ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 07 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-21

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 07


kali-dunya-siraj-anwar-ep07

پچھلی قسط کا خلاصہ :
جیک کی قربانی جکاری دے نہ سکے، کیونکہ اچانک کسی پراسرار چیز کے زیراثر وہ ایک ایک کر کے گرنے لگے تھے۔ جان، فیروز، جیک اور ٹیم کے سب لوگ وہاں سے بھاگ نکلے مگر وہ گھوم کر قربانی والے چبوترے کی دوسری جانب پہنچے تو کچھ زندہ جکاری اور زوک کے نرغے میں پھنس گئے۔ جان کے مشورے پر اختر نے بندر کو چھوڑا کہ سوبیا کی دھات کا ڈبہ جس کسی آدمی کے پاس ہے، بندر جا کر لے آئے۔ اور ویسے ہی ہوا، اور اسی ڈبہ کی بدولت سب جکاری اور زوک ایک ایک کر کے گرتے گئے اور فیروز کی ٹیم ایک بار پھر اندھادھند جنگل میں بھاگ نکلی۔۔۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

احتیاطاً ہم سب نے اپنے ہتھیار نکال لئے۔ ہم نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی اور پھر یہ اندازہ کر کے ہمیں اطمینان ہو گیا کہ آنے والا بلونت ہے۔
"کہاں رہ گئے تھے تم۔۔۔؟" جان نے اس طرح دریافت کیا جیسے اسے بلونت کا دیر سے آنا اچھا نہ لگا ہو۔
"آپ لوگ تو بھاگے چلے جا رہے تھے۔ کسی نے مجھے دیکھا بھی نہیں۔ میں تو ایک درخت سے ٹکرا کر بے ہوش ہوگیا تھا۔ جب ہوش آیا تو بڑی مشکل سے راستہ تلاش کرتا ہوا آیا ہوں۔"
میں بے بلونت کو دلاسا دیا اور پھر اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔ واقعی یہ ہماری غلطی تھی کہ ایکدم بھاگ کھڑے ہوئے اور پیچھے مڑ کر یہ بھی نہیں دیکھا کہ کوئی رہ گیا ہے۔ بلونت ابھی تک ہانپ رہا تھا۔ سوامی کی چھاگل میں کافی پانی موجود تھا۔ اس نے تھوڑا سا بلونت کو پینے کے لئے دیا اور تب اس کی جان میں جان آئی۔ جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے تو جان نے کہا:
"اب ہم لوگ مل ملا کر کل آٹھ آدمی ہو گئے ہیں، ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ تو ہم بعد میں سوچیں گے۔ پہلے میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم لوگ اپنا ایک لیڈر مقرر کر لیں۔ اس طرح فائد ہ یہ ہوگا کہ ہم سب ایک شخص کے کہنے پر چلیں گے اور کوئی بھی اپنی من مانی نہیں کرسکے گا۔ کیوں فیروز تمہارا کیا خیال ہے؟"
"آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔" میں نے جواب دیا۔ "لیڈر کو دوسروں کا بھی خیال رہتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی کو تکلیف نہ ہو۔"
"بس تو پھر میں آپ کو اپنا لیڈر مانتی ہوں پاپا" نجمہ نے جلدی سے کہا۔
"میں بھی" اختر نے کہا۔
اور پھر ان دونوں کے ساتھ ہی ہم سب نے بھی جان کو ا پنا لیڈر مان لیا۔ یہ دیکھ کر جان نے کہا۔
"میں جانتا ہوں کہ تم مجھے بوڑھے اور کمزور آدمی کو ہی اپنا لیڈر بناؤ گے۔ خیر میں پوری کوشش کروں گا کہ اپنے فرض کو نبھاؤں۔ اب آپ سب کو چاہئے کہ میرا کہا مانیں اور میری اجازت کے بغیر کوئی کام نہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی میں اب سوامی سے کہتا ہوںکہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ اسٹیمر سے سمندر میں گرنے کے بعد اس پر کیا بیتی؟ یہ امجد صاحب کون ہیں، اسے کہاں سے ملے اور آخر وہ اس جزیرے میں کس طرح آیا؟ مگر اس سے پہلے کہ سوامی اپنی داستان شروع کرے، سب لوگ قریب آ جائیں۔ اپنے ہتھیار ہاتھ میں رکھ کر چوکنے بیٹھیں اور کسی قسم کی روشنی جلانے کی کوشش نہ کریں۔ہاں سوامی اب تم اپنی کہانی سناؤ۔"
اتنا کہہ کر جان خاموش ہو گیا۔ اب ہر طرف خاموشی تھی۔ بس رات کے سناٹے میں کبھی کبھارجنگلی ٹڈوں کا شور گونج اٹھتا تھا۔ چاند کی مدھم سی روشنی درختوں سے چھن کر کہیں کہیں پڑ رہی تھی۔ ہم سب اندھیرے میں تھے۔ بس ایک دوسرے کو اس کی آواز سے پہچان رہے تھے۔ ورنہ شکل کسی کی بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ سوامی ایک مرتبہ کھانسا اور اس کے بعد اس نے کہنا شروع کیا۔

سوامی کی داستان

"سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں۔ بڑے حیرت انگیز واقعات ہیں۔ بہت سی باتیں تو میں بھول چکا ہوں۔ پھر بھی جو کچھ مجھے یاد ہے وہ سناتا ہوں۔ اسٹیمر سے نیچے سمندر میں گرنے کے بعد مجھے بالکل ہوش نہ رہا کہ میرے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ہے۔ طوفان بڑا زبردست تھا۔ شاید میں لہروں کے تھپیڑے کھاتا ہوا ادھر سے اُدھر بہتا رہا۔ بڑی دیر کے بعد مجھے ہوش آیا اور میں نے محسوس کیا کہ لہروں کے ہاتھوں میں میں کھلونا بناہوا ہوں۔ ایک لہر اچھال کر مجھے دوسری لہر کی طرف پھینک دیتی تھی۔ اور دوسری لہر تیسری کی طرف۔ لہروں کے طمانچے کھاتے کھاتے میرا مونہہ سوج گیا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ میں بہت اچھا تیراک ہوں۔ مجھ سے جہاں تک ہو سکا میں نے تیرنے کی کوشش کی۔
بےہوشی کے عالم میں میرے پیٹ میں کھاری پانی کافی جاچکا تھا۔ میں نے الٹی کر کے یہ پانی نکالا اور پھر تیرنے لگا۔ کیوں کہ اب صرف تیرنے ہی پر میری زندگی کا دارومدار تھا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میں نے ہر طرف دیکھا، مگر اسٹیمر مجھے دور تک نظر نہ آیا۔ نہ ختم ہونے والا سمندر تھا، میں تھا اور میرے تھکتے ہوئے بازو تھے۔
کئی گھنٹے کے بعد طوفان ختم ہوا اور سمندر پرسکون ہو گیا۔ میں اب بھی برابر تیرے جا رہا تھا۔ سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ اب کیا کروں؟ سمندر مجھے نگل لینے کے لئے بے تاب تھا اور آسمان پر منڈلاتے ہوئے گدھ میری بوٹیاں نوچنے کے لئے تیار !
مختصر یہ کہ ایک وقت ایسا آ گیا جب کہ میرے بازو بالکل شل ہو گئے۔ ہمت جواب دینے لگی۔ بھوکی لہریں بے تابی سے اپنے خوفناک مونہہ کھول کر میری طرف لپکنے لگیں اور گدھ آہستہ آہستہ قریب آنے لگے۔ میں نے پھر اپنی رہی سہی ہمت کو جمع کر کے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کی۔ لیکن معلوم ہوا کہ ہاتھوں کا اب دم نکل گیا ہے۔ میرے نزدیک اب یہ آخری وقت تھا۔ میں دل ہی دل میں بھگوان کو یاد کرنے لگا اور پھر یہ سوچ کر کہ گدھوں کی خونخوار چونچوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ سمندر کے اندر ڈوب جاؤں اور فوراً ہی میں نے پانی کے اندر ایک ڈبکی لگائی۔
ڈبکی لگاتے ہی اچانک ایسا لگا جیسے کسی نے میرے سر پر ہتھوڑا مارا ہو! میں نے گھبرا کر اپنے ہاتھ بڑھائے تو کوئی سخت سی چیز میرے ہاتھوں کو لگی۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ ٹوٹا ہوا تختہ ہے جو سمندر میں بہتا ہوا چلا جا رہا ہے ، اچانک مجھ میں نہ جانے کہاں سے طاقت آ گئی۔ میں نے جلدی سے اس تختے کو پکڑ لیا۔ تختہ کافی بڑا تھا۔ جوں توں کر کے ، بڑی مشکل سے میں اس تختے پر سینے کے بل چڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔ تختے کو دونوں ہاتھوں سے میں نے یوں پکڑ لیا جیسے وہ کوئی قیمتی چیز ہو۔ اور قیمتی چیز وہ تھی بھی۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے۔ یہ تو پھر ایک تختہ تھا۔

شاید رات بھر میں اسی تختے سے چمٹا ہوا بہتا رہا۔ حتی کہ صبح ہو گئی۔ تختے سے چمٹنے کے بعد اتنا تو ہوا کہ میری جو طاقت زائل ہو رہی تھی وہ اب مجھ میں پھر سے آ گئی۔ صبح کی روشنی میں میں نے ہر طرف دیکھا، جہاں تک نظر جاتی تھی بس وہاں تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا۔ میری جان بچ تو گئی تھی مگر میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ کب تک اور زندہ رہ سکوں گا۔ کیوں کہ صرف اس تختے ہی سے تو میری جان نہیں بچ سکتی تھی۔ انسان کو زندہ رہنے کے لئے روٹی، پانی اور زمین کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس وقت میرے پاس نہیں تھا۔ بھوک کے مارے میری جان نکلی جارہی تھی۔
انسان کسی اور طریقے سے مر رہا ہو تو اسے اتنی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ مگر بھوک سے بلک بلک کر مرنے کی تکلیف ایسی ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ کافی دیر تک میں اس تختے سے چمٹا ہوا بہتا رہا۔ میری طاقت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی تھی۔ گدھ اب بھی میرے اوپر منڈلا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ بس اب تو بھگوان ہی مالک ہے۔ ہر لمحہ مجھے یہ انتظار رہنے لگا کہ اب کسی گدھ کی چونچ نے میری کمر کی بوٹی نوچی اور اب نوچی۔۔۔
میں بھوک اور کمزوری کی وجہ سے اب تقریباً بے ہوش سا ہو گیا تھا۔ پانی کی کوئی لہر میرے اوپر سے گزرتی تو مجھے یہی محسوس ہوتا کہ یا تو یہ گدھ کی چونچ ہے یا پھر کسی خوفناک مچھلی نے میرے جسم کو اپنے مونہہ سے چھوا ہے۔ میں کراہ کر ایک چیخ مارتا اور اپنا سر پٹختا مگر افسوس کہ حالات کے ہاتھوں میں اب میں مجبور تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور دل دہی دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ میرے کون سے کرموں کا پھل ہے۔ میں نے تو آج تک کسی کو دکھ نہیں دیا!

کئی گھنٹے اسی حالت میں گزر گئے۔ اب میرے احساس کا جذبہ بھی ختم ہو چکا تھا۔ کوئی اگر میرے سوئی بھی چبھو دیتا تو مجھے پتہ نہ لگتا۔ میری آنکھیں بند تھیں ، دماغ سو چکا تھا۔ کبھی کبھار آنکھیں کھولتا تو دماغ جاگ کر اتنا احساس ضرور دلاتا کہ میں ابھی تک زندہ ہوں۔ شاید ایسا ہی کوئی لمحہ تھا جب کہ کسی نے میرے جسم کو چھوا ، پہلے تو میں سمجھا کہ کسی گدھ یا مچھلی نے مجھے لقمہ بنانے کا ارادہ پختہ کر لیا ہے۔ مگر فوراً ہی معلوم ہوا کہ یہ تو کسی کا ہاتھ ہے! کوئی میری ہی طرح تختے پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا !
میں سمجھ گیا کہ یقیناً یہ کچھ آدم خور جنگلی ہیں جو تیرتے ہوئے سمندر میں آ گئے ہیں۔ یہ مجھے پکڑ کر لے جائیں گے اور پھر میرے گوشت کو بڑے اطمینان سے بھون بھون کر کھائیں گے۔ یہ سوچتے ہی میں نے ایک بھیانک چیخ ماری اور پھر مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا؟
جب ہوش آیا تو دیکھا کہ میں ایک جزیرے میں گیلی اور نرم ریت پر لیٹا ہوا ہوں اور میرے اوپر نیلا آسمان ہے، ذرا نظروں کو نیچا کر کے دیکھا تو مجھے ناریل کے لمبے لمبے درخت آسمان سے باتیں کرتے ہوئے نظر آئے جب میں نے پوری طرح آنکھیں کھول دیں تو اچانک برابر سے کسی نے کہا۔
"اب تم کیسے ہو دوست؟"

میں نے چونک کر اس طرف دیکھا تو ایک خوب صورت نوجوان کو اپنے برابر بیٹھے ہوئے پایا۔ اس نے جلدی سے ایک ٹوٹے ہوئے ناریل کا پانی میرے حلق میں ٹپکایا۔ اس سے کچھ جان مجھے اپنے جسم میں آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس خوبصورت شخص کو غور سے دیکھنے لگا۔ اس نے مسکرا کر کہنا شروع کیا۔
"ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے فرشتہ ثابت ہوئے ہیں۔ تم نہیں ہوتے تو میں مر گیا ہوتا اور میں نہ ہوتا تو تم سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بن گئے ہوتے۔"

میں نے جب اس شخص سے دریافت کیا کہ وہ کون ہے تو اس نے مجھے بتایاکہ اس کا نام امجد ہے۔ وہ بمبئی کے ایک کروڑ پتی شخص کا بیٹا ہے۔ مالک فیروز کی طرح اس کے باپ کے جہاز بھی دور دراز ملکوں میں جاتے ہیں۔ باپ کی ہی طرح بیٹے کو بھی سمندر کے سفر کا بڑا شوق ہے۔ اپنے ذاتی اسٹیمر میں ایک دن وہ اکیلا ہی سمندر میں گھومنے کے لئے نکل پڑا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ پٹرول کی ٹنکی میں پٹرول بس برائے نام ہی ہے۔ کافی دور آنے کے بعد جب تیل ختم ہوگیا تو وہ بہت گھبرایا۔ رات ہونے والی تھی اور وہ ساحل سے بہت دور تھا۔ اچانک سمندر میں ایک خوفناک طوفان آ گیا۔ (اور شاید یہ وہی طوفان تھا جس میں پہلے ہم سب بھی گھر گئے تھے) اس کا اسٹیمر ادھر اُدھر ڈولنے لگا۔ اور پھراس کا بھی وہی حشر ہوا جو ہمارے اسٹیمر کا ہوا تھا۔
اسٹیمر کے تختے ہوا کے زور سے اکھڑنے لگے۔ اور آخر کار امجد نے ایک ٹوٹے ہوئے تختے کے سہارے اپنی جان بچائی۔ مگر اسے اتفاق کہہ لیجئے کہ وہ تختہ کمزور تھا۔ ایک رات اور ایک دن کے بعد اس تختے نے امجد کا وزن سہارنے سے انکار کردیا اور چرچرا کر ٹوٹ گیا۔ اب بے چارہ امجد تھا اور وہ خوفناک بپھرا ہوا سمندر۔ وہ تو یوں کہئے کہ خوش قسمتی سے امجد بڑا ماہر تیراک ہے، جو ان ہے اور مجھ بوڑھے شخص کے مقابلے میں کافی دیر تک تیر سکتا ہے۔ اس نے اپنی ہمت کے بل بوتے پر اس بپھرے ہوئے سمندر کا مقابلہ کیا۔ اس عرصے میں وہ کس طرح تیرتا رہا؟ یہ تو آپ اسی سے پوچھئے گا۔
میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ جب میرا آخری سانس نکلنے والا تھا تو امجد کے ہاتھ نے مجھے دوبارہ زندگی دے دی۔ اس نے مجھے تختے پر بہتے دیکھ کر خود بھی اس تختے کو پکڑنے کی کوشش کی اور جب تختے کو پکڑ لیا تو پھر اس پر چڑھ گیا۔ اپنے اسٹیمر کے ٹوٹنے سے پہلے امجد نے چونکہ کھانے کا تھیلا، پانی کی چھاگل اور اپنے ہتھیار واٹر پروف تھیلے میں رکھ کر تھیلا اپنی کمر سے باندھ لیا تھا اس لئے یہ چیزیں تب میری زندگی بچانے کے کام آئیں۔ اس نے تختے پر آتے ہی سب سے پہلے مجھے دیکھا۔ میرے جسم میں سانس کی رفتار کو محسوس کرکے اس نے جلدی سے پانی کی چھاگل نکالی اور تھوڑا سا پانی مجھے سیدھا کر کے میرے حلق میں ٹپکایا۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح میرے مردہ جسم میں پھر سے جان آ گئی ہو۔ میں شاید پھر بے ہوش ہو گیا۔ امجد نے بعد میں مجھے بتایا کہ ہم دونوں دو دن تک اسی تختے پر بہتے رہے۔ آخر خدا خدا کر کے یہ جزیرہ نظر آیا۔ اپنے ہاتھوں سے چپوؤں کا کام لے کر امجد نے تختے کو بڑی مشکل کے بعد اس جزیرے کے ساحل تک پہنچایا۔ اور ٹوٹے ہوئے ناریلوں کا پانی پلا کر مجھے ہوش میں لے آیا۔
'کیوں امجد صاحب میں نے ٹھیک کہا ناں؟'
'جی ہاں۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، واقعی ایسا ہی ہوا تھا'۔۔۔ امجد نے جواب دیا۔

"خیر تو اس کے بعد ایسا ہوا کہ میں نے اٹھ کر پورے ساحل کی طرف نظر دوڑائی۔ امجد کا میں نے شکریہ ادا کیا کہ ان کے طفیل میری جان بچی۔ مگر اس کے ساتھ ہی مجھے آپ سب کا خیال ستائے جا رہا تھا۔ بے بی اور بابا مجھے بری طرح یاد آ رہے تھے۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ آپ لوگوں پر کیا بیتی؟َ امجد کو جب میں نے یہ سب باتیں بتائیں تو انہوں نے مجھے تسلی دی اور مجھ سے کہاکہ آؤ ہم دونوں مل کر ساحل پر گھومیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی جہاز اس طرف آتا ہوا دکھائی دے جائے۔ اس طرح اسے اشارہ کر کے ہم مدد حاصل کر سکتے ہیں۔
بات معقول تھی اس لئے ہم دونوں بڑی بے تابی کے ساتھ ساحل کے گیلے ریت پر گھومنے لگے۔ سمندر کی لہریں دور سے اچھلتی کودتی آتیں اور پھر ساحل کے ریت کو اپنے ساتھ لے کر سمندر میں واپس چلی جاتی۔ میں غور سے لہروں کے اس کام کو دیکھ رہا تھا کہ یکایک مجھے ایک رسی نظر آئی جو گیلی ریت پر لکڑی کی ایک میخ سے بندھی ہوئی سمندر کے اندر جارہی تھی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ اس غیر آباد جزیرے پر رسی کا اس طرح بندھا ہونا دراصل اس بات کا ثبوت تھا کہ جزیرے میں انسان موجود ہیں۔ کیوں کہ بندروں کو اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ ریت میں میخ ٹھونکیں اور پھر رسی کی گرہ لگائیں۔
جب یہ بات معلوم ہو گئی تو مجھے یہ جستجو ہوئی کہ آخر رسی میں کیا چیز بندھی ہے؟ میں نے رسی کو آہستہ آہستہ پکڑ کر کھینچنا شروع کیا۔ میرا خیال تھا کہ شاید اس سے کوئی مچھلی بندھی ہوگی جسے زندہ رکھنے کے لئے کسی نے سمندر مین لٹکا دیا ہوگا۔ مگر یہ دیکھ کر مجھے اچنبھا ہوا کہ رسی سے ایک چھوٹا سا ڈبہ بندھا ہوا ہے۔ بڑے اشتیاق کے عالم میں میں نے اس ڈبے کو کھولا۔ اس میں جو چیز تھی اسے دیکھتے ہی میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس چیز کو میں اپنے پہلے سفر میں دیکھ چکا تھا۔ یہ سوبیا دھات تھی۔ سوبیا دھات کی اس جگہ موجودگی اس بات کی ضمانت تھی کہ یا تو زہرہ کے لمبے لوگ یہاں موجود ہیں یا پھر جان اور جیک صاحبان۔ ہم ان دونوں کو ڈھونڈنے کے لئے ہی بمبئی سے چلے تھے اور سوبیا ظاہر ہے کہ ان دونوں ہی کے پاس تھی۔"

"شاباش! ۔۔ مجھے تمہاری عقل کی داد دینی پڑتی ہے سوامی۔۔۔" جان نے آہستہ سے کہا۔
"واقعی تم نے بہت اچھی بات سوچی۔" بلونت کی آواز آئی۔
"اچھا پھر کیا ہوا۔۔۔؟" میں نے پوچھا۔
"یہ خیال ذہن میں آتے ہی میں جیسے پاگل ہو گیا۔۔۔"
سوامی نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔۔۔
"امجد کو میں نے جلدی جلدی پچھلی تمام باتیں بتائیں اور ان سے کہا کہ وہ بھی اس جزیرے میں جان اور جیک صاحب کو تلاش کرنے میں مدد کریں۔ ہم دونوں بڑی دیر تک ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے۔ اور پھر آخر ایک جگہ آکر رک گئے۔ حیرت، خوف اور تعجب کی وجہ سے میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کیوں کہ ریت پر بہت سے لوگوں کے قدموں کے نشان نظر آرہے تھے۔ ایک دو جگہ مجھے بڑے عجیب سے پیروں کے نشان بھی دکھائی دئیے۔ میں حیران تھا کہ یہ کس کے قدموں کے نشان ہیں۔ ان قدموں کے نشانوں کو دیکھ کر ہم دونوں ان نشانوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ چلتے چلتے اچانک میں ٹھٹھک گیا۔ میری نظر ناریل کے ایک درخت کے تنے پر گئی۔ میں نے دیکھا کہ چاقو کی مدد سے کسی نے اس پر سمت کا نشان بنایا ہوا ہے۔ درخت کے تنے کے نیچے ہی پتھروں کی ایک ڈھیری تھی۔ جس کی ایک خاموش زبان تھی۔ بابا اور بے بی کے ساتھ چونکہ میں اسکاؤٹوں کا یہ کھیل بہت کھیل چکا تھا۔ اس لئے ان نشانوں کو دیکھتے ہی میری باچھیں کھل گئیں۔ خوشی کے باعث میں دیوانہ ہو گیا اور اسی دیوانگی کی وجہ سے میں اچھلنے کودنے لگا۔
پتھروں کی وہ ڈھیری دراصل کہہ رہی تھی کہ بے بی اور بابا اس جنگل میں اندر کے طرف گئے ہیں۔ امجد صاحب سے میں نے کہا کہ ہمیں فوراً ان کی تلاش میں چل دینا چاہئے۔ میں نے سوبیا کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں لٹکا لیا۔ چاقو میرے پاس تھا ہی، امجد صاحب نے اپنا پستول ہاتھ میں لے لیا۔ اور پھر ہم دونوں بڑی احتیاط کے ساتھ جنگل میں اندر ہی اندر بڑھنے لگے۔یہاں پہنچتے ہی مجھے ایک عجیب سی آواز سنائی دی جو شاید کسی گھنٹے کی تھی۔ یہ آواز بڑی ڈراؤنی اور خوفناک تھی۔ درختوں کے تنوں پر اور نیچے زمین پر مختلف نشان دیکھتا ہوا میں صحیح راستے پر چلتا رہا۔ قدموں کے نشان مجھے بتا رہے تھے کہ اختر اور نجمہ کے ساتھ ہی مالک فیروز بلونت اور تین آدمی اور اس طرف گئے ہیں۔
بعد کے تین آدمیوں میں سے ایک کے قدموں کے نشان بڑے عجیب اور ڈیڑھ فٹ لمبے تھے۔ میری سمجھ میں یہی آیا کہ شاید اس جزیرے میں رہنے والے جنگلیوں نے آپ سب کو پکڑ لیا ہے۔ یہ خیال آتے ہی میں نے اپنی رفتار تیز کر دی کہیں پر بھی دم نہیں لیا۔ بس آندھی اور طوفان کی طرح آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ جس وقت میں جنگل کے آخری سرے پر پہنچا تو شام ہو رہی تھی۔ گھنٹے کی آواز میرے کانوں میں برابر آ رہی تھی۔ جب میں اس گھنٹے کے قریب والی جھاڑیوں میں پہنچ گیا تو میں نے چاند کی ہلکی روشنی میں ایک دل دہلا دینے والا منظر دیکھا۔ جیک صاحب کو ایک خوفناک قوم قتل کرنے والی تھی۔ امجد صاحب کو یہ دیکھتے ہی میں نے اشارہ کیا اور پھر ہم دونوں تیزی سے لپکے ہوئے آگے بڑھے۔ اور پھر اچانک ایک عجیب بات ہوئی۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ قوم بھیانک چیخیں مارتی ہوئی زمین پر گرنے لگی۔ جیک صاحب کو میں نے اٹھتے ہوئے دیکھا۔ وہ چبوترے پر سے کودے اور ایک سمت آپ سب کو لے کر بھاگے۔ میں نے بھی آگے بڑھنا چاہا مگر امجد صاحب نے روک دیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ بھاگنے کے بجائے ہمیں آہستہ آہستہ بغیر کوئی آواز نکالے چلنا چاہئے۔
میدان کا چکر کاٹ کر ہم آپ سب تک پہنچ جائیں گے۔ میں نے ان کا کہا مان لیا۔ ہم دھیرے دھیرے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ کہ اچانک سامنے کی جھاڑیاں ہلیں اور ایک بندر ہمارے سامنے آکر پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیا بات تھی؟ بندر کہاں سے آیا اور کیوں آیا۔ میں نے جب غور سے دیکھا تو اس کے گلے میں ایک پرچہ بندھا ہوا تھا۔ مجھے اور بھی حیرت ہوئی۔ ہمیں آگے بڑھتے دیکھ کر بندر نے بھاگنا چاہا، مگر میں نے اسے پکڑ لیا اور پھر جلدی سے اس کے گلے سے بندھا ہوا پرچہ نکال کر امجد صاحب کو دیا کہ اسے پڑھیں۔ انہوں نے فوراً تھیلے میں سے ماچس نکال کر ایک تیلی جلائی اور پرچہ کا مضمون پڑھا۔ مجھے تعجب تو بہت ہوا مگر وہ وقت تعجب کرنے کا نہ تھا۔
میں نے فوراً سوبیا کا ڈبہ بندر کے گلے سے باندھ دیا اور پھر وہ بندر تیزی کے ساتھ واپس بھاگ گیا۔ میں سمجھ چکا تھا کہ میرے مالک فیروز اور جان صاحب یہاں مصیبت میں مبتلا ہیں۔ ان کی مدد کے خیال سے میں بھی بندر کے پیچھے پیچھے بھاگا اور پھر جو کچھ ہوا وہ آپ سب جانتے ہی ہیں۔"

اتنا کہہ کر سوامی خاموش ہو گیا۔ ہم سب نے پھر باری باری امجد سے مصافحہ کیا۔ اسے تسلی دی کہ اگر خدا نے چاہا تو ہم لوگ کسی نہ کسی طرح بمبئی ضرور پہنچیں گے۔ امجد سے ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میں یہ جان کر بہت خوش تھا کہ امجد امتیاز صاحب کا لڑکا ہے جو میری ہی طرح بمبئی میں ایک جہازی کمپنی کے مالک ہیں۔ جب کافی باتیں ہو چکیں تو امجد نے کہا۔
"صاحب مجھے تو سب سے زیادہ حیرت بندر پر ہے۔ اسے اختر اتنی دیر میں سدھا لے گا، اس کی تو شاید آپ کو بھی امید نہ ہوگی۔"
"واقعی یہ اچنبھے کی بات ہے" سوامی نے کہا:
"بندر کو تو جنگل میں آ جانے کے بعد پھر واپس اختر کے پاس نہیں جانا چاہئے تھا۔ بندر جنگلی ہے ، بھلا کس طرح وہ قابو میں آ سکتا ہے ؟"
"یہ بات نہیں ہے سوامی چاچا" اختر نے آہستہ سے کہا:
"میں اس سے بڑی محبت کرتا ہوں۔ محبت سے تو لوہا بھی پگھل سکتا ہے یہ تو پھر جانور ہے۔ میں نے بہت سے اشارے اسے سکھا دئیے ہیں۔ میں جو کہوں گا اب یہ وہی کرے گا۔ گھر میں بھی میں نے گلہری اور مینا پالی ہوئی ہے۔ وہ دونوں بھی میرے کہنے پر چلتی ہیں۔ امید تو مجھے بھی نہیں تھی کہ بندر کو چھوڑ دینے کے بعد واقعی وہ واپس بھی آجائے گا۔ مگر یہ سب خدا کی مہربانی ہے، وہ ہم پر مہربان تھا تو یہ بندر بھی ہو گیا۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔" اتنا کہہ کراس نے شاید بندر کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ بندر کی خوں خوں کی آوازیں مجھے ایک دو بار سنائی دیں اور پھر وہ خاموش ہو گیا۔

اس کے بعد ہم سوچنے لگے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ رات ہو چکی تھی اور ہم لوگ تھکے ہوئے تھے۔ سب کا خیال تھا کہ ہمیں یہیں رات گزارنی چاہئے، مگر بلونت اور سوامی ہمارے ہم خیال نہ تھے ، بلونت نے کہا۔
"اگر ہم رات یہیں گزاریں گے تو جکاری کسی بھی وقت ہمیں پھر پکڑ سکتے ہیں۔"
"ایسا کس طرح ہو سکتا ہے۔" جان نے کہا:
"جب تک ہمارے پاس سوبیا ہے وہ ہمیں نہیں پکڑ سکتے۔"
" یہ بات میں نہیں مانتا، دشمن کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہئے۔ سوبیا کی کرنوں سے وہ عارضی طور سے مغلوب ہو گئے ہیں۔ مگر ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد وہ اس کا توڑ تلاش کر لیں اور پھر ہمیں آ دبوچیں۔ نہیں جان صاحب میرے خیال میں یہاں بسر کرنا عقل مندی نہیں ہے۔" بلونت نے جواب دیا۔
"بلونت ٹھیک کہہ رہے ہیں مالک"۔ سوامی نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا،" ہمیں فوراً یہاں سے چل دینا چاہئے۔"

بڑی لمبی چوڑی بحث کے بعد آخرکار یہی طے پایا کہ ہم لوگوں کو رات کے اندھیرے ہی میں اس منحوس مقام سے چل دینا چاہئے۔ یہ سوچتے ہی ہمارا سفر پھر شروع ہو گیا۔ جگہ جگہ ٹارچ کی روشنی میں ہم اختر اور نجمہ کے لگائے ہوئے نشانوں کو دیکھتے ہوئے آخر کار جنگل کے آخری سرے پر پہنچ گئے۔
واپسی میں ہمیں نسبتاً کم وقت لگا۔ جاتے وقت جو جھاڑ جھنکاڑ راستے میں پڑے تھے وہ ہم نے صاف کر دئیے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اب ہم جلدی واپس آ گئے۔ جنگل پار کرتے ہی چاند کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی دکھائی دی۔ میں نے ساحل کے پاس آتے ہی ہر طرف نظر دوڑائی۔ ناریل کے وہ درخت جن کے جھنڈ میں ہم نے کشتی چھپائی تھی اب کچھ زیادہ دور نہیں تھے۔ یہاں آتے ہی بلونت نے مجھ سے کہا کہ واپسی کا سفر نہ جانے کیسا ہو؟ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم ناریل اور کیلے توڑ کر کشتی میں رکھ لیں۔ کیوں کہ سفر میں ہمیں بھوک اور پیاس ضرور لگے گی۔ بات معقول تھی اس لئے جان سے مشورہ کرنے کے بعد ہم نے یہ سب سامان کشتی میں رکھ لیا۔ اس کے علاوہ اور ضروری چیزیں بھی کشتی میں حفاظت سے رکھ دیں۔ کشتی چھپانے کی پہلی احتیاط بہت کام آئی۔
کیونکہ کشتی ہمیں اسی حالت میں ملی جس میں کہ ہم اسے پہلے چھوڑ گئے تھے۔ شاید رات کے دو بجے تھے جب کہ ہم آٹھ آدمی کشتی میں بیٹھ رہے تھے۔ بلونت اور امجد نے چپو چلانے کا کام اپنے ذمہ لیا۔ میں نے آگے بڑھ کر لکڑی کی میخ سے بندھی ہوئی کشتی کی رسی کاٹ دی تاکہ کشتی آسانی سے آگے بڑھ سکے۔ ابھی یہ کام میں کر ہی رہا تھا کہ اچانک جنگل میں سے عجیب سی آوازیں آنے لگیں۔ بلونت نے فوراً چلا کر کہا۔
"فیروز صاحب۔۔ ہوشیار۔۔۔ جکاری ایک خاص قسم کا لباس پہنے ادھر آرہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ لباس ہی سوبیا کا توڑ ہے۔"
میں نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا تو حیرت اور خوف کی وجہ سے جسم لرزنے لگا۔ پندرہ بیس جکاری اپنے ہاتھ بڑھائے جنگل میں سے ساحل کی طرف آ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر جان نے کہا۔
"جلدی کرو فیروز۔ ہمیں جلد سے جلد یہ ساحل چھوڑ دینا چاہئے۔ دیر مت کرو ، جلدی کرو جلدی۔"

گھبرا کر میں کشتی میں بیٹھ گیا۔ ایک ایک چپو کو چلانے کے لئے دو دو آدمی تیار ہو گئے۔ جکاریوں نے ہمیں ساحل چھوڑتے دیکھا تو وہ تیزی سے ہماری طرف آنے لگے۔ امجد نے غصے میں آکر اپنے پستول سے تین چار فائر بھی کئے، مگر جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ، گولیاں جکاریوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ جب وہ خوف ناک قوم ساحل کے پاس پہنچی تو اپنے شکار کو ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر ساحل کی ریت اپنے سر پر ڈالنے لگی۔ یہ منظر دیکھنے کے قابل تھا۔ ہم لوگ اب ساحل سے قریب قریب پچاس گز دور تھے۔ اور جکاری غصے اور جلن کی وجہ سے وہاں کھڑے عجیب عجیب حرکتیں کر رہے تھے۔ لمحہ بہ لمحہ کشتی ساحل سے دور ہوتی گئی اور پھر آخر وہ وقت آگیا جب کہ وہ خوفناک جزیرہ ہماری نظروں سے بالکل اوجھل ہوگیا۔
میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ایک بہت بڑی مصیبت سے نجات ملی۔ قطب نما چونکہ ہمارے پاس پہلے ہی سے نہیں تھی اس لئے ہمیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ اب ہم دنیا کے کون سے حصے میں ہیں؟
آپ سب جو میرے اس سفر نامے کو دل چسپی سے پڑھ رہے ہیں شاید یہاں تک پہنچ کر سوچیں گے کہ میری کہانی ختم ہونے والی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے ، مجھ پر جو مصیبتیں پڑیں اور جو دہشت ناک واقعات مجھے پیش آئے، ابھی تو اس کا اتنا سا حصہ بھی میں نے بیان نہیں کیا ہے۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کالی دنیا کے اس سفر میں میرے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے تو میں کبھی اس سفر کا نام تک نہیں لیتا۔ مگر غیب کا حال سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے میں اس بات سے بالکل لاعلم تھا کہ آگے کیا ہونا ہے!

مگر اس کا جواب فوراً ہی مل گیا۔ رات کے شاید تین بجے تھے، ہماری کشتی ایک نامعلوم سمت میں چلی جا رہی تھی۔ صبح کو سورج نکلنے کے بعد ہی صحیح سمت کا اندازہ ہو سکتا تھا۔ اب تو ہم صرف اندازاً ہی کشتی چلا رہے تھے۔ ہوا ٹھنڈی تھی اور سمندر پر سکون تھا۔ اختر اور نجمہ سو رہے تھے۔ البتہ باقی سب جاگ رہے تھے۔ اچانک ایک ہلکا سا سراٹا ہوا میں بلند ہوا۔ اس سراٹے کے ساتھ ہی ایک روشن شکل اس اندھیرے میں نمودار ہونی شروع ہوئی۔ جب یہ شکل مکمل ہوگئی تو ہم سب خوف و دہشت کے باعث ایک دوسرے سے لگ کر بیٹھ گئے۔
یہ جی گا تھا!
شاید یہ پہلا موقع تھا کہ جب کہ وہ ہم سب کے سامنے ایک ہی وقت میں نمودار ہوا تھا۔ اس کی صورت اتنی خوفناک تھی کہ ہمارے دل کانپ گئے۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ ہوا میں اٹھایا اور پھر بڑے ڈراؤنے لہجے میں بولا۔
"مسٹرجان! اپنے وفادار جکاریوں کو ختم کرنے کا بدلہ میں ضرور لوں گا۔ جس سوبیا پر آپ اتنا گھمنڈ کرتے ہیں وہ اب آپ کے کسی کام کی نہیں رہے گی۔ میں سایہ کی طرح آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ اگر سمجھتے ہیں کہ مجھ سے بچ جائیں گے تو یہ آپ کی بھول ہے۔۔ یاد رکھئے آپ کبھی بمبئی نہیں پہنچ سکتے۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاہا۔۔۔"
اتنا کہہ کر خوفناک قہقہے لگاتا ہوا وہ آہستہ آہستہ ہوا میں غائب ہو گیا۔

ہمارے دل دھک سے رہ گئے۔ خوف زدہ اور سہمی ہوئی نظروں سے ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ہم میں سے جس کسی نے جی گا کا صرف نام سنا تھا ، اس نے آج اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ سب سے زیادہ حیرت تو امجد کو تھی۔ امجد کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تھا کہ یہ پر اسرار چمکتا ہوا روشن خاکہ کس کا تھا ، جیسے ہی یہ خاکہ غائب ہونا شروع ہوا میرے کانوں نے ایک زبردست دھماکے کی آواز سنی۔ اور یہ دھماکہ امجد کے پستول سے بلند ہوا تھا۔ اس نے جیگا پر گولی چلا دی تھی۔ مگر جیسا کہ ہم پہلے ہی سے جانتے تھے، جیگا کے خوفناک روشن جسم کو گولی نے کچھ بھی نقصان نہ پہنچایا۔ امجد کے بار بار پوچھنے پر ہم نے اسے تمام باتوں سے آگاہ کیا۔ یہ یاتیں سن کر وہ کہنے لگا۔
"بڑی عجیب کہانی ہے۔ بالکل الف لیلہ جیسی باتیں سنا رہے ہیں آپ!"
اس کے ساتھ ہی اس نے کہا، چونکہ وہ خود بھی خطروں میں کودنے کا شوقین ہے اس لئے اب وہ واپس بمبئی جانے کے لئے نہیں کہے گا۔ خواہ کوئی جہاز ہی نظر کیوں نہ آئے ، وہ اس کے کپتان سے مدد کی درخواست نہ کرے گا، کشتی میں سفر کرنے والے لوگوں سے اسے عجیب سی انسیت ہوگئی ہے۔ (یہ الفاظ اس نے نجمہ کو کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے کہا) اس لئے اب وہ اس کشتی ہی میں رہے گا اور جان کے ساتھ کالی دنیا تک جائے گا۔

میں اس کی باتیں سن کر مسکرایا۔ نجمہ میری بیٹی تھی اور میں جانتا تھا کہ وہ کتنی شریف، کتنی خوبصورت اور کتنی بہادر تھی۔ میں دل ہی دل میں یہ سوچ کر خوش تھا کہ اب نجمہ کی حفاظت مجھ اکیلے ہی کو نہیں کرنی پڑے گی بلکہ میرے اس کام میں امجد بھی برابر کا شریک ہو گیا ہے۔ نجمہ کی عمر اب ایسی تھی کہ جب کہ لڑکیوں کی شادی ہو جایا کرتی ہے۔ اور باپ کی حیثیت سے میں سوچ کر خوش تھا کہ مجھے داماد تلاش کرنے کی اب کوئی خاص ضرورت پیش نہ آئے گی۔
میرا خیال ہے کہ میں بلا وجہ اپنی کہانی کو طویل کرنے لگا ہوں۔ مجھے دراصل اپنے سفر کے بیان کو جاری رکھنا چاہئے تھا۔ خیر کوئی بات نہیں ، میں اب اصل مطلب کی طرف آتا ہوں۔۔۔
جیگا کے غائب ہوجانے کے بعد ہمارے دل ڈوب سے گئے۔ جان کا خیال تھا کہ اب ہمیں کسی نہ کسی طرح کوئی دوسرا جزیرہ تلاش کرنا چاہئے۔ جہاں خوراک بھی ہو، پانی بھی اور رہنے کی اچھی جگہ بھی ، اور جہاں آرام سے بیٹھ کر ہم اپنا اگلا پروگرام سوچ سکیں۔ بلونت اور سوامی کی رائے تھی کہ جتنی جلد ہوسکے ہمیں کوئی جہاز تلاش کرنا چاہئے جو ہم سب کو بمبئی ، مدراس، یا کلکتہ پہنچا سکے۔ مگر جان اور امجد کا خیال سب سے الگ تھا۔ اور یہ خیال وہی تھا جو میں پہلے لکھ آیا ہوں یعنی اگلا پروگرام سوچنا۔
جان چونکہ لیڈڑ تھا۔ اس لئے ہمیں مجبوراً اسی کی باتیں ماننی پڑیں اور ہمارا سفر جاری رہا۔ ہم میں سے باری باری دو آدمی ایک ایک گھنٹہ چپو چلاتے۔ جب وہ تھک جاتے تو ان کی جگہ تازہ دم آدمی آکر یہ کام شروع کر دیتے۔ ہماری کشتی اسی طرح ایک ان جانی سمت آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔ مگر اب سوچتا ہوں تو دل کانپ جاتا ہے۔ کاش یہ کشتی کسی اور طرف چل دیتی۔ کاش آگے پیش آنے والے وہ ہولناک واقعات ظہور میں نہ آتے جن کی یاد اب بھی میرے جسم کے رونگٹے کھڑے کردیتی ہے۔ مگر ایسا تو ہونا تھا۔ نہ ہوتا تو پھر یہ کہانی لکھنے کی نوبت ہی کیوں آتی؟


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:7

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں