انگریزی زبان پر برا وقت آ گیا ہے - خامہ بگوش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-13

انگریزی زبان پر برا وقت آ گیا ہے - خامہ بگوش



پچھلے ہفتے ہم نے مظفر علی سید کے حوالے سے انتظار حسین کی انگریزی کالم نگاری کا ذکر کیا تھا۔
سید صاحب نے ازراہ کرم کچھ کالموں کے تراشے بھی عنایت فرمائے تھے جنہیں پڑھ کر ہم سید صاحب کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں کہ انگریزی زبان پر برا وقت آ گیا ہے۔ اس لئے کہ انتظار حسین کی انگریزی ، اردو کے ان بہت سے ادیبوں کی انگریزی سے اچھی ہے ، جو اپنے منہ کا مزا بدلنے اور قارئین کے منہ کا مزا خراب کرنے کے لئے انگریزی میں جولانی طبع کا اظہار کرتے ہیں۔

پرانے زمانے میں جب کوئی شاعر دلی یا لکھنو سے دور رہ کر شعر کہتا تھا تو اس کی تعریف یوں کی جاتی تھی کہ زبان کے مرکز سے دور ہونے کے باوجود وہ صحت زبان کا خیال رکھتا ہے۔ یہی بات ہم انتظار حسین کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔
گو پچھلے سال وہ مرکز زبان یعنی انگلستان کی سیر کرآئے ہیں، لیکن وہاں ان کی زیادہ تر ملاقاتیں ساقی فاروقی اور افتخار عارف وغیرہ سے ہوئیں۔ اس سے ان کی انگریزی پر کیا اچھا اثر پڑا ہوگا ، اردو ہی پر ناخوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔

اس وقت ہمارے سامنے انتظار حسین کے جو چند انگریزی کالم ہیں، انہیں پڑھ کر ہمیں ان کے اردو کالم یاد آگئے۔ وہی خوب صورت اسلوب ، وہی بات کرنے کا دھیما اور میٹھا لہجہ اور وہی تبسم زیر لب۔ ہر کالم میں کسی اہم مسئلے پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک کالم میں انہوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس سال یوم آزادی پر حکومت نے ادب کے حوالے سے شعیب سلطان نامی جس شخص کو تمغائے حسن کارکردگی عطا کیا ہے، وہ کون ہے؟ ادب کا قومی اعزاز تو اس شخص کو ملنا چاہئے جس کے ادبی کاموں سے سب لوگ واقف ہوں۔ اور جس کی عمر بھر کی کارکردگی سب کے سامنے ہو۔
انتظار حسین نے یہ بھی لکھا ہے کہ شعیب سلطن کا نام مظفر علی سید نے بھی نہیں سنا، حالانکہ وہ ادب کا چلتا پھرتا انسائی کلو پیڈیا ہیں۔ اس کالم کے ساتھ مظفر علی سید کی ایک بڑی سی تصویر بھی چھاپی گئی ہے ، جس میں وہ مفکرانہ انداز میں بیٹھے ہوئے ہیں، جیسے سوچ رہے ہوں کہ شعیب سلطان کون ہے اور اسے تمغائے حسن کارکردگی کیوں اور کیسے ملا؟

ہمارے خیال میں انتظار حسین اور مظفر علی سید اس بات پر ناحق پریشان ہورہے ہیں کہ حکومت نے کسی ایسے شخص کو ادب کا سب سے بڑا قومی اعزاز کیوں دیا ہے، جس کے ادبی کارناموں سے کوئی واقف نہیں۔
ہماری حکومت عوامی اور جمہوری حکومت ہے۔ وہ ماضی کے ساتھ ساتھ اہل ملک کے مستقبل پر بھی نگاہ رکھتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ ماضی میں کس نے کیا کام کیا اور مستقبل میں کون کیا کرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت نے مذکورہ "ادیب" کو اس توقع پر قومی اعزاز کا مستحق سمجھا ہو کہ وہ آگے چل کر ادب میں قابل قدر اضافے کرے گا۔
جب انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن برسی میں ایسے لوگ بطور ادیب شامل ہو سکتے ہیں ، جنہوں نے زندگی میں کبھی کچھ نہیں لکھا اور ان سے آئندہ کی بھی کوئی امید نہیں، تو ایک ترقی پسند حکومت ان لوگوں کو کیوں نہیں نواز سکتی، جن کی ادبی صلاحیتیں مستقبل میں ظاہر ہونے کی توقع ہو۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے تمغائے حسن کارکدگی پیشگی عطا کر کے ادب نوازی اور مستقبل بینی کی ایک شاندار روایت قائم کی ہے جس کے لئے وہ خود تمغائے حسن کارکردگی کی مستحق ہے۔

انتظار حسین نے ایک کالم اس موضوع پر بھی لکھا ہے کہ اردو والے ہمیشہ کسی نہ کسی مغربی ادیب کو اپنا ہیرو بنانے کی فکر میں رہتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے اس کا ذکر کرنا فیشن میں داخل ہوجاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ اردو والوں پر آسکروائلڈ چھایا ہوا تھا۔ رومانی شاعری کرنے والے اور انشائے لطیف لکھنے والے آسکروائلڈ کو دیوتا مانتے تھے۔ اس کے بعد ٹی ایس اپلیٹ کی قسمت کا ستارہ چمکا۔ اس کی شاعری اور تنقید کا حوالہ سکہ رائج الوقت بن گیا۔ اردو شاعروں پر ٹی ایس ایلیٹ کی نظم "ویسٹ لینڈ" کا اتنا اثر ہوا کہ جدید اردو شاعری کا بڑا حصہ "ویسٹ لینڈ" نظر آنے لگا۔
اس کے بعد ژاں پال سارتر جلوہ گر ہوا اور اردو والے اس کی وجودیت کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔ سارتر کا فیشن ایک عرصے تک رہا اور پھر کوئی ہیرو نمودار نہ ہوا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ محمد حسن عسکری ہمارے درمیان نہیں رہے تھے، اس لئے کوئی یہ بتانے والا نہ تھا کہ مغرب میں کون کون سارجحان ساز ادیب سرگرم عمل ہے۔ عسکری صاحب کی وفات کے دس برس بعد اب نئی نسل نے خود ہی ایک ہیرو تلاش کرلیا ہے اور وہ چیکو وسلواکیہ کا نازل نگار اور افسانہ نویس میلان کنڈیرا ہے ، جو آج کل فرانس میں خود عائد کردہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔

پچھلے دنوں انتظار حسین لندن گئے تو اردو مرکز میں افتخار عارف نے ان سے پوچھا:
"آپ نے کنڈیرا کو پڑھا ہے؟"
انتظار حسین نے کہا ہاں تھوڑا بہت۔ یہ سن کر افتخار عارف اپنے دفتر کے قریب کی کتابوں کی ایک دکان پر گئے اورکنڈیرا کی کتابیں خرید کر لے آئے اور مہمان عزیز کو پیش کیں۔ انتظار حسین جب لندن سے لاہور واپس آئے تو زاہد ڈار نے ان سے پہلا سوال یہ کیا:
"آپ کنڈیرا کی کتابیں لائے ہیں؟"
انتظار حسین نے اثبات میں جواب دیا ، تو زاہد ڈار اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ انتظار حسین کو سچا اور کھرا فکشن رائٹر مان لیا۔

انتظار حسین کے کالم کا آزاد، بلکہ کچھ زیادہ ہی آزاد ترجمہ ختم ہوا۔ ہماری گزارش ہے کہ محض مذکورہ واقعات کی وجہ سے کنڈیرا کو اردو والوں کا نیا ہیرو مان لینا بڑی زیادتی ہے۔ زاہد ڈار سے متعلق واقعے سے ہرگز کنڈیرا کی مقبولیت ظاہر نہیں ہوتی، صرف زاہد ڈار کے ذہین ہونے کا پتہ چلتا ہے کہ اس نے کنڈیرا کی کتابیں ہتھیانے کے لئے انتظار حسین کو پہلی مرتبہ سچا اور کھرا فکشن رائٹر مانا۔ اگر انتظار حسین نے یہ کتابیں واپس لے لیں تو زاہد ڈار بھی اپنی رائے واپس لے لیں گے۔

افتخارعارف سے متعلق واقعے سے بھی کنڈیرا کی مقبولیت نہیں ، خود افتخار عارف کی کشادہ دلی ثابت ہوتی ہے کہ اب وہ اپنے دیوان کے علاوہ دوسرے مصنفوں کی کتابیں بھی مہمانوں کو تحفے میں دینے لگے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی مصنف اپنے سے بہتر کسی مصنف کی کتابے تحفے میں نہیں دے سکتا۔ لہذٰا یہ ماننا ہی پڑتا ہے کہ کنڈیرا، افتخار عارف سے کم درجے کا مصنف ہے۔ اردو والے اگر کسی مغربی مصنف کو اپنا ہیرو بنانا ہی چاہتے ہیں تو وہ ہرگز کوئی ایسا شخص نہیں ہو سکتا جو افتخار عارف سے کم درجے کا ہو، بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ افتخار عارف ہی کو ہمیں بطور مغربی ہیرو قبول کرلینا چاہئے۔ وہ ایک طویل عرصے سے انگلستان میں مقیم ہیں۔ اس لئے اب ان کا شمار اہل مغرب میں ہوتا ہے۔
دوسری اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے کلام کا انگریزی ترجمہ کتابی صورت میں شائع ہوگیا ہے۔ جس کی بنا پر مغربی ادیب انہیں اپنی برادری کا رکن سمجھتے ہیں۔ سنا ہے کہ جناب عبدالعزیز خالد نے افتخار عارف کے کلام کے انگریزی متن کو اردو میں منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔ جناب خالد کئی مغربی شاعروں کے منظوم اردو تراجم پیش کر چکے ہیں۔ افتخار عارف کے کام جب انگریزی متن کے مطابق اردو میں منتقل ہوگا تو تب ہمیں صحیح اندازہ ہوگا کہ وہ کتنے بڑے شاعر ہیں۔

افتخار عارف کا ذکر چلا ہے تو یہ بتا دینا نامناسب نہ ہوگا کہ آج کل اخبارات میں ان کا خاصا چرچا ہو رہا ہے۔ انتظار حسین کے بعد جمیل الدین عالی نے بھی اپنے کالم میں ان کا ذکر کیا ہے۔ افتخار عارف کے کلام کے انگریزی ترجمے کا تذکرہ کرتے ہوئے عالی صاحب لکھتے ہیں:
"کتاب دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ انگریزی داں طبقے کی کوئی تعداد تو دیکھ سکے گی کہ آج کا اردو شاعر ان کے بہت سے مشاہیر حاضرہ سے کسی طرح کمتر نہیں سوچتا۔ افتخار عارف کی ادبی سیاست ایک الگ حقیقت یا مجبوری اور الگ موضوع ہے۔ بہرحال میں اسے ناپسند کرتا ہوں ، مگر ان کی جو شاعری پسند آئے اس پر قلم سے یا مشاعرے اور محفل میں کھل کر داد دینے سے گریز نہیں کرتا (جب کہ وقیع احباب تک خفت برت جاتے ہیں) مجھے آج تک ان کے اردو مرکز سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ ان سے انسیت پرانی ہے ، جو اپنے بارے میں بار بار ان کے اقوال زریں پہنچنے کے باوجود کم نہیں ہوتی۔ نہ ان کی خوش گوئی کے بارے میں رائے بدلتی ہے۔"

یہ بیان عالی صاحب کی عالی ظرفی کی دلیل ہے۔ انہوں نے اپنے ایک جونئیر معاصر کی جس طرح حوصلہ افزائی کی ہے وہ انہیں کا حصہ ہے۔ انہوں نے ایک طرف انگریزی داں طبقے کے بہت سے "مشاہیر حاضرہ" کی ناراضی کا خطرہ مول لے کر افتخار عارف کو ان کے برابر لا بٹھایا ہے اور دوسری طرف موصوف کو مشاعروں میں کھل کر داد دینے اور آئندہ بھی دیتے رہنے کا ارادہ ظاہر کرکے مشاعروں کی حد تک افتخار عارف کے شاعرانہ مستقبل کو روشن کر دیا ہے۔
تاہم ہمارا ناقص خیال یہ ہے کہ افتخار عارف کو داد دے کر عالی صاحب ان کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں کریں گے ، کیونکہ جس مشاعرے میں عالی صاحب داد دینے میں مصروف ہوں گے وہاں افتخار عارف کا کلام کوئی نہیں سنے گا۔ سب کی توجہ عالی صاحب کی طرف ہوگی کہ وہ یہ کیا کر رہے ہیں۔

عالی صاحب نے اپنے کالم میں ساقی فاروقی کا بھی ذکر کیا ہے۔ ساقی کے کلام کا بھی انگریزی میں ترجمہ شائع ہوا ہے۔ عالی صاحب نے اس ترجمے کے حوالے سے ساقی کی شاعری کی کم اور ترجمہ کرنے والی خاتون فرانسس پریچٹ کے علم و فضل کی تعریف زیادہ کی ہے۔ حالانکہ یہ موقع موصوفہ کے علم و فضل سے زیادہ حوصلے کی تعریف کا تھا۔ فرانسس پریچٹ بڑی حوصلہ مند خاتون ہیں کہ انہوں نے پہلے ساقی کا کلام پڑھا اور پھر اس کا ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ ہماری نظر سے بھی گزرا ہے۔ انگریزی بھی کیا کمال کی زبان ہے کہ ساقی فاروقی اس میں منتقل ہوکر اچھا خاصا قد آور شاعر دکھائی دیتا ہے۔ افسوس کہ اردو میں انگریزی زبان جیسی وسعت نہیں ، ورنہ ساقی کا اصل اردو کلام پڑھ کر بھی اس کے شاعرانہ قد و قامت کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ اس مقصد کے لئے انگریزی ترجمے کی ضرورت نہ ہوتی۔

ساقی کے ذکر پر یاد آیا کہ پچھلے مہینے کے "افکار" میں مشفق خواجہ کا ایک خط چھپا ہے ، جس میں انہوں نے ساقی کی ایک نظم کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
"اس نظم کو میں نے آٹھ مرتبہ پڑھا۔"
ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ خواجہ صاحب کثیر المطالعہ ہیں لیکن اب یہ معلوم ہوا کہ ان کے مطالعے کا اندازہ اور معیار کیا ہے۔ ہم نے اس کثرت مطالعہ کا سبب معلوم کرنے کے لئے پوچھا کہ خواجہ صاحب کی نظم اتنی مرتبہ کیوں پڑھی؟
انہوں نے جواب دیا:" غالب کے پڑھنے والے لاکھوں میں ، ساقی کا پڑھنے والا میں اکیلا ہوں۔ مجھے دوسرے قارئین کا فرض بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔"

ضمنی طور پر خواجہ صاحب نے بتایا کہ انہوں نے مدیر "افکار" کے نام خط نہیں لکھا تھا۔ یہ خط ساقی فاروقی کے نام ہے، جسے مدیر افکار نے نہ جانے کس طرح حاصل کر لیا اور اجازت کے بغیر قطع و برید کے بعد شائع کیا۔
(14/ دسمبر 1989ء)
ماخوذ از کتاب:
سن تو سہی (مشفق خواجہ کی منتخب تحریریں)
مرتبین : ڈاکٹر انور سدید ، خواجہ عبدالرحمن طارق

Khama Bagosh on Intezar Hussain, Iftekhar Arif and Saqi Faroqui. Column: Mushfiq Khwaja [khama-bagosh].

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں