ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 08 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-27

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 08


kali-dunya-siraj-anwar-ep08

پچھلی قسط کا خلاصہ :
جکاریوں سے بچ کر جب جان اور فیروز کی ٹیم جنگل میں پہنچی تو اندھیرے ہی میں سوامی نے اپنی داستان سب کو سنائی کہ کس طرح وہ امجد نامی نوجوان کے ساتھ سمندر میں بچ نکلا اور کس طرح وہ دونوں اس جزیرے میں پہنچے۔ سوامی کی داستان ختم ہوتے ہی جکاری دوبارہ نازل ہو گئے اور یوں فیروز اور اس کی ٹیم تیار شدہ کشتی میں بیٹھ کر سمندر میں نکل گئی۔ سمندر ہی میں چند لمحوں کے لیے ان کی مڈبھیڑ جی-گا سے ہوئی۔ پھر وہ انہیں دھمکیاں دیتا ہوا غائب ہو گیا۔ جان اور فیروز اپنی ٹیم کے ساتھ سمندر کے سینے پر کشتی کے ذریعے بہتے رہے۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

میں ٹھیک ٹھیک نہیں بتلا سکتا کہ سمندر کے سینے پر ہم کتنے دن تک بہتے رہے۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے ، میں صرف سورج کے چڑھنے اور اترنے سے یہ اندازہ لگا سکتا ہوں کہ شاید ایک ہفتے تک ہم اسی چھوٹی سی کشتی میں کسی ایسی سمت کی طرف بہتے رہے جس کا ہمیں پتہ نہیں تھا۔ اتنے بڑے سمندر میں ہماری کشتی کی حقیقت ایک چھوٹے سے تنکے کی تھی اور سمندر کی خوفناک لہریں اس کشتی سے لگاتار چھیڑ خانی کر رہی تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ اب ہم سب تھکے ہوئے تھے اور چپو چلانے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ کشتی لہروں کے رحم و کرم پر تھی۔ وہ جدھر چاہتیں اسے دھکیل کر لے جاتیں۔ یہ بات نہیں کہ ہم بھوک یا پیاس کی وجہ سے کمزور ہو گئے تھے۔ کھانے کے لئے ہمارے پاس کافی سامان تھا۔ پانی اور ناریل بھی موجود تھے۔ مگر چپو چلاتے چلاتے ہم سب کے ہاتھ پاؤں شل ہو گئے تھے۔ اس کشتی میں بادبان تو تھے نہیں کہ کشتی ہوا کے رخ پر ہی بہی چلی جاتی۔ یہ تو معمولی سی چھوٹی کشتی تھی جس نے میرے اپنے خیال میں تو اتنے آدمیوں کا وزن بھی بڑی مشکل سے سنبھال رکھا تھا!
یہ حالت دیکھ کر جان نے کہا:
" فیرو! کیا تم بتا سکتے ہو کہ اب کیا کرنا چاہئے؟"
" میں کیا بتا سکتا ہوں؟" میں نے بڑی ناامیدی کے ساتھ کہا۔
"میرا خیال ہے۔۔" بلونت نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
"جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہم لنکا کے جنوب میں کافی دور تک نکل آئے ہیں۔ اگر ہم کشتی کا رخ پھیر کر شمال کی طرف کردیں تو یقیناً ہم واپس بمبئی پہنچ سکتے ہیں۔"
"مشکل تو یہی ہے کہ یہ شمال کس طرح معلوم ہو؟" جان نے کہا۔
"سورج جس طرف ڈوبتا ہے اگر ہم اس طرف مونہہ کر لیں تو ہمارے دائیں طرف شمال ہوگا" جیک نے جواب دیا۔ جان نے کچھ دیر تک سوچنے کے بعد کہا۔
"میں نے مان لیا کہ یہ ٹھیک ہے، لیکن سورج ڈوبنے کے بعد آپ سمت کس طرح معلوم کریں گے۔ چاند اور ستارے بھی اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ نہیں جیک، تمہارا خیال غلط ہے۔ میں تو صرف ایک ہی بات سوچ سکتا ہوں اور وہ یہ کہ ہمیں اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر دینا چاہئے کیوں کہ آڑے وقت میں خدا کی ذات ہی انسان کو صحیح راستہ دکھاتی ہے۔"

آخر کار جان کی رائے پر ہی عمل کیا گیا۔ ہم لوگوں میں طاقت تو بے شک تھی مگر اتنی ہمت نہ تھی کہ کشتی کے چپو چلاتے۔ اس لئے مجبوراً سب خاموشی سے اچھلتی اور تڑپتی لہروں کو دیکھتے رہے۔ عجیب سی مچھلیاں ہماری کشتی کے چاروں طرف چکر لگا رہی تھیں۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ آدم خور مچھلیاں ہیں جو اپنی خوراک کی تلاش میں بے چینی کے ساتھ کشتی کا طواف کر رہی ہیں۔ میں نے نجمہ اور اختر کو سختی کے ساتھ منع کر دیا کہ وہ پانی میں اپنا ہاتھ یا پیر نہ ڈالیں۔ کشتی اسی طرح چلتی رہی۔ ہم سب سفر کرتے رہے، سفر۔۔۔ طویل سفر۔۔۔ ایک نہ ختم ہونے والا سفر!

غالباً صبح کے آٹھ بجے تھے جب کہ وہ حیرت انگیز اور خوفناک واقعہ پیش آیا۔ لیکن جیسا کہ آپ کو آگے چل کر معلوم ہوگا، اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو بعد میں ہم سب تباہی کے گڑھے میں لازمی گر گئے ہوتے۔
یہ درحقیقت خدا کی طرف سے بروقت امداد تھی۔۔۔ ہماری کشتی دھیرے دھیرے آگے چلی جا رہی تھی۔ سمندر بالکل پر سکون تھا۔ آسمان صاف اور دھوپ چمکیلی تھی۔ میں خاموشی سے بیٹھا ہوا افق کو دیکھ رہا تھا جہاں سمندر اور آسمان مل رہے تھے۔ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گویا آسمان میں کوئی چیز چمکی۔ پہلے تو میں اسے وہم سمجھا مگر جب مجھے ایک مدھم سیٹی اور اس کے بعد ہلکا سا سراٹا سنائی دیا تو میں نے گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ ایک روشن اور پتلی سی لکیر آسمان میں سے نکل کر زمین کی طرف آ رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ شاید کوئی تارا ٹوٹا ہے۔ مگر جب میں نے اس لکیر کے پیچھے دھوئیں کی باریک سی لکیر دیکھی تو مجھے بڑا تعجب ہوا۔ وہ روشن سی چیز آہستہ آہستہ بڑی ہوتی جا رہی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کی رفتاربہت تیز ہے۔
میرے ساتھ ہی اور سب بھی تعجب اور خوف کے ساتھ اوپر دیکھنے لگے۔ امجد کا مونہہ تو حیرت کی وجہ سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اختر اور نجمہ سمٹ کر بیٹھ گئے۔ اختر کا بندر زور زور سے چیخنے لگا۔ جیک اور بلونت کے چہروں پر بھی خوف جھلک رہا تھا۔ بلونت شاید زیادہ ڈر رہا تھا اسی لئے اس کا چہرہ خوف کے باعث پیلا پڑا ہوا تھا۔
میں نے ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھا۔ وہ روشن چیز ہماری ہی طرف آرہی تھی۔ میں اب صاف صاف دیکھ سکتا تھا۔ وہ دراصل شہاب ثاقب جیسی کوئی چیز تھی۔ آگے سے کرکٹ کی گیند کی طرح گول اور پیچھے سے مخروطی۔ دھواں اس میں سے اب بھی برابر نکل رہا تھا۔جوں جوں وہ قریب آتی جا رہی تھی اس کا حجم بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ جان نے یہ دیکھتے ہی چلا کر کہا۔
"خبردار۔۔۔۔۔سب لوگ ہوشیار ہو جائیں۔ یہ گولا شاید ہمیں ہی تباہ کرنے کے لئے آ رہا ہے۔"
"مگر یہ ہے کیا چیز۔۔۔؟" بلونت نے خوف کی وجہ سے لرزتے ہوئے پوچھا۔
"میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔"
" اس میں سے تو آگ کی لپٹیں نکل رہی ہیں۔" میں نے گھبرا کر کہا۔
"مالک یہ تو کوئی بہت خوفناک چیز معلوم ہوتی ہے۔ سوامی نے ڈر کی وجہ سے لرزتے ہوئے کہا۔
’ ’ اس کا رخ تو ہماری ہی طرف ہے۔" اختر کپکپانے لگا۔
" اب کیا ہوگا اباجی۔" نجمہ بھی بہت بے قرار تھی۔
"آپ گھبرائیے مت۔" امجد نے تسلی دیتے ہوے کہا۔
"ہمیں اس چیز سے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔"

مگر دلوں کو کوئی لاکھ ڈھارس اور تسلی دے دیتا، اندرونی طور پر بے چینی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ آگ کا وہ دہکتا ہوا گولا لمحہ بہ لمحہ قریب آتا جا رہا تھا۔ میں نے غور سے اسے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کے چاروں طر ف آگ کے ست رنگے شعلے ناچ رہے ہیں۔ جوں جوں وہ قریب آتا جا رہا تھا اس کی آواز اور سراٹا بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ ہم سب سے اب وہ صرف تقریباً ایک ہزار گز دور تھا۔ مگر اس کی تیز رفتاری کے آگے یہ فاصلہ کچھ بھی نہ تھا۔ ہاتھی کے پیٹ جتنا بڑا یہ جہنمی گولا اب تیر کی طرح ہم سب کی طرف آ رہا تھا۔ سوامی چیخ چیخ کر بھگوان کو یاد کر رہا تھا۔ میرے ہونٹوں پر بھی دعائیں کانپ رہی تھیں اور میں نے دونوں بچوں کو اپنے قریب کر لیا تھا۔ بلونت کشتی کے بالکل پیچھے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسی کہ شتر مرغ کی دشمن کو دیکھ کر ہو جاتی ہے۔ ایسے موقع پر شتر مرغ اپنا سر ریت میں دبا لیتا ہے۔
امجد اور جیک بھی کشتی میں آہستہ آہستہ جھکتے جا رہے تھے۔ جان کے بھی چھکے چھوٹے ہوئے تھے اور اس کی سمجھ میں بھی شاید کچھ نہ آ رہا تھا۔ بڑی بے بسی اور نا امیدی کے عالم میں وہ باری باری ہم سب کو دیکھ رہا تھا۔

آگ کا وہ گولا ایک ہیبت ناک آواز نکالتا ہوا ہماری کشتی سے کوئی دس گز آگے جاکر گرا۔ اس کے گرتے ہی پانی میں ایک گڑھا پیدا ہوا اور اس گڑھے کی وجہ سے ایک زبردست تلاطم بھی، جس نے کشتی کے پچھلے حصہ کو اس طرح اوپر اچھال دیا جس طرح گیند جھٹکا کھا کر اوپر اچھلتی ہے۔ ہم سب پہلے ہی سے کشتی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے تھے۔ مگر شاید بلونت نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اس لئے کشتی کے زور میں وہ بھی اوپر کی طرف اچھلا۔ اس کے ہوا میں بلند ہوتے ہی ہماری کشتی پانی کے زور سے اچانک بائیں طرف مڑ گئی۔ بلونت کشتی میں واپس گرنے کی بجائے اب سیدھا پانی میں گرا۔ اوپر اٹھتی ہوئی بھوکی لہریں اس پر اچانک پل پڑیں۔ جیک نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی مگر زیادہ کوشش کرنے کا یہ موقع نہ تھا۔ ویسے بھی ہمیں یہ بات بعد میں معلوم ہوئی کہ بلونت سمندر میں گر گیا ہے۔ اس وقت تو ہم سب کو اپنی ہی پڑی ہوئی تھی۔ آگ کا وہ گولا سمندر میں گرتے ہی اس طرح بجھ گیا جس طرح کوئلہ بجھ جاتا ہے۔ جیک نے اب چلانا شروع کیا:
" بلونت سمندر میں ڈوب گیا۔ جان صاحب، بلونت ڈوب گیا۔"
اور یہ سنتے ہی سوامی نے جلدی سے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ میں نے دیکھا کہ سوامی نے بلونت کو تلاش کرنے کے لئے غوطہ لگایا۔ اچانک گڑ گڑاہٹ کی سی آواز آنے لگی۔ میں نے اپنی نظر فوراً اس طرف کی جدھر سے یہ آواز آ رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ پانی میں سے ہاتھی سے بھی بڑا ایک سنہری گولا اب آہستہ آہستہ اوپر ابھر رہا تھا۔ ہم بلونت کو دیکھتے یا اس گولے کو جس میں شاید ہم سب کی موت اندر بیٹھی ہوئی قہقہے لگا رہی تھی۔

گولے کے اوپر آتے ہی سمندر کا وہ تلاطم ختم ہوگیا۔ ہم سب سانس روکے ہوئے آسمان سے آئی ہوئی اس عجیب چیز کو دیکھ رہے تھے۔ رنگ اس کا بے شک سنہری تھا مگر اس کے چاروں طرف ہلکے سرخ رنگ کا کہرا حرکت کر رہا تھا۔ امجد نے جیسے ہی پستول کا رخ اس گولے کی طرف کیا جان نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور چیخ کر کہا۔
"کیا کرتے ہو ، خبردار خاموش کھڑے رہو۔"
میں نے خود بھی امجد کو اس کام سے باز رکھا۔ خدا معلوم وہ کیا شے تھی؟ ممکن ہے کہ اس پر گولی پڑنے سے کوئی حادثہ پیش آجاتا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ چیز دراصل ہمیں نقصان پہنچانے نہ آئی ہو۔ لیکن گولی کھانے کے بعد وہ نقصان پہنچائے بغیر ہرگز نہ رہتی۔ ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک کھڑکھڑاہٹ سی ہمیں سنائی دی۔ اس سنہرے گولے نے آہستہ آہستہ آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ جب وہ ہماری کشتی سے کوئی نو گز دور رہ گیا تو وہ رک گیا۔
اس کے بعد ایک حیرت ناک بات ہوئی۔ گولا درمیان میں سے خربوزے کی طرح پھٹنے لگا۔ اس عمل کے ساتھ ہی اس میں سے ایسی آواز آنے لگی۔ جیسے اندر کئی مشینیں چل رہی ہوں۔ میرا خیال تھا کہ شاید اس میں سے کوئی عجیب سی مخلوق نکلے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ گولے کے دونوں گول کیواڑ دائیں بائیں ہٹ گئے اور پھر ہم نے ایک نرالا تماشا دیکھا۔
گولے کے اندر کی دیواریں اس طرح دہک رہی تھیں جیسے کوئلے دہکتے ہیں۔ دیواروں پر عجیب طرح کی کمانیاں لگی ہوئی تھیں۔ گولے کی سطح پر ایک نرالی میز رکھی تھی اور اس میز پر کوئی ایسی مشین رکھی تھی جسے شاید ہم میں سے کسی نے بھی دنیا میں نہیں دیکھا تھا۔ اس مشین کے سامنے کا حصہ بالکل ایسا تھا جیسا کہ سنیما کا پردہ ہوتا ہے۔یہ پردہ بیضوی تھا۔ اس مشین کے دائیں بائیں دو بلب لگے ہوئے تھے۔ بالکل اس قسم کے جیسے ہم نے جکاریوں کے جھونپڑی نما قید خانے میں دیکھے تھے۔ ان بلبوں کو دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ ضرور یہ جی گا کی کارستانی ہے۔ اپنی دھمکی کو پورا کرنے کے لئے وہ اب عمل کے میدان میں آ گیا ہے۔

میرے ساتھ ہی اور سب نے بھی یہی بات سوچی۔ ہم سمجھ گئے کہ بس اب ہمارا آخری وقت آ گیا ہے۔ یہ مشین ہمیں تباہ کرنے کے لئے آئی ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف حسرت سے دیکھا۔ اس طرح جیسے اب اس کے بعد کبھی کسی کو نہ دیکھیں گے۔ اس کے بعد سانس روک کر ہم اس سنہری گولے کو دیکھنے لگے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایک تیز اور کرخت سیٹی اس گولے میں سے بلند ہوئی۔ مشین کے دونوں طرف لگے ہوئے وہ بلب جل اٹھے۔ ان کی روشنی آہستہ آہستہ تیز ہونے لگی۔ اور پھر مشین کے دودھیا پردے پر کچھ آڑی ترچھیں لکیریں ناچنے لگیں۔ یہ لکیریں کچھ ہی دیر بعد سمٹ کر ایک تصویر بن گئیں۔ جب وہ تصویر کچھ صاف نظر آنے لگی تو میں نے دیکھا جان اچانک دیوانہ وار تھوڑا سا آگے بڑھا اور پھر زور سے چیخا۔۔۔ "شاگو!"

"جی ہاں، میں شاگو ہوں۔۔۔ آپ تو اچھے ہیں مسٹر جان؟" ان دونوں بلبوں سے آواز آئی۔
"کیا خاک اچھا ہوں۔" جان نے بے زاری کے ساتھ کہا:
"آپ دیکھ ہی رہے ہیں میری حالت۔"
"مگر یہ حالت زیادہ دیر نہیں رہے گی۔" شاگو نے کہا۔
"میں نے صرف آپ کو خطروں سے بچانے کے لئے چاندی کی تصویر والا یہ پردہ زہرہ سے بھیجا ہے۔ مجھے آپ سب اچھی طرح نظر آ رہے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ ہم لوگوں کی وجہ سے اس مصیبت میں پھنسے۔"
"خیر اسے چھوڑئیے، آپ یہ بتلائیے کہ اب ہم کیا کریں؟"
"آپ کو جو کچھ کرنا ہے وہ تو میں نہیں بتا سکتا۔ یہ تو آپ کو خود سوچنا ہوگا، البتہ میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ آپ ہر آنے والے خطرے سے ہوشیار رہیں۔ میں بار بار آپ کی مدد کرنے نہیں آ سکوں گا۔ بڑی مشکل سے میں نے حساب لگا کر یہ معلوم کیا ہے کہ آپ کی کشتی اس وقت کہاں ہے۔ یہ خول جس میں چاندی کی تصویر والا آلہ بند ہے آپ کی دنیا کے وقت کے لحاظ سے میں نے آج سے تین دن پہلے زمین کی طرف چھوڑا تھا۔۔۔ اور آج مقررہ وقت پر یہ آپ تک پہنچا ہے۔"
"کمال ہے۔۔۔ اتنا صحیح اندازہ آپ نے کس طرح لگایا۔"
"میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس چاندی کی تصویر والے آلے کی طاقت جلد ہی ختم ہوجائے گی اور پھر یہ سمندر میں ڈوب جائے۔ اس لئے میں مطلب کی بات آپ سے نہیں کہہ سکوں گا۔"

"فرمائیے، فرمایئے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ "جان نے بے تابی سے پوچھا۔
"میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میرا اور آپ کا دشمن جیگا ہر وقت سایہ کی طرح آپ کے ساتھ ہے۔ وہ آپ کو چین نہ لینے دے گا۔ ایسی ایسی باتیں اور ایسے ایسے واقعات آپ کو پیش آئیں گے کہ آپ اپنی زندگی سے عاجز آ جائیں گے۔ مگر میں آپ کو اس طاقت کی قسم دیتا ہوں جسے آپ پوجتے ہیں، آپ اس کام کو نہ چھوڑیں، ہم زہروی لوگوں کے لئے یہ موت اور زندگی کا سوال ہے۔"
"مگر شاگو صاحب یہ تو سوچئے کہ جیگا کہ پر اسرار طاقتوں کے سامنے ہم لوگ کیا کر سکتے ہیں۔"
"ان طاقتوں سے ٹکرانے اور انہیں کچلنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے۔ آپ عقل استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں آپ کو ایک اور چیز بھی دیتا ہوں یہ ایک چھوٹا سا ہار ہے جس کے درمیان میں آفاقی جڑا ہے۔ میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ آفاقی کیا چیز ہے۔ بس آپ اس کا کرشمہ دیکھئے گا۔ یہ ہار آپ ان لوگوں میں سے جو اس وقت کشتی میں کھڑے ہوئے ہیں صرف اس شخص کو پہنا دیجئے جس کے چہرے پر کبھی بال نہیں اگتے۔ اس شخص کے جسم کے غدود دراصل آفاقی کی طاقت کو بڑھاتے رہیں گے۔ وہ شخص جس کے چہرے پر بال اگتے ہیں یا کبھی اگیں گے ، اس کے جسم میں آفاقی کی طاقت کو بڑھانے والے غدود نہیں ہوتے۔۔۔ کیا آپ سمجھ گئے؟"
"جی ہاں میں سمجھ گیا، مگر میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔"
"اب میں کچھ نہیں بتا سکتا ، چاندی کی تصویر والے آلے کی طاقت بس اب ختم ہونے والی ہے۔آپ جلدی سے کود کر یہاں آئیے اور اس خول کے بائیں طرف بنے ہوئے خانے میں ہاتھ ڈال کر آفاقی والا ہار نکال لیجئے۔۔ جلدی کیجئے جلدی۔۔۔"

ا س سے پہلے کہ جان شاگو کو کوئی جواب دیتا، میں فوراً سمندر میں کود پڑا۔ میں نے سوچا تھا کہ جان بوڑھا ہے ، اس لئے اسے سنہری خول تک پہنچنے میں دیر لگے گی۔ مگر میں جلد پہنچ جاؤں گا۔۔ یہی ہوا بھی، کچھ ہی منٹ میں آخر کار سنہری خول تک پہنچ گیا۔ جیسا شاگو نے کہا تھا میں نے وہی کیا۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ بائیں طرف بڑھایا۔ وہاں ایک عجیب سا خانہ بنا ہوا تھا۔ اس خانے میں ہاتھ ڈال کر میں نے آفاقی ہار نکال لیا۔ ہار نکالنے کے بعد جیسے ہی میں واپس مڑا، سنہری خول کے کیواڑ اپنے آپ ہی بند ہوگئے۔ اور پھر وہ بڑی تیزی کے ساتھ پانی میں ڈوبنے لگا۔
میں کہہ نہیں سکتا کہ کیا بات تھی؟ مگر یہ حقیقت تھی کہ یکایک مجھے محسوس ہوا جیسے کسی نے میری ٹانگ پکڑلی ہے اور پھر اندر ہی اندر اس نے مجھے پانی میں کھینچنا شروع کردیا۔ پانی میں تو بڑے بڑے تیراک بھی بے بس ہو جاتے ہیں ، میں تو پھر ایک معمولی سا تیراک تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ میرے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے تو میں نے گھبرا کر دوسرے ہاتھ سے اپنی کمر میں بندھا ہوا لمبا سا چاقو نکال لیا۔ یکایک کسی چیز نے زور سے پانی میں پلٹا کھایا۔ میں نے بوکھلائے ہوئے انداز سے اس چیز کی ایک جھلک دیکھی تو معلوم ہوا شارک مچھلی ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ یہ مچھلی آدم خور ہوتی ہے ، اور شاید میری ٹانگ اسی مچھلی کے مونہہ میں تھی۔ خود کو مصیبت میں پھنسے دیکھ کر میں نے اپنے بچاؤ کی آخری کوشش کی یعنی خود کو چھڑانے کی ایک آخری جدو جہد۔
میں کوشش کررہا تھا کہ کسی صورت سے اپنا لمبا چاقو مچھلی کے پیٹ میں اتار دوں، مگر مجھے اس میں کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ بالکل وایسا واقعہ تھا جو مجھے ایک بار اپنی نو عمری کے زمانے میں پیش آیا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ تب میں مچھلی کے ساتھ ساتھ بہا جا رہا تھا اور اب ایک خوفناک مچھلی مجھے اپنا نوالہ بنانے کی فکر میں تھی۔ کشتی میں کھڑے ہوئے سب لوگ بری طرح چیخ رہے تھے۔ میں چونکہ مچھلی کے ساتھ کبھی اوپر ہو جاتا اور کبھی نیچے، اس لئے امجد بھی اپنے پستول سے مچھلی کو نشانہ بناتے ہوئے ڈرتا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ گولی میرے لگ جائے۔ شارک اپنا پورا زور لگا رہی تھی اور میری حالت یہ تھی کہ جسم کی قوت ختم ہوتی جا رہی تھی اور جب میں نے دیکھا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت مجھے نہیں بچا سکتی تو میں نے ایک جھٹکے کے ساتھ آفاتی والا ہار کشتی کی طرف پھینک دیا۔
بس پھر میں اتنا ہی دیکھ سکا کہ امجد نے جلدی سے ہار لپک لیا۔ میں ٹھیک ٹھیک نہیں بتا سکتا کہ کیا ہوا تھا!مگر اتنا ضرور تھا کہ بعد میں خود بخود ہی میں پانی کی سطح پر آگیا تھا۔ شاید میں نیم مردہ سا تھا۔ جیسے کوئی خواب دیکھتا ہے ، میں نے بھی اسی طرح اتنا دیکھا کہ کشتی سے بہت سے ہاتھ میری طرف بڑھ رہے ہیں اور پھر ان ہاتھوں نے مجھے کشتی میں کھینچ لیا۔ جب مجھے اچھی طرح ہوش آ گیا اور میں حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا تو گزرے ہوئے واقعات ایک ایک کرکے یاد کرنے لگا۔ چلتی ہوئی فلم کی طرح سب منظر میری نگاہوں کے سامنے گھوم گئے۔
مجھے یاد آگیا کہ جب مچھلی مجھے پانی کے اندر کھینچ رہی تھی تو میں نے آفاقی ہار کشتی کی طرف پھینک دیا تھا۔ اس کے بعد مچھلی مجھے پانی کے اندر لے گئی۔ میرے پیٹ میں پانی بھر گیا تھا۔ اور پھر اس کے بعد نہ جانے کیا ہوا تھا کہ مچھلی نے آپ ہی آپ میری ٹانگ چھوڑ دی اور میں پانی کی سطح پر آ گیا تھا۔ بعد میں میرے ساتھیوں نے مجھے نکال لیا تھا۔ یہ تھا وہ سب واقعہ۔
مگر یہ بات کیا ہوئی۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو جاتی کہ جیگا نے اپنی پوشیدہ قوتوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ یا تو اس نے مچھلی کو بھیجا تھا یا پھر خود مچھلی بن کر آیا تھا۔ دونوں میں سے ایک بات ضرور تھی۔
اختر اور نجمہ میرا سر سہلا رہے تھے۔ ان دونوں کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے تھے۔ اور سوامی بھی مجھے بڑی محبت کی نظر دیکھ رہا تھا۔ سوامی اب بلونت کو تلاش کرنے کے بعد کشتی میں واپس آچکا تھا۔ ہم سب کو اس حقیقت کا علم ہونے کے بعد بڑی مایوسی ہوئی کہ ہماری پارٹی میں سے بلونت اب کم ہو چکا ہے۔ میں اس کی بڑی قدر کرتا تھا۔ وہ بڑا کام کا آدمی تھا۔ کم از کم ایسے وقت میں اس کی بھیانک موت سے مجھے بڑا رنج ہوا۔ مگر سوائے صبر کے ہم لوگ اور کر بھی کیا سکتے تھے؟ کون جانے کہ ہم سب کا بھی ایسا ہی انجام ہونے والا ہو۔

کشتی خود بخود چلی جا رہی تھی۔ امجد اور جیک کشتی کے اگلے سرے پر کھڑے ہوئے تھے۔ جان، میں اور سوامی پچھلے سرے پر اور اختر اور نجمہ درمیان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سنہری گولا غائب ہو چکا تھا۔ سمندر کے سینے پر ہم کسی نامعلوم منزل کی طرف چلے جا رہے تھے۔ آفاقی ہار جان نے اختر کے گلے میں ڈال دیا تھا۔ کیوں کہ اختر کے چہرے پر بال نہیں تھے ، وہ نو عمر تھا اور لڑکوں کی جوانی سے پہلے داڑھی نہیں آیا کرتی۔ میں نے بھی سوچا کہ ٹھیک ہے۔ مگر نہ جانے کیا بات تھی مجھے اس آفاقی ہار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کسی بھی مشکل میں یہ آفاقی ہار کس طرح کام آئے گا!
۔۔۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک میرے دل نے کہا:
"تم غلط سوچتے ہو فیروز! تم بھول گئے شاید، مچھلی کے مونہہ کا نوالہ بنتے بنتے تم پھر سے کشتی میں آ گئے۔ کیا یہ آفاقی کا کرشمہ نہیں ہے؟"
واقعی اب مجھے احساس ہوا کہ یہی بات ہے۔ جب تک آفاقی ہار میرے ہاتھ میں تھا، مچھلی مجھے نیچے کھینچ رہی تھی اور جب میں نے آفاقی کو کشتی میں پھینک دیا، میں بچ گیا۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ مچھلی دراصل مجھ سے آفاقی ہار لینا چاہتی تھی۔ جب یہ بات ظاہر ہو گئی تو مجھے آفاقی کی قوت پر یقین آ گیا۔ ہماری کشتی سمندر میں بڑی ہلکی رفتارسے بہہ رہی تھی۔ ہر لمحہ مجھے یہی خدشہ تھا کہ کوئی خاص بات ضرور ہوگی۔ کچھ نہ کچھ پیش آنے والا ہے، سمندر کا یہ سکون کسی آنے والے حادثے کا پیش خیمہ ہے۔ دوپہر ہو رہی تھی، امجد نے کشتی کے نیچے رکھے ہوئے پھل نکالے اور سب میں تقسیم کئے۔ ہم لوگوں نے پھل کھاکر پانی پیا اور تازہ دم ہو گئے۔ جب جسم میں قوت آگئی تو ہم نے چپو پھر سے سنبھال لئے اور آہستہ آہستہ شمال کی سمت بڑھنے لگے۔ کافی دیر تک ہم اسی طرح چلتے رہے۔
چلتے چلتے سہ پہر ہو گئی۔ سمندری پرندے اب آسمان پر اڑنے لگے تھے۔ ہوا ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ ہر طرف ایک سناٹا سا طاری تھا۔ بس کبھی کبھار لہروں کے آپس میں ملنے سے جو شور پیدا ہوتا تھا وہ سنائی دے جاتا تھا۔ ہم لوگ بمبئی سے بہت دور تھے۔ حالانکہ ہم سمجھتے تھے کہ سورج کی سمت کا اندازہ لگا کر جوں جوں ہم شمال کی طرف بڑھتے جائیں گے یقیناً ایک نہ ایک دن ہندوستان تک پہنچ جائیں گے۔ مگر میرا یہ اندازہ غلط تھا۔ جکاریوں والے جزیرے کے بعد سے ہمیں اب تک زمین کا اتنا سا کونہ بھی نظر نہ آیا تھا۔ ہم سب پریشان تھے اور بار بار ٹھنڈا سانس لے کر اسمان کی طرف دیکھتے تھے کہ شاید اب خدا کو ہم پر ترس آ جائے۔

امجد نجمہ کے پاس بیٹھا ہوا اسے تسلی دے رہا تھا اور اختر اپنے بندر کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ بندر کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے ایک زور کی قلا بازی کھائی اور پھر کشتی سے باہر پانی میں گر گیا۔ پانی میں گرتے ہی اس نے بڑی بھیانک چیخ ماری۔ اس کی چیخ سن کر اختر نے جلدی سے اس کے گلے میں بندھی ہوئی رسی کو کھینچا اور سہارا دینے کے لئے اپنا ایک ہاتھ پانی میں ڈالا۔ پانی میں ہاتھ ڈالتے ہی اختر نے بھی گھبرا کر اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور مجھے خوفزدہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
"کیا بات ہے اختر۔۔۔ پانی میں کیا ہے؟‘ میں نے پوچھا۔
" ابا جی۔۔۔ نہ جانے کیا بات ہے ، یہ پانی تو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا ہے۔" اختر نے جواب دیا۔
"ٹھنڈا ہے۔"
میں نے حیرانی سے کہا اور اٹھ کر اختر کے پاس آگیا۔ جان ، جیک اور سوامی بھی حیرت سے اختر کو اور مجھے دیکھ رہے تھے۔ شاید انہیں اختر کی بات کا یقین نہیں آیا تھا ، میں نے جھک کر پانی میں ہاتھ ڈالا تو مجھے بھی یہی محسوس ہوا گویا برف کے پگھلے ہوئے پانی میں میرا ہاتھ ڈوب گیا ہو!
یہ بڑی عجیب بات تھی اور کم از کم میری سمجھ میں آنے والی نہیں تھی ، میں نے جب جان کو یہ بات بتائی تو اسے بڑا اچنبھا ہوا اور پھر باری باری سب نے پانی میں انگلی ڈال کر دیکھی۔ پانی بہت سرد تھا۔ جس جگہ ہماری کشتی تھی ، اب اس کے آس پاس لہریں بھی پیدا نہیں ہو رہی تھیں۔ سائنس کا ایک اصول ہے کہ پانی زیادہ ٹھنڈا ہو جانے پر بھاری ہو جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کشتی کی رفتار بھی اب پہلے کے مقابلے میں بہت ہلکی ہو گئی تھی۔ ہم میں سے کسی کی بھی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہم پانی میں انگلی ڈال کر دیکھتے اور پانی کو پہلے سے بھی زیادہ ٹھنڈا پاتے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس ٹھنڈ کا اثر ہوا پر بالکل نہیں ہوا تھا۔ جہاں پانی ٹھنڈا ہو، اصولاً وہاں کی ہوا بھی ہلکی سرد ہو جانی چاہئے۔ مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ ہوا زیادہ ٹھنڈی نہیں تھی بلکہ اس قسم کی تھی جیسی کہ موسم بہار میں ہوا کرتی ہے۔
جان نے یہ دیکھ کر کہا:
" فیروز میرے خیال میں اب کچھ نہ کچھ ضرور ہونے والا ہے۔"
امجد نے پوچھا: " یہ آپ نے کیسے جانا؟"
"غور سے دیکھو" جان نے کہنا شروع کیا۔
"ہماری کشتی سے ایک فرلانگ کے دائرے میں لہریں بالکل خاموش ہیں۔ اور اس دائرے سے دور سمندر میں دیکھو کتنے زور کی لہریں اٹھ رہی ہیں! یقیناً کوئی خاص بات ہونے والی ہے۔"

ہماری جان اس وقت سخت عذاب میں تھی ، ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ کوئی حادثہ پیش آنے والا ہے ، مگر کب اور کتنی دیر میں؟ یہ ہمیں معلوم نہ تھا۔ بلکہ ایک طرح سے تو ہم اس حادثے کا انتظار کر رہے تھے۔ ایسی حالت انسان کے لئے بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ دل چاہتا تھا کہ جو کچھ بھی ہونا ہے فوراً ہو جائے۔ میں نے سمندر میں دیکھا، اب پانی کی سطح پر ہلکی سی چمک نمودار ہونے لگی تھی ، میں نے اپنا ہاتھ دوبارہ پانی میں ڈالا۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کیا کہوں یہ بات کہتے ہوئے میرا دل لرز رہا ہے) پھر میں نے محسوس کیا کہ میرا ہاتھ کسی سخت چیز سے ٹکرایا ہے۔ میں نے جلدی سے یہ بات جان کو بتائی تو اس نے کہا:
" میں جانتا ہوں، میں بھی یہی محسوس کر رہا ہوں، فیروز، تمہیں سن کر حیرت ہوگی ہمارے آس پاس کا پانی بڑی تیزی کے ساتھ برف بنتا جا رہا ہے۔ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کیوں ہے؟"
"برف۔۔۔۔" ہم سب ایک ساتھ چیخے ، ہمارے چہروں پر خوف جھلک رہا تھا۔

اور پھر وہی ہوا جو جان نے کہا تھا۔ دس منٹ کے اندر اندر ایک فرلانگ دائرے کا پانی برف بن گیا۔ ہماری کشتی چلتے چلتے رک گئی ہم سب بوکھلائے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ جان کے کہنے پر اختر نے اپنے بندر کو آہستہ سے اس برف پر چھوڑ دیا اور بندر برف پر تھوڑی دیر ٹک کر پھر جلدی سے کشتی پر چڑھ آیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ برف ٹھوس ہے اور اس پر اترا جا سکتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ ہمارے لئے عارضی طور پر کسی پراسرار طاقت نے اس حصے کو برف کی زمین بنا دیا تھا۔ سب سے پہلے سوامی ڈرتے ڈرتے اس برف پر اترا، اور اترنے کے بعد اس پر ایک دو قدم چلا بھی۔ یہ دیکھ کر ہمیں خوف کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوئی۔ ہم لوگ زمین کی تلاش میں تھے اور اب زمین ہمیں مل چکی تھی۔۔ کیا ہوا جو یہ زمین برف کی تھی۔
ایک ایک کر کے ہم سب کشتی میں سے نیچے اتر گئے۔ امجد نے نجمہ کو سہارا دے کر اس نرالی اور عجیب و غریب زمین پر اتارا ، کیوں کہ وہ اور اختر دونوں نیچے اترتے ہوئے ڈر رہے تھے۔ حیرت کے مارے میری زبان گنگ تھی۔ ہم لوگوں کی حالت اس وقت عجیب تھی۔ خوشی کے مارے کچھ تو برف پر ادھر اُدھر بھاگے پھر رہے تھے اور میں جان کے پاس کھڑا ہوا سوچ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ آفاقی ہار کار کرشمہ ہے، خدا کی مہربانی ہے یا پھر ظالم جیکا کی کوئی نئی چال ہے؟
برف آہستہ آہستہ سخت ہوتی جا رہی تھی۔ میں حیران و پریشان کشتی کے پاس کھڑا ہوا سوچ رہا تھا کہ کیا کروں؟
"گھبراؤ مت فیروز، جان نے کہا، ہمت سے کام لو اور سب سے کہہ دو کہ کشتی سے زیادہ دور نہ جائیں۔ کیوں کہ یہ برف کسی بھی وقت پگھل سکتی ہے۔"
"ہاں میرے خیال میں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔۔ میں ابھی سب کو بلاتا ہوں۔"
میں نے اتنا کہہ کر سب کو آواز دی کہ وہ لوگ کشتی کے قریب آ جائیں۔ میرا کہنا مان کر اختر، نجمہ، سوامی ، جیک اور امجد کشتی کی طرف آہی رہے تھے کہ اچانک ایک زور دار تڑاخا سنائی دیا۔ ہم سب سہم کر اس سمت دیکھنے لگے۔ جدھر سے یہ آواز آئی تھی۔ کشتی سے کوئی پچاس گز کے فاصلے پر برف کی وہ زمین خود بخود چٹخ رہی تھی۔ بالکل اس طرح جیسے کوئی شیشہ ٹوٹتا ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایک تڑاخا پھر ہوا اور برف کا وہ حصہ جہاں سے وہ ٹوٹنا شروع ہوئی تھی اپنے آپ ہی اوپر اٹھنے لگا۔
اف ! وہ منظر اس وقت بھی میری نگاہوں کے سامنے پھر گیا ہے اور میرا دل یہ سطریں لکھتے وقت کانپنے لگا ہے، میرے خدا! میں کس طرح بیان کروں کہ کوئی خوفناک چیز۔۔۔ ایسی چیز جس کے بارے میں ہم میں سے کسی کو بھی کچھ پتہ نہ تھا، برف کے اندر سے اب آہستہ آہستہ اپنا سر ابھار رہی تھی!

ایک بھیانک چیخ مار کر اختر اور نجمہ تیزی سے کشی کی طرف دوڑے وہ دونوں اس وقت بڑے بدحواس تھے اور اسی بدحواسی کی وجہ سے نجمہ لڑکھڑا کر برف پر گر پڑی۔ امجد نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے اپنے دونوں بازوؤں میں اٹھا لیا۔ سوامی اور جیک نے اختر کو اپنے بیچ میں لے لیا اور پھر وہ سب دوڑتے ہوئے کشتی کے پاس پہنچ گئے۔ میں نے نجمہ کو امجد کے ہاتھوں پر سے اٹھا کر کشتی میں لٹا دیا۔
شاید وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ مگر یہ وقت اسے ہوش میں لانے کا نہیں تھا۔ اس وقت تو خود ہماری جان پر بنی ہوئی تھی۔ ہماری نگاہیں اس طرف تھیں جہاں سے برف اوپر اٹھ رہی تھی اور ہاتھ اپنے اپنے ہتھیاروں پر رکھے ہوئے تھے۔ سورج چوں کہ ہمارے سروں پر تھا اس لئے اس کی نورانی کرنیں جب ٹوٹتی ہوئی برف پر پڑتیں تو ہماری آنکھیں ایک تکلیف دہ روشنی کے باعث بند ہو جاتیں۔ ہمارے چہرے زرد پڑے ہوئے تھے اور جسم بری طرح لرز رہے تھے۔ وہ خوفناک چیز آہستہ آہستہ اوپر آ رہی تھی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک سفید سا گنبد اوپر ابھرنا شروع ہوا اور جب یہ گنبد پوری طرح اوپر آ گیا تو جیسے ہم سب کا دم سا نکل گیا۔
ہم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس چہرے کو دیکھ رہے تھے۔ جی ہاں چہرے کو، میں کس طرح وہ واقعہ بیان کروں؟ خوف کی کپکپی کے باعث میرا قلم لرز رہا ہے۔ معاف کیجئے گا میں چند منٹ کے لئے لکھنا بند کرتا ہوں۔۔ مجھے اپنے حواس پر قابو پانے دیجئے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک لمبا وقفہ۔۔۔)
ہاں! اب میری حالت کچھ بہتر ہوئی ہے۔ اب چند لمحوں کے آرام نے میرے دل کا خوف ایک حد تک دور کر دیا ہے۔ داستان کی دلچسپی اور تسلسل کو توڑنے کی معافی چاہتے ہوئے میں پھر یہ آپ بیتی شروع کرتا ہوں۔
وہ چہرہ اب ہم سب کے سامنے تھا۔ وہ ایک بہت بڑا چہرہ تھا۔ بے حد خوفناک اور ڈراؤنا۔


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:8

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں