سوغات سہ ماہی بنگلور - گوشۂ ممتاز شیریں ستمبر-1992 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-18

سوغات سہ ماہی بنگلور - گوشۂ ممتاز شیریں ستمبر-1992 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ


محمود ایاز (پ: 1929 ، م: 1997) ممتاز ناقد، شاعر اور صحافی تھے۔ ادبی دنیا میں ان کا یادگار کارنامہ سہ ماہی "سوغات" ہے جو جنوری-1959 میں بنگلور سے جاری ہوا تھا۔ بنگلور ہی کے 'نیا دور' کے بعد سب سے زیادہ مقبولیت اسی رسالے کو حاصل ہوئی۔ تقریباً ساڑھے چار سال پابندی سے اشاعت کے بعد 1963 میں بند ہوا اور اس کی اشاعت ثانی 1971 میں ہوئی۔ مگر دورِ دوم میں اس کے صرف 5 شمارے شائع ہو سکے۔ دور سوم کا آغاز بحیثیت ششماہی رسالہ ستمبر 1991 سے ہوا۔ ستمبر 1992 کے شمارے میں "سوغات" نے ممتاز شیریں پر ایک خصوصی گوشہ شامل کیا۔
یہی خصوصی شمارہ ادب دوست قارئین اور محققین کے لیے تعمیرنیوز کی جانب سے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً 500 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم 22 میگابائٹس ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اکرام وارث اپنے پی۔ایچ۔ڈی مقالہ "اردو میں ادبی صحافت" میں لکھتے ہیں ۔۔۔
سوغات میں دیگر ادبی رسائل کی طرح افسانے، نظمیں، غزلیں، مضامین، تراجم، نئی کتابوں پر تبصرے اور قارئین کے خطوط شائع کیے جاتے تھے۔ سوغات کے مشمولات کے انتخاب میں محمود ایاز غیرجانبدارانہ رویہ اختیار کرتے۔ کرشن چندر اور فراق گورکھپوری جیسے ادیبوں کی نگارشات معذرت کے ساتھ واپس کر دی جاتی تھیں۔ اس رسالے کا سب سے بڑا اختصاص یہ تھا کہ آزادی کے بعد اردو ادب کو تخلیقی اور تنقیدی دونوں سطحوں پر کلیشے سے آزاد کرانے کی اس نے ہر ممکن کوشش کی۔
سوغات کے اداریوں میں نہ صرف ادبی مسائل زیر بحث ہوتے بلکہ شمارے میں شائع تخلیقات کا تنقیدی جائزہ اور ان کی اشاعت کا سبب بھی بیان کیا جاتا۔ اداریوں میں محمود ایاز کا اسلوب تیکھا اور سنجیدہ ہوتا اور یہی سنجیدہ اور تیکھا اسلوب محمود ایاز اور سوغات کی پہچان تھا۔ سوغات کے اداریوں سے محمود ایاز کی گہری تنقیدی بصیرت اور وسیع النظری ظاہر ہوتی ہے۔ اس رسالے نے اردو ادب کے ساتھ ساتھ مغربی ادب کے تراجم بھی شائع کیے اور اردو قارئین کو انگریزی ادب کی سمت و رفتار سے باخبر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
سوغات کو جاری کرنے کے پس پشت محمود ایاز کا جو مقصد تھا، اس کے متعلق "نقشِ اول" کے زیر عنوان وہ لکھتے ہیں:
"۔۔۔ یہ پرچہ کسی تجارتی مفاد کے پیش نظر نہیں نکالا گیا اور نہ اس کا مدیر کاروباری ناشر ہے، اس کے ذریعے ادب یا ملک و ملت کی خدمت کا بھی مجھے دعویٰ نہیں۔ اصلاح مفاسد یا خدمت قوم سے زیادہ خود اپنے ذوق کی تسکین کے لیے اس پرچے کا اجرا ہوا ہے"۔
سوغات کے قلم کاروں میں مجنوں گورکھپوری، وحید اختر، احمد ندیم قاسمی، فراق گورکھپوری ، شاد عارفی، اختر الایمان، خلیل الرحمن اعظمی ، شہریار، شفیق فاطمہ شعری، محمود ایاز، کرشن چندر ، وزیر آغا، محمد حسن، ساقی فاروقی ، مجید امجد ، بلراج کومل، سہیل عظیم آبادی ، غیاث احمد گدی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ سوغات نے خود کو ہر تحریک اور ادبی گروہ بندی سے آزاد رکھا۔ جدید ادبی رجحانات سے اردو دنیا کو واقف کرانے میں اس رسالے نے اہم رول ادا کیا۔ اردو کی ادبی صحافت میں اس رسالے کی خدمات قابل ذکر ہیں۔
اس شمارے کے اداریہ بعنوان "نقش اول" میں محمود ایاز لکھتے ہیں ۔۔۔
"سوغات" نہ پہلے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ نکلا نہ اب۔ حسن عسکری کو ترقی پسند ادب سے تانبے کے زنگ آلود سکوں کی بو آتی تھی۔ مجھے "مقاصد" کے لفظ سے آتی ہے، لہذا اعلیٰ مقاصد کا بھی کوئی سوال نہیں تھا۔ بس جی چاہتا تھا کہ لکھنے اور پڑھنے والے ایک کنبے کے افراد کی طرح کہیں مل بیٹھیں، ایک دوسرے سے مکالمہ قائم ہو، کبھی مل کے خوش ہو لیں، کبھی لڑائی جھگڑا بھی کریں۔ کبھی ایک دوسرے کی تخلیقات میں مین میخ نکالیں اور کبھی ایک شعر کے بدلے دیوان دینے پر تیار ہو جائیں۔ کسی طرح یہ دوری مٹے، کوئی تو رشتہ قائم ہو۔ لگاؤ کا نہ سہی لاگ کا ہی سہی۔ لکھنے والے مانیں نہ مانیں۔ ان کی تحریر ہوتی ہے پڑھنے والوں کے لیے۔
لیکن پڑھنے والوں کے ردعمل سے واقف ہونے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ گھوم پھر کے لکھنے والے ہی ایک دوسرے کے غیاب و حضور میں، دل سے نکلتی ہوئی گالیوں اور زبان سے نکلتی ہوئی منافقانہ تعریفوں سے ایک دوسرے کو مصروف رکھے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے "سوغات" کے دونوں شماروں میں اپنا تخاطب زیادہ تر پڑھنے والوں سے رکھا۔ لکھنے والے ہوں یا پڑھنے والے، ایک ایک سے یہی تقاضا کرتا رہتا ہوں کہ صاحب، تفصیلی رائے دیجیے۔
اس تقاضے کو کچھ سادہ دل بندے "داد طلبی" سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس کی تکمیل بھی کر دیتے ہیں! یہ معصوم لوگ ہیں۔ زیادہ تر لوگ، خصوصاً لکھنے والے کھل کر رائے دینے سے احتراز کرتے ہیں۔ کچھ خوفِ فسادِ خلق اور کچھ دوستوں سے مروت اور دلآزاری سے پرہیز کی نیک عادتوں کو اس کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی حد تک یہ صحیح بھی ہوگا لیکن زیادہ تر لوگوں کے ساتھ معاملہ کچھ اور ہے۔ ادب میں ترقی پسندی کے دور میں بڑی لعنت ملامت کی جاتی تھی کہ زبان بندی ہے، آمریت قائم کر رکھی ہے وغیرہ وغیرہ۔
آج وہ بچارے تو نہ رہے لیکن فکر و اظہار کی آزادی کے اس دور میں ہمارے لکھنے والے کن کن آسیبوں کے خوف میں گرفتار ہیں، اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
ہم نے اپنی طمع اور لالچ کے ہاتھوں جن ذلیل چیزوں کے لیے اور ذلیل تر لوگوں کو خوش رکھنے یا ناراض نہ کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں سے زبان و قلم پر کیسے تالے ڈال رکھے ہیں اس کی داستان عبرت ناک ہے۔
جھوٹ طمع اور خوف سے پیدا ہوتا ہے اور خوف انسانی وقار اور عزتِ نفس کی کیسی کیسی قربانیاں لیتا ہے، کبھی اس کی بھی تفصیل آنی چاہیے۔
یہ صورتحال افسوس ناک سہی لیکن بالکل مایوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

***
نام رسالہ: سوغات بنگلور - گوشۂ ممتاز شیریں - ستمبر 1992
مدیر: محمود ایاز
تعداد صفحات: 479
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 22 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Saughaat_Sept-1992.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:


Saughaat Bangalore, Mumtaz Shireen special issue: Sept 1992, pdf download.

1 تبصرہ: