ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 12 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-25

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 12




پچھلی قسط کا خلاصہ :
جزیرے پر پہنچنے کے بعد فیروز اور اس کے ساتھی آدم خور جنگلیوں کے درمیان پھنس گئے۔ جبکہ سوامی کہیں غائب ہو گیا تھا۔ آدم خوروں نے انہیں ایک جھونپڑی میں قید کر دیا۔ جبکہ رات میں ان کے ہتھیار کسی نے غائب کر دئیے۔ فیروز کو سوامی پر شک ہوا اور اس نے سوچا کہ کہیں سوامی ہی جیگا تو نہیں ہے؟
ابھی وہ سب سوچ ہی رہے تھے کہ آدم خور انہیں مارنے کے لیے جھونپڑی کے باہر جمع ہو گئے۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

میں نے دروازے سے باہر نکلتے وقت اپنے ساتھیوں سے بلند آواز میں کہا:
"خبردار گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جن کے پاس چاقو ہیں وہ ان سے ضرور کام لیں ، بغیر جد و جہد کے مرنا بہت بڑی بزدلی ہے۔ مرنا ہے تو ایک دو کو مار کر مرنا چاہئے۔"
آدم خور ہمیں اپنے گھیرے میں لئے ہوئے جھونپڑیوں کے سامنے والے میدان میں آ گئے۔ اس میدان کے چاروں طرف اونچی اونچی چٹانیں تھیں جن پر کہیں کہیں چھوٹی موٹی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں ، ان چٹانوں کی اونچائی تقریباً سو سو فٹ ضرور تھی۔ ہم اگر بھاگنا بھی چاہتے تو کسی طرح بھی نہیں بھاگ سکتے تھے۔ یہ قید خانہ دراصل ایک پیالے جیسا تھا جس کے چاروں طرف چٹانوں کی دیواریں اٹھی ہوئی تھیں اور بیچ میں ہم لوگ تھے۔
آدم خور بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہے تھے۔ اور ہمیں خوفناک نظروں سے گھور رہے تھے۔ کبھی کبھی اپنی زبان میں وہ ایک زور کا نعرہ بھی لگاتے تھے جو ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آتا تھا۔ یہ نعرہ ایک لمی اور خوفناک چیخ تھی۔ اور یہی نعرہ دراصل ہم نے جزیرے میں آنے کے بعد کئی بار سنا تھا۔ کئی آدم خور تو ایسے بے صبر اور ندیدے تھے کہ اپنے ساتھیوں کے منع کرنے کے باوجود بھی ہم میں سے کسی نہ کسی کو اس طرح چھوکر دیکھتے تھے جیسے ہمیں کھانے کے لئے بے تاب ہوں اور اتنے عمدہ کھانے کو سامنے دیکھ کر اب ان سے صبر نہ ہوتا ہو۔

جب ان کا شور حد سے زیادہ بڑھ گیا تو شاید ان کے سردار نے زور سے ایک نعرہ لگا کر انہیں خاموش رہنے کے لئے کہا اور وہ سب سہم کر چپ ہو گئے۔ اس کے ہاتھ میں ابھی تک میری رائفل تھی۔ اس کا ہیمر بھی تک چڑھا ہوا تھا۔ ٹریگر دبانے کی دیر تھی اور گولی چل جاتی۔ میں رائفل کی نال سے خود کو اور دوسروں کو پرے رکھنے کی کوشش بھی کر رہا تھا اور آدم خوروں کے ہونے والے حملے سے بچنے کی تدبیریں بھی۔ آدم خور سردار کچھ دیر تک اپنے ساتھیوں سے نہ جانے کیا کہتا رہا اور پھر یکایک ان سب کی بھوکی نظریں جیک کی طرف اٹھیں کیوں کہ وہی ہم میں سب سے موٹا تازہ اور طاقتور تھا۔ جیک کے چہرے پر اچانک زردی چھا گئی اور اتنا بہادر ہونے کے باوجود بھی وہ خوف کی وجہ سے تھر تھر کانپنے لگا۔
آدم خوروں نے جلدی سے آگے بڑھ کر جیک کو دبوچ لیا اور اسے ایک طرف کھڑا کر کے سب نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ہڈیاں اوپر اٹھا لیں۔ سردار کا حکم پاتے ہی وہ سب ان ہڈیوں کے سروں سے بندھے ہوئے پتھر زور سے بار باری جیک کے سر پر مارتے اور یوں جیک بے چارہ ختم ہو جاتا۔ ان کے اس ارادے کو سمجھ کر میں نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ یا رب العالمین اگر ہمیں مارنا ہی ہے تو ایسی بے کسی اور ایسی بھیانک موت مت دے۔ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ تو ہمیں سمندر ہی میں غرق کر دیتا مگر ان آدم خوروں کا نوالہ نہیں بناتا۔
جیک نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور دانت بھینچے ہوئے کھڑا تھا۔ سردار نے اچانک ایک زور کا نعرہ لگا کر رائفل کے کندے کو لکڑی کی طرح زمین پر مارا۔ شاید اس کی انگلی ٹریگر پر تھی یا پھر جھٹکے کی وجہ تھی کہ رائفل کی گولی ایک زبردست آواز کے ساتھ چل گئی اور آدم خور بری طرح چیخے۔ اس کے ساتھ ہی سہم کر وہ جھونپڑی کی طرف تیزی سے بھاگے۔ جھونپڑیوں کے پاس جا کر وہ خوفزدہ نظروں سے ہمیں گھورنے لگے۔ لوہے کی لکڑی میں سے دھماکہ ہوتے ہوئے انہوں نے شاید آج پہلی بار دیکھا تھا۔ سردار نے گھبرا کر رائفل زمین پر پھینک دی تھی اور اب اسے خوف زدہ نظروں سے گھور رہا تھا۔ آدم خور ہمیں بھول تو گئے اور اس رائفل کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ آہستہ آہستہ وہ اس کے قریب آ رہے تھے۔ میں دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔
رائفل میرے سامنے پڑی ہوئی تھی مگر اب سوامی کی مہربانی کی وجہ سے ہم میں سے کسی کے پاس ایک کارتوس بھی نہیں تھا۔ بغیر کارتوس کے رائفل ہمارے لئے بے کار تھی۔ پھر بھی میں نے یہ سوچا کہ رائفل تو اپنے قبضے میں کر لینی چاہئے۔ میں نے فوراً جیک سے کہا کہ وہ رائفل اٹھا لے۔ جیک ابھی تک آنکھیں بند کئے کھڑا تھا۔ میری آواز سن کر اس نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں اور لپک کر رائفل اٹھا لی۔ آدم خور یہ دیکھ کر بری طرح چیخے اور پھر نہ جانے ان کے دل میں کیا سمائی کہ وہ تیزی سے جیک کی طرف جھپٹے۔ میں نے سمجھ لیا کہ بس اب جیک کا خدا ہی حافظ ہے۔

جیک کے ہاتھ میں اب رائفل آ چکی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اسے مضبوط پکڑ لیا اور آدم خوروں سے ٹکر لینے کے لئے تیار ہو گیا۔ ادھر میں نے نجمہ اور اختر کو ایک طرف کر کے امجد اور جان سے کہا کہ وہ بھی اپنے چاقوؤں کو کام مین لائیں۔ ادھر سے آدم خور جیک کی طرف بڑھ رہے تھے اور ادھر سے ہم اس کی مدد کو پہنچ گئے تھے۔ آدم خوروں نے جیک کے پاس پہنچتے ہی اسے اپنے لمبے لمبے ناخنوں سے نوچنا شروع کردیا۔ جیک نے رائفل کو ادھر ادھر گھمایا۔ ایک دو بار کسی نہ کسی کے یہ رائفل لگ بھی گئی ، مگر اسے شاید ذرا سا بھی احساس نہ ہوا۔ یہ حالت دیکھ کر ہم نے ایک دو آدم خوروں سے ہاتھا پائی کرنے کی کوشش کی مگر اب آپ کو کیا بتاؤں۔ ان کم بختوں میں اتنی طاقت تھی کہ ہاتھ کے ایک ہی جھٹکے سے انہوں نے ہم کو دس دس فٹ دور پھینک دیا۔ چاقوؤں سے مدد لینا تو الگ رہا۔ ہم ان کی نوکیں آدم خوروں کے جسموں سے چھوا بھی نہ سکے۔
آدم خور یہ دیکھ کر کہ ہم نے ان پر حملہ کر دیا ہے، غصے سے بے قابو ہو گئے تھے۔ اور ان میں سے کچھ اب چیختے چلاتے ہماری طرف بڑھے۔ جیک کے جسم سے خون بہہ رہا تھا اور وہ خود کو بچانے کی پوری پوری کوشش کر رہا تھا۔ ایک آدم خور دور سے بھاگتا ہوا آیا۔ وہ ا پنے ہی زور میں چھلانگ لگا کر جیک کے اوپر گرنا چاہتا تھا ، مگر میں نے دیکھا کہ جیک نے بڑی ہوشیاری کا ثبوت دیا۔ اس نے فوراً اپنا چاقو نکالا اور زور سے گھما کر اس آدم خور کی طرف پھینکا۔ چاقو دستے تک اس کے سینے میں گھس گیا۔ اور وہ ایک چیخ مار کر زمین پر گر پڑا۔ جیک کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی اپنے اپنے چاقو نکال لئے اور آدم خور جیسے ہی ہماری طرف جھپٹے ، ہم نے یہ چاقو پوری قوت سے ان کی طرف پھینکے۔ لیکن ایک تو ہماری قسمت ہی خراب تھی اور دوسرے ہمیں جیک کی طرح چاقو پھینکنا بھی نہیں آتا تھا۔ اس لئے یہ چاقو آدم خوروں کو کوئی خراش پہنچائے بغیر ادھر اُدھر گر گئے۔

آدم خوروں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ اور ان کے مونہہ سے رال بہہ رہی تھی۔ وہ بھوکے بھیڑئیے کی طرح اپنے ہاتھوں کی ہڈیاں اٹھائے ہوئے ہماری طرف بڑھ رہے تھے۔ میں نے کنکھیوں سے دیکھا کہ اب جیک بھی ایک آدم خور سے گتھم گتھا تھا۔ آدم خور اپنے لمبے ناخنوں سے اس کے جسم کو نوچ رہا تھا۔ جس آدم خور کے سینے میں جیک کا چاقو پیوست تھا۔ وہ اب دم توڑ رہا تھا۔ جلد ہی ان درندوں نے ہمیں اپنے نرغے میں لے لیا، ایک نے پوری قوت سے اپنی ہڈی میرے سر پر مارنے کی کوشش کی مگر میں نے جلدی سے اس وار کو اپنے ہاتھوں پر روکا۔ لیکن پھر فوراً ہی کراہ کر میں نے اپنا ہاتھ پکڑ لیا۔ شاید میرے ہاتھ میں کافی چوٹ آئی تھی۔ دو آدم خور عورتیں اب نجمہ اور اختر کی طرف بڑھ رہی تھیں اور وہ دونوں انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر بری طرح چیخ رہے تھے۔ آدم خور نے اپنے وار کو خالی جاتے دیکھ کر دوبارہ مجھ پر حملہ کیا۔ مگر میں نے اس وار کو بھی روکنے کی کوشش کی۔ اس بار میں نے ہمت کر کے وہ ہڈی ہی چھین لی جس سے وہ درندہ مجھ پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ ہڈی چھین کر میں نے دور پھینک دی اور پھر تیزی کے ساتھ اختر اور نجمہ کی طرف بھاگا۔
آدم خور عورتیں نجمہ کی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھیں کہ میں نے ان کو دھکا دیا اور وہ زمین پر گر پڑیں۔ اس سے پہلے کہ وہ اٹھتیں، وہی آدم خور جس کے ہاتھ سے میں نے ہڈی چھینی تھی دوڑتا ہوا آیا اور اس نے اپنے دانت میری کمر پر گاڑ دئیے۔ تکلیف کی وجہ سے میں بلبلا گیا۔ میں نے ایک زور دار کوشش کر کے خود کو اس آدم خور کے پنچے سے چھڑایا اور پھر پلٹ کر اس کے مونہہ پر ایک گھونسا رسید کر دیا۔ مگر اس نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ وہ تو اس وقت میری کمر کی بوٹی کھانے میں مصروف تھا۔ جو اس نے کچھ دیر پہلے میری کمر سے نوچی تھی۔ اس کے مونہہ سے خون ٹپک رہا تھا اور وہ میرے گوشت کو اس طرح کھا رہا تھا جیسے اس سے زیادہ لذیذ چیز اس نے زندگی میں کبھی نہ کھائی ہو۔

جیک نے کوشش اور ہمت سے کام لے کر خود کو آدم خوروں کے پنجے سے چھڑا لیا تھا اور اب لڑکھڑاتا ہوا ہماری طرف آ رہا تھا۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ اس طرح تو ہم آدم خوروں سے نہیں نپٹ سکتے۔ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی اور طریقہ سوچنا چاہئے۔
مگر ایسی حالت میں جب کہ انسان کی اپنی زندگی خطرے میں ہو، کوئی کیا تدبیر سوچ سکتا ہے۔ ہم لوگ بس ایک قطار میں کھڑے ہو گئے تھے اور ہماری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا کریں؟ آدم خور ہم پر دوبارہ حملہ کرنے کا ارادہ کررہے تھے۔ اور ادھر میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں، اتنی دیر تک تو میں نے زندگی بچانے کی جدو جہد کرلی تھی ، مگر اب کیا ہوگا؟
تھکن سے پہلے ہی سب کا برا حال ہے ، اور پھر اب یہ بغیر ہتھیاروں کی لڑائی! میری نظر اچانک اس طرف چلی گئی جہاں وہ آدم خور مردہ پڑا تھا۔ جسے جیک نے مارا تھا۔ ادھر دیکھتے ہی میرے بدن میں خوف کی تھرتھری پیدا ہو گئی اور میں نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ تین آدم خور اس وقت اپنے ہی ساتھی کا بدن دانتوں سے کاٹنے میں مصروف تھے۔ وہ مرے ہوئے شخص پر اس طرح جتے ہوئے تھے جیسے کتے کسی لاش کو بھنبھوڑتے ہیں۔۔۔ اف خدایا۔ یہ ہم کہاں پھنس گئے تھے؟ کس قدر گھناؤنا منظر تھا وہ۔۔۔!

اب صرف چار آدم خور ہماری طرف بڑ ھ رہے تھے۔ ان میں دو عورتیں تھیں اور دو مرد۔ مردوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے باقی ساتھی اپنا دل پسند کھانا کھانے میں مصروف ہیں تو انہوں نے چلا کر کچھ کہا۔ اس پر وہ تینوں بھی جلدی سے اٹھے اور اپنے ساتھیوں سے آ ملے۔ ان کے مونہہ سے خون ٹپک رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس حملے میں اب وہ ہماری تکا بوٹی کر ڈالیں گے۔ میں نے التجا بھری نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نجمہ و اختر کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
دل میں سوچ لیا تھا کہ پہلے خود مروں گا اس کے بعد ان دونوں پر آنچ آنے دوں گا۔ آدم خور پہلے تو چند گز دور کھڑے رہ کر ہمیں دیکھتے رہے اور پھر اچانک پہلے کی طرح ایک نعرہ لگا کر جھپٹے۔ میں نے چلا کر اپنے ساتھیوں اور بچوں سے کہا :
"اچھا بھئی خدا حافظ۔۔ اب زندگی کی کوئی امید نہیں ہے۔"
اور پھر خوف کی وجہ سے آنکھیں بند کر کے کھڑا ہو گیا۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ اب کسی کے دانت آ کر میرے جسم میں گڑ جائیں گے اور کچھ ہی لمحوں میں اپنے ساتھیوں کی چیخیں مجھے سنائی دیں گی ، لیکن اچانک 'دھائیں' کی ایک آواز آئی اور اس کے بعد ہی دوسری آواز۔۔۔!

میں نے جلدی سے آنکھیں کھول کر دیکھا تو دو آدم خور تیورا کر زمین پر گر رہے تھے۔ ابھی میرا دماغ سوچنے بھی نہ پایا تھا کہ کیا ہوا کہ اچانک دھائیں کی ایک آواز اور آئی اور اب کے تیسرا آدم خور ہیبت ناک آوازیں نکالتا ہوا زمین پر ڈھیر ہو گیا۔۔۔
اب میں سمجھا کسی نے گولیاں چلائی تھیں اور پھر اچانک مجھے ایک خیال آیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی گولی سے ہم میں سے کوئی زخمی ہو جائے ، اس لئے ہم سب کو چٹانوں کے بالکل نیچے پہنچ جانا چاہئے۔ یہ سوچتے ہی میں نے بلند آواز سے یہ خیال اپنے ساتھیوں پر ظاہر کر دیا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم سب چٹانوں کے نیچے کھڑے ہوئے آدم خوروں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ایک گولی اور چلی اور اب کے چوتھا آدم خور زمین پر آ رہا۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ہمارا یہ محسن کون ہے جس نے بروقت ہماری جانیں بچائی ہیں،، کہیں یہ سوامی تو نہیں ہے؟
مگر سوامی کو کیا غرض پڑی ہے کہ ہمارا دشمن ہوتے ہوئے بھی وہ ہماری مدد کرے۔۔۔۔پھر یہ کون شخص ہے جو ہمارے لئے فرشتۂ رحمت بن کر آیا ہے؟ میں نے اس مقام کی طرف دیکھا جدھر سے گولیاں آ رہی تھیں۔ سامنے والی چٹان پر ایک چھوٹی سی جھاڑی تھی اور کوئی شخص اسی جھاڑی کے پیچھے بیٹھا ہوا گولیاں چلا رہا تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک فائر پھر ہوا اور ایک آدم خور عورت چیختی چلاتی زمین پر گر پڑی۔ اب صرف ایک مرد اور ایک عورت باقی رہ گئے تھے۔ وہ دونوں خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ساتھ ہی بھیانک آواز میں چلا بھی رہے تھے۔ جب ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو وہ دونوں تیزی سے جھونپڑیوں کی طرف بھاگے۔ لیکن جھونپڑیوں تک پہنچ ہی نہ سکے۔ کیوں کہ ہمارے محسن نے انہیں بھی راستے ہی میں ختم کر دیا تھا۔

میں نے اطمینان کا ایک سانس لیا۔ مجھے یقین نہ آتا تھا کہ میرے دشمن ختم ہو گئے ہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہو۔ میری ٹانگیں لرز رہی تھیں۔ جان کمزوری کی وجہ سے زمین پر بیٹھ گیا تھا اور جیک حیرت زدہ نظروں سے اوپر چٹان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ رہا امجد تو وہ نجمہ اور اختر کے قریب کھڑا ہوا انہیں تسلیاں دے رہا تھا۔ جیک کے ساتھ ہی ہم سب کی نظریں بھی چٹان کی طرف اٹھ گئیں۔ اور پھر یہ دیکھ کر ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ ہمارا محسن اب وہاں نہیں تھا۔
" یہ شخص کون ہو سکتا ہے جیک۔۔؟" میں نے اپنے ہاتھ کو دباتے ہوئے پوچھا۔
"خدا ہی بہتر جانتا ہے۔" جیک کی مردہ سی آواز نکلی ، تکلیف کی وجہ سے اس کا بھی برا حال تھا۔
"ابا جی۔۔۔ ہائے آپ کی کمر پر سے کافی گوشت غائب ہے۔"نجمہ چیختی ہوئی میری طرف بڑھی، ظالم نے کس بے دردی سے کمر کا گوشت دانتوں سے نوچا ہے۔"
"ہمارا سامان غائب ہے ، اس لئے کسی کی مرہم پٹی بھی نہیں ہو سکتی۔"جان نے کمزور آواز میں کہا۔
" فی الحال تو تھوڑی سی مٹی زخموں پر لگا لیجئے ، اس طرح خون نکلنا بند ہو جائے گا۔" امجد نے رائے دی۔
اور امجد کی رائے پر عمل کرتے ہوئے جیسے ہی میں زمین کی طرف جھکنے لگا۔ میری نظر اچانک سامنے جھونپڑیوں کی طرف اٹھ گئی اور تب میں نے دیکھا کہ جھونپڑی کے پیچھے والی چٹان میں سے کوئی شخص نمودار ہوا اور پھر بندوق تانے ہوئے ہماری طرف آنے لگا۔ کمزوری کی وجہ سے میری آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں۔ میں نے جب ذرا غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ آنے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ ہمارا جانا پہچانا سوامی ہے۔

سوامی کو سامنے دیکھتے ہی میرا خون کھولنے لگا۔ اس نے بندوق ابھی تک ہماری طرف تان رکھی تھی۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اب یہ ہم سب سے انتقام لے گا۔ مگر ہمارے قریب آکر اس نے بندوق نیچی کرلی۔ اور میری طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
"شکر ہے کہ میں ٹھیک وقت پر آ گیا۔۔ ورنہ ظالموں نے تو آپ سب کا خاتمہ کر دیا ہوتا۔"
"دور رہو۔۔۔" میں نے حقارت کے ساتھ کہا۔
"تم اب جلے پر نمک چھڑکنے آئے ہو۔ لو ہم تمہارے سامنے کھڑے ہیں، کر دو ہمیں ختم۔ مار دو ہمارے گولی۔"
"آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں مالک"۔ سوامی نے تعجب سے کہا، "مانا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی ، مگر اس غلطی کی اتنی بڑی سزا تو مت دیجئے ، آخر آپ مجھے کیا سمجھ رہے ہیں؟"
"بدمعاش تو اب بھی چاپلوسی سے کام لے رہا ہے ، میں اب اچھی طرح جان چکا ہوں کہ تو ہی جیگا ہے اور بھیس بدل کر شروع سے ہی ہمارے ساتھ ہے۔ مگر یاد رکھ میں تجھے ایسی سزا دوں گا کہ تو یاد رکھے گا۔"
"مالک! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں" سوامی نے اپنی بندوق پھینک دی اور جلدی سے میرے قدموں میں آکر گر گیا اور پھر روتے ہوئے کہنے لگا:
"مالک میں جیگا نہیں ہوں۔ بھگوان کی سوگندھ میں جیگا نہیں ہوں، آپ یہ کیا سمجھ رے ہیں، بے بی اور بابا کی قسم میں جیگا نہیں ہوں۔"

وہ بری طرح رو رہا تھا اور ادھر میں بڑے شش و پنج میں مبتلا تھا۔ جان ، جیک اور بچے سب خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ سوامی نے اپنے آنسوؤں سے میرے پیر گیلے کردئیے اور جب اس نے دیکھا کہ میرا پتھر دل ابھی تک موم نہیں ہوا تو جلدی سے اٹھا اور آگے بڑھ کر اس نے بندوق اٹھا لی۔ اس کا ہیمر چڑھایا اور پھر بندوق مجھے دیتے ہوئے بولا۔
" یہ لیجئے، اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو اس بندوق سے مجھے ختم کر دیجئے اس میں گولی موجود ہے۔"
بے خبری کے عالم میں نے بندوق لے لی۔ سوامی کچھ فاصلے پر سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے بندوق اٹھائی ہی تھی کہ اختر اور نجمہ دوڑ کر سوامی سے لپٹ گئے اور چلانے لگے۔
" نہیں ابا جی نہیں۔۔ کلو سوامی کو مت مارئیے، یہ جیگا نہیں ہے ابا جی، اسے مت مارئیے"۔
سوامی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ کہیں میں پاگل تو نہیں ہو گیا جو ایسے وفادار اورجاں نثار ملازم کو جیگا سمجھ بیٹھا ہوں۔ بھلا سوامی کس طرح جیگا ہو سکتا ہے۔ میری تو آنکھوں پر پردے پڑ گئے ہیں جب ہی مجھے دوست اور دشمن کی تمیز نہیں رہی۔ میں نے بندوق کا ہیمر آہستہ سے گرا دیا اور پھر سوامی کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
"مجھے معاف کردو، سوامی۔ مصیبتوں نے میرا دماغ خراب کر دیا ہے ، جو تم پر خواہ مخواہ شک کر بیٹھا۔"

سوامی کے چہرے پر ایک دم مسکراہٹ دوڑ گئی اور اس نے انکساری سے کہا:
"مالک، ہم سب کی یہی حالت ہے ، مگر فکر مت کیجئے۔ اگر بھگوان نے چاہا تو اب کوئی آدم خور بھی ہمارے پاس نہیں آسکے گا۔ اور جلد ہی ہم کسی نہ کسی محفوظ جگہ پر پہنچ جائیں گے۔"
" مگر یہ سب کچھ ہوا کیسے؟"
جان نے آہستہ سے کہا۔
"سوامی تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ آخر تم اچانک کہاں غائب ہو گئے تھے اور پھر اس کٹھن وقت میں ہماری مدد کے لئے کیسے آ گئے ؟"
"آپ ٹھیک فرماتے ہیں" سوامی نے کہنا شروع کیا۔
"میں نے ابھی تک یہ آپ کو نہیں بتایا۔ مگر اب بتاتا ہوں۔ جس وقت میں پھل توڑنے ندی کے پار گیا تو میں نے پہلی بار چھپ کر ان آدم خوروں کو درختوں سے جھانکتے دیکھا۔ میں سہم کر ایک بڑے سے کھوکھلے پیڑ کے اندر چھپ گیا۔ میرے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ آپ لوگوں کو اطلاع کرتا۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے آپ سب کو آتے ہوئے دیکھا اور پھر وہی ہوا جس کی مجھے امید تھی۔ یعنی آدم خوروں نے آپ کو پکڑ لیا۔ میں بھی چھپتا چھپاتا ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ یہ لوگ آپ کو جھونپڑیوں تک لے آئے اور میں چٹانوں کے اوپر پہنچ گیا۔ رات کو آہستہ سے میں وہاں سے اترا۔ میں نے دیکھا کہ سب سو رہے ہیں۔ یہ خیال کرکے کہ کہیں میری آواز سے کوئی ہڑ بڑا کر نہیں اٹھ بیٹھے اور کسی کی چیخ نہ نکل جائے۔ میں نے سب سامان ایک ایک کرکے اٹھا لیا۔ مجھے یقین تھا کہ آپ لوگوں سے الگ رہ کر میں آپ کی اچھی مدد کرسکوں گا۔
اور یہ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔ بس غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ صبح ہی صبح یہ دیکھنے کے لئے کہ کہیں آس پاس کچھ اور آدم خور تو نہیں ہیں، میں ذرا چٹانوں سے دور نکل گیا۔ کافی دور نکل جانے کے بعد میں نے کچھ غار دیکھے جو بڑے عجیب ہیں۔ ان میں نہ جانے کہاں سے بڑی ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے۔ میں نے سوچا کہ آپ سب کو آزاد کرانے کے بعد اس جگہ لے آؤں گا۔ جب میں واپس یہاں آیا تو میں نے یہاں کا منظر ہی عجیب دیکھا۔ مالک مجھے شرم آ رہی ہے ، میرا دل چاہا کہ میں اپنے گولی مار لوں کیوں کہ آپ لوگوں کی فکر کرنے کی بجائے میں خواہ مخواہ غاروں کی طرف چلا گیا تھا۔ اس کے بعد جب میں نے آدم خوروں کو زبرردست حملہ کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے بندوق اٹھا کر گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ آپ کو معلوم ہی ہے۔"

اب مجھے یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ میں نے ان باتوں کا کیا جواب دیا۔ ظاہر ہے کہ سوامی ٹھیک کہہ رہا تھا۔ لہذا کچھ ہی دیر بعد وہ ہمیں چٹانوں کے اوپر لے آیا اور پھر ہم ایک دوسرے کی مرہم پٹی کرنے لگے۔ اس کے بعد سوامی کے اصرار پر ہی ہم اس طرف چل پڑے جہاں وہ نرالے غار تھے جن میں سے سوامی کے کہنے کے مطابق ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں ابھی تک اچھی طرح آرام کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ آدم خوروں کی جھونپڑیوں میں ہم بے شک سوئے تھے۔ لیکن ایسی حالت میں جب کہ سروں پر موت کی تلوار لٹک رہی ہو، بھلا کسی کو کیا آرام میسر آئے گا۔ گرتے پڑتے ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے تقریباً دوپہر کے وقت ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں سوامی کے کہنے کے مطابق غار تھے۔ غاروں کے بارے میں سوامی صرف اسی قدر جانتا تھا کہ وہ غار ٹھنڈے ہیں اور محفوظ ہیں، وہاں رہنے سے آدم خور یا کوئی اور بلا ہم تک نہیں پہنچ سکتی۔ یہ غار نشیب میں واقع تھے۔ مطلب یہ کہ جس جگہ ہم لو گ کھڑے ہوئے تھے، وہاں سے زمین اچانک ختم ہو جاتی تھی۔ اور ہمارے سامنے کی طرف ایک کافی گہرا کھڈ تھا۔ ایک پاؤں بھی اگر ہم آگے بڑھاتے تو کھڈ میں گرتے۔
کھڈ کی گہرائی سے لے کر اس جگہ تک جہاں ہم کھڑے تھے۔ ایک قدرتی دیوار سی بن گئی تھی۔ اور وہ غار اس دیوار کے ساتھ ساتھ کوئی بیس فٹ نیچے جاکر تھے۔ جس جگہ ہم کھڑے تھے وہاں سے ان غاروں کا بس تھوڑا سا حصہ نظر آتا تھا۔ اگر ہم جھک کر دیکھنے کی کوشش کرتے تو یقیناً نیچے گر پڑتے۔ یہ دیکھ کر جب میں نے سوامی سے دریافت کیا کہ بھلا کس طرح وہ ان غاروں کے اندر پہنچا ہوگا۔ تو اس نے جواب دیا کہ جہاں ہم کھڑے ہیں اس سے کچھ ہی فاصلے پر ایک بڑی چٹان ہے۔ اگر اس چٹان کے بائیں طرف جھانک کر دیکھا جائے تو ایک تنگ سی سرنگ نظر آتی ہے۔ اسی سرنگ میں سے ہو کر وہ ان غاروں تک پہنچ گیا تھا۔

سوامی نے جیسا بتایا ہم نے ویسا ہی کیا۔ واقعی اس چٹان کے برابر میں ایک سوراخ تھا اور وہ سوراخ اتنا بڑا تھا کہ ہم میں سے ہر ایک باری باری اس میں سے رینگ کر اندر سرنگ میں داخل ہو گیا۔ سرنگ میں سے گزرنے کے بعد ہم پہلے غار میں پہنچ گئے۔ یہ غار کافی بڑا تھا۔ یہاں کھڑے ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ میرے بالکل نیچے بھی ایک دیوار تھی جو کھڈ تک پہنچ جاتی تھی اور میرے سر پر بھی دیوار تھی جو بیس فٹ اوپر جاکر اس زمین سے مل جاتی تھی جہاں ہم پہلے کھڑے ہوئے تھے۔ اس جگہ واقعی ہم محفوظ تھے۔ کوئی درندہ اور کوئی آدم خور ہم تک کسی بھی طرح نہیں پہنچ سکتا تھا۔ سامنے کا نظارہ بھی بہت اچھا تھا۔ کھڈ میں مختلف قسم کے درخت چٹانوں کے پاس اگے ہوئے تھے۔کافی دور سامنے کی طرف سمندر بہہ رہا تھا اور آدھے دائرے کی صورت میں وہ پہاڑیاں تھیں جن میں سے ایک کے اندر یہ غار تھا۔
بڑا عجیب منظر تھا۔ میرے سامنے اوپر کی طرف جو زمین نظر آ رہی تھی اس میں ایک چٹان سی نکلی ہوئی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کھڈ کوئی تالاب ہو اور وہ باہر کو نکلی ہوئی چٹان اس تالاب میں کودنے کے لئے بنایا ہوا تختہ۔ نہانے کے تالابوں میں ایسے تختے آپ نے ضرور دیکھے ہوں گے بس اسی قسم کی وہ چٹان تھی۔ ابھی میں اس چٹان کو دیکھ ہی رہا تھا کہ یکایک خوف کی وجہ سے میں لڑکھڑا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اسی چٹان پر اچانک کچھ آدم خور نمودار ہوئے اور ہمیں دیکھ کر خوشی سے چلانے لگے!

انہیں دیکھتے ہی ہمارے اوسطان خطا ہو گئے۔ نہ جانے ان کی منحوس صورتوں میں کیا تاثیر تھی کہ ہمارے دل بیٹھنے لگتے تھے۔ تعداد میں وہ اب پندرہ ہو گئے تھے اور ہمیں غار میں کھڑے دیکھ کر خود بھی اسی طرف آنے لگے تھے۔ شاید انہیں غار میں جانے والی اس سرنگ کا راستہ معلوم تھا۔ سرنگ کے دہانے پر رکھی ہوئی چٹان کو ہٹا دینا میرے خیال میں ان خوفناک آدم خوروں کے لئے بہت معمولی سی بات تھی ، کیوں کہ کچھ ہی دیر بعد مجھے سرنگ کے اندر سے وہی عجیب سی چیخیں سنائی دینے لگیں جن کو سن کر ہمارے دل دہل جاتے تھے۔ وہ اب سرنگ میں داخل ہو چکے تھے اور چیختے چلاتے ہماری ہی طرف آرہے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی سوامی نے جلدی سے کہا۔
"آپ لوگ تیزی سے آگے کی طرف بھاگیے، یہ سرنگ کافی لمبی ہے۔"

یہ سنتے ہی ہم نے آگے بھاگنا شروع کر دیا، نجمہ اور اختر سب سے آگے تھے اور پھر ان کے پیچھے ہم سب۔ آگے گھپ اندھیرا تھا ، مگر ہمارے پاس اتنا وقت ہرگز نہ تھا کہ ہم تھیلوں میں سے ٹارچیں نکال کر جلاتے لہذا ہم اس اندھیرے ہی میں بھاگتے رہے اور ہمارے پیچھے وہی خوفناک چیخیں ہمارا تعاقب کرتی رہیں۔ یکایک مجھے نجمہ کی چیخ سنائی دی وہ کہہ رہی تھی۔
"ابا جی یہ سرنگ تو ایک دیوار سے بند ہو گئی اور میں دیوار سے ٹکرا گئی ہوں۔"
میں نے خود آگے بڑھ کر اس دیوار کو دیوانوں کی طرح ٹٹولنا شروع کر دیا۔ مگر مجھے دیوار میں کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر جیک نے اپنے تھیلے سے ٹاریک نکال کر جلا لی تھی اور اس کی دیکھا دیکھی امجد اور جان نے بھی اپنی اپنی ٹارچیں نکال لیں تھیں۔
میں نے ناامیدی کی حالت میں ایک لمبی سی آہ بھری اور پھر اپنا پستول نکال کر آدم خوروں کی طرف مونہہ کر کے کھڑا ہو گیا۔ کیوں کہ اب کوئی دم جاتا تھا کہ وہ ہمارے سامنے آنے والے تھے۔ میرے اس خیال کی تصدیق فوراً ہی ہو گئی۔ آدم خور بھاگتے ہوئے ہمارے سامنے آگئے، مگر ٹارچوں کی روشنی کو دیکھ کر اچانک ٹھٹھک گئے۔ اپنی لال انگارے جیسی خوفزدہ آنکھوں سے وہ ان روشنیوں کو دیکھ رہے تھے۔ جو ٹارچوں سے نکل رہی تھیں۔ اچانک اس روشنی سے ڈر کر انہوں نے ایک بھیانک نعرہ لگایا۔ اور پیچھے بھاگنے لگے مگر ان کے سردار نے ایک تیز اور کراری آواز مونہہ سے نکالی اور غصے میں اپنا پاؤں زمین پر مارا۔
اس آواز کو سن کر وہ رک گئے اور پھر آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھنے لگے۔ مصیبت یہ تھی کہ ٹارچوں کی روشنی اس وقت بہت ضروری تھی کیوں کہ اس روشنی سے ہی ہم آدم خوروں کو دیکھ سکتے تھے اور دوسرا کوئی طریقہ ایسا نہ تھا کہ ہم بندوقیں بھی اسی ہاتھ میں پکڑتے، ٹارچ اور بندوقوں میں سے ایک چیز ہی ہم استعمال کر سکتے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ ٹارچیں پکڑے رہیں، میں پستول سے ان آدم خوروں کو نشانہ بناتا ہوں۔
آدم خور سردار کا اشارہ پاکر ایک ہماری طرف بڑھا ہی تھا کہ میںنے فوراً اپنا پستول چلا دیا۔ ایک زور دار آواز اس سرنگ میں پیدا ہوئی اور آدم خور تڑپتا ہوا زمین پر گر گیا۔ اپنے ساتھی کایہ حشر دیکھ کر ان کے سردار کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اور پھر اس وہ سب کے سب ایک لمبی سی خوفناک چیخ نکالتے ہوئے ہم پر حملہ آور ہوئے۔ میں تو بس اتنا ہی جانتا ہوں کہ میرے پستول اے ایک گولی پھر نکلی اور پھر یکایک اتنی زبردست آواز ہوئی کہ ہمارے کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔
سرنگ کی زمین اور دیواریں ہلنے لگیں اور آدم خور دائیں بائیں ڈولنے لگے۔ میرے خیال میں یہ ایک زلزلے کا زبردست جھٹکا تھا۔ سرنگ کی چھت میں سے وزنی پتھر آ آ کر آدم خوروں پر گرنے لگے اور وہ سب بوکھلا کر پیچھے کی طرف بھاگنے لگے۔ زلزلہ ابھی تک جاری تھا۔ گڑ گڑاہٹ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ پتھر لگاتار رہے تھے۔ ایک خوفناک تڑاخا پھر ہوا، بس میں اتنا ہی محسوس کرسکا کہ ہم لوگ یکایک زمین میں دھنسنے لگے۔ کوئی غیبی طاقت ہمیں پاتال کی طرف لے جا رہی تھی۔ گڑگڑاہٹ اور پتھروں کے گرنے کا شور سنائی دے رہا تھا۔ اور میرے ساتھیوں کی بھیانک اور تکلیف میں ڈوبی ہوئی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ اور یہ سب کچھ جیسے ایک خواب کے عالم میں ہو رہا تھا۔

جب میری آنکھ کھلی تو میں نے خود کو ایک ہلکے سے ٹھنڈے چشمے کے کنارے پڑے ہوئے پایا، یہ تو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ چشمہ ہے۔ پہلے تو مجھے اندھیرے میں نظر ہی نہیں آیا۔ آنکھیں کھولتے ہی مجھے گھپ اندھیرا دکھائی دیا۔ میں نے اِدھر ادھر ہاتھ بڑھا کر کچھ ٹٹولنے کی کوشش کی، مگر سوائے زمین کے پتھروں کے میرے ہاتھ اور کوئی چیز نہیں لگی۔ بیٹھے ہی بیٹھے میں آگے کی طرف کھسکا۔ اس بار میرا ہاتھ پتوں سے ٹکرایا۔ معلوم ہوا کہ یہ نجمہ ہے۔ نجمہ کے جسم کو چھوتے ہی مجھے خیال آیا کہ شاید ہم اس وقت بھی ساتھ ہی ہیں اور کوئی ہم سے جدا نہیں ہوا ہے۔
میں نے آہستہ سے آواز دی۔
نجمہ بیٹی۔۔۔۔۔نجمہ بیٹی۔۔ نجمہ بے۔۔۔۔۔۔۔۔ٹی۔۔۔۔


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:12

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں