ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 04 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-25

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 04


kali-dunya-siraj-anwar-ep04

پچھلی قسط کا خلاصہ :
سمندر میں اچانک تیز طوفان آیا اور اسٹیمر اس طوفان کا مقابلہ نہ کر سکا۔ فیروز، بلونت اور دونوں بچوں کو سوامی نے ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار کرا دیا مگر وہ خود اسٹیمر سے اتر نہ سکا اور اسٹیمر ڈوب گیا۔ کئی دنوں تک بھوکے پیاسے جاں بلب کشتی کے مسافر جب مرنے کے قریب تھے تب اچانک ان کی کشتی ایک جزیرے پر پہنچ گئی ۔۔۔۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

اس صورت میں بھلا جان اور جیک کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں!
۔۔۔ یہ خیال آتے ہی میرے دل سے ایک ہوک سی اٹھی۔ مجھے جان کا خیال شدت سے ستانے لگا۔ اب جب کہ مجھے اپنے مستقبل کے ہی بارے میں کچھ معلوم نہ تھا، میں جان کے لئے کیا کر سکتا تھا۔ بھلا ہڈیوں کے ایک بے جان پنجر کو ڈھونڈ نکالنے کی جدوجہد، اس سے زیادہ میں اور کر بھی کیا سکتا تھا؟ اب یہاں اس ویران جزیرے میں آ کر میری ہمت جواب دینے لگی تھی۔ کیوں کہ مجھے یہ بالکل معلوم نہ تھا کہ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لئے مجھے اب کیا کرنا چاہئے؟ بہت دیر تک ہم چاروں اسی حالت میں ریت پر بیٹھے رہے۔ آخر اس کے بعد طے پایا کہ کشتی کو کھینچ کر درختوں کے کسی جھنڈ میں اس طرح چھپا دیا جائے کہ کسی دوسرے کی نظر اس پر نہ پڑ سکے۔ جیسا کہ آپ دیکھیں گے ہماری یہ احتیاط آگے جا کر بہت کارآمد ثابت ہوئی۔ ناریل کے درختوں کے قریبی جھنڈ کے نیچے کچھ جھاڑیاں تھیں۔ ہم نے وہی جگہ کشتی کو چھپانے کے لئے منتخب کی۔ مگر اب مشکل یہ پیش آئی کہ کشتی کو ریت میں گھسیٹ کر وہاں تک کون لے کر جائے۔ حالاں کہ جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں سے وہ جگہ مشکل سے پندرہ گز بھی نہ ہو گی۔ مگر ہماری ہمتیں چونکہ جواب دے گئی تھیں اس لئے پہلے تو ہم ناامید ہو گئے۔ آخر میرے اصرار کرنے پر چاروں نے کشتی کا رسہ پکڑ کر اسے ریت پر گھسیٹنا شروع کر دیا۔ کبھی میں زور لگاتا، کبھی دونوں بچے۔ گرتے پڑتے بڑی دقت کے بعد ہم کشتی کو اس جھنڈ تک لے کر آ ہی گئے۔ اس کام میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ اسی سے آپ ہماری پریشانی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس بات کو بیان کرنے میں تو صرف چند سطریں لگی ہیں لیکن جس مشکل اور مصیبت کے بعد یہ کام ہم نے کیا اسے تو کچھ ہمارا ہی دل جانتا ہے!

جب یہ کام ہو گیا تو اسی جگہ بیٹھ کر ہم نے کشتی کے سامان کو جانچا اور پھر یہ معلوم کر کے ہمیں بڑا اطمینان ہوا کہ سوائے خوراک اور پانی کے باقی سب سامان ٹھیک حالت میں ہے۔ اس سامان میں بارود، گولیاں، بندوقیں ،دوربین، ٹارچیں اور ان کے سیل، مٹی کا تیل، کوئلہ اور مختصر سا لباس موجود تھا۔ اور ظاہر ہے کہ ہم لوگوں کے لئے فی الحال یہ سامان بہت ضروری تھا۔ جب اس طرف سے بھی ہمیں اطمینان ہو گیا تو ہم لوگ درختوں کے تنوں سے کمر لگا کر بے خبر سو گئے۔ تھکن اتنی تھی کہ آنکھیں بند کرتے ہی ہمیں تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ شاید ہم تمام دن سوتے رہے، جب آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ ہمارے عجیب و غریب دوست ہمارے چاروں طرف بیٹھے ہوئے ہمیں دانت نکالے دیکھ رہے ہیں!
ہمیں اٹھتے دیکھ کر وہ جلدی سے دور جا بیٹھے۔ میں نے سمندر کی طرف دیکھا۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور پرندے جزیرے کی طرف آ رہے تھے۔ شام ہو جانے پر مجھے محسوس ہوا کہ اس جزیرے میں ہلکی سی سردی ہے اور یہ معلوم ہو جانے پر مجھے اختر اور نجمہ کی فکر ہوئی۔ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں برساتیاں اوڑھے ہوئے لیٹے تھے۔ اس جزیرے کی بابت مجھے کچھ علم نہ تھا کہ یہاں آبادی بھی ہے یا نہیں۔ اس لئے میں نے یہ سوچتے ہوئے کہ رات کو کہیں کسی خطرے کا سامنا نہ کرنا پڑے سب کو اٹھا دیا۔ اور اس کے بعد میں نے بلونت سے کہا۔
"میرا خیال ہے کہ اب تمہارا زخم پہلے سے اچھا ہوگا!"
"جی ہاں۔ اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔"
"اور نجمہ بیٹی تمہارے ہاتھ کا زخم۔۔۔؟"
"اب زیادہ تکلیف نہیں ہے ابا جی۔۔۔" نجمہ نے مسکرا کر جواب دیا۔
ابھی میں کچھ اور کہنا ہی چاہتا تھا کہ دھب سے کوئی چیز اختر کے اوپر گری وہ چیخ مار کر ایک دم اچھل پڑا۔ پھر جلدی سے کھڑا ہو گیا۔ جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بندر کا ایک ننھا سا بچہ ہے، جس کے ہاتھ میں ایک کیلا بھی ہے اور جو شاید اوپر درخت پر سے گر پڑا تھا۔ نجمہ تو ہنسنے لگی مگر اختر نے قریب جا کر اس بچے کو اٹھایا، پیار کیا اور پھر کیلا چھیل کر اسے کھلانے لگا۔
یکایک اوپر سے کوئی چیز پھر زمین پر کودی۔۔۔ یہ وہ بندریا تھی جس کا یہ بچہ تھا۔ اختر کے قریب آ کر وہ خاموشی سے بیٹھ کر بچے کو دیکھنے لگی۔ اختر کو اس نے کچھ نہیں کہا۔ ایک دو بار بچے کی جوئیں (جو میرے خیال میں بالکل نہیں تھیں) بھی نکال کر اس نے کھائیں اور پھر اختر کے پاس بچے کو چھوڑ کر جلدی سے جنگل کے اندر گھس گئی۔
ہم سب کو بڑا تعجب ہو رہا تھا۔ میں نے احتیاطاً اپنا چاقو ہاتھ میں لے لیا تھا کیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ بندریا کہیں اختر کو نقصان نہ پہنچائے۔ اچانک ہی جھاڑیاں ہلیں اور بندریا کسی چیز کو اپنے سینے سے لگائے اختر کی طرف آئی۔ وہ چیز اختر کے پاس پھینک کر اور اپنے بچے کو کلیجے سے لگا کر وہ پھر درخت پر چڑھ گئی۔ جب ہم نے غور سے اس چیز کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ بیس پچیس کیلوں کا ایک گچھا ہے۔۔۔ حیرت کے مارے میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک ہم انسان ہیں کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں اور ایک یہ جانور ہیں جو کسی انسان کا ذرا سا احسان بھی اٹھانا گوارہ نہیں کرتے اور فوراً اس احسان کا بدلہ چکا دیتے ہیں۔

ہم لوگوں نے کیلے بڑے مزے لے لے کر کھائے۔ آپس میں باتیں کرنے کے بعد ہمیں یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ کیلوں کے یہ درخت کہیں قریب ہی ہیں، جب ہی بندریا اتنی جلدی کیلے لے کر آ گئی تھی۔ کھانے کی فکر تو دور ہو گئی۔ سوچ لیا کہ صبح اٹھ کر وہ درخت تلاش کریں گے۔ اب تو اپنی حفاظت اور رات گزارنے کی فکر تھی!
۔۔۔ رات کو تو آخر کسی طرح گزرنا ہی تھا اس لئے وہ گزر گئی۔ ہم لوگ وہیں کشتی کے پاس سو گئے تھے۔ رات کو خلاف توقع کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ سوائے ایک حادثے کے۔۔۔ میں تو اسے حادثہ ہی کہوں گا۔ اور یہ حادثہ رات کو کوئی دو بجے پیش آیا۔ اختر اور نجمہ سو رہے تھے کہ اچانک میری آنکھ ان کے چلانے سے کھل گئی۔ دونوں کے چہروں پر خوف چھایا ہوا تھا۔ تقریباً وہی حالت تھی جو کچھ دن پہلے اختر کی میرے اسٹیمر میں ہوئی تھی۔ میرے بار بار پوچھنے پر نجمہ نے اتنا بتایا کہ اس نے ایک بہت ہی خوف ناک سایہ دیکھا ہے۔ یہ سایہ روشن بھی تھا۔ مطلب یہ کہ اس کے چاروں طرف روشنی کا ایک ہالا سا بھی نظر آتا تھا۔ اور اس کی شکل بہت خوف ناک تھی۔ نجمہ نے کہا کہ وہ اس کے دیکھتے دیکھتے غائب ہو گیا۔ میں نے ان دونوں کو تسلی دی اور ان سے سو جانے کے لئے کہا۔ بعد میں میں بھی گزرے ہوئے واقعات پر غور کرتے ہوئے سو گیا۔

صبح بندروں اور پرندوں کی آوازوں نے ہمیں جگایا۔ بندروں نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر پہلے ہی سے درخت کو جھنجھوڑ کر بہت سے ناریل نیچے گرا رکھے تھے۔ ہم سب نے ناریلوں کا پانی پیا اور ان کا گودا کھایا۔ اس کے بعد رات کے بنے ہوئے پروگرام کے مطابق ہم لوگ کیلوں کے درخت اور آس پاس کی کسی آبادی کو ڈھونڈنے کے لئے تیار ہو گئے۔ ہمارے پاس کمر پر لٹکانے والے سفری تھیلے تھے۔ اور ہم نے پہلے ہی سے ان تھیلوں میں کافی سے زیادہ سامان رکھ لیا تھا۔ نجمہ کے پاس چونکہ کپڑے نہیں تھے اس لئے اس نے احتیاطاً برساتی پہن لی تھی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ اس نے برساتی کیوں پہنی ہے! کپڑوں کے پھٹ جانے کے بعد ظاہر ہے کہ برساتی ہی جسم کو چھپانے کے کام آتی اور نجمہ نے یہی سوچا ہو گا۔ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے میں اتنا اور بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ان تھیلوں میں کشتی کا تقریباً سب ہی سامان آ گیا تھا۔ ہم لوگ اب ہتھیار چاقو اور مصیبت میں کام آنے والی ہر چیز سے لیس تھے۔ ہمارا سفر اب شروع ہونے والا تھا۔ سمندر کا سفر تو ایک حد تک ختم ہو چکا تھا۔ اب یہ خشکی کا سفر شروع ہو رہا تھا۔ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ جزیرہ کون سا ہے، کتنا بڑا ہے، اس میں آبادی بھی ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو لوگ کیسے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ کیا جان اور جیک یہاں مل جائیں گے؟

چلنے سے پہلے ہم سب نے مل کر درختوں کے بڑے بڑے پتے توڑ کر کشتی کو ان سے ڈھک دیا۔ ابھی ہم یہ کام کر ہی رہے تھے کہ اچانک درخت پر سے وہی بندریا کا بچہ کودا اور اختر کے کندھے پر بیٹھ کر جلدی جلدی اس کے سر کی جوئیں دیکھنے لگا۔ اختر بچے کی یہ محبت دیکھ کر بہت خوش ہوا اور مجھ سے کہنے لگا کہ وہ بچے کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلے گا۔ میں نے اس سے کہا بھی کہ کہیں بندریا ناراض نہ ہو جائے مگر اختر نہ مانا اور آخر مجبوراً مجھے اختر کو اپنے اس نئے دوست کو ساتھ لے چلنے کی اجازت دینی ہی پڑی۔
ہم لوگ اب خدا کا نام لے کر آگے بڑھے۔ ہم نے میدانی راستے کی نسبت جنگل میں سے گزرنا زیادہ پسند کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میدان میں ہم کسی کی بھی نگاہوں میں آ سکتے تھے اور جنگل میں ہمیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اونچی نیچی زمین کو پھلانگتے، راستے کے جھاڑ جھنکاڑ تیز چاقوؤں کی مدد سے صاف کرتے اور خطرے کی بو سونگھتے ہوئے ہم آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہوگا، اسٹیمر میں نجمہ کو پہننے کے لئے میں نے ایک پتلون دی تھی اور وہ ابھی تک یہی پتلون پہنے ہوئے تھی۔ اگر اس کا لباس یہ نہ ہوتا تو پھر اس کی ٹانگوں کا زخمی ہو جانا یقینی تھا۔ کیوں کہ راستے میں خاردار جھاڑیاں کافی تھیں۔ ان جھاڑیوں کو ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے ہمارے جسموں پر خراشیں بھی آئیں مگر ہم نے کوئی پرواہ نہ کی۔
جلد ہی ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں کیلے کے لا تعداد درخت تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ خود بخود اگے ہیں۔ انہیں زمین میں کسی نے نہیں بویا۔ ان کی بے ترتیبی یہی بتاتی تھی۔ ہم سب نے جلدی جلدی پکے ہوئے کیلے توڑے اور انہیں اپنے تھیلوں میں رکھ لیا۔ بھوک کے وقت سوائے کیلوں کے اب اور کوئی چیز ہمارے کھانے کے لائق نہ تھی۔ کیلوں کی اس زمین پر اور اس کے قریبی درختوں پر نشان لگانے کے بعد ہم آگے بڑھے۔ یہ نشان ہم نے اس لئے لگائے تھے کہ دوبارہ اگر ہم اس طرف آئیں تو جگہ تلاش کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ اختر اور نجمہ نے اپنے اسکاؤٹ ہونے کا یہاں کافی اچھا ثبوت دیا اور یہ نشان ان دونوں ہی نے لگائے۔

یہ جنگل جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ساحل کے کنارے کنارے نہ جانے کہاں تک چلا گیا تھا۔ درندے تو شاید اس میں بالکل ہی نہ تھے البتہ پرندوں کا شور بہت زیادہ تھا۔ جوں جوں ہم جنگل کے اندر بڑھتے جاتے تھے یہ شور بھی تیز ہوتا جاتا تھا۔ راستہ اب دشوار گزار ہونے لگا تھا۔ ہم بڑی احتیاط کے ساتھ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ سب سے آگے میں تھا، پھر نجمہ، اور اس کے بعد اختر اور سب سے آخر میں بلونت۔ میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ عنقریب ہی کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ ہمیں کشتی کے پاس سے چلے ہوئے اب کوئی دو گھنٹے ہونے کو آئے تھے۔ میں کچھ نہیں جانتا تھا کہ آگے ہی آگے کیوں چلتا جا رہا تھا اور جیسا کہ آپ آگے دیکھیں گے کہ اس میں بھی خدا کی مصلحت تھی!
شاید اللہ کو ہماری حالتوں پر رحم آ گیا تھا اور اس نے ہمارے دلوں سے نکلی ہوئی خاموش دعا سن لی تھی!

جنگل کے بائیں طرف چلتے چلتے اچانک ہمیں سمندر پھر مل گیا۔ ہم یہ تو جانتے ہی تھے کہ سمندر کے کنارے کنارے جنگل میں چل رہے ہیں اور شاید چلتے ہی رہتے اگر میری نگاہ ساحل کی گیلی ریت پر پڑی ہوئی ایک سفید چیز پر نہ پڑتی!
اس چیز کو میں اچھی طرح جانتا تھا اس لئے دیوانوں کی طرح اس طرف دوڑا اور پھر جلدی سے نیچے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ یہ ایک سفید ہیٹ تھا اور یقینا یہ ہیٹ میرے بزرگ جان کا تھا! اس کی تصدیق ہیٹ کے آس پاس پڑے ہوئے سامان سے بھی ہو گئی۔ ایک پیٹی تھی جو میں نے ایسے سفر میں ہمیشہ جان کو باندھے ہوئے دیکھی تھی۔ سفری جوتے، ایک چھوٹا ایک بڑا، بڑا جوتا لازمی طور پر جیک کا تھا۔ ایک لمبا سا دو دھار والا چاقو جسے میں نے جیک کے پاس بارہا دیکھا تھا۔ جان کا ریوالوار بھی قریب ہی پڑا ہوا تھا۔ مگر وہ دونوں کہیں نہیں تھے۔ یہ دیکھ کر میرا خون جوش کھانے لگا۔ میرے پیچھے پیچھے نجمہ، اختر اور بلونت بھی دوڑتے ہوئے آ گئے تھے۔ اور اب وہ تینوں خاموش کھڑے ہوئے میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہے تھے۔ خدا نے مجھ پر کتنی بڑی مہربانی کی تھی! گزشتہ طوفان نے میری کتنی بڑی مدد کی تھی کہ مجھے خود بخود اس جزیرے پر پہنچا دیا تھا جہاں مجھے خود پہنچنا تھا!

جان اور جیک کے سامان کے ملنے سے مجھے جتنی خوشی ہوئی میں بیان نہیں کر سکتا۔ مگر اب مجھے ان دونوں کو تلاش کرنا تھا۔ میں نے دونوں ہاتھ مونہہ پر لگا کر زور زور سے ہر سمت آوازیں لگائیں۔ جواب ملا تو ضرور مگر یہ جواب پرندوں نے ایک دم اڑنے کے بعد شور مچا کر دیا تھا۔ آوازیں میں نے پھر لگائیں اور جب کوئی جواب نہ آیا تو بڑی ناامیدی کے ساتھ میں وہیں گیلی ریت پر بیٹھ گیا۔
میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس بڑے جنگل میں انہیں کہاں اور کیسے تلاش کروں؟ سامان کے مل جانے سے یہ بات تو ظاہر نہیں ہوتی تھی کہ وہ دونوں زندہ بھی ہیں۔ کون جانے وہ اندر، جنگل میں پڑے ہوں اور صرف ہمیں اب ان کے ڈھانچے ہی ملیں۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ جان نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ وہ ایک ویران جزیرے پر پڑا ہے۔ وہاں پینے کا پانی بھی نہیں ہے اور گدھ درختوں پر بیٹھے اس کی جان نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیا اس سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ وہ کوئی اور جزیرہ ہو گا! مگر میرے اس خیال کی تردید فوراً ہی میرے دل نے کر دی۔ پینے کا پانی ابھی تک تو ہم لوگوں کو بھی نہیں ملا تھا۔ ہم تو صرف ناریلوں کا میٹھا پانی پی پی کر ہی گزارہ کر رہے تھے۔ جس جگہ جان کا سامان پڑا تھا وہاں آس پاس تو ناریل کے درخت بھی نہیں تھے اس لئے جان نے ٹھیک لکھا تھا کہ اس جزیرے میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ لہٰذا یہی وہ جزیرہ ہے۔

اس وقت سب مجھے غور سے تک رہے تھے۔ اختر کا نیا دوست بندر بھی اپنی آنکھیں پھاڑے مجھے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ جب میں نے اپنے دل کی باتیں سب کو بتائیں تو بلونت نے کہا:
"میرے خیال میں کسی جنگلی درندے نے ان دونوں کو ہلاک کر دیا ہے۔"
"نہیں ابا جی یہ بات غلط ہے۔" اختر نے کہنا شروع کیا:
"درندہ اول تو جنگل میں کوئی ہے ہی نہیں۔ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے پاپا اور جیک چچا کو اتنا موقع کیوں دیا کہ وہ دونوں آرام سے اپنے جوتے، پیٹی، ہیٹ، چاقو اور دوسرا سامان اتاریں۔ وہ چاہتا تو فوراً ہی انہیں ہلاک کر دیتا۔۔۔"
میں نے محبت بھری نظروں سے اختر کو دیکھا۔۔۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔
"اور ابا جی ایک بات اور ہے۔۔۔" نجمہ نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لے کر کہا:
"اگر آپ غور سے ریت اور پھر اس سے آگے جنگل کی قریبی مٹی کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ دونوں اپنے پیروں پر چل کر جنگل میں داخل ہوئے ہیں۔ ریت اور مٹی پر ان کے قدموں کے نشان ہیں۔۔۔!"
نجمہ کی اس ہوشیاری کا بھی کوئی جواب نہ تھا! اس نے بہت اچھی بات نوٹ کی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو سچ مچ ان دونوں کے قدموں کے نشان جنگل کی طرف جاتے ہوئے نظر آتے تھے۔ گو یہ نشان اب ایک حد تک بھر گئے تھے، مگر صاف نظر آتا تھا کہ یہ قدموں کے نشان ہیں۔ ان نشانوں کو دیکھتے دیکھتے اچانک میری بھویں تن گئیں۔
میں نے محسوس کیا کہ بقیہ سب بھی حیرت سے زمین کو تک رہے ہیں۔ وہ چیز ہی ایسی تھی جسے دیکھ کر ہمیں بڑا اچنبھا ہوا۔ جان اور جیک کے پیروں کے نشان کے ساتھ ہی کسی تیسری شخصیت کے قدموں کے بھی نشان تھے۔۔۔ مگر کیسے نشان۔۔۔؟
آپ سب تعجب کریں گے۔ وہ نشان ڈیڑھ فٹ لمبے تھے اور ڈیڑھ فٹ لمبے اس پیر میں صرف دو انگلیاں تھیں اور یہ پیر ہم زمین پر رہنے والے انسانوں میں سے کسی کا ہر گز نہ تھا۔

میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ یہ حقیقت جان لینے کے بعد مجھے کتنی پریشانی ہوئی ہے۔ آج تک کسی درندے کے پاؤں میں نے انسانوں جیسے نہیں دیکھے۔ دو انگلیوں والے ڈیڑھ فٹ لمبے پیر تو کسی اور ہی جاندار کے ہو سکتے ہیں۔ اور وہ جان دار بھی اس دنیا کا معلوم نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کے انکشاف سے مجھے کم از کم یہ اطمینان ضرور ہو گیا کہ جان اور جیک زندہ یقیناً ہوں گے۔ جب کسی تیسری مخلوق کی موجودگی اس جزیرے میں پائی جاتی ہے تو یقیناً خواہ وہ کوئی بھی ہو، اس نے جان اور جیک کو ختم نہیں کیا ہوگا !
بات حالاں کہ غلط تھی مگر میرا دل یہی گواہی دیتا تھا۔ جان اور جیک کا پتہ چل جانے کے بعد اب میرے دل کو یہ کرید لگ گئی کہ یہ تیسری مخلوق کون ہے، کہاں ہے اور ان دونوں کو وہ اپنے ساتھ کہاں لے گئی ہے؟
ان باتوں کا جواب میرے دل نے یہی دیا کہ اب ہمیں جتنی جلد ہو سکے انہیں تلاش کرنا چاہئے، کیوں کہ بغیر انہیں تلاش کئے ان باتوں کا مکمل جواب ہمیں نہیں مل سکتا۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی جیسے کسی نے میرے تھکے ہوئے بدن میں چابی بھر دی۔ سب کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے میں ان قدموں کے نشانوں کے سہارے پھر جنگل میں داخل ہو گیا۔ مگر اس سے پہلے میں نے جان اور جیک کے سب سامان کو اٹھا لیا تھا اور اپنے سفری تھیلوں میں بھر لیا تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہ زندہ ہیں اور جب ملیں گے تو ان کا یہ سامان انہیں دے دوں گا۔

گھنے جنگل میں آنے کے بعد ایک مشکل یہ پیش آئی کہ قدموں کے نشان اب غائب ہو گئے تھے۔ ریت پر تو وہ صاف دکھائی دیتے تھے، مگر یہاں جنگل میں جھاڑیوں اور کانٹے دار پودوں میں انہیں تلاش کرنا ناممکن تھا۔ نجمہ اور اختر اپنے چاقوؤں کی مدد سے جگہ جگہ نشان لگاتے جا رہے تھے۔ بار بار راستے میں پتھر اکٹھے کر کے اسکاؤٹ کے طریقوں سے سمت کا نشان بنا دیتے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے یہی جواب دیا کہ اس طرح واپسی میں راستہ تلاش کرنے میں آسانی ہوگی۔
اختر کا بندر کبھی اچک کر درختوں پر چڑھ جاتا اور کبھی اختر کے کندھے پر آ بیٹھتا۔ اتنی ہی دیر میں اختر نے اسے اتنا سدھا لیا تھا کہ جب وہ کہتا بندر درخت پر چڑھ جاتا اور جب بلاتا تو واپس آ جاتا۔ ایک بار تو اختر نے اس سے ناریل بھی منگوا لیا تھا۔ میری نگاہ جنگل کی زمین پر ہی لگی ہوئی تھی۔ قدموں کے نشان تو غائب تھے، اس لئے اب میں اندازے سے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
طویل فقروں سے میں اپنی اس داستان کو بلا وجہ لمبا نہیں کرنا چاہتا۔ مختصراً اتنا ہی کہوں گا کہ اسی طرح چلتے چلتے کافی دیر ہو گئی۔ جنگل کبھی گھنا ہو جاتا اور کبھی چٹیل میدان نظر آ جاتا۔ میدان میں آ کر کئی بار مجھے قدموں کے نشان پھر نظر آئے اور میری ڈھارس بندھ گئی کہ ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں۔

ایک بجے کے لگ بھگ ہی میں نے یکایک دو عجیب باتیں نوٹ کیں۔۔۔ جس طرف ہم جا رہے تھے اس طرف سے ایک مدھم سی آواز ہر بیس سیکنڈ کے بعد سنائی دینے لگی تھی۔ یہ آواز عجیب تھی، میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہ کیسی تھی!
اگر آپ سمجھ سکیں تو یوں سمجھئے کہ وہ کسی گرجا گھر کے بہت بڑے گھنٹے کی گونج جیسی آواز تھی۔ یہ آواز آخر میں کافی دیر تک گونجتی رہتی تھی۔ جب بھی یہ آواز سنائی دیتی اس کی ضرب مجھے اپنے دل پر پڑتی ہوئی محسوس ہوتی، ایسا لگتا کہ جیسے یہ آواز میرے دل کو دبا دیتی ہے۔
دوسری عجیب بات یہ تھی کہ اس آواز کو سن کر اختر کا دوست بندر کچھ بے قرار سا ہونے لگا تھا۔ جب بھی اسے وہ آواز سنائی دیتی میری ہی طرح وہ لرز جاتا اور خوف زدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگتا۔ میرے ساتھ ہی شاید اور سب بھی اس آواز سے چوکنے ہو گئے تھے۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جاتے یہ آواز بھی تیز ہوتی جاتی۔ بندر کی حالت سب سے زیادہ حیرت انگیز ہوتی جا رہی تھی۔ اختر نے اس ڈر سے کہ وہ کہیں بھاگ نہ جائے اس کے گلے میں رسی ڈال دی تھی۔ مگر اس کی حالت میں کچھ کمی واقع نہ ہوئی۔
اختر، نجمہ اور بلونت بھی سوالیہ نظروں سے اب مجھے دیکھ رہے تھے، مگر میں خاموش تھا۔ حقیقت جانے بغیر میں انہیں ان خاموش سوالوں کا کیا جواب دیتا؟ گھنٹے کی آواز آہستہ آہستہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ ہم نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ کا چھجہ سا بنا کر دور دور دیکھا مگر نظر کچھ بھی نہ آیا۔ صرف آواز سے اتنا اندازہ ضرور ہوتا تھا کہ وہ کس جانب سے آ رہی ہے۔ یہ دیکھ کر میں نے بلونت سے کہا:
"بلونت میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا۔ مگر کیا تم بتا سکتے ہو کہ یہ آواز کیسی ہے؟"
"میرے خیال میں تو یہ آوازیں کسی گھنٹے کی ہیں۔ اور وہ گھنٹہ بھی بہت بڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آواز بہت دیر تک گونجتی رہتی ہے۔۔۔"
"ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ مگر۔۔۔"
"ابا جی ایک بات اور بھی ہے۔" اختر نے میری بات کاٹ کر کہا :
"گھنٹے کے بجنے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اس جزیرے میں آبادی ہے۔ اگر کوئی انسان یہاں نہیں ہوتا تو اتنے بڑے گھنٹے کو بجاتا کون؟"
اختر نے بڑے پتے کی بات کہی تھی۔ میں یہ سن کر بہت خوش ہوا اور میں نے کہا۔
"واقعی اختر تم نے بہت کارآمد بات نوٹ کی ہے۔ مگر اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کیسے ہیں؟"
"ان کے بارے میں میں بتاتی ہوں۔" نجمہ نے کہا:
"لوگ میرے خیال میں وحشی ہیں۔ وحشی نہ ہوتے تو گھنٹے کو اتنے زور زور سے نہیں بجاتے۔ یہ میں نے یوں بھی جانا ہے کہ بندروں کا غول میری برساتی سے کافی ڈرتا رہا ہے۔ جہاں تک مجھے یقین ہے وہ لوگ برساتی جیسے کچھ کپڑے پہنتے ہیں۔"
"بہت خوب۔ تمہارا یہ اندازہ کافی حد تک درست ہے۔" میں نے جواب دیا۔
"ایک بات اور ہے ابا جی۔۔۔" اختر نے چونک کر کہا۔
"وہ کیا۔۔۔؟"
"شاید وہ لوگ جانوروں پر رحم نہیں کرتے، اسی لئے بندر ان سے ڈرتے ہیں۔"
"جو جانوروں پر رحم نہیں کرتا ہو گا ظاہر ہے وہ کافی ظالم ہو گا۔ اس لئے غالباً وہ لوگ ظالم بھی ہوں گے۔"
"ہاں تمہارا یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے۔۔۔" بلونت نے کہا۔
"اچھا آؤ یہاں بیٹھ کر ہم لوگ اب یہ سوچیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟"

اتنا کہہ کر میں وہیں ایک درخت کی جڑ پر بیٹھ گیا۔ وہ سب بھی بیٹھ گئے اختر کی پتلون کے پائینچے کافی پھٹ چکے تھے اور یہی حالت ہم سب کے لباسوں کی بھی تھی۔ میرے اور بلونت کے کپڑے بھی جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے۔ نجمہ کی برساتی نیچے سے بے شک پھٹ گئی تھی مگر اوپر سے ٹھیک تھی، کافی دیر تک ہم چاروں اپنی اس وقت کی حالت پر غور کرتے رہے۔ آخر بڑی لمبی چوڑی بحث کے بعد یہ طے پایا کہ ہمیں اپنا سفر جاری رکھنا چاہئے۔ مگر اب وہ بات یاد آتی ہے تو میرا قلم لرزنے لگتا ہے!
اوہ خدایا!
۔۔۔ کتنا منحوس وقت تھا وہ جب کہ ہم نے سفر جاری رکھنے کا ارادہ کیا تھا۔۔۔!
کاش ہمیں معلوم ہو جاتا کہ ہمارے ساتھ اب کیا پیش آنے والا ہے!
سفر پھر شروع ہو گیا۔۔۔ پہلے ہی کی طرح جھاڑیوں سے الجھتے، کانٹے والے پودوں سے جسموں کو زخمی کرتے اور اونچی نیچی زمین کو پھلانگتے ہوئے ہم آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ گھنٹے کی آواز آہستہ آہستہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وحشی لوگوں کی بستی اب قریب ہی ہے، مگر بستی کا دور دور پتہ نہ تھا۔ تقریباً چار گھنٹے تک ہم لگاتار چلتے گئے۔ شام ہونے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔ ہم اس قدر پریشان ہو چکے تھے کہ میں چاہتا تھا جو بھی ہونا ہے بہت جلد ہو جائے۔ اگر وہ لوگ ظالم ہیں تو کیا ہوا، ہم ان کے ظلم کا خاتمہ کر دیں گے۔ ہمارے پاس بندوقیں اور پستول بھی تھے۔ ان کی موجودگی میں مجھے ہر خطرہ سے ٹکر لینا آسان نظر آتا تھا۔ خطروں میں کودنے کی عادت بچپن سے پڑی ہوئی تھی۔ شوق رہ رہ کر اکساتا تھا کہ آخر دیکھوں تو وہ لوگ کون ہیں۔ کس قسم کے ہیں اور یہ گھنٹہ کس لئے بجا رہے ہیں؟
چلتے چلتے دو گھنٹے اور ہو گئے تھے۔ گھنٹے کی آواز اب اتنی تیز تھی کہ اس کی آواز کی لہریں درختوں کی ڈالیوں کو ہلا رہی تھیں۔ بندر بہت پریشان تھا اور رسی تڑانے کی پوری پوری کوشش کر رہا تھا مگر اختر نے اس کی رسی اپنی کمر سے باندھ رکھی تھی۔ گھنٹے کی بے حد اونچی آواز سے ہمارے کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے۔ میں نے فرسٹ ایڈ کے سامان میں سے روئی نکال کر ہر ایک کو کافی دیر پہلے ہی دے دی تھی اور سب نے یہ روئی اپنے کانوں میں ٹھونس لی تھی مگر اس احتیاط کے باوجود بھی کانوں پر جیسے کوئی ہتھوڑے مار رہا تھا!

چند قدم آگے چلنے کے بعد اچانک میں رک گیا۔ میرے ساتھ ہی اور سب بھی رک گئے۔ میری نظریں جھاڑیوں سے کافی دور لگی ہوئی تھیں. جو کچھ میں نے دیکھا، اسے دیکھ کر میں اچنبھے میں رہ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک صاف اور چٹیل سا میدان ہے اور اس میدان میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر عجیب قسم کے جھونپڑی نما مکان بنے ہوئے ہیں۔ ایسے مکان میں نے دنیا کے کسی کونے میں بھی نہیں دیکھے تھے! سورج ڈوب رہا تھا اور ہلکے ہلکے بادلوں کی اوٹ میں تھا، اس لئے یہ عجیب سے مکان اس دھندلکے میں بہت ہی بھیانک نظر آتے تھے۔ میدان کے ایک طرف یہ مکان تھے۔ اور دوسری طرف صاف میدان۔ اس میدان کے درمیان میں ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جو کالا ہو رہا تھا۔ میں سمجھ نہ سکا کہ یہ چبوترہ کس قسم کا ہے؟ اس کے علاوہ یوں لگتا تھا کہ یہاں کوئی انسان نہیں رہتا! کیوں کہ لگاتار دس منٹ تک ادھر دیکھتے رہنے کے باوجود ہمیں کوئی انسان ٹہلتا ہوا نظر نہیں آیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ کون سی بستی ہے اور یہ کون لوگ ہیں؟ جہاں تک میری یادداشت کام دیتی تھی، دنیا کے نقشے میں ایسا جزیرہ میں نے کہیں نہیں پایا تھا۔۔۔!

گھنٹے کی آواز اب بھی برابر آ رہی تھی اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد لگاتار سنائی دے رہی تھی۔ میں نے دبے دبے پاؤں رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اور پھر جلد ہی ہم اس جگہ آ گئے جہاں سے میدان کے دوسرے کونے کو بھی ہم دیکھ سکتے تھے۔ اور اس دوسرے کونے کو دیکھتے ہی میں حیرت زدہ رہ گیا۔
ایک بہت بڑا گھنٹہ۔۔۔ شاید دلی کی جامع مسجد کے گنبد سے بھی بڑا۔۔۔ یہ گھنٹہ نہ جانے کس چیز کے سہارے آسمان میں ٹنگا ہوا تھا؟ میرے خیال میں اس کی اونچائی دو سو فٹ تو ضرور ہو گی اور اسی طرح نیچے سے اس کا گھیر بھی کافی تھا۔ وہ دل ہلا دینے آواز اسی گھنٹہ میں سے نکل رہی تھی۔
نہ جانے یہ گھنٹہ یہاں کیوں لٹکایا گیا تھا اور اس کی ہیبت ناک آواز سے کسی کا مقصد کیا تھا؟ میں نے ذہن پر بہت زور ڈالا مگر اپنے ان سوالوں کا جواب نہ پا سکا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ نجمہ نے میرے شانے پر ہاتھ رکھا میں نے پلٹ کر اسے دیکھا تو نگاہوں سے اس نے گھنٹے کی نچلی طرف اشارہ کیا۔ میں نے جب غور سے دیکھا تو حیرت کے مارے میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔اس گھنٹے کے نیچے دو آدمی دائیں بائیں کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں دو لمبے لمبے گرز سے تھے۔ آگے سے یہ گرز موٹے تھے اور پیچھے سے پتلے۔ باری باری وہ دونوں آدمی اس گرز کو گھنٹے پر مارتے تھے اور تب ایک زوردار آواز گھنٹے میں سے نکلتی تھی۔ ان دونوں آدمیوں کا شاید کام ہی یہی تھا۔ کیوں کہ ایک دوسرے سے بات کئے بغیر وہ اپنے کام میں مصروف تھے۔
اندھیرا اتنا ہو گیا تھا کہ مجھے ان کی شکلیں نظر نہ آتی تھیں۔ بس دور سے یہ نظر آتا تھا کہ ان کی ڈاڑھیاں کافی بڑھی ہوئی ہیں۔ میں نے پلٹ کر ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھا۔ سورج پر سے بادل کے ٹکڑے اب ہٹ رہے تھے، اس کی آخری سنہری کرنیں گھنٹے پر پڑیں اور گھنٹے کے ساتھ ہی جب ان دونوں آدمیوں کے چہرے روشنی میں آئے تو حیرت کی ایک تیز چیخ میرے مونہہ سے نکل گئی۔ میں دیوانوں کی طرح اس طرف دوڑا۔۔۔ آپ پوچھیں گے کیوں؟۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ دونوں آدمی جان اور جیک کے علاوہ اور کوئی نہ تھے۔۔۔!

گھنٹے کی طرف دوڑنے سے پہلے میں نے اس بات کو بالکل بھی نہیں سوچا کہ میرے اس طرح میدان میں پہنچ جانے سے ہم سب دشمنوں کی نظروں میں آسکتے ہیں! یہ تو کوئی ایسا جذبہ تھا جس نے بھلائی اور برائی کی تمیز بالکل مٹا دی تھی۔ میرے پیچھے پیچھے اور سب بھی بھاگتے ہوئے آئے۔ جان اور جیک برابر اپنے کام میں مصروف تھے۔ گھنٹے کی آواز اتنی تیز تھی کہ کانوں میں بہت زیادہ روئی ٹھونس لینے کے باوجود بھی میرے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی۔
گھنٹے پر ضرب پڑتے ہی آس پاس کی سب چیزیں اس کی گونج سے ہل جاتی تھیں۔ ہم جان اور جیک کے بالکل پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ حالانکہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں مگر شاید انہوں نے ہمیں نہیں دیکھا۔ ہم سب نے مل کر انہیں آوازیں دیں، بچوں نے چلا چلا کر پاپا، پاپا پکارا مگر جان نے یہ آوازیں یا تو سنی ہی نہیں یا پھر جان بوجھ کر انجان بن گیا۔ میں نے اور قریب جا کر ان دونوں کی صورتوں کو غور سے دیکھا۔ ان کی ڈاڑھیاں بڑھی ہوئی تھیں اور ناف سے نیچے تک پہنچ رہی تھیں۔ ان کے کانوں سے خون بہہ رہا تھا۔ میرے خیال میں گھنٹے کی تیز آواز نے ان کے کانوں کے پردے پھاڑ دئے تھے۔ لباس ان کے جسم پر کوئی نہ تھا۔ وہ ننگے بدن تھے، بس ایک معمولی سا پھٹا ہوا جانگیہ پہنے ہوئے تھے۔ جسموں کو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ان پر لمبی لمبی دھاریاں پڑی ہوئی ہیں اور ان دھاریوں سے خون بہہ رہا ہے۔ یہ یقینا کوڑے سے لگائے ہوئے زخم تھے!

ان کی یہ حالت دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میری کیا حالت ہوئی ہو گی۔ میں نے پھر چلا کر آوازیں دیں۔ اختر اور نجمہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر چیخے مگر ان دونوں میں سے کسی نے بھی ہماری طرف نہیں دیکھا۔ مایوسی کے باعث میں دیوانہ ہو گیا۔ میں نے دوڑ کر وہ لمبا سا گرز جس سے جان گھنٹے کو بجا رہا تھا اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔ میری دیکھا دیکھی اختر نے بھی آگے بڑھ کر جیک کے ہاتھوں سے گرز چھین کر دور پھینک دیا۔ اس کے بعد میں جلدی سے جان سے لپٹ گیا اور اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔
"آپ کی یہ کیا حالت ہو گئی ہے۔۔۔ آپ کو کیا ہوا۔ آپ ہمیں پہچانتے کیوں نہیں؟"
مگر جان اب بھی خاموش تھا۔ میں نے پلٹ کر جیک کو دیکھا۔ وہ بھی چپ تھا۔ البتہ ایک بات میں نے محسوس کی۔ ان دونوں کے چہروں پر خوف جھلکنے لگا اور وہ بار بار پلٹ کر ان عجیب سے جھونپڑی نما مکانوں کو دیکھنے لگے۔
"آپ لوگ کیوں سہمے ہوئے ہیں۔ یہ گھنٹہ کس لئے بجا رہے ہیں۔ خدا کے لئے کچھ تو جواب دیجئے۔۔۔؟"
میں نے پھر بے قراری سے کہا:
"مجھے دیکھئے، میں فیروز ہوں۔ یہ اختر اور نجمہ ہیں۔۔۔ کچھ تو بولئے۔"
"پاپا۔۔۔ پاپا آپ کو کیا ہوا؟" اختر نے روتے ہوئے پوچھا۔
"آپ بولتے کیوں نہیں، جواب کیوں نہیں دیتے؟" نجمہ نے جان کے ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:4

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں