ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 14 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-07

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 14

kali-dunya-siraj-anwar-ep14



پچھلی قسط کا خلاصہ :
فیروز، جان اور ان کی ٹیم زلزلہ کے نتیجے میں زمین دوز کالی دنیا میں پہنچ گئے جہاں ہیرے جواہرات کا ذخیرہ پتھروں کی طرح ہر طرف بکھرا پڑا تھا۔ وہیں اچانک ایک جکاری سے ان کی مڈبھیڑ ہو گئی، قبل اس کے وہ حملہ کرتا نجمہ کے آفاقی ہار کی روشنی کی بدولت وہ موت کا شکار ہو گیا۔ اور اسی وقت جیگا کی آواز ابھری جس نے اپنی کالی دنیا میں فیروز کی ٹیم کی آمد کو خوش آمدید کہہ کر طعنہ بھی دیا اور انہیں آپس میں ایک دوسرے کے مقابل شک و شبہ کا شکار بھی بنا دیا۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

"بہت اچھا، میں یہ پھل لینے جاتا ہوں۔۔۔"
امجد نے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔
"اچھا پھر تم ہی جاؤ۔" جان نے کہا: "مگر اسے کھانا نہیں۔"
امجد نے اپنا نوکیلا چاقو ہاتھ میں لیا اور پھر آہستہ آہستہ ایک پودے کی طرف جانے لگا۔ مخروطی چٹانوں کا سہارا لیتا ہوا اور ادھر ادھر احتیاط سے دیکھتا ہوا وہ اس پودے کے قریب پہنچ گیا۔ میں ںے سوچا کہ امجد کے ساتھ ساتھ میں بھی کچھ پھل توڑ لوں گا، اس لئے میں بھی اس کے پیچھے پیچھے وہاں تک پہنچ گیا۔
وہ پودا۔۔۔ بلکہ پودا کیا اسے درخت کہنا چاہئے، امجد کے قد سے کوئی دو فٹ اونچا تھا۔ اس کے ہاتھی کے کان جیسے پتوں میں ببول جیسے کانٹے تھے اور اس درخت کے پتوں کے بیچ میں خربوزے سے بھی بڑے سرخ پھل لٹکے ہوئے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ یہ پھل ضرور ذائقے دار ہوں گے۔ امجد نے آگے بڑھ کر اس درخت کے ان پھلوں کو کاٹنا شروع کر دیا۔ میں بھی اس کام کے لئے آگے بڑھ ہی رہا تھا کہ اچانک ٹھٹھک گیا۔ اس درخت کے وہ لمبے لمبے پتے اب آہستہ آہستہ نیچے جھک رہے تھے۔ اور اس سے پہلے کہ میں یا امجد آگے پیش آنے والے حادثے کو جان سکتے، درخت کے پتوں نے امجد کو چاروں طرف سے ڈھک لیا۔ اس نے ایک خوفناک چیخ ماری اور شاید وہ غریب ان پتوں سے لڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں نے جلدی سے بقیہ ساتھیوں کو آواز دی اور پھر خود بھی امجد کی مدد کو دوڑ پڑا۔ میری سمجھ میں اور تو کچھ نہیں آیا، بس اپنا چاقو نکال کر میں نے بھی باہر سے پتوں پر وار کرنا شروع کردیا۔ نجمہ خوف کی وجہ سے چلا رہی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی۔
"انہیں بچائیے ابا جی۔۔ انہیں بچائیے۔"
جیک نے گولی چلانی چاہی۔ مگر جان نے اسے فوراً روک دیا اور کہا:
"کیا کرتے ہو بے وقوف! گولی امجد کے بھی لگ سکتی ہے۔ آؤ اپنے چاقوؤں سے اس زندہ درخت کو چھید کر رکھ دو۔"
جب سب نے مل کر اپنے چاقوؤں سے درخت پر حملہ کردیا تو اس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ درخت کے پتے اوپر اٹھنے لگے۔ لیکن اٹھتے اٹھتے بھی وہ امجد کو دبوچنے کی کوشش برابر کر رہے تھے۔ مجھے تو بس ذرا سا موقع چاہئے تھا۔اور یہ موقع ملتے یہ میں نے امجد کی ٹانگیں پکڑ کر اسے فوراً باہر گھسیٹ لیا۔ درخت کے پتے اب اس طرح پھڑ پھڑا رہے تھے گویا اپنے شکار کو جاتے دیکھ کر بے بسی سے کوئی ہاتھ مل رہا ہو۔
امجد کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر میں آبشار کے نزدیک لے آیا۔ وہ غریب لہولہان تھا اور خوف کی وجہ سے اس کا چہرہ پیلا پڑا ہوا تھا۔ ہمارے دل بھی قابو میں نہیں تھے اور ڈر کے باعث ابھی تک ہمارے ہاتھ لرز رہے تھے۔ میں نے نجمہ سے کہا کہ وہ امجد کے زخموں کو پانی سے دھونا شروع کرے ،اتنے میں آس پاس کوئی کھانے کی چیز تلاش کرتا ہوں۔ مگر نجمہ نے آنسو بہاتے ہوئے جواب دیا۔
"نہیں ابا جی مجھے کچھ نہیں چاہئے۔۔ ہائے یہ ہم کہاں آگئے جہاں کے درخت بھی آدم خور ہیں۔"
"روؤ مت بیٹی" جان نے نجمہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
"یہ دنیا ہمارے لئے بالکل نئی دنیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ اگر ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا تو امجد کو اس درخت کے قریب جانے ہی نہیں دیتے۔"

نجمہ کے ساتھ ہی اختر اور سوامی نے بھی امجد کے زخموں کو دھویا۔ جہاں مرہم پٹی کی ضرور تھی وہ کر دی اور اتنے عرصے میں اس ہال میں گھومتا رہا۔ گھنٹے کی آواز ابھی تک برابر آ رہی تھی۔ میں یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس زمین دوز دنیا میں کسی نہ کسی مقام پر جکاریوں کی ایک کافی بڑی تعداد موجود ہے اور یہ مقام زیادہ دور نہیں ہے۔ خطرات کی چکی میں بری طرح پسنے کے بعد اب جکاریوں کا خوف میرے دل سے جاتا رہا تھا۔
مجھے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ ہم سب کو مرنا تو ہے ہی۔ جب اس کالی دنیا میں سے ہماری لاشیں بھی باہر نہیں جا سکتیں تو پھر ہم ڈریں کیوں؟ مرنا ہے تو بہادری کے ساتھ مریں! مجھے اپنی فکر تو نہیں تھی ہاں البتہ بچوں کا غم بری طرح کھائے جارہا تھا۔ میرے ساتھ یہ دو معصوم زندگیاں بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ اس کا مجھے بہت افسوس تھا۔
ہر طرف گھومنے پھرنے کے بعد بھی مجھے کوئی ایسی چیز نہیں نہیں ملی جسے ہم لوگ کھا سکتے۔ بڑی مشکل اور چھان بین کے بعد میں ایک دراڑ میں اگی ہوئی کچھ جڑیں توڑ لایا جو موٹائی میں گاجر جتنی تھی۔ یہ جڑیں میں نے جان کو دے دیں، جان چوں کہ سائنس داں تھا اور جڑی بوٹیوں کو پہچاننے میں خاصی مہارت رکھتا تھا اس لئے اس نے پہلے انہیں سونگھا اور پھر تھوڑا سا چکھا اس کے بعد کہنے لگا۔
"یہ چیز مولی جیسی ہے۔ ہم اسے کھا سکتے ہیں۔"

جان کی زبانی یہ سننا تھا کہ سب بھوکی نظروں سے ان جڑوں کو دیکھنے لگے۔ میں نے ان نظروں کا مطلب سمجھ کر ایک ایک جڑ سب میں بانٹ دی اور پھر امجد کے زخموں کو غور سے دیکھنے لگا۔ نہ جانے آبشار کے پانی میں کیا اثر تھا؟ وہ گندھک کا پانی تھا، فاسفورس کا مادہ تھا یا نہ جانے کیا تھا کہ اس کی مدد سے امجد کے زخم حیرت انگیز طریقے پر اچھے ہو رہے تھے۔ اور امجد اب مسکرا رہا تھا۔ جڑیں گو تھوڑی سی کسیلی تھیں مگر طاقت ور تھیں۔ ان کو کھانے کے بعد یوں لگا جیسے کہ ہم میں پھر سے طاقت آ گئی ہو۔ کھانے کی طرف سے اب ہم بے فکر ہو گئے تھے۔ کیوں کہ اس قسم کی جڑیں زمین کی بیشتر دراڑوں میں جگہ جگہ اگی ہوئی تھیں۔ ہم نے سوچا کہ اگر حلوہ پراٹھا نہیں تو نہ سہی، انسان سبزیاں بھی تو کھا سکتا ہے۔ جب پیٹ بھر گیا تو ہم آپس میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔
"اس گھنٹے کی آواز بتاتی ہے کہ جکاری ہم سے زیادہ دور نہیں ہیں۔" جان نے کہا:
"اور ہم اس جگہ سے اب باہر بھی نہیں جا سکتے۔ فیروز! ان باتوں کو دھیان میں رکھ کر اب تم ہی بتاؤ کہ کیا کیا جائے؟"
"میرا خیال تو یہ ہے کہ اب جب کہ ہمیں اپنی زندگیوں کی امید نہیں ہے، جیگا اور جکاریوں سے چھپنا بے کار سی بات ہے۔ کیوں نہ ہم ان تک پہنچ کر انہیں ختم کرنے کی سوچیں۔ یا تو ہم خود مر جائیں گے یا انہیں ختم کر دیں گے۔"
"بات تو ٹھیک ہے، جان نے کہا، لیکن اب ہمارا اگلا قدم کیا ہو؟ شاگو تو اب ہمیں کچھ نہیں بتا سکتا۔ صرف اس کی دی ہوئی دو چیزیں ہمارے پاس ہیں۔ سوبیا اور آفاقی ہار۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آگے جاکر یہ چیزیں ہمیں کیا فائدہ پہنچائیں گی؟"
"ایک فائدہ تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں"۔
امجد نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا: "ان دونوں چیزوں نے مل کر ایک جکاری کو حفاظتی کپڑے پہننے کے باوجود بھی مار ڈالا اور شاید یہ آفاقی ہار کا ہی کرشمہ ہے کہ میرے زخم اچھے ہو رہے ہیں۔ اور اب مجھے کوئی تکلیف بھی محسوس نہیں ہو رہی۔"
"اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب ہمیں جیگا کے قریب چلنا ہی چاہئے؟" جان نے پوچھا۔
"بالکل، کیوں کہ اس کے بغیر اب کوئی چارہ بھی نہیں ہے"۔ میں نے کہا:
"ہو سکتا ہے کہ وہاں جاکر یہ دونوں چیزیں اپنا کرشمہ پھر دکھائیں۔ شاگو نے تو یہ سب کچھ آپ پر چھوڑ دیا ہے۔ آپ کو اپنی عقل سے کام لے کر یہ طلسم توڑنا پڑے گا۔"
"تم ٹھیک کہتے ہو۔۔ کیوں امجد، کیا اب تم چلنے کے لئے تیار ہو؟"
" جی ہاں۔۔ میں اب بالکل اچھا ہوں۔"

ہم یہ جواب سن کر کھڑے ہو گئے اور سوچنے لگے کہ اب کس طرف جائیں؟ طے یہ پایا کہ سامنے نظر آنے والی سرنگ ہی میں داخل ہوا جائے۔ ہمارے جسم پر سوائے جانگیوں کے اور کوئی لباس تو تھا نہیں۔ جو لباس تھا، تو وہ بھی جگہ جگہ سے پھٹ رہا تھا۔ ہمیں اپنا جسم ڈھانکنے کے لئے بھی کوئی چیز چاہئے تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر کسی طرح ہمیں کسی جانور کی کھال مل جائے تو سب کے جسم ڈھانپنے کے کام آئے۔ اس لئے میں سرنگ میں اِدھر ادھر دیکھتا ہوا چل رہا تھا۔ اس کالی دنیا میں ہم نے اس قدر ہیرے جواہرات دیکھے تھے کہ اب ہماری نگاہوں میں ان کی کچھ قدر نہ رہی تھی۔ راستے میں جگہ جگہ ہمیں ان قیمتی پتھروں کی ڈھیریاں ملتی تھیں اور ہم انہیں پیروں سے ٹھکراتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔ ہم نے صرف ایک مشعل روشن کر رکھی تھی۔ باقی کو اس لئے بجھا دیا تھا کہ نہ جانے کب ان کی ضرورت پڑ جائے! مشعلوں کا تیل اور موم ہمارے لئے بے حد ضروری تھا۔ وہ اگر ختم ہو جاتا تو سوائے ٹارچوں کے اور کوئی ذریعہ ہمارے پاس روشنی کا نہیں تھا۔

یہ سرنگ میرے خیال میں پہلی سب سرنگوں سے زیادہ بڑی اورلمبی تھی۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے کے بعد اس میں جگہ جگہ کچھ دہانے نظر آتے تھے ، کبھی دائیں طرف تو کبھی بائیں طرف۔ ہر دہانہ دراصل ایک نئی سرنگ کا مونہہ تھا۔ یہ سرنگ بالکل سیدھی نہیں تھی بلکہ سانپ کی طرح بل کھائی ہوئی تھی۔ ہر لمحہ مجھے یہی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں ہم میں سے کوئی کم نہ ہو جائے۔ اس لئے میں بار بار آواز دیتا تھا اور اس آواز کا سب جواب دیتے تھے۔ اس طرح مجھے اطمینان ہو جاتا کہ پارٹی کے ممبر پورے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں، ہم نے صرف ایک ہی مشعل جلا رکھی تھی اور چوں کہ سرنگ ٹیڑھی میڑھی تھی اس لئے اس کی روشنی ان لوگوں تک نہیں پہنچتی تھی جو سب سے پیچھے آ رہے تھے۔ پیچھے آنے والے صرف میری آواز کے سہارے ہی آگے بڑھ رہے تھے۔
کافی دیر اسی طرح چلتے رہنے کے بعد میں نے زور سے ایک آواز لگائی:
"سب لوگ موجود ہیں کیا۔۔ جواب دیتے جاؤ۔"
"میں موجود ہوں۔" جان نے کہا۔
" میں ساتھ ہوں۔" جیک کی آواز آئی۔
"میں جیک کے پیچھے ہوں۔" سوامی نے جواب دیا۔
"میں بھی چل رہا ہوں ابا جی۔"اختر نے پیچھے سے آواز دی۔
"میں بھی موجود ہوں۔" امجد نے پکار کر کہا۔
"کچھ دیر تک تو میں انتظار کرتا رہا کہ نجمہ کی آواز آنے والی ہے۔ مگر جب دو منٹ ہوگئے تو میں نے کہا۔
"نجمہ بیٹی! تم نے جواب نہیں دیا۔"
نجمہ کا کوئی جواب نہیں آیا۔
"نجمہ۔۔۔ تم کہاں ہو۔" میں نے یکایک پریشان ہو کر کہا۔
"فیروز صاحب۔ نجمہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔" امجد کی گھبرائی ہوئی آواز آئی۔
"کیا کہا۔۔۔ نجمہ موجود نہیں ہے۔" میں نے خوف زدہ لہجے میں چلا کر کہا۔
"جی ہاں۔۔ آپ رکے رہئے، میں انہیں پیچھے دیکھنے جاتا ہوں۔"
امجد مجھے نظر تو نہیں آیا، البتہ اس کے بھاگنے کی آواز مجھے دیر تک آتی رہی۔ اور پھر اس کے بعد ہی مجھے وہ گونج سنائی دی جو چٹانوں اورغاروں سے ٹکراکر ہم تک پہنچ رہی تھی۔ یہ گونج امجد کی آواز کی تھی وہ باربار نجمہ کو آواز دے رہا تھا مگر اس کے جواب میں نجمہ کی کوئی آواز نہ آتی تھی۔ میرا دل اندر ہی اندر ڈوبنے لگا۔ میں تو خاموش ہو گیا مگر اختر اور سوامی پریشانی کے عالم میں نجمہ کو آوازیں دینے لگے۔
اتنی آوازوں کے بعد بھی جب نجمہ کی کوئی آواز نہ آئی تو مجھے یوں لگا جیسے کہ میری ٹانگوں میں دم نہ رہا ہو۔ میں لڑکھڑا کر زمین پر بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھوں سے میں نے اپنا سر تھام لیا۔ امجد کے قدموں کی آواز دور سے اب قریب آ رہی تھی۔ مجھے اس کی شکل تو دکھائی نہیں دی لیکن اس کی آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہا تھا۔
"میں انہیں کافی پیچھے تک ڈھونڈ آیا ہوں فیروز صاحب۔ مگر ان کا کہیں پتہ نہیں۔"
"مگر وہ تو تمہارے آگے تھی امجد۔ اگر وہ غائب ہو گئی تو تمہیں پتہ کیوں نہیں چلا؟" جان نے پوچھا۔
" ایک جگہ میں ایک نوکیلی چٹان سے ٹکرا کر کچھ دیر کے لئے رکا تھا۔ ایسا لگا ہے کہ وہ اچانک وہیں سے غائب ہو گئیں۔" امجد کی آواز بھرانے لگی۔

"آؤ۔ ہمیں اس جگہ لے چلو۔"
جان نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ میری حالت اتنی خراب تھی کہ جان نے مجھے سوامی کی مدد سے بہت مشکل کے بعد اٹھایا میں نے چلنے کی کوشش کی مگر قدم بڑھتے ہی نہ تھے۔ یہ حالت دیکھ کر جان نے کہا۔
"کیا پاگل ہو گئے ہو۔۔۔ ارے بے وقوف اس طرح ہمت ہار دینے سے کیا تمہیں نجمہ مل جائے گی۔ آگے بڑھ کر اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرو۔ گھبراؤ مت نجمہ ضرور مل جائے گی۔"
جان کی یہ بات میری سمجھ میں آگئی اور ادھر اختر نے بھی مجھے سمجھایا۔ ان دونوں کی ہمت بڑھانے سے اتنا تو ہوا کہ میں نجمہ کو ڈھونڈ نکالنے کے لئے بے قرار ہو گیا۔ اور اپنا پستول نکال کر جلدی جلدی آگے بڑھنے لگا۔ امجد نے اب اپنے تھیلے میں سے ٹارچ نکال کر جلا لی تھی۔ ہم نے ٹارچوں کو صرف خاص حالات میں جلانے کے لئے محفوظ رکھ چھوڑا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ خاص حالات اور کون سے ہو سکتے تھے۔ کچھ ہی منٹ بعد ہم لوگ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پر امجد کے کہنے کے مطابق نجمہ غائب ہوئی تھی۔ یہاں ایک سرنگ کا دہانہ بائیں طرف جاتا تھا، سوامی جلدی سے اس سرنگ میں گھس گیا۔ وہ یہ دیکھنے گیا تھا کہ کہیں نجمہ اس سرنگ میں تو نہیں چلی گئی۔ اتنے عرصے میں ہم لوگ باہر کھڑے انتظار کرتے رہے۔ ہمیں باربار سوامی کی آواز سنائی دے رہی تھی جو چلا چلا کر نجمہ کا نام پکار رہا تھا۔ کافی دیر کے بعد ہمیں سرنگ میں سے مشعل کی روشنی باہر آتی ہوئی دکھائی دی۔ سوامی اب نجمہ کی ناکام تلاش کے بعد واپس آ رہا تھا۔
"کیوں۔۔۔ ملی؟" جان نے اشتیاق کے ساتھ پوچھا۔
"جی نہیں، میں اس سرنگ کا چپہ چپہ ڈھونڈ آیا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے سرنگ کی زمین کو بھی دیکھا کہ شاید کہیں بےبی کے قدموں کے نشان نظر آ جائیں۔۔ مگر افسوس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بے بی ادھر گئی ہی نہیں۔"

سوامی کی زبانی یہ سنتے ہی میں پھر ایک ناامیدی کے عالم میں دیوار سے سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ نجمہ سے مجھے جس قدر محبت تھی وہ آپ حضرات جانتے ہی ہیں۔ نہ جانے اس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔ اسے زمین کھا گئی یا آسمان؟ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کیاجائے؟ دراصل وہ امجد کے آگے آگے تھی۔ ایک لمحے کے لئے میرے دل میں یہ بے ہودہ خیال آیا کہ شاید یہ امجد ہی جیگا ہے اور اس نے جان بوجھ کر نجمہ کو غائب کر دیا ہے۔ یہ خیال آتے ہی میں نے غور سے امجد کے چہرے کو دیکھا۔
وہ بے چارہ بڑا پریشان تھا اور اس کا چہرہ بےحد غمگین تھا۔ اس کی آنکھوں کی معصومیت کو دیکھ کر میں نے اس عجیب خیال کو اپنے دل و دماغ سے نکال دیا اور پھر سوچنے لگا کہ اب کیا ہوگا؟ نجمہ کیسے ملے گی۔۔ ہم اسے کیسے اور کہاں تلاش کریں گے؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک امجد نے کہا۔
"ٹھہرئیے۔۔۔ ایک تدبیر دماغ میں آئی ہے۔۔ ذرا مشعل کو نیچے کیجئے۔ ساتھ ہی میں ٹارچ جلا کر اس کی روشنی بھی نیچے زمین کی طرف پھینکتا ہوں۔"
"مگر اس سے فائدہ؟" جیک نے پوچھا۔
"میں نجمہ کے قدموں کے نشان دیکھوں گا۔ جہاں یہ نشان آ کر ختم ہو جائیں گے، سمجھ لیجئے کہ اسی مقام سے وہ گم ہوئی ہیں۔"

ہم سب نے ایسا ہی کیا۔ امجد کچھ دیر تک تو پیچھے دیکھتا رہا اور پھر واپس وہیں آ گیا جہاں ہم کھڑے تھے۔ اس کے چہرے پر ناامیدی صاف جھلک رہی تھی۔ ٹارچ بجھا کر وہ بڑے اداس لہجے میں بولا۔
"افسوس۔۔۔ میرا خیال غلط ثابت ہوا۔ نجمہ کے پیروں کے نشانات کو ہم سب نے مل کر ختم کر دیا ہے۔ ہمارے بھاگنے اور ادھر اُدھر گھبراہٹ میں دوڑنے کی وجہ سے وہ نشان ختم ہو گئے ہیں۔"
میری اور اختر کی حالت اس وقت بہت زیادہ خراب تھی۔ اختر کو اپنی بڑی بہن کے گم ہو جانے کا رنج تھا اور مجھے اپنی پیاری بیٹی کے بچھڑ جانے کا۔ میرا دماغ جواب دے چکا تھا اور اب میں پاگلوں کی سی حرکتیں کرنے لگا تھا۔ پہلے تو میں بری طرح قہقہے لگانے لگا اور چیخنے لگا۔
"ہم سب یہیں مریں گے۔۔ اسی جگہ گھٹ گھٹ کر مریں گے ، جہاں نجمہ کھو گئی ہے۔ ہم اس جگہ سے باہر نہیں نکل سکتے، سنتے ہیں انکل۔ یہ سرنگیں ہی ہماری قبر یں بنیں گی۔"
اور پھر افسردہ لہجے میں بولا۔
"نجمہ اب بھلا کس طرح ملے گی؟ میں جانتا ہوں کہ یہ سب جیگا کی کارستانی ہے۔ اس نے جان بوجھ پر نجمہ کو اغوا کر لیا ہے تاکہ ہماری ہمتیں ٹوٹ جائیں۔ میں دوسروں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر ہاں میری ہمت اب جواب دے گئی ہے۔ میں اب یہاں سے آگے نہیں بڑھوں گا۔ ہرگز آگے نہیں بڑھوں گا۔"

اتنا کہہ کر میں بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔سب مجھے تسلی دیتے جاتے تھے لیکن میں برابر روئے جاتا تھا۔ میرے ساتھ ہی اختر بھی رو رہا تھا۔ سب لوگ نجمہ کا غم بھول تو گئے اور مجھے خاموش کرنے میں لگ گئے۔ ایسا وقت شاید مجھ پر کبھی نہ گزرا ہوگا۔ جتنا وہ مجھے چپ کرتے میں اتنا ہی روتا۔ جب ان سب نے دیکھ لیا کہ میں اس مقام پر جم کر بیٹھ گیا ہوں تو انہوں نے مجبوراً وہاں اپنا اپنا سامان رکھ دیا اور میرے قریب بیٹھ گئے۔ جان میرے رونے سے اس قدر پریشان ہوگیا تھا کہ آخر اس نے تنگ آ کر کہا۔
"خاموش ہو جاؤ فیروز! ہم سب کا دماغ خراب مت کرو۔ کیا بچوں کی طرح روتے ہو۔ اس طرح تو تم سب کے اوسان خراب کر دو گے۔ بھلے آدمی رونا دھونا چھوڑو اور نجمہ کو ڈھونڈنے کی فکر کرو۔ اگر تم اب بھی خاموش نہ ہوئے تو پھر مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ ہاں۔"
جان کی ان باتوں سے میری کچھ ڈھارس بندھی اور میں نے دل کو قابو میں کر کے کہا۔
"بہت اچھا۔ اب میں چپ رہوں گا۔"
"امجد تم ذرا اپنے دماغ پر زور ڈالو شاید تمہیں کوئی سراغ ہاتھ آ جائے۔" جیک نے امجد سے کہا۔

امجد پہلے تو کچھ دیر تک اپنے سر کو پکڑے بیٹھا رہا اور پھر اس کے بعد یکایک چٹکی بجاتے ہوئے بولا:
" بالکل ٹھیک، بالکل ایسا ہی ہوا ہوگا۔ لیجئے جان صاحب، مجھے یقین ہے کہ اب نجمہ کا سراغ ضرور مل جائے گا۔"
ہم سب جلدی سے اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس نے ٹارچ جلاتے ہوئے کہا۔
" میں سرنگ کے اس راستے پر کچھ دور تک اپنے قدموں کو زور زور سے زمین پر پٹختا ہوا چلتا ہوں۔ اس طرح دھب دھب کی آواز پیدا ہوگی۔ مگر جیسے ہی آپ کو اس آواز میں کچھ تبدیلی محسوس ہو ، مجھے روک دیں۔"
"مگر اس کا مطلب۔۔۔؟" میں نے حیرت سے کہا۔
"بس آپ دیکھتے رہئے۔۔۔ "
امجد نے اتنا کہا کہ اور پھر الٹے قدموں پیچھے کی طرف تھوڑی دور تک چلا گیا۔ وہاں جاکر اس نے اپنے پیروں کو زمین پر مارنا شروع کیا اور ساتھ ہی آگے بڑھتا رہا۔ دھب دھب دھب دھب کی آوازیں آنی شروع ہوگئیں، امجد ابھی ہم سے کوئی تین گز دور ہوگا کہ یہ آوازیں اچانک بدل گئیں۔ دھب دھب کی بجائے یکایک کھٹ کھٹ کی آوازیں آنی شروع ہو گئیں۔ امجد برابر آگے بڑھتا رہا۔ دو قدم آگے بڑھانے کے بعد ہی کھٹ کھٹ کی آوازیں پھر دھب دھب میں تبدیل ہو گئیں۔ یہ محسوس کرکے امجد نے فخریہ ہم سب کو دیکھا اور پھر کہا۔
" آپ کچھ سمجھے۔۔۔؟ جس مقام پر کھٹ کھٹ کی آواز آتی تھی، دراصل وہاں لکڑی کا فرش ہے ، سرنگ کے اندر کسی نے یہ تختے لگا رکھے ہیں اور ان پر مٹی ڈال دی ہے تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو۔ یہ تختے کسی کل کے ذریعے کھینچ لئے جاتے ہیں۔ نجمہ نے جب ان پر قدم رکھے تو تختے اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور نجمہ نیچے گر پڑیں۔ ان کے گرتے ہی تختے اپنی جگہ پر پھر واپس آگئے اور یوں کسی نے نجمہ کو اغوا کر لیا ہے۔"

"کیا کہہ رہو امجد۔۔۔۔؟" میں نے اس طرح کہا جیسے مجھے اس کی باتوں کا یقین نہ آیا ہو۔
"بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ فیروز صاحب، میں نے یہی اندازہ لگایا ہے اور جہاں تک مجھے یقین ہے یہ اندازہ غلط نہیں ہو سکتا۔ ضرور اس سرنگ کے نیچے خفیہ تہہ خانے ہیں اور دشمن نے نجمہ کو ان ہی تہہ خانوں میں گرا لیا ہے۔ میں آپ سے دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات سولہ آنے درست ہے۔"
جان ٹکٹکی باندھے امجد کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں تعریفی چمک تھی۔ جب امجد کی بات ختم ہو گئی تو اس نے خوش ہوکر کہا۔
"شاباش امجد۔۔۔ تم نے بہت کار آمد بات نوٹ کی۔ تمہاری ذہانت کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔۔۔ چلو چلو، جلدی سے اس جگہ کو توڑنا شروع کر دو۔"

جان کے یہ کہتے ہی ہم لوگ اس مقام تک پہنچ گئے اور اپنے چاقوؤں کی مدد سے زمین کھودنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد ہمیں یہ یقین ہو گیا کہ امجد ٹھیک کہہ رہا تھا۔ کیوں کہ درحقیقت وہاں مضبوط تختے بچھے ہوئے تھے اور ان کا تعلق کسی پوشیدہ کمانی سے تھا۔ کمانی دبتے ہی تختے کواڑ کی طرح ایک طرف جھک جاتے ہوں گے اور ان پر کھڑا ہوا آدمی یا جانور نیچے گر جاتا ہوگا۔ چاقوؤں سے بھلا یہ تختے کہاں ٹوٹتے! اس لئے جیک نے جلدی سے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور پھر ان تختوں پر مارنے لگا۔کچھ ہی دیربعد تختے ٹوٹ گئے اور امجد کے کہنے کے مطابق واقعی ایک خلانظر آنے لگا۔
امجد نے آگے بڑھ کر ٹارچ کی روشنی نیچے ڈالی تو معلوم ہوا کہ تقریباً چھ فٹ نیچے زمین ہے اور اس زمین پر پھوس بچھا ہوا ہے۔
"آپ نے دیکھا۔۔۔!"
امجد نے جوشیلے لہجے میں کہا:
"نجمہ کو اسی پھوس پر گرایا گیا ہے ، جس کسی نے انہیں گرایا ہے اس نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ گرنے والے کو چوٹ نہ لگے۔"
"تم ٹھیک کہتے ہو امجد"۔ میں نے امجد کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
"آؤ اب ہم سب جلدی سے نیچے کود جائیں۔"
"فیروز کا خیال درست ہے۔" جان نے کہا:
"کم از کم ہمیں یہ تو پتہ لگا کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔"
اپنے اپنے سامان کو اٹھاکر ہم لوگ نیچے کودنے کے لئے تیار ہو گئے۔ سب سے پہلے امجد کودا اور اس کے بعد باری باری باقی سب کود گئے۔ نیچے جاکر ہم نے مشعلیں دوبارہ روشن کیں اور ٹارچ کی روشنی ہر طرف ڈال کر دیکھنے لگے کہ شاید کوئی خفیہ دروازہ نظر آئے۔ مگر دروازہ تو کوئی نظر نہ آیا، ہاں البتہ چند سیڑھیاں نظر آئیں تو جو نیچے جا رہی تھیں۔ ان سیڑھیوں کو دیکھ کر مجھے بڑا اچنبھا ہوا۔ یہ سیڑھیاں باقاعدہ تراش کر نہیں بنائی گئی تھیں بلکہ زمین کو کھود کر چھوٹے چھوٹے گڑھے سے بنا دئیے گئے تھے۔ سب سے زیادہ تعجب مجھے اس بات پر ہوا کہ ان سیڑھیوں کے برابر ہی کچھ سیڑھیاں اور تھیں اور وہ باقاعدہ تراش کر بنائی گئی تھیں۔ سب سے زیادہ حیرت زدہ کر دینے والی بات یہ تھی کہ یہ سیڑھیاں شاید گڑیوں کے اترنے کے لئے بنائی گئی تھیں۔ ہر سیڑھی دوسری سیڑھی سے تقریباً دو انچ اونچی اور چار انچ چوڑی تھی،بیچ میں سے یہ سیڑھیاں استعمال ہوتے ہوتے گھس بھی گئی تھیں۔ ان سیڑھیوں کو دیکھتے ہی ہم سب حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
" یہ سیڑھیاں ہی ہیں یا کچھ اور۔۔۔؟" جان نے مجھ سے پوچھا۔
"مجھے تو سیڑھیاں ہی نظر آتی ہیں۔"
"ایسا لگتا ہے جیسے کہ یہ زینے چھوٹے قد کے انسانوں نے بنائے ہوں۔"
امجد نے کہا:
" آپ دیکھئے نا، ان سیڑھیوں پر تقریباً ایک فٹ کا انسان چڑھ اور اتر سکتا ہے۔"
"ایک فٹ کا انسان۔۔۔؟" جیک یہ سنتے ہی ہنس پڑا:
"امجد صاحب بے کار باتیں مت کرو۔ بھلا ایسا کس طرح ہو سکتا ہے۔"
" میں نے تو اپنی عقل سے یہی بات سوچی ہے۔" امجد نے جواب دیا۔
"تمہاری بات ایک حد تک ٹھیک ہے امجد۔" جان نے کہنا شروع کیا:
" اس دنیا میں ہم ان ہونی باتیں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں جو کچھ بھی ہو، عجیب نہیں ہے۔ واقعی ان سیڑھیوں کو دیکھ کر ہر کوئی یہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہاں ایک فٹے انسان رہتے ہیں۔۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ خیال غلط ہو۔ مگر اس طرح سوچنے اور باتیں کرنے میں وقت ضائع کرنا ٹھیک نہیں۔ ہمیں ان بڑی سیڑھیوں کے سہارے نیچے اترنا چاہئے اور نجمہ کو تلاش کرنا چاہئے۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا اس کی تلاش ہمارے لئے اتنی ہی مشکل ہوتی جائے گی۔"
امجد نے جان کی باتوں کا جواب تو کچھ نہیں دیا بلکہ ٹارچ کی روشنی زمین پر ڈال کر کچھ اور دیکھنے لگا۔
"کیا دیکھ رہے ہو ؟" میں نے آگے بڑھتے ہوئے پوچھا۔
"ارے۔۔۔۔!" امجد نے مونہہ سے تعجب کی آواز نکلی۔ " یہ کیا۔۔۔ فیروز صاحب ذرا ادھر آئیے۔"
میں جلدی سے اس کے قریب پہنچ گیا اور اس مقام کی طرف دیکھنے لگا جہاں ٹارچ کی روشنی دائرے کی صورت میں پڑ رہی تھی۔
"غور سے دیکھئے یہ کیا ہے؟"
میں نے جب غور سے زمین کو دیکھا تو میری آنکھیں حیرت کے باعث پھٹی رہ گئیں۔ زمین پر نجمہ کے پیروں کے نشان صاف صاف نظر آ رہے تھے۔ مگر حیرت مجھے ان نشانوں کو دیکھ کر نہیں ہوئی تھی۔ حیرت تو مجھے ان نشانوں کو دیکھ کر ہوئی تھی جو نجمہ کے نشانات کے قریب ہی دکھائی دے رہے تھے۔ یہ نشانات تعداد میں بہت زیادہ تھے اور ان میں سے بیشتر تو ہم نے ادھر اُدھر گھومنے کے بعد مٹا دئیے تھے۔ قدموں کے یہ نشان مشکل سے ڈیڑھ انچ لمبے تھے۔ اور بہت غور سے دیکھنے کے بعد نظر آتے تھے۔ پاؤں کے نشان بتاتے تھے کہ جس انسان کے یہ نشان ہیں اس کا پاؤں صرف ڈیڑھ انچ لمبا ہے اور اس میں پانچ انگلیاں بھی ہیں۔ یہ انکشاف ایسا تھا کہ ہم لوگ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

"اب فرمائیے، آپ کیا سمجھتے ہیں کیا میرا اندازہ غلط تھا۔۔۔؟" امجد نے تعریف طلب نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں تم ٹھیک کہہ رہے تھے۔"
"اور دیکھئے یہ نشان سیڑھیوں ہی کی طرف جا رہے ہیں۔" امجد نے آگے بڑھتے ہوئے کہا:
"وہ عجیب و غریب قوم نجمہ کو پکڑ کر ان ہی سیڑھیوں کے راستے نیچے گئی ہے۔ نجمہ بڑی سیڑھیوں پر سے اتر کر گئی ہیں اور وہ قوم چھوٹی سیڑھیاں طے کر کے۔ دیکھ لیجئے بڑی سیڑھیوں پر صرف نجمہ کے ہی قدموں کے نشان ہیں۔"
"میرے خدا۔۔۔۔۔!" جان نے گھبرا کر کہا:
"تمہاری ہر سوچی ہوئی بات درست نکل رہی ہے۔"
"درست کیوں نہ نکلے گی۔۔ " جیک نے عجیب سی آواز میں کہا:
"امجد صاحب کو پہلے ہی سے یہ سب کچھ معلوم تھا۔"
"کیا مطلب۔۔۔ ؟" امجد جلدی سے جیک کی طرف پلٹا۔
"زیادہ بے وقوف بنانے کی کوشش مت کرو امجد۔۔۔" جیک نے اب یکایک اپنا چاقو ہاتھ میں لے کر کہا:
"جتنی خوبی کے ساتھ تم نے نجمہ کا سراغ لگایا ہے وہ تمہاری ہی حصہ ہے۔ یہ باتیں وہی شخص کر سکتا ہے جس نے یہ سب چیزیں بنائی ہوں۔ تم بہت چالاک ہو لیکن زیادہ چالاک اور عقل مند ہونا بھی اچھا نہیں۔ تمہاری سراغرسانی نے تمہاری پول کھول دی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم نجمہ کو پسند کرتے ہو اور اسے اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔۔۔ مگر میں تمہارا یہ ارادہ کبھی پورا نہ ہونے دوں گا مسٹر جیگا۔۔۔"

"جیگا۔۔۔" ہماری سہمی ہوئی آوازیں ایک ساتھ گونجیں۔
"کیا کہہ رہے ہو مسٹر جیک۔۔۔۔ تم ہوش میں ہو یا نہیں؟" امجد نے گھبرا کر کہا۔
"پہلے میں بے شک بے ہوش تھا، لیکن اب ہوش میں آ گیا ہوں۔ فیروز صاحب کی پیاری بیٹی کو میں اس طرح تباہ نہ ہونے دوں گا۔" جیک نے اپنا چاقو لہراتے ہوئے کہا۔
"تم بے وقوف ہو جیک۔۔ میں جیگا نہیں ہوں۔" امجد پیچھے ہٹنے لگا۔


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:14

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں