دت بھارتی - اردو فکشن کا گمنام شہیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-03

دت بھارتی - اردو فکشن کا گمنام شہیر

dutt-bharti

دت بھارتی (پ: 26/مئی 1925 ، م: 16/اکتوبر 1992)
معروف بزرگ ادیب فاروق ارگلی نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر چند ہفتے قبل اردو فکشن کے اس نمائندہ قلمکار کا تفصیلی تعارف کروایا تھا جس کے بارے میں آج کی اردو نسل کم ہی جانتی ہے۔ دت بھارتی، اپنے عہد کے اردو فکشن نگاروں کا ایک بڑا نام ہے جو اردو بولنے والے پنجابی ہندوؤں کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ دت بھارتی کا مشہور ناول "چوٹ" (حصہ اول و دوم) جلد ہی تعمیرنیوز پر پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں پیش کیا جائے گا۔
محترم فاروق ارگلی کے شکریے کے ساتھ دت بھارتی کا خاکہ پیش خدمت ہے۔

اردو فکشن کی تاریخ کے اس نقصان عظیم کی تلافی شاید ہی ممکن ہو سکے کہ برصغیر کے ایک پورے عہد کی سماجی زندگی کی بھرپور عکاسی کرنے والے عوامی ادب کو اس دور کی کورچشمی کی حد تک مہذب دانشوری نے "پاپولر ادب" کہہ کر ٹاٹ باہر کر دیا۔ اب تک یہ منطق ادراک عامہ سے پرے
ہے کہ ادب کی ناپ جوکھ کے وہ کون سے پیمانے اور اصول و معیارات تھے جن کے تحت وہ ادب نہیں تھا، جسے لاکھوں لوگ پڑھتے ہوں، جس میں لوگوں کو اپنے دکھ سکھ کا عکس دکھائی پڑتا ہو، وہ چاہے نثر ہو یا نظم جو تھوڑے سے اشرافیہ کے علمی فریم میں فٹ ہو جائے بس وہی ادب عالیہ ہے۔
خدا لگتی پوچھو تو ایک حد تک ٹھیک بھی تھا۔ ہرکس و ناکس شاعر ادیب بنا گھوم رہا ہے۔ ٹی وی انٹرنیٹ عام نہ ہوئے تھے۔ روز روز سینما ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ تفریح کا ذریعہ بس لے دے کے ناول اور ناول تھے، ہزاروں لکھنے والے، سینکڑوں چھاپنے والے، بیچنے والے، ادب کے نام پر کوڑا کچرا سب ہاتھوں ہاتھ بک جاتا تھا۔
شاید اسی لیے زیادہ پڑھا جانے والا ادب "پاپولر ادب" کہلایا، بس یہیں زمانہ مار کھا گیا۔ دانشوری بڑی بڑی ڈگریوں کے ڈھیر پر اتنی اونچائی پر بیٹھی ہوئی تھی کہ نیچے پڑے کنکر پتھر تو دکھائی دے گئے مگر ان کے بیچ چمکتے ہوئے ہیرے موتی نظرنہ آئے۔ سستے بازارو، زیادہ لکھے پڑھوں کی بولی میں سوقی شاعروں، افسانہ نویسوں، ناول نگاروں کی دھند میں وہ چاند ستارے بھی کھو گئے جو سچ مچ ادب کے آسمان پر مدتوں جگمگاتے رہتے۔ سب سے زیادہ نقصان پہنچا اردو فکشن کو، ایسی ایسی شہرتیں ناوقت مر گئیں، مریں یا مار دی گئیں۔ ایسی ایسی صلاحیتیں اور خدا داد تخلیقی قوتیں ابھر نہ سکیں جن میں اتنی خوبیاں تھیں جتنی دانشوری کے حاشیہ برداروں میں بھی دور دور تک نہیں پائی جاتی تھیں۔

بیسویں صدی کے ان بہترین فکشن نگاروں کی جو خاصی بڑی تعداد نام نہاد علمی و ادبی رقابت کے ہاتھوں ادب کی تاریخ میں جگہ پانے سے محروم رہ گئی اس میں سے ایک عظیم نام ہے :
دت بھارتی
جو اردو والے پنجابی ہندوؤں کی ایسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے تقسیم کے بعد اردو کو ہمیشہ کے لیے پاکستان بھیج دینے کے لیے کوشاں سیاست کو منہ چھپانے پر مجبور کر دیا۔ مایوسی اور شکستگی کے اندھیروں میں پاکستان سے آئے ہوئے اردو کے نامور ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور لاکھوں اردو داں رفیوجیوں نے اردو زبان اور تہذیب کے چراغ روشن کر دیئے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ نسل جیسے جیسے بوڑھی ہو کر مرتی گئی ہندو قوم سے اردو کا رشتہ کم ہوتا گیا۔ لیکن اردو کے وہ چراغ آج بھی روشن ہیں۔ شاعری، نثر نگاری، تنقید، تحقیق ، درس و تدریس، صحافت ہر میدان میں پنجابیوں کی خدمات بیسویں صدی کی اردو تاریخ کا اہم ترین باب بن چکی ہیں۔

اپنے عہد کے مقبول ترین فکشن نگار "دت بھارتی" نے بھی اردو تہذیب کے گہوارے میں پرورش پائی تھی۔ ان کا جنم 26 مئی 1925 کو مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر کی تحصیل پھلور سے دس میل کے فاصلے پر واقع قصبہ بساڑہ میں ہوئی۔ ان کا اصل نام "دیودت لکھن پال" ہے۔ ان کے والد عربی فارسی کے عالم تھے اور سنسکرت اور گرمکھی میں بھی دستگاہ رکھتے تھے اور اپنے علاقے میں جیوتش اور نجوم کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ دت بھارتی نے ابتدائی تعلیم قصبے میں پائی۔ اردو بنیادی زبان تھی، آٹھویں نویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے ناول اور افسانے پڑھنے اور لکھنے میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ 1933ء میں ان کا خاندان دہلی آ گیا۔ ان کے والد، والدہ اور دیودت سے بڑے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کا یہ کنبہ پہلے ہملٹن روڈ اور پھر سبزی منڈی کے علاقے میں آباد ہوا۔ والد سرکاری دفتر میں ملازم تھے، اسکولی تعلیم سے بیحد لا پرواہ تھے لیکن مطالعہ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اردو ہندی تو کیا انگریزی کے بڑے بڑے ادیبوں کی کتا بیں ان کی دلچسپی کا سامان بن گئی تھیں۔ والدہ کے انتقال کا ان کے حساس ذہن پر گہرا اثر پڑا، اسی زمانے میں ان کی شادی کر دی گئی۔
ان کے اولین ناولوں میں "سوئمبر" ایک ناقابل فراموش ناول ہے جس میں ماں کا کردار حقیقت سے بے حدقریب اور متاثر کن ہے۔ 1937ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کرنے کے بعد ان کے شفیق والد نے ان کے ماموں کے پاس لاہور بھیج دیا، وہاں ایک سال سے زیادہ نہیں رہے لیکن لاہور کے علمی ادبی ماحول کا وہ ایک سال اردو ادب سے بے پناہ لگاؤ ان کے دل میں پیدا کر چکا تھا۔ 1940 ء میں ان کے والد ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ انھوں نے اچھا خاصا اثاثہ اور جائداد پیدا کی تھی لیکن والد کی ضعیفی اور بیماری کے زمانے میں دت بھارتی اور ان کے بھائی کو تلخ ترین تجربات سے گزرنا پڑا، رشتہ دار اور اپنوں نے اعتماد کا خون کیا جسے وہ تاحیات فراموش نہیں کر سکے۔ دت بھارتی اپنی خودنوشت "33 برس " میں لکھتے ہیں:
"میں پندرہ برس کا بھی نہ تھا، اس کم سنی میں میں نے نفرت کرنا سیکھ لیا تھا۔ لا محدود نفرت، ان دو برسوں میں میری زندگی میں ہر بات نقش ہو جاتی تھی۔ جو بعدازاں بھی قائم رہی۔ "

1942 ء میں ان کے والد چل بسے تھے۔ اس زمانے میں وہ ہندو کالج میں پڑھ رہے تھے، پھر حالات ایسے ہوئے کہ انھیں کالج چھوڑنا پڑا۔ ایک پالی ٹیکنک کے کامرس ڈپارٹمنٹ میں داخل کرایا گیا لیکن یہاں بھی ان کا دل نہیں لگا۔ حالانکہ مطالعے کا شوق جاری تھا، انھوں نے دنیا کی بڑی بڑی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ معلومات عامہ کا عالم یہ تھا کہ کلاس اور نصاب بے معنی معلوم ہونے لگے۔ اپنے مطالعہ کے ذوق کے بارے میں دت بھارتی لکھتے ہیں :
"میرا ذاتی نظریہ ہے کہ بہترین ادب انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے۔ دنیا کی مہذب قوم انگریز ہیں۔ حالانکہ ان کی سیاست سے نفرت کرتا ہوں۔ دشمن میں اچھائیاں ہوں تو انھیں لے لینا چاہیے۔ جب میں کوئی ناول پڑھتا ہوں تو اٹلس ساتھ رکھتا ہوں۔ جس شہر کا واقعہ ہوتا ہے اسے اٹلس میں تلاش کرتا ہوں۔ ہر موضوع پر زیادہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہوں، بہت غور سے پڑھتا ہوں، بنیے جس کاغذ میں پڑیا باندھ کر سودا دیتے ہیں، وہ کاغذ بھی پڑھ لیتا ہوں۔ مطالعہ ایک آزاد ملک کے باشندوں کی زندگی میں اہم مقام رکھتا ہے۔ مطالعے سے ذہن کا انتشار کم ہوتا ہے اور سکون ملتا ہے۔ لیکن میرے ملک میں تو لوگ اخبار تک مانگ کر پڑھتے ہیں کتابیں کون پڑھے گا، اسی لیے یہ ہر لباس میں برہنہ ہیں۔ "

ان کے پاس رسمی تعلیم میں صرف ہائی اسکول کا سرٹیفکیٹ تھا، انھوں نے ابتدا میں کئی کاروبار کیے ، بر ما جا کر برطانوی فوج میں کلرک کی ملازمت بھی کی ،لیکن ایک لاابالی ادیب اور فنکار کے ذہن کو کہیں قرار نہ حاصل ہوا۔ انھیں تحریک آزادی سے بہت محبت تھی۔ گاندھی جی کو دنیا کا سب سے عظیم رہنما مانتے تھے، ایک آدھ بار جیل کی ہوا بھی کھائی، مطالعے اور ادب کی تخلیق کے سوا کسی چیز میں جی نہ لگا۔ 1944 ء میں پڑوس کی ایک سات سالہ بچی "بھارتی" سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنا نام ہی "دت بھارتی" رکھ لیا اور افسانہ نگاری شروع کر دی۔ اپنی افسانہ نگاری کے آغاز کا بیان دت بھارتی نے اس طرح کیا ہے:
"ادیب بننے کے لیے بنیادی طور پر دو جراثیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسان کو حد درجہ جذباتی اور حساس ہونا چاہیے۔ یہ جراثیم مجھ میں ضرورت سے زیادہ تھے، بچپن میں ہی گلبدن کی کہانی پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا۔ اس کہانی کی حقیقت جان کر کھیتوں میں گلبدن کی تلاش کیا کرتا تھا۔ ان دنوں جب تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا، میں بریک (Break) کا منتظر تھا، جوش جنم لے رہا تھا۔ سبزی منڈی دہلی میں میرے مکان میں ایک کرایہ دار تھا، حشر رام نگری ، وہ افسانے لکھا کرتا تھا۔ ان دنوں ادب نے کوئی خاص شکل نہ اختیار کی تھی۔ استادی شاگردی کا دور تھا، کچھ ادیب برسوں سے لکھ رہے تھے مگر اپنے لیے ادب میں کوئی مقام نہ پیدا کر سکے تھے۔
رام نگری مناسب حق محنت پر اصلاح و تصحیح کا کام بھی کرتے تھے، ان دنوں بیشتر افسانے مزدوروں اور غریبوں پر لکھے جاتے تھے، ایسے ہر افسانے میں پرندے شام کے وقت اپنے گھونسلوں کی طرف آ تے تھے، سورج غروب ہوتا دکھائی دیتا تھا، جب مزدور اپنی جھونپڑی میں داخل ہوتا تو ایک ٹمٹماتا ہواد یا اس کا خیر مقدم کرتا، ایسے افسانوں کا انجام ٹریجڈی ہوتا تھا۔ جب تک افسانے میں مکڑی کا جال نہ دکھایا جاتا افسانہ کامیاب نہ سمجھا جاتا تھا۔ رسائل نمبر نکالنے میں سبقت لے جانا چاہتے تھے۔ عید نمبر، دیوالی نمبر اور اسی طرح کا کوئی نہ کوئی خاص نمبر نکالتا تھا۔
حشر رام نگری بھی ایسے افسانے لکھا کرتا تھا۔ ان دنوں آل انڈیا ریڈیو علی پور روڈ کی ایک کوٹھی میں تھا۔ بیشتر ادیب ریڈیو میں ملازم تھے۔ 1943ء میں ایک دن قلم اٹھایا اور کاغذ لے کر بیٹھ گیا۔ مکڑی کا جال اور غروب ہوتا ہوا سورج اور جھونپڑی کا پلاٹ لے کر میں نے افسانہ لکھ مارا۔ میرا خیال ہے کہ حشر رام نگری بہت بڑا ادیب تھا، کیونکہ اس کا نام لیتھو مشین پر چھپتا تھا۔ اردو ادب اور لیتھو پریس کا اٹوٹ رشتہ ہے، اس لیتھو پریس نے درجنوں نوجوانوں کا بیڑا غرق کیا ہے، جیسے ہی ان کا نام چھپاوہ کسی اور کام کے قابل نہ ر ہے۔ اتفاق سے 1943 کی ڈائری میرے پاس موجود ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ 11 جون 1944 کو میں نے پہلا افسانہ لکھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ میری پہلی تحریر شائع نہیں ہوئی تھی بلکہ ریڈیو سے براڈ کاسٹ ہوئی تھی ، 'دت لکھن پال' کے نام سے۔ "

دت بھارتی نے غالباً حشر رام نگری نامی جس ادیب کا نام لیا ہے وہ آسی رام نگری ہو سکتے ہیں۔ دت نے دلچسپ انداز میں لکھا ہے:
"حشر رام نگری مستند ادیب تھا کیونہ اس کا نام لیتھو مشین چھاپتی تھی، یوں بھی وہ میرے قریب تھا، ایک تو اس لیے کہ وہ میرے مکان میں کرایے دار تھا، دوسرے اس لیے کہ وہ ان دنوں اسی مکان کے دوسرے کرائے دار کی لڑکی سے عشق کرتا تھا، اگر وہ میری افسانہ نگاری پر اعتراض کرتا تو میں بحیثیت مالک مکان اسے عشق کرنے کی اجازت نہ دیتا۔ ویسے حشر رام نگری نے نام بدل کر اردو کے اچھے رسائل میں لکھا۔ آج کل و ہ فلم انڈسٹری میں فلموں کے مکالمے لکھتا ہے۔ مجھے اس کے موجودہ نام سے کوئی اعتراض نہیں ہے، مجھے اس کے موجودہ نام سے کوئی یاد آتا ہے اس لیے میں اسے حشر رام نگری ہی کہوں گا۔ ان دنوں ریڈیو اسٹیشن پر پندرہ بیس ادیب اور شاعر کام کرتے تھے۔ ان میں گریجویٹ بھی تھے، جو غیرملکی ادب پر ہاتھ صاف کر رہے تھے۔ "

اپنی خودنوشت میں دت بھارتی نے اس دور میں دہلی کے ماحول کی ایسی تصویرکھینچی ہے جو اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتی:
"چونکہ اردو ادب پڑھنے والے اعلی تعلیم یافتہ نہ تھے، جو تھے وہ انگریزی کتب پڑھ لیتے تھے، ادبا نے زور شور سے آزاد ترجمے کیے یا ان کے پلاٹ مغرب سے لے آئے۔ پندرہ بیس ادیب اور شاعر ایک دفتر میں ملازم تھے لہذا ایک گروپ بن گیا۔ تین چار ماہنامے ان کے لیے مخصوص ہو گئے۔ کسی نے فرائڈ پڑھا، بس پھر کیا تھا، کہاں منشی اور مولانا قسم کے لوگ ادیب کہلاتے تھے، جو قبالے بھی لکھتے تھے اور افسانے بھی، اب ادیب کے ساتھ اس کی ڈگریاں بھی لکھی جانے لگیں، صرف ڈیڑھ برس میں ادب تین صفوں میں تقسیم ہو گیا، صف اول کے افسانہ نگار، صف دوئم کے افسانہ نگار، تیسرے درجے کے افسانہ نگار۔ "

1944 ء میں دیودت کے نام سے دت بھارتی کا پہلا افسانہ دہلی کے اخبار "تیج ویکلی " میں چھپا تھا۔ ان کی تحریروں میں اس قدر پختگی اور اثر آفرینی تھی کہ ان کے نصف درجن افسانے اس وقت کے بڑے رسائل میں شائع ہو گئے، اور بہت کم عرصے میں وہ خاصے معروف افسانہ نگار بن گئے۔ 1946ء میں اس معصوم بچی بھارتی نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ "دت بھارتی" بن گئے۔ اسی سال ان کا افسانہ خوشتر گرامی کے ماہنامہ "بیسویں صدی " لاہور میں چھپا ، 1945ء میں ان کا ایک افسانہ دیوان سنگھ مفتون کے ہفت روزہ "ریاست "میں چھیا جس کا معاوضہ انھیں دو روپے بارہ آنے ملا تھا ، بھارتی کہا کرتے تھے:
"زندگی میں میری تخلیقات پر ہزاروں روپیہ معاوضہ ملا ، لیکن اس دو روپے بارہ آنے سے زیادہ خوشی کبھی نہیں ملی۔

تقسیم کے ہنگامے جاری تھے، ان کے اندر چھے بے چین قلم کار نے عجیب سا اندازہ لگایا کہ زیادہ تر ادیب افسانوں میں مشغول ہیں، ملک کا بٹوارہ قریب ہے، اس کا اثر اخبارات و رسائل پر پڑے گا ، اس افراتفری میں کسی ادیب کو بڑےکینوس پر لکھنے کا وقت نہ ملے گا۔ ذہن نے ناول لکھنے کے لیے اکسایا، 1946ء کا زمانہ تھا، دہلی میں ماحول پر سکون نہیں تھا، دت بھارتی شملہ چلے گئے ، وہاں بیٹھ کر پہلا ناول لکھا: "چوٹ"

حافظ یوسف دہلوی کا شہرۂ آفاق رسالہ "شمع " آب و تاب سے نکل رہا تھا۔ دت بھارتی نے شمع میں کئی افسانے لکھے تھے، ناول کا مسودہ ادارہ شمع کو بھیج دیا۔ 15 اگست 1947ء کو ملک آزاد ہو گیا۔ دہلی میں قیامت صغری نازل ہوئی۔ دت بھارتی اس زمانے میں اپنے مسلمان دوستوں کو بچانے میں لگے رہے۔ 1949 آ گیا، حالات سنبھل چکے تھے، شمع پھر نکلنے لگا۔
حافظ یوسف دہلوی صاحب نظر تھے۔ "چوٹ "پڑھ کر انداز ہ لگا چکے تھے کہ یہ ناول ہٹ ہوگا۔ یہ اس دور کے ترقی یافتہ ہندو سماج کے کرداروں پر مبنی ایک لافانی داستان محبت تھی۔ طے پایا کہ کچھ قسطیں پہلے "شمع " میں شائع ہوں، پھر کتابی صورت میں چھاپا جائے۔
اردو صحافت کی تاریخ کی یہ سب سے بڑی حقیقت ہے کہ شمع سے زیادہ مقبول عام رسالہ اردو میں آج تک نہیں نکلا اور نہ اب جبکہ زمانہ بدل چکا ہے، لوگوں میں پڑھنے کی عادت چھٹ چکی ہے، مستقبل میں اتنا بڑا جریدہ کبھی سامنے آئے گا۔
شمع قلمی ادبی پرچہ تھا فلموں سے عوام کی دلچسپی اپنی جگہ لیکن رسالے کا بڑا حصہ افسانوں اور شاعری کے مختص تھا۔ شمع میں افسانوی ادب کا انتخاب غضب کا تھا۔ شمع میں کبھی کوئی ہلکی اور سستی کہانی شائع نہیں ہوئی۔ کرشن چندر ،خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی جیسے اس عہد کے بڑے بڑے قلمکار شمع میں ہی چھپ کر دنیا بھر میں مقبول ہوئے لیکن جب دت بھارتی کا ناول "چوٹ" شمع میں چھپنا شروع ہوا تو کسی سپر ہٹ فلم کی ٹکٹ کھڑکی سے زیادہ شمع کے تازہ شمارے کے لیے بھیڑ بک اسٹالوں پر ہوتی تھی۔ شمع کی اشاعت اس زمانے میں کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ آج یہ بات سننے میں عجیب لگتی ہے کہ جب "چوٹ" کتابی صورت میں چھپا تو پہلا ایڈیشن آٹھ ہزار کی تعداد میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا تھا۔
1958ء میں گرودت کی مشہور فلم "پیاسا" نمائش کے لیے پیش ہوئی جس کی کہانی "چوٹ" سے اس قدر مماثلت رکھتی تھی کہ دت بھارتی نے دہلی کی عدالت میں گرودت پر مقدمہ دائر کر دیا۔ یہ مقدمہ کئی سال تک چلا، پھر غالبا گرودت فلمز نے مصنف کو سمجھوتے کے لیے راضی کر لیا۔

اس کے بعد دت بھارتی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یہ اس وقت واحد ناول نگار تھے جن کی تازہ کتاب کے لیے ہندوستان اور پاکستان ہی نہیں ساری دنیا کے شائقین منتظر رہتے تھے۔ دت بھارتی کا ایک اور ناول "شمع "میں بالاقساط چھٹی دہائی میں چھپا، جس کا نام تھا "تھکن"۔ اس دور کے مجھ جیسے ناول افسانہ کے شوقین ابھی لاکھوں کی تعداد میں ہند و پاک میں موجود ہیں جنہیں وہ سارا زمانہ یاد ہے جب شمع اور دت بھارتی اپنی مقبولیت کے نصف النہار پر تھے۔
دت بھارتی نے اپنی تخلیقی زندگی کے تیس پینتیس سالوں میں ناول کی تکنیک ، سلاست زبان اور بے پناہ قوت مشاہدہ کے ساتھ چوٹ (دو حصے) سوئمبر (دو حصے)، سہارا، راہی، راہ گزار یاد آیا ،جانور، اور اس کے بعد، ہم کو عبث بدنام کیا، سوکھے پتے ، تڑپ، راکھ، گناہ، برانچ لائن وغیرہ خوبصورت اور ہمیشہ تروتازہ رہنے والے ناول لکھے۔ ان کے بہت سے افسانے مشہور جرائد میں شائع ہوئے۔ تین افسانوی مجموعے:
پیاسی آنکھیں، گناہ کے دھبے اور خوبصورت عورتیں بدصورت مرد
بھی الگ سے شائع ہوئے۔

ان کی سبھی کتابیں ہندی میں ترجمہ ہو کر اردو سے بھی زیادہ تعداد میں فروخت ہوئیں۔ انھوں نے اپنے قلم کی کمائی سے شاندار زندگی گزاری۔ وہ بے حد خلیق اور ملنسار لیکن ادیب کی حیثیت سے مغرور ہونے کی حد تک سنجیدہ اور غیور تھے۔ انھوں نے پبلشروں کو اپنی شرطوں پر کتابیں چھاپنے کے لیے دیں۔ بھارتی صاحب نے خود اپنا ذاتی اشاعتی ادارہ "بھارتی بک کلب" بھی قائم کیا تھا۔ انھوں نے صرف اس لیے فلموں کو اپنا ناول دینے سے منع کر دیا کہ وہ اپنی تحریر میں رد و بدل اور کاٹ چھانٹ پسند نہیں کرتے تھے۔ ادبی رسائل و جرائد کے مدیران میں صرف حافظ یوسف دہلوی اور ان کے صاحبزادے یونس دہلوی کی خوش معاملگی اور دوستی کی تعریف کرتے تھے۔ "ریاست" کے ایڈیٹر سردار دیوان سنگھ مفتون اور "ادبی دنیا" کے مدیر مولانا صلاح الدین نیز " چٹان " کے ایڈیٹر شورش کاشمیری کے قلم اور قابلیت کے قائل تھے۔ جبکہ برصغیر کے مقبول ماہنامہ "بیسویں صدی" کے ایڈیٹر خوشتر گرامی کے بارے میں ان کی رائے سب سے الگ تھی، کہتے تھے:
"بیسویں صدی کے خوشتر گرامی ایڈیٹر کم ، مرغ و ماہی زیادہ ہیں، میرا خیال ہے کہ ترقی پسندوں کو اگر کسی نے ذلیل کیا ہے تو وہ خوشتر گرامی ہیں۔ دولت کے بل بوتے پر انھوں نے ترقی پسندوں سے افسانے کم اور خطوط زیاد لکھوائے، وہ خطوط جو مرغ و ماہی کی رسيدات ہیں۔ ترقی پسند بیسویں صدی کو سال نہیں کہتے تھے چیتھڑا کہا کرتے تھے۔ میں بیسویں صدی میں عوام کا رسالہ سمجھ کر لکھا کرتا تھا، جب سے یہ رسالہ مرغ و ماہی کا رسالہ بنا ہے میں نے لکھا بند کر دیا"۔

مجھے ذاتی طور پر فخر ہے کہ ساتویں دہائی میں جب میں ہندی بھاشا میں رتی موہن اور ان کے برانڈ ناموں سے سماجی رومانی ناول لکھ رہا تھا، دت صاحب سے اکثر ملاقاتیں رہیں۔ لیکھکوں کی مجلس میں وہ اکثر یہ بات ضرور کہتے تھے:
"ناول لکھنا زیادہ مشکل کام نہیں مشکل کام ہے پبلشروں سے معاوضہ حاصل کرنا"۔

16/ اکتوبر 1992 کو ان کا انتقال ہو گیا۔

فاروق ارگلی کے یہ خاکے بھی پڑھیے:
خوشتر گرامی - بیسویں صدی کا افسانوی صحافی
استاد الشعراء - ہیرا لال فلک دہلوی
حقانی القاسمی - نئی نسل کے قلمکار نقاد صحافی و مبصر

Dutt Bharti, a renowned urdu writer. Article: Farooq Argali

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں