ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 05 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-07

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 05


kali-dunya-siraj-anwar-ep05

پچھلی قسط کا خلاصہ :
جہاز کی تباہی کے بعد فیروز اور اس کی ٹیم جب سنسان جزیرے پر پہنچی وہاں کچھ بندروں نے ناریل اور کیلوں کے ذریعے ان کی مدد کی۔ پھر وہیں جنگل کے راستے میں فیروز نے جان اور جیک کا کچھ سامان پڑا دیکھا۔ اچانک کسی گھنٹے کی بے حد اونچی آواز سے ان کے کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔ گھنٹے کی تلاش میں جب فیروز آگے بڑھا تو اسے گھنٹے کے قریب ہی جان اور جیک نظر آ گئے۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

شاید نجمہ کی ملائم اور میٹھی آواز نے جان کے کانوں میں رس ٹپکایا۔ اس نے آہستہ سے گردن موڑ کر پہلے نجمہ کو دیکھا اور پھر باری باری ہم سب کو۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں محبت کی چمک پیدا ہو گئی اور پھر اس نے لپک کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، بلونت الگ کھڑا ہوا خاموشی سے ہم سب کو دیکھ رہا تھا اور اختر کے کندھے پر بیٹھا ہوا بندر گھنٹے کے نہ بجنے سے اب مطمئن دکھائی دیتا تھا۔
"تم نے آخر مجھے ڈھونڈ ہی لیا فیروز۔۔۔" جان نے بڑی کمزور آواز میں آہستہ سے کہا۔
"آپ کا پرچہ ملتے ہی میں آپ کی تلاش میں نکل گیا تھا۔ یہ میری بد قسمتی ہے کہ اتنے دنوں کے بعد آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں۔"
"مگر اس سے کیا۔۔۔ میں اب بچ نہیں سکتا۔" جان نے کہا :
"جاؤ جیک کو سنبھالو، وہ بھی سکتے کے عالم میں کھڑا ہوا تمہیں دیکھ رہا ہے۔"
جان کے یہ کہتے ہی مجھے جیک کا خیال آیا۔ میں نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے قریب لا کر کہا۔
"جیک۔۔۔ کیا بات ہے، ہوش میں آؤ، دیکھو ہم تمہاری مدد کے لئے آ گئے۔"

جیک کے ساتھ بھی وہی واقعہ ہوا۔ یعنی مجھے پہچانتے ہی اس کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے۔ وہ میرے سینے سے لگ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ میں نے اس کے بعد سب کا تعارف کرایا۔۔۔ اور پھر ان دونوں کے جسموں سے رستا ہوا خون ہم نے پونچھا۔ ابھی ہم یہ کام کر ہی رہے تھے کہ یکایک جیک خوف کے مارے چلا اٹھا۔
"نہیں نہیں۔۔۔ ہم تمہیں اس خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔۔۔ چلے جاؤ، یہاں سے چلے جاؤ فیروز۔۔۔"
اتنا کہتے ہی وہ دور پڑا ہوا گرز اٹھانے کے لئے بڑھا۔ مگر میں نے اسے روک لیا۔
"مت روکو فیروز۔۔۔" جان نے بڑی اداسی سے کہا:
"اسے گرز اٹھا کر گھنٹہ بجانے دو۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری جگہ تم کھڑے زندگی بھر تک یہ گھنٹہ بجاتے رہو۔ گھنٹے کی یہ منحوس اور دل دہلا دینے والی آواز جکاریوں کی خوراک ہے۔ جکاری اسی آواز کے ساتھ جیتے ہیں اور اسی آواز کو سن سن کر اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ جاؤ میرے بچے! گھنٹہ بجے ہوئے دیر ہو گئی۔۔۔ تم جاؤ، ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔۔۔"
"نہیں میں ایسا ہر گز نہ ہونے دوں گا۔" میں نے چلا کر کہا :
"میں آپ کو اس مصیبت سے نجات دلانے آیا ہوں۔ پہلے مجھے آپ کے زندہ ملنے کی امید نہیں تھی۔ مگر اب جب کہ آپ دونوں مجھے مل گئے ہیں میں آپ کو پا کر کھونا نہیں چاہتا۔ میرے پاس حفاظت کا کافی سامان موجود ہے۔ آپ دونوں میرے ساتھ چلئے، آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔"
"فیروز جاؤ، بھاگ جاؤ۔ اپنا نہیں تو بچوں کا خیال کرو۔۔۔ جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ۔۔۔۔۔۔" فقرہ ادھورا چھوڑ کر یکایک اس نے زور کی ایک چیخ ماری اور جھونپڑیوں کی طرف اشارہ کر کے چلایا۔
"وہ۔۔۔ وہ، جکاری۔۔۔ دیکھو وہ آ گئے، اب ہم سب کی خیر نہیں۔"

میں نے جلدی سے پلٹ کر جھونپڑیوں کی طرف دیکھا، اور پھر جو کچھ میں نے دیکھا، اس کے باعث خوف کا ایک حملہ میرے دماغ پر ہوا۔ بلونت اور دونوں بچے جلدی سے سہم کر میرے پیچھے آ گئے۔ میں نے فوراً اپنا پستول نکال کر ہاتھ میں لے لیا اور بلونت سے کہا کہ وہ بھی سامنے آئے اور باقاعدہ مقابلہ کرے۔
مگر جان نے بڑی کمزور آواز میں کہا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ پستول ان جکاریوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ آہستہ آہستہ وہ گھنٹے کے قریب آ رہے تھے۔ ان کی شکلیں ایسی تھیں جنہیں دیکھتے ہی ڈر کے مارے میرا ہاتھ لرزنے لگا۔ ان کا قد کوئی تین فٹ کا تھا۔ جسم پر گوریلے جیسے لمبے لمبے بال تھے۔ پیٹ نیچے سے آ کر پھول گیا تھا۔ جسم کے ساتھ ٹانگیں مشکل سے ایک فٹ لمبی تھیں، البتہ پیر ڈیڑھ فٹ لمبے تھے اوران پیروں میں دو دو انگلیاں تھیں۔ اسی لحاظ سے ہاتھ بھی ایسی ہی تھے اور ان میں بھی دو دو انگلیاں تھیں۔ گردن بالکل نہیں تھی اور ان کے کندھوں کے ساتھ ہی گوریلے کے سر سے بھی بڑا ایک سر جڑا ہوا تھا۔
میں اس سر کی کیا تعریف بیان کروں! میرا قلم لرز رہا ہے اور میری پیشانی پر پسینہ نمودار ہونے لگا ہے۔ ایسا خوفناک اور ہیبت انگیز چہرہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس چہرے میں صرف ایک آنکھ تھی اور وہ بھی پیشانی پر۔ ناک کی جگہ ایک سوراخ تھا اور مونہہ اتنا چوڑا تھا کہ ہاتھی جیسے کانوں کے ساتھ جا کر مل گیا تھا۔ مونہہ سے باہر دو نوکیلے دانت لٹک رہے تھے۔ ٹانگوں کے ساتھ ہی ان کی ایک موٹی سی دم بھی تھی اور یہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی اس دم کو زمین پر ٹکا کر آسٹریلیا کے کنگرو کی طرح بیٹھنے کا کام لیتے تھے۔

یہ تھے جکاری۔۔۔ خدا جانے یہ کیا بلا تھی؟ اس جزیرے میں رہنے والی قوم تھی یا پھر جہنم سے زمین پر بھیجی گئی کوئی مخلوق۔۔۔ بہرحال جو کچھ بھی یہ تھے، بہت خوف ناک تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ہنٹر تھے اور تعداد میں یہ کل دس تھے۔
"ہوشیار ہو جاؤ فیروز۔۔۔ آتے ہی یہ جانور ہنٹروں کی بارش کر دیں گے" جان نے چلا کر کہا۔
"ان پر گولی مت چلانا۔۔۔ یہ گولی سے نہیں مریں گے۔۔۔ بس خاموش کھڑے رہو۔۔۔" جیک نے جلدی سے کہا۔
جان اور جیک کا کہنا مانتے ہوئے میں نے پستول جیب میں رکھ لیا اور اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے۔ نجمہ اور اختر کو بھی میں نے ڈھارس دی کہ وہ ڈریں نہیں۔ مگر جکاریوں کی صورتیں اتنی خوفناک تھیں کہ نجمہ کا گلابی رنگ بھی اس وقت سفید پڑا ہوا تھا۔ اختر اپنے بندر کو سنبھالنے میں مصروف تھا کیوں کہ جکاریوں کو دیکھتے ہی اس نے چلانا شروع کر دیا تھا۔
جکاری قریب آ کر اپنی موٹی دموں کی کرسی بنا کر بیٹھ گئے اور اپنی گول گول سرخ آنکھوں سے ہمیں اس طرح دیکھنے لگے جیسے کوئی جج اپنی کرسی پر بیٹھ کر ملزموں کو دیکھتا ہے۔ باری باری وہ ہر ایک کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ ایک بات میں نے عجیب نوٹ کی۔ ہر شخص کو دیکھنے بعد وہ کچھ دیر تک آنکھیں بند رکھتے تھے۔ بعد میں مجھے جان نے بتایا تھا کہ اس طرح وہ اس آدمی کی شکل اپنے مالک کے ذہن تک پہنچاتے ہیں۔ جب وہ آنکھیں بند کرتے ہیں تو ان کے مالکوں کے ذہنوں میں یہاں کے لوگوں کی شکلیں خود بخود پہنچ جاتی ہیں۔ یہ ایک قسم کا ٹیلی ویژن سسٹم ہے۔
میں یہ جان کر بہت حیران ہوا۔ ہمیں دیکھنے کے بعد جکاریوں نے آہستہ سے اپنی زبان میں ایک دوسرے سے کچھ کہا۔ اندھیرا زیادہ ہو چکا تھا اس لئے میں یہ تو نہیں دیکھ سکا کہ وہ ایک دوسرے کو کیا اشارہ کر رہے ہیں۔ ہاں بس میں نے انہیں اٹھتے ہوئے دیکھا اور پھر جیسے کوئی طوفان آ گیا۔ شڑا شڑ کی آوازیں آئیں اور مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میرے جسم پر دہکتے ہوئے انگارے رکھ دئے ہوں۔ یہ کوڑوں کی مار کا اثر تھا جو ان کم بخت جکاریوں نے اچانک ہم سب پر برسائے تھے۔ ہائے ہو کی آوازوں سے وہ پورا میدان گونج اٹھا۔ کافی دیر تک ہم سب پر ہنٹر برستے رہے۔ ہم چلاتے رہے مگر ان پر ذرا بھی اثر نہ ہوا۔
اچانک مجھے خیال آیا کہ آخر کب تک اسی طرح پٹتا رہوں گا۔ کیوں نہ آگے بڑھ کر میں ایک دو کو زمین پر لٹا دوں؟ یہ سوچتے ہی میں نے ایک جکاری کو پکڑنے کی کوشش کی۔۔۔ ابھی میری انگلیاں اس کے بالوں سے مس ہوئی ہی تھیں کہ اچانک جیسے 440 وولٹ کا ایک جھٹکا مجھے محسوس ہوا اور میں تڑپ کر نیچے گر گیا۔ اور شاید گرتے ہی بے ہوش ہو گیا۔

جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں ایک جھونپڑی میں لیٹا ہوا ہوں۔ میرے چاروں طرف میرے ساتھی بیٹھے ہوئے کراہ رہے ہیں، چھت میں ایک عجیب قسم کا لیمپ جل رہا ہے، جس کی روشنی شاید ہماری دنیا کی کسی بھی روشنی جیسی ہرگز نہ تھی۔ جان، جیک اور باقی سب لوگ اسی جگہ موجود ہیں لیکن یہ گھنٹہ اب کون بجا رہا ہے۔ مجھے اپنے اس سوال کا جواب فوراً ہی نہ ملا۔ کیوں کہ میرے کروٹ لیتے ہی نجمہ لپک کر میرے قریب آئی اور آہستہ سے بولی۔
"ابا جی۔۔۔ ابا جی، شکر ہے آپ ہوش میں آ گئے۔"
"ہوشیار ہو جاؤ فیروز۔۔۔ ہم ابھی تک دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔" جان نے کہا :
"دیکھو اب صبح بھی ہو گئی۔"
"میں کھڑکی کھول دیتی ہوں پاپا۔ شاید باہر کا کچھ حال معلوم ہو۔"
نجمہ یہ کہتے ہوئے کھڑکی کے قریب پہنچ گئی۔ کھڑکی کھولنے کے بعد اس نے باہر کا منظر دیکھ کر مجھ سے کہا۔
"ارے وہ گھنٹہ تو اب خود دو جکاری بجا رہے ہیں۔ مگر تعجب ہے کہ انہوں نے ہم ہی میں سے دو آدمی کیوں نہیں چنے؟"
"دیکھوں۔۔۔" اتنا کہہ کر جان جلدی سے کھڑکی کے قریب پہنچا اور باہر دیکھنے کے بعد مجھ سے کہنے لگا:
"یہ تو ٹھیک ہے، مگر فیروز مجھے اب ایک خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ سامنے میدان کے بیچوں بیچ ایک چبوترہ بنا ہوا ہے۔ تم نے دیکھا؟"
"ہاں ہاں۔۔۔" میں نے جلدی سے کہا:
"وہ چبوترہ نہ جانے اتنا کالا کیوں ہو رہا ہے۔ میں نے یہاں آتے ہی یہ بات نوٹ کی تھی۔"
"کالا تو اسے ہونا ہی ہے۔" جان نے بڑی مری ہوئی آواز میں جواب دیا۔
"دو جکاری اس وقت اس چبوترے کو صاف کر رہے ہیں۔ اسے دیکھ کر میرے بدترین خدشہ کی تصدیق ہو جاتی ہے۔"
"کیا مطلب؟" میں نے جلدی سے پوچھا۔
"مطلب یہی کہ گھنٹہ انہوں نے ہم سے اس لئے نہیں بجوایا کہ آج دوپہر کو وہ اس چبوترے پر ہماری قربانی کرنا چاہتے ہیں۔"
"کیا۔۔۔؟" ایک ساتھ سب چیخے۔
"ہاں یہی بات درست ہے۔" جان نے ٹھنڈی سانس بھر کر جواب دیا۔
"یہاں سے بھاگنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ایک ذریعہ تھا مگر افسوس وہ اب میرے پاس نہیں ہے۔ کاش کسی طرح میرے پاس سوبیا کی تھوڑی سی مقدار ہوتی!"
"سوبیا۔۔۔ ؟!" میں نے حیرت سے کہا۔
(سوبیا دھات کی پوری کہانی معلوم کرنے کے لئے سراج انور کا گذشتہ ناول 'خوف ناک جزیرہ' پڑھئے)
"وہی حیرت انگیز طاقت نا جس کی تلاش میں زہرہ کے لوگ آئے تھے اور جو ہمیں ہمارے پچھلے سفر میں ملی تھی۔۔۔ مگر اس دھات سے آپ کیا کام لیتے؟"
"اس دھات سے۔۔۔" مری ہوئی آواز میں جان نے کہا :
"اس دھات سے میں کیا کام لیتا یہ اب میں تمہیں کیا بتاؤں۔ بس یوں سمجھ لو کہ وہی دھات اس وقت ہم سب کی نجات کا ذریعہ بن سکتی تھی۔"

اچانک مجھے خیال آیا کہ جان نے اپنے سفر کی داستان مجھے ابھی تک نہیں سنائی تھی۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کیوں اور کس طرح اس جزیرے میں آ پھنسا تھا۔ میرے پاس وہ کیوں آنا چاہتا تھا اور آخر اس پر کون سی افتاد پڑی تھی جو اس نے کسی کے ڈر سے یا مجبوراً وہ پرچہ بوتل میں بند کر کے سمندر میں بہا دیا تھا جس کو پا کر میں اس لمبے سفر پر نکلا تھا۔ میں نے جب یہ بات جان کو بتائی تو بڑی اداسی سے ہنسنے کے بعد اس نے کہا۔
"ایسے خطرناک وقت میں بھی تمہاری یہ جستجو کی عادت نہیں گئی۔ ویسے ایک طرح یہ ٹھیک بھی ہے۔ اپنے مرنے کے خیال سے سہمتے رہنے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ ہم باتوں میں وقت گزاریں۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح رہائی کا کوئی طریقہ ہمیں سوجھ جائے۔ اچھا میں اپنی داستان سناتا ہوں۔ اتنے تم سب مل کر اپنے زخموں پر مرہم لگاؤ اور مجھے کچھ کپڑے پہننے کے لئے دو۔ اس جانگئے میں تو مجھے شرم آتی ہے، جیک کو بھی کپڑے درکار ہوں گے۔ بلونت کے کپڑے شاید اس کے فٹ آ جائیں گے۔ نجمہ اور اختر کو تم اپنے ساتھ ناحق لائے۔ اختر کی برساتی تو کافی پھٹ گئی ہے۔ البتہ نجمہ کی ٹھیک ہے۔ شکر ہے کہ ہنٹر ان دونوں کے زیادہ نہیں پڑے۔"

میں نے اس کے بعد مختصراً اختر اور نجمہ کو ساتھ لانے کا واقعہ اور پھر طوفان کے آنے اور سوامی کے ڈوب جانے کی پوری کہانی اسے سنا دی۔ اس کے ساتھ ہی اختر، نجمہ اور زرینہ کو نظر آنے والے اس خوف ناک سایہ کا بھی ذکر کر دیا جس کے بارے میں آپ پچھلے صفحات میں پڑھ آئے ہیں۔ سایہ کا ذکر سنتے ہی جان اور جیک چونک اٹھے۔
"وہ سایہ تو مجھے اور جیک کو بھی نظر آ چکا ہے۔" جان نے جلدی سے کہا۔
"اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم سب کو دیدہ و دانستہ ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔ خیر اب تو بہتر یہ ہے کہ تم میں سے ایک کھڑکی کے پاس کھڑا رہے اور باقی سب میری کہانی سنیں کہ آخر کیوں اتنے لمبے عرصے کے بعد میں دوبارہ اس بحری سفر پر آمادہ ہوا۔۔۔؟"

کتنا عجیب وقت تھا!
یہ جانتے ہوئے بھی کہ موت کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے۔ ہم سب جان کی اس کہانی کو بڑے اشتیاق کے ساتھ سننے کے آرزومند تھے، جس کی بدولت آج ہم اس مصیبت میں گرفتار ہوئے تھے! جیک خاموشی کے ساتھ نجمہ کے پاس ہی اس جھونپڑی کی کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ میں، بلونت، اختر اور اختر کا بندر جان کی کہانی سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو گئے۔

جان کی عجیب کہانی
جان نے گلا صاف کر کے کہنا شروع کیا:
یہ تو تمہیں معلوم ہی ہے فیروز کہ تم سے جدا ہونے کے بعد میں نے امریکہ میں اندھے بچوں کے اسکول کو چلانا شروع کر دیا تھا۔ پچھلے سفر میں حاصل کی ہوئی خوف ناک مکھی کی آنکھوں سے میں نے بہت سے اندھے بچوں کی آنکھوں کو روشنی دی۔ میں بڑے آرام سے اپنی زندگی گزار رہا تھا کہ اچانک ایک رات کو ٹھیک بارہ بجے میرے مکان کی چھت کو کسی نے کھٹکھٹایا۔
شاید تم چھت کو کھٹکھٹانے والی بات سن کر حیرت میں پڑ گئے ہو، مگر تمہاری حیرت ابھی دور ہو جائے گی۔ تم غور سے سنتے رہو۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ یہ تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ میرا مکان نیویارک شہر سے کافی دور سنسان سے علاقے میں ہے۔ میرے چاروں طرف کھیت ہی کھیت ہیں اور رات کو تو ہر طرف ہو کا عالم طاری رہتا ہے۔ مکان کی چھت کو ہلتے دیکھ کر مجھے بڑا اچنبھا ہوا۔ میں سمجھا کہ شاید زلزلہ آ گیا ہے۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور غور سے پھر چھت کو دیکھنے لگا۔ چھت پھر ہلی اور ساتھ ہی ایسی آواز آئی جیسے کوئی دروازے کو کھٹکھٹاتا ہے۔ میں ابھی بستر سے اتر کر نیچے بھی نہیں آنے پایا تھا کہ میرے تمام نوکر بھاگتے ہوئے میرے کمرے میں آ پہنچے۔ ان کے چہروں پر زردی چھائی ہوئی تھی۔ سانس پھولے ہوئے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے انہوں نے کوئی بہت ہی ڈراؤنی چیز دیکھی ہو۔
میں نے ان سے پوچھا بھی کہ آخر کیا بات ہے وہ سب اتنے خوف زدہ کیوں ہیں؟ مگر ان کے دل اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ وہ جواب ہی نہ دے سکے۔ مجبوراً میں نے سوچا کہ لاؤ میں خود ہی باہر جا کر دیکھتا ہوں، ابھی میں نے چند قدم ہی بڑھائے ہوں گے کہ یکایک ایک عجیب لرزتی ہوئی آواز، بالکل ویسی جیسی ہم نے ڈوبتے ابھرتے جزیرے میں سیارہ زہرہ کے لوگوں کی سنی تھی، سنائی دی۔
کوئی لرزتی اور کپکپاتی آواز میں کہہ رہا تھا:
"مسٹر جان! آپ براہ کرم ذرا باہر آئیے، میں آپ سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔۔۔"
یہ آواز اتنی تیز اور اتنی عجیب تھی کہ میں چونک گیا۔ مجھے خیال تھا کہ شاید یہ آواز میں نے پہلے بھی کہیں سنی ہے۔
مگر کہاں؟ یہ مجھے اس وقت یاد نہیں آیا۔ انگریزی جس انداز سے بولی گئی تھی اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ بولنے والا انگریزی نہیں جانتا، یہی وجہ ہے کہ وہ عجیب سے لہجے میں بول رہا ہے۔
خیر یہ آواز سن کر میں نے سرہانے سے اپنا پستول اٹھا لیا اور نوکروں کے ساتھ اپنے گھر سے باہر نکل آیا۔ لیکن باہر دروازے پر مجھے کوئی آدمی نظر نہیں آیا۔ میں بڑا حیران ہوا کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے۔ جب میں نے غور سے میدان میں دیکھا تو مجھے دو کالے کالے سے ستون کھڑے ہوئے نظر آئے۔ میں تعجب سے ان ستونوں کو دیکھتا رہا۔ پھر اچانک جب میری آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو یہ دیکھ کر میرے تعجب کی کوئی حد نہ رہی کہ جنہیں میں ستون سمجھ رہا تھا وہ دراصل کسی کی ٹانگیں ہیں۔ کسی بہت ہی لمبے دیو نما انسان کی ٹانگیں!
میں نے آہستہ آہستہ ان ٹانگوں کے سہارے نظر اوپر اٹھائی تو حیرت کی ایک چیخ میرے مونہہ سے نکل گئی۔ کیوں کہ میرے سامنے اس وقت وہی دیوزاد کھڑا ہوا تھا۔
(دیوزاد کے پورے حالات جاننے کے لئے سراج انور کا ناول "خوف ناک جزیرہ" ملاحظہ کیجئے)
جسے میں اپنے پہلے سفر میں دیکھ چکا تھا اور جس کے بچوں نے ہم سب کو کھلونا سمجھ کر کھیلا تھا۔ اس کی اونچائی اتنی تھی کہ اگر میرے سر پر پگڑی ہوتی تو اسے دیکھتے ہوئے ضرور گر جاتی۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے پا کر وہ ایک خاص انداز سے جھکا اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے گویا سلام کیا۔ میں نے بھی اسے اس کا جواب دیا۔ اس کے بعد وہ بولا:
"آپ اپنے نوکروں کو بھیج دیں۔ میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ میں آپ سے چند منٹ کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ میری اور آپ کی ملاقات کا حال آپ کے نوکروں کے ذریعے باہر نہ پہنچے۔"
میں نے یہ سن کر نوکروں کو اشارہ کیا کہ وہ چلے جائیں۔ نوکر جب لرزتے کانپتے واپس چلے گئے تو وہ آہستہ سے زمین پر بیٹھ گیا۔ بیٹھنے کے بعد بھی وہ مجھ سے اتنا اونچا تھا کہ میں بدستور اپنی گردن اٹھائے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس وقت میں اس کے سامنے یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی ہاتھی کے سامنے چیونٹی!
آخر رات کا وقت، ہر طرف سناٹا اور چاروں طرف چھایا ہوا گہرا اندھیرا۔۔۔ اس اندھیرے میں ہم دونوں کچھ دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔ میرا دل دھڑک رہا تھا کہ نہ جانے سیارہ زہرا کا یہ باشندہ مجھ سے اب کیا کہنا چاہتا ہے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی بھاری اور لرزتی آواز آئی۔
"میں بہت آہستہ بولوں گا مگر پھر بھی آپ کو میری آواز تیز معلوم ہو گی۔ میں یہ جانتا ہوں۔ مگر کیا کروں میں مجبور ہوں۔ اس سے آہستہ میں بول نہیں سکتا۔ خیر اب میں اصل مطلب کی طرف آتا ہوں۔۔۔ کیا آپ سننے کے لئے تیار ہیں۔"
"جی ہاں بالکل۔۔۔" میں نے جواب دیا۔
"آپ مجھے اپنا دوست سمجھیں، بلکہ آج سے ہماری اور آپ کی دوستی پکی ہے۔۔۔ آپ کا نام مجھے معلوم ہے۔ آپ کو مسٹر جان ولیم کہتے ہیں اور میرا نام شاگو ہے۔۔۔ امید ہے کہ آپ کو یاد رہے گا۔"
"میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں، مسٹر شاگو۔۔۔" میں نے اخلاقاً کہا:
"ہمارے ہاں ایسے موقع پر مصافحہ کی رسم ہے مگر میں جانتا ہوں کہ میں آپ سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔ میرا ہاتھ چھوٹا ہے اور آپ کا بہت بڑا۔۔۔ میرا ہاتھ تو پس کر رہ جائے گا۔۔۔"
"شکریہ!" اس نے ہنس کر جواب دیا:
"اب آپ میری باتیں سننے کے لئے تیار ہو جائیے۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے مجھے ابھی واپس جانا ہے۔"
"ہاں سنائیے، میں سننے کے لئے بے قرار ہوں۔۔۔" میں نے اور زور سے چلا کر کہا۔

"سیارہ زہرہ میں میرا کام سائنس کے مختلف شعبوں کی نگرانی کرنا ہے۔ ایک طرح سے آپ مجھے سائنس کے ڈپارٹمنٹ کا ہیڈ سمجھ لیجئے۔ سوبیا دھات دراصل میری ہی تحقیق ہے۔ اتفاق سے ایک بار ہمارا راکٹ زمین پر سے گزرتے وقت خراب ہو گیا تھا۔ ہم نے اسے نہایت حفاظت کے ساتھ اس جزیرے میں اتارا جہاں آپ سب پہنچ گئے تھے، اور جہاں میرے بچوں نے آپ کو بہت پریشان کیا تھا۔ وہیں میں نے یہ دھات دریافت کی تھی۔ ہم زہرہ والوں کے لئے یہ دھات بہت قیمتی ہے۔ آپ یوں سمجھئے کہ یہ ہماری زندگی ہے۔ ہمارے کارخانے موٹریں، روبوٹ، راکٹ وغیرہ سب اسی دھات کی بدولت چلتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ جیسی آپ کی ایٹمی طاقت ویسی ہی ہمارے لئے یہ سوبیا ہے۔"
"میں سمجھ گیا۔۔۔ آگے کہئے۔"
"ہم اسے پانی میں ڈبو کر رکھتے ہیں اور اس طرح اس میں اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔ خیر تو اب یہ ہوا کہ اس دھات کا نمونہ زہرہ لے گیا اور وہاں پہنچنے پر اس پر تجربے کئے گئے۔ ہم لوگوں نے اس کا مرکز ڈوبنے اور ابھرنے والا جزیرہ بنا لیا۔ سوبیا کا سب سے بڑا ذخیرہ وہیں تھا۔ جس طرح آپ کی دنیا میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ ملتے ہیں، ہمارے ہاں بھی برے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے۔
ہمارے ملک کا ایک سائنس داں جس کا نام "جی گا" ہے، اسے اس دھات کا پتہ چل گیا۔ اس نے اسے اچھے مقصد کے لئے استعمال کرنے کی بجائے برے مقصد کے لئے استعمال کرنے کی سوچی۔ ایک حد تک وہ کامیاب بھی ہو گیا۔ جب اس کی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو ہم سب نے مل کر اسے زہرہ سے نکال دیا اور ایک خود بخود چلنے والے راکٹ میں بٹھا کر اسے سزا کے طور پر خلا میں چھوڑ دیا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اتفاق سے پہنچا بھی وہیں جہاں سوبیا کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یعنی آپ کی دنیا میں۔۔۔ یہاں آ کر اس نے ڈوبنے اور ابھرنے والے جزیرے پر قبضہ کر لیا اور یہیں اس نے اپنی زمین دوز دنیا بنا لی ہے۔
اس زمین دوز دنیا کو آپ کالی دنیا بھی کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ وہ آپ کی زمین کی سطح سے کئی سو فٹ نیچے ہے۔ میں یہ تو نہیں جان سکتا کہ وہاں رہ کر وہ کیا کر رہا ہے؟ مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس کے ارادے خطرناک ہیں۔۔۔ اس نے یہاں رہ کر کچھ راکٹ بنائے اور پھر چوری چھپے زہرہ میں واپس پہنچا۔ اس نے وہاں سے جکاری قوم کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ ایک آنکھ والے یہ جکاری بہت خطرناک ہیں۔ دراصل وہ جانور ہیں، مگر انسانوں کی سی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ان میں ایک صفت یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی آنکھوں سے آنکھیں ملانے کے بعد وہ اس آدمی کی شکل ہزاروں میل دور اپنے مالک یعنی 'جی گا' کے دماغ کو بھیج سکتے ہیں۔
جی گا میں بھی کئی خوبیاں ہیں۔ وہ سائنس کے بل بوتے پر اپنی شکل بھی تبدیل کر سکتا ہے۔ چاہے تو ہوا میں مل سکتا ہے اور چاہے تو پانی بن سکتا ہے۔ جکاریوں کے ساتھ ہی جی گا نے زہرہ کے کچھ چھوٹے لوگ بھی اکٹھے کر کے یہاں بھیج دئے تھے۔ اس قوم کو 'زوک' کہا جاتا ہے۔ یہ سب جی گا کے غلام ہیں۔ جو وہ چاہتا ہے وہ کرتے ہیں۔۔۔ خیر جو بات اب میں کہنا چاہتا ہوں اسے غور سے سنئیے۔
سیارہ زہرہ کے ڈکٹیٹر کے پاس جب یہ معاملہ پہنچا تو میں بھی وہاں موجود تھا۔ بڑی لمبی چوڑی بحثیں ہوئیں اور آخر طے یہ پایا کہ سوبیا دھات کے ذخیرے کو یا تو ختم کر دیا جائے یا پھر زہرہ میں لے آیا جائے۔ مگر زہرہ میں لے جانے کا سوال یوں پیدا نہیں ہوتا کہ وہاں پانی نہیں ہے۔ ہم سب زہرہ کی ہوا کھا کر گزارا کرتے ہیں۔ پانی کے بغیر سوبیا ہمارے کسی کام کی نہیں ہے۔ میں نے اس بات کی مخالفت کی اور پھر یہ ذمہ لیا کہ آپ کی مدد سے جی گا کو یا سوبیا کو ختم کر دوں گا۔۔۔ آپ ہی ہماری مدد کر سکتے ہیں کیوں کہ دنیا میں آپ ہی ایک ایسے آدمی ہیں جس پر میں بھروسہ کر سکتا ہوں۔۔۔"

"فرمائیے، میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟" میں نے مسکرا کر پوچھا۔
"روپے پیسے کی آپ فکر مت کیجئے۔ کئی سو ٹن سونا میں آپ کو دے سکتا ہوں۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ آپ ایک لمبا سفر کریں، اپنے مددگار اپنے ساتھ لے جائیں اور جی گا کو یا سوبیا کو ختم کر دیں۔ آپ کی مدد کے لئے میں سوبیا کی تھوڑی سی مقدار اس ڈبے میں لے کر آیا ہوں۔۔۔"
یہ کہتے ہوئے اس نے ایک چھوٹا سا ڈبہ اپنے کان میں سے نکال کر مجھے دیا اور پھر بولا۔
"سوبیا آپ کے لئے خطرناک نہیں ہے، البتہ جکاریوں اور زوکوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔ سوبیا کی نہ دکھائی دینے والی کرنیں ان کے لئے موت کا پیغام ہیں۔ سوبیا اگر تھوڑی سی دور رکھ دی جائے تو جکاری اس کے قریب نہیں آ سکتے اسی طرح زوک بھی۔ سوبیا اگر بہت قریب رکھ دی جائے تو جکاری آپ سے آپ مر جائیں گے۔ رہے زہرہ کے دوسرے چھوٹے لوگ، وہ مریں گے تو نہیں البتہ کمزور ہو جائیں گے۔ ممکن ہے کہ آپ پوچھیں کہ آخر میں خود ہی کیوں یہ کام نہیں کر سکتا جب کہ میں آپ سے کافی بڑا اور طاقتور ہوں۔۔۔"
"جی ہاں میں یہی سوال آپ سے کرنے والا تھا۔۔۔" میں نے کہا۔
"اس کا جواب یہ ہے کہ جی گا جس جگہ موجود ہے وہاں تک پہنچنے کے لئے مجھے اس علاقے کو ہی نہیں بلکہ آپ کی پوری دنیا کو ختم کرنا پڑے گا۔ جسے آپ کبھی منظور نہیں کریں گے۔۔۔ یا کر لیں گے؟"
"ہر گز نہیں ہر گز نہیں۔۔۔" میں اچانک کانپ گیا۔

"بس تو اب آپ معاملے کو پوری طرح سمجھ گئے ہیں۔ میں آپ سے التجا کروں گا کہ آپ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیں اور پیشتر اس کے کہ جی گا کوئی خطرناک قدم اٹھائے آپ خود اسے تباہ کر دیں۔۔۔ معاوضہ کے طور پر آپ کے مکان کو سونے کا بنا کر ہیرے جواہرات سے بھر دیا جائے گا۔ کیوں کہ ان پتھروں کی ہمارے ہاں کوئی وقعت نہیں۔۔۔ اب فرمائیے آپ اس کام کا بیڑہ اٹھانے کو تیار ہیں؟"

بات بہت سنجیدہ اور خطرناک تھی۔ کچھ دیر تک میں خاموش رہا۔ میں نے دل میں سوچا کہ اگر میں اس کام کو نہ کروں گا تو شاگو خود کرے گا۔ اس طرح یقینا ہماری دنیا تباہ ہو جائے گی۔ اس لئے فیروز میں نے یہی سوچا کہ اس کا کہنا مان لوں۔ یہ کام میں نے کسی لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی حسین دنیا کو بچانے کے لئے کیا ہے۔ جیک سے مشورہ کرنے کے بعد آخر میں اس لمبے سفر پر نکلنے کے لئے تیار ہو گیا۔ تمہیں میں نے کئی خط ڈالے مگر مجھے ایک کا بھی جواب نہ ملا۔ تم نے جواب کیوں نہیں دیا تھا؟

"مجھے آپ کا کوئی خط نہیں ملا۔۔۔ سوائے بوتل والے خط کے۔۔۔" میں نے جواب دیا۔
"پھر یقیناً یہ جی گا یا اس کے آدمیوں کا کام ہے۔ یہ نا ممکن ہے کہ اتنے خطوں میں سے ایک بھی تمہیں نہ ملے۔ رہی تمہاری وہ بات کہ تمہیں، بچوں کو اور تمہاری بیوی کو وہ عجیب و غریب سایہ نظر آیا تھا تو مجھے یقین ہے کہ وہ بھی جی گا ہی کا ہوگا۔ کیوں کہ یہ تم نے سن ہی لیا ہے کہ جی گا شکل بدلنے میں بھی مہارت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ہمارے ارادوں کو بھانپ گیا ہے اور ہم سب کو اس جزیرے میں جمع کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ ہمیں اپنے راستے سے صاف کر دے۔۔۔ مگر افسوس میں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کاش سوبیا اس وقت میرے پاس ہوتی!"

"مگر پاپا آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ اس جزیرے پر کس طرح پہنچے۔۔۔؟" اختر نے فوراً پوچھا۔
"ہاں بھئی وہ تو میں بھول ہی گیا۔۔۔ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ سوبیا کو ساتھ لے کر میں ہوائی جہاز میں سفر نہیں کر سکتا تھا۔ ہوا میں سوبیا دھات کو پانی میں ڈبونے کا کوئی طریقہ نہیں تھا جب کہ پانی کے جہاز میں سفر کرنے سے یہ کام آسان ہو جاتا تھا۔ اسی لئے میں نے سمندری سفر کیا۔ تمام راستے سوبیا سمندر کے پانی میں ڈوبی رہی۔ جہاز چلتا رہا اور ہم لوگ آہستہ آہستہ افریقہ کے قریب پہنچ گئے۔ سمندر میں اس زمانے میں بہت زیادہ طوفان آتے تھے۔ ایسے ہی ایک طوفان سے ہمیں بھی دوچار ہونا پڑا۔ ایسا زبردست طوفان تھا کہ جہاز کی چولیں تک ہل گئیں۔ خدا خدا کر کے طوفان کم ہوا تو ہمیں بحری قزاقوں نے گھیر لیا۔ جہاز میں بارہ آدمی تھے۔ نو آدمیوں نے تو فوراً لڑتے لڑتے جان دے دی۔ قزاقوں نے ہمیں بری طرح لوٹا۔ ہمارا جہاز، سامان اور کپڑے تک انہوں نے لوٹ لئے۔ اس کے بعد انہوں نے ہم پر اتنا کرم کیا کہ ہمیں اس جزیرے کے کنارے اتار دیا۔
جیک نے سوبیا کا ڈبہ اپنے کپڑوں میں چھپا لیا تھا۔ بس ایک یہی چیز ہمارے پاس قیمتی رہ گئی تھی۔ بڑی مشکل سے ہم نے یہ ڈبہ ان کی نظروں سے چھپایا تھا۔ قزاقوں نے ہم پر ایک عنایت یہ بھی کی تھی کہ صرف دو دن کے کھانے پینے کا سامان ہمیں دے دیا تھا۔ یہ سامان ہم نے بعد میں ایک ہفتے تک چلایا۔ اس جزیرے میں دو دن کے بعد ہی ہمیں گرمی لگنے لگی۔ خدا جانے یہ کیا بات تھی؟ اب تک اس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ہم لوگوں نے جو کپڑے پہن رکھے تھے وہ اتار دیئے، چاقو، جوتے اور خالی پستول سب ایک جگہ رکھ دیا۔
اس کے بعد ہم نے جزیرے کا کونہ کونہ پانی کی تلاش میں چھان مارا۔ مگر نہ تو ہمیں پانی ملا اور نہ ہی یہ جگہ نظر آئی جہاں اس وقت ہم ہیں۔ سوبیا ہماری نظر میں بڑی قیمتی تھی اس لئے ہم نے اسے قریب ہی سمندر میں ایک جگہ رسی سے باندھ کر لٹکا دیا۔ کیوں کہ سوبیا کو پانی پہنچانا بہت ضروری تھا۔"

"ٹھیک ہے، یہی وجہ تھی کہ ہمیں آپ کے اور جیک کے کپڑے وہاں پڑے ہوئے ملے اور تبھی سے ہمیں یہ فکر کھانے لگا کہ آپ دونوں خود نہ جانے کس جگہ ہیں۔۔۔؟" میں نے جلدی سے کہا۔
"ہاں۔۔۔" جان نے پھر کہنا شروع کیا:
"تم نے ٹھیک سوچا۔۔۔ خیر جب کئی دن اسی طرح گزر گئے اور کوئی جہاز اس طرف سے نہیں گزرا جس کو ہم مدد کے لئے پکارتے، تو ہمارے دل ناامیدی سے بیٹھنے لگے۔ تبھی میں نے اپنی ڈائری کے ایک ورق پر دو خط لکھ کر اور پھر پانی کی خالی بوتل میں بند کر کے سمندر میں بہا دئے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن بوتل کنارے پر ضرور لگے گی۔ کیوں کہ سمندر کی لہریں ایسی چیزوں کو ہمیشہ ساحل پر پھینک جایا کرتی ہیں۔۔۔ جو میں سمجھتا تھا وہی ہوا، نتیجہ کے طور پر تم یہاں آ گئے۔۔۔ مگر تمہارا آنا نہ آنا اب برابر ہے، کیوں کہ اب ہم جکاریوں کے قیدی ہیں۔
ساحل پر پڑے پڑے جب ہمیں دو ہفتے ہو گئے تو اچانک ایک جکاری نے ہم پر حملہ کر دیا، ہم اسے دیکھتے ہی ڈر گئے۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ یہاں لے آیا اور ہمارے سپرد یہ گھنٹہ بجانے کا کام کر دیا۔ ہمیں تھوڑا سا واہیات کھانا اور عجیب سے مزے کا پانی دو وقت دے دیا جاتا تھا اور بس۔۔۔ ہم تھے اور یہ اونچا گھنٹہ۔۔۔ اب اس کے آگے میں کیا بتاؤں۔۔۔ آگے جو کچھ ہوا وہ تمہارے سامنے ہی ہے۔"

اتنا کہہ کر جان خاموش ہو گیا۔
میں سوچنے لگا کہ اب کیا ہو؟ اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کیا ترکیب ہو۔ مگر افسوس میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اب کیا کروں۔ جان بار بار مجھ سے معافی مانگ رہا تھا کہ صرف اسی کی وجہ سے میں اور میرے بچے اس آفت میں گرفتار ہوئے۔ سورج کافی ڈھل چکا تھا۔ گھنٹہ بجنے کی آواز اب بھی آ رہی تھی۔۔۔ دو جکاری اس کالے پتھر کو ابھی تک صاف کرنے میں مصروف تھے۔ میں یہ تو سمجھ ہی چکا تھا کہ اب ہم جی گا کے قیدی ہیں۔۔۔
مگر جی گا خود کہاں ہے، سامنے کیوں نہیں آتا؟ یہی سوال رہ رہ کر میرے دل کو پریشان کر رہا تھا۔ بلونت بھی بڑی اداسی کے عالم میں اپنا سر گھٹنوں میں دئے بیٹھا تھا۔ جان خاموشی سے ٹکٹکی باندھے زمین کو دیکھ رہا تھا۔ اختر جان کے پاس بیٹھا ہوا واقعات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بندر اس کے کندھے پر بیٹھا ہوا اس کے بالوں سے کھیل رہا تھا اور جیک و نجمہ بدستور کھڑکی کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ اچانک اس جھونپڑی میں لگے ہوئے لیمپ کی روشنی خودبخود تیز ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی دروازے پر کھٹکا ہوا۔۔۔ ہم نے جلدی سے پلٹ کر دروازے کو دیکھا تو ہمارے دل یکایک ڈوب گئے۔۔۔ دو جکاری جھونپڑی کے اندر آ رہے تھے۔ ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ مونہہ سے باہر نکلے ہوئے دانتوں سے رال ٹپک رہی تھی اور ان کے خوف ناک چہروں پر بھیانک تبسم ناچ رہا تھا۔

اندر آتے ہی انہوں نے پہلے ہمیں خوں خوار نظروں سے گھور کر دیکھا۔ ہمیں ایک کونے میں سمٹتے اور سہمتے دیکھ کر ان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ انہوں نے اس طرح ایک دوسرے کو دیکھا گویا ہماری اس حالت پر وہ خوش ہیں۔ اس کے بعد ان کی نظریں کھڑکی کے پاس کھڑی ہوئی نجمہ اور جیک پر پڑیں۔ اور پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کی ایک آنکھ میں پیدا ہونے والی وہ خوشی کی چمک یکایک ماند پڑ گئی۔ جسم کے بال خوف کی وجہ سے کھڑے ہو گئے۔ ان کے منحوس چہروں پر جو مسکراہٹ آئی تھی وہ اچانک غائب ہو گئی۔ ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ہنٹر گھبراہٹ میں زمین پر گر پڑے۔
جلدی سے لپک کر وہ اپنی بھدی چال چلتے ہوئے آگے بڑھے اور پھر نجمہ کے سامنے پہنچ کر زمین پر مونہہ کے بل جھک گئے۔ بالکل اس طرح جیسے کوئی بطخ زمین سے دانہ چگتے وقت نظر آتی ہے۔۔۔!

شاید آپ سب اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ ہمیں یہ دیکھ کر کتنا اچنبھا ہوا۔ وہ جکاری جو شاید ہمارے خون کے پیاسے تھے اور جنہوں نے ہمیں قربان کرنے کے لئے قربانی کا چبوترہ صاف کیا تھا وہ اچانک اتنے نرم دل بن جائیں گے!
یہ تو ہم خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔ میرے ساتھ ساتھ نجمہ بھی حیرت زدہ کھڑی تھی۔ جیک شاید یہ سمجھا تھا کہ جکاری نجمہ کو قتل کرنے آ رہے ہیں۔ اس لئے وہ پہلے ہی سے اس کے بالکل پاس جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔ نجمہ کا چہرہ ہلدی کی طرح پیلا پڑا ہوا تھا مگر اس وقت اس نے جو اداکاری کی وہ قابل دید تھی۔
وہ یہ تو سمجھ ہی گئی تھی کہ جکاری اس کا اس طرح ادب کر رہے ہیں جیسے وہ ان کی ملکہ ہو۔۔۔ مگر اس کے بعد اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ وہ کیا کرے؟ اس نے بڑے تعجب سے مجھے دیکھا اور پھر جان کو۔۔۔ جان اس کی نظروں کا مطلب سمجھ گیا اور اس نے جلدی سے کہا۔
"نجمہ بیٹی جکاری اس وقت تم سے مرعوب ہو گئے ہیں۔ اور اب میں جان چکا ہوں کہ کیوں؟ بات یہ ہے جی گا کے غلام زوک عام طور سے برساتی جیسا لباس پہنتے ہیں اور اس وقت یہ جکاری تمہیں زوک سمجھ کر تمہارے آگے جھک گئے ہیں، کیوں کہ تم ابھی تک برساتی پہنے ہوئی ہو۔"
"لیکن پاپا یہ برساتی تو میں اس وقت بھی پہنے ہوئے تھی جب جکاریوں نے ہم سب پر ہنٹروں کی بارش کی تھی۔" نجمہ نے فوراً سوال کیا۔
"اصل میں اس وقت رات ہو چکی تھی اور تم اور اختر ہمارے پیچھے کھڑے ہوئے تھے شاید اس لئے جکاری تمہارے لباس کو اچھی طرح نہ دیکھ سکے۔"
"مگرانکل ذرا سوچئے تو۔۔۔" یہ بات سن کر میں نے فوراً کہا:
"آپ جو کچھ بول رہے ہیں کہیں جکاری وہ سمجھ نہ لیں اور ہوشیار نہ ہو جائیں۔"
"ایسا نہیں ہو سکتا" جان نے کہا:
"یہ ہماری شکلیں تو اپنے دماغ کے ذریعے جی گا تک بھیج سکتے ہیں مگر ہماری گفتگو نہیں بھیج سکتے اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔"
"مگر پاپا۔۔۔ اب میں کیا کروں، ان سے کیا کہوں؟" نجمہ نے پریشان ہو کر پوچھا۔
"میں نے اتنے عرصے یہاں رہ کر یہ دیکھا ہے کہ زوک جب ان جکاریوں کو جانے کے لئے کہتے ہیں تو اپنی انگلی سے ناک کو چھوتے ہیں۔ تب یہ جکاری فوراً چلے جاتے ہیں۔ تم بھی ایسا ہی کرو۔" جان نے آہستہ سے جواب دیا۔

جکاری اب اپنا سر زمین سے اٹھا چکے تھے اور اپنی دموں پر آرام سے بیٹھے ہوئے نجمہ کو دیکھ رہے تھے، نجمہ نے انہیں اپنی طرف دیکھتے ہوئے پا کر جلدی سے اپنی ایک انگلی ناک سے لگائی۔ اس نے کئی بار ایسا ہی کیا۔ اور پھر یہ دیکھ کر ہم سب کی خوشی کی کوئی حد نہ رہی کہ جکاری فوراً ہی کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے ایک ہاتھ اپنے سینے پر رکھا، تھوڑے سے جھکے اور پھر پلٹ کر ہمیں گھورتے ہوئے، اپنی وہی بھدی چال چلتے دروازے سے باہر نکل گئے۔ ان کے باہر جاتے ہی جھونپڑی میں لگی ہوئی وہ عجیب سی روشنی پھر ہلکی ہو گئی اور پھر نجمہ دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی۔
"ابا جی۔۔۔ ابا جی، مجھے ڈر لگ رہا ہے۔" اس کا پورا جسم خوف کی وجہ سے لرز رہا تھا۔
میں نے اسے تسلی دی تب اس کی کچھ ڈھارس بندھی، اس کے بعد میں نے جان سے پوچھا کہ اب اس کا کیا ارادہ ہے؟
"ارادہ!۔۔۔" جان نے بے بسی سے کندھے جھٹک کر کہا:
"اب ارادہ ہو بھی کیا سکتا ہے، جکاری عارضی طور پر دھوکے میں آ گئے ہیں، مگر ہمیشہ ہی وہ دھوکے میں تھوڑی رہیں گے، ابھی چند منٹوں کے بعد انہیں حقیقت کا پتہ چل جائے گا اور تب ہمارا بچنا محال ہو گا۔۔۔ زوک لوگ بہت عقل مند ہیں اور جی گا کے غلام۔ ظاہر ہے کہ جکاریوں کے بعد اب زوک آئیں گے اور ہم سے باز پرس کریں گے۔"

"زوک لوگوں سے نپٹنے کا بھی کوئی طریقہ ہے؟" بلونت نے پوچھا۔
"کوئی طریقہ نہیں سوائے سوبیا کے۔ سوبیا کی کرنیں سوائے جی گا کے اور سب کو ہلاک کر سکتی ہیں۔ مگر سوبیا اب ہمارے پاس کہاں ہے؟"
"اگر آپ کہیں تو کسی نہ کسی طرح میں جھونپڑی سے باہر جاؤں اور سوبیا کا بکس لے آؤں؟" جیک نے پوچھا۔
"تم پاگل ہو۔ اول تو تم بھاگ نہیں سکتے کیوں کہ جکاری تمہیں بھاگنے نہیں دیں گے۔ بھاگنا ہی ہوتا تو ہم دونوں کبھی کے اس جزیرے سے بھاگ گئے ہوتے۔۔۔ دوسری بات یہ کہ سوبیا کو تلاش کرنے میں جو وقت تم صرف کرو گے، اتنے عرصے میں ہم سب کا خاتمہ ہو جائے گا۔۔۔ پھر آخر سوبیا کی تلاش سے فائدہ۔۔۔؟"
"تو پھر آخر ہم کیا کریں۔۔۔؟" میں نے بے چینی سے پوچھا۔
"خدا کو یاد کرو۔۔۔ کیوں کہ مصیبت میں اس سے بڑا مددگار اور کوئی نہیں ہے۔۔۔" جان نے اتنا کہہ کر سر جھکا لیا۔

اس فقرے نے اب ہماری ہمتیں توڑ دیں۔ مجبوراً ہم نے وہی کیا جو جان نے کہا تھا۔ میں نے دعائیں مانگنی شروع کیں۔ جتنی دعائیں مجھے یاد تھیں وہ سب پڑھ ڈالیں۔ خدا سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور اس طرح سے مجھے کچھ سکون مل گیا۔ یہ سوچ کر کہ اب مرنا تو ہے ہی میں نے اختر اور نجمہ کو باری باری گلے سے لگا کر پیار کیا۔ جان بالکل خاموش بیٹھا ہوا تھا اور جیک بے قراری کے عالم میں جھونپڑی میں ادھر سے ادھر پھر رہا تھا۔ بلونت کی حالت یہ تھی کہ جیسے اسے ان باتوں سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ اس نے شاید سوچ رکھا تھا کہ اگر مرنا ہے تو خاموشی کی موت کیوں نہ مراجائے!
بڑی نا امیدی کا عالم تھا اور اسی عالم میں شاید آدھ گھنٹہ گزر گیا۔ ہم سوچ ہی رہے تھے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ اچانک جھونپڑی کی روشنی پھر تیز ہو گئی۔ دروازہ کھلا اور دو جکاری ایک زوک کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔
انہوں نے بڑی خوف ناک مسکراہٹ کے ساتھ نجمہ کو دیکھا اور پھر زوک نے آگے بڑھ کر نجمہ کی برساتی پھاڑ ڈالی۔ نجمہ سہم کر کھڑی ہو گئی۔ اس پر جکاری آگے بڑھے اور نجمہ کے جسم سے برساتی نوچ کر انہوں نے ایک کونے میں پھینک دی۔ اس کے بعد وہ زوک کے پیچھے جا کر ادب سے کھڑے ہو گئے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں نجمہ کے جسم پر اچھا خاصہ لباس تھا، صرف لباس کا نچلا حصہ تھوڑا سا پھٹ گیا تھا۔ نجمہ کے ساتھ ہی ہم سب بھی گھبرا کر کھڑے ہو گئے۔
زوک ہمیں خاموشی سے دیکھتا رہا۔ یہ شخص شکل و صورت میں جکاریوں سے بالکل الگ تھا۔ اس کی صورت انسانوں کی سی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ ایک تو اس کا رنگ سرخ تھا دوسرے کان اوپر سے نوکیلے تھے، ہاتھ اور پیروں کی تین تین انگلیاں تھیں اور قد وہی تین فٹ کا تھا۔۔۔ ہمیں خوف سے لرزتے دیکھ کر وہ ہنسا اور پھر اپنی ایک انگلی اٹھا کر جھونپڑی میں لگی ہوئی اس عجیب سی روشنی کی طرف اشارہ کرنے لگا۔ ہم نے جلدی سے اوپر دیکھا تو وہ روشنی اب اپنا رنگ بدل رہی تھی۔ کئی رنگ بدلنے کے بعد جب وہ سرخ ہو گئی تو ایک سرّاٹا سا اس میں گونجنے لگا اور پھر کسی نے صاف اردو میں کہنا شروع کیا۔

"تم نے ہمیں دھوکا دینا چاہا تھا مگر تم کامیاب نہیں ہوئے۔۔۔ بتاؤ تم یہاں کیوں آئے ہو؟"
زوک نے اس کے بعد ہمیں دیکھا، گویا جواب چاہتا ہو۔ اس پر جان نے کہا:
"ہم کسی کو تباہ کرنے نہیں آئے۔ ہمارا جہاز ٹوٹ گیا تھا اس لئے ہم نے یہاں پناہ لی تھی۔"
"تم جھوٹ بولتے ہو۔ خیر کوئی بات نہیں، جکاریوں کا روحانی گھنٹہ اب تم نہیں بجاؤ گے بلکہ جکاری تمہارا خون پینے کے بعد اب خود اسے بجائیں گے۔ میرے ساتھ خاموشی سے باہر چلے چلو، اب تمہاری قربانی کا وقت آ گیا ہے۔ سورج یعنی ہماری طاقتوں کا مرکز اب ڈوبنے والا ہے۔ اس کے ڈوبنے سے پہلے ہم تمہارے خون کا لال رنگ اس کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔"

شاید یہ زوک کے الفاظ تھے جو کسی خاص طریقے سے اس کی زبان سے نکلنے کی بجائے اس روشنی سے نکل رہے تھے۔ اتنا کہہ کر وہ مڑا اور دروازے کی طرف جانے لگا۔ اس کے جانے کے بعد جکاریوں نے ہمیں باہر چلنے کا اشارہ کیا۔ یہ وقت عجیب تھا۔ نجمہ اور اختر مجھ سے لپٹ کر رونے لگے۔ ہم لوگ لاکھ دل گردے والے سہی مگر اس وقت تو ہمارا کلیجہ بھی مونہہ کو آیا ہوا تھا۔
بلونت جیک اور جان سب کے سب خوفزدہ تھے۔ جکاریوں نے دھکے دے دے دکر ہمیں باہر نکالا۔ اور ہم لرزتے کانپتے اس جھونپڑی سے باہر آگئے۔ یہاں آکر ہم نے ایک عجیب ہی منظر دیکھا۔ جکاریوں کی ایک بڑی تعداد کالے چبوترے کو دو طرف سے گھیرے بیٹھی تھی۔ گھنٹہ لگاتار بج رہا تھا۔ سورج کے غروب ہونے میں تقریباً بیس منٹ کی دیر تھی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے اچانک زمین میں سے نہ جانے کس طرح زوک ابھرنے شروع ہوگئے۔ ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ جکاری انہیں آتا دیکھ کر اسی طرح مونہہ کے بل زمین پر جھک گئے۔ زوک لوگوں کی جب پوری تعداد زمین سے باہر آگئی تو ایک بھیانک سیٹی بجی۔ اسی سیٹی کو سن کر جکاری پھر کھڑے ہو گئے۔ چبوترے کے نیچے اس جگہ پر جہاں ہمیں قتل ہونا تھا ایک بہت بڑا برتن رکھا ہوا تھا۔۔
اف خدا! اب بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ برتن ہم سب کے خون کو بھرنے کے لئے رکھا ہوا تھا۔

نجمہ اور اختر برابر روئے جارہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت زرینہ کا کیا حال ہوگا۔ ایک تو بچوں کی جدائی میں پہلے ہی وہ غمگین ہوگی، لیکن جب ہم لوگ گھر نہ پہنچ سکیں گے تو اس کی زندگی کس طرح گزرے گی۔ میرے کاروبار کا کیا ہوگا؟؟ یہ سوچ کر میرے آنسو بھی بہنے لگے اور میں بالکل ہی نڈھال ہو گیا۔
اس لمبے چوڑے میدان کا رنگ اب نرالا ہی تھا۔ بیچ میں چبوترہ تھا۔ ایک طرف جکاری کھڑے تھے۔ دوسری طرف زوک اور چبوترے کے بالکل سامنے ہم سب۔ یکایک وہ سیٹی جیسی تیز چیخ پھر سنائی دی اور جکاریوں میں سے ایک جکاری ہاتھ میں کافی لمبا اور وزنی تبر لئے ہوئے چبوترے پر پہنچ گیا۔
گھنٹہ اب جلدی جلدی بجنے لگا۔ آسمان پر اڑتے ہوئے پرندے گھبرا کر میدان سے دور دور اڑنے لگے۔ ہوا بند ہو چکی تھی اور سورج جزیرے کے درختوں سے جھانک رہا تھا۔ زوکوں میں سے ایک نے جس کے برساتی نما لباس پر زرد رنگ کا ایک فیتہ ٹکا ہوا تھا، اپنا ہاتھ ہوا میں اٹھایا۔ یہ اشارہ تھا کہ ہاں اب دیر کس بات کی ہے؟ قربانی شروع کرو۔
اشارہ پاتے ہی وہ جکاری جنہوں نے ہمیں پکڑ رکھا تھا۔ اب آگے بڑھے اور انہوں نے جیک کو ہنٹر کے دستے سے ٹہوکا دیا۔ مطلب یہ تھا کہ سب سے پہلے تم آگے بڑھو۔
اختر اور نجمہ بری طرح رونے لگے اور ہم سب بے بسی سے آسمان کو تک کر رہ گئے۔ خدا نے شاید ہمارے گناہوں کو معاف نہیں کیا تھا۔ اس لئے شاید اب اسے ہمیں بچانا منظور نہ تھا۔ جیک نے کوشش کی کہ موقع ملتے ہی بھاگ نکلے مگر وہ کسی طرح بھی نہیں بھاگ سکتا تھا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو جکاریوں کی آنکھوں سے ایک روشنی نکلتی اور جیک بے کار ہوکر گر پڑتا۔ جان نے ہمیں یہی بتایا تھا۔ اب جیک کی حالت بالکل ایسی تھی جیسے قصائی کے ہاتھ میں کسی بکرے کی ہوتی ہے۔


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:5

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں