صحت و تندرستی کی حفاظت - مومن سے مطلوب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-26

صحت و تندرستی کی حفاظت - مومن سے مطلوب

health-fitness

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
" یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے ہی بنی آدم کو عزت اور اکرام سے سرفراز فرمایا اور انہیں خشکی و تری پر سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت دی۔"
(بنی اسرائیل:70)

ایک اور مقام پر فرمایا: " وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین کا خلیفہ بنایا ہے۔
(الانعام:165)

یہ ارشادات مبارکہ واضح دلیل ہیں کہ صحت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ، ایک امانت اور ذمہ داری بھی ہے۔ لہٰذا صحت کی قدر کرنا اور اس کی حفاظت کرنا لازمی ہے۔ صحت کے بارے میں معمولی سی غفلت بڑے نقصان کا باعث، اللہ تعالیٰ کی ناشکری کے مترادف ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کا اصل جوہر اس کا شعور، عقل ، عقیدہ اور ایمان ہے اور اسی پر جسم کی صحت اور تندرستی کا مدار ہے۔ دینی فرائض منصبی جس میں دنیا کے سارے امور بھی داخل ہیں نیز اخلاقی تقاضے پورے کرنے کے لئے اچھی صحت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
کمزور اور مریض شعور و دماغ جسم کو بھی کمزور کر دیتا ہے جس کی کارکردگی بھی حوصلہ شکن ہوتی ہے۔ جب زندگی امنگوں ، ولولوں اور حوصلوں سے محروم ہو اور ارادے کمزور اور جذبات سرد و مضمحل ہوں تو انسان مایوسی کا شکار ہو کر معاشرہ کا ناسور بن سکتا ہے۔ یہ زندگی کا زیاں اور اللہ تعالیٰ کی سخت ناشکری ہوگی۔ مومن کو کارہائے نبوت یعنی اقامت دین کے فرائض منصبی اور خلافت ارضی کی جس عظیم ذمہ داری کی سعی کرنی ہے، اس کے لئے لازمی ہے کہ اعلیٰ دماغی و جسمانی صحت و قوت ہو، مضبوط ارادے ، بلند حوصلے، پرجوش ولولے اور اعلیٰ جذبات ہوں۔
ایسے ہی افراد سے زندہ قومیں بنتی ہیں جو دنیا میں اپنا مقام پیدا کرتی ہیں اور آخرت میں سرخ رو ہوتی ہیں۔ ہمیشہ پر عزم، خوش و خرم، ہشاش بشاش اور چاق و چوبند رہئے۔ سوچ و فکر بلند رکھئے اور مثبت سوچ، رویہ اور طرز زندگی کو اپنائیے۔ مسکراہٹ اور زندہ دلی سے زندگی کو آراستہ کرتے رہیں۔ غم و غصہ، رنج و فکر، حسد، جلن بد خواہی، بد کلامی اوربد ظنی سے دور رہئے۔ یہ سب معدے کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ معدے کا فساد صحت کا بدترین دشمن ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: "سیدھے سادے رہو، میانہ روی اختیار کرو اور ہشاش بشاش رہو۔"
(مشکوۃ المصابیح)
سیدنا عبداللہ ابن حارث ؓ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ سے زیادہ مسکرانے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔ (ترمذی)
اس حوالہ سے نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو جو دعا سکھائی اس کا ہمیں اہتمام کرنا چاہئے۔
اللھم اعوذ بک من الھم والحزن والعجز والکسل وضلع الدین وغلبۃ الرجال
"اے ہمارے اللہ! میں اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں پریشانی سے ، غم سے، بیچارگی سے، سستی و کاہلی سے، قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ کو دبا لیں۔"
(بخاری و مسلم)

اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم کلام میں واضح انداز سے بیان فرمایا ہے کہ انسان اپنی صحت اور تندرستی کو بہتر بنائے اور اس کا خاص خیال رکھے ، چنانچہ قرآن حکیم میں کئی مقامات پر اس حوالے سے ہمیں ہدایات ملتی ہیں۔ مثلاً:
"اے لوگو کھاؤ جو کچھ ہم نے تمہارے لئے زمین میں اگایا ہے حلال و طیب اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، کہ یہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
(البقرہ:168)

سنت رسول ﷺ ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ ہم اچھی صحت کے حامل ہوں اور اس نعمت عظیم کی قدر کریں جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
"ایک قوی مومن بہتر ہے اللہ کے نزدیک ایک کمزور مومن کے مقابلہ میں جب کہ دونوں میں اچھائی ہے۔"
(بخاری)


ایک مومن کا قوی ہونا کئی اعتبار سے مطلوب ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے:
رسول اکرم ﷺ نے اس ارشاد میں یقینا جسمانی قوت کی جانب توجہ دلائی ہے۔ ایک قوی مومن ہی بہتر انداز سے اللہ کی فرض کی ہوئی عبادات اور بندگی رب کے تقاضے ادا کر سکتا ہے۔

دور حاضر کے ایک سعودی عالم شیخ صالح آل فوزان نے صحت اور تندرستی اور اس کا تعلق ہمارے ایمان اور عمل سے ان کلمات میں بیان فرمایا ہے:
ایک قوی مومن جو اپنے ایمان، عقیدہ اور جسمانی اعتبار سے قوی ہوتا ہے ، وہ لا محالہ عمل اور نتائج کے اعتبار سے بھی اچھا ہوگا اس مومن کے نسبت جو عقیدہ، جسم اور عمل کے اعتبار سے کمزور ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ایک مسلم اپنے قوی ایمان اور عقیدہ اور عمل سے مفید نتائج حاصل کرلیتا ہے لہٰذا یہ حدیث مبارک حفظان صحت اور تندرستی کے تعلق سے نہایت ہی قابل فکر اور عمل کا داعیہ رکھتی ہے۔ اسلام ایک قوی، پر وقار اور روشن دین ہے۔ اس اعتبار سے جو قوت اسلام کو ہم سے مطلوب ہے ، وہ قوت ایمانی، قوت عمل اور قوت جسم ہے جو مفید اور تعمیری نتائج کا باعث ہوتی ہے۔

اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کی نظر میں صحت اور تندرستی، قوت اور چاق و چوبند رہنا نہایت ہی قابل قدر اور مطلوب ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
"تم اپنے بچوں کو تیراکی، تیر چلانا اور گھوڑ سواری سکھاؤ۔"
یہ ارشاد مبارک اور اس کی شرح واضح دلیل ہے کہ جسمانی صحت، تندرستی اور چاق و چوبند رہنا وہ قابل قدر اوصاف ہیں جو اسلام ایک مومن میں دیکھنا چاہتا ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی سے ایک موقع پر فرمایا کہ تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے۔
اس سے مراد ہے کہ ہم اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں اور اسے نقصان دہ عوامل سے بچائیں تاکہ رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان پر عمل ہو سکے۔

اچھی صحت اور تندرستی کے ضمن میں ہمارا دین سب سے پہلے شعور، ذہن اور قلب کی پاکیزگی یعنی تزکیہ کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ تزکیہ نفس ہی ہے جو ہمارے شعور، جسم اور ماحول کو صاف و شفاف رکھتا ہے۔ تزکیہ میں دو عوامل کار فرما ہوتے ہیں، ایک کسی شئے کے بنیادی عنصر کو نقصان دہ عوامل سے بچانا اور دوسرے یہ کہ اسے پروان چڑھانا۔ تزکیہ کا عمل ہمہ گیر ہے،، اس کے حصول کا آسان طریقہ تعلق باللہ ہے ، یعنی قرات قرآن اور سنت کا باقاعدہ اور متعین مطالعہ ، فرائض کی پابندی اور منکرات سے اجتناب اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی سعی ہے۔
یہ عمل فقط ایک بار کرنے کا نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے جس کی پابندی سے مشق ضروری ہے۔ ایک صحت مند ذہن ہی صحت مند خیالات ، رویہ، اخلاق اور مثبت سوچ کو جنم دے سکتا ہے لہٰذا ہم اس کی فوری مشق کریں اور عہد کریں کہ ہم اپنے ذہن، جسم اور ماحول کو پاک اور صاف رکھنے کی پوری طرح سعی کرتے رہیں گے۔

صحت مند جسم کے لئے صفائی ضروری ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔ دانتوں کو صاف رکھنا حفظان صحت کے لئے لازمی ہے اس لئے کہ دانت گندے رہنے سے مختلف انواع کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپ ﷺ نیند سے بیدار ہوتے تو مسواک سے اپنے دانت صاف کرتے۔
(بخاری و مسلم)
آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں اپنی امت کے لئے شاق نہ سمجھتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ (ابوداؤد)

پورے جسم، لباس، اور ماحول کی پاکی، طہارت اور نظافت کا پورا پورا اہتمام لازمی ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ ان لوگوں کو محبوب بناتا ہے جو بہت زیادہ پاک و صاف رہتے ہیں (التوبہ)

سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
" ہر مسلمان پر اللہ کا یہ حق ہے کہ ہفتے میں ایک دن غسل کیا جائے اور سر اور بدن کو دھویا جائے۔" (بخاری)

معاشرے کے افراد کی صحتمندی کا راز گرد و نواح کے ماحول کی پاکیزگی میں پنہاں ہے۔ آپ کی شخصیت ، آپ کا گھر اور کام کرنے کے مقامات صاف ستھرے ہوں۔ ایک گندہ ماحول گھر اور دفتر کو مکدر بنادے گا اور باہر کی غلاظت کے تعفن سے آپ کی شخصیت اور آپ کی رہائش بھی متعفن ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اگر آپ کے محلہ یا شہر میں وبائی امراض پھیل گئے ہیں اور آپ نے اپنے گھر میں حفظان صحت کا کلی اہتمام ہی کیوں نہ کرلیا ہو مگر شہر کی وبا کی لپیٹ میں آئے بغیر آپ کا گھر انہ نہیں رہ سکتا۔

غذا اور کھانے کے آداب وہ موضوعات ہیں جن پر قرآن اور سنت کی روشنی میں جدید طب میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ دنیا کے ماہرین غذانیت نے اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ واقعی اسلام نے جہاں انسانی زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں رہنمائی مہیا کی ہے وہاں اس نے ان موضوعات کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا ضرورت ان پر عمل پیرا ہونے کی ہے۔

صحت مند رہنے کے لئے اسلام کا دوسرا اصول ہے کہ صحت مند، حلال اور متوازن غذا کا اہتمام کیا جائے۔ اس حوالے سے قرآن پاک میں کثرت سے ہدایات ملتی ہیں، مثلاً:
"اے ایمان والو! کھاؤ طیب جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اور اللہ کا شکر بجالاؤ اگر واقعی تم اس کی ہی عبادت کرتے ہو۔"
(البقرہ:172)

"اس(اللہ) نے تمہارے لئے جانور پیدا کئے جن میں تمہارے لئے سردی سے بچنے کا اون، منافع اور کھانے کی خوراک ہے۔"
(النحل:5)

"وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کردیا جس میں سے تم تازہ گوشت حاصل کرتے ہو۔"
(النحل:14)

"وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان (انگوری باغ) اور نخلستان پیدا کئے، کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کئے جن کے پھل ، صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں ، کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فضل کاٹو اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"
(الانعام:141)

"پھر وہی(اللہ) ہے جس نے مویشیوں میں وہ جانور پیدا کئے جن سے سواری و بار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں ، کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔"
(الانعام:142)

اللہ تعالیٰ نے وہ اشیاء ماکولات اور مشروبات وغیرہ حرام قرار دی ہیں جو بنی نوع انسان کی صحت اور ماحول کے لئے مضر ہیں، مثلاً:
"تم پر حرام کیا گیا مردار، خون، سور کا گوشت ، وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ، جو گلا گھونٹ کر یا چوٹ کھاکر یا بلندی سے گرا ہو یا ٹکر کھا کر مرا ہو، جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کیا ہو اور وہ جو کسی آستانہ پر ذبح کیا گیا ہو، نیز یہ کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو، یہ سب افعال فسق ہیں۔"
( المائدہ:9)

اس کے علاوہ دیگر اشیاء اور افعال جو ممنوع ہیں ان کا تفصیل سے ذکر سنت رسول ﷺ میں ملتا ہے ، مثلاً تمباکو نوشی، وہ اشیاء کو دماغ کو مخمور کر دیں ممنوع قرار دی گئی ہیں۔ اطباء حضرات اور محققین کرام وثوق سے لکھتے ہیں کہ جدید دور کے پاور ڈرنک، کشید شدہ مشروبات ، کشید شدہ ٹن میں بند ماکولات، معجونات، عصیرات وغیرہ اور فاسٹ فوڈ کی کثیر انواع غذائیت سے خالی ہوتی ہیں اور ان کا زیادہ استعمال جسم پر مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔
اچھی صحت کے لئے حلال اور متوازن غذاکے ساتھ کھانے کے آداب، طریقہ ور مقدار کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس بارے میں واضح رہنمائی ہمیں رسول اکرم ﷺ کی سیرت اور تعلیمات سے ملتی ہیں۔

کھانا وقت پر کھانا چاہئے ، یعنی خوب بھوک لگنے پر اور جب بھوک باقی ہوتو رک جائیے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
مومن ایک آنت کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ (ترمذی)
صحت مندی کا دارومدار معدے کی صحت پر ہے اور زیادہ کھانے سے معدہ خراب ہوجاتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
معدہ بدن کے لئے ایک حوض کے مثل ہے اور رگیں اس حوض سے سیراب ہوتی ہیں پس اگر معدہ تندرست ہوگا تو رگیں بھی صحت سے سیراب ہوں گی اور اگر معدہ ہی بیمار ہو تو رگیں بیماری چوس لیں گی۔ (بیہقی)

سادہ اور ہلکا کھانا مفید ہوتا ہے جو جلد ہضم ہوجائے اور جس سے زیادہ سے زیادہ توانائی ملے۔ دستر خوان پر اعتدال سے خوشی اور نشاط سے کھانا کھانا چاہئے اور ابتداء اللہ کے نام سے ہو اور اختتام اس کے شکر کے ساتھ جیساکہ ہمارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ یعنی کچھ دیر آرام اور رات کے کھانے کے بعد تھوڑی چہل قدمی کی سنت سے رہنمائی ملتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد فوری کوئی سخت قسم کا دماغی یا جسمانی کام ہرگز نہ کریں کہ یہ اکثر صحت کے لئے مضر واقع ہوتا ہے جیسا کہ ماہر اطباء کرام کا مشورہ ہے۔

***
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 17/فروری 2012۔

Protecting Health and Fitness - Required by the Muslim Believer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں