قرآن کے الفاظ و معانی میں اختلاف کی ممانعت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-14

قرآن کے الفاظ و معانی میں اختلاف کی ممانعت



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے الفاظ و حروف اور معانی و مطالب میں اختلاف کرنے سے شدت سے منع فرمایا اور بتایا ہے کہ امم سابقہ اپنی کتابوں میں اختلاف کے نتیجے میں ہلاک ہوئی ہیں۔
ایک مرتبہ عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے ایک شخص کو ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا جس کو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے مختلف طریقہ پر سنا تھا۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ میں اس شخص کا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور ماجرا بیان کیا ہے تو آپؐ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے۔ آپؐ نے فرمایا: پڑھو۔ تم دونوں صحیح طور سے پڑھ رہے ہو، اختلاف مت کرو۔ تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا اور وہ ہلاک ہو گئے۔
(صحیح بخاری)

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم کو نماز میں سورۂ الفرقان پڑھتے ہوئے سنا، ان کی قراءت میں الفاظ و حروف میں اختلاف تھا۔ رسول اللہ صلیہ علیہ وسلم نے مجھے یہ سورۃ دوسرے طریقے سے پڑھائی تھی، لہذا اس کے بارے میں میرے اور ان کے درمیان سخت کلامی ہوئی اور میں ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور کہا کہ انہوں نے سورہ الفرقان اس قرات کے خلاف پڑھی ہے جس قرات سے آپ نے مجھے پڑھایا ہے۔ اس پر آپؐ نے ہشام بن حکیم سے ان کی قرات کے مطابق پڑھا کر سنا اور فرمایا:
یہ سورہ اسی طرح نازل کی گئی ہے۔ یہ قرآن سات کلمات پر نازل کیا گیا ہے، اس لیے ان میں سے جو آسان ہو اس کو پڑھو۔
(صحیح بخاری، باب انزل القرآن علی سبعۃ احرف)

سبعۃ احرف (سات الفاظ) کے بارے میں علما کے اقوال و توجیحات مختلف ہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے:
یعنی سات صورتوں میں سے ہر صورت سے قرآن پڑھنا جائز ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن کا ہر کلمہ یا ہر جملہ سات صورتوں سے پڑھا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک کلمہ میں قراءت کی انتہا سات عدد تک ہے۔
(فتح الباری)

قریش کی زبان میں قرآن نازل ہوا جو افصح العرب تھے۔ اور عرب کے دیگر مقامات اور قبائل کے لوگ مقامی لب و لہجہ میں عربی زبان بولتے تھے، جو مدت دراز سے ان کی زبان پر جاری تھا۔ وہ ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدل دیتے تھے، اعراب و حرکت میں بھی تغیر و تبدل کرتے تھے۔ اس لیے وہ لوگ قریش کی زبان میں پورا قرآن نہیں پڑھ سکتے تھے۔ بعض حروف و حرکات کی ادائیگی میں دشواری ہوتی تھی اس لیے ان کو اپنے یہاں کے رائج انداز میں ادا کرتے تھے۔ الفاظ و حرکات میں اس تبدیلی سے معانی و مطالب میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مثلاً ۔۔۔
  • ربیعہ اور مضر کے قبائل کافِ مونث کے آخر میں شین لگاتے تھے اور کافِ مذکر کے آخر میں سین بڑھاتے تھے۔
  • قبیلہ تمیم والے الف کو عین سے بدل دیتے تھے۔
  • بنو ہذیل حاء کو عین کہتے تھے
  • بنو ہذیل، بنو ازد، بنو قیس اور انصارِ مدینہ عین ساکن کو نون سے بدلتے تھے
  • بعض قبائل کاف کو جیم سے بدل دیتے تھے
  • بنو تمیم قاف اور کاف کے درمیان (گ) بولتے تھے
  • اشاعرہ لام کے بجائے میم بولتے تھے
  • اسی طرح حرکات، مد، قصر، امالہ میں مختلف قبائل اپنے اپنے انداز میں تصرف کرتے تھے
  • بعضوں نے کاف مونث کو شین سے بدل کر (قد جعل ربک تحتک سریا) کو (قد جعل ربش تحتش سریا) پڑھا ہے۔ مگر لفظ کے فرق سے معنی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔
(بحوالہ: المزہر فی اللغۃ، سیوطی۔ فقہ اللغۃ ثعالبی اور ادب الکاتب ابن قتیبہ۔ وغیرہ)

اسی طرح لفظی و حرفی اور صوتی تبدیلی تقریباً ہر زبان میں ہوتی ہے۔ اور ایک ہی لفظ یا فقرہ کو مختلف طریقوں سے ادا کیا جاتا ہے، مگر مفہوم و معنی ایک ہی رہتا ہے۔
***
ماخوذ از کتاب:
خیرالقرون کی درسگاہیں اور ان کا نظام تعلیم و تربیت (تالیف: مولانا قاضی اطہر صاحب مبارکپوری)

The Quran revelation on seven Ahruf. Article by: Qazi Athar sahib Mubarkpuri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں