پوسٹر لکھنے والے بھی ادیب ہیں - مشفق خواجہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-08

پوسٹر لکھنے والے بھی ادیب ہیں - مشفق خواجہ

posters likhne wale adeeb

ڈاکٹر تحسین فراقی کا ارادہ تھا کہ وہ "اردو ادب میں سراب گردی" کے نام سے ترقی پسند تحریک کی تاریخ لکھیں گے ، لیکن ڈاکٹر قمر رئیس کی کتاب "ترقی پسند ادب، پچاس سالہ سفر" کی اشاعت کے بعد انہوں نے یہ ارادہ ترک کردیا ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی کا کہنا ہے کہ جو کچھ وہ لکھنا چاہتے تھے وہ سب کچھ اس کتاب میں ہے، لہٰذا اس موضوع پر فی الحال کوئی نئی کتاب لکھنا تضیع اوقات ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے تضیع اوقات کے حوالے سے صرف اپنی مجوزہ کتاب کا ذکر کیا ہے ، ترقی پسند تحریک کا نہیں۔ ورنہ کوتاہ نظر مخالفین تحریک کو اسی حوالے سے دیکھنے کے عادی ہیں۔

ڈاکٹر تحسین فراقی بھی کہتے ہیں کہ ترقی پسندی تو لکھنے والے کے اندر ہوتی ہے، یہ کوئی فرمائشی چیز نہیں ہے جس کے لئے انجمن سازی کی جائے۔ ادیب انجمن ساز ہوجائے تو ادب رخصت ہوجاتا ہے۔ یہ بات استاد لاغر مرادآبادی نے سنی تو فرمایا:
"انجمن سازوں کے پاس ادب ہوتا ہی نہیں جو اس کے رخصت ہوجانے کااندیشہ ہو۔ فیض، کرشن چندر، بیدی اور احتشام حسین جیسے لوگ زندہ تھے تو ترقی پسندی کے کوئی معنی بھی تھے۔ اب تو چند پوسٹر لکھنے والے رہ گئے ہیں اور بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ان پوسٹروں سے دیواروں کو خراب کرتے ہیں۔"

لاغر مرادآبادی تو انجمن سازوں سے اس طرح ڈر گئے جس طرح کسی زمانے میں شرفا زبان سازوں سے ڈرتے تھے۔ ہم نے فرمودات لاغر کی تشریح چاہی تو انہوں نے فرمایا:
"آج انجمن ترقی پسند مصنفین کے نام لیواؤں میں کوئی ڈھنگ کا لکھنے والا موجود نہیں ہے۔ زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے کبھی کچھ نہیں لکھا۔ بقول ابن انشا قلم سے ازار بند ڈالنے کی لکڑی کا کام لینے والے ترقی پسند ادیب بنے بیٹھے ہیں۔ ہر طرف گولڈن جوبلی ہورہی ہے اور اس بہانے جو لوگ سامنے آرہے ہیں ان کا ادب سے کوئی جائز تعلق نہیں۔ یہ لوگ لکھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں، زبانی جمع خرچ پر گزارا کرتے ہیں۔ ادب کے نام پر ایسی بے ادبی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ یہ لوگ زبان بھی غلط بولتے ہیں۔ کہتے ہیں انجمن ترقی پسند مصنفین کے پچاس سال پورے ہوگئے حالانکہ کہنا یہ چاہئے کہ دن پورے ہو گئے۔"

حضرت لاغر مرادآبادی پیدائشی رجعت پسند ہیں، اس لئے ان سے ترقی پسندوں کے بارے میں کسی کلمہ خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ کاش رجعت پسند حضرات انصاف سے کام لیں اور ترقی پسند تحریک کے صرف منفی پہلوؤں ہی کو نہ دیکھیں، روشن پہلوؤں پر بھی نظر ڈالیں۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ لوگ عاشورہ کاظمی اور ڈاکٹر قمر رئیس کی مرتبہ کتاب"ترقی پسند ادب۔ پچاس سالہ سفر" ہی دیکھ لیں۔

عاشور کاظمی سے ہم زیادہ واقف نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے ان کی کوئی تحریر کبھی نہیں دیکھی، حالانکہ ہم عصر مطبوعہ اردو ادب کا تقریباً نوے فی صد حصہ ہماری نظر سے گزرتا ہے۔ ممکن ہے عاشور کاظمی غیر مطبوعہ ترقی پسند ہوں یاعصری ادب کے اس دس فی صد حصے سے تعلق رکھتے ہوں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ بہرحال انہوں نے اس کتاب کے شروع میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس (لندن) کی جو روداد لکھی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک اچھے رپورٹر ہیں۔ ترقی پسند ادیب ہونے کے لئے یہ سرمایہ کافی سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر قمر رئیس صاحب نظر نقاد ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدبات کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ترقی پسندی نے ان کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا کراچی کے پروفیسر عتیق احمد کو۔ وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب پوسٹر لکھنے اور انہیں دیواروں پر لگانے کا کام خود نہیں کرتے ، دوسروں سے لیتے ہیں۔ زیر نظر کتاب انہوں نے نہایت محنت سے مرتب کی ہے اور اس میں بہت سے ایسے مضامین جمع کر دئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسندوں نے ہمارے ادب کو کتنا "باثروت"بتایا ہے۔

یہ کتاب چھ حصوں پر مشتمل ہے۔ ابتدائی دو حصے فکری مباحث سے متعلق ہیں۔ تیسرے حصے میں ڈاکٹر اختر حسین رائپوری، پریم چند، مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹر عبدالعلیم، احتشام حسین اور فیض احمد فیض کے دو مقالے ہیں، جو ترقی پسند فکر میں اساسی اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ چوتھا حصہ بر صغیر کے مختلف شہروں میں ترقی پسند تحریک کے کردار سے متعلق ہے۔ پانچویں حصے میں اصناف ادب کے حوالے سے ترقی پسند ادب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آخری حصے میں ان کتابوں کی فہرست ہے جن کا مطالعہ ترقی پسند تحریک سے آگاہی کے لئے ضروری ہے۔

اس کتاب میں شامل ہر مضمون کسی نہ کسی اعتبار سے اہمیت ضرور رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی پسند نظم کے بارے میں ڈاکٹر عتیق اللہ کا مضمون ہی لے لیجئے۔ اسے پڑھ کر اور کچھ نہیں تو کم از کم عبرت ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔ موصوف نے جو کچھ لکھا ہے، اس کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔
"ترقی پسند شاعری میں موضوع برائے شاعری کی مثالیں بہ لحاظ کمیت کثیر ہیں اور بہ لحاظ کیفیت کم۔ بیشتر مثالوں میں وہ بے سلیقگی اور خروش مساوی کام کر رہا ہے جس کی محرک نوجوانانہ عاقبت نااندیشی ہے۔۔ سلام مچھلی شہری، پرویز شاہدی، ظہیر کاشمیری اور وامق جونپوری جیسے کمتر تخلیقی ذہن کے شعرا ہی کے یہاں اس نوع کی شورش اور اختلال نہیں پایا جاتا بلکہ سردار جعفری ، مجاز اور مخدوم تک کی اکثر نظموں کی متانت صرف اس لئے معرض خطر میں پڑ گئی کہ ان کے تجربات میں صلابت تھی نہ اظہار میں ضبط۔ حتی کے طنز کے رویوں میں بھی پھکڑ پن حاوی ہے۔" (ص420)

اگریہ باتیں رجعت پسند لکھتا تو اس کے خلوص پر شک کیا جا سکتا تھا، لیکن ڈاکٹر عیتق اللہ تو گھر کے بھیدی ہیں، اس لئے مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔
بہرحال ڈاکٹر قمر رئیس کی ادبی دیانت قابل اظہار ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں سچ کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ ترقی پسند مصنفین گزشتہ پچاس برسوں میں کیا کچھ کرتے رہے اور ان کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا تھی ، اس کا اندازہ رفعت سروش کے اس اقتباس سے کیا جا سکتا ہے :
"ادیبوں اور شاعروں کے ذاتی اور نجی زندگی کے اختلافات نے بھی انجمن کی ساکھ کو بعض دفعہ بہت نقصان پہنچایا۔۔۔ ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی ایک دوسرے کی دوستی کا دم بھرتے تھے، لیکن کسی ادبی معاملے میں نہیں بلکہ بالکل ذاتی معاملے میں دونوں میں چشمک شروع ہوگئی۔ ساحر لدھیانوی نے کیفی کو نیچا دکھانے کے لئے اس کی ادبی شہرت کو داغدار بنانے کا منصوبہ بنایا اور ایک بھر پور مضمون رد کیفی میں قلم بند کیا۔۔۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسے میں وہ مضمون پڑھا۔۔۔ اہل محفل میں مجموعی طور پر مضمون پر واہ واہ کی کچھ بحث ہوئی، خاص طور پر صاحب صدر(علی سردار جعفری) نے جوشیلی تقریر کی اور ان تحریروں کا حوالہ دیا جو ساحر نے اپنے رسائل میں بحیثیت ایڈیٹر کیفی کی تعریف میں لکھتی تھیں۔ ساحر نے برجستہ کہا کہ وہ میری ذاتی رائے نہیں تھی کمرشل نوٹ تھے۔
انجمن کی اگلی نشست میں سردار جعفری نے ساحر کی شاعری پر مقالہ پڑھا۔ سردار کا مضمون ہی یک رخا تھا۔۔ جب مضمون ختم ہوگیا تو ساحر لدھیانوی اپنے پورے قد کے ساتھ اٹھے اور بولے جعفری صاحب ! اس مضمون سے آپ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ساحر لدھیانوی گھٹیا شاعر ہے ، مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ کیفی اعظمی اچھا شاعر ہے۔"
(ص 306)

اس کتاب کا سب سے دلچسپ مضمون "ترقی پسند تحریک اور کراچی" ہے جو کراچی کے مشہور ترقی پسند پروفیسر عتیق احمد نے لکھا ہے۔ ہم تو پروفیسر کو نقاد سمجھتے تھے لیکن یہ مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ان کا اصل میدان افسانہ نگاری ہے ، اہل نظر جانتے ہیں کہ کراچی کی تہذیبی زندگی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کو اتنی بھی اہمیت حاصل نہیں رہتی جتنی اسلام سلمانی کی ہاربر ایسوسی ایشن کو حاصل ہے۔ اس کے باوجود پروفیسر صاحب نے کراچی کی مجہول الاحوال انجمن کو اقوام متحدہ کے پائے کا ادارہ بنا کر پیش کیا ہے۔
اس مضمون میں محمد حسن عسکری ، ڈاکٹر محمد دین، تاثیر اور صمد شاہین کو ترقی پسندوں کے خلاف سازشیں کرنے والوں میں شمار کیا گیا ہے۔ چلیے یہاں تک تو غنیمت ہے کہ یہ لوگ ترقی پسندوں سے نظریاتی اختلاف رکھتے تھے اور پروفیسر عتیق احمد کی خانہ ساز لغت میں "اختلاف" اور "سازش" متراد ف الفاظ ہیں، لیکن حیرت ہے کہ انہوں نے ترقی پسندوں کے جد امجد ڈاکٹر اختر حسین رائپوری کو بھی نہیں بخشا اور ان کے مضمون "ادب اور احتساب" کو بنیاد بنا کر یہ فیصلہ صادر کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی کسی "مجبوری" کے تحت ترقی پسندوں کے خلاف ہو گئے تھے۔ حالانکہ اس فکر انگیز مقالے میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ترقی پسند نظریات کے خلاف ہو۔ ڈاکٹر رائپوری کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے مقالے کے آخر میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے اس فیصلے پر ناپسندیگی کا اظہار کیا ہے جس کی رو سے ممتاز شیریں ، سعادت حسن منٹو اور بعض دوسرے اکابر کی تحریروں کو "ترقی پسند" رسالوں میں شائع کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔
پروفیسر عتیق احمد نے اپنے مقالے کے آخر میں اپنا "ذکرِ خیر" بھی کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
"راقم الحروف اپنی پوری سعی اور دیانت کے ساتھ وفاداری بشرط استواری گزشتہ 38 برسوں سے نبھا رہا ہے۔۔ فارغ بخاری اور دو ایک دوستوں نے شدید لعن طعن کی تو "استعارہ" کے نام سے تنقیدی مضامین کا مجموعہ 1981ء میں شائع کر دیا۔"
پروفیسر صاحب نے ٹھیک ہی لکھا ہوگا مگر ہم نے یہ سنا ہے کہ دوستوں کی لعن طعن کا واقعہ کتاب کی اشاعت سے پہلے کا نہیں ، بعد کا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

(2/ جون 1988ء)

ماخوذ از کتاب:
سن تو سہی (مشفق خواجہ کی منتخب تحریریں)
مرتبین : ڈاکٹر انور سدید ، خواجہ عبدالرحمن طارق

The poster writers. Column: Mushfiq Khwaja [khama-bagosh].

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں