ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 02 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-04

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 02


kali-dunya-siraj-anwar-ep02

پچھلی قسط کا خلاصہ :
فیروز اپنے بمبئی کے آفس کی مصروفیت اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ آرام دہ زندگی گزار ریا تھا کہ اچانک اسے ایک دن دفتر پر ایک آدمی کے ذریعے جان کا خط ملا۔ جان اور جیک ایک غیرآباد جزیرے میں پھنس چکے تھے۔ زخمی تھے اور تکلیفیں برداشت کرنے کی قوت ختم ہو چکی تھی۔ جان نے فیروز سے کہا کہ وہ ان دونوں کو بچانے جلد نکلے۔ یہ خط پڑھتے ہی سوامی اور بلونت کے ہمراہ اپنا ذاتی اسٹیمر تیار کروا کر فیروز سمندر کے سفر پر نکل پڑا۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

"کیا بات ہے؟" میں نے پوچھا۔
"مالک!۔۔۔ میں یہ پوچھنے حاضر ہوا ہوں کہ اب کیا کیا جائے؟" اس نے دریافت کیا "یہ تو مجھے معلوم ہے کہ آپ کی کوئی منزل نہیں ہے، مگر میں ملاحوں سے کیا کہوں کہ ہمیں کون سی سمت مقرر کرنی ہے، کدھر جانا ہے؟"

بات معقول تھی، درحقیقت سمندر میں آ جانے کے بعد مجھے اب ملاحوں کو بتانا ہی تھا کہ انہیں کس طرف جانا ہے، مگر کاش! مجھے خود معلوم ہوتا کہ مجھے کہاں جانا ہے؟ سوامی سے میں نے یہی کہا کہ مجھے نہیں معلوم۔
"پھر۔۔۔ پھر کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسٹیمر میں بھرا ہوا پٹرول بے کار اِدھر ادھر گھوم کر ضائع کر دیا جائے۔ کیوں کہ اس صورت میں تو یہی ہوگا۔۔۔" سوامی نے پوچھا۔
"ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔" میں نے آرام کرسی سے اٹھ کر کیبن میں ٹہلتے ہوئے کہا:
"میں نے بہت سوچا ہے سوامی، مگر مجھے خود معلوم نہیں کہ وہ جزیرہ کون سا ہے جہاں جان اور جیک موجود ہیں۔ میں تو اب یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ زندہ ہیں۔ کون جانے کہ جب ہم وہاں پہنچیں تو ہمیں ان دونوں کے پنجر ہی ملیں۔ مگر جیسا کہ میرا عقیدہ ہے اور جیسا کہ میرے ساتھ پچھلے سفر میں ہوا ہے۔ خدا ہی ہر مصیبت میں میرا مددگار رہا۔ ہو سکتا ہے کہ کل صبح ہونے پر خدا ہی ہمیں کوئی راستہ دکھائے! فی الحال تم یہ کرو کہ نقشہ دیکھ کر آس پاس جو بھی غیر آباد جزیرے ہوں انہیں کھوجنا شروع کر دو۔ باری باری ہر جزیرہ تلاش کرنے پر ہو سکتا ہے کہ جان کا کوئی سراغ مل جائے!"
"آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں" سوامی نے خوش ہو کر کہا:
"کچھ تو معلوم ہوا کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے، میں ابھی ملاحوں کو حکم دے دیتا ہوں۔۔۔"
وہ جانے کے لئے مڑا ہی تھا کہ کیبن کا دروازہ پھر کھلا اور بلونت اندر داخل ہوا۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ کوئی خاص بات ہوئی ہے جو وہ یوں گھبرایا ہوا اندر آیا ہے۔ پہلے اس نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اس کے بعد جلدی سے لکھنے کی میز پر جا بیٹھا۔ اور جلدی جلدی اس نے ایک کاغذ پر کچھ لکھنا شروع کیا۔ مگر لکھتے ہوئے وہ برابر بولتا بھی رہا۔
"رات ہو گئی ہے۔ آپ کہیں تو آپ کے لئے کھانا منگوایا جائے۔"
"نہیں بلونت۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ میری بھوک اڑ گئی ہے۔۔۔" میں نے اس کی بات سمجھ کر جواب دیا۔
مجھے بڑی حیرت تھی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ کوئی خاص بات ہوئی ہے۔ کسی کو سنانے کی خاطر بلونت خواہ مخواہ بول رہا ہے مگر جو بات اسے کہنی ہے وہ اسے کاغذ پر لکھ رہا ہے۔ میرا یہ خیال درست ثابت ہوا، بلونت نے جلدی سے وہ کاغذ میری طرف بڑھا دیا اور کہنے لگا۔
"رات اب ٹھنڈی ہو جائے گی۔ موسم کافی خوش گوار ہو گیا ہے۔۔۔"
اتنا کہہ کر اس نے مجھے دیکھا، پرچہ میں پڑھ چکا تھا اور اب مجھے بڑی حیرت تھی کہ آخر یہ کیا ہوا۔۔۔۔؟ پرچے پر بلونت نے صرف اتنا لکھا تھا:
"خبردار۔۔۔ اسٹیمر کے نچلے حصے میں کوئی موجود ہے۔ اس کے قدموں کی آواز میں نے سنی ہے۔۔۔"
بلونت کا دیا ہوا پرچہ پڑھتے ہی میں چوکنا ہو گیا۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ وہ یہ بات سوامی کو بھی بتا دے اور جب بلونت نے سوامی کے کان میں آہستہ سے نئے خطرے کی بابت بتایا تو اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ حملہ کرنے سے پہلے شیر کی جو حالت ہوا کرتی ہے، وہی اس کی ہوئی۔ اس کے بازوؤں کی مچھلیاں تن گئیں۔ سیاہ چہرے پر خون جھلکنے کی وجہ سے چہرہ ہلکا نیلا سا ہو گیا۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر میرے کان میں کہا۔
"بلونت نے ٹھیک کیا اور بڑی ہوشیاری سے کام لیا۔ آپ پستول نکال لیجئے، اتنے میں ڈیک پر جا کر خلاصیوں کو اس خطرے کی بابت بتاتا ہوں۔"
"پاگل ہوئے ہو!" میں نے جلدی سے اس کا بازو پکڑ کر اسے روکا۔۔۔
"خلاصیوں کو کچھ مت بتاؤ۔ صرف ہم تینوں ہی اسٹیمر کے نچلے حصے میں چلیں گے اور معلوم کریں گے کہ ہمارا کون سا نیا دشمن پیدا ہو گیا ہے۔"
سوامی کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور پھر اس نے کسی کو سنانے کی خاطر اونچی آواز سے کہا۔
"میں نے خانساماں سے کہہ دیا ہے، وہ کھانا لے کر ابھی آتا ہے۔۔۔"
"اچھا۔۔۔ ٹھیک ہے۔" میں نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔

اس کے بعد ہم تینوں پنجوں کے بل چلنے لگے، میں نے اپنا پستول ہاتھ میں لے لیا۔ بلونت نے ایک لمبا اور خوف ناک چاقو اور سوامی نے نیزہ تھام لیا۔ اس کے بعد ہم تینوں دبے دبے پاؤں رکھتے ہوئے کیبن سے باہر آئے۔ کیبن کے بالکل برابر ہی وہ زینہ تھا جو اسٹیمر کے نچلے حصے تک جاتا تھا۔ اس حصے میں مختلف قسم کا سامان رکھا جاتا تھا۔ خلاصی بھی اسی میں رہتے تھے، یا اگر یوں کہا جائے کہ وہ حصہ ایک طرح کا گودام تھا تو غلط نہ ہو گا۔۔۔ سب سے آگے میں تھا، میرے پیچھے سوامی اور پھر بلونت۔ بغیر کوئی کھٹکا پیدا کئے یا بغیر کسی آواز کے ہم لوگ آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگے۔ ایک لمحہ کے لئے میں نے رک کر کوئی آواز سننے کی کوشش کی۔ بلونت نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا۔ واقعی کسی کے کھٹر پٹر کرنے کی آواز آ رہی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ آواز دراصل اس شخص کے قدموں کی تھی۔ اندر پڑی ہوئی چیزوں کو پاؤں سے روندتا ہوا وہ شخص چھپنے کے لئے کوئی محفوظ جگہ تلاش کرتا پھر رہا تھا۔ اب ہم لوگ اسٹیمر کے نچلے حصے کے بالکل بیچ میں کھڑے ہوئے تھے۔ اچانک کسی کے کھسر پھسر کرنے کی آواز آئی۔۔۔ ہم پھر چوکنے ہو گئے۔ پہلی بار ہم نے کسی کو بولتے ہوئے سنا تھا اسی سے ہم نے اندازہ لگا لیا کہ وہاں دو آدمی ہیں۔ کیوں کہ اکیلا آدمی اپنے سے ہی تو نہیں بول سکتا۔۔۔ بات کرنے کے لئے کسی دوسرے آدمی کی ضرورت لازمی ہوتی ہے۔ یہ سوچ کر میں نے اشارے سے سوامی اور بلونت سے کہا کہ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر بجلی جلا دیں۔ وہ دونوں میرے اس اشارے کو سمجھ کر آگے بڑھے اور پھر فوراً ہی انہوں نے بجلی جلا دی۔ کھسر پھسر کی آوازیں ایک دم بند ہو گئیں اور ساتھ ہی میں نے چلا کر کہا۔
"خبردار۔۔۔ جو کوئی بھی ہے فوراً باہر آ جائے ورنہ برا حشر ہوگا۔"
نہ تو کوئی آواز آئی اور نہ کوئی باہر آیا۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ایک چال چلنے کی سوچ لی اور کہا۔
"میں نے تمہیں دیکھ لیا ہے۔۔۔ فوراً باہر آ جاؤ ورنہ گولی مار دوں گا۔"
یکایک ایک کونے میں رکھے ہوئے بارود کے ڈبوں کے پیچھے سے کوئی نکل کر باہر آیا اور ساتھ ہی اس نے چلا کر کہا "نہیں نہیں ابا جی۔۔۔ گولی مت مارئیے، ہم دونوں ہیں اختر اور نجمہ۔"
"ارے تم۔۔۔!" میں نے حیرت سے کہا "تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"
"ہمیں معاف کر دیجئے ابا جی، ہم چوری چھپے یہاں آ گئے تھے۔" اختر نے جواب دیا۔
"مگر بیٹا تم آئے کیوں؟ تمہیں معلوم نہیں کہ ہم ایک لمبے اور خطرناک سفر پر جا رہے ہیں۔" سوامی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
دونوں بچے اس سے آ کر لپٹ گئے۔ سوامی نے ہی انہیں پالا تھا، اس لئے وہ ہمیشہ ان دونوں کا پارٹ لیتا تھا۔
"مجھے معلوم تھا سوامی چاچا۔ میں نے ابا جی کا پچھلا سفر نامہ (خوفناک جزیرہ) پڑھا تھا۔"
اختر نے رک رک کر اور مجھے کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
"اس سفر میں انہوں نے بڑی تکلیفیں اٹھائی تھیں اور انہیں بڑے عجیب عجیب لوگ ملے تھے۔ لمبے لمبے دیو اور پتھر کے محافظ۔ خوف ناک مکھی اور چکنی زمین۔۔۔ مجھے۔ مجھے بھی ایسی مہموں میں حصہ لینے کا بہت شوق ہے چاچا، اسی لئے میں اسٹیمر میں آ کر چھپ گیا تھا۔"
"مگر تم نجمہ کو اپنے ساتھ کیوں لے کر آئے؟" بلونت نے غصے سے پوچھا۔
"میں۔۔۔ میں تو خود آئی ہوں، اختر اکیلا آتا، یہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میں اس کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتی۔" نجمہ نے جلدی سے اپنی صفائی پیش کی۔
"مگر تم نے یہ نہیں سوچا کہ تمہاری ماں بھی تمہارے بغیر ایک پل زندہ نہیں رہ سکتی ہے۔۔۔" میں نے چلا کر کہا۔ جب اسے معلوم ہوگا کہ تم دونوں گھر پر نہیں ہو تو جانتے ہو اس کا کیا حال ہوگا۔۔۔ تم نے تو اسے یہ بھی نہیں بتایا ہوگا کہ تم میرے ساتھ سفر پر جا رہے ہو!۔۔۔ بتایا تھا؟"
"جی نہیں۔" نجمہ نے ندامت بھرے لہجے میں جواب دیا۔
"خیر مالک اب ان دونوں کو کیا کہنا۔۔۔" سوامی نے پھر ان کا پارٹ لیتے ہوئے کہا: "اب تو یہ آ ہی گئے ہیں، اب کیا ہو سکتا ہے۔ مسٹر جان کو ڈھونڈنے کے بعد ہم ان دونوں کو اسٹیمر میں واپس بھیج دیں گے۔ اسٹیمر انہیں پہنچا کر واپس آجائے گا۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔" میں نے کچھ نرم ہو کر کہا:
"مگر میں انہیں اس کی سزا ضرور دوں گا۔ جب بھی مجھے اس کا موقع ملا۔ یہ بتائے دیتا ہوں۔۔۔"
"چلو تم دونوں اوپر چلو۔۔۔" سوامی نے اختر اور نجمہ کو پیار سے ڈانٹ کر کہا۔
وہ دونوں جب مسکراتے ہوئے اوپر جانے لگے تو بلونت نے مجھ سے کہا۔
"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ نجمہ کو اختر کے ساتھ آنے کی کیا ضرورت تھی۔ نجمہ لڑکی ہے اور کسی نہ کسی وقت ہمیں مصیبت میں مبتلا کر سکتی ہے!"
"خیر تم فکر نہ کرو۔" میں نے کہا۔
"جان اور جیک کو تلاش کرنے کے بعد ہم انہیں واپس بھیج دیں گے۔"

مگر جیسا کہ آپ آگے دیکھیں گے، تقدیر کھڑی ہم پر ہنس رہی تھی۔ کاش مجھے معلوم ہو جاتا کہ آگے میرے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ بلونت نے نجمہ کی آمد کو جو اچھی نظر سے نہیں دیکھا تھا، یہ راز اس وقت تو مجھے معلوم نہ ہوسکا مگر آئندہ پیش آنے والے واقعات بتائیں گے کہ بلونت نے کیوں یہ بات کہی تھی اور نجمہ کی موجودگی سے مجھے کیا نقصان اور کیا فائدے پہنچے!
اسٹیمر کے نچلے حصے میں کھانے پینے کا سامان تو زیادہ تھا ہی اس لئے دونوں بچوں کو تکلیف تو کچھ نہیں ہوئی البتہ ان کے کپڑوں کا بندوبست کرنا مشکل ہو گیا۔ کیوں کہ نچلے حصے میں ہر طرح کا سامان تھا، رنگ روغن ، کوئلہ اور چونا وغیرہ۔ بچوں کے ادھر ادھر چھپنے کی وجہ سے ایک تو ان کے کپڑے کئی جگہ سے پھٹ گئے تھے دوسرے بہت زیادہ دھبے بھی پڑ گئے تھے۔ میں نے ان دونوں کو اپنے کیبن میں بھیج دیا، جہاں وہ میرے رات کے کپڑے پہن کر بیٹھ گئے اور پھر چند ملاحوں نے جلدی جلدی ان کے کپڑے دھو دئے، سوامی نے ان پر استری کر دی اور بچوں نے کپڑے دوبارہ پہن لئے، مگر اس ذرا سی تکلیف نے مجھے یہ احساس دلا دیا کہ اگر اتفاق سے سمندر میں زیادہ دنوں کے لئے رہنا ہو گیا تو پھر میں ان کے لئے کپڑوں کا بندوبست کیسے کروں گا؟ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ بلونت بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔

رات معمول کے مطابق کافی ٹھنڈی تھی۔ چاند نکلا ہوا تھا اور اس کی ٹھنڈی چاندنی آسمان کی طرف اچھلتی ہوئی لہروں پر پڑ رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے ہزاروں چاندنی کی مچھلیاں آسمان کی طرف لپک رہی ہیں۔ سمندر میں جوار بھاٹا آ رہا تھا اور اس کی وجہ سے ہمارا اسٹیمر آہستہ آہستہ ڈولنے لگا تھا۔ اسٹیمر میں بجلی بنانے کے جنریٹر بھی تھے اس لئے بجلی کے بلب ہر جگہ لگے ہوئے تھے۔ دور سے اگر کوئی ہمارے اسٹیمر کو دیکھتا تو اسے ایسا لگتا جیسے کوئی خوبصورت محل تیر رہا ہو! نجمہ اور اختر میرے کیبن میں چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے۔ شاید اب وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی ماں کا ان کے بغیر کیا حال ہو رہا ہوگا۔ میں نے ان دونوں کو دیکھا تو محبت سے میرا دل بھر گیا۔ میں ان کے قریب پہنچا اور میں نے نجمہ سے کہا۔
"کیوں نجمہ۔۔۔ کیا دل گھبرا رہا ہے؟"
"ہاں ابا جی۔۔۔ مجھے امی یاد آ رہی ہیں۔ نہ جانے ان کا کیا حال ہوگا؟"
"خیر اب جو ہو گیا سو ہو گیا۔۔۔ تم فکر مت کرو، کل صبح تک ہم تمہارے پاپا کو ضرور ڈھونڈ لیں گے اور اس کے بعد بمبئی واپس چلیں گے۔۔۔" میں نے اس کے سر پر محبت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
جان کو وہ دونوں پاپا کہتے تھے۔ یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے کل صبح تک ہم انہیں ڈھوند نکالیں ان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں اور وہ خوش ہو گئے۔ اختر نے مجھ سے جھجکتے ہوئے کہا۔
"ابا جی۔۔۔ ہم ذرا باہر ڈیک پر ہو آئیں۔۔۔ یہاں دل گھبرا رہا ہے۔۔۔"
"ہاں ہاں جاؤ۔۔۔ ضرور جاؤ۔۔۔"

میں تو اتنا کہہ کر جنوبی سمندروں کا نقشہ دیکھنے لگا اور وہ دونوں باہر چلے گئے۔ نقشہ تو میں سہ پہر سے دیکھتا آ رہا تھا، مگر ابھی تک مجھے معلوم نہ ہو سکا تھا کہ جان کون سے جزیرے میں ہو سکتا ہے۔ میں نے سوامی کو اپنے پاس بلا کر پوچھا:
"تمہارے خیال میں کہیں ایسا تو نہیں کہ جان اسی ابھرنے اور ڈوبنے والے جزیرے میں پہنچ گئے ہوں جہاں ہم لوگ ایک بار اپنے پچھلے سفر میں گئے تھے۔"
"وہی جزیرہ جہاں ہمیں زہرہ کے لوگ ملے تھے۔۔۔" سوامی نے ہاتھ پھیلا کر کہا "اتنے لمبے لمبے، جو بالکل دیو معلوم ہوتے تھے!"
"ہاں۔۔۔"
"ہو سکتا ہے کہ آپ کا خیال صحیح ہو۔۔۔ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمیں اب اسی جزیرے کو تلاش کرنا چاہئے۔۔۔"
"مسٹر جان اپنے پرچے میں یہ اور لکھ دیتے کہ وہ کس چیز کی تلاش میں نکلے تھے تو ہمارا کام آسان ہو جاتا۔ اب تو ہم لوگ محض اندھیرے میں تیر مار رہے ہیں۔" میں ںے دونوں ہاتھ ملتے ہوئے کہا.
"ویسے دیکھئے کل صبح کیا ہوتا ہے۔ نقشے کے مطابق تو ہم اس سمندر میں آ گئے ہیں جہاں کچھ غیر آباد جزیرے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے ہی کسی جزیرے میں جان ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ابھرنے اور ڈوبنے والا جزیرہ ہی ہو!" سوامی نے نقشہ دیکھتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک کہتے ہو سوامی۔۔۔" میں نے ایک آہ بھر کر جواب دیا:
"کون جانے کہ اب جان وہاں زندہ ہوں گے یا مردہ۔۔۔ ممکن ہے ہمارے پہنچنے پر ہمیں ہڈیوں کا ایک پنجر ہی ملے!"

میں ابھی اتنا ہی کہنے پایا تھا کہ اچانک میرے کیبن کا دروازہ کھلا اور اختر دوڑتا ہوا اندر داخل ہوا۔ مگر کس حالت میں؟ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے اس کا تمام خون نچوڑ لیا ہے۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آنکھیں خوف کی وجہ سے پھٹی ہوئی تھیں اور ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ اس کے چہرے کی دہشت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اس نے کوئی بہت ہی خوفناک چیز دیکھی ہے۔ آتے ہی وہ یکایک ایک جگہ رک کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا اور پورا جسم بیری کی طرح لرز رہا تھا۔ وہ کوشش کر رہا تھا کہ کچھ بولے مگر معلوم ہوتا تھا کہ بہت زیادہ ڈر کی وجہ سے اس کے بولنے کی طاقت عارضی طور پر ختم ہو چکی ہے۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میں گھبرا گیا اور فوراً اس کی طرف اسے سنبھالنے کے لئے لپکا۔ سوامی بھی اختر کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر سہلاتے ہوئے بولا۔
"بابا۔۔۔ بابا۔۔۔ کیا بات ہے؟"
"اختر۔۔۔ کیا ہوا بیٹے، ہوش میں آؤ۔۔۔ کیا بات ہے؟" میں نے اسے فوراً اپنے سینے سے لگا لیا۔ مگر اختر مجھے پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتا رہا۔ میرا دل بے چین ہو گیا۔ میرے پیارے بیٹے کی یہ حالت کس طرح ہو گئی۔ کیا ہوا اسے؟ آخر اس نے ایسی کون سی چیز دیکھ لی ہے جس کی دہشت سے اس کا یہ حال ہو گیا ہے! میں نے اس کی ہتھیلیوں کو سہلایا۔ شفقت اور محبت کا ہاتھ اس کے سر پر پھیرا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ اختر کی آنکھیں جو لگاتار ایک ہی سمت دیکھ رہی تھیں، اب اس مقام سے ہٹ کر مجھے دیکھنے لگیں اور مجھے دیکھتے ہی وہ ایک زور کی چیخ مار کر میرے سینے سے بری طرح لپٹ گیا۔
"ابا جی۔۔۔ ابا جی، مجھے بچائیے۔۔۔"
"کیا ہوا۔۔۔ کیا بات ہے؟" میں نے گھبرا کر کہا۔
"ابا جی۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ غائب ہو گیا۔۔۔ میری نظروں کے سامنے غائب ہو گیا۔۔۔" خوف کے مارے اختر پھر بری طرح لرزنے لگا۔
"کون غائب ہو گیا۔۔۔" میں نے حیرت سے کہا: "اختر کیا کہہ رہے ہو۔ تم نے کیا چیز دیکھی ہے؟"
"کیا ہوا کیا بات ہے؟" بلونت جو کسی کام سے شاید کیبن کے باہر گیا ہوا تھا۔ اختر کی آوازیں سن کر اندر آ گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے نجمہ تھی۔
"کیا ہوا بھیا کو۔۔۔" اس نے آتے ہی پوچھا: "یہ تو ڈیک پر ایک ایک کمرے کو جھانکتا ہوا پھر رہا تھا۔ ابا جی۔۔۔ کیا ہوا اسے۔۔۔ اس کا چہرہ تو بالکل سفید پڑا ہوا ہے!"
"اختر۔۔۔" میں نے تقریبا چلا کر پوچھا: "تم بولتے کیوں نہیں۔ کس کا ذکر کر رہے تھے تم۔۔۔؟"
"وہ۔۔۔ وہ غائب ہو گیا۔۔۔" اختر کی آنکھیں اچانک پتھرانے لگیں اور وہ زمین پر گرنے لگا۔ بلونت اور سوامی نے اسے ہاتھوں سے سہارا دیا اور زمین پر لٹا دیا۔ میری آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا۔۔۔ میرے خدا یہ کیا ہو رہا ہے! میرے بچے کو کیا ہوا۔۔۔ میرا ننھا سا اختر، میرا بچہ۔۔۔!
"اختر۔۔۔ کیا بات ہے، آنکھیں کھولو۔۔۔ کیا ہوا تمہیں!" بلونت نے بڑی محبت سے پوچھا۔
اختر کی آنکھیں پھرنے لگی تھیں۔ اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ اس کے مونہہ سے بس اتنی آواز اور نکلی۔
"ابا جی۔۔۔ وہ۔۔۔ غا۔۔۔ ئب۔۔۔"
اور اس کے بعد وہ بے ہوش ہو گیا۔ ہم سب کے لئے یہ بات ایک معمے سے کس طرح کم نہ تھی۔ سوامی اختر کو نجمہ کی مدد سے اٹھا کر اس کے بستر پر لٹانے لگا اور ادھر میں سوچنے لگا کہ آخر یہ سب کیا ہے۔ اختر اچھا خاصا تھا مگر اب اسے کیا ہوا۔ کس کے بارے میں یہ کہہ رہا ہے کہ وہ غائب ہو گیا۔ یقیناً اس نے کوئی خطرناک چیز دیکھی ہے۔۔۔ مگر وہ چیز آخر ہے کیا۔۔۔؟
میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک میرے وائرلیس سیٹ کا بزر بجنے لگا۔ سوامی نے جلدی سے آگے بڑھ کر سوئچ آن کر دیا۔۔۔ سیٹ سے آواز آئی:
ہیلو ٹی۔ کے۔ ٹونٹی۔۔۔ ٹی۔ کے۔ ٹونٹی۔۔۔
ٹی۔ کے۔ ٹونٹی میرے اسٹیمر کا خفیہ نام تھا اور اب میں سمجھ گیا تھا کہ کوئی مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے۔
بلونت یہ آواز سنتے ہی جلدی سے وائر لیس سیٹ کے قریب پہنچ گیا اور ریسیور اپنے کان سے لگا کر بولا:
"یس۔۔۔ اٹ از ٹی۔ کے۔ ٹونٹی۔ ٹی۔ کے۔ ٹونٹی۔"
"آفس سے آپ کے لئے پیغام ہے سر۔۔۔ بمبئی آفس سے سر۔۔۔" سیٹ سے آواز آئی۔

یہ سنتے ہی میری جان میں جان آئی۔ پہلے میرا خیال تھا کہ شاید یہ پیغام کسی نامعلوم جہاز کی طرف سے ہے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ ان دنوں سمندروں میں بحری قزاقوں کا بہت زور تھا۔ یہ لوگ ڈاکو تھے اور سمندر میں ادھر اُدھر بھٹکنے والے جہازوں کو گھیر کر انہیں لوٹ لیا کرتے تھے۔ مردوں اور بوڑھوں کو قتل کر دیتے تھے اور عورتوں کو غلام بنا کر لے جاتے تھے۔ بعد میں ان عورتوں کو ان علاقوں میں بیچ دیتے تھے جہاں چوری چھپے بردہ فروشی (عورتوں کی تجارت) ہوتی تھی۔ میرا خیال یہی تھا اور بمبئی سے چلنے کے بعد مجھے ہر وقت یہی خطرہ لگا ہوا تھا کہ کہیں ہمارے اسٹیمر کی مڈبھیڑ ان بحری قزاقوں سے نہ ہو جائے۔اب یہ معلوم کر کے مجھے اطمینان ہوا کہ یہ پیغام میرے بمبئی کے دفتر سے وائرلیس ڈیپارٹمنٹ نے بھیجا ہے۔
میرے اس اسٹیمر میں، جیسا کہ میں پہلے بھی بتا آیا ہوں، ہر قسم کا آرام تھا اور نئی ایجادوں میں سے میرے کام آنے والی ہر چیز اس میں موجود تھی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ پانی کے جہازوں میں خبریں بھیجنے اور پہنچانے کا کام وائرلیس سے ہی لیا جاتا ہے، اس لئے یہ آلہ میرے تمام جہازوں کے علاوہ میرے خاص اسٹیمر میں بھی لگا ہوا تھا۔ بلونت نے یہ پیغام سن کر مجھے دیکھا، گویا کہہ رہا ہو، آپ خود تشریف لے آئیے۔ میں نے آگے بڑھ کر رسیور کان سے لگا لیا اور بولا:
"یس۔۔۔ کیا بات ہے، میں فیروز بول رہا ہوں۔۔۔"
"سر۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ بات یہ ہے۔۔۔" دوسری طرف سے بولنے والا شاید میرے رعب کی وجہ سے گھبرا گیا۔
"گھبراؤ مت۔۔۔ بولو کیا بات ہے؟"
"سر۔۔۔ کوٹھی سے مالکن آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔ آپ فرمائیں تو میں کنکشن ملا دوں؟"
"ملا دو۔۔۔" میں نے جواب دیا۔
مجھ کو یقین تھا کہ زرینہ بچوں کی گمشدگی کی اطلاع مجھے پہنچانا چاہتی ہوگی۔ کیوں کہ اس کے علاوہ اور کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ کہنے کو تو میں نے کہہ دیا کہ کنکشن ملا دو، مگر پھراچانک مجھے خیال آیا کہ اختر کی بے ہوشی کے بارے میں اس کی ماں سے کیا کہوں۔ اختر ابھی تک بے ہوش تھا، اور سوامی اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ محسوس کر کے میں نے آپریٹر سے جلدی سے کہا۔
"سنو۔۔۔ ابھی کنکشن ملانے کی ضرورت نہیں۔ اپنی مالکن سے کہو کہ وہ فون بند نہ کریں تم کنکشن ملانے کی کوشش کر رہے ہو۔۔۔ اور جب میں تمہیں حکم دوں تب لائن ملا دینا۔۔۔ سمجھے؟"
"یس سر۔۔۔ سمجھ گیا۔۔۔"

اتنا کہہ کر میں جلدی سے اختر کی طرف پلٹا۔ نجمہ اس کے پاس بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ میں نے بستر پر بیٹھ کر اختر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے سہلانے لگا۔ میرے دل کی عجیب حالت تھی۔ اختر میرا چھوٹا لڑکا تھا۔ اور میں اس سے بڑی محبت کرتا تھا۔ مگر اس وقت اس کی حالت ایسی تھی کہ مجھے اس کی زندگی خطرے میں نظر آ رہی تھی۔ دل ہی دل میں خدا سے میں دعا مانگ رہا تھا کہ وہ اسے فوراً اچھا کر دے۔ شاید خداوند تعالی نے میری دعا قبول کر لی یا پھر یہ ہم سب کی محنت کا نتیجہ تھا کہ اختر نے آنکھیں کھول دیں اور پھر مجھے مسکرا کر دیکھا۔ اسے مسکراتے دیکھ کر میری جان میں جان آئی اور میں نے اس سے پوچھا۔
"کیوں اختر بیٹے کیابات ہے؟"
بجائے اس کے کہ وہ میرے سوال کا جواب دیتا، الٹا وہ مجھی سے پوچھنے لگا :
"آپ سب میرے بستر کے پاس کیوں بیٹھے ہیں۔ مجھے کیا ہوا۔۔۔؟"
"تم بے ہوش ہو گئے تھے اختر۔۔۔" نجمہ نے جلدی سے کہا: "تم شاید ڈر گئے تھے اور چیخ رہے تھے کہ وہ غائب ہو گیا وہ غائب ہو گیا۔۔۔ کون غائب ہو گیا تھا اختر۔۔۔؟"
شاید زندگی میں اتنا اچنبھا مجھے کبھی نہیں ہوا جب کہ میں نے اختر کا جواب سنا۔ اس نے کہا۔
"نہیں تو نجمہ آپا۔۔۔ میں نے تو کچھ نہیں کہا۔ نہ ہی میں کسی سے ڈرا تھا۔۔۔ یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟"
"بابا۔۔۔ باتیں تو تم عجیب کر رہے ہو۔۔۔" سوامی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ "تم ڈرے اور سہمے ہوئے اندر آئے اور چلانے لگے۔ تم کہہ رہے تھے کہ مجھے بچائیے۔۔۔ وہ غائب ہو گیا اور پھر بے ہوش ہو گئے۔۔۔"
"جہاں تک مجھے یاد ہے ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی۔" اختر نے جواب دیا:
"مجھے بالکل یاد نہیں کہ میں نے ایسی کوئی بات کہی تھی۔۔۔!"
"خیر چھوڑئیے۔" بلونت نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا : "اب آپ وائرلیس پر بمبئی سے بات کیجئے۔ لائن ملی ہوئی ہے۔۔۔"

اچانک کوئی بھولی ہوئی بات مجھے یاد آ گئی اور میں نے وائرلیس سیٹ کے قریب پہنچ کر سوئچ آن کر کے آپریٹر سے کہا :
"ہاں کنکشن ملا دو۔۔۔"
آپریٹر نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ سیٹ کے ریسیور سے زرینہ کی آواز آئی "ہیلو فیروز۔۔۔"
"ہاں۔۔۔ میں فیروز بول رہا ہوں۔"
"فیروز۔۔۔ یہ میں ہوں زرینہ۔۔۔" میری بیوی کی سہمی ہوئی آواز آئی۔
"تم۔۔۔ تم کہاں ہو فیروز؟"
"میں بمبئی سے کافی دور ہوں زرینہ۔۔۔ مگر گھبراؤ مت۔ میں آرام سے ہوں کیا بچوں کی وجہ سے بہت پریشان ہو۔۔۔؟"
"ہاں ہاں۔۔۔" وہ ایک دم بے چینی سے بولی "تمہیں کیسے معلوم؟ فیروز وہ دونوں گھر سے غائب ہیں!"
"مجھے معلوم ہے" میں نے ہنس کر جواب دیا۔ "وہ دونوں شریر چپکے سے میرے اسٹیمر میں بیٹھ گئے تھے اور اب میرے ہی ساتھ ہیں۔ تم فکر مت کرو۔"
"اوہ۔۔۔!" زرینہ نے شاید اطمینان کا سانس لیا۔
"میں ان دونوں کو ریسیور دیتا ہوں وہ تم سے باری باری بات کریں گے۔"

اختر اور نجمہ نے بڑے اشتیاق سے باری باری ریسیور ہاتھ میں لے کر اپنی ماں سے بات کی۔ اپنی دل چسپ شرارت پر وہ دل ہی دل میں خوش بھی تھے اور شرمندہ بھی۔ شاید ان کی ماں نے انہیں ڈانٹا تھا اس لئے ان کے مونہہ لٹک گئے اور پھر انہوں نے وائرلیس پر ہی اس سے معافی مانگی۔ ماں بچوں کی گفتگو کے بعد ریسیور میں نے پھر کان سے لگا لیا اور کہا۔
"ہیلو زرینہ۔۔۔ تم نے دیکھی ان دونوں شیطانوں کی حرکت!"
"ہاں فیروز۔۔۔" وہ ہنستے ہوئے بولی "وہ بہت شریر ہیں۔ مگر دیکھو، تم ان کا بہت خیال رکھنا، اور انہیں جلد سے جلد بھیج دینا۔"
"اچھا اچھا۔۔۔ تم بے فکر رہو۔۔۔"
"بلکہ بہتر تو یہ ہوگا کہ کسی بھی جزیرے پر اترنے کے بعد تم ان دونوں کو اسٹیمر سے فوراً واپس بھیج دو۔ اسٹیمر انہیں یہاں پہنچا کر پھر واپس تمہارے پاس پہنچ جائے گا۔"
"اچھا۔۔۔ مطمئن رہو ایسا ہی ہوگا۔"
"اور دیکھو سمندر میں دور تک مت جانا۔ جلد واپس آنے کی۔۔۔۔۔۔"
اچانک عجیب بات ہوئی۔ بولتے بولتے وہ یکایک خاموش ہو گئی۔ میں نے گھبرا کر وائرلیس سیٹ کا بٹن دبا کر آپریٹر سے پوچھا کہ کیا بات ہے، آواز آنی کیوں بند ہو گئی؟ اس سے پہلے کہ مجھے وہ جواب دیتا، زرینہ کی سہمی ہوئی آواز پھر آئی۔
"فیروز۔۔۔"
"ہاں زرینہ۔۔۔ کیا بات ہے، تم بولتے بولتے خاموش کیوں ہو گئی تھیں۔۔۔؟"
"مجھے کوئی آہٹ سنائی دی تھی۔۔۔ عجیب سی آہٹ۔۔۔"
"تمہارا وہم ہوگا۔۔۔" میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
"نہیں وہم نہیں۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔" اور اس کے بعد ایک تیز اور دہشت ناک چیخ!

یہ چیخ سنتے ہی میں لرز گیا۔۔۔ نہ جانے زرینہ کو کیا ہوا جو اس نے یہ تیز اور دل ہلا دینے والی چیخ ماری! میں نے بار بار اسے پکارا مگر اس کا کوئی جواب نہ آیا۔ آپریٹر سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ فون کی لائن تو نہیں کٹی، البتہ عجیب عجیب سی آوازیں آ رہی ہیں۔ اس نے ایک دو مرتبہ پھر کوشش کی کہ کنکشن مل جائے مگر سب بے کار۔۔۔ کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میرا دل لرزنے لگا۔ مجھے اپنی بیوی سے بہت محبت تھی اور اب یہ سوچ کر خوف زدہ تھا کہ نہ جانے اسے کیا ہوا ہے۔۔۔ اس نے کیا چیز دیکھی؟ کیا کوئی چور اچکا اس کے کمرے میں چوری چھپے آ گیا یا کوئی اور خاص بات ہوئی ہے۔۔۔ مگر پھر خیال آیا کہ گھر میں کافی ملازم ہیں۔ ایسا کس طرح ہو سکتا ہے کہ ان کی موجودگی میں کوئی زرینہ کے کمرے میں آ جائے! میرا دل بڑا بے چین ہو گیا۔ اختر اور نجمہ بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی مجھے اور کبھی سوامی کو دیکھ رہے تھے۔ سوامی خود بھی بڑا بے قرار تھا۔ میں نے جب ان کو سب باتیں بتائیں تو انہیں اور تعجب ہوا۔ اختر اور نجمہ تو رونے لگے۔ اب میرے لئے یہ دوسری مصیبت کھڑی ہو گئی۔ بچوں کو سنبھالوں یا اپنے دل کو؟
سوامی بےچارے نے بچوں کو سمجھایا اور پھر خود آگے بڑھ کر وائرلیس سیٹ کے بٹنوں کو اوپر نیچے کرنے لگا۔ اس کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے سیٹ میں خرابی ہو گئی ہو۔ بلونت شاید باہر کے ملاحوں کو کچھ ہدایات دینے کے بعد اب اندر آ گیا تھا۔ اس نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی ہی تھی کہ اچانک ریسیور میں سے آواز آئی "فیروز۔۔۔!"
"کون زرینہ۔۔۔ کیوں کیا بات ہے، تم ٹھیک تو ہو۔ کیا ہوا تھا۔ کیوں ڈر گئی تھیں۔۔۔" میں نے بڑی گھبراہٹ کے ساتھ کئی سوال پوچھ ڈالے۔
"میں اب تو ٹھیک ہوں فیروز۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر میں نے بڑی ہیبت ناک اور ڈراؤنی چیز دیکھی ہے۔ نہ جانے وہ کون تھا۔۔۔ اپنے آپ ہی وہ ہوا میں سے ابھرنا شروع ہوا اور اسی طرح۔۔۔۔۔۔"
وہ شاید پھر خاموش ہو گئی۔ میں نے جلدی سے کہا۔
"ہاں ہاں کہو کہو۔۔۔۔"
"نہ جانے کیا بات ہے فیروز، مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔ ہاں کیا کہہ رہی تھی میں؟"
"تم کہہ رہی تھیں کہ کہ تم نے اپنے کمرے میں کوئی ڈراؤنی چیز دیکھی، جو ہوا میں سے ابھرنی شرو ع ہوئی اور۔۔۔"
"نہیں تو۔۔۔" زرینہ نے حیرت سے کہا: "میں نے تو یہ نہیں کہا تھا۔ تم یہ کیسی باتیں کررہے ہو فیروز۔۔۔"
"تم نے کچھ ہی دیر پہلے تو کہا تھا۔ یاد کرو تم نے ایک زور کی چیخ بھی ماری تھی۔۔۔!" میں نے پریشانی سے کہا۔
"چیخ!۔۔۔" وہ ہنسی
"کیا کہہ رہے ہو فیروز۔۔۔ میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ میں نے چیخ کب ماری تھی، برابر فون پر بات کئے جا رہی ہوں اور میں نے کوئی ڈراؤنی چیز بھی نہیں دیکھی! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔ آج تم بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔ شاید یہ سمندر میں دور تک نکل جانے کا اثر ہے۔ میں کہتی ہوں فوراً واپس آ جاؤ۔" اتنا کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔

زرینہ کا یہ جواب پا کر میں بے حد پریشان ہو گیا۔ جیسا کہ آپ سب سمجھ گئے ہوں گے۔ زرینہ نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا یا پھر اس کے ساتھ بھی وہی حادثہ پیش آیا تھا جو کچھ دیر پہلے اختر کے ساتھ پیش آ چکا تھا۔ ان دونوں کے ساتھ تقریباً ایک سا ہی واقعہ گزرا تھا۔ اختر نے بھی کوئی خوف ناک چیز دیکھی تھی اور پھر بعد میں مکر گیا تھا اور یہی حالت زرینہ کی بھی تھی۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کون سی پراسرار طاقت ہے جو میری بیوی اور میرے بچے کو ڈرا رہی ہے یا پھر اپنے اثر میں لانا چاہتی ہے۔ میرا دل اندر ہی اندر ڈوبنے لگا۔ اس سفر کا آغاز جب یہ ہے تو خدا جانے انجام کیا ہو گا۔۔۔! یہی سوچتا ہوا میں اپنی آرام کرسی پر بیٹھ گیا اور پھر میں نے یہ سب باتیں بلونت اور سوامی کو بھی بتا دیں۔ وہ بھی اچنبھے میں رہ گئے۔ بلونت نے کہا۔
"میرے خیال میں کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے پچھلے سفر کے دشمن اب آپ سے بدلا لے رہے ہوں!"
"میرے دشمن تو ختم ہو چکے۔۔۔ کبڑا چتین اور عبدل یہی میرے دونوں دشمن تھے۔ ایک تو خزانے کے مونہہ پر ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا اور دوسرے کو پتھر کے دیو (یہ حالات جاننے کے لئے ناول "خوفناک جزیرہ" ملاحظہ کیجئے) نے اپنے ہاتھوں سے مسل ڈالا۔۔۔ ان دونوں کے علاوہ تو میرا کوئی دشمن نہیں!"


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:2

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں