتی تھی تو نجمہ نے پہلے ہم کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ مجبوراً ہم سرنگوں میں پہلے داخل ہوگئے۔ کافی دیر تک ہم اسی طرح چلتے رہے۔ حتی کہ وہ سیڑھیاں آگئیں جن کے برابر ہی بونوں کے چڑھنے کے لئے چھوٹی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں ہم ان سیڑھیوں پر چڑھنے لگے۔ نجمہ ہمارے پیچھے پیچھے تھی۔ اور اب کچھ ہی دیر بعد وہ مقام آنے والا تھا جہاں پھوس بچھا ہوا تھا اور جس کے اوپر وہ سوراخ تھا جس میں سے کود کود کر ہم لوگ پہلی بار اس چھوٹی سی دنیا میں داخل ہوئے تھے ۔ یہاں پہنچ کر نجمہ نے کہا۔
"قیدیو! تم اب آزاد ہو، اپنی رسی اوپر پھینک کر تم اس کے ذریعے لٹکتے ہوئے اوپر جا سکتے ہو۔ مگر یاد رکھو ہمارے دشمن کو ختم کرنا تمہارا سب سے پہلا کام ہوگا۔ میں چاہتی تو تمہیں زندہ آگ میں جلوا دیتی۔ مگر میں نے ایک پنتھ دوکاج والا کام کیا ہے۔ تمہاری مدد سے میں اپنی دنیا کے ایک دشمن کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔"

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں ، نجمہ کو بچانے کا بس اب صرف آخری موقع تھا۔ اگر میں زبردستی کرتا تو اس کے افسر مجھے مفلوج کردیتے۔ یہ جانتے ہوئے بھی میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ اس آخری موقع کو ہرگز ہاتھ سے نہ جانے دوں گا اور نجمہ کو ان موزیوں کے چنگل سے چھڑانے کی ایک زور دار کوشش ضرورکروں گا۔ نہ جانے نجمہ میرے دل کا یہ راز کیسے جان گئی۔ کیوں کہ اس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
"میں جانتی ہوں کہ تم کیا سوچ رہے ہو۔ مگر میں تمہارا یہ ارادہ ہرگز پورا نہ ہونے دوں گی۔"
" یہ کیا سوچ رہا ہے ملکہ۔۔۔؟" ایک افسر نے آگے بڑھ کر پوچھا۔
" یہ قیدی چاہتے ہیں کہ مجھے زبردستی اٹھا کر لے جائیں۔۔۔ کیا تم ایسا ہونے دو گے؟"
"ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔۔۔" بونے افسر نے ایک ساتھ چلائے اور خوفناک نظروں سے ہمیں گھورنے لگے۔

" میں ان لوگوں کے خطرناک ارادوں کو محسوس کررہی ہوں۔ افسرو، اس سے پہلے کہ یہ لوگ تمہیں کچھ تکلیف پہنچائیں تم اپنی گیندیں مجھے دے دو۔ میں قد میں ان قیدیوں کے برابر ہوں اس لئے جیسے ہی انہوں نے کوئی غلط حرکت کی ، میں فوراً دس کی دس گیندیں ایک ساتھ ان کی طرف پھینک دوں گی۔۔لاؤ جلدی دو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پہلے اپنا وار کر بیٹھیں۔"
"ملکہ سچی ہے۔ ملکہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ " بونوں نے ایک ساتھ چلا کر اپنی اپنی گیندیں نجمہ کو دے دیں۔
گیندیں اپنے قبضے میں کرنے کے بعد اچانک نجمہ نے اپنے جسم پر لپٹا ہوا وہ گاؤن ایک جھٹکے کے ساتھ کھینچ کر دور پھینک دیا۔ میں نے جب غور سے دیکھا تو اس وقت وہ انہیں پتوں کے لباس میں ملبوس تھی جس میں غائب ہونے سے پہلے تھی ، میں نے دیکھا کہ نجمہ کے چہرے پر سے غصے کے آثار اچانک ختم ہوگئے اور پھر اس نے بڑی ملائم لیکن گھبرائی ہوئی آواز میں مجھ سے کہا۔
"کیا دیکھ رہے ہیں ابا جی۔۔ خدا کے لئے جلدی سے ان کمبختوں کو ختم کر دیجئے۔"

دونوں جہاں کی دولت بھی اگر مجھے مل جاتی تو مجھے اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی نجمہ کے ان الفاظ کو سن کر ہوئی اس سے کچھ پوچھنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ جیک تو جلدی سے سوراخ کے دہانے پر رسی باندھنے میں مصروف ہوگیا۔ اس کی مدد سوامی نے نیچے گھوڑا بن کر کی تھی۔ اور ادھر میں نے امجد اور جان کے ساتھ ہی اپنا ریوالوارنکال لیا۔ بونے ابھی کچھ سمجھنے بھی نہ پائے تھے کہ ہماری گولیوں نے انہیں کٹے ہوئے درختوں کی طرح زمین پر گرا دیا۔ گولیوں کی آواز زبردست گونج پیدا کرنے لگیں اس عرصے میں اختر دوڑ کر نجمہ سے لپٹ گیا۔
"ابا جی جلدی سے اوپر چلئے۔۔ دیر مت کیجئے۔" نجمہ نے اختر کو لپٹاتے ہوئے کہا۔
اتنا کہہ کر نجمہ نے وہ دس گیندیں تیزی کے ساتھ دور پھینک دیں۔ زمین پر گرنے سے پہلے ہی وہ گیندیں پھٹ گئیں اور ان میں سے سرخ دھواں نکل کر ہر طرف پھیلنے لگا۔ مگر اس سے پہلے کہ دھواں ہم لوگوں تک پہنچتا۔ ہم رسی سے لٹکتے ہوئے اور جیک و سوامی کا سہارا لیتے ہوئے اوپر پہنچ گئے۔ اوپر پہنچ کر ہم نے جیک اور سوامی کو بھی اوپر کھنچ لیا۔ اب ہم لوگ وہیں تھے جہاں سے پہلے امجد نے تختے توڑے تھے۔ اس منحوس جگہ پر پہنچتے ہی ہم لوگوں نے تیزی سے آگے ہی آگے بھاگناشروع کردیا۔ شاید ہم لوگ دس منٹ تک اسی طرح بھاگتے رہے اور جب یہ سرنگ ختم ہوکر ایک چھوٹے سے ہال میں مل گئی تو ہم رک گئے اس ہال میں ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ بہہ رہا تھا۔ ہم نے پہلے یہ پانی پیا اور پھر زمین پر بیٹھ گئے۔ مشعل کی روشنی میں مجھے نجمہ کا چہرہ پیلا نظر آیا۔

میں نے بڑی محبت کے ساتھ اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
"نجمہ بیٹی۔۔۔! آخر یہ سب کیا تھا؟"
"ابا جی پہلے تو میں اپنے ان الفاظ کی معافی چاہتی ہوں جو میں نے آپ لوگوں کو کہے تھے۔ میں سچ کہتی ہوں کہ وہ الفاظ ادا کرنے کے لئے مجبور تھی۔"
" نہیں بیٹی۔۔ ہمیں کوئی شکوہ نہیں۔"جان نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔" میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں، تم نے بڑی عقل مندی کا ثبوت دیا، مگر میں چاہتا ہوں کہ مختصر لفظوں میں تم یہ سب باتیں ہمیں بتاؤ۔"

"افوہ۔۔۔ وہ بڑے خطرناک لوگ تھے" نجمہ نے کہنا شروع کیا۔
"جب ہم پہلی سرنگ میں چل رہے تھے تو امجد صاحب میرے پیچھے تھے، ایک جگہ شاید ان کوچوٹ لگی اور وہ رک گئے، میں مڑ کر ان کی مدد کے لئے جانا ہی چاہتی تھی کہ اچانک میں نیچے گر پڑی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں میں پھوس پر گری تھی۔ میں جلدی سے کھڑی ہوگئی اور تب میں نے دیکھا کہ دس بونے وہاں کھڑے ہوئے تھے۔ انہوںنے فوراً ایک گیند میری طرف پھینکی۔ میں مفلوج ہوگئی۔ کچھ دور پیدل چلنے کے بعد پچاس کے قریب بونے ایک ڈولی لے کر آئے ، مجھے اس ڈولی میں لٹا دیا گیا اور وہ لوگ تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگے۔ راستے میں ان لوگوں کا وزیر اعظم مجھے مل گیا اور وہ بھی میرے ساتھ ہی ڈولی میں بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں بام بو درخت کی بیٹی ہوں اور اس مخلوق کی ملکہ میں بہت پہلے اس جگہ سے بھاگ گئی تھی اور آج دوبارہ وہاں آگئی ہوں۔۔ میں سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی مگر ہاتھ نہیں ہلا سکتی تھی۔مجھے بتای گیا کہ جو لوگ مجھے پکڑ کر لے گئے تھے وہ اب میری تلاش میں نیچے کو د پڑے ہیں، انہیں گرفتار کیاجائے گا اور میں جو سزاان کے لئے تجویز کروں گی ، وہی سزا انہیں دی جائے گی۔"
"خوب! انہیں ہمارے نیچے کودنے کا بھی علم ہو گیا تھا"۔ امجد نے حیرت سے کہا۔

Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:16

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں