ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 11 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-17

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 11




پچھلی قسط کا خلاصہ :
نجمہ کے ذریعہ آخر ماچس کی تیلی سلگ گئی اور لکڑیوں میں آگ لگ گئی اور اسی آگ لی لمبی لمبی لپٹوں سے برف کا آدمی پگھلنے لگا اور پھر وہ پگھل کر سمندر میں گر پڑا اور اس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ میں موجود سب لوگ بھی سمندر میں ڈوبے۔ مگر کسی طرح ابھر کر واپس کشتی میں پہنچ گئے۔ پھر کئی ہفتوں تک سمندر میں بھوکے پیاسے بھٹکتے ہوئے وہ بالآخر ایک جزیرے پر پہنچ گئے۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

میں فوراً رک گیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ میں سمجھا کہ شاید نجمہ ندی میں نہارہی ہے۔ ابھی میں نے امجد سے کچھ کہنے کے لئے اپنا مونہہ کھولا ہی تھا کہ جھاڑیوں میں کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور نجمہ اس میں سے نمودار ہوئی۔۔۔ مگر کس حلئے میں؟ اس نے اپنا پورا جسم پتوں کے لباس سے ڈھک رکھا تھا۔ شاید درختوں کی چھال کو اس نے کپڑے کی جگہ استعمال کیا تھا اور پھر اس چھال پر بڑے بڑے پتے بڑی خوبی سے لگا لئے تھے۔ دور سے دیکھنے پر وہ بالکل جنگلیوں کی ملکہ نظر آتی تھی۔ اس کے گورے رنگ پر ہلکے زرد اور سبز رنگ کے پتے بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ ہلکے ہلکے قدم بڑھاتی ہوئی جب وہ میرے قریب آ گئی تو میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
"سچ نجمہ، میں تو یہ سمجھا کہ شاید اس جزیرے میں جنگلی آباد ہیں اور ان کی ملکہ ندی کو پار کرکے ادھر آ گئی ہے۔"
" یہ لباس آپ پر خوب جچ رہا ہے۔"
امجد نے اسے تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
نجمہ پہلے تو شرما گئی اور اس کے بعد کہنے لگی، اس کے لہجے میں اب تھوڑی سی حیرت تھی۔
"ابا جی، میں کہہ نہیں سکتی کہ کیا بات ہے؟ ہو سکتا ہے کہ میرا وہم ہو، مگر میں نے نہاتے وقت گھنی جھاڑیوں میں ایک سایہ دیکھا تھا۔"
"کیا کہتی ہو؟؟" میں یکایک چونک گیا۔
"ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ میں نے اس کی ایک جھلک دیکھی تھی۔ مگرمیں ٹھیک طرح اندازہ نہیں لگا سکتی کہ وہ کیا چیز تھی۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی جانور ہو!"
"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، کوئی جانور ہی ہوگا۔ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ یہاں انسان موجود ہیں تو پھر یقیناً وہ بےضرر ہوں گے۔" امجد نے کہنا شروع کیا:
"سمندر کے کناروں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس جزیرے میں تہذیب کا ذرا سا بھی گزر نہیں ہوا۔ اگر یہاں کچھ لوگ رہتے ہوتے تو سمندر کے آس پاس کشتیوں کو باندھنے کے لئے کھونٹے یا پھر اکا دکا جھونپڑیاں ضرور ہوتیں۔"
"ہاں یہ بات تو ضرور ہے۔" نجمہ نے آہستہ سے کہا۔
"اچھا چلو باتیں تو پھر ہوں گی، پہلے جان اور جیک کی خبر لیں اور بھوک مٹانے کا بھی کچھ انتظام کریں" میں نے جلدی سے کہا۔
"ہاں ہاں چلیے۔"امجد نے کہا۔
جب میں ذرا آگے بڑھ گیا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، امجد اور نجمہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے آگے آ رہے تھے۔ میں نے مسکرا کر جلدی سے سامنے دیکھنا شروع کر دیا اور تیزی کے ساتھ ساحل کی طرف چلنے لگا۔

ساحل پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ سوامی، اختر، جان اور جیک کو ہوش میں لے آیا ہے۔ اس نے ندی میں سے پانی بھر بھر کر ان تینوں پر ڈالا تھا اور یوں انہیں ہوش آ گیا تھا۔ پانی پینے کے بعد وہ تازہ دم ہو گئے تھے مگر چہروں پر سب کے مردنی چھائی ہوئی تھی۔ نجمہ بھی حالانکہ ندی میں نہاکر اپنی طبیعت میں فرحت محسوس کرنے لگی تھی مگر رنگ اس کا بھی زرد پڑا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جان آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے رو رہا ہے اور بار بار کہہ رہا ہے۔
"خدا بڑا عظیم ہے۔۔۔۔۔۔خدا بڑا کریم ہے۔"
جیک بھی چاروں طرف یوں دیکھ رہا تھا جیسے کسی چھپے ہوئے خطرے کی بو سونگھ رہا ہو۔ پانی سے کسی بھوکے انسان کا پیٹ کبھی نہیں بھرا کرتا۔ اس لئے جیک بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ پیاس کے بعد اب اسے بھوک ستانے لگی ہے۔ نجمہ نے بھی اتفاق سے اس کی اس حالت کو سمجھا اور وہ پھر کہنے لگی۔
"ابا جی وہیں ندی کے کنارے مجھے پپیتے جیسا ایک پھل اگا ہوا نظر آیا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اسے چکھا تو وہ بہت میٹھا معلوم ہوا۔ جلدی جلدی میں نے سارا پھل کھا لیا اور اب مجھے بھوک بھی نہیں لگ رہی اور طاقت بھی محسوس ہو رہی ہے کیوں نہ آپ سب بھی وہی پھل کھائیں۔ ایسے پھل تو وہاں بے شمار ہیں۔"

نجمہ کی یہ بات سن کر میں نے سوامی سے کہا کہ وہ ایسے تمام پھل توڑ کر لے آئے۔ سوامی بے چارہ حالانکہ بھوک سے خود بیتاب ہو رہا تھا مگر حکم کے آگے مجبور تھا، اس لئے ایک تیز دھار والا چاقو اپنے ہاتھ میں لے کر وہ نجمہ کے بتائے ہوئے مقام کی طرف چلا گیا۔ اس عرصے میں امجد اور میں ساحل کے کنارے کنارے ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔ تاکہ اگر آس پاس ہی آبادی کا کوئی نشان ہو تو ہم اس طرف جانے کی کو شش کریں۔ جان چونکہ بہت کمزور تھا اس لئے اس کے پاس ہم نے جیک کو چھوڑا اور نجمہ و اختر سے کہا کہ وہ اپنے جان پاپا کو خوش کرنے کی کوشش کریں۔ سمندر کی لہریں دور سے چیختی چلاتی آتی تھیں اور پھر ساحل پر آکر دم توڑ دیتی تھیں۔ ہم دونوں ٹھنڈے ریت پر پاؤں رکھتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ میں بار بار اچک کر جزیرے کے دوسرے کونے کو دیکھنے کی کوشش کرتا تھا مگر اونچے نیچے درخت ہمیشہ میرے سامنے آ جاتے تھے۔
اچانک امجد نے ایک سسکاری سی بھری۔ میں نے جلدی سے پلٹ کر اس کے چہرے کو دیکھا۔ امجد کی نظریں ساحل کے ایک خاص مقام پر لگی ہوئی تھیں۔ جب میں نے اس طرف دیکھا تو حیرت اور تعجب کی ایک ہلکی سی چیخ میرے مونہہ سے بھی نکل گئی اور پھر ہم دونوں جلدی جلدی اس چیز کے پاس پہنچے جسے دیکھتے ہی ہماری یہ حالت ہوئی تھی۔ پاس جاکر دیکھا تو وہ ایک ڈھانچہ تھا!
کسی مردہ انسان کا ڈھانچہ!
پتہ نہیں وہ غریب اس جزیرے میں خود آیا تھا یا پھر اس کی لاش بہتی ہوئی اس جزیرے پر آ کر رک گئی تھی۔ اس جزیرے میں کسی انسانی ڈھانچہ کا ملنا ایک بری فال تھی۔ خدا معلوم وہ اپنی موت مرا تھا یا کسی نے اسے موت کے مونہہ میں پہنچایا تھا۔ بات بہرحال کچھ بھی ہو، مگر یہ بات یقینی تھی کہ ہم سے پہلے اس جزیرے میں کسی انسان کا گزر ہوا ضرور تھا۔

ہم دونوں نیچے جھک کر اس ڈھانچے کو غور سے دیکھنے لگے اور پھر اچانک میں گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ کیوں کہ اگر میں اس ڈھانچے کو نہیں تو اس شخص کو ضرور جانتا تھا جس کا یہ ڈھانچہ تھا۔ ڈھانچے کی کمر سے چمڑے کی ایک پیٹی بندھی تھی جو اب سوکھ گئی تھی۔ اس پیٹی میں ایک زنگ لگا ہوا پستول بھی رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ڈھانچے کی انگلی میں ایک بہت بڑی ہیرے کی انگوٹھی بھی تھی جسے میں اچھی طرح پہچانتا تھا۔ کیوں کہ وہ انگوٹھی میری ہی تھی اور میں نے بہت عرصے پہلے یہ انگوٹھی ایک شخص کو تحفتاً دی تھی۔ ان تین نشانیوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ یہ ڈھانچہ کس کا ہے؟ شاید آپ بھی اس شخص کا نام جاننے کو بے تاب ہوں گے۔ لیجئے میں بتاتا ہوں یہ ڈھانچہ دراصل میرے پرانے ساتھی بلونت کا تھا!

بلونت کا یہ حشر دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے اس کی کمر سے پیٹی اور ہاتھ میں سے انگوٹھی اتار لی ور پھر خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔ مجھے یہ امید ہرگز نہ تھی کہ بلونت سے اس طرح ملاقات ہوگی۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ بلونت جیسا ہی حشر کہیں ہم سب کا بھی تو نہیں ہونا ہے! یہ خیال آتے ہی میں لرز گیا۔ امجد کو جب میں نے یہ بتایا کہ یہ ڈھانچہ کس کا ہے تو اسے بھی بہت رنج ہوا۔ ابھی ہم دونوں کھڑے ہوئے باتیں ہی کر رہے تھے کہ یکایک وہ جزیرہ اس طرح ہلا جیسے زلزلہ آیا ہو۔۔۔ اور پھر ایک چیخ۔۔۔۔ بڑی خطرناک اور تیز چیخ مجھے جزیرے کے اندر سے سنائی دی۔ یہ چیخ سنتے ہی ہم دونوں جلدی سے کشتی کی طرف بھاگے اور پھر بھاگتے ہوئے میں نے کسی کی ایک جھلک دیکھی۔ شاید اسی چیز کی جھلک جسے نجمہ نے نہاتے وقت دیکھا تھا۔!
ایک بھیانک سایہ درختوں کے بیچ میں نظر آ کے فوراً غائب ہو گیا!

میں اور امجد اتنی تیزی سے بھاگے کہ شاید عمر میں کبھی نہ بھاگے ہوں گے۔ اختر، نجمہ جان اور جیک خوفزدہ چہروں کے ساتھ اپنی گردنیں اٹھائے جنگل کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ سب بھی اس قدر ڈرے ہوئے تھے کہ ہماری آہٹ پاتے ہی چونک گئے اور گھبرا کر اس طرح پلٹے جیسے ہمارے کسی وار کو روکنا چاہتے ہوں۔ ہمیں دیکھ کر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا اور جان نے ذرا آگے بڑھ کر مجھ سے پوچھا کہ آخر یہ چیخ کیسی تھی اور یہ جزیرہ کیوں ہلا تھا۔ بھلا اس بات کا میں کیا جواب دیتا! مجھے خود بھی معلوم نہ تھا۔ بہرحال یہ ضرور ہے کہ اب میں نے خطرے کی بو سونگھ لی تھی اور مجھے یقین تھا کہ جلد ہی ہمیں کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آنے والا ہے۔

خطرے کا احساس ہوتے ہی میں نے بڑی تیزی کے ساتھ سب کو احکام دینے شروع کر دئے۔ جان جو ہم سب کا لیڈڑ تھا، اب وہ بھی میری باتوں کو بلا چون و چرا مان رہا تھا۔ پہلے تو میں سب کی مدد سے اپنی کشتی کو ساحل پر گھسیٹ کر لے آیا اور پھر اس میں ریت بھر دی۔ کچھ ہی دیر بعد ایسا معلوم ہونے لگا جیسے وہ کشتی نہیں ریت کا کوئی ٹیلہ ہو۔ یہ کام میں نے اس لئے کیا تھا کہ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ دشمن ہماری کشتی کو دیکھ لیں۔ اس کے بعد میں نے یہ ہدایت کی کہ اپنے اپنے ہتھیار نکال کر ہاتھ میں لے لیں، ہتھیاروں میں اگر زنگ لگ گیا ہے تو اسے فوراً صاف کریں، اس کے علاوہ جنگلی پھل اور ضرورت کی چیزیں کارتوس اور بیٹریاں (چونکہ کارتوس اور بیٹریاں پلاسٹک کی تھیلیوں میں بند کرنے کے بعد ہم نے لکڑی کے ڈبوں میں ڈال دی تھیں، اس لئے وہ ابھی تک محفوظ تھیں) اپنے ساتھ لے لیں۔
کون جانے آگے جاکر ہمیں اب ان ہی چیزوں سے واسطہ پڑے؟ ایسا کرنے کے بعد اب ہم لوگ جنگل میں داخل ہونے کے لئے بالکل تیار ہوگئے۔ سوامی ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ ہم نے سوچا کہ اسی طرف تو جا رہے ہیں آگے چل کر سوامی بھی ہمیں مل جائے گا۔ زیادہ دیر تک کھلے ساحل پر کھڑے رہنا ہمارے لئے بہت خطرناک تھا اس لئے ہم جلدی جلدی ندی کو پھلانگتے ہوئے جنگل کی طرف بڑھنے لگے۔ مگر اب خیال آتا ہے تو خوف کی ایک جھرجھری سی مجھے اپنے جسم میں محسوس ہوتی ہے۔ کاش کسی طرح خدا ہمارے دل میں یہ بات ڈال دیتا کہ ہم آگے نہ بڑھیں اور کشتی میں واپس سمندر کے اندر چلے جائیں، سمندر کی موت ان تکلیفوں سے پھر بھی آسان ہوتی جو ہم نے اس جزیرے میں برداشت کیں۔

ایک قطار میں ادھر اُدھر دیکھتے اور پھونک پھونک کر قدم بڑھاتے ہوئے ہم لوگ بڑے عجیب لگ رہے تھے۔ ہمارے بیچ میں نجمہ تھی جو پتوں کے لباس میں کسی دوسری دنیا سے آئی ہوئی مخلوق لگتی تھی۔ ہم سب جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کافی حد تک ننگے تھے۔ کوئی اگر ہمیں اس وقت دیکھتا تو ہم سے ڈر کر یقیناً دور بھاگ جاتا۔ کیونکہ اس وقت ہم خوںخوار اور وحشی جنگلی نظر آتے تھے۔ ہمارا حلیہ ہی ایسا تھا کہ ہر کوئی ہمیں غیر مہذب سمجھتا۔ ندی عبور کرنے کے بعد ہم خوفزدہ نظروں سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں نجمہ نے ہمیں پہلے آواز دی تھی کہ ہم آگے نہ آئیں۔ یہاں پہنچ کر نجمہ نے مجھے بتایا کہ اس نے ان جھاڑیوں کے پیچھے وہ سایہ دیکھا تھا اور وہ پپیتے جیسا پھل وہاں سے توڑا تھا۔ یہ خیال کر کے کہ سوامی وہیں کہیں آس پاس ہوگا میں نے اور امجد نے کئی آوازیں لگائیں مگر سوامی کا کوئی جواب نہ آیا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ یہ جھاڑیاں کچھ ایسی گھنی بھی نہیں تھیں جن میں سوامی کھو جاتا!
پھر آخر وہ کہاں گیا؟
جنگل میں اور آگے بڑھ کر میں نے ایک دو آوازیں اور دیں مگر جنگل کے ٹڈوں اور ایسے ہی دوسرے جانوروں نے مجھے جواب دیا۔ سوامی کی کوئی آواز نہیں آئی۔
میرے ساتھ ہی سب حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ سوامی کہاں گیا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہیں وہ پھل تلاش کرتے کرتے جنگل میں آگے تو نہیں بڑھ گیا۔ یہ سوچ کر میں نے خود بھی ذرا آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ مگر پھر فوراً ٹھٹھک گیا۔ ٹھٹھک کہاں گیا، بلکہ اگر میں یہ کہوں تو شاید مبالغہ نہ ہوگا کہ کسی نے میرے جسم کا تمام خون اچانک نچوڑ لیا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے قدموں میں جان نہ رہی ہو۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اتنا زبردست خوف اور ایسا بھیانک ڈر مجھے لگا کہ میرے مونہہ سے بے حد دہشت ناک چیخیں نکل گئیں۔ میرے کانوں نے تو اتنا سنا کہ میرے ساتھ ہی میرے ساتھیوں نے بھی چیخیں ماریں مگر اپنی نگاہیں میں ان کی طرف نہیں پھیر سکا کیوں کہ یہ نگاہیں تو ان تین انسان نما درندوں کی طرف لگی ہوئی تھیں جو اس وقت میرے سامنے کھڑے مجھے بھوکی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

عزیز دوستو! اور میرے بزرگو! میں اپنے قلم میں وہ طاقت کہاں سے لاؤں جو میری اس وقت کی حالت بیان کر سکے۔ خوف نے اس وقت میری زبان تو بند کر ہی دی ہے مگر میرے قلم کو بھی لرزا دیا ہے۔ اف خدا وہ کیسی ہیبت ناک شکلیں تھیں۔ کیسے بھیانک چہرے تھے اور کیسی خوںخوار سرخ انگارے جیسی آنکھیں تھیں۔ ان کے قد سات سات فٹ لمبے تھے۔ جسم پر ایک بھی کپڑا نہ تھا۔ مٹیالے رنگ کی کھال تھی جس پر گوریلے جیسے لمبے لمبے بال تھے۔ گردن اور گندھوں کا فاصلہ تقریباً تھا ہی نہیں۔ ان کے بھورے بال سر سے لہراتے ہوئے کمر تک لٹک رہے تھے اور ڈاڑھیاں ایسے بڑھی ہوئی تھیں کہ مونہہ اور ناک مشکل ہی سے نظر آتی تھی۔ یہ صورتیں اتنی خوفناک تھیں کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ دنیا کا ہر بدصورت سے بدصورت انسان بھی ان تینوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا۔
آنکھیں ایسی سرخ جیسے لال بلب جل رہے ہوں۔ ان آنکھوں پر ابرو اتنے گھنے تھے کہ آنکھوں کے آگے تک ان کے بال لٹکے ہوئے تھے۔ ناک کے نتھنے بالکل بن مانس جیسے تھے اور سب سے زیادہ بھیانک تھا ان کا مونہہ ، ہمیں دیکھ کر جب وہ ہنسے تو۔ یہ مونہہ اور اس کے اندر کے دانت نظر آئے۔ ان کے دانت بھیڑئیے جیسے تھے۔ کچلیاں لمبی تھیں اور ہونٹوں کے دونوں کناروں سے آگے لٹکی ہوئی تھیں۔ ہمیں دیکھ کر خد ا جانے وہ کون سی زبان میں چلائے اور پھر ایک نعرہ لگا کر ہماری طرف جھپٹے۔ حالانکہ ان کے ہاتھوں میں سوائے لمبی لمبی ہڈیوں کے اور کوئی ہتھیار نہ تھا۔ مگر ان کی شکلیں دیکھ کر ہم اتنے سہم گئے تھے کہ اپنے بچاؤ کے لئے کچھ بھی نہ کرسکے۔ شاید ان کی آنکھوں میں کوئی ایسی قوت تھی جس نے ہمارے جسموں کو سن کر کے رکھ دیا تھا۔ ہمارے قریب آکر انہوں نے ہمیں سونگھنا شروع کر دیا۔ جیک اور امجد کو اپنی گھناؤنی انگلیوں سے چھو کر دیکھا اور پھر خوش ہو کر ناچنے لگے۔ ان کے جسموں سے ایسی سڑاند آ رہی تھی جیسے کسی مردہ لاش سے آتی ہے۔
ہمیں دیکھ کر ان کے ہونٹوں سے رال ٹپکنے لگی اور ان کے بے ہنگم ناچ کی رفتار اور تیز ہو گئی۔ جیک ہماری اس قطار میں سب سے پیچھے تھا۔ ان میں سے ایک نے اس کے پاس جا کر اپنے ہاتھ کی لمبی ہڈی اس کی کمر پر ماری اور ہاتھ سے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ دوسرا میرے قریب آیا مگر میں چونکہ اس کا مطلب سمجھ چکا تھا اس لئے میں نے خود آگے چلنا شروع کردیا۔ اس پر وہ بہت خوش ہوا اور میرے آگے آگے ناچتا ہوا چلنے لگا۔

خدا جانے یہ کون سی نئی مصیبت تھی؟ یہ قوم اتنی عجیب تھی کہ آج تک ہم نے اس کا نام نہیں سنا تھا اور نہ اس کے بارے میں کچھ پڑھا تھا۔ دیکھنے میں یہ بالکل درندے نظر آتے تھے اور مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ ہمیں نقصان نہ پہنچائیں۔ یہ سوچ کر میں نے چلا کر سب سے کہا۔
"خبردار، کوئی بھی اپنے اوسان ہاتھ سے نہ جانے دے اور اپنے اپنے ہتھیاروں کو مضبوط پکڑ لیں"
مجھے بولتے دیکھ کر تیسرا درندہ پہلے تو میرے قریب آیا اور پھر مجھے دیکھ کر خوشی سے ناچنے لگا۔ اس کے خیال میں میں کوئی ایسا کھلونا تھا جو بول بھی سکتا تھا۔
ہمیں اسی طرح اپنے نرغے میں لئے ہوئے وہ وحشی آگے ہی آگے چلتے رہے۔ اونچے اونچے گڑھوں اور ناہموار راستوں کو پھلانگتے ہوئے ہم لوگ لگاتار ایک گھنٹے تک چلتے رہے۔ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے ؟ اتنا تو ہم سمجھ گئے تھے کہ یہ قوم وحشی ہے اور اگر ہم نے اپنے بچاؤ کی کوئی کوشش نہ کی تو بے موت مارے جائیں گے۔ مگر بچاؤ کی کوشش کرنے کے لئے وقت درکار تھا جو اس وقت ہمار ے پاس نہیں تھا۔
جنگل اب آگے جاکر ختم ہوگیا تھا اور اونچی نیچی چٹانیں نظر آنے لگی تھیں۔ ان چٹانوں کے دامن میں ہمیں کچھ جھونپڑیاں نظر آئیں۔ یہ درندے ہمیں ان جھونپڑیوں ہی کی طرف لے جا رہے تھے۔ جھونپڑیوں کو دیکھتے ہی انہوں نے کسی عجیب سی زبان میں نعرے لگائے اور پھر ناچنے لگے۔ میں نے پلٹ کر اپنے ساتھیوں کو دیکھا۔ ان کے چہرے خوف کی وجہ سے پیلے پڑے ہوئے تھے۔ ایک تو ہم پہلے ہی کے تھکے ہوئے تھے۔ اوپر سے یہ ایک گھنٹے کا مزید سفر بس یوں سمجھئے کہ پاؤں رکھتے کہیں تھے اور پڑتا کہیں اور تھا۔
بڑی مشکل سے اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے ہم لوگ ان وحشیوں کے ساتھ جھونپڑیوں تک آئے۔ کل پانچ جھونپڑیاں تھیں۔ وحشیوں کی چیخیں سن کر اب ان میں سے دو عورتیں اور تین مرد اور نکل آئے۔ یہ پانچوں بھی بالکل ننگے تھے۔ بس عورتوں کے چہروں پر ڈاڑھی نہیں تھی، ورنہ حلیہ ان کا بھی مردوں جیسا تھا۔ ہمیں اپنی طرف آتے دیکھ کر ان پانچوں نے بھی چلانا اور ناچنا شروع کر دیا۔ جھونپڑیوں کے پاس پہنچ کر میں نے جو کچھ بھی دیکھا اس سے میرا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں تین چار انسانی پنجر پڑے ہوئے ہیں اور جھونپڑیوں میں لکڑیوں کی جگہ انسانوں کی ہڈیاں استعمال کی گئی ہیں۔ آدمی کی رانوں اور ٹانگوں کی ہڈیاں بلیوں کی جگہ اور پسلیاں چھت میں لگائی گئی ہیں۔ جو وحشی ہمیں اپنے ساتھ یہاں تک لائے تھے ان کے ہاتھوں میں بھی لمبی لمبی ہڈیاں کسی بدنصیب انسان ہی کی تھیں۔

حقیقت سمجھنے میں اب مجھے کچھ دیر نہیں لگی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ درندے دراصل آدم خور ہیں اور انسانوں کا گوشت ان کی خوراک ہے۔ ہم لوگوں کو جو یہ گھیر کر یہاں لائے ہیں تو ہمیں مصیبت سے بچانے کی خاطر نہیں بلکہ اپنی خوراک بنانے کے لئے لائے ہیں۔ اور اب شاید قدرت کو یہی منظور ہے کہ ہمارا گوشت ان درندوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے کام آئے۔
اس احساس نے میری رگ رگ میں بجلی دوڑا دی۔ میرا خون کھولنے لگا اور مجھے یکایک خیال آیا کہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود بھی میں کیوں ان درندوں سے ڈر رہا ہوں۔ مجھے تو یہ چاہئے کہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان بچانے کے لئے اپنی رائفل اٹھاؤں اور کارتوسوں کی پیٹی کے پورے کارتوس ان آدم خوروں پر جھونک دوں۔ میں اپنے ا س خیال کو پورا کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ وہ لوگ ناچتے کودتے ہمارے پاس آئے اور باری باری ہمیں چھو کر دیکھنے لگے۔
ان کے ناخن اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ میرے گوشت میں چبھنے لگے۔ وہ ہمیں اس طرح ٹٹول کر دیکھ رہے تھے جیسے قصائی کسی بکرے کو دیکھتا ہے۔ جان بے چارہ کافی دبلا پتلا تھا اس لئے اسے تو ان وحشیوں نے اس طرح ایک طرف دھکا دے دیا جیسے وہ مال تگڑا نہ ہو۔ اس کے بعد وہ ہم سب کی طرف متوجہ ہوئے۔ اختر کو بھی ایک طرف دھکیل دیا گیا اور باقی جو بچے انہیں پسند کر لیا۔ اس کے بعد وہ ایک ٹانگ پر اچھلتے ہوئے واپس جانے لگے۔ یہی وقت تھا جب کہ مجھے اپنی کارروائی کرنی تھی۔

مگر افسوس اب ہماری قسمت کی دیوی ہم سے روٹھ چکی تھی۔ نہ جانے انہیں کیا خیال آیا کہ وہ فوراً ہی واپس پلٹ آئے اور ہمارے قریب آکر ہمیں غور سے دیکھنے لگے۔ میں نے آہستہ سے اپنی رائفل اٹھائی اور اس کا ہیمر کھینچ لیا۔ بس اب ایک سیکنڈ میں رائفل چل سکتی تھی۔ مگر اس سے پہلے کہ میں رائفل سے نشانہ باندھ کر اسے چلاتا، ایک آدم خور نے جھٹکے کے ساتھ وہ رائفل مجھ سے چھین لی اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ کیا چیز ہے۔ اپنا اطمینان کرنے کے لئے اس نے رائفل کی نال کو اپنے مونہہ میں لے کر چبانا چاہا مگر پھر فوراً ہی گھبرا کر رائفل مونہہ سے نکالی۔ اتنی دیر میں اس کی دیکھا دیکھی بقیہ آدم خوروں نے بھی جان، جیک اور امجد کے ہاتھوں سے بندوقیں چھین لی تھیں اور وہ بھی اپنے ساتھی کی نقل کرتے ہوئے انہیں کھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب رائفلیں ان سے نہیں کھائی گئیں تو انہوں نے جھنجھلا کر بندوقوں کو کئی جھٹکے دئیے۔ بالکل اس طرح جیسے وہ لوہے کی بندوقیں نہیں بلکہ گوشت کی رانیں ہوں۔ بندوقوں کے ساتھ ہی انہوں نے جھک کر ہمارا باقی سامان بھی اٹھالیا جس میں کارتوسوں کے کئی ڈبے، سوبیا، بیٹریاں اور ٹارچیں و چاقو وغیرہ تھے۔ اس
سامان کوبندوقوں کے ساتھ ہی وہ اپنے ساتھ لے گئے اور اور صرف ایک ہمارے سامنے بیٹھ کر ہمیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا۔

پورا دن اسی طرح گزر گیا۔ شام ہو رہی تھی اور سورج کے ساتھ ہی ہم سب کے دل بھی بیٹھے جا رہے تھے۔ سوامی کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا۔ دل کہتا تھا کہ کہیں وہ ان آدم خوروں کے ہتھے تو نہیں چڑھ گیا ، مگر نہیں ایسا کس طرح ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کی لاش بھی ہمیں یہیں کہیں دکھائی دیتی۔ بلونت کے بارے میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی۔ اس غریب کو بھی ان ہی آدم خوروں نے ختم کیا تھا۔ ابھی ہم سب خاموش بیٹھے اپنے انجام کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ جھونپڑی میں سے تین آدم خور باہر آئے اور انہوں نے اپنے ساتھی سے کچھ کہا، اس کے بعد وہ چاروں ہمارے قریب آکر کھڑے ہوگئے اور ہمیں جھونپڑیوں کی طرف چلنے کا اشارہ کرنے لگے۔
اختر اور نجمہ یہ اشارہ سمجھ کر رونے لگے۔ میں نے انہیں تسلی دینے کے لئے ان کی طرف بڑھنا چاہا کہ ایک آدم خور نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی انسانی ہڈی زور سے میری کمر پر ماری اور اس کی ضرب سے چکرا کر میں زمین پر گر پڑا اور پھر مجھے ہوش نہ رہا کہ میرے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔

جب مجھے ہوش آیا تو میں نے محسوس کیا کہ میں نرم نرم گھاس پر لیٹا ہوا ہوں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں مگر دکھائی کچھ نہ دیا۔ البتہ کسی سڑی ہوئی چیز کی اتنی زبردست بدبو مجھے محسوس ہوئی کہ مجھے متلی ہونے لگی اور میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی میں نے بہتیری کوشش کی مگر وہاں روشنی ہوتی تو کچھ دکھائی بھی دیتا۔ یکایک مجھے کسی کی سرگوشی سنائی دی۔ کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا۔
"کیا یہ تم ہو فیروز۔۔۔ تمہیں ہوش آ گیا؟"
اس آواز کو میں فوراً پہچان گیا۔ یہ جان کی آواز تھی۔ میرے جواب دینے پر اس نے آہستہ سے کہا۔
"شکر ہے کہ تمہیں ہوش آ گیا ہے۔ مگر فیروز! مجھے آثار اچھے نظر نہیں آتے۔ جن خوفناک انسانوں کی قید میں ہم سب ہیں ان کے ارادے بڑے بھیانک ہیں۔ یہ لوگ آدم خور ہیں۔ اسی جھونپڑی میں کسی انسان کی ایک ٹانگ بھی موجود ہے اور یہ ٹانگ سڑ گئی ہے۔ شاید تمہیں اس کی بدبو آ رہی ہوگی۔"
"جی ہاں، اس بدبو سے تو میرا سانس لینا بھی دشوار ہو رہا ہے۔ میں نے جواب دیا۔
"تم پورے دس گھنٹے بے ہوش رہے ہو، ان آدم خوروں نے ہمیں ایک ہی جھونپڑی میں قید کر دیا ہے۔ اس وقت سب سو رہے ہیں مگر میں جاگ رہا ہوں۔ فیروز! میرے بیٹے، اس خوفناک جگہ سے چھٹکارا پانے کا کوئی طریقہ سوچو۔"
"طریقہ تو بہت آسان ہے۔" میں نے ہمت کر کے کہا، آخر یہ ہماری بندوقیں کب کام آئیں گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں پہلے پہل ان درندوں کو دیکھ کر ڈر گیا تھا اور اپنی رائفل کو کام میں نہیں لا سکا تھا۔ میری رائفل تو خیر ان آدم خوروں میں سے ایک کے قبضے میں چلی گئی مگر باقی بندوقیں اور ریوالور تو موجود ہیں، کل صبح ہوتے ہی ہم لگاتار فائر کرنے شروع کر دیں گے اور ان سب کو آسانی سے مار ڈالیں گے، اس کے بعد ہم آزاد ہوں گے۔"

جان نے تقریباً نا امیدی کے عالم میں کہا:
"مجھے ڈر ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکیں گے۔ یہ سب ترکیبیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔"
کیوں۔۔۔؟" میں نے حیرت کے ساتھ پوچھا۔
اس لئے کہ بندوقیں ، ریوالور اور کارتوس کی پیٹیاں سب کی سب غائب ہیں۔ "
"کیا کہتے ہیں آپ!"
"ٹھیک کہہ رہا ہوں، رات کے دس بجے کے قریب شاید میری آنکھ لگ گئی تھی۔ میں نے سب کو پہلے ہی سلا دیا تھا۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی اور کوئی بدمعاش چپکے سے آکر یہ سب سامان چرا کر لے گیا اب تو ہمارے پاس سوائے چند چاقوؤں کے اور کوئی ہتھیار نہیں ہے!"
جان کی زبانی یہ سن کر مجھے جتنا رنج ہوا میں بیان نہیں کر سکتا۔ یوں سمجھئے جیسے کہ میری کمر ٹوٹ گئی۔ ہتھیار ایسے نازک وقت میں ہمارے لئے سب سے بڑا سہارا تھے اور ان ہتھیاروں کو کوئی چرا کر لے گیا تھا۔
مگر کون؟ کیا سوامی؟۔۔۔ مگر سوامی کو ہتھیار چرانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر وہ جھونپڑی تک آبھی گیا تھا تو ہماری مدد کرنے کی بجائے ہمارا سامان چرا کر لے جانے میں کیا تک تھی!
۔۔ لیکن پھر اچانک میرے دل میں یہ خیال آیا کہ سوامی ہی تو کہیں جیگا نہیں ہے۔ یقینا یہی بات ہے۔ سوامی ہی درحقیقت جیگا ہے۔ وہ ظالم اور کمینہ انسان عرصے سے میرے ساتھ ہے اور مجھے پتہ بھی نہیں چلا! اس کی جاں نثاری اور وفاداری اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ میں اس کو پہچان ہی نہ سکا۔ کس موقع پر آ کر کم بخت نے وغا دی ہے۔ ہمیں ان آدم خوروں کی قید میں ڈال کر اور ہمارے ہتھیار غائب کر کے اب وہ ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے۔ اف! میری آنکھوں پر پردے پڑ گئے تھے جب ہی میں دوست اور دشمن میں تمیز نہیں کر سکا!

وہ پوری رات میں نے دانتوں سے اپنی بوٹیاں نوچنے ہی میں گزاری۔ رہ رہ کر مجھے سوامی پر طیش آتا تھا مگر غصے کی وجہ سے میں اپنے ہونٹ چبا کر رہ جاتا۔ اس کے سوا اور میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ ہاں بار بارمیں دل میں سوچتا تھا کہ کوئی طریقہ ایسا معلوم ہوجائے جس کی مدد سے میں سوامی سے انتقام لے سکوں۔ کاش اگر میں کسی طرح ان آدم خوروں کی قید سے رہائی حاصل کر سکوں، تب جیگا سے گن گن کر بدلے لوں، مگر جیسا کہ آپ دیکھیں گے ، تقدیر میرے ان خیالات پر کھڑی ہنس رہی تھی۔

سورج آہستہ آہستہ مشرق سے طلوع ہو رہا تھا ، ہلکی سی روشنی جھونپڑی کے دروازے میں سے اندر داخل ہونے لگی اور اس روشنی میں مجھے وہ جھونپڑی اب صاف صاف نظر آنے لگی۔ جھونپٹری کی چھت پر انسانوں اور مختلف جانوروں کی کھوپڑیاں ٹنگی ہوئی تھیں اور ایک کونے میں انسانی پنچر پڑے ہوئے تھے۔ یہ پنجر تعداد میں کئی تھے اورانہیں دیکھ دیکھ کر میرا اور جان کا خون خشک ہوا جا رہا تھا۔ جھونپڑی کے دوسرے کونے میں واقعی ایک آدمی کی کٹی ہوئی ٹانگ پڑی تھی اور اس ٹانگ میں سے بدبوؤں کے بھبکے اٹھ رہے تھے۔ اس ٹانگ کے پاس ہی ایک چیز اور تھی جس نے مجھے بری طرح سہما دیا۔ یہ دراصل کسی جکاری کی کھال تھی جو دیوار سے ٹنگی ہوئی تھی۔ جکاری کی کھال کو اس جگہ لٹکے دیکھ کر میں چونکے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس جزیرے میں جکاری کی کھال کی موجودگی کا مطلب یہ تھا کہ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے ہم بالکل صحیح جگہ پر آ گئے تھے۔
جیگا (یعنی سوامی) اسی جزیرے میں غائب ہوا تھا۔ اسی جزیرے میں جکاری کی موجودگی ظاہر ہوئی تھی۔ لہذا یہی جزیرہ جیگا کا ٹھکانہ ہوگا۔
مجھے یقین ہے کہ میں نے جو کچھ سوچا تھا وہ ٹھیک تھا۔ آدم خور اس جزیرے کے دراصل پرانے باسی تھے۔ جیگا نے یہاں آ کر انہیں اپنے قابو میں کر لیا ہوگا اور ان کی عادت جانتے ہوئے اپنے خادم جکاریوں میں سے کچھ انہیں کھانے کے لئے دے دئے ہوں گے۔ آدم خوروں کو کوئی تکلیف اور پریشانی اٹھائے بغیر جب اپنا من بھاتا کھانا، یعنی انسان کا گوشت گھر بیٹھے مل گیا ہوگا تو وہ جیگا کے غلام بن گئے ہوں گے۔ جکاری اور انسانوں میں بس تھوڑا ہی سا فرق تو تھا۔ آدم خوروں کو بھلا کیا معلوم کہ کون جکاری ہے اور کون انسان۔ یہی وجہ ہے کہ جیگا آدم خوروں کے پاس رات کو آیا ہوگا اور ہتھیار چرا کر لے گیا ہوگا۔ ورنہ آدم خوروں کی جھونپڑی میں بغیر ان کی مرضی کے کون آ سکتا ہے ، کس کی شامت آئی ہے جو یوں چوری چھپے وہاں آئے گا؟؟

یہی خیالات تھے جو رہ رہ کر میرے دل میں آ رہے تھے۔ میں نے عقل مندی یہ کی کہ ان خیالات کو فوراً ہی جان پر ظاہر نہیں کیا اتنی دیر میں اور سب بھی باری باری اٹھ کر بیٹھ گئے۔ نیند کی حالت میں تو بدبو نے کسی کو نہیں ستایا تھا مگر اب جاگتے ہی سب نے اپنی ناکوں پر ہاتھ رکھ لئے۔ سب کے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر نجمہ اور اختر کے سروں پر محبت اور شفقت بھرا ہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے میری آنکھیں بھر آیئں۔ کیوں کہ میرے خیال میں ان کے سروں پر اب یہ ہاتھ میں آخری بار پھیر رہا تھا۔ نجمہ اور اختر سسکیوں کے ساتھ رونے لگے اور ہم سب مل کر انہیں تسلی دینے لگے۔
کچھ ہی دیر بعد مجھے بہت سے آدم خوروں کے چلانے اور شور مچانے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں سمجھ گیا کہ موت اپنا بھیانک مونہہ کھولے ہماری طرف بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ میں نے دروازے میں سے جھانک کر دیکھا، وہی تھے۔ اس وقت ان کے ہاتھوں میں بہت لمبی لمبی ہڈیاں تھیں جن کے سروں پر کافی وزنی پتھر بندھے ہوئے تھے میں جانتا تھا کہ یہ پتھر ہماری کھوپڑیوں کو توڑنے کے لئے باندھے گئے ہیں۔ جھونپڑی کے دروازے کے پاس آکر وہ ہمیں باہر آنے کے اشارے کرنے لگے۔ عورتیں اپنے مکروہ اور بھیانک دانت نکال کر ہنسنے لگیں اور ہڈیاں ہلا ہلا کر ہمیں اس طرح دیکھنے لگیں گویا کہہ رہی ہوں:
"آؤ۔۔۔ کب تک وہاں چھپے رہو گے۔ ہمارے پیٹ میں تو چوہے دوڑ رہے ہیں۔"
یہ اشارہ سمجھ کر تو میری روح فنا ہو گئی۔ نجمہ دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی اور امجد نے غصے کی وجہ سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:11

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں