« پچھلی قسط --- تمام اقساط »
ناول کا خلاصہ :
ایک نوجوان اور اس کے دو بچوں کی ایسی حیرت انگیز اور دل ہلا دینے والی داستان، جو سیارہ زہرہ کے ایک ظالم سائنس داں کے تعاقب میں زمین سے کئی ہزار فٹ نیچے پاتال میں گئے۔ وہ زہرہ کی ایک آنکھ والی قوم کے غلام بنے، آدم خوروں کے چنگل میں پھنسے ، ایک فٹ کے بونوں کا زمین دوز شہر دیکھا اور جو ایک بار خود بھی ڈھائی انچ کے رہ گئے۔ جنہوں نے اتنی مصیبتیں صرف اپنی حسین اور پیاری دنیا کی سلامتی کی خاطر برداشت کیں اور انعام میں ان کا دامن، دولت، محبت، خوشی اور عزت کے پھولوں سے بھر گیا ۔۔۔!
فیروز کے خوفناک، بھیانک اور مہماتی سفرناموں کے سلسلے کی دوسری طویل داستان۔
میں ۔۔۔ فیروز آپ سب سے مخاطب ہوں!
۔۔۔۔ آپ میں سے بہت سے بھائی بہن، ہو سکتا ہے کہ مجھے نہ جانتے ہوں۔ ان کے لئے میں اپنا مختصر سا تعارف کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔ اس بات کو کافی سال گزر چکے ہیں۔ اور یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ میں ایک نوعمر لڑکا تھا۔ اپنی اس عمر میں میں نے ایک بہت لمبا اور کٹھن بحری سفر کیا تھا۔ اس سفر میں میرے ساتھ امریکہ سے آئے ہوئے مسٹر جان، افریقہ کے مسٹر جیک، مصر کے عبدل اور ہندوستان کا ایک کبڑا جادوگر چیتن تھا۔ آج کل کی طرح میں ایک بہت بڑی جہازی کمپنی کا مالک نہ تھا، بلکہ ایک معمولی سا لڑکا تھا جسے مسٹر جان نے ہمدردی کے طور پر اپنے ساتھ اس خطرناک سفر میں لے جانا ضروری سمجھا تھا۔
میں نے اپنی اس چھوٹی سی عمر میں کیا کیا تکلیفیں اٹھائیں، کن یقین نہ آنے والے واقعات سے دوچار ہوا اور مجھ پر کیا بپتائیں پڑیں۔ اس کی کہانی بہت لمبی ہے، اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے۔ میں نے اپنے اس خوفناک سفر کی کہانی ایک کتاب کی صورت میں لکھ دی تھی جس کا نام "خوف ناک جزیرہ" تھا اور جو مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے بہت سوں نے پڑھی ہوگی۔ اپنی یہ حیرت انگیز داستان میں نے اس وقت لکھی تھی جب کہ میں ہر مصیبت اور ہر امتحان سے گزر چکا تھا۔ میرے سب دشمن ختم ہو گئے تھے اور میں بڑے امن و سکون کی زندگی بسر کر رہا تھا۔
مگر اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اب میں نے اپنا یہ قلم پھر کیوں اٹھایا ہے! جن خوف ناک واقعات سے مجھے دوچار ہونا تھا ہو چکا۔ جو کچھ مجھے ملنا تھا وہ خدا نے مجھے عطا کر دیا۔۔۔ پھر آخر وہ کون سی بات ہے جس سے متاثر ہو کر مجھے پھر سے ایک دوسری داستان لکھنے کی ضرورت پیش آ گئی؟ اس کے جواب میں میں عرض کروں گا کہ خدا نے ہر شخص کی قسمت ایک سی نہیں بنائی اور نہ ہی کسی انسان کو اس نے ایسا بنایا ہے کہ زندگی بھر وہ چین کا سانس لیتا رہے۔ زندگی میں جب تک ہل چل نہ ہو، تکلیفیں نہ ہوں مصیبتیں نہ آئیں، اسے ہم زندگی کیسے کہہ سکتے ہیں! آج آدمی ہنس رہا ہے مگر کسے معلوم کہ کل وہ روئے گا! ہم اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے۔ آج اگر ہم خوش ہیں تو کل کے بارے میں ہمیں یہ یقین نہیں کہ کیا ہو گا؟
کچھ ایسی ہی بات میرے ساتھ پیش آئی۔ میری زندگی جس طرح گزر رہی تھی، شاید ہی کسی دوسرے کی گزری ہوگی! بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ بادشاہ کو بھی وہ چین اور سکون میسر نہ ہوگا جو مجھے حاصل تھا۔ میں اب ایک بہت بڑی جہازی کمپنی کا مالک تھا۔ خدا نے مجھے وہ سب کچھ دیا تھا جس کی تمنا دنیا میں ہر انسان کرتا ہے۔ میرے جہاز دنیا کے دور دور کے ملکوں میں جاتے تھے، ان میں سے کچھ جہاز تجارتی تھے اور کچھ مسافروں کو لانے لے جانے کے لئے میری تجارت خوب چمکی ہوئی تھی۔ وہ ملاح جو "خوف ناک جزیرہ" والے سفر میں میرے ساتھ تھا، وہی اس وقت میرا سب سے بڑا مددگار تھا۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہو گا میری ایک بچی تھی، جس کے نام مسٹر جان نے اپنی تمام دولت کر دی تھی۔ اس بچی کا نام ہم نے نجمہ رکھا تھا۔۔۔ نجمہ کے بعد اللہ نے مجھے ایک چاند سا لڑکا دیا جس کا نام سب کے مشورے سے اختر رکھا گیا۔
یہی دو بچے اب میری زندگی کا سب سے بڑا سہارا تھے۔ دونوں کی عمریں اس وقت بالترتیب 15 سال اور 14 سال تھیں۔ دونوں بھائی بہن ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ ایک کے بغیر دوسرے کو کبھی چین نہ ملتا تھا۔ ساتھ کھیلتے اور ساتھ اسکول جاتے۔ اپنے ان بچوں کو میں دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔ جس طرح میں اپنے لڑکپن میں خطروں میں کودنے کا عادی تھا، بالکل اسی طرح نجمہ اور اختر بھی تھے۔ ابھی سے وہ دونوں بہت نڈر اور بہادر تھے۔ اول تو ان پر کوئی مصیبت ابھی تک آئی نہیں تھی۔ مگر میں نے دیکھا کہ ہلکی سی تکلیف اور پریشانی کے وقت بھی وہ دونوں مسکراتے رہتے۔ اور ان کی پیشانی پر ذرا سی بھی لکیر نہیں پڑتی تھی۔ میری ہی طرح وہ دونوں بھی اپنی اس چھوٹی سی عمر میں تقریباً پوری دنیا کا سفر کر چکے تھے۔ میرے جہاز پوری دنیا کا چکر لگا کر آتے تھے اور اسی لئے ہر سفر میں کبھی نجمہ چلی جاتی تھی اور کبھی اختر۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں بچے سمندری سفر کے عادی ہو گئے تھے اور طوفان یا خراب موسم میں بھی مسکراتے رہتے تھے۔ روز روز کے سفر نے انہیں حالات کا مقابلہ کرنا سکھا دیا تھا اور اب وہ بالکل نڈر اور بہادر بن گئے تھے۔
نجمہ کی پیدائش کے تین سال بعد جب کہ میری تجارت خوب بڑھ گئی تھی میں نے ایک شریف آدمی کو اپنے ہاں ملازم رکھا تھا۔ میرے جتنے بھی ملاح تھے، میں نے اسے ان سب کا نگراں بنا دیا تھا۔ اس کا نام بلونت تھا۔ وہ اپنے کام میں اتنا ہوشیار تھا کہ مجھے کبھی اس سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ شاید ہی اس سے زیادہ شریف، ایماندار اور محنتی آدمی مجھے کبھی ملا ہو۔ اس کی شرافت سے میری بیوی بڑی متاثر تھی۔ اس کا میرے گھر میں آنا جانا تھا اور میرے دونوں بچے ایک طرح سے اسے اپنا چچا سمجھتے تھے۔ بلونت میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ اس نے مزدوروں یا ملاحوں پر کبھی سختی نہیں کی، اس لئے ملاح اس کے گن گاتے تھے اور اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ جہازوں کے کپتان میرے سامنے اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بلونت کا درجہ میری نظروں میں اپنے بڑے بھائی جیسا ہو گیا اور میں اس پر سب سے زیادہ اعتبار کرنے لگا۔ کیوں کہ درحقیقت وہ اس لائق تھا کہ اس پر اعتبار کیا جائے۔ یہ بلونت ہی تھا جو میرے دونوں بچوں کو باری باری یا کبھی ایک ساتھ ہی دنیا کے سفر پر لے جاتا۔ بعض دفعہ وہ بالکل اکیلا جاتا اور کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ وہ کہاں گیا ہے۔۔۔ حالانکہ بتاتا مجھے بھی نہیں تھا مگر مجھے یقین تھا کہ کسی ملک میں اس کے بیوی بچے بھی موجود ہیں اور یقیناً وہ انہیں کے پاس جاتا ہے۔ اس لئے میں نے کبھی اس سلسلے میں اس سے پوچھ گچھ نہیں کی۔
ملاح، جو میرے پہلے سفر میں میرے ساتھ تھا اور جس کا نام کرشنا سوامی تھا، بلونت کے نیچے یعنی اس کے ماتحت کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ ہم سب اسے صرف سوامی کہتے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو میرے موجودہ کام میں بلونت اور سوامی میرے دونوں بازو تھے، ان کے بغیر میں کوئی کام نہیں کر سکتا تھا۔ سوامی کی عادتیں بڑی عجیب تھیں۔ جب میں نے بلونت کو ملازم رکھا تھا، تبھی سے سوامی اس سے جلنے لگا تھا۔ جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے صرف اتنا ہی جواب دیا کہ بس نہ جانے یہ آدمی مجھے کیوں اچھا نہیں لگتا۔ میں سمجھ گیا کہ اس کی تہہ میں کیا راز ہے؟ پہلے سوامی سب ملاحوں کا سردار بنا ہوا تھا اور اب بلونت کو میں نے اس کا سردار بنا دیا تھا۔ یہی بات اسے ناپسند تھی۔ ویسے یہ کہنے کی مجھے ضرورت نہیں کہ میرے دونوں بچوں کو وہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا تھا اور بچے جب اسے کلو سوامی کہہ کر چڑاتے تو وہ ناراض ہونے کی بجائے خوب ہنستا۔۔۔۔۔ اسی بات سے اس کی اچھی طبیعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی وہ ہیبت ناک داستان شروع کروں جس کو لکھنے کے لئے میں نے آج پھر قلم اٹھایا ہے۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ جان اور جیک کے بارے میں چند باتیں آپ کو اور بتا دوں، کیونکہ ان دونوں کو آگے چل کر میری اس داستان میں بہت کام کرنا ہے۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے جان ہی دراصل ہمارے پہلے سفر میں پارٹی کا لیڈر تھا اور جیک اس کا ساتھی۔ یہ تو فی الحال بتایا نہیں جا سکتا کہ ان دونوں نے تب کیا کارنامے انجام دئے، مختصراً مجھے ان دونوں کے بارے میں صرف اتنا کہنا ہے کہ جان جیک کو اپنے ساتھ لے کر واپس اپنے ملک امریکہ چلا گیا تھا۔ وہاں وہ اندھے بچوں کا ایک اسکول چلاتا تھا۔ ہمارے پچھلے سفر میں اس نے ڈوبنے اور ابھرنے والے ایک جزیرے میں سے ایک خوفناک مکھی کی حیرت انگیز آنکھیں نکالی تھیں اور انہیں آنکھوں کے اثر سے اس نے بہت سے اندھے بچوں کو بینائی دی تھی۔ جان مجھے اپنے لڑکے کی طرح سمجھتا تھا۔ اگر مجھے ذرا سی بھی تکلیف پہنچتی تو فوراً اس کا تار یا ٹیلی فون آتا۔ جب تک میں اسے یہ یقین نہ دلا دیتا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں، تب تک اسے چین نہ آتا۔۔۔ جان اور جیک دونوں مجھے اسی طرح چاہتے تھے۔
یہ ہے میرا اور میرے ساتھیوں کا تھوڑا سا تعارف، کیوں کہ یہ باتیں بتائے بغیر آپ سب میری اس عجیب اور حیرت انگیز کہانی کا لطف نہیں اٹھا سکتے جو میں اب آپ کو سنانے والا ہوں۔ دراصل جو کچھ اب تک میں نے لکھا ہے وہ ایک طرح کی تمہید ہے۔ مطلب کی بات تو اب شروع ہوتی ہے مگر یقین مانیے گا، یہاں تک لکھنے کے بعد میرا قلم لرزنے لگا ہے اور میرے دل کی دھڑکن بڑھ گئی ہے۔ مجھے وہ پوری باتیں اور وہ سب خوفناک واقعات یاد آنے لگے ہیں، جن کا تصور کرتے ہی میں کانپ کانپ جاتا ہوں۔۔۔
میرے خدا!۔۔۔ کتنی عجیب باتیں۔۔۔! کیسے ہیبت ناک واقعات مجھے پیش آئے تھے۔ بس میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ سب جو میری اس عجیب و غریب کہانی کو پڑھنے والے ہیں، مجھے یقین ہے کہ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد بہت دیر تک خوف کی وجہ سے لرزتے رہیں گے۔
اور اب میں دل کو قابو میں کر کے وہ کہانی شروع کرتا ہوں جو عجیب و غریب اور دل دہلا دینے والی ہے۔۔۔
اب سے چند سال پہلے کی بات ہے کہ میں بمبئی میں اپنے عالی شان بنگلے میں بیٹھا تھا۔ نجمہ اور اختر پڑھنے گئے ہوئے تھے۔ بلونت میرے ایک جہاز کے ساتھ آسٹریلیا گیا ہوا تھا۔ ہاں البتہ سوامی میرے جہازی دفتر میں موجود تھا۔ صبح ہی صبح میری طبیعت بہت خوش تھی۔ جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں، میری زندگی اب ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی۔ مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ اچانک مجھے ایسا لگا جیسے مجھ پر کوئی آفت آنے والی ہے، کوئی نامعلوم طاقت اور کوئی ان دیکھی قوت جیسے مجھے بتا رہی تھی کہ آج میرے ساتھ کوئی عجیب سا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ بیٹھے بٹھائے میرا دل گھبرانے لگا۔ دل کی دھڑکن بڑھ گئی اور طبیعت پریشان سی ہو گئی۔ میری بیوی نے بھی میری اس تبدیلی کو محسوس کرلیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا بھی کہ مجھے اچانک کیا ہو گیا ہے۔۔۔ مگر میں اسے کیا بتاتا۔ مجھے تو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ یکایک میری ایسی حالت کیوں ہو گئی۔ یہ سوچ کر کہ شاید دفتر پہنچ کر میرے دل پر سے یہ بوجھ اتر جائے میں فوراً دفتر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ ڈرائیور سے میں نے کار لانے کو کہا اور پھر کپڑے تبدیل کر کے بنگلے سے باہر آ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد میں اپنے دفتر پہنچ گیا۔۔۔ سوامی مجھے باہر ہی مل گیا۔۔۔
مجھے سوامی کی اس عادت کی تعریف کرنی پڑتی ہے کہ وہ چہرہ دیکھ کر دل کا حال جاننے والوں میں سے تھا۔۔۔ اس کے سامنے ہی میں لڑکے سے جوان ہوا تھا۔ وہ مجھ سے ایسی محبت کرتا تھا جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے سے کرتا ہے۔۔۔ اور شاید جان کے بعد وہی ایسا شخص تھا جس کی کڑوی کسیلی باتیں، جس کی ڈانٹ پھٹکار اور جس کا غصہ میں برداشت کرتا تھا۔۔۔ کسی کی طاقت نہیں تھی کہ مجھے غصے کی نظر سے دیکھ سکے۔ ہاں البتہ سوامی مجھے ڈانٹتا تھا، اور میں سب سہتا تھا، اس کی کسی بات کا برا نہیں مانتا تھا۔۔۔ تو یہی سوامی مجھے دفتر کے باہر مل گیا۔ میری حالت دیکھ کر وہ میرے ساتھ ہی اندر دفتر میں آ گیا اور کہنے لگا۔
"کیا بات ہے مالک۔۔۔ آپ اداس ہیں۔۔۔ بے بی اور بابا تو ٹھیک ہیں؟"
"کوئی خاص بات نہیں سوامی۔۔۔ نہ جانے کیا بات ہے، مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے آج مجھے کوئی بہت بڑی تکلیف پہنچنے والی ہے۔۔۔" میں نے جواب دیا۔
"واہ۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔۔ آپ بڑے وہمی ہو گئے ہیں۔۔۔" سوامی نے ہنس کر کہا۔
"ہو سکتا ہے کہ میری عمر کے ساتھ ساتھ وہم بڑھتا جا رہا ہو۔۔۔"
"واہ۔۔۔ خوب کون سے آپ بوڑھے ہو گئے ہیں۔۔۔ اپنے ذہن سے یہ خیال ہٹا دیجئے اور کام کاج میں دلچسپی لیجئے۔ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔"
میں ہنس کر چپ ہو رہا۔ مگر اندر ہی اندر میرا دل ڈوب سا رہا تھا۔ ایک عجیب سی حالت تھی جس نے مجھے بے چین کر رکھا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں۔ اتنا بڑا آدمی بننے کے باوجود بھی میں ایک مذہبی آدمی تھا۔ خدا نے میرے ہر آڑے وقت میں مدد کی تھی۔۔۔ جب مجھے اپنی زندگی کی ذرا سی بھی امید نہیں تھی، اس وقت خدا نے میرے جسم میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔۔۔ لہٰذا اس وقت بھی میں نے خدا ہی کے اوپر اپنا معاملہ چھوڑ دیا۔۔۔ یہ جو میرا دل کانپ رہا تھا، مجھے یقین تھا کہ یہ کسی نئی مصیبت کا پیش خیمہ ہے۔۔۔ مگر میں اپنی تقدیر سے کس طرح لڑ سکتا تھا!۔۔۔ اس لئے خاموشی سے بیٹھ کر سوچنے لگا کہ دیکھو کیا ہوتا ہے اور کیا نئی بات ہوتی ہے!
اور وہ نئی بات ہو گئی۔ جس بات کا مجھے اندیشہ تھا وہی ہوئی۔ سوامی مجھے تسلی دے رہا تھا کہ اچانک دفتر کا دروازہ کھلا اور میری سکریٹری ماریا اندر داخل ہوئی اور بولی۔
"سر۔۔۔ ایک مچھیرا آپ سے ملنا چاہتا ہے ۔۔۔"
"مچھیرا۔۔۔!" سوامی نے حیرت سے کہا:
"تم خود ہی اس سے بات کیوں نہیں کر لیتیں۔۔۔!"
"سر، میں نے بہتری کوشش کر لی، مگر وہ نہیں مانتا۔۔۔ وہ کہتا ہے بہت ضروری کام ہے۔۔۔ مالک ہی سے بات کروں گا۔"
میرے دل میں اتھل پتھل ہونے لگی۔۔۔ کون ہو سکتا ہے وہ مچھیرا۔۔۔ آخر اسے مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے! کیا میں اس سے ملاقات کر لوں یا پھر انکار کردوں۔۔۔ بڑی دیر کے سوچ بچار کے بعد میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اسے بلا کر اس کی بات سن ہی لینی چاہئے۔ میں نے ماریا سے کہہ دیا کہ اسے اندر لے آئے۔ ماریا چلی گئی۔۔۔ مگر ہائے اب مجھے وہ وقت یاد آتا ہے تو دل کانپ جاتا ہے۔ کاش وہ مچھیرا مجھ سے ملنے نہ آتا۔ کاش میں اس سے ملنے سے انکار کر دیتا!۔۔۔ مگر تقدیر کھڑی ہنس رہی تھی، قدرت نے میرے حق میں یہی فیصلہ کر دیا تھا کہ میں اس مچھیرے سے ملوں اور آفتوں کو گلے لگا لوں۔
"حضور۔۔۔ سلام حضور۔۔۔" مچھیرا اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر بولا۔
"کیا بات ہے۔۔۔ تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہو۔" میں نے پوچھا۔
مچھیرے نے اپنے تھیلے میں سے ایک شیشے کی بوتل نکالی اور اسے میری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا۔
"میرا باپ بہت غریب اور ان پڑھ ہے سرکار۔۔۔ اپنے خاندان میں صرف میں ہی تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہوں حضور۔۔۔ میرے باپ نے مجھے یہ بوتل دے کر آپ کے پاس بھیجا ہے۔ وہ کل سمندر میں مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ یہ بوتل اسے سمندر کے اندر بہتی ہوئی نظر آئی۔ لہریں اسے ساحل کی طرف لے جا رہی تھیں۔ اس نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔۔۔ اور آج میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا ہوں۔۔۔"
"کیوں۔۔۔؟" میں نے تعجب سے دریافت کیا۔
"اس لئے حضور کہ یہ بوتل آپ کے نام ہے۔۔۔"
میں نے یکایک چونک کر پوچھا۔
"میرے نام۔۔۔ کیا مطلب؟"
"کیا بوتل پر کوئی پتہ لکھا ہے جو تم اسے لے کر مالک فیروز کے پاس آئے ہو؟" سوامی نے مچھیرے کو گھورتے ہوئے پوچھا :
"اگر ایسا ہی تھا تو پھر پانی میں وہ پتہ مٹا کیوں نہیں؟"
"بوتل پر تو نہیں لکھا سرکار، مگر جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ میں تھوڑا پڑھا لکھا ہوں۔"
"تو پھر۔۔۔؟" سوامی نے پوچھا۔
"سرکار بوتل کی ڈانٹ کھولنے کے بعد مجھے اس میں سے دو خط ملے۔۔۔ ایک خط اس شخص کے نام ہے جسے یہ بوتل ملی ہے اور دوسرا خط مالک کے نام ہے۔ پہلا خط بوتل کے گلے تک ہی تھا، اس لئے آسانی سے نکل آیا اور دوسرا خط جس کے باہر مالک کا نام فیروز لکھا ہے، بوتل کے پیندے کے قریب تھا۔ وہ تو صرف بوتل کو توڑنے کے بعد ہی نکل سکتا ہے۔"
"تو پھر تم نے بوتل کیوں نہیں توڑی؟" سوامی نے پوچھا۔
"اسے نہ توڑنے کی ہدایت اس خط میں درج ہے جو میرے باپ کے نام ہے۔۔۔ یہ لیجئے وہ خط، اسے پڑھ لیجئے۔"
مچھیرے نے میری طرف خط بڑھاتے ہوئے کہا۔
میں نے وہ خط لے لیا۔ کسی جیبی ڈائری سے پھٹا ہوا ایک ورق تھا وہ اور اس پر ٹوٹی پھوٹی اردو میں مندرجہ ذیل عبارت لکھی ہوئی تھی:
بوتل پانے والے کے نام
اے شخص! تم چاہے کوئی ہو، کسی بھی مذہب اور کسی بھی قوم سے ہو، ایک اجنبی آدی تم کو اس ذات کا واسطے دے کر جسے تم پوجتے ہو، کہتا ہے کہ اس کا یہ کام کر دو اور اس کے عوض میں پانچ ہزار روپے حاصل کر لو۔ میں نے بوتل میں ایک دوسرا خط اور رکھا ہے۔ براہ کرم اسے مت پڑھنا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ بوتل تمہیں ملے گی بھی یا نہیں۔ میں نے تو اس میں خط رکھ کر اور پھر ڈاٹ لگا کر سمندر میں پھینک دیا ہے۔ مجھے صرف خدا پر بھروسہ ہے، اگر اسے مجھے زندہ رکھنا ہے تو پھر یہ بوتل ایک نہ ایک دن کسی بھی ساحل سے ضرور لگے گی۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی اسے ضرور اٹھائے گا۔ اس لئے اگر یہ بوتل تمہیں مل رہی ہے تو تمہارا کام یہ ہے کہ اس پرچے پر نیچے لکھے ہوئے پتے پر یہ بوتل پہنچا دو اور فوراً ہی اس شخص سے پانچ ہزار روپے لے لو۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ بوتل والا دوسرا خط پڑھتے ہی وہ تمہیں پانچ ہزار روپے فوراً دے دے گا اور اگر اتفاق سے تم کسی دور دراز ملک کے رہنے والے ہو تو تمہیں آنے جانے کا خرچ بھی دے گا۔ مگر خدا کے لئے بوتل ملتے ہی اسے پہنچا دینا۔ کیوں کہ اسی پر میری زندگی کا دارومدار ہے۔۔۔ خدا کی قدرت دیکھو کہ ایک مجبور و بے کس انسان اپنی زندگی کی گھڑیاں گن رہا ہوگا جب کہ تم پانچ ہزار روپے حاصل کر رہے ہو گے۔ اس شخص کا پتہ یہ ہے:
نواب زادہ فیروز، فیروز سی ٹریولرز، بائی کلا۔۔۔ بمبئی(انڈیا)
فقط: ایک مصیبت زدہ
مچھیرے کے نام یہ خط پڑھ کر میری عجیب حالت ہوگئی، کون ہو سکتا ہے یہ آدمی۔۔۔ کہاں ہے اور اس پر کون سی مصیبت نازل ہوئی ہے؟ یہی سوالات تھے جو بار بار میرے ذہن میں آنے لگے۔سوامی اور مچھیرا دونوں مجھے حیرت زدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے اور میں بوتل کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس بوتل میں پڑے ہوئے خط میں میرے لئے کسی نے کوئی گہرا راز چھوڑا ہے۔ کیا راز ہو سکتا ہے وہ؟۔۔۔ اور پھر یہ کون آدمی ہے جسے اتنا یقین ہے کہ خط پڑھتے ہی میں مچھیرے کو پانچ ہزار روپے دے دوں گا! میرے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ دل چاہتا تھا فوراً ہی بوتل توڑ کر وہ خط نکال لوں۔۔۔ مگر عقل روکتی تھی کہ نہیں۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو اس خط میں تیرے لئے کوئی مصیبت چھپی بیٹھی ہو! ہزاروں مصیبتیں اٹھانے کے بعد اب میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کا عادی ہوچکا تھا۔
"کیوں مالک! کیا کوئی خاص بات ہے؟"
سوامی نے مجھے پریشان دیکھ کر پوچھا۔
"نہیں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔۔۔ یہ بوتل میرے ہی نام ہے اور اس میں سے جو خط دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ وہ بھی میرے ہی لئے ہے۔۔۔" میں نے جواب دیا۔
اس کے بعد میں بوتل کو پھر غور سے دیکھنے لگا۔ وہ بوتل ایسی تھی جیسی کہ لوگ عموماً سفر میں استعمال کرتے ہیں۔ یعنی بالکل چپٹی۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ شاید پٹرول یا اسپرٹ کے لئے کام میں لائی جاتی ہوگی۔ کیوں کہ وہ ایک چھوٹی سی جیبی بوتل تھی اور اب اس بوتل میں سے ایک خط مجھے جھانک رہا تھا۔ زیادہ دیر پریشان ہونے سے بچنے کی خاطر میں نے سوامی سے کہا کہ وہ بوتل توڑ دے۔
سوامی نے مجھے پھر حیرت سے دیکھا۔ مگر وہ جانتا تھا کہ میں ضدی ہوں۔ اور پھر چونکہ خط حاصل کرنے کا طریقہ بوتل توڑنے کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا اس لئے سوامی نے وہ بوتل توڑ دی اور پھر اس میں سے جیبی ڈائری کے تین ورق نکال کر مجھے دے دئے۔ یہ تینوں ورق جنگلی ببول کانٹے سے نتھی تھے۔ کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے میں نے وہ ورق کھولے اور پھر انہیں پڑھنے لگا۔ میرے نام یہ عجیب و غریب خط اردو زبان میں لکھا ہوا تھا اور جیسا کہ آپ دیکھیں گے کہ یہ خط پڑھتے ہوئے میری حالت غیر ہونے لگی۔ جوں جوں میں خط پڑھتا جاتا تھا میرا دل لرزتا جاتا تھا۔ شاید آپ لوگ جو میری اس کہانی کو پڑھ رہے ہیں، خود بھی اس خط کا مضمون جاننے کے لئے بے تاب ہوں گے۔۔۔ میں آپ کو زیادہ دیر تک انتظار میں نہ رکھتے ہوئے وہ خط ہو بہو نقل کرتا ہوں۔
2/فروری
میرے بیٹے، میرے فیروز!
میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ تمہیں تفصیل سے سب کچھ بتاؤں۔ یہ تو تمہیں اس وقت معلوم ہو گا جب کہ ہم ملیں گے (خدا کرے کہ ایسا ہی ہو!) میں تو صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میں اور جیک اس غیر آباد جزیرے پر ایڑیاں رگڑ کر مر رہے ہیں۔ میری طاقت ختم سی ہو چکی ہے۔ پینے کا پانی اس جزیرے میں بہت کم ہے۔ ہم دونوں زخمی بھی ہیں۔ تکلیف اب برداشت سے باہر ہے۔ ہم دونوں کا کیا حشر ہو گا، یہ تو خدا ہی بہتر جان سکتا ہے، گدھوں کی ٹولی یہاں کے اجاڑ سے درختوں پر بیٹھی، ہماری جان نکلنے کا انتظار کر رہی ہے۔ خدا کے لئے جلدی ہمیں ڈھونڈو اور اس مصیبت سے نجات دلاؤ۔۔۔ میں کہاں ہوں، کس جگہ ہوں میں یہ کچھ نہیں بتا سکتا، میرے پاس قطب نما بھی نہیں ہے جو تمہیں صحیح سمت بتلاؤں۔۔۔ بس میں تو اتنا جانتا ہوں کہ اگر میری قسمت میں تم سے ملنا لکھا ہے تو تم مجھے ڈھونڈ ہی لو گے۔۔۔ اور اگر میں تم سے ملنے سے پہلے ہی مر گیا۔۔۔ تو پھر میری اور جیک کی طرف سے ہمیشہ کے لئے خدا حافظ!
تمہارا: جان اسمتھ ولیم
اب آپ سب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ خط پڑھنے کے بعد میری کیا حالت ہوئی ہوگی!۔۔۔ میرا بزرگ، میرے باپ کے برابر شخص، وہ شخص (جان کے پورے حالات معلوم کرنے کے لئے ناول "خوف ناک جزیرہ" ملاحظہ فرمائیے۔) جسے میں دنیا میں سب سے زیادہ چاہتا تھا اور جس کا بہت زیادہ ادب کرتا تھا، وہی شخص اس وقت میری مدد کا محتاج تھا۔۔۔ مگر بدقسمتی دیکھئے مجھے یہ بالکل معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، بوتل اس نے پانی میں 2/فروری کو ڈالی تھی اور اس دن جب کہ وہ مچھیرا میرے پاس آیا تھا ، 15/فروری تھی۔۔۔ تیرہ دن تک یہ بوتل سمندر کی بے رحم موجوں کے سہارے ڈولتی رہی۔۔۔ کیا تیرہ دن تک وہ زندہ رہے ہوں گے؟
یہ بھیانک خیال آتے ہی میرا دل لرزنے لگا۔ جان کا خیال مجھے بری طرح تڑپانے لگا۔ یہ احساس کہ میں اس وقت عیش کر رہا ہوں اور سمندر کے بیچ میں کسی ویران ٹاپو پر جان موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے، میرے لئے بڑا جان لیوا تھا۔ میری مٹھیاں بھنچ گئیں۔ چہرہ سرخ ہو گیا اور میں یکایک کھڑا ہوگیا۔ سوامی مجھے تعجب سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا۔
"سوامی۔۔۔ اس مچھیرے کو اکاؤنٹنٹ کے پاس لے جاؤ اور پانچ ہزار روپے ابھی دے دو۔ اس کے ساتھ ہی میرا خاص اسٹیمر تیار کراؤ، میں آج ہی ایک لمبے سفر پر روانہ ہونا چاہتا ہوں۔۔۔"
یہ سنتے ہی سوامی کا مونہہ حیرت کی وجہ سے پھٹا کا پھٹا رہ گیا۔ اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی ہی تھی کہ میں نے اسے ڈانٹ دیا۔
"میرا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ میرا وقت ضائع مت کرو، جو میں کہتا ہوں وہ کرو۔۔۔"
سوامی میرے تیور پہچان گیا اور چپ چاپ مچھیرے کو لے کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میری عجیب حالت ہو گئی۔ جان کا تصور رہ رہ کر ستانے لگا۔ جیک کی صورت آنکھوں میں پھرنے لگی۔ کبھی میں سوچنے لگتا کہ آخر ان دونوں پر کیا مصیبت پڑی جو وہ ایک نا معلوم جزیرے میں پہنچ گئے، کبھی خیال آتا کہ آخر وہ امریکہ سے کس چیز کی تلاش میں نکلے تھے۔۔۔ کہاں جا رہے تھے؟ کس لئے جا رہے تھے؟ مگر ان سوالوں کا جواب تو مجھے اسی وقت مل سکتا تھا جب کہ میں جان اور جیک کو ڈھونڈ نکالتا!
پریشانی کی وجہ سے میں کمرے میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر ٹہلنے لگا۔ اچانک آواز آئی۔
"کیا بات ہے آپ پریشان کیوں ہیں؟"
میں نے مڑ کر دیکھا تو بلونت دروازے میں کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر میرے دل کو ڈھارس بندھی۔ بلونت، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے باہر گیا ہوا تھا اور شاید آج ہی واپس آ گیا تھا، میں نے اس سے کہا۔
"آؤ بلونت۔۔۔ مجھے اس وقت تمہاری سخت ضرورت ہے۔۔۔ مگر تم واپس کب آئے؟"
"ابھی ابھی۔۔۔" بلونت نے جواب دیا:
"راستے میں سوامی نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔"
بلونت کو اپنے پاس بٹھا کر میں نے اسے تمام واقعات بتائے۔ اتنی ہی دیر میں سوامی بھی واپس آ گیا۔ اس نے مچھیرے کو پانچ ہزار روپے دلوا دئے تھے۔ میں نے ان دونوں کو سب باتیں بتا کر انہیں حکم دیا کہ اسٹیمر میں نا معلوم عرصے تک کام آنے والا راشن رکھ لیں، اسے سب ہتھیاروں سے لیس کر لیں اور ابھی ملاحوں کو تیار رہنے کا حکم دے دیں، اتنی دیر میں میں اپنے بیوی بچوں سے مل آؤں۔ یہ حکم سن کر بلونت نے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے جواب دیا۔
"آپ بے فکر رہئے، ہم جان اور جیک کو ضرور ڈھونڈ لیں گے۔۔۔ آپ بچوں سے مل آئیں، ہم سب تیار ہوتے ہیں۔۔۔ جیسا کہ آپ نے کہا ہے ہم اتنے میں اسٹیمر کو جنگی سامان سے لیس کردیتے ہیں۔"
مجھے اب یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ بیوی سے میں کس طرح رخصت ہوا، یہ تو ظاہر ہے کہ وہ بے چاری میرے سفر کا سنتے ہی پریشان ہو گئی۔ مگر میں ںے اس کی ڈھارس بندھائی، بچے اسکول سے آ چکے تھے، انہیں پیار کیا اور نصیحتیں کیں۔ اس کے بعد بیوی کو آنسو بہاتا چھوڑ کر میں ساحل کی طرف روانہ ہوا۔ بندرگاہ پر میرا اسٹیمر کھڑا ہوا تھا۔ سب سامان تیار تھا، میرے بیٹھتے ہی بلونت نے اسٹیمر چلوا دیا اور میں لرزتے ہوئے دل اور حسرت بھری نگاہوں سے اسٹیمر کو بندرگاہ سے دور ہوتے دیکھتا رہا۔ اس وقت میرے دل میں عجیب عجیب خیال آ رہے تھے، خدا جانے میں واپس آؤں گا یا نہیں۔۔۔ میری منزل کون سی ہے۔۔۔ مجھے جانا کس طرف ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میرا یہ سفر آخری سفر ہو اور اب میں کبھی بمبئی کی شکل نہ دیکھ سکوں!
۔۔۔ بڑی مشکل سے یہ واہیات خیال اپنے ذہن سے دور کیا اور اکیلا بیٹھ کر سوچنے لگا۔ کھڑکی میں سے نظر آنے والا سمندر اب آہستہ آہستہ ڈراؤنا ہوتا جا رہا تھا۔ لہریں ایک دوسرے سے گلے مل مل کر رو رہی تھیں۔ اسٹیمر رفتار پکڑ رہا تھا۔۔۔ جوں جوں وہ سمندر کے اندر بڑھتا جاتا میرا دل ڈوبتا جاتا، کوئی نا معلوم طاقت کہہ رہی تھی کہ بس اب واپس آنا محال ہے۔ جس سفر کے لئے میں نکلا ہوں، وہ سفر ایسا ہوگا کہ بڑے بڑے سورماؤں کا پتہ پانی ہو جائے۔ میرے دل کی عجیب حالت تھی۔ جان مجھے جتنا عزیز تھا اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ میں اس کی خاطر اپنے بیوی بچوں کو بھی چھوڑ بیٹھا تھا۔ ان سب سے خدا حافظ کہتے ہوئے دل میں میں نے یہی سوچ لیا تھا کہ بس یہ خدا حافظ ہمیشہ کے لئے ہے!
مئی کا مہینہ تھا، سمندری علاقے میں لوئیں تو چلتی نہیں، موسم تقریباً ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ اس لئے سفر میں مجھے کچھ پریشانی نہیں ہوئی۔ ہم لوگ بڑے مزے میں سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ بمبئی کا ساحل اب ایک پتلی سی لکیر نظر آتا تھا، پام کے لمبے لمبے درخت دور سے بالکل گھاس معلوم ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ زمین کی پتلی سی لکیر بھی اب نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اور تب مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں بالکل اکیلا ہوں۔ میرے پچھلے سفر میں تو میرے ساتھ ایک پوری پارٹی تھی مگر اس سفر میں سوائے بلونت اور سوامی کے میرا کوئی ہم درد نہیں تھا۔ سب سے بڑی فکر جو مجھے پریشان کررہا تھا وہ یہ تھا کہ میں جان کو کہاں تلاش کروں؟ وہ کون سا غیر آباد جزیرہ ہے جس پر وہ دونوں اس وقت موجود ہیں۔
سمندر کے نقشے پر نظر ڈالنے کے بعد بھی مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ جنوبی امریکہ، افریقہ اور ہندوستان کے سمندروں میں کوئی ایسا جزیرہ بھی ہے جس پر آبادی کا نام و نشان ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ سوچ کر بھی حیرت ہو رہی تھی کہ آخر وہ کون سی وجہ تھی، جس سے مجبور ہو کر جان نے سمندری سفر ہی کیا۔ حالاں کہ اگر وہ چاہتا تو بذریعہ ہوائی جہاز بھی ہر جگہ جا سکتا ہے کیوں کہ اب وہ اتنا دولت مند تھا کہ اگر چاہتا تو کئی ہوائی جہاز خرید سکتا تھا!
اپنے اسٹیمر کے عالی شان اور خوب صورت کیبن میں بیٹھا ہوا میں لگاتار سوچے جا رہا تھا کیوں کہ اس کے علاوہ اب مجھے اور کوئی کام بھی نہیں تھا۔ سہ پہر کے وقت میں بمبئی سے چلا تھا اور اب شام ہو رہی تھی۔ سمندری کونج اور دوسرے لمبی لمبی چونچوں والے پرندے آہستہ آہستہ ہوا میں اونچے اڑنے لگے تھے۔ پرندوں کو دیکھ دیکھ کر مجھے رشک آرہا تھا۔ ایک یہ پرندے ہیں کہ بمبئی کی طرف اپنے آشیانوں میں جا رہے ہیں اور ایک میں ہوں کہ اپنے گھر سے ہمیشہ کے لئے دور ہوتا جارہا ہوں!
۔۔۔ ہوا تھم گئی تھی۔ سمندر کی لہریں اب چپ چاپ ہونے لگی تھیں۔ سورج سمندر میں ڈوب رہا تھا اور پانی پر ایسا لگتا تھا جیسے یہاں سے وہاں تک کسی نے ایک نارنجی رنگ کا راستہ بنا دیا ہو۔ منظر بڑا حسین تھا مگر سورج کی ہی طرح میرا دل بھی ڈوب رہا تھا۔ میں آرام کرسی کی کمر سے ٹیک لگائے بڑی خاموشی سے ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک دروازہ کھلا اور سوامی اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر بے چینی کے آثار تھے۔
Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:1
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں