دستور الاصلاح - از علامہ سیماب اکبرآبادی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-05

دستور الاصلاح - از علامہ سیماب اکبرآبادی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

Dastoor-al-Islaah_Seemab-Akbarabadi

علامہ سیماب اکبرآبادی (پ: 5/جون 1880 ، آگرہ - م: 31/جنوری 1951 ، کراچی)
اردو کے نامور اور قادر الکلام شاعر تھے جو مشہور و معروف شاعر داغ دہلوی کے شاگرد بھی تھے۔ ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ سیماب اکبرآبادی کا شمار بیسویں صدی کے اوائل کے ان شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے مختلف اصناف سخن مثلاً غزل، نظم، قصیدہ ، رباعی، مثنوی، مرثیہ، سلام ، نوحہ اور نعت وغیرہ میں فکری و فنّی التزام کے ساتھ کامیاب اور صحت مند تجربے کرکے شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔
علامہ کے 140 ویں یومِ پیدائش پر ان کی ایک معرکۃ الآرا کتاب "دستور الاصلاح"، جس میں شعری اصلاح لینے اور دینے پر سیرحاصل بحث شامل ہے، تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 6 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس کتاب (سن اشاعت: جولائی-1940) کی تمہید میں علامہ سیماب اکبرآبادی لکھتے ہیں ۔۔۔
استادی شاگردی ایک رسمِ قدیم کی طرح اس ملک میں زندہ ہے۔ ادھر تنقید کی کثرت اور موشگافیوں کی بھرمار نے اس دور کے تمام شعرا کو صلائے عام دے دیا ہے کہ وہ اپنا کلام کسی ایسے ادیب کو دکھا لیا کریں جو ادبِ اردو کی عہد بہ عہد تدریجی ترقیوں سے واقف ہو۔ کہنہ مشق ہو، کثیر المعلومات ہو، قادر الکلام ہو، فنِ شاعری کا ماہر اور علم عروض سے واقف ہو۔
"غلط کہنے سے نہ کہنا بہتر ہے"۔
اس مایوسی اور عجز طبیعت کا علاج "اصلاح" ہے۔ اصلاح سے طبیعت مطمئن ہو جاتی ہے اور ناقد کے علمی، فنی اور لسانی حملوں سے کلام محفوظ ہو جاتا ہے۔

میرے خیال میں یہ سلسلۂ اصلاح اب ختم نہیں ہو سکتا۔ علوم و فنون کی ترقی کے ساتھ ضرورتِ اصلاح کا جذبہ بھی ترقی کرتا جا رہا ہے۔ اور قرینِ مصلحت یہی سمجھا جاتا ہے کہ ہر نوآموز صاحبِ ذوق اپنا کلام کسی کہنہ مشق شاعر کے سامنے بغرض اصلاح پیش کرتا رہے تاکہ اس کے کلام میں جس قدر خامیاں، کمزوریاں، معائب، نقائص اور اسقام ہوں، وہ سب ذمہ دارانہ طریقے سے دور ہو جائیں۔
میں 48 برس سے شعر کہتا ہوں اور 35 برس سے اصلاح دے رہا ہوں۔ ایک تعلیم یافتہ خوش ذوق طبقہ ملک کے مختلف حصوں میں میری اصلاحی ذمہ داریوں پر اپنے ذوقِ ادب و شعر کی تکمیل کر رہا ہے۔ جی چاہا کہ صلاحِ کلام کے متعلق ایک مبسوط مضمون بصورتِ کتاب لکھ دوں جس میں اصلاح لینے اور اصلاح دینے پر سیر حاصل بحث ہو اور دوسری اصلاحات کا ذکر بھی اس میں ضمناً آ جائے۔ یہ ضرورت اس لیے اور بھی محسوس ہوئی کہ شاگردوں ہی کو ایک دن استاد بننا پڑتا ہے۔ جو لوگ آج اصلاح لیتے ہیں وہ کل دوسروں کو اصلاح دیں گے۔
اور اصلاح کلام ایک ایسا مشکل کام ہے جو ہر شاعر کو نہیں آتا۔ اس کا ملکہ بھی ملکۂ شعر گوئی کی طرح خداداد ہوتا ہے لیکن جس طرح فنِ شعر وہبی بھی ہے اور اکتسابی بھی، اسی طرح اصلاحِ کلام کو بھی ایک فن ہی سمجھیے، جو سیکھنے اور مذاولت سے آ سکتا ہے۔

۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ آج اردو زبان کی عالمگیری و ہمہ گیری، ادارتی تعینات سے ماورا اور بالاتر ہے۔ ایک دکنی شاعر بھی ایک لکھنوی شاعر کی طرح زبان و محاورات پر حاوی ہے۔ ایک پنجابی شاعر بھی ایک دہلوی شاعر کی طرح فصیح انداز بیان میں غزل کہہ لیتا ہے۔ اور ایک کشمیری شاعر بھی ایک اکبرآبادی شاعر کی طرح معیاری فکر و نظم پر قادر ہے۔ اس لیے اب ان اداروں کی کوئی تخصیص باقی نہیں رہتی۔ لیکن میرے خیال میں ان اداروں کا قیام اب بھی ضروری ہے۔
محاورات کی تصحیح اور الفاظ کی تذکیر و تانیث کی سند کے لیے ہمیں کسی نہ کسی ادارۃ الخیال کا سہارا لینا ہی پڑے گا۔ اور متروکات و مختارات کی تعیین میں کسی نہ کسی ادارے کا حوالہ دینا ہی پڑے گا۔ میں اسے تقلید نہیں سمجھتا، گو اس میں اساتذۂ سلف کی تائید ضرور ہے۔ تاہم اجتہاد کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ متروکات و مختارات کی جو فہرستیں ہم تک پہنچی ہیں، ان میں تنقیح و ترمیم کی گنجائش ہے۔ خصوصاً اس تحقیقی اور علمی دور میں آنکھیں بند کر کے لکیر کا فقیر بنا رہنا تجاہل عارفانہ ہے۔ اگر تنقید و تحقیق کی قوتیں زبان و محاورات کی تعیین میں نئے نظریات پیدا کر دیں اور وہ قابل قبول بھی ہوں تو ممکن ہے کہ ہندوستان کے تینوں ادارہ ہائے خیال بیکار و معطل ہو جائیں۔ بصورت دیگر ان کی ضرورت استناد کے لیے ہمیشہ باقی رہے گی۔

خالد محمود اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔
سیماب ہمیشہ شاعری میں صحت مند رویے کے پیروکار رہے اور وہ چاہتے تھے کہ وہ دوسرے شعراء خواہ وہ ان کے ہم عصر ہوں یا ان کے شاگرد ، شاعری میں حسن و عشق ، گل و بلبل، شمع و پروانہ اور جام وصبو وغیرہ جیسے پرانے اور روایتی موضوعات کو جگہ دے کر صرف تفریح کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ وقت کے اہم تقاضوں کو سمجھیں اور بلند خیالی اور بلند نگاہی کے ساتھ ساتھ اپنے مشاہدے اور مطالعے کا ثبوت دیتے ہوئے اول درجہ کی شاعری کا نمونہ پیش کریں اور شاعری کے وقار اور عظمت کو بلند کریں ۔ گیا (بہار) میں منعقدہ 24/ دسمبر 1922ء کے ایک مشاعرے میں اپنے پہلے خطبہ میں سیمابؔ نے ان ہی باتوں کی جانب اشارہ کیا تھا۔
" اردو شاعری کی اجزائے ترکیبی جب تک صرف گل و بلبل ، شمع و پروانہ ، سرو قمری اور شانہ و زلف سے وابستہ رہے ، شاعری کو صرف تفریح کی خاطر ایک ذریعۂ مسرور سمجھی گئی ۔ لیکن قدرت نے لکھنؤ، دہلی اور پانی پت کے بعض فاضل عمائدین کے دماغ کو انوار شاعری سے تجلی کرکے دنیائے سخن کی فضائے بسیط پر رشد و ہدایت کی بجلیاں چمکائیں۔"

لیکن ایسی بات بھی نہیں کہ ایسی شاعری جس کے سیماب مخالف تھے ، صرف غزلوں میں ہی پائی جاتی تھیں ۔ بلکہ اس زمانے کی نظموں میں بھی اسی طرح کے اظہار جگہ پاتے تھے۔پھر بھی غزل کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ۔جس وجہ کر سیمابؔ اس سلسلے میں برابر تذبذب میں مبتلا رہے اور خود بھی خوب سے خوب تر غزلیں کہتے رہے۔لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ ؂
شگفتِ خاطر اے سیماب تھی جو شاعری پہلے
طبیعت پر وہ اب اک بار سا معلوم ہوتی ہے

سیماب کی غزلیں "کلیم عجم " سدرۃ المنتہیٰ سے "لوح محفوظ" تک پہنچتے پہنچتے ان کے فکر و خیال کی بلندی ، احساسات و جذبات کی رنگا رنگی ، حیات و کائنات کی تنقید ، تفسیر اور تعبیر تمام تر فنی بالیدگیوں کے ساتھ نظر آنے لگی تھیں اور اپنے مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کی وجہ کر اپنے ہم عصر شعراء میں بہت زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرچکی تھی ۔ جس سے ان کے ہم عصر شعرا ء کو حسد کا موقع ملا ۔ خاص طور پر سیماب کی غزل کا ایک شعر ؂
وہ سجدہ کیا رہے احساس جس میں سر اٹھانے کا
عبادت اور بقید ہوش توہین عبادت ہے

اس سے مخالفت بڑھی اور ان کے ہم عصروں کو موقع ملا کفر کا فتویٰ صادر کرنے کا۔لیکن سیمابؔ نے کبھی ان سب باتوں کی پرواہ کی اور نہ ان فضولیات میں پڑے ۔بلکہ اپنے فکر و فن ،احساس و جذبات ، مطالعہ و مشاہدہ سے اردو شاعری کا دامن بھرتے رہے۔
بہت سارے ایسے اشعار سیماب کی غزلوں میں ملتے ہیں جو انقلابیت، وطن دوستی ، ترک وطن کا کرب، وطن کی یاد، دوستوں کی رفاقت ، حیات و کائنات کے اسرار ورموز ، خدا کیقدرت اور اس کی کرشمہ سازیاں وغیرہ جیسے اہم موضوعات میں رومانیت و اشاریت کا حسین امتزاج موجود ہیں۔
سیماب ؔکی ابتدائی غزلوں میں رومانیت اور مناظرِ فطرت کی ایسی کیفیات پوری شدت کے ساتھ ملتی ہیں ،جس میں جذباتیت بھی ہے اور احساس کی رنگینیاں بھی ۔لیکن عریانیت یا عامیانہ اور سطحی باتوں کا کہیں پر بھی دخل نہیں ہے۔ اس سے سیمابؔ نے ہمیشہ پرہیز کیا۔

سیماب اپنے زمانے میں ادبی طور پر کس قدر متحرک اور فعال تھے ، اس کا اندازہ ان کی ان گرانقدر کتابوں جیسے
(1) ساز و آہنگ (نظمیں)
(2) سدرۃ المنتہیٰ (غزلیں) 1946ء
(3) شعر انقلاب (نظمیں) 1947ء
(4) عالم آشوب(تاریخی رباعیاں) 1943
(5) کار امروز (نظموں کا اوّل مجموعہ) 1934ء
(6) کلیم عجم (غزلوں کا اوّل دیوان) 1936ء
(7) لوح محفوظ (غزلوں کا تیسرا دیوان) 1979ء
(8) نیستاں (نظمیں) 1925ء
(9) دستور الاصلاح (فن اصلاح پر کتاب) 1940ء
(10) راز عروض (عروض پر اہم کتاب) 1923ء
وغیرہ سے لگایا جا سکتا ہے۔

***
نام کتاب: دستور الاصلاح
مصنف: علامہ سیماب اکبرآبادی
تعداد صفحات: 144
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Dastoor-al-Islaah by Seemab Akbarabadi.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

Dastoor-al-Islaah by Seemab Akbarabadi, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں