ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 10 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-10

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 10



پچھلی قسط کا خلاصہ :
سمندر کے بیچ کا ایک حصہ برف کی زمین بن چکا تھا اور وہیں سے ایک برفانی دیو نازل ہوا جو پورا کا پورا برف سے بنا ہوا تھا۔ اس نے ایک کے بعد ایک جان، جیک، سوامی، فیروز وغیرہ کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر نگل لیا اور وہ سب اس کے پیٹ میں پہنچ گئے لیکن برفانی دیو نجمہ کو پکڑ نہ سکا کیونکہ نجمہ کے گلے میں پڑا آفاقی ہار نجمہ کی مدد کر رہا تھا ۔۔۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

"میرے خیال میں شاید ان سے ماچس نہیں جل رہا ہے ، برف پر پڑے پڑے وہ گیلا ہو گیا ہے۔" امجد نے بے تابی سے کہا۔
"پھر اب کیا ہوگا؟" جیک نے پریشانی سے پوچھا۔
"خدا جو چاہے گا وہ ہوگا"۔ جان نے جواب دیا:
"اگر اسے ہمیں زندہ رکھنا ہے کہ تو پھر ہم ضرور بچ جائیں گے۔"
"دیکھئے، دیکھئے برفانی ہاتھ پھر ان کی طرف بڑھے۔ " امجد کا بس نہ چلتا تھا کہ خود وہاں پہنچ جائے۔
جسم کے ہلنے سے برفانی انسان کا پیٹ بھی ہلنے لگا اور ہم نے اس ہلتے ہوئے قید خانے میں سے دیکھا کہ جوں ہی وہ بھیانک ہاتھ نجمہ کی طرف بڑھے، اس کے گلے میں پڑے ہوئے ہار میں سے وہی نورانی مگر قاتل شعائیں نکلیں اور دیو نے زبردست چیخوں کے ساتھ اپنے ہاتھ کھینچ لئے۔
نجمہ کے چہرے پر کیا مجال ہے کہ ذرا سا بھی ڈر نظر آیا ہو۔ نجمہ کو اس روپ میں میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اور مجھے اس کے رویے کی تبدیلی پر ذرا سی بھی حیرت یوں نہیں تھی کہ میں اب اچھی طرح جان چکا تھا کہ یہ سب آفاقی ہار کا نرالا کرشمہ ہے۔ شاگو نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ یہ ہار اسے پہنا دیا جائے جس کے چہرے پر کبھی بال نہیں اگتے۔ بس پھر آپ اس کا کرشمہ دیکھئے گا۔ اور وہ کرشمہ ہم اس وقت دیکھ رہے تھے۔ اس نے نجمہ جیسی ڈرپوک لڑکی کو اتنا نڈر بنا دیا تھا کہ وہ اب بڑی سے بڑی طاقت سے بھی ٹکرانے کا حوصلہ رکھتی تھی!

اس کی حالت اس وقت عجیب تھی۔ شاید امجد کا کہنا ٹھیک تھا کہ ماچس برف پر پڑے پڑے گیلا ہو گیا ہے۔ نجمہ بار بار ماچس کو کھول کر دیا سلائی نکالتی اور پھر اسے رگڑتی مگر پھر فوراً ہی جھنجھلا کر نیچے پھینک دیتی۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ جوں جوں نجمہ اپنے اس کام کو تیزی سے کرتی توں توں برفانی انسان کا غصہ بڑھتا جاتا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب وہ بھی نجمہ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے ڈرنے لگا تھا۔ کئی بار اس نے کوشش کی کہ ہاتھوں کو نیچے لے جائے مگر پھر فوراً ہی گھبرا کر اس نے ہاتھ کھینچ لئے۔ ہم لوگ اپنے برف کے قید خانے میں سے نجمہ کو اشارے کر رہے تھے کہ وہ جتی جلد ہو سکے دیا سلائی جلا لے۔ مگر بے چاری نجمہ ہمارے اشاروں کا جواب اپنی گردن نفی میں ہلا کر دیتی۔ گویا کہہ رہی ہو کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہوتا!

برفانی انسان کی بے بسی اور بے تابی اس وقت دیکھنے کے قابل تھی۔ پتہ نہیں کیا بات تھی کہ وہ سمندر سے نکل کر اوپر نہیں آ رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے قدم سمندر کی تہہ سے لگے ہوئے ہوں اور کوئی خاص طاقت اسے قدم اٹھانے سے روکتی ہو! کچھ ایسی ہی بات ضرور تھی۔ اس کے سفید چہرے پر غم و غصہ چھایا ہوا تھا۔
ایک خوفناک چنگھاڑ کے ساتھ اس نے اپنے دونوں ہاتھ تیزی سے نجمہ کی طرف بڑھائے اور جیسے ہی یہ ہاتھ نجمہ کے قریب پہنچے تو میں نے دیکھا آفاقی ہار میں سے کرنیں نکلیں اور دیو کے ہاتھوں کو جھلسا گئیں۔ مگر میں نے صرف یہی نہیں دیکھا ایک اور بات بھی میں نے دیکھی جس کی وجہ سے میرا دل خوشی کے باعث بلیوں اچھلنے لگا۔ ان کرنوں کی نظر نہ آنے والی گرمی سے نجمہ کے بڑھے ہوئے ہاتھ میں جو ماچس تھا، اب اس میں اچانک آگ لگ گئی تھی ۔۔۔!

یہ عجیب واقعہ تھا۔ ماچس میں اتنی زبردست آگ لگی تھی کہ مجھے ڈر ہوا کہ یہ آگ کہیں نجمہ کے ہاتھوں کو جھلسا نہ دے ، نورانی کرنوں اور ماچس کے دھوئیں کی بدولت نجمہ مجھے بالکل نظر نہیں آ رہی تھی۔ برفانی انسان کا پیٹ زور زور سے ہل رہا تھا اور ہمیں اچھی طرح نظر بھی نہیں آ رہا تھا کہ نیچے کیا ہو رہا ہے؟
برف کے اس دیو کے ہاتھ شاید کافی جل گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تکلیف کے باعث وہ بار بار اپنے ہاتھ جھٹک رہا تھا اور اس کی بلبلاہٹ کی وجہ سے اس کا پیٹ اور زیادہ ہلنے لگا تھا۔ ہم لوگ اس وقت اس کے پیٹ میں جامنوں کی طرح گھل رہے تھے اور ہمیں یہ بالکل معلوم نہ تھا کہ نجمہ نے جلتا ہوا ماچس لکڑیوں پر ڈالا یا نہیں؟

اچانک جیسے زلزلہ آگیا۔ برفانی انسان بری طر ح لرزنے لگا اس کے پیٹ کے باہر ہمیں ست رنگے شعلے ناچتے ہوئے نظر آئے۔ شعلوں کی لمبی لمبی زبانیں شاید برفانی انسان کے مونہہ تک پہنچ رہی تھیں۔ یہ دیکھتے ہی ہم نے خوشی کا نعرہ مارا۔ نجمہ نے ماچس لکڑیوں پر یقیناً پھینک دیا اور ان میں اب آگ لگ چکی تھی۔ برف کی کھڑکی سے جھانکنے پر مجھے نجمہ نظر آئی جو تیزی سے بھاگتی ہوئی کشتی کی طرف جا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ ہمیں بڑی خوفناک چیخیں سنائی دینے لگیں۔ دیو کا پیٹ پگھل رہا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اب ہمیں باہر کی آوازیں سنائی دینے لگی تھیں۔ ہم لوگوں کے لئے یہ بڑی مصیبت کا وقت تھا ہمیں یقین تھا کہ جیسے ہی دیو کا پیٹ پگھلے گا ہم تیزی سے نیچے کی طرف گریں گے اور نیچے آگ جل رہی تھی۔ وہی بات ہو جاتی کہ آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا!
ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں کہ اچانک پیٹ پگھل گیا اور ہمارے سامنے آگ کی لپٹیں لہرانے لگیں۔ اتنی بلندی سے ہم کسی طرح بھی نیچے نہیں کود سکتے تھے اور دوسرا کوئی ذریعہ ہمیں اپنے چھٹکارا پانے کا نظر نہیں آتا تھا۔

ہم نے کچھ ہی دیر بعد محسوس کیا کہ دیو لڑکھڑانے لگا ہے۔ شاید اس کی رانیں اور گھٹنے بھی اب پگھلنے لگے تھے۔ یہ محسوس کرتے ہی خوف کی وجہ سے ہمارے دل لرز گئے۔ دیو اگر مونہہ کے بل برف پر گرتا تو ہم کسی طرح بھی نہیں بچ سکتے تھے۔ حیرت اور ڈر کے ساتھ ہم ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے۔ دیو کے پیٹ میں جو برف کی دیواریں تھیں ہم ان سے چمٹ گئے۔ سطح سمندر سے اس وقت ہم اندازاً ڈھائی سو فٹ بلند تھے۔ لپکتے ہوئے شعلوں کے درمیان ہم نے نجمہ کو دیکھا جو کشتی کے پاس کھڑی ہوئی بے قراری سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ برف کا انسان چیخیں مارتا ہوا اب بری طرح لڑکھڑا رہا تھا۔کبھی وہ آگے کی طرف جھک جاتا اور کبھی پیچھے کی طرف۔ اس کی رانیں اب پانی بن رہی تھیں اور کسی بھی وقت وہ نیچے گر سکتا تھا۔

اور پھر وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا۔ برفانی انسان مونہہ کے بل زمین پر گرنے لگا۔ میں نے اختر کو اپنے سینے سے لگا لیا اور اپنے انجام کا تصور کرتے ہوئے کانپنے لگا۔ امجد، جیک اور سوامی نے بڑی بھیانک چیخیں ماریں اور جان کراہ کر برف کی دیوار سے چمٹ گیا۔ ہم نے سمجھ لیا کہ بس اب ہمارا خاتمہ ہے۔ سب نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں تاکہ اپنے عبرتناک انجام کو ہم اپنی ہی آنکھوں سے نہ دیکھیں۔ برف کی زمین تیزی سے ہماری طرف آتی جا رہی تھی۔
اچانک ایک زور کا چھپاکا ہوا۔ پہلے تو میری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا ہوا؟ لیکن جب میں نے اپنے حواس قابو میں کئے اور میرا دماغ کچھ سمجھنے کے قابل ہوا تو میں نے دیکھا کہ سمندر کے اندر پڑا ہوں اور اگر جلد ہی میں نے اپنے بچاؤ کے لئے ہاتھ پاؤں نہ چلائے تو ڈوب جاؤں گا۔ خود کو زندہ پاکر مجھ میں اچانک ہمت پیدا ہو گئی۔ سب سے پہلے تو میں نے اختر کو سینے سے الگ کر کے اپنے کندھوں پر چڑھا لیا اور پھر دیکھا کہ کچھ ہی فاصلے پر امجد، جیک اور سوامی جان کو اپنے درمیان میں لئے ہوئے تیر رہے ہیں۔ جان یقیناً بے ہوش ہو گیا تھا۔ آدمی بے شک وہ بہادر تھا مگر بڑھاپے کے باعث اب اس کے حواس بھی جواب دے گئے تھے۔ اس کے علاوہ اپنے ایک محسن کے ڈوب جانے کا اختر کے ساتھ ساتھ مجھے بھی افسوس ہوا۔ یہ اختر کا بندر تھا جس نے ایک موقع پر ہم سب کی جان بچائی تھی۔ اب یہی بندر اختر کے کندھے پر سے کود کر شاید پانی میں غرق ہو چکا تھا!

ہم نے ایک دوسرے کو غور سے دیکھا اور پھر جلدی جلدی ہاتھ ہلائے تاکہ معلوم ہو جائے کہ ہم زندہ ہیں۔ اس کے بعد میں نے ہر طرف نظر دوڑائی ، کوئی دو سو فٹ کے فاصلے پر مجھے اپنی کشتی نظر آئی جس میں نجمہ کھڑی ہوئی خوشی سے چلا رہی تھی اور جواب میں بار بار اپنا ہاتھ ہلا رہی تھی۔ جس جگہ ہم تیر رہے تھے وہاں سے لے کر کشتی تک ہمیں ایک سفید سی دیوار نظر آئی جو یقینا اس برفانی انسان کا جسم تھا۔ اب مجھ پر پوری حقیقت کھلی۔ کشتی کو اگر مرکز مان لیا جائے تو اس سے نصف فرلانگ کے دائرے کا پانی برف بنا تھا۔ مطلب یہ کہ برفانی انسان جب برف کی اس زمین پر گرا تو اس کے پیٹ سے نیچے کا حصہ ہی برف کی زمین سے ٹکرایا۔ ہم لوگ چونکہ پیٹ میں تھے اور پیٹ سمندرمیں گرا تھا اس لئے ہمارے چوٹ نہیں لگی اور ہم بچ گئے۔ اپنی جان بچ جانے پر میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر کشتی کی طرف تیرنے لگا۔ میرے ساتھ ہی باقی سب بھی جان کو سنبھالے ہوئے تیرنے لگے۔

کشتی میں آنے کے بعد جب ہم اچھی طرح سستا چکے تو گزرے ہوئے واقعات کو یاد کرنے لگے اور ساتھ ہی نجمہ کو حیرت اور تعجب سے دیکھنے لگے۔ اس میں تو اب کسی طرح کا شبہ ہی نہ تھا کہ آفاقی ہار دراصل نجمہ ہی کے لئے تھا۔ شاگو نے کہا تھا کہ یہ ہار اسے پہنایا جائے جس کے گالوں پر کبھی بال نہ آئے ہوں اور نہ کبھی آئیں۔ لڑکیوں کے بال کبھی نہیں آتے۔ اس لحاظ سے نجمہ ہی اس ہار کی مستحق تھی اور اس سفر میں اگر نجمہ ہمارے ساتھ نہ ہوتی تو شاید یہ سطریں لکھنے کے لئے میں زندہ ہی نہ ہوتا۔
خدا کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں۔ نجمہ جس وقت چوری چھپے میرے اسٹیمر میں آئی تھی ، اس وقت بھلا مجھے کیا معلوم تھا کہ خدا ایک دن اسی لڑکی کو ہم سب کی جانیں بچانے کا ذریعہ بنائے گا!

میں اپنی داستان کی طوالت کی وجہ سے مجبور ہوں کہ اس وقت کی آپس میں کی ہوئی باتوں کو چھوڑ دوں۔ مختصراً اتنا سمجھ لیجئے کہ مختلف پھل اور ناریلوں کا پانی پینے کے بعد ہم لوگ تازہ دم ہو گئے اور ہمارا وہ سفر پھر شروع ہو گیا۔ جو ہماری قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔ اب یہ بات ہمیں یقین کے ساتھ معلوم ہو چکی تھی کہ برفانی انسان دراصل جیگا کا ہی بھیجا ہوا تھا۔ اگر آفاقی ہار ہمارے پاس نہ ہوتا تو جیگا سے ٹکر لینا آسان کام ہرگز نہ تھا۔ برفانی دیو پانی میں گھل کر اب پانی بن چکا تھا اور فی الحال ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ نجمہ کو ہم نے یہ رائے دی کہ آفاقی ہار کو اپنے گلے میں گلوبند کی طرح کس کر پہن لے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہار کی طرح ڈھیلا ہونے پر وہ کسی آنے والے حادثے میں اس کے گلے سے نکل جائے اور خواہ مخواہ ہمیں شاگو سے شرمندہ ہونا پڑے۔ نجمہ نے ہماری بات مان کر ایسا ہی کیا۔ اور تب ہمیں ایک حد تک اطمینان ہو گیا۔

شام ہو رہی تھی۔ آبی پرندے آسمان میں اڑنے لگے تھے اور سورج آہستہ آہستہ سمندر کی طرف جھک رہا تھا۔ شام کے وقت سمندر کی اچھلتی اور تڑپتی لہریں بھی خاموش ہو جایا کرتی ہیں۔ اس وقت بھی ایسی ہی حالت تھی۔ سمندر میں بہت کم لہریں پیدا ہو رہی تھیں اور ہماری کشتی ایک نامعلوم منزل کی طرف چلی جا رہی تھی۔ آسمان پر اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھ کر جان نے، جو اب پوری طرح ہوش میں آ چکا تھا مجھ سے کہا۔
"فیروز۔۔۔میری سمجھ میں ایک بات آئی ہے۔"
"فرمائیے۔"
"میں بہت دیر سے ان پرندوں کو دیکھ رہا ہوں۔ پہلے تو میں نے خیال نہیں کیا تھا۔ مگر اب جو غور کیا ہے تو ایک بہت ہی کار آمد بات مجھے سوجھی ہے۔"
"وہ کون سی؟" امجد نے اشتیاق سے پوچھا۔
"پرندے زیادہ تر ایک ہی سمت پرواز کر رہے ہیں۔ اگر سورج کی طرف ہم اپنا مونہہ کر لیں تو ہمارے دائیں طرف شمال ہے۔ اور بائیں طرف جنوب۔ اس لحاظ سے یہ پرندے جنوب کی طرف پرواز کر رہے ہیں۔ شام ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے۔ اب یوں سوچو کہ یہ پرندے شام ہونے سے پہلے پہلے اپنے آشیانوں میں پہنچ جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ابھی چند منٹ پہلے ہی سے جنوب کی طرف پرواز کرنا شروع کیا ہے۔ ورنہ پہلے یہ سمندری مچھلیاں پکڑنے میں منہمک تھے۔ میرے خیال میں آس پاس ہی جنوب کی سمت میں کوئی جزیرہ ہے جہاں ان پرندوں کے گھونسلے ہیں۔"
" یہ آپ نے کیسے جانا؟" میں نے بے تابی سے پوچھا:
"ہو سکتا ہے کہ جزیرہ میلوں دور ہو!"
" یہ بات نہیں ہے۔ ایک ماہی گیر جب سمندر میں جال ڈالنے کے لئے اپنے گھر سے کافی دور سمندر میں پہنچ جاتا ہے اور دن بھر شکار کھیلتا رہتا ہے تو پھر واپس آنے کے لئے ایک خاص وقت میں ہی چلتا ہے۔ مثلاً وہ یہ جانتا ہے کہ اگر میں شام کے چار بجے واپس لوٹوں گا تو شام کے چھ بجے دن ہی دن میں گھر پہنچ جاؤں گا۔ یہی حال ان پرندوں کا ہے۔ رات ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے ، ابھی کچھ دیر پہلے پرندے شکار کھیلنے مین مصروف تھے۔ مگر اچانک چند منٹ پہلے ہی وہ جنوب کی طرف پرواز کرنے لگے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہی ہوا کہ ان کا گھر یا پھر جزیرہ اس مقام سے جہاں ہماری کشتی ہے، صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے، بشرطیکہ ہماری رفتار بھی پرندوں جتنی ہو۔"
"واہ واہ۔۔۔ واہ واہ۔۔" اختر نے خوشی سے تالیاں بجانی شروع کر دیں۔ "واقعی یہ تو آپ نے بڑی کارآمد بات نوٹ کی"۔ میں نے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے کہا۔
"اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں چپو دوبارہ سنبھال لینے چاہئیں؟" امجد نے جیک اور سوامی سے کہا۔
"بالکل ٹھیک ہے۔ اس طرح اگر ہم ایک گھنٹے میں نہیں تو چار گھنٹے میں تو ضرور کسی زمین تک پہنچ جائیں گے۔"
سوامی نے چپو چلاتے ہوئے کہا۔

درحقیقت جان نے یہ بہت ہی عمدہ بات سوچی تھی۔ ایک ایک چپو پر ہم دو دو آدمی لگ گئے اور ہم نے کشتی اپنی پوری قوت سے چلانی شروع کر دی۔ سورج ڈوب چکا تھا۔ صرف افق پر ہلکی سی نارنجی روشنی نظر آ رہی تھی۔ ہم کچھ دیر تک تو اس روشنی کو مغرب سمجھ کر کشتی چلاتے رہے اور جب یہ رو شنی بھی غائب ہو گئی تو کشتی کو اندازے سے چلانا پڑا۔ اب ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ آسمان صاف تھا اور اس میں ننھے منے ستارے جھلملانے لگے تھے۔ کسی قسم کی کوئی آواز نہ تھی۔
چپ چپ چپ چپ، بس صرف چپوؤں کی یہی آواز ہمیں رہ رہ کر سنائی دے رہی تھی۔ دونوں بچے، جان اور میں خاموش بیٹھے ہوئے سوچ رہے تھے۔ سوامی، جیک اور امجد چپو چلا رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا؟ پے در پے ہم پر کئی مصیبتیں نازل ہو چکی ہیں۔ آخر یہ مصیبتیں کبھی ختم بھی ہوں گی یا ہم اس طرح بلاؤں میں گھرے رہیں گے۔ رات کے وقت کشتی کسی ان جانی سمت میں چلانا اب دشوار تھا۔ کیوں کہ کشتی کا رخ جنوب کی طرف اب کسی بھی حالت میں نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ دل یہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد ہم کسی زمین تک پہنچ جائیں۔ درحقیقت اسی امید پر ہم لوگوں میں کشتی چلانے کی ہمت پیدا ہو گئی تھی۔ ورنہ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم اس قدر تھکے ہوئے تھے کہ اگر کوئی مجھے نرم نرم گدوں پر سونے کے لیے کہتا تو شاید میں لگاتار ایک مہینے تک سوتا رہتا!

میری آگے کی داستان کو سننے کے لئے اب پتھر کے دل گردے والے آدمی کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے وہ لوگ جو کمزور دل و دماغ کے ہیں، اس کتاب کو گھبرا کر بیچ میں ہی بند کر کے رکھ دیں۔ یہ بات میں نے اس لئے کہی ہے کہ مصیبت کی جو کہانی اب میں آپ کو سنانے والا ہوں وہ ایسی ہے کہ جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جو آفتیں اور مصیبتیں اس رات کے بعد مجھ پر نازل ہوئیں۔۔۔ اف میرے خدا۔۔۔ میں کس طرح بیان کروں!
مختصراً اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ شاید ایسی مصیبت دنیا میں آج تک کسی انسان نے نہ اٹھائی ہوگی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ چار گھنٹے گزرنے کے بعد ہمیں جزیرہ مل گیا ہوگا۔ جی نہیں ، بلکہ وہ پوری رات لگاتار جاگتے اور ادھر اُدھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے میں گزر گئی ، مگر زمین تو کیا ایک چھوٹا سا کنکر بھی ہمیں کہیں نظر نہ آیا۔ سورج زمین کا نصف چکر لگا کر مشرق سے طلوع ہو گیا تھا۔ پرندے آسمان پر اڑ کر چہچہانے لگے تھے مگر جزیرہ ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔ جب میں نے ذرا غور سے پرندوں کی پرواز کا رخ دیکھا تو معلوم ہوا کہ اب وہ مشرق سے مغرب کی طرف اڑ رہے ہیں۔ یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے ، کل تو ان کا رخ شمال سے جنوب کی سمت تھا! کہیں راتوں رات ہماری کشتی نے اپنا مونہہ تو نہیں پھیر لیا ، کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟

آگے کی باتیں لکھتے ہوئے میرا دل لرزتا ہے۔ میں کس طرح کہوں کہ ہم اس سنسان سمندر میں پورے ایک مہینے تک بہتے رہے، کیسے لکھوں کہ ہم مردوں سے بھی بدتر ہو گئے تھے۔ کس طریقے سے اس حقیقت کو بتلاؤں کہ اتنے عرصے تک ہمیں کوئی جزیرہ نہیں ملا!
یہ باتیں لکھتے ہوئے میرا کلیجہ مونہہ کو آتا ہے۔ موت کے وقت سسکتے ہوئے آدمی کی حالت پھر بھی بہتر ہو سکتی ہے، مگر ہماری نہ تھی۔ کشتی میں کھانے پینے کا جو سامان تھا وہ سب ختم ہو چکا تھا۔ ناریلوں کا پانی ہی نہیں بلکہ ہم اس کا گودا اور اس کی چھال بھی کھا گئے تھے۔ بھوک میں تو کواڑ بھی پاپڑ معلوم ہوتے ہیں اور آپ کو یہ سن کر ہماری بے بسی پر رونا آئے گا کہ ہم نے چمڑے کی سب چیزیں مثلاً پیٹیاں، پستول کے خول اور انتہا تو یہ ہے کہ جوتے تک کھا لئے۔
اپنی نو عمری کے زمانے میں ایک بارمیں نے مشہور مزاحیہ اداکار چارلی چپلن کی ایک فلم دیکھی تھی جس کا نام "گولڈ رش" تھا۔ اس فلم میں ایک جگہ چارلی بھوک سے بے تاب ہو کر اپنا جوتا ابال کر کھاتا ہے۔ تب اس منظر کو دیکھ کر میں بہت ہنسا تھا اور مجھے کچھ کراہیت بھی آئی تھی۔ کشتی کے اندر جوتے کھاتے وقت مجھے وہی منظر یاد آگیا۔ غم کی وجہ سے میں پاگل سا ہو گیا اور بری طرح قہقہے لگانے لگا۔ میرے چہرے پر آنسو بہہ رہے تھے۔ بغیر ابلے ہوئے جوتے کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ میں تھا۔ میں اس کا ایک کنارا کتر لیتا تھا۔ اور جب اسے چبانے میں تکلیف ہوتی تھی تو بری طرح ہنستا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ بچپن میں جس فلم کے منظر کو دیکھ رہا ہوں اور زور زور سے قہقہے لگا رہا ہوں۔ یہی قہقہے مجھے ایک بار پھر لگانے پڑیں گے مگر ان کی دوسری نوعیت ہوگی!

میرے اللہ! یہ کیسا عذاب تھا، کیسی مصیبت تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کہ ہم جہنم میں کہیں بھٹکتے پھر رہے ہوں۔ ایک دوسرے کی حالت دیکھ کر اب ہم غم بھرے قہقہے لگاتے تھے۔ میں آپ سے کیا بیان کروں کہ ہماری حالتیں کیا تھیں! جان کی حالت تو ایسی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مرچکا ہے۔ سوامی اور جیک چپوؤں سے چمٹے ہوئے بالکل بے ہوش تھے۔ اختر کے ہونٹ سوکھے ہوئے تھے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے بس وہ ایک ہی سمت دیکھے جا رہا تھا۔ امجد ناز و نعم میں پلا ہوا نوجوان تھا۔ حالت اس کی بے حد خراب تھی مگر نجمہ کی موجودگی میں وہ اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نجمہ خاموش بیٹھی ہوئی اچھلتی اور تڑپتی لہروں کو دیکھ رہی تھی۔ ہم سب کے کپڑے اب تار تار ہو چکے تھے۔ پتلونیں سب کی پھٹ کر اب جانگئے بن گئی تھیں۔ قمیضیں تو کافی عرصہ ہوا ختم ہو چکی تھیں، کچھ پھٹی پرانی اگر رہ بھی گئی تھیں تو وہ ہم نے نجمہ کو پہنا دی تھیں۔
جس دن کا میں ذکر کر رہا ہوں اس دن تو یہ حالت تھی کہ سوائے پیوند لگے ہوئے جانگیوں کے کسی کے جسم پر کوئی کپڑا نہ تھا۔ نجمہ کی شرمندگی کے مارے بری حالت تھی۔ اس نے ا پنے لمبے لمبے سیاہ بالوں سے اپ نے جسم کو ڈھک رکھا تھا۔ اپنے دونوں ہاتھوں سے وہ ان بالوں کو آگے سے پکڑے رہتی تھی اور کسی وقت بھی ہم سے آنکھیں ملا کر بات نہ کرتی تھی بلکہ کوشش کرتی تھی کہ صرف اس کی کمر ہی ہمارے سامنے رہے۔ یہ حالت ایسی تکلیف دہ تھی کہ جس نے مجھے اور غمزدہ کر دیا تھا۔ ہمارے حلق خشک تھے، زبانیں سوکھ گئی تھیں، اور گال پچک کر ہڈیوں سے جا لگے تھے۔ متواتر تیز دھوپ اپنے ننگے جسموں پر برداشت کرتے کرتے یہ جسم اب سیاہ ہو گئے تھے۔ افریقی جیک میں اور ہم میں اب کوئی تمیز باقی نہیں رہ گئی تھی۔ دھوپ کی وجہ سے ہماری کھالیں جل گئی تھیں اور کئی جگہ سے تو ان میں سے خون بہنے لگا تھا۔ کھانے پینے اور پہننے کے لئے اب ہمارے پاس کوئی چیز نہ تھی اور ہم اب خدا سے اپنی موت کی دعائیں مانگ رہے تھے !

سمندر کے پانی کو میں نے کئی بارپینا چاہا مگر اس کے کھاری پن سے طبیعت متلانے لگی۔ جان نے بڑی مجبوری کی حالت میں یہ پانی پیا یہی وجہ تھی کہ وہ سخت بیمار پڑ گیا اور اب ہمیں امید تھی کہ ہم سب میں سے پہلے وہی مرے گا۔ یہ عجیب وقت تھا اور مجھے یقین ہے کہ ایسا وقت کسی انسان پر شاید کبھی نہ گزرا ہوگا۔۔۔ !
سوبیا کا ڈبہ رسی سے بندھا ہوا بدستور پانی میں بہہ رہا تھا۔ میری سمجھ میں حالانکہ یہ بات بالکل نہ آئی تھی کہ آگے جاکر یہ سوبیا جان کو کیا فائدہ پہنچائے گی ، مگر اس ڈبے کو میں خواہ مخواہ رسی سے علاحدہ کرنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ ہمیں اپنے بارے میں اب پکا یقین ہو چکا تھا، کہ ہم شاید ایک دو دن کے اور مہمان ہیں۔ میں نے نجمہ کی طرف دیکھا تو میرا دل کانپ اٹھا۔ میری پھول سی بچی پر کتنی مصیبتیں ٹوٹ پڑی تھیں اور اس وقت وہ کتنی اداسی کے ساتھ سمندر کی بہتی ہوئی لہروں کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کی اداسی دور کرنے کی خاطر کہا۔
"نجمہ بیٹی کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔؟"
"میں۔۔۔ میں یہ دیکھ رہی ہوں ابا جی کہ سمندر کی ہر لہر ایک دوسرے سے جدا ہو کر پھر مل جاتی ہے۔ کیا میں بھی اپنی بچھڑی ہوئی امی سے دوبارہ مل سکوں گی۔"
اتنا کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس نے پیٹھ پھیرے پھیرے یہ جواب دیا تھا اور مجھے اس کی کمر سبکیوں کی وجہ سے ہلتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ میرا دل بے قرار ہو گیا اور میں نے کہا:
"ہم سب ایک ہی ناؤ میں سوار ہیں بیٹی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں اب تو صرف خدا ہی ہماری مدد کر سکتا ہے۔"
"آپ لوگ دل چھوٹا مت کیجئے۔" امجد نے کہا:
"خدا ہمیں ضرور بچائے گا۔"
"خدا کو اگر ہمیں بچانا منظور ہوا تو ضرور بچائے گا"۔ میں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
"اپنے بچوں کے ساتھ ہی مجھے تمہارا بھی خیال ستاتا ہے امجد۔ تم ناحق ہمارے ساتھ پھنس کر ان مصیبتوں میں گھر گئے۔"
"ایسی بات مت سوچئے فیروز صاحب"
امجد کا گلا رندھ گیا۔
"اگر میں آپ کو مصیبت میں چھوڑ کر واپس بمبئی چلا بھی جاتا تو مجھے آپ لوگوں کا خیال ستاتا رہتا۔ جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے اسے بھلا کون مٹا سکتا ہے۔"

باتیں کرنے سے جسم کی طاقت ختم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ اس لئے میں نے باتیں بند کر دیں اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے افق کو دیکھنے لگا۔ سمندر آگے جاکر دھندلا سا ہو جاتا تھا، اور بہت دور آسمان سمندر سے ملتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔
افق پر نظریں جماتے ہی میں ایک دم چونک گیا۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید یہ میرا وہم ہے مگر جب ذرا غور سے میں نے ادھر دیکھا تو حیرت سے میری آنکھیں پھیل گئیں۔ میں نے نجمہ، اختر اور امجد سے کہا کہ وہ بھی اس طرف دیکھیں۔ بہت ہی توجہ سے دیکھنے کے بعد میرا دل اچانک زور سے دھڑکنے لگا۔ دل کو قابو میں کر کے میں نے جلدی سے دوربین کو آنکھوں سے لگایا۔ زبردست خوشی کے باعث میرا دل لرزنے لگا اور ہاتھ کپکپانے لگے۔ بہت دور مجھے سمندر کے کونے پر ایک دھبہ سا نظر آرہا تھا اور اس بات کی تصدیق امجد نے بھی فوراً کر دی۔
"کوئی جزیرہ معلوم ہوتا ہے فیروز صاحب"
خوشی کے باعث اس کی آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔
"ابا جی۔۔ ہماری کشتی کا رخ بھی اسی طرف ہے۔نجمہ نے کہا
"مگر یہ کتنی دور ہوگا؟"
"میرے خیال میں بیس پچیس میل ضرور ہے۔"میرے بجائے امجد نے جواب دیا۔
"ابا جی وہاں جلدی چلئے" اختر نے کہا اور بے چارہ خوشی کے باعث فوراً بے ہوش ہو گیا۔

اپنی رہی سہی ہمت کو جمع کر کے میں اور امجد یکایک کھڑے ہو گئے شاید یہ خوشی کا حد سے بڑھ جانا تھا کہ ہم نے بے ہوش اختر کی بھی پروا نہ کی۔ سوامی اور جیک کو چپوؤں سے اس طرح علاحدہ کر دیا جیسے وہ دونوں بالکل ناکارہ انسان ہوں۔ یہ سوچے بغیر کہ ان کے کہیں چوٹ نہ لگ جائے ہم نے انہیں د ھکا دے کر ایک طرف پھینک دیا اور پھر چپوؤں کو ہاتھوں میں تھام کر بیٹھ گئے۔ طاقت تو اب ہم میں تھی ہی نہیں مگر کوشش کر کے تھوڑی بہت طاقت اور ہمت پیدا کی اور چپو زور زور سے چلانے لگے۔
"اور زور سے ، خوب زور سے ، ابا جی اور زور سے۔"
نجمہ ہمیں جوش دلانے لگی۔

زور بھلا ہم سے کیا لگ رہا تھا۔ بس یوں سمجھئے کہ پانی کے اوپر چپو چلا رہے تھے۔ کوئی چپو کبھی اتفاق سے پانی کے اندر چلا جاتا تو کشتی ایک جھٹکا لے کر آگے بڑھ جاتی ورنہ ایک ایک دو انچ آگے کھسک رہی تھی۔ ہماری آوازیں سن کر سوامی نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں اور پوچھا۔ "کیا ہم جنت میں ہیں مالک۔۔؟"
"ارے احمق جلدی اٹھو، سامنے ایک جزیرہ نظر آ رہا ہے۔"
"جل جیرہ۔۔۔ نہیں مالک میں جل جیرہ نہیں پیا کرتا۔ مجھے تو صرف ایک قطرہ پانی کا پلا دو۔" سوامی کسی اور ہی دنیا میں تھا۔
"کلو سوامی جلدی سے چپو چلاؤ، ہوشیار ہو جاؤ، زمین نظر آ رہی ہے۔" نجمہ نے چلا کر کہا۔
"زمین۔۔۔" سوامی کے بھیجے میں تھوڑی سی بات بیٹھی۔
"ہاں ہاں زمین ۔۔۔۔۔۔۔۔ سوامی ہماری مدد کرو ۔۔۔" میں نے غصے سے ڈانٹ کر کہا۔
"مالک۔۔۔ میں۔۔۔ میں مرا نہیں زندہ ہوں، بھگوان تیرا شکر ہے۔ مگر آپ نے کہا تھا زمین نظر آ رہی ہے۔ کہاں ہے؟ کدھر ہے؟" سوامی نے اٹھ کر چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
چونکہ وہ مجھ سے زیادہ سمندر سے واقف تھا، اس لئے اسے فوراً ہی وہ دھبہ نظر آ گیا جسے ہم جزیرہ سمجھ رہے تھے۔ سوامی نے خوشی کا ایک نعرہ لگا کر کہا:
"ہاں مالک وہ زمین ہی ہے۔ بھگوان تیرا شکر ہے۔"
"تم بڑے احمق ہو سوامی، ارے بے وقوف چپو چلانے میں ہماری مدد کرو۔" میں نے اسے پھر ڈانٹا۔

سوامی کی سمجھ میں اب بات آئی۔ وہ لڑکھڑا تے قدموں سے جلدی سے آگے بڑھا اور پھر میرے ساتھ مل کر چپو چلانے لگا۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ کتنی محنت اور مشقت کے بعد ہم جزیرے تک پہنچے ہیں۔ اگر میں اس وقت کی پریشانی لکھنے بیٹھ جاؤں تو فائدہ کچھ بھی نہ ہوگا۔ البتہ کئی ہزار صفحے سیاہ ہو جائیں گے۔
آپ ہماری اس وقت کی غم میں ڈوبی ہوئی مسرت کا اندازہ کیجئے جب کہ جزیرہ ہم سے صرف چند گز دور رہ گیا تھا۔ خوشی کی وجہ سے ہم سب رو رہے تھے اور چیخوں کے ساتھ رو رہے تھے۔ ہماری زبانیں کتوں کی طرح باہر نکلی ہوئی تھیں اور ہم کتوں ہی کی طرح ہانپ رہے تھے۔ جب ہماری کشتی جزیرے کی نرم اور گیلی ریت میں دھنسنے لگی تو میں نے نجمہ اور اختر کو اشارہ کیا کہ وہ پہلے اتر جائیں۔ بلکہ اگر میں یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ مجھے اشارہ کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آئی، کیوں کہ اشارے سے پہلے ہی وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر بھاگتے ہوئے اس ریت پر جاکر اوندھے منہ گر گئے۔ جان اور جیک کی ہم نے کوئی پروا نہ کی اور ہم بھی اسی طرح دوڑتے ہوئے پانی میں چھپاکے اڑاتے ریت پر جاکر گر گئے ، اور پھر گتے ہی ہمیں ہوش نہ رہا کہ ہم کہاں ہیں؟

شاید صبح ہو رہی تھی۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ہم کب تک وہاں بے ہوش پڑے رہے تھے۔ میں تو اتنا ہی جانتا ہوں کہ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ پرندے چہچہا رہے ہیں اور بڑی بڑٰی گول آنکھوں والے جنگلی الو کا جوڑا ایک چھوٹے سے پیڑ پر بیٹھا ہمیں گھور رہا ہے۔ میں گھبرا کر ایک دم کھڑا ہوا اور پھر میں نے اس جزیرے کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ جزیرہ ویسا ہی تھا جیسا ہرجزیرہ ہوتا ہے۔ درخت اس میں کثرت سے تھے اور مزے کی بات یہ تھی کیہ کچھ دور ایک چھوٹی سی ندی بہہ رہی تھی جس کا پانی سمندر میں آ کر گر رہا تھا۔
یہ سوچ کر کہ اختر اور نجمہ پیاسے ہوں گے میں نے اس طرف دیکھا جہاں وہ دونوں پڑے ہوئے تھے۔ اچانک خوف کی ایک چیخ میرے مونہہ سے نکل گئی۔ نجمہ وہاں موجود نہ تھی۔ میری اس وقت کی بے قراری کوئی دیکھتا۔ میں نے جلدی سے اختر، امجد اور سوامی کو جھنجھوڑا۔ وہ سب بھی کراہتے ہوئے اٹھ بیٹھے اور گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ اور جب انہوں نے ایک ندی کو پاس ہی بہتے ہوئے دیکھا تو تینوں تیزی کے ساتھ گرتے پڑتے اس طرف چلے اور پھر ندی میں جاکر گر گئے۔ میں بھی پانی کو دیکھ کر نجمہ کو ایک لمحہ کے لئے بھول گیا اور پھر میں نے بھی وہی حرکت کی جو ان تینوں نے کی تھی۔ پانی میں سر بھگونے اور سیر ہوکر پانی پینے کے بعد اچانک مجھے اپنے جسم میں طاقت آتی ہوئی محسوس ہوئی اور پھر میں ان کو اپنے ساتھ لے کر اس جگہ آیا جہاں کچھ دیر پہلے نجمہ لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ نجمہ کے قدموں کے نشانات آگے درختوں کی طرف جا رہے ہیں۔ میرے دل میں برے برے خیال آنے لگے۔ اس لئے میں نے گھبرا کر سوامی سے کہا۔
"سوامی تم جیک اور جان کو ہوش میں لاؤ۔ اتنے ہم تینوں نجمہ کو ڈھونڈنے ان درختوں کی طرف جاتے ہیں۔"
اتنا کہہ کر میں نے جلدی سے اپنا پستول نکال کر ہاتھ میں لے لیا اور پھر پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ نجمہ کے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے ہم آگے ہی آگے بڑھتے گئے ، اور جب ہم درختوں تک پہنچ گئے تو اچانک آواز آئی۔
"ادھر مت آئیے ابا جی۔۔۔ ذرا ٹھہر جائیے۔"


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:10

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں