ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 03 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-16

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 03


kali-dunya-siraj-anwar-ep03

پچھلی قسط کا خلاصہ :
سمندر میں سفر کے دوران ایک دن سوامی نے آگاہ کیا کہ اسٹیمر کے نچلے حصے میں کوئی دشمن چھپا ہوا ہے۔ جب فیروز، بلونت اور سوامی نے تلاشی لی تو پتا چلا کہ فیروز کی دونوں اولادیں نجمہ اور اختر وہاں چھپے ہوئے ہیں۔ پھر فیروز نے وائرلیس سیٹ کے ذریعے فون کر کے اپنی بیوی زرینہ کو بچوں کے متعلق اطلاع دے دی۔ مگر فون پر گفتگو کے دوران اچانک فیروز کو لگا کہ زرینہ پر کوئی پریشانی آ پڑی ہے۔۔۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

"وہ تو ٹھیک ہے۔" سوامی جلدی سے بولا:
"لیکن سیارہ زہرہ سے آئے ہوئے وہ لمبے لوگ!"
"ان کا میں نے کیا بگاڑا تھا۔ جو انہوں نے کہا تھا میں نے اس پر عمل کیا تھا۔" میں نے فوراً جواب دیا۔
"تو پھر آخر یہ کیا بات پیدا ہو گئی ہے۔" بلونت نے پوچھا: "جب آپ سفر پر روانہ ہوئے تب ہی سے یہ باتیں شروع ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے تو سب ٹھیک ٹھاک تھا۔"
"یہی بات تو مجھے بھی پریشان کر رہی ہے۔" میں نے بے بسی سے دونوں ہاتھ ملتے ہوئے کہا "مجھے زرینہ کی طرف سے اب بہت فکر پیدا ہو گئی ہے۔"
"آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔ میں وائرلیس پر ابھی حکم دے دیتا ہوں کہ آپ کی کوٹھی کی کڑی نگرانی کی جائے، اور اگر ضرورت سمجھی جائے تو پولیس کی بھی امداد حاصل کی جائے۔۔۔ ٹھیک ہے!"
بلونت کو میں نے سر کے اشارے سے بتایا کہ ہاں یہ طریقہ درست ہے۔ بلونت ادب سے میرے سامنے جھک کر باہر چلا گیا۔ سوامی نے دونوں بچوں کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور پھر وہ سب بھی کیبن سے باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں اکیلا بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں۔ میری پریشانی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی اور سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے؟

میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ جو میری اس داستان کو پڑھ رہے ہیں ذرا خود انصاف سے کہیں کہ اس وقت میری حالت کتنی عجیب ہوگی! اس وقت تک کتنی ناقابل یقین باتیں پیش آ چکی تھیں۔ جان اور جیک کا کسی ویران جزیرے پر ایڑیاں رگڑنے کا جان لیوا خیال۔ اختر اور زرینہ کا کسی نامعلوم چیز کو دیکھ کر خوفزدہ ہونا اور پھر اب یہ تنہائی کی حالت۔۔۔ نہ کوئی منزل نہ کوئی رہبر۔۔۔ دور تک پھیلا ہوا نیلا سمندر۔۔۔ اس میں اٹھتی ہوئی اونچی اونچی لہریں۔ گہری اندھیری رات۔۔۔ میری حالت اس وقت قابل رحم تھی۔ نہ جانے میں کب تک یوں ہی سوچتا رہتا اگر نیند کو مجھ پر رحم نہ آ گیا ہوتا۔ اسی حالت میں بیٹھے بیٹھے میں سو گیا۔

نیند کی حالت میں انسان خواب تو دیکھتا ہی ہے۔ میں نے بھی عجیب عجیب خواب دیکھے۔ کبھی دیکھا کہ اپنی عالیشان کوٹھی میں آرام کر رہا ہوں۔ کبھی محسوس ہوا کہ ہزاروں بلائیں میری طرف بڑھ رہی ہیں۔ پھر ایسا نظر آیا کہ اپنے اسٹیمر کے کیبن میں تنہا بیٹھا ہوں کہ اچانک دروازہ کھلا اور ایک سفید سا دھواں اس کے راستے اندر داخل ہوا۔ اس دھوئیں نے آہستہ آہستہ شکل تبدیل کرنی شروع کی اور پھر کچھ ہی دیر بعد ایک ایسا خوف ناک اور ہیبت ناک انسان اس میں سے نمودار ہوا کہ میرا دل کانپ اٹھا۔ اس کا قد مشکل سے تین فٹ ہوگا۔ صورت ایسی ڈراؤنی کہ دیکھتے ہی پتہ پانی ہو جائے۔۔۔ شاید یہ بیداری کا عالم تھا یا خواب۔۔۔ مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کا رنگ گہرا سبز تھا۔ لباس اس کے جسم پر کوئی نہ تھا۔ بس ایک کھال سی تھی جو سبز رنگ کی تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور یوں لگتا تھا جیسے آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہوں۔ اس کے ہاتھ اور پیروں میں صرف دو دو انگلیاں تھیں۔ کان خرگوش کے کان سے بھی لمبے تھے اور سر چپٹا سا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھ پر دہشت طاری ہو گئی۔ اپنی دو انگلیوں سے جب اس نے میری طرف اشارہ کیا تو خوف کے مارے میری گھگی بندھ گئی اور میں نے ایک چیخ ماری۔۔۔ ۔۔۔
شاید اس چیخ کی آواز میرے کانوں نے بھی سنی تھی۔ یہ وہم نہ تھا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ڈر کے مارے میرا جسم کپکپا رہا تھا اور شاید پسینہ کی وجہ سے بھیگا ہوا بھی تھا۔ میری چیخ کی وجہ تھی یا کچھ اور۔۔۔ میں نے دیکھا کہ اختر اور نجمہ بھی ہوشیار ہو کر اپنے بستروں سے نیچے کود پڑے (میرے خیال میں جب میں سو رہا ہوں گا تو سوامی ان دونوں کو میرے کیبن میں لٹا گیا ہو گا) مگر یہ میری چیخ کا اثر نہیں تھا۔ یہ تو کچھ اور ہی بات تھی۔ اور جب میں ںے اپنے حواس اکٹھے کئے تو مجھے محسوس ہوا کہ اسٹیمر بری طرح ڈول رہا ہے۔ میرے کیبن میں پڑا ہوا بہت سا سامان اپنے آپ ہی کبھی اس طرف سے اُس طرف اور کبھی اس کونے سے اس کونے تک لڑھکتا جا رہا تھا۔ اچانک شاید کوئی زوردار جھٹکا لگا اور میری آرام کرسی خود بخود اتنے زور سے پھسلی کے کیبن کی دیوار سے جا کر ٹکرائی۔ اس ٹکر سے چوٹ تو مجھے بھی لگی مگر معمولی سی۔۔۔ فوراً ہی میں کرسی سے کھڑا ہو گیا، مگر کھڑے ہوتے ہی میرا توازن قائم نہ رہ سکا۔ اگر میں دیوار کا سہارا نہ لے لیتا تو بری طرح گرتا۔ اختر اور نجمہ ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے، اور دونوں نے کیبن کے ایک طرف بنا ہوا زینہ پکڑ رکھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اختر چیخنے لگا۔ خود میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ بات کیا ہے؟ مگر جو بات تھی وہ فوراً ہی سوامی کے اندر آنے سے ظاہر ہو گئی۔ وہ پانی میں شرابور تھا۔ ادھر اُدھر کے دروازوں اور دیواروں کو پکڑتا، لڑکھڑاتا ہوا وہ اندر داخل ہوا اور چلا کر کہنے لگا۔
"مالک! بڑا زبردست طوفان ہے۔ اتنا بڑا طوفان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔۔۔"
"طوفان کب آیا۔۔۔؟" میں نے چیخ کر پوچھا۔ چیخنا یوں پڑا کہ دروازے کے کھلنے کے ساتھ ہی زبردست شور بھی اندر آنے لگا تھا۔
"ابھی کچھ دیر پہلے" سوامی نے بھی چلا کر جواب دیا "سمندر کی خوف ناک لہریں ہمارے اسٹیمر کے اوپر سے ہو ہو کر جا رہی ہیں مالک۔۔۔ مجھے تو آثار اچھے نظر نہیں آتے۔۔۔"
"پھر اب کیا ہوگا۔۔۔؟"
"میں حفاظتی کشتی تیار کرا رہا ہوں۔ آپ ضروری سامان، ہتھیار وغیرہ لے کر بےبی اور بابا کے ساتھ باہر آ جائیے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں اسٹیمر چھوڑنا پڑے۔ طوفان نے اس کی چولیں تک ہلا ڈالی ہیں۔ آپ صرف ضروری سامان لے لیجئے۔ باقی اہم چیزیں میں نے پہلے ہی سے کشتی میں رکھوا دی ہیں۔ آپ جس طرح۔۔۔"

ہوا کا زور دار اور پرشور ریلا اندر آیا جس کی وجہ سے مجھے سوامی کی باقی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں۔ ہوا کا یہ ریلا کیبن کی کھڑکی توڑتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔ سوامی کی باتیں میں سمجھ چکا تھا۔ میں جان گیا تھا کہ ایک بہت بڑا خطرہ اپنا بھیانک مونہہ کھولے ہماری طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ مگر اب یہ وقت سوچنے سمجھنے کا نہیں تھا۔ میں نے جلدی جلدی اپنا ضروری سامان سمیٹا۔ لڑکھڑاتے، ڈگمگاتے، کبھی دیواروں اور ساز و سامان سے ٹکراتے ہوئے میں نے یہ سامان پلاسٹک کے تھیلوں میں بھرا۔ نجمہ اور اختر سے کہا کہ وہ دونوں بھی کپڑے اور جو کچھ ان کی سمجھ میں آئے اپنے ساتھ لے لیں۔ اختر کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے۔ کہاں تو وہ ڈر کے مارے چلا رہا تھا۔ مگر جیسے ہی اس نے خطرے کو محسوس کیا فوراً ہی اس میں جیسے کسی نے چابی بھر دی۔ اس نے بڑی مشکل سے لکڑی کے زینے کو چھوڑا اور پھر لڑکھڑاتا ہوا کیبن کے فرش پر چلنے لگا۔ کئی بار وہ گرا بلکہ ایک بار تو بالکل میری ہی طرح کیبن کی دیوار سے جا ٹکرایا۔ شاید اس کے چوٹ بھی لگی، مگر اس نے پروا نہ کی۔ ٹارچ ، کپڑے، پھل اور دوسری ایسی ہی چیزیں اس نے جلدی جلدی تھیلوں میں بھریں۔ ایک تھیلا نجمہ کو دیا اور دوسرا خود اٹھایا اور پھر چلا کر مجھ سے کچھ کہا۔ بپھرے ہوئے سمندر کے شور کی وجہ سے اس کی آواز تو مجھے سنائی نہیں دی۔ البتہ ہونٹوں کے ہلنے سے میں نے اتنا سمجھ لیا کہ وہ شاید باہر نکلنے کو کہہ رہا ہے۔
سمندر کی جو لہریں کیبن کے اوپر سے ہوکر گزر رہی تھیں ان کے تھپیڑوں کی وجہ سے لکڑی کی چھت اور دیواروں میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ گئی تھیں، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اچھے خاصے بڑے سوراخ ہو گئے تھے تو غلط نہ ہو گا۔ ان سوراخوں سے پانی بری طرح اندر گر رہا تھا۔ کیبن کے فرش کی نالیاں پتلی تھیں اس لئے پانی جلدی باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ نتیجہ کے طور پر اندر فرش پر ایک حوض بن گیا تھا۔ کیبن کا سامان اب اس حوض میں تیر رہا تھا اور یہ سامان کبھی شمالی دیوار سے جا ٹکراتا اور کبھی جنوبی دیوار سے۔ اس طرح دیواریں بھی ٹوٹ رہی تھیں اور سامان بھی۔ نجمہ کا پاؤں پھسلا تو وہ بھی اس حوض میں ہچکولے کھانے لگی۔ میں نے دوڑ کر اسے پکڑا۔ اپنی چوٹوں کی فکر نہ کرتے ہوئے میں نے دونوں بچوں کو سنبھالا اور پھر ٹوٹے ہوئے دروازے سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسٹیمر کی حالت یہ تھی گویا بس اب پلٹ جائے گا۔ میں الفاظ میں اس وقت کی حالت بیان نہیں کر سکتا مگر امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ جو اس داستان کو پڑھنے میں منہمک ہیں میری اس وقت کی مصیبت کا اندازہ اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔

جوں توں کر کے ہم تینوں ڈیک پر آئے۔ ملاح ادھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ یکایک اندھیرا ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ بجلی بنانے والے جنریٹر خراب ہو گئے ہیں۔ اس گھپ اندھیرے میں اب کچھ نظر نہ آتا تھا۔ بلونت نہ جانے کہاں تھا۔ سوامی بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ اندر کیبن میں ایک فائدہ یہ تھا کہ ہوا کم تھی۔ مگر یہاں آ کر محسوس ہوا جیسے ہوا اسی مقام سے پیدا ہو کر پوری دنیا میں پھیلتی ہے۔ ایسی تیز ہوا کہ معلوم ہوتا تھا بس ہم اب اڑے اور جب اڑے! ہوا کے ساتھ طوفانی لہریں گزوں اونچائی سے اسٹیمر کو ہلاتی ہوئی ہمارے سروں پر سے گزر جاتیں۔۔۔ میرے خدا! اب بھی وہ وقت یاد آتا ہے تو دل کانپ جاتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں!
طوفان اور ہواؤں کی تیزی کا حال بیان کر کے میں اپنی اس آپ بیتی کو بلاوجہ لمبا نہیں کرنا چاہتا۔ بس یوں سمجھئے کہ طوفان ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا، ملاح اپنی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اور ہم تینوں رسی کے بنے ہوئے زینے کو پکڑے ادھر ادھر ڈول رہے تھے کہ اچانک سوامی کا ہاتھ میرے کندھے سے چھوا اور پھر اس نے پوری طاقت سے چلا کر کہا کہ کشتی تیار ہے، آپ لوگ اس میں جا کر بیٹھ جائیے۔ مجھے تو معلوم بھی نہ تھا کہ کشتی کس طرف ہے۔ سوامی ہی مجھے سہارا دے کر آگے آگے چلا۔ میرے پیچھے دونوں بچے تھے۔ ہم اندھوں کی طرح رستہ ٹٹول ٹٹول کر چل رہے تھے۔ مجھے تو کچھ معلوم نہ تھا کہ کدھر چل رہے ہیں۔ ایک جگہ پہنچ کر مجھے سوامی کی آواز کان میں سنائی دی۔ وہ کہہ رہا تھا:
"۔۔۔رسے کی سیڑھی نیچے لٹک رہی ہے اور اس کا دوسرا سرا کشتی کے اندر ہے۔ آپ اس کی مدد سے نیچے اتر جائیے۔ گھبرائیے نہیں، کشتی ڈوبے گی نہیں۔ اس کے ساتھ حفاظتی ڈنڈے لگے ہوئے ہیں۔۔۔"

میں نے اس کے کہنے پر عمل کیا۔ پہلے میں اترا اور پھر میرے بعد نجمہ اور پھر اختر۔ یہ کشتی اس قسم کی تھی کہ پانی اس میں ٹھہرتا نہیں تھا۔ ٹارچ سے روشنی ڈال کر میں نے دیکھ لیا کہ کافی سے زیادہ سامان سوامی نے اس میں رکھ دیا ہے۔ میں نے ایک دوسری آواز سنی۔ شاید سیڑھی پر سے سوامی نیچے اتر رہا تھا۔ مگر جب میں نے ٹارچ کی روشنی اس پر ڈالی تو معلوم ہوا کہ بلونت ہے۔ میں نے غصے سے چلا کر اس سے پوچھا کہ وہ اب تک کہاں تھا؟ شاید اس نے کوئی جواب دیا مگر شور کے باعث مجھے سنائی نہ دے سکا۔ ڈیک پر تو طوفان پھر بھی کم محسوس ہو رہا تھا۔ مگر یہاں چھوٹی سی کشتی میں تو میں ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے ہمیں جامنیں گھلانے کی ہنڈیا میں بند کر دیا ہے۔ تیز پانی کے تھپیڑے جسم پر چابکوں کی طرح لگتے تھے۔ نجمہ نے اختر کو لپٹا رکھا تھا اور بلونت نے سامان کو قرینے سے لگانا شروع کر دیا تھا۔ حالت یہ تھی کہ ہم میں سے جب بھی کوئی کھڑا ہوتا تھا فوراً ہی گر پڑتا تھا۔ طوفانی شور میں یکایک سوامی کی چیختی ہوئی آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اب وہ دوسری کشتی نیچے اتار رہا ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بلا سے اگر اسٹیمر غرق ہو جائے، سب آدمی تو بچ جائیں گے۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے اپنے تھیلے میں دو برساتیاں بھی رکھی تھیں۔ یہ خیال آتے ہی میں نے جلدی سے وہ برساتیاں نکال کر اختر اور نجمہ کی طرف بڑھائیں۔ جب میں برساتیاں ان دونوں کی طرف بڑھا رہا تھا تو ایک زوردار جھٹکا محسوس ہوا۔ میں اچانک گر پڑا اور میرا سر کشتی کے ڈنڈے سے ٹکرایا۔ اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں رہا کہ کیا ہوا۔۔۔؟

جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں آرام سے کشتی میں لیٹا ہوں اور میرے برابر نجمہ اور اختر بیٹھے ہیں۔ گیس کا لیمپ جل رہا ہے۔ طوفان اگرچہ کم ہو گیا ہے، مگر پھر بھی بہت زیادہ ہے۔ کشتی بری طرح سے ہچکولے کھا رہی تھی۔ میرا پورا جسم پانی میں بھیگا ہوا تھا، اور ہر جھٹکے کے ساتھ میں کبھی دائیں طرف مڑ جاتا اور کبھی بائیں طرف۔ بلونت میرے قدموں کی طرف بیٹھا ہوا پانی کی تیز بوچھاڑ سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا اور سوامی۔۔۔ مگر سوامی کہاں تھا؟۔۔۔ یہ خیال آتے ہی میں جلدی سے اٹھا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میں نے چھوٹی سی کشتی کے ہر کونے کو دیکھا ۔ گو ایسا کرتے ہوئے میری آنکھوں میں بڑی تکلیف ہوئی۔ سمندر کا نمکین پانی بوچھاڑ کے ساتھ آنکھوں میں سوئیوں کی طرح لگ رہا تھا۔ مگر میں نے کوشش کر کے ہر سمت غور سے دیکھا۔ سوامی کا اس کشتی میں کہیں پتہ نہ تھا۔ میں نے چلا کر بلونت سے پوچھا۔
"سوامی کہاں ہے۔۔۔؟"
بلونت نے تو کچھ جواب نہ دیا۔ البتہ اختر اور نجمہ بری طرح رونے لگے۔ میں نے ان کی طرف مڑ کر انہیں تسلی دیتے ہوئے سوامی کی گمشدگی کے بارے میں پھر پوچھا۔ اس پر اختر نے روتے ہوئے جواب دیا۔
"ابا جی۔۔۔ جس وقت آپ ہمیں برساتیاں دے رہے تھے تو ایک زوردار جھٹکا کشتی میں لگا تھا۔ اور وہ رسی ٹوٹ گئی تھی جس کے سہارے کشتی اسٹیمر سے بندھی ہوئی تھی۔ ہماری کشتی کو طوفانی لہریں ایک سیکنڈ میں نہ جانے کہاں لے گئیں۔ جب ہم نے غور سے دیکھا تو اسٹیمر کا دور دور پتہ نہیں تھا۔۔۔ اور اور سوامی چاچا اسی اسٹیمر میں تھے۔۔۔" اتنا کہہ کر وہ پھر زور زور سے رونے لگا۔

ہوش میں آنے کے بعد اس خوف ناک حقیقت کا انکشاف ہوا کہ میرا سب سے بڑا مددگار، میرے بچوں پر جان چھڑکنے والا سوامی اب مجھ سے بچھڑ گیا ہے۔ اسٹیمر کے بارے میں مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور ڈوب گیا ہوگا۔ اور ظاہر ہے کہ سوامی بھی اس کے ساتھ ہی سمندر کی تہہ میں پہنچ گیا ہوگا۔ مجھے شدت سے اس کی کمی کا احساس ہونے لگا۔ اپنی بےبسی اور لاچاری کا خیال کرتے ہی میرے آنسو نکل آئے اور پھر یہ آنسو سمندر کے نمکین پانی کے ساتھ مل کر بہہ گئے۔ لیمپ کی ٹھٹھری اور بھیگی روشنی میں مجھے نجمہ اور اختر کے چہرے غور سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جگہ جگہ ان پر خراشیں نظر آ رہی تھیں اور دونوں برساتیوں کے اندر سہمے اور سکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔ جن بچوں کو کبھی مصیبت اور تکلیف کا سامنا بھی نہ کرنا پڑا تھا۔ وہ اس وقت بے بسی کے عالم میں خوف زدہ بیٹھے ہوئے تھے!
طوفان تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ کم تو بے شک ہو گیا تھا۔ وہ اونچی اونچی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی لہریں اب حالانکہ نہیں اٹھ رہی تھیں۔ مگر ہوا کے تیز جھکڑ برابر جاری تھے۔ اگر سوامی نے کشتی کے ساتھ حفاظتی ڈنڈے نہیں لگا دئے ہوتے تو شاید میں اس وقت بیٹھا ہوا اپنا یہ سفرنامہ نہیں لکھ رہا ہوتا۔۔۔!

بچوں کو اس حالت میں دیکھ کر میرا دل کڑھنے لگا۔ اور پھر میں نے ان دونوں کو باری باری اپنے سینے سے لگایا۔ انہیں تسلی دی اور ان کی ڈھارس بندھائی۔ چونکہ اس سے پہلے بھی سمندری سفر کر چکا تھا اور ہر قسم کے خطروں کا عادی ہو چکا تھا۔ اس لئے مجھے کوئی زیادہ پریشانی نہیں تھی۔ ہاں اگر تھی تو بس یہ کہ سوامی موجود نہ تھا اور اب منزل کا مجھے کچھ علم نہ تھا۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مجھے کتنا عرصہ اسی حالت میں سمندر میں اور گزارنا تھا۔۔۔!
شاید صبح کے ساڑھے چار بج رہے تھے۔ بچوں کی آنکھوں سے نیند غائب تھی اور بار بار وہ بوچھاڑ سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بلونت شروع سے لے کر اب تک کشتی میں جمع ہو جانے والے پانی کو ایک بڑے ٹین کے ڈبے کی مدد سے باہر نکالنے میں مصروف تھا۔ اپنی واٹر پروف گھڑی میں وقت دیکھنے کے بعد میں نے اس سے کہا۔
"کیوں بلونت۔ تمہارے خیال میں اب ہم کہاں ہیں؟"
"میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔" بلونت نے جواب دیا "ایسی باتوں کا جواب تو صرف سوامی ہی دے سکتا تھا، مگر افسوس اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا۔۔۔"
"۔۔۔ہاں ٹھیک کہتے ہو۔۔۔" میں نے بڑی حسرت کے ساتھ کہا "کون جانے کہ ہمارا بھی یہی حشر ہو!"
"ایسا نہ کہئے۔۔۔ جب تک میں زندہ ہوں آپ کو ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہئیں۔۔۔"
"مجھے اپنی فکر نہیں بچوں کی ہے بلونت۔۔۔ تم نے ایک بار ٹھیک کہا تھا کہ ان دونوں کی وجہ سے ہمیں بڑی پریشانی اٹھانی پڑے گی۔۔۔ واقعی ان کا خیال مجھے بےچین کئے ہوئے ہے۔۔۔"
"نہیں ابا جی آپ ہماری فکر مت کیجئے، ہم ٹھیک ہیں۔" اختر نے بڑی بہادری کے ساتھ کہا "اگر کوئی کام ہمارے کرنے کا ہو تو بتائیے، ہم فوراً کریں گے۔۔۔"
"نہیں اختر۔۔۔ تم آرام کرو، ایسا کوئی کام نہیں ہے۔۔۔" بلونت نے جواب دیا۔
"کچھ دیر تک وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایک ہی سمت میں دیکھتا رہا اور پھر بولا۔
"ذرا دیکھئے گا۔۔۔ کہیں ادھر سے سورج تو طلوع نہیں ہو رہا۔۔۔؟"
میں نے پلٹ کر دیکھا تو واقعی آسمان اور سمندر جس جگہ مل رہے تھے وہاں ہلکی سی سفیدی نظر آ رہی تھی۔
"بالکل وہی ہے۔۔۔" بلونت نے خود ہی کہا "لیجئے اس سے ایک فائدہ تو ہوا، اب ہم کم از کم سمت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ ہم لوگ جنوب کی طرف جا رہے ہیں۔۔۔"
"سمت کا اندازہ کرنے سے کیا ہوتا ہے بلونت۔۔۔" میں نے چلا کر جواب دیا۔ "سمت معلوم کرنے کے آلے اور نقشے تو اسٹیمر ہی میں رہ گئے۔ اب تو ہمیں یہ بھی امید نہیں کہ ہم کسی ساحل سے لگیں گے بھی یا نہیں۔۔۔!"

بلونت خاموش ہو گیا۔ شاید وہ میری باتوں پر غور کر رہا تھا۔ مشرق کی طرف سفیدی آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔ اور اب اس سفیدی کے بیچ میں نارنجی رنگ کی جھلک بھی نظر آ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد سورج طلوع ہونے والا تھا۔ مگر میری امیدوں کا سورج ڈوب چکا تھا۔ میں نے اختر اور نجمہ کو دیکھا، وہ دونوں بھی بار بار مشرق کی طرف دیکھ رہے تھے۔ طوفان اب دھیرے دھیرے کم ہو رہا تھا۔ لہریں اب اونچی نہیں اٹھ رہی تھیں۔ ہوا کے تیز جھکڑ بھی بند ہونے لگے تھے۔ یہ دیکھ کر ذرا ہمت پیدا ہونے لگی۔ جیسے کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں میں تو ان خطروں کا عادی تھا۔ یہ تکلیفیں برداشت کرنے کی قوت مجھ میں پہلے سے موجود تھی۔ رات کو طوفان اور بھیانک اندھیرے نے مجھے بے شک سہما دیا تھا۔ مگر جوں جوں دن نکل رہا تھا، توں توں میرا حوصلہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ اختر اور نجمہ بھی اب الگ الگ ہو کر بیٹھ گئے تھے۔
آسمان پر سمندری پرندے منڈلانے لگے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آس پاس ہی کہیں کوئی زمین موجود تھی۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ ہمیں بالکل علم نہ تھا کہ کدھر اور کس طرف ہے؟ اپنا معاملہ اب میں نے خدا کے سپرد کر دیا تھا کیوں کہ ایسے وقت اس سے بڑا مددگار کوئی نہیں ہوتا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ قسمت اب جس طرف لے جائے گی، اسی سمت چلا جاؤں گا۔ جان اور جیک کا خیال سچ بات تو یہ ہے کہ میرے دل سے عارضی طور سے دور ہو چکا تھا۔ اس وقت تو اپنی پڑی ہوئی تھی۔
کھانے کا سامان ہمارے پاس خاصا تھا اور پینے کا پانی بھی۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہوں گے کہ سمندر کا پانی بہت کھاری ہوتا ہے اور پینے کے قابل نہیں ہوتا، اس لئے پینے کا پانی لکڑی کے پیپوں میں بھرا ہوا تھا اور کشتی میں دو بڑے پیپے موجود تھے۔ اپنی تکلیفیں اور مصیبتیں بیان کر کے میں آپ سب کو جو اس داستان کو ذوق و شوق سے پڑھ رہے ہیں افسردگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا اگر میں لکھنے بیٹھوں تو ایسے کئی سو صفحے بھی ناکافی ہوں گے۔ مختصراً اتنا عرض کروں گا کہ شاید ایک یا ڈیڑھ ہفتے تک ہم اس کشتی میں سفر کرتے رہے۔ ہمارے سامنے سورج سمندر میں سے بار بار نکلا اور ڈوبا۔ پانی کا اب صرف ایک پیپہ باقی رہ گیا تھا۔ البتہ کھانے کے لائق چیزیں بالکل ختم ہو چکی تھیں۔ اختر اور نجمہ بھوکے رہ رہے تھے۔ وہ کوشش کرتے کہ مجھ پر ظاہر کریں کہ وہ بھوکے نہیں ہیں۔ مگر باپ کی نظروں سے ان کے پژمردہ چہرے کس طرح چھپ سکتے تھے۔ میں بڑا پریشان تھا، کم زوری آہستہ آہستہ بڑھنے لگی تھی اور میں یہ سوچ سوچ کر پاگل ہوا جا رہا تھا کہ اب کیا ہوگا۔۔۔؟

آخر ایک وقت ایسا آ گیا جب کہ ہم سب مردوں کی طرح کشتی میں لیٹ گئے۔ ہم میں ہلنے جلنے کی بھی سکت نہ رہی۔ گدھ ہمارے اوپر منڈلانے لگے۔ سورج کی تیز کرنوں نے ہمارے جسم جھلسا دئے تھے۔ ہماری کھال جگہ جگہ سے پھٹ گئی تھی اور کئی مقام پر تو اس میں سے خون بھی رسنے لگا تھا۔ ایک دن ہم نے پھر اسی طرح گزارا۔۔۔ رات بھی جوں توں گزر گئی۔۔۔ اس سے اگلا دن بڑا امتحانی دن ثابت ہوا۔ کشتی اپنے آپ ہی بہہ رہی تھی، سورج نکل رہا تھا اور ہماری کھالوں میں جلن سی ہونے لگی تھی۔ بھوک کی وجہ سے محسوس ہوتا تھا کہ بس اب دم نکلا اور اب نکلا۔۔۔!
بچوں کو دیکھ دیکھ کر میرے دل کا خون ہوا جا رہا تھا۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں۔ آواز مونہہ سے نہیں نکل سکتی تھی، بس میں نے صرف آنکھیں اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں دعا مانگی۔ خدا سے گڑگڑا کر التجا کی کہ الٰہی! میرے معصوم بچوں پر رحم کر۔۔۔ اگر ہمیں اسی طرح مرنا ہے تو ایسی بے کسی کی موت نہ دے۔۔۔ میرے بچوں کے بدلے میری جان لے لے۔۔۔ اور نہ جانے اس کے علاوہ کیا کیا دعائیں مانگیں۔۔۔ اور پھر دعائیں مانگتے مانگتے ہی کمزوری کے باعث میری گردن ایک طرف ڈھلک گئی، اچانک مجھے تیز اور کرخت چیخ جیسی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے اوپر دیکھا تو خوں خوار گدھوں کی ایک ٹولی ہم سب کی طرف اپنے تیز پنجے اور نوکیلی چونچ بڑھائے چلی آ رہی تھی۔ میں نے کراہ کر ایک چیخ ماری اور پھر بے ہوش ہو گیا!

شاید وہ کسی سخت تکلیف کا ہی احساس تھا جس کی وجہ سے مجھے ہوش آ گیا اور ہوش میں آنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایک گدھ میرے سینے پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کی نوکیلی چونچ میں شاید میرے ہی سینے کی بوٹی ہے۔ اس خیال نے کہ گدھ ہم زندہ انسانوں کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، مجھے پھر سے زندہ کر دیا۔ نہ جانے میرے جسم میں اچانک کہاں سے طاقت آ گئی! ہو سکتا ہے کہ اپنی موت کو سینے پر بیٹھے دیکھ کر میں نے بچاؤ کی ایک آخری کوشش کی ہو۔ بہر حال ہوا یہ کہ میں تھوڑا سا کسمسایا۔ مجھے ہلتے دیکھ کر وہ گدھ ایک چیخ مار کر اڑ گیا اور اس کی دیکھا دیکھی باقی سب گدھ بھی اڑ گئے۔ میرے سینے پر جلن ہو رہی تھی اور خون بہہ بہہ کر میرے پورے جسم پر پھیلتا جا رہا تھا۔ جب اپنی جان بچ گئی تو میں نے دوسروں کی طرف دیکھا بلونت بھی شاید بے ہوش تھا۔ اس کے شانے پر سے گدھوں نے بوٹیاں نوچی تھیں اور میں اب اس کا زخم صاف طور سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے پلٹ کر اختر اور نجمہ کو دیکھا۔ وہ دونوں آدھ مرے سے کشتی میں ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے لیٹے تھے۔ نجمہ کا ہاتھ اس کی آنکھوں پر تھا۔ شاید گدھوں کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اس نے ان سے بچنے کے لئے اپنی آنکھیں ڈھک لی تھیں۔ نجمہ نے چوں کہ اختر کو چمٹا رکھا تھا اس لئے اختر تو محفوظ تھا البتہ نجمہ کے اس ہاتھ پر مجھے ایک سوراخ سا نظر آ رہا تھا۔ شاید گدھ اپنی چونچ سے ہاتھ میں سوراخ ہی کر سکا تھا۔ بوٹی اڑانے کا موقع اسے نہیں مل سکا، کیوں کہ اتنی دیر میں میں ہوش میں آ ہی گیا تھا!

بھوک کی وجہ سے میں اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو ہاتھ پاؤں میں معلوم ہوا کہ دم ہی نہیں ہے! آواز میرے حلق سے نکل ہی نہیں رہی تھی۔ میں نے آخری کوشش کرتے ہوئے نجمہ کو پکارا۔
خدا کا شکر ہے کہ آواز صاف نکلی اور نجمہ نے سن لی۔ اس نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کا بھی وہی حشر ہوا جو میرا ہوا تھا۔ یعنی کمزوری کی وجہ سے وہ بھی اپنی جگہ سے نہ ہل سکی۔ میرے سینے پر بہتا ہوا خون دیکھ کر بس اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ میں نے سمجھ لیا کہ بس اب یہ آخری لمحات ہیں۔ نہ ہم لوگ بول سکتے ہیں نہ ہل سکتے ہیں۔ گدھ اوپر منڈلا رہے ہیں اور دور دور تک پانی ہی پانی ہے۔
مگر یہ خیال آتے ہی جب میں نے پانی پر نظر دوڑائی تو یہ دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کہ کچھ ہی دور کے فاصلے پر پانی کی بجائے لمبے لمبے درخت نظر آرہے ہیں۔۔۔! یقیناً یہ کوئی جزیرہ تھا، یہ دیکھ کر مجھے اور اطمینان ہوا کہ ہماری کشتی خود بخود اسی جزیرے کی طرف جا رہی ہے۔ اگر کسی طرح ہم لوگ زمین تک پہنچ گئے تو پھر ہم بچ سکتے ہیں۔ اس خیال نے مجھ میں پھر سے زندگی پیدا کر دی۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے جسم میں پھر سے طاقت آ گئی ہے۔ جوں توں کر کے میں اٹھا اور بلونت کے قریب پہنچ کر اسے جگانے کی کوشش کرنے لگا۔ ساتھ ہی میں نے نجمہ کو اس سمت اشارہ کیا تاکہ وہ بھی زمین دیکھ لے۔۔۔ زمین تھی یا کوئی جنت! نجمہ اسے دیکھتے ہی پھول کی طرح کھل گئی اور اختر کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی۔
بلونت کو بڑی دیر میں ہوش آیا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے پہلے تو اس نے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر جلدی سے اپنے شانے کو پکڑ لیا۔ گدھوں نے اس کے شانے پر سے شاید کافی گوشت نوچ لیا تھا اس لئے اسے تکلیف زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے میں نے اس سے کہا۔
"بلونت دیکھو۔۔۔ وہ دیکھو، ہم زمین تک آگئے۔"

ان الفاظ میں پتہ نہیں کیا جادو تھا کہ بلونت اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میں چپو چلاؤں۔ میں نے اس کے کہنے پر عمل کیا، مگر جب اس نے دیکھا کہ مجھ اکیلے سے چپو نہیں چلتے تو خود بھی دوسرے چپو لے کر بیٹھ گیا۔ مجھے اس کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے کہ زخمی بازو سے بھی اس نے اتنی جلدی جلدی چپو چلائے کہ کشتی آہستہ آہستہ ساحل سے قریب ہوتی گئی۔ شاید آپ سب ہماری اس وقت کی حالت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
اگر آپ پر ایسی بپتا پڑے (خدانخواستہ) تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہم پر وہ وقت کتنا کٹھن گزرا! جسموں میں طاقت نہ تھی۔ حلق سوکھے ہوئے تھے۔ شورے کے پانی نے گوشت کو انگلیوں پر سے گلا دیا تھا۔ مگر زمین کو سامنے دیکھ کر ہم میں اتنی طاقت آ گئی تھی کہ شاید رستم میں بھی نہ ہوگی!

میں چپوؤں کو زور زور سے چلا رہا تھا کہ اختر بھی جلدی سے میرے پاس ڈگمگاتا ہوا آ بیٹھا اور اس نے بھی اپنے دونوں ہاتھ چپوؤں پر رکھ کر زور لگانا شروع کر دیا۔ مجھے اختر کی اس حرکت پر بڑا پیار آیا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ہماری مستقل جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک وقت ایسا آ گیا جب کہ ہماری کشتی ایک نا معلوم زمین کے ساحل سے لگ گئی۔ جیسے ہی کشتی ساحل کے ریت میں پھنسی ہم سب اس میں سے کود پڑے اور پانی میں چھپاکے اڑاتے ہوئے گیلے اور نرم ریت پر جا کر گر گئے اور گرتے ہی بےہوش ہو گئے۔
جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ ہمارے چاروں طرف عجیب نسل کے بندر بیٹھے ہوئے ہمیں اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ہم ان کے لئے بہت ہی عجیب و غریب چیز ہوں۔ مجھے کروٹ لیتے دیکھ کر وہ جلدی سے خوں خوں جیسی آوازیں نکالتے ہوئے دور جا بیٹھے۔ میں نے جب غور سے اس جگہ دیکھا جہاں وہ پہلے بیٹھے ہوئے تھے تو خوشی کے باعث میرے مونہہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکلی کیونکہ دو ٹوٹے ہوئے ناریل وہاں پڑے تھے۔ بندروں کا ایک جوڑا شاید یہ ناریل وہاں بیٹھا ہوا کھا رہا تھا۔ میں نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر وہ ناریل اٹھا لئے اور پھر بری طرح ان کو نوچ نوچ کر کھانے لگا۔
اچانک مجھے بچوں کا خیال آیا۔ بھوک اور مصیبت میں انسان اپنے ہوش و حواس کھو دیتا ہے! میرے بچے بھوکے تھے اور میں ناریل انہیں کھلانے کی بجائے پہلے خود کھا رہا تھا!
میں نے اپنے اوپر لعنت بھیجی اور سینے کے بل گھسٹتا ہوا نجمہ کی طرف پہنچا۔ میں نے اسے جگانے اور ہوش میں لانے کی کوشش کی مگر وہ ہوش میں نہ آئی۔ آخر میں نے ناریل کا تھوڑا سا میٹھا پانی اس کے حلق میں ٹپکا دیا۔ ایسا کرنے سے اسے فوراً ہوش آ گیا۔

اپنے سفر کے لباس کے اندر میں ایک شکاری چاقو رکھنے کا عادی ہوں۔ اس وقت بھی وہی چاقو کام میں آیا۔ میں نے جلدی سے ناریل کے کئی ٹکڑے کئے اور پھر نجمہ کو دئے۔ نجمہ نے ناریل کا پانی باری باری اختر اور بلونت کے حلق میں ٹپکایا۔ ان دونوں کو بھی ہوش آ گیا۔ مگر اتنے سے ٹکڑوں سے بھلا ہماری بھوک کب مٹتی؟
یہ سوچ کر میں نے بندروں کو اشارہ کیا کہ وہ اور ناریل لائیں۔ مگر بندر انسان تو تھے نہیں کہ میری بات سمجھ جاتے! وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے ہمیں دیکھتے رہے۔ میں نے دوبارہ اشارہ کیا تو ان میں سے ایک غرا کر میری طرف لپکا۔ میں جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ بندر لمبے لمبے لنگوروں جیسے تھے اور ان میں سے ہر ایک کا قد اختر کے برابر تھا۔ نجمہ اور اختر انہیں دیکھ کر خوفزدہ تو ہو گئے تھے مگر ان دونوں میں اتنی طاقت ضرور آ گئی تھی کہ وہ اٹھ سکتے تھے۔ وہ جلدی سے میرے پیچھے ہو گئے۔

جیسا کہ آپ پہلے بھی پڑھ آئے ہیں۔ اختر اور نجمہ دونوں ابھی تک برساتیاں پہنے ہوئے تھے۔ جیسے ہی وہ دونوں کھڑے ہو کر میرے پیچھے آئے بندر شاید ان کی برساتیوں سے ڈر کر جلدی سے اونچے اونچے ناریل کے درختوں پر چڑھ گئے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا، برساتی جیسی چیز سے بھلا ڈرنے کی کیا بات!
مگر جانور کس چیز سے ڈرتے ہیں اور کس سے نہیں، یہ بھلا میں کس طرح جان سکتا تھا۔ انہیں درختوں پر چڑھتے دیکھ کر اچانک مجھے بچپن میں پڑھی ہوئی ایک کہانی یاد آ گئی، جو ایک سوداگر کی تھی، جس کی ٹوپیاں بندر لے کر درختوں پر چڑھ گئے تھے اور پھر سوداگر کی عقل مندی سے وہ سب ٹوپیاں اسے واپس مل گئی تھیں۔ میں نے سوچا کہ لاؤ ایسا کر کے دیکھتا ہوں۔
اپنے شکاری چاقو کو ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ کر میں درخت کی طرف چلا اور ساتھ ہی ایک بڑے سے ناریل کا خول اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لیا۔ درخت کے نیچے پہنچ کر میں نے وہ خالی ناریل بندروں کو دکھا کر زمین پر دے پٹخا۔ پہلے تو کچھ نہیں ہوا۔ بندر مجھے اسی طرح دانت نکال کر دیکھتے رہے لیکن میرے دوبارہ ایسا کرنے پر انہوں نے درخت سے ناریل توڑ توڑ کر میری طرف پھینکنے شروع کر دئے۔ میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا، جس نے وقت پر مجھے یہ ترکیب سجھائی۔
ہم سب نے آرام سے بیٹھ کر ناریل کھائے اور ان کا پانی پیا اس طرح ہماری بھوک مٹ گئی۔
جب پیٹ بھر گیا تو جسم کے ہر حصے پر لگی ہوئی چوٹ ہری ہونے لگی۔ ہر ایک کو اپنے اپنے زخم نظر آنے لگے۔ ہم نے پہلے تو آپس میں ایک دوسرے کی مرہم پٹی کی (کشتی میں ضرورت کا سب سامان موجود تھا اور یہ سوامی کی عقل مندی کی وجہ سے تھا)۔
اور اس کے بعد بیٹھ کر یہ سوچنے لگے کہ ہم کہاں ہیں، یہ کون سا جزیرہ ہے اور یہ بھی کہ ہمیں بمبئی سے چلے ہوئے کتنے دن ہو چکے ہیں؟۔۔۔ اس کے بارے میں کہ ہم کہاں ہیں، کسی کو بھی علم نہ تھا۔ جزیرے کی بابت بھی ہم میں سے کوئی بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کون سا جزیرہ تھا۔ ہاں البتہ سورج کے اترنے اور چڑھنے سے ہم یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ بمبئی سے چلے ہوئے ہمیں ایک ماہ سے بھی کچھ زیادہ ہی ہو چلا تھا۔۔۔!


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:3

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں