ہندوستان میں سوشل میڈیا پر بی جے پی کا کنٹرول - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-17

ہندوستان میں سوشل میڈیا پر بی جے پی کا کنٹرول



بنگلور میں سوشیل میڈیا کی وجہ سے فرقہ وارانہ تناؤ کے چند دن بعد ہی امریکی میڈیا میں یہ رپورٹ منظر عام پر آئی ہے کہ ہندوستان میں سوشیل میڈیا پر برسراقتدار پارٹی کا اثر ہے اور کس طرح اس پارٹی کے قائدین کی اشتعال انگیزی اور بیانات کو فیس بک نظرانداز کرتا ہے؟
وال اسٹریٹ جنرل میں گذشتہ دنوں شائع شدہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں کمپنی کے عہدیدار بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیموں کے قائدین پر نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر سے متعلق قواعد کا اطلاق کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں خاص طور سے تلنگانہ میں بی جے پی کے رکن اسمبلی راجہ سنگھ کا نام لیا گیا ہے جن کے مسلمانوں کے خلاف بیانات، دھمکیاں سوشیل میڈیا کے ذریعہ سے منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ ایسے قائدین کے فالوورس کی تعداد لاکھوں میں ہے اس لئے کمپنی نہیں چاہتی کہ ان پر پابندی لگائی جائے۔ ان کے بیانات کے ذریعہ کمپنی کو لاکھوں ویورس حاصل ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ میں فیس بک کے ذمہ داران متحرک ہو گئے ہیں اور ہندوستانی عہدیداروں سے بازپرس ہوئی ہے۔
فیس بک پر کرناٹک کے ایک لیڈر اننت کمار ہیگڈے نے حال ہی میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان کورونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے اس کو 'کورونا جہاد' کا بھی نام دے دیا تھا۔
بی جے پی لیڈر کپل مشرا جن کی اشتعال انگیز تقاریر کی وجہ سے شمال مشرقی دہلی میں فسادات ہوئے، سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے بارے میں کافی نازیبا ریمارکس کئے تھے جو فیس بک پر ابھی تک موجود ہیں۔ مشرا کے ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ہی دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ وال اسٹریٹ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دہلی فسادات کو فیس بک اور واٹس اپ کے ذریعہ ہی پھیلایا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بی جے پی پر فیس بک اور دوسری سوشیل میڈیا سائٹس کو استعمال کرتے ہوئے فرضی خبریں پھیلانے ، ذہن سازی اور فرقہ وارانہ ماحول کو گرم کرنے کے ذریعہ سیاسی فائدے اٹھانے کا الزام لگایا ہے۔
اپوزیشن پارٹیوں نے اس واقعہ کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ سوشیل میڈیا پر لوگ بی جے پی کے خلاف کسی بھی بیان یا ریمارک کا جواب دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اگر کسی موضوع پر کوئی شخص مخالفت میں ریمارک کرتا ہے تو اس کو اس حد تک ٹرول کیا جاتا ہے کہ وہ بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔
بی جے پی نے سوشیل میڈیا پر اپنے کارکن بٹھا رکھے ہیں۔ انتخابات ہوں یا کوئی بھی موقع یہ لوگ حکومت، وزیر اعظم اور دیگر قائدین کی تعریف اورستائش میں جہاں مصروف رہتے ہیں، وہیں تنقید کرنے والوں کے پیچھے بھی لگ جاتے ہیں۔ مودی اور بی جے پی کے سوشیل میڈیا پر 142 ملین یعنی 14.2 کروڑ سرگرم فالوورس ہیں جو اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی کام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف کانگریس کے فالوورس کی تعداد 23 ملین بین 2.3 کروڑ ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے جو بھی بیان جاری ہوتا ہے اس کو لوگ فالو کرتے ہیں اور اس پر تنقیدیں کرنے والوں کو جواب دیتے ہیں۔ عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ عام لوگ ہی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک منظم شعبہ ہے جو پارٹی اور قائدین کے لئے حالات کو موافق بنانے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے چوبیس گھنٹے مصروف رہتا ہے۔
لوگ سوشیل میڈیا میں آنے والی خبروں ، تصاویر اور ویڈیوز کو حقیقت مانتے ہیں اور اس کے اثر میں آ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کا سوشیل میڈیا ونگ کافی سرگرم ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ بی جے پی کا مقابلہ ایک اور میدان میں کرنا ضروری ہے۔ وہ ہے سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کے کئی آئی ٹی ماہرین یہ پلیٹ فارم چلا رہے ہیں۔ اس طرح سوشیل میڈیا بھی ایک نیا سیاسی محاذ بن گیا ہے۔ اب جب کہ فیس بک اور دوسرے سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کے ساتھ بی جے پی کے گٹھ جوڑ کی بات سامنے آئی ہے، ہندوستانی عوام پر اس کے اثرات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح رائے عامہ کو ہموار کیا جا رہا ہے۔
بشکریہ:
اداریہ روزنامہ "اعتماد"، حیدرآباد۔ شمارہ: 17/گست/2020

The control of BJP over social media in India.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں