ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 15 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-14

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 15

kali-dunya-siraj-anwar-ep15



پچھلی قسط کا خلاصہ :
زمین دوز دنیا میں پہنچ کر انہیں کھانے کی فکر ہوئی اور امجد نے جب ایک پودے کا پھل توڑنا چاہا تو پودے کے تمام پتوں نے امجد کے گرد لپیٹ کر اسے گویا اپنے قبضے میں کر لیا، بڑی مشکلوں سے امجد کو ان خونخوار پودوں سے چھڑایا گیا۔ پھر وہ لوگ سرنگوں کی بھول بھلیوں سے گزرتے جا رہے تھے کہ اچانک نجمہ ان سب کے درمیان سے غائب ہو گئی۔ نجمہ کے پیروں کے نشانات سے امجد نے سراغ لگایا کہ وہ کس جگہ سے غائب ہوئی ہوگی۔ مگر جیک کو امجد پر جیگا ہونے کا شبہ ہوا اور جیک امجد پر پل پڑا۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

"تمہارے علاوہ جیگا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تم ہی جیگا ہو۔ تم اتنی آسانی سے ہم سب کو ختم نہیں کر سکتے۔" جیک نے غصہ سے کہا۔
"جیک۔۔۔۔ خدا کے واسطے میری بات سنو۔" امجد نے التجا بھرے لہجے میں کہا۔
"یقین کرو میں جیگا نہیں ہوں۔ مجھ سے کیسی بھی قسم لے لو۔ یہ راستہ تو میں نے صرف اندازے سے تلاش کیا ہے۔ میری بات مانو مجھے پہلے سے اس راستے کا ذرا بھی پتہ نہ تھا۔۔۔۔ فیروز صاحب خدا کے لئے آپ ہی ذرا انہیں سمجھائیے۔"
"فیروز صاحب آپ اس کی باتوں میں مت آئیے گا۔۔۔ اس سے نپٹنا میں اچھی طرح جانتا ہوں۔" جیک نے تیز آواز میں کہا۔

میں اس وقت ایک عجیب شش و پنج میں مبتلا تھا۔ شبہ تو مجھے بھی یہی ہوا تھا کہ امجد جیگا ہو سکتا ہے مگر جس التجا اور بے قراری کے ساتھ امجد خود کو بے قصور ثابت کر رہا تھا اس سے میرا دل بھی پسیجنے لگا۔ مجھے پھر جیگا کی کہی ہوئی باتیں یاد آنے لگیں کہ آپ کی پارٹی کا ایک ممبر جیگا ہے۔ ہمارے دل صاف ہو گئے تھے مگر اب پھر یہ شبہ پکا ہو گیا۔ امجد دراصل ہمیں راستے میں ملا تھا اس لئے اسی پر شک جاتا تھا۔ یہ حالت اتنی عجیب تھی کہ میرا دماغ چکرا گیا۔ میں نے جیک کو روک دیا کہ وہ ابھی امجد پر حملہ نہ کرے۔ مگر جیک پر انتقام کا بھوت سوار تھا۔ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ امجد کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔
"جلد بازی سے کام مت لو جیک۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ ہمیں بعد میں پچھتانا پڑے۔" جان نے با رعب آواز میں کہا۔
جیک آگے بڑھتے بڑھتے اچانک رک گیا۔
"امجد کو موقع دینا چاہئے ، اگر یہ جیگا نہیں ہے تو اسے یہ بات ثابت کرنی پڑے گی۔" سوامی نے نرم آواز میں کہا۔
"میں۔۔۔۔ میں کیسے ثابت کر سکتا ہوں۔" امجد نے بوکھلا کر کہا؛
"کس طرح ثابت کر سکتا ہوں۔"
" تم بے شک ثابت نہیں کر سکتے مگر ایک طریقہ ہے۔" جیک نے کہا۔
"کون سا۔۔۔۔؟"
" میں تمہیں قتل کر دیتا ہوں ، اگر تم جیگا ہوئے تو یا تو بچ جاؤ گے یا غائب ہو جاؤ گے یا خود کو تبدیل کرلو گے۔"
" لیکن اگر میں جیگا نہیں ہوا تو قتل کرنے کے بعد آپ لوگ مجھے پھر سے زند ہ کرلیں گے؟"
امجد کی یہ بات سنتے ہی میں کانپ گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس بات کو ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ امجد بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔
"آپ مجھے اطمینان دلا دیجئے کہ مجھے مار ڈالنے کے بعد پھر سے زندہ کر لیں گے تو میں مرنے کے لئے تیار ہوں۔"
سب یکایک یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ جیک کا اٹھا ہوا ہاتھ نیچے گر گیا اور وہ امجد کو بری طرح گھورنے لگا۔
"شاید آپ حضرات کے دلوں میں کچھ رحم پیدا ہو رہا ہے۔" امجد نے کہنا شروع کیا:
" مگر میں رحم کی درخواست نہیں کروں گا، کیونکہ سوچ بچار میں کافی وقت ضائع ہو چکا ہے۔ اور نجمہ نہ جانے اب ہم سے کتنی دور جا چکی ہیں میں چاہتا ہوں کہ انہیں فوراً تلاش کیاجائے اور مجھے اسی جگہ رسیوں سے جکڑ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی جیک صاحب میرے ساتھ رہیں اور پہرہ دیتے رہیں۔ میں کہیں بھاگ کر نہیں جاؤں گا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں وقت ضائع کرنے سے بہتر یہ ہے کہ نجمہ کو تلاش کیا جائے۔ جب وہ مل جائیں تب میرے حق میں فیصلہ کر دیا جائے ، مجھے آزاد کرنا چاہیں آزاد کر دیں، ختم کرنا چاہیں ختم کر دیں۔"
امجد نے یہ باتیں ایسی بے کسی اور التجا کے ساتھ کہی تھیں کہ میرا دل پسیج گیا اور میں نے اس سے کہا:
"نہیں امجد ایسا نہیں ہو سکتا۔ مجھے افسوس ہے کہ تم پر شبہ کیا گیا۔ مگر ایسا کرنے کے لئے ہم میں سے ہر شخص مجبور ہے۔ جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں، انہیں تم اچھی طرح جانتے ہو۔ تمہیں میں اپنی ذمہ داری پر آزاد کراتا ہوں۔ اگر تم جیگا ہوئے تب بھی میں سب الزام اپنے سر لے لوں گا۔ ہماری قسمت میں جو لکھا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ اس لئے جیگا سے ڈرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم اگر اسی طرح ایک دوسرے پر شبہ کرتے رہے تو نہ آگے کا سفر کر سکیں گے اور نہ اپنی حفاظت کر سکیں گے۔ جیک صاحب مجھے امید ہے کہ آپ بھی اب مطمئن ہو گئے ہوں گے۔"
جیک کافی دیر تک گردن جھکائے سوچتا رہا اور پھر اتنا کہہ کر چپ ہو گیا۔
"جیسی آپ کی مرضی۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ناحق امجد پر شبہ کر بیٹھا۔ امجد میں تم سے معافی چاہتا ہوں۔"
"معافی کس بات کی۔۔۔ آپ نے جو کچھ کیا اپنے ذاتی فائدے کے لئے نہیں بلکہ سب کی حفاظت کی خاطر کیا۔ مجھے کوئی گلہ نہیں۔ بس اب تو میں یہ چاہتا ہوں کہ جلد سے جلد نیچے اتر کر نجمہ کو تلاش کیا جائے۔"

بات معقول تھی اس لئے ہم لوگ نیچے اترنے کے لئے بالکل تیار ہو گئے۔ امجد کو اس بار ہم نے سب سے آگے رکھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ٹارچ کی روشنی میں نجمہ کے قدموں کے نشانات دیکھتا ہوا چل رہا تھا۔ وہ بے ڈھنگی سی سیڑھیاں طے کرنے کے بعد جلد ہی ہم لوگ پہلے مقام سے کوئی بیس فٹ نیچے اتر آئے۔ یہاں آگے ہی سرنگوں کا وہ جال پھر شروع ہو گیا۔ مشعل کی روشنی بڑا کام دے رہی تھی۔ بعض مقامات پر کئی مخروطی چٹانیں تو ایسی تھیں کہ اگر مشعل نہ ہوتی تو ہم ضرور لہولہان ہو گئے ہوتے۔ایک سرنگ میں سے نکلنے کے بعد کبھی ہم دوسری سرنگ میں گھستے اور کبھی دوسری سے نکل کر تیسری میں۔ نجمہ کے قدموں کے نشانات ہمیں برابر نظر آ رہے تھے۔ کئی جگہ، جہاں زمین پتھریلی ہو گئی تھی، یہ نشانات تلاش کرنے میں بہت دقت ہوئی مگر امجد کی ہمت کو شاباش، کہ وہ کسی نہ کسی طرح نشانات ڈھونڈ ہی لیتا تھا۔

میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ ہم لوگ کتنے عرصے تک چلتے رہے۔ خیال یہی ہے کہ شاید ایک گھنٹے تک متواتر چلتے رہے۔ تھکن کی وجہ سے برا حال تھا اور قدم اب آگے بڑھنے سے کترا رہے تھے۔ جیسا کہ میں آپ کو پہلے بتلا آیا ہوں۔ اس زمین دوز دنیا میں دن اور رات کی تمیز کرنا مشکل تھی۔ جس کے ساتھ ہی اب دماغ بھی تھکنے لگا تھا۔ سر بھاری بھاری ہو رہا تھا اور آنکھیں بند ہوئی جاتی تھیں۔ اس حالت سے ہم نے اندازہ کر لیا کہ باہر کی دنیا میں یقیناً رات ہو چکی ہے اور اب اگر ہم کچھ گھنٹوں کے لئے سو نہ گئے تو مر جائیں گے۔ مگر کس طرح سو سکتے تھے ! نجمہ کی گمشدگی نے جو صدمہ پہنچایا تھا اس نے تو میری آنکھوں کی نیند اڑا رکھی تھی!

خدا خدا کر کے سرنگوں کا وہ جال ختم ہوا اور ہم ایک کھلی ہوئی جگہ میں آ گئے۔ یہ جگہ ایک بہت بڑا تہہ خانہ لگتی تھی۔ کیونکہ مشعل کی روشنی اس جگہ آ کر ہلکی ہو گئی تھی اس لئے سامنے کی طرف ہمیں اندھرا ہی اندھیرا نظر آ رہا تھا۔ اوپر چھت میں ویسی ہی نوکیلی چٹانیں لٹک رہی تھیں۔ ایک عجیب قسم کی بو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور اگر ہم سانس بھی لیتے تھے تو اس کی آواز ہمیں صاف سنائی دیتی تھی۔ ہمارے آگے ایک صاف اور چٹیل میدان تھا۔ ہم جلدی سے اس میدان میں پہنچے مگر پھر اچانک رک گئے۔ کیونکہ یہ میدان پندرہ گز آگے جا کر ختم ہو جاتا تھا اور اس کے بعد نہ جانے کتنے ہزار فٹ گہرا کھڈ تھا۔ ہم لوگ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھے اور اس جگہ جا کر کھڑے ہو گئے جہاں یہ میدان ختم ہو جاتا تھا۔ جیسے ہی میں نے نیچے جھانک کر دیکھا تو حیرت کی وجہ سے گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

"کیا بات ہے فیروز۔۔۔ نیچے کیا ہے؟" جان نے آگے بڑھتے ہوئے پوچھا۔
"میں۔۔۔ میں کیا بتاؤں، آپ خود دیکھ لیجئے۔" تعجب کی وجہ سے میری زبان لڑکھڑا گئی۔
"ارے یہ کیا۔۔۔ کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔" جان نے نیچے جھانکتے ہوئے کہا۔
"یہ گھر ہیں ہی چھوٹے یا پھر ہمیں بلندی سے چھوٹے نظر رہے ہیں۔"
جس چیز کو دیکھ کر میں اچنبھے میں رہ گیا تھا وہ یہی گھر تھے۔ جس جگہ ہم کھڑے تھے شاید وہاں سے تقریباً دو سو فٹ نیچے ایک چھوٹی سی دنیا آباد تھی۔ یہ گھر درحقیقت بہت چھوٹے تھے۔ اور جیسا کہ جان کا خیال تھا یہ بلندی سے چھوٹے نظر نہیں آ رہے تھے بلکہ تھے ہی چھوٹے۔ یہ دنیا کافی بڑی تھی اور اس میں سڑکیں بھی تھیں اور ان سڑکوں پر بہت ہی عجیب و غریب گاڑیاں چل رہی تھیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ گاڑیاں کون سی قوت سے چل رہی تھیں۔ بہرحال ایک اچھی خاصی رفتار سے چل ضرور رہی تھیں۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کے پاس مجھے کچھ چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ شہر ہمارے ہاں کے شہروں سے ذرا بھی مختلف نہ تھا۔ گھروں میں روشنی ہو رہی تھی اور کھڑکیوں سے یہ روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی۔ سڑکوں پر بجلی کے قمقمے لگے ہوئے تھے۔ اور اسی لئے سڑکیں روشن تھیں۔ اتنی اونچائی سے مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں کسی ہوائی جہاز میں بیٹھا ہوا ہوں اور اس کی کھڑکیوں میں سے کسی شہر کو رات کے وقت دیکھ رہا ہوں۔

" یہ کون سی جگہ ہے، ہم کہاں آ گئے ہیں ابا جی۔۔۔"
اختر کے مطلب کی چیز تھی اس لئے اس نے چہک کر پوچھا۔
"دیکھا۔۔ میں آپ سے کیا غلط کہتا تھا۔۔ یہ اسی قوم کے گھر ہیں۔" امجد نے کہا۔
"مگر یہ قوم تو ترقی یافتہ معلوم ہوتی ہے۔"جان نے حیرت سے کہا۔
"ان کے مکانات بنانے کے طریقے اور روشنی کے انتظامات سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔" میں نے جواب دیا۔
"آئیے اب نیچے چلیں۔ مگر چلنے سے پہلے اپنے اپنے ہتھیار سنبھال لیجئے۔" امجد نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔

ابھی ہم لوگ واپس چلنے کے لئے مڑے ہی تھے کہ اچانک اسی مقام پر کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ مجھے اتنی حیرت ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتا میں آپ کو کیا بتاؤں کہ میں نے کیا دیکھا؟ اس چھوٹے سے میدان میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے انسان کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے قد مشکل سے کوئی ایک فٹ کے ہوں گے۔ شکل و صورت ان کی بڑی عجیب تھی ، کان اوپر سے نوکیلے تھے۔ تھوڑی لمبی اور چپٹی ناک۔ اس کے علاوہ اور سب چیزیں ان کی انسانوں جیسی ہی تھیں۔ وہ سب بے حد چست اور سرخ رنگ کا لباس پہنے ہوئے تھے۔ ہر ایک کے سر پر ایک ٹوپی تھی جو سرکس کے جوکروں جیسی تھی۔ یعنی پیچھے سے جاکر یہ ٹوپی بالکل پتلی ہو جاتی تھی اور ٹوپی کا یہ پتلا حصہ ان میں سے ہر ایک کے کندھے پر پڑا ہوا تھا۔ سب سے آگے ایک بونا نیلی وردی پہنے کھڑا ہوا تھا۔ آسانی کے لئے اب اس قوم کے لوگوں کو میں بونا ہی کہوں گا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس لمبی چوڑی فوج کا کمانڈر تھا۔

آپ اسے حیرت کہہ لیجئے یا پھر ڈر، کہ ہم لوگوں نے ریوالور والے ہاتھ نیچے کر لئے۔ کمانڈر کے ہاتھ میں ایک جھنڈا تھا اور باقی فوج کے ہاتھوں میں عجیب طرح کی گول گول گیندیں، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ گیندیں کس قسم کی تھیں اور وہ بونے ان سے کس قسم کا کام لینا چاہتے تھے۔ اتنا میں ضرورت سمجھ گیا تھا کہ شاید وہ اس بونی فوج کا خاص ہتھیار تھا۔ جس انداز سے وہ ان گیندوں کو پکڑے ہوئے تھے اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اگر ہم نے اپنی جگہ سے ذرا سی بھی جنبش کی تو وہ ان گیندوں سے ضرور کام لیں گے۔ اس مسخری بونی فوج کو دیکھ کر مجھے ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی۔ ہنسی تو اس لئے کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ! اور غصہ یوں کہ یہ ایک فٹے بونے ہم سے ٹکر لینے کے لئے بالکل تیار تھے۔
"فیروز۔۔۔ یہ ایک نئی مصیبت معلوم ہوتی ہے۔" جان نے گھبرا کر کہا۔
"مگر یہ بونے ہمارا کیا کر سکتے ہیں؟" میں نے حقارت سے جواب دیا۔
"دشمن کو کبھی کمزور مت سمجھو۔۔ اگر یہ قوم دوڑ کر ہماری ٹانگوں سے لپٹ جائے۔ کچھ ہمیں گرا لیں اور باقی ہم پر چڑھ جائیں تو بھلا ہم کیا کر سکیں گے۔"

جان کی بات معقول تھی اس لئے میں سوچنے لگا۔ ابھی میں کچھ سوچنے بھی نہ پایا تھاکہ بونوں کی فوج سمجھ میں نہ آنے والی عجیب سی زبان میں چلائی۔ اور ان کے چلاتے ہی چند بونے سات فٹ لمبی ایک سیڑھی اٹھائے ہوئے نمودار ہوئے۔ سیڑھی تھی تو سات فٹ کی مگر اس میں چڑھنے کے لئے ڈنڈے اندازاً چالیس لگے ہوئے تھے۔ اپنی پارٹی میں چوں کہ سب سے آگے میں ہی کھڑا تھا۔ اس لئے چار بونے وہ سیڑھی پکڑے ہوئے میری طرف آئے اور انہوں نے وہ زینہ میرے شانے سے اس طرح لگا دیا جیسے میں کوئی پتھر کا بت ہوں!
اس کے بعد اس بونی فوج کا کمانڈر اکڑتا ہوا آگے بڑھا اور پھر اس زینے پر چڑھنے لگا۔ ابھی تک میری سمجھ میں کچھ نہ آیا تھا کہ وہ کیاکرنا چاہتا ہیں؟ مجھے ان کی یہ حرکتیں دیکھ دیکھ کر ہنسی آ رہی تھی۔ ا پنے طور پر انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم لوگ بالکل موم کی طرح ہیں اور ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس لئے وہ اپنی من مانی کر رہے تھے۔ بونا کمانڈر پوری سیڑھیاں چڑھنے کے بعد میرے شانے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ شانے کے قریب پہنچ کر اس نے اس ڈر سے کہ کہیں نیچے نہ گر پڑے، سہارے کے لئے میرا کان پکڑ لیا اور پھر آہستہ آہستہ اپنا مونہہ میرے کان کے قریب لانے لگا۔ اس کی صورت بہت قریب سے دیکھنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ اس بونی قوم کی صورت ہم لوگوں جیسی ہے۔ فرق صرف کانوں میں اور جسم کے رنگ میں تھا۔ قریب سے دیکھنے کے بعد مجھے یہ رنگ ہلکا اودا نظر آیا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے کہ اچانک میرے کان میں ہلکی سی باریک آواز آئی۔کمانڈر ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہہ رہا تھا۔
"تم لوگ ہماری قید میں ہو۔۔ ہمارے کہنے پر چلو گے تو زندہ رہو گے، ورنہ مار دئیے جاؤ گے۔"

یہ سنتے ہی میں اچانک بری طرح ہنسنے لگا۔ مجھے ہنسی اس بات پر آئی کہ بونی فوج کے کمانڈر نے کس طرح اپنا مطلب بیان کیا تھا۔ چوںکہ اس کی آواز قد کے لحاظ سے بہت باریک تھی اور مجھ تک نہیں پہنچ سکتی تھی اس لئے اس نے زینے کا استعمال کیا تھا۔ ہنسی مجھے اس کی دیدہ دلیری پر بھی آئی کہ ایک فٹ کا انسان ہوتے ہوئے بھی وہ ہم لوگوں سے ٹکر لینے کا ارادہ کر رہا تھا۔
"ہنسو مت اور غور سے سنو۔" کمانڈر نے غصہ ہوکر کہا:
"تم سمجھتے ہو ہم تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ لیکن ایسا نہیں ہے ، ہم چاہیں تو تمہیں ختم کر دیں۔ ہم ابھی تمہیں اپنی طاقت دکھاتے ہیں۔"
اتنا کہہ کر اس نے اشارہ کیا اور فوج کے اگلے بونوں نے اپنے ہاتھوں کی گیندیں ایک ساتھ ہماری طرف پھینک دیں۔ گیندیں زمین سے ٹکرانے بھی نہ پائی تھیں کہ اچانک پھٹ گئیں اور اس میں سے سرنگ رنگ کا دھواں نکل کر ہمارے چاروں طرف پھیل گیا۔ جیسے ہی دھوئیں نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لیا ، مجھے یکایک ایسا لگا کہ میں، میں نہیں ہوں۔ میری قوت بالکل ختم ہو گئی۔ دماغ بالکل بے کار ہو گیا، ایسا معلوم ہوا جیسے میرا دماغ میرا اپنا نہیں ہے اور اس پر کسی دوسرے نے اپنا قبضہ کرلیا ہے۔ میں نے ہاتھ ہلانا چاہا مگر ہاتھ نہیں ہلا۔ ایک طرح میں بالکل مفلوج اور بے بس ہوکر رہ گیا تھا۔ میری حالت دیکھ کر بونا کمانڈر میرے کان میں مونہہ دے کر زور زور سے ہنسنے لگا اور بولا:
"اب کیوں نہیں ہنستے۔۔ ہنسو، دل کھول کر ہنسو۔۔ کیا میں نہ کہتا تھا کہ ہم تمہیں ختم کر سکتے ہیں۔ تمہاری یہ حالت دیر تک قائم نہیں رہے گی۔ مگر اتنے عرصے میں کہ تم اپنی اصلی حالت پر آؤ گے، ہم تمہیں بالکل ختم کر سکتے ہیں۔ اب اگر تم وعدہ کرو کہ کہنے پر چلو گے تو ہم تمہیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔"

ایسی صورت میں ہم کیا کر سکتے تھے اس لئے مجھے مجبوراً وعدہ کرنا پرا اور تب اس بونے کمانڈر نے اپنی جیب سے ایک نیلی لکڑی نکالی اور مجھے سنگھائی، لکڑی سونگھتے ہی میں جیسے ہوش میں آ گیا۔ بونے کے ہاتھ سے وہ لکڑی لے کر میں نے پہلے جان کو سنگھائی اور پھر جب وہ ہوش میں آگیا تو لکڑی اسے دے کر کہا کہ وہ باقی لوگوں کو بھی ہوش میں لے آئے۔ اس کے بعد میں نے بونے کمانڈر سے پوچھا۔
"اب بولو تم کیا چاہتے ہو۔۔۔؟"
"میں کہہ چکا ہوں کہ تم ہمارے قیدی ہو۔ تم ہمارے ساتھ ہمارے زومبو میں چلو گے اور وہاں ہم تمہیں قید کر دیں گے۔"
"زومبو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟"
"زومبو ہمارا بڑا محل ہے جس میں ہماری ملکہ رہتی ہے۔ زومبو ہم نے تم جیسے دیوؤں کے رہنے کے لئے بنایا ہے۔ بہت پہلے تمہارے جیسا ایک آدمی یہاں آیا تھا اور اس نے سب جگہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ ہماری اس سے لڑائی ہے۔ وہ بہت غلط آدمی ہے۔ ہم تمہیں اس کے مقابلے کے لئے تیار کریں گے۔ ہماری ملکہ جو حکم دے گی ہم وہی کریں گے۔"
"تمہاری ملکہ کون ہے۔۔۔۔۔۔؟" جان نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے پوچھا۔
"آہستہ بولو بڈھے۔۔۔ " بونا کمانڈر چیخ کر بولا:
" میرے کانوں کے پردے کیوں پھاڑے ڈالتے ہو۔۔۔ ہاں۔۔۔ تم نے کیا ملکہ کے بارے میں پوچھا تھا۔۔۔ اس کے بارے میں تمہیں سب کچھ بتا دیتا ہوں ، ہم لوگ یہاں ہمیشہ سے رہ رہے ہیں۔ ہماری ملکہ تمہاری جیسی ہے اور اوپر کی دنیا سے ہمارے پاس آئی ہے۔ اب سے بہت عرصہ پہلے وہ پاتال سے باہر، اوپر چلی گئی تھی اور پھر اوپر ہی کی ہوکر رہ گئی۔ آج وہ تمہارے ساتھ اتفاق سے پھر ادھر آ گئی۔ اور ہم نے اسے تم سے چھین لیا۔۔۔ اب وہ پھر ہماری ملکہ ہے۔"
" کیا کہتے ہو۔۔ کیا تم نجمہ کے بارے میں تو نہیں کہہ رہے ؟" میں نے گھبرا کر پوچھا۔
"ابا جی ضرور یہ بونا نجمہ آپاکا ذکر کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔" اختر نے پریشانی سے کہا۔
" جب وہ ہمارے پاس سے گئی تھی تب بھی مقدس بام بو کے پتے پہنے ہوئے تھی اور جب واپس آئی ہے تب بھی مقدس بام بو کے پتوں سے اپنا بدن ڈھانکے ہوئے ہے۔" بونے نے فخریہ انداز سے کہا۔
"او احمق بونے۔۔۔۔۔۔ وہ تمہاری ملکہ نہیں میری بیٹی ہے۔" میں نے غصے سے کہا۔
"ملکہ کبھی کسی کی بیٹی نہیں ہو سکتی۔" بونے نے کہا:
"وہ مقدس بام بو کے تنے سے پیدا ہوتی ہے اور وہیں واپس جا کر مر جاتی ہے"۔
" اس گدھے کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا"۔ سوامی نے کہا:
" مالک آپ تو یہ کہئے کہ آپ ملکہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ اور اسی سے باتیں کرنا چاہتے ہیں۔"
"ٹھیک کہتے ہو۔۔۔" میں نے سوامی کی بات پر عمل کرتے ہوئے کہنا شروع کیا:
"اے مقدس بام بو کے پجاری اور اے اپنی ملکہ کے نمک خوار، تو ہمیں اپنی ملکہ تک پہنچا دے۔۔۔ ہم اسی سے بات کریں گے۔"
بونا یہ سنتے ہی خوش ہو گیا اور بولا:
"خوب خوب ملکہ بھی یہی چاہتی ہے۔ اسی نے ہم سب کو تمہیں گرفتار کرنے کو بھیجا ہے۔ میں ذرا نیچے اتر جاؤں، پھر تم میرے ساتھ وہاں چلو۔"

بونا کمانڈر نیچے اترنے کے بعد اپنی فوج کے پاس پہنچا اور اپنی باریک سی آواز میں انہیں کچھ ہدایتیں دینے لگا۔ ادھر ہم لوگوں میں عجیب چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ نجمہ اس بونی مخلوق کی ملکہ کیسے بن گئی ہے اورپھر ہمیں اپنے پاس بلانے سے اس کا مقصد کیا ہے ؟
" میں نے اس بے وقوف کی باتوں سے جو اندازہ لگایا ہے وہ یہ ہے۔" امجد نے کہنا شروع کیا:
"آواز گو مجھے بہت ہلکی آ رہی تھی مگر میں نے سن سب کچھ لیا ہے۔ یہ قوم خدا کی قدرت سے یہاں پاتال میں بہت پہلے سے آباد ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم لوگ اوپر آباد ہیں۔ یہ کسی درخت وغیرہ کو مقدس مانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ان کی ملکہ مقدس بام بو کے تنے سے زندہ نکلتی ہے اور ان پر حکومت کرتی ہے۔ وہ ملکہ ہمارے قد کے برابر ہوتی ہے۔ شاید نجمہ میں اس ملکہ کی شکل ملتی ہوگی اور یہ قوم کافی عرصے سے بغیر کسی ملکہ کے اپنا کام چلا رہی ہوگی اس لئے انہوں نے نجمہ کو پکڑ لیا ہے۔ چوں کہ وہ پتوں کا لباس پہنے ہوئے ہیں اس لئے یہ احمق سمجھتے ہیں کہ نجمہ ہی ان کی بھاگی ہوئی ملکہ ہے۔"
"تمہارا اندازہ بالکل درست ہے۔ " میں نے آہستہ سے کہا۔
"کہئے انکل۔۔۔۔۔۔" میں نے جان سے پوچھا:
"اب کیا ہم ان بونوں کے ساتھ چلیں؟"
"ضرور چلنا پڑے گا۔۔نجمہ نے ہمیں گرفتار ہی اس لئے کرایا ہے کہ ہم اسے پا لیں۔"
"بالکل۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی تو نہیں ہے۔" امجد نے کہا۔
"‘میرے خیال میں یہ بونے ہمارے ریوالوروں کے استعمال سے واقف نہیں ہیں۔ اگر واقف ہوتے تو ان پر ضرور قبضہ کر لیتے۔" میں نے کہا:
"اس لئے بہتر یہ ہے کہ اپنے ریوالور اور بندوقوں کو استعمال کرنے کے لئے ہم سب ہر وقت تیار رہیں۔"
"بڑی معقول بات کہی ہے تم نے"۔ جان نے کہا:
"لیکن فیروز! وہ بونا یہ بھی تو کہہ رہا تھا کہ ہمارے جیسا کوئی آدمی بہت پہلے یہاں آیا تھا اور اس نے ان بونوں کی دنیا پر قبضہ کرلیا تھا۔ ان کی اس سے لڑائی ہے اور اب ملکہ ہمیں ا س سے لڑنے کے لئے تیار کرے گی۔یہ کیا قصہ ہے؟"
"میرے خیال میں اس کا اشارہ جیگا کی طرف ہے۔ اسی نے پاتال پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اور وہی ان کا دشمن ہے۔"
"واقعہ یہی بات ہے"۔ جان نے جوشیلے لہجے میں کہا:
"فیروز۔۔۔۔۔۔ اگر ہم کسی طرح اس بونی مخلوق کی مدد حاصل کر لیں تو جیگا سے ٹکر لیتے وقت ان کی مدد مل سکتی ہے۔"

بونا کمانڈر شاید چلنے کے لئے تیار تھا ہمیں باتیں کرتے دیکھ کر اس نے اپنے ہاتھ زور زور سے ہلانے شروع کر دئیے۔ ہم نے اس کی بات سمجھ کر جواب دیا کہ ہم چلنے کے لئے بالکل تیار ہیں، کچھ فوج آگے چلی گئی۔ کمانڈر ہمارے ساتھ بیچ میں آ گیا اور باقی فوج ہمارے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ عجیب سماں تھا ہم چھ چھ فٹ کے لوگ ایک فٹ کے انسانوں کے قیدی بنے ہوئے تھے ان کے ساتھ جا رہے تھے۔
راستہ آہستہ آہستہ نیچے جا رہا تھا۔ یہ راستہ کافی صاف ستھرا اور پتھروں سے پاک تھا۔ ہم اگر ایک قدم بڑھاتے تو بونے چار۔۔۔۔۔۔ اس لئے ہمیں چلنے میں بڑی دشواری ہو رہی تھی۔ ہم آہستہ چل رہے تھے مگر ان کے مقابلے میں پھر بھی تیز تھے۔ شایدہم آدھے گھنٹے تک اسی طرح چلتے رہے حتی کہ وہ مکانات قریب آ گئے۔ جو ہمیں بلندی پر سے گڑیوں کے گھر نظر آتے تھے۔ واقعی وہ گڑیوں کے گھر تھے۔ بڑے سے بڑے مکان کی اونچائی بھی مشکل سے کوئی سات فٹ ہوگی۔ یہ بونے انہیں مکانوں میں رہتے تھے۔ اسی تناسب سے ان کی ہر ایک چیز تھی۔ شہر کے اندر تو ہم داخل ہو ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ ہمارے قدموں کے دھماکے سے مکانوں کے گر جانے کا خطرہ تھا اس لئے بونی فوج ہمیں شہر کے کنارے کنارے جانے والی ایک چوڑی سڑک پر لے آئی۔ یہ سڑک بالکل ہماری سڑکوں جیسی تھی۔اس سڑک کے آخر میں مجھے ایک عالی شان محل نظر آ رہا تھا جو ہماری دنیا کے کسی قلعے جیسا لمبا اور اونچا تھا۔ میرے خیال میں یہی زومبو تھا اور بونی فوج کی ملکہ اسی زومبو میں رہتی تھی۔

فوج کے قدموں کی آواز سن کر شہر کے سب بونے جلدی جلدی اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور ہمیں دیکھ دیکھ کر نعرے لگانے لگے۔ بلندی پر سے ہمیں سڑک کے آس پاس جو چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی دکھائی دیں تھیں وہ دراصل یہی بونے تھے۔ ایک دو بار ہمارے برابر سے گھر رگھرر کرتی ہوئی کوئی کالی سی چیز بھی نکل گئی یہ درحقیقت وہاں کی سواری تھی اور جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا یہ سوبیا دھات سے ہی چلتی تھی۔ ہمارے ہاں کی موٹر میں اور پاتال ک اس سواری میں صرف اتنا فرق تھا کہ موٹر پٹرول سے چلتی ہے اور یہ سوبیا سے۔۔۔۔۔۔
بونے اور ان کے بچے (سبحان اللہ ! ان کے قد تو چار اور چھ انچ کے درمیان تھے) ہمیں دیکھ دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے اور شاید اپنی زبان میں ہمیں برا بھلا کہہ رہے تھے۔

بونوں کے شہر کے بارے میں آپ کو کیا بتاؤں، میرا قلم مجبور ہے کہ وہاں کے حالات ٹھیک ٹھیک بیان کر سکے۔ وہ شہر بالکل ہمارے شہروں جیسا تھا۔ سڑکوں پر تانگے بھی چل رہے تھے۔ مگر ان میں گھوڑوں کی جگ کچھ عجیب قسم کے جانور جتے ہوئے تھے۔ سڑکوں پر آدمی چل رہے تھے اور بازاروں میں بڑی بھیڑ تھی۔ پورے شہر پر ایک دودھیا رنگ کی روشنی برس رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے دن نکلا ہوا ہو۔۔ سڑک پر چلتے ہوئے ہم لوگ یوں محسوس کر رہے تھے جیسے کہ گڑیوں کے کسی شہر کا ماڈل اپنے شہر کی نمائش میں دیکھ رہے ہوں۔ اس شہر کی تعریف میں کہاں تک بیان کروں ؟ اگر آپ تصور کریں تو اس شہر کا خاکہ آپ کے ذہن میں کھنچ کر آ سکتا ہے۔

کچھ ہی دیر بعد ہم لوگ زومبو تک پہنچ گئے تھے۔ بڑے دروازے تک پہنچنے کے لئے دس پندرہ بڑی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں اور ان سیڑھیوں کے برابر ہی چھوٹی سیڑھیاں۔ بونی فوج چھوٹی سیڑھیوں پر چڑھنے لگی اور ہم بڑی سیڑھیاں طے کرنے لگے کچھ ہی دیر بعد ہم ایک بڑے ہال میں تھے۔ جگہ جگہ دیواروں میں سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ پوری دیواریں ہی روشن ہوں۔ روشنی کہاں سے اور کیسے نکل رہی تھی؟ یہ اندازہ ہمیں بالکل نہ ہوتا تھا۔ ہال کی سجاوٹ کو دیکھ دیکھ کر میں حیرت میں پڑا جا رہا تھا۔ یہ ہال کسی بہت بڑے قلعے کا معلوم ہوتا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہم زمین کی سطح سے ہزاروں فٹ نیچے پاتال میں نہیں بلکہ انگلینڈ کے کسی قلعے میں چل رہے ہیں۔ لمبے لمبے ستون چکنا فرش اور چھت سے لٹکتے ہوئے جھاڑ فانوس، یہ سب چیزیں ایک قلعے کی سی تھیں۔

میں نے دیکھا کہ بونی فوج باقاعدہ مارچ کرتی ہوئی ہال میں ایک طرف ادب کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ آدھی فوج دائیں طرف اور آدھی بائیں طرف۔ بیچ میں ہم لوگ حیران و پریشان کھڑے تھے اچانک میری نظر ہال میں بالکل سامنے کی طرف گئی۔ میں نے دیکھا کہ دلی کے لال قلعے جیسی ایک اونچی سی کرسی ہال کے بالکل آخر میں بنی ہوئی ہے۔آپ میں سے بہت سوں نے لال قلعے کے دیوان خاص میں بادشاہوں کے بیٹھنے کی یہ سنگ مرمر کی کرسی ضرور دیکھی ہوگی۔ بس یہ کرسی ویسی ہی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہ سنگ مرمر کی نہیں بلکہ سیپ یا پھر کسی اور پتھر کی بنی ہوئی تھی۔ ہم لوگ اس کرسی کے سامنے مجرموں کی طرح کھڑے ہوئے تھے۔

بونی فوج کا کمانڈر اکڑتا ہوا اس کرسی کے نیچے جاکر کھڑا ہو گیا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے فوراً ہی چند بونی لڑکیاں جن کے قد مشکل سے دس دس انچ کے تھے بل کھاتی اور لہراتی ہوئی آئیں اور کرسی کے نیچے ادب کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ ان لڑکیوں کے بعد مجھے چند بونے زرق برق پوشاکیں پہنے ہوئے ہال کے اندر داخل ہوتے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے ایک بونے کو اپنے درمیان میں لے رکھا تھا۔ یہ بونا بہت اونچی سی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ اور دوسرے بونوں سے بالکل الگ نظر آتا تھا۔ اس کا لباس بھی سب سے زیادہ قیمتی تھا اور چال بھی شاہانہ تھی۔ ہمیں حقارت سے دیکھتا ہوا وہ اونچی کرسی کے نیچے ایک چھوٹے سے تخت پر بیٹھ گیا اور جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا وہ اس بونی مخلوق کا وزیر اعظم تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک عصا تھاجسے اس نے تین بار زمین پر بجایا۔
اچانک ہال کے کسی کونے میں سے کچھ بونوں نے سنکھ کی آواز جیسے کچھ بگل بجائے اور سب ادب کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:15

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں