خوشتر گرامی - بیسویں صدی کا افسانوی صحافی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-11

خوشتر گرامی - بیسویں صدی کا افسانوی صحافی

khushtar girami
تقسیم وطن کے بعد ہندوستان میں اردو کے مقبول ترین رسائل وجرائد کی تاریخ میں رسالہ "بیسویں صدی" اور اس کے بانی و مدیر رام رکھا مل خوشتر گرامی کا نام سر فہرست ہے۔ گذشتہ صدی کے جس اردو فکشن یا افسانوی ادب کی بنیادوں پر آج کی اردو دانشوری کی بلند بالا عمارت کھڑی ہے۔ اس کی تعمیر اور فروغ میں خوشتر گرامی اور رسالہ بیسویں صدی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، سلمی صدیقی اور رام لعل سے لیکر بعد کے نامور افسانہ نگاروں اور عہد کے تقریباً تمام ہی نامور شعراء کو بیسویں صدی کے ذریعہ مطلع عام پر چمکنے کا موقع ملا۔ خوشتر گرامی نے اپنی زندگی میں لا تعداد صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرکے انہیں شہرت و کامیابی سے ہمکنار کیا۔ رسالہ بیسویں صدی مسلسل نصف صدی سے زیادہ مدت تک برصغیر کے ہزارہا باشعور گھرانوں کا پسندیدہ رسالہ بنا رہا۔ اس دور میں لاتعداد جریدے شائع ہوتے رہے لیکن "بیسویں صدی" جیسی کامیابی اور معیار کسی اور رسالے کو نصیب نہ ہو۔ خوشتر گرانی نہ صرف ایک لائق ترین صحیفہ نگار تھے بلکہ وہ اپنے عہد کے بہت اچھے ادیب اور طنز نگار بھی تھے، اخبارات کی سرخیوں اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے تیر و نشر کے عنوان سے ان کی چٹکیاں ان کی شوخی قلم کی پہچان بن گئیں۔ ان کے بعد بہت سے کالم نویسوں اور طنز نگاروں نے اس نہج کو اختیار کرکے شہرت پائی۔ عظیم افسانہ نگار کرشن چندر کے مطابق "اردو کی ادبی و صحافتی زندگی میں طنز و ظرافت کا ساتھ جڑواں بہنوں کا سا ہے۔ طنز کے میدان میں اردو کے بہترین ادیبوں اور صحافیوں نے اپنے جوہر دکھائے ہیں، رتن ناتھ سرشار، سجاد حسین، ابولکلام آزاد، ظفر علی خاں، محمد علی جوہر، چراغ حسن حسرت، عبدالمجید سالدک، یہ سب لوگ بلند پایہ ادیب بھی تھے اور عظیم صحافی بھی۔ محبی خوشتر گرامی نے انہی بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت حاصل کی ہے اور ادب و صحافت کی بزم میں طنز و ظرافت کی ایسی تابناک شمع روشن کی ہے جس کی ضیاء کبھی ماند نہ ہوگی"۔ خوشتر گرامی کی ادبی صحافت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے بہترین افسانے لکھوائے اور شائع کئے۔ لیکن انہوں نے تخلیقات کے انتحاب میں کبھی معیار سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے "بیسویں صدی" کو بہترین کہانیوں کے ساتھ اعلیٰ شاعری کا ایک مرقع بناکر پیش کیا۔ "بیسویں صدی" کے لا تعداد بڑے چھوٹے قلمکاروں نے جو افسانے لکھے ان میں زیادہ تر اردو فکشن کا یادگار سرمایہ بن گئے۔ انہوں نے کتابت و طباعت کے حسن اور نفاست کو بھی اردو صحافت میں ایک شاندار مثال بنادیا۔ آج کمپیوٹر اور جدید ترین رنگین طباعت کی حیرت انگیز آسانیاں فراہم ہیں لیکن آج بھی ہاتھ سے لکھنے جانے اور پرانی مشینوں پر چھاپے جانے والے "بیسویں صدی" کی سی خوبصورتی اور سلیقہ دور دور تک نظر نہیں آتا۔ رام رکھا مل خوشتر گرامی اکتوبر 1902ء میں پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، ان کے داد دیوان گنپت رائے شہر کے نہایت دولتمند رئیس تھے، لیکن ان کے والد دیوان بشمبھر ناتھ کو تجارت میں اس قدر خسارہ ہوا کہ رام رکھا مل کے عالم شیرخواری میں ہی یہ گھرانہ عسرت و تنگدستی کا شکار ہوگیا۔ رام رکھا مل بھی صرف تین برس کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا، ان کی والدہ بچے کو لے کر اپنے مائیکے لاہور آگئیں۔ انہوں نے کسی نہ کسی طرح بچے کی پرورش کی، اس دور کے مطابق ان کی تعلیم اردو اور فارسی میں ہوئی، چودہ پندرہ برس کے تھے جب والدہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ نانہالی رشتہ نہایت دولتمند اور خوشحال تھے لیکن کسی نے بھی دستگیری نہیں کی، اپنی اور ایک چھوٹی بہن کی کفالت کیلئے ٹیوشن پڑھانے لگے۔ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں خوشتر گرامی لکھتے ہیں: "پندرہ برس کی عمر تھی کہ ماں کی پیار بھری گود سے محروم ہوگیا، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، کوئی آنسو خشک کرنے والا بھی نہ تھا، میں نے صبر و تحمل کاسہارا لیا، اور ہاتھ بڑھاکر ہمت کا دامن تھام لیا، ہفتے میں دو دو تین تین دن فاقے میں گزرتے، روٹی کبھی صبح کو ملی تو شام کو نہ ملی، اس حالت میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا"۔ ایسے صبر آزما حالات میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ رام رکھا مل کے دل میں جوان رہا لیکن لاکھ کوشش کے باوجود میٹرک سے آگے جانا مشکل ہوگیا۔ کسی نہ کسی طرح بارہویں جماعت تک پہنچے ، اس کے بعد باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا، لیکن پڑھنے کا شوق اس قدر تھا کہ منشی فاضل عینی اردو آنرز کا پرائیوٹ امتحان دیا اور پورے صوبے میں اول آئے۔ ادب اور صحافت کا شوق و ذوق پیدا ہوا تو اردو کی ہر طرح کی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ روزی کیلئے انہوں نے کی اور طرح کی ملازمت یا پیشے کو اپنانے کے بجائے اخبارات میں ملازمت پسند کی۔ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں لالہ لاجپت رائے اور مولاناظفر علی خاں کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے تحریک آزادی کے ترجمان ’زمیندار، اخبار کیلئے رپورٹر کا کام کیا، لاہور کے مشہور اخبار "بندے ماترم" کے ادارتی شعبے میں ملازمت کی۔ حب الوطنی اور وطن کی آزادی کا جذبہ شروع سے ہی ان کے اندر موجودتھا۔ اخبار نویسی نے اس جذبے کو مہمیز کیا۔ ایک نوجوان صحافی کی حیثیت سے شہرت بھی ملی۔ یہ وقت تھا جب انہیں لالہ لاجپت رائے اور ظفر علی خاں جیسے عظیم رہنماوں کے ساتھ ساتھ شاعر مشرق علامہ اقبال، شہید بھگت سنگھ، مولانا عبدالمجید سالک اور علامہ تاجور نجیب آبادی جیسی تاریخ ساز ہستیوں کی قربت، شفقت اور تربیت حاصل ہوئی۔ خوشتر ان عظیم شخصیات سے حاصل ہونے والئے فیضان کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: "علامہ تاجور شفیق استاد کی تربیت نے خیالات کو ندرت اور قلم کو قوت عطا کی۔ آنکھ نے جو کچھ دیکھا اسے شیشہ دل میں اتارا، حق گوئی و بے باکی کو شعار بنایا، جو کچھ محسوس کرتا ہوں، بلا تامل اس کا اظہار کرتا ہوں، حق و صداقت کی تائید و حمایت میں بڑی سے بڑی ٹکر لینے سے بھی گریزنہیں کرتا۔ غریبوں، کمزوروں اور ناداروں سے نا انصافی اور حکمرانوں کو وعدہ فراموشیوں پر خاموشی میری عادت و فطرت کے خلاف اور ضبط و برداشت سے باہر ہے، حکومت کے رعب و ادب اور وزارت کی کرسیوں پر متمکن لوگوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوا اور بڑی سے بڑی طاقت کے آگے نہیں جھکا"۔ رام رکھا مل کو شاعری کا شوق تو اس وقت کے عام ذہین بچوں کی طرح بچپن سے ہی تھا اور وہ خوشترؔ گرامی بن چکے تھے۔ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں اپنی والدہ کے انتقال پر ایک دردناک مرثیہ لکھاتھا، اس کے بعد جب وہ ملکی حالات اور تحریک آزادی سے متاثر ہوئے تو بہت سی قومی نظمیں لکھیں جو اخبارات اور رسائل میں شائع ہوئیں۔ اسی دوران جب وہ اخبارات میں کام کررہے تھے، انہوں نے بچوں کیلئے چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھیں، جو پنجاب، یوپی، دہلی، سی پی اور صوبہ سرحد کے علاوہ دوسری ریاستوں میں بھی مدت تک بطور نصاب رائج رہیں۔ نامور شاعر اور ماہر تعلیم پروفیسر منوہر سہائے انور لکھتے ہیں: "آج کل کے جواں سال ادیبوں میں سے اکثر نے اس کی کتابیں اپنی ابتدائی تعلیم کے زمانے میں پڑھی تھیں، وہ بچوں کیلئے اردو کی کتابیں لکھنے سے پہلے صحافت کے میدان میں اتر کر کئی روزنامہ اخبارات کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں شامل رہ چکا تھا، خوشترؔ گرامی نے 1937ء میں ماہنامہ "بیسویں صدی" لاہور سے جاری کے اردو کے افسانوی ادب میں ایک بالکل نئے دور کا آغاز کردیا۔ ابھی بیسویں صدی کا پہلا شمار شائع نہیں ہوا تھا کہ حکومت نے ضمانت طلب کرلی۔ یہ اخبار یا ماہنامے کی اشاعت سے پہلے ہی ضمانت طلبی کی شاید پہلی مثال تھی"۔ دراصل خوشترؔ گرامی ایک حریت پسند صحافی کے طورپر پہلے ہی مشہور ہوچکے تھے۔ برطانوی حکومت کی سی آئی ڈی ان پر نظر رکھتی تھی، بہرحال رسالہ شائع ہونا شروع ہوا۔ ’بیسویں صدی، میں افسانوں اور شاعری کے ساتھ ساتھ شروع کے چند صفحات سیاسی تبصروں، کارٹونوں اور ان کی طنزیہ تحریر یعنی" تیر و نشتر" کیلئے مختص رہے جن کے ذریعہ انہوں نے ہمیشہ حکمرانوں کے جبرو استحصال، نا انصافی، فرقہ پرستی اور سرمایہ دارو کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف آواز بلند کی۔ تقسیم وطن سے پہلے دس برسوں میں "بیسویں صدی" لاہور خاصی مقبولیت حاصل کرچکا تھا۔ خوشتر گرامی ایک کامیاب اور خوشحال صحافی بن چکے تھے لیکن تقسیم کی قیامت نے سب کچھ ختم کردیا۔ "بیسویں صدی" کا دفتر، گھر بار سب جل کر خاک ہوگیا۔ خالی ہاتھ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ دہلی آئے۔ یہ وہ وقت تھا جب آزاد ہندوستان کی سیاست اردو کو بھی دیس نکال دینے کے در پے تھی، لیکن پنجاب کے شرنارتھیوں نے اردو کا دامن نہیں چھوڑا، پاکستان سے جانے کتنے ادیب، شاعر صحافی آگئے، ’پرتاپ،، ’ملاپ،، ’ بندے ماترم،، ’شیر پنجاب،، ’مستانہ جوگی،، ’رہنمائے تعلیم، اور ’بیسویں صدی، جیسے احبار اور رسالے دلی سے چھپنے لگے، اردو کے اندھیرے گھر میں پھر سے چاندنا ہوگیا، ’بیسویں صدی، دہلی سے شائع ہوانا شروع ہوا تو جیسے وہ ہندوستان، پاکستان کے تمام ادیبوں، شاعروں کا ترجمان بن گیا۔ خوشترؔ گرامی کا کمال یہ بھی ہے کہ ان کے جریدے میں ہر مکتب فکر کے قلم کار کو جگہ ملتی تھی لیکن’بیسویں صدی، کسی نظریہ یا تحریک سے متاثر نہیں ہوا۔ اردو کے صحت مند ادب کا فروغ خوشترؔ گرامی کا نصب العین رہا۔ ’بیسویں صدی، کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ اس کے قدر دان ساری دنیا میں موجود تھے۔ ملک بھر میں قارئین بے تابی سے نئے شمار کا انتظار کرتے تھے۔ ’بیسویں صدی، گھر گھر میں پہنچتا تھا۔ ’بیسویں صدی، کو اردو صحافت کا خوبصورت ترین معیاری جریدہ بنانے کیلئے خوشتر گرامی نے سالہا سال تک دن رات محنت کی۔ مواد کا انتخاب، مشمولات کی صحت و درستگی، کتابت، تزئین اور طباعت کے ہر محلہ پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے ادیبوں ، شاعروں سے حط و کتابت، ملاقاتیں، مہمان نوازیاں یہ سب کچھ ان کے معمولات زندگی میں شامل تھا۔ ان کی محنت اور صلاحیت نے انہیں بے پناہ کامیابی عطا کی۔ قدرت نے انہیں ہر اسی خوشی سے نواز جس کے لوگ خواب دیکھتے ہیں، لیکن وقت بدل چکا تھا، ہندوستان کی نئی نسلیں اردو سے دور ہورہی تھیں۔ ان کے بیٹوں نے اعلیٰ تعلیم پاکر باپ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بجائے بیرون ملک کی شاندار ملازمین کرنا پسند کیا۔ خوشترؔ صاحب نے بہت کوشش کی کہ ان کے صاحبزادے کشن کمار پبلشنگ کا کام سنبھال لیں، اس مقصد کیلئے ’ نئی صدی، کے نام سے ہندی بھاشا کا ایک رسالہ بھی شروع کرایا، لیکن بات نہیں بنی۔ 1975ء کا سال آتے آتے ضعیفی اور بیماری نے گھیرلیا۔ جسم ساتھ چھوڑ رہا تھالیکن ’بیسویں صدی، کی پرورش تو خون جگر سے کی تھی، رسالہ ان کی اولاد کی طرح تھا، وہ کسی قیمت پر اسے بند نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے رحمان نیر مرحوم کے ہاتھوں معقول قیمت پر فروخت کردیا تھا۔ یہ قطعی غلط ہے۔ دراصل خوشتر صاحب کو ’بیسویں صدی،بیچنا نہیں، زندہ رکھنا تھا۔ انہوں نے صرف اتنی رقم قبول کی جتنی ایک پرنٹنگ پریس کو واجب الادا تھی جو اندازاً دو سوا دو لاکھ سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ صرف کرسی کی پشت پر لٹکا ہوا اپنا کوٹ پہن کر دریا گنج مین روڈ پر واقع اپنے دفتر سے اُتر کر چلے گئے۔ انہیں رحمان نیر جیسا باذوق، محنتی اور پرجوش جانشین مل گیاتھا۔ اگر وہ سچ مچ ’بیسویں صدی، کو فروخت کرتے ہوئے دفتر کا سازوسامان اور کتابوں کا ذخیرہ ہی لاکھوں کا تھا، دفتر کی جگکہ کی قیمت اُس وقت پندرہ بیس لاکھ سے کم نہیں تھی، جی نہیں! انہوں نے ’ بیسویں صدی، فروخت نہیں کیا، اسے زندہ رکھنے کیلئے صحیح ہاتھوں میں دیاتھا۔ دنیا نے دیکھا کہ خوشتر گرامیؔ صاحب کا اندازہ درست تھا۔ رحمان نیر نے خوشترؔ گرامی صاحب کے بعد جس شان کے ساتھ ’ بیسویں صدی ، کی اشاعت کی اس میں خوشتر گرامی صاحب کا عکس واضح تھا۔ ادیبوں کی وہ برادری جو خوشتر گرامی سے وابستہ رہی تھی اسے رحمان نیر صاحب نے بھی وضع داری اور محبت سے جوڑے رکھا۔ خوشترؔ گرامی جب تک زندہ رہے ضعیفی اور علامت کے باجود "تیر و نشتر" لکھتے رہے۔ اپنے پرانے پسندیدہ کارٹونسٹ بلرام سے کارٹون بنواتے رہے۔ سالہا سال تک وہ رسالہ ’بیسویں صدی، کے مؤسس کے طورپر اپنی اس معنوی اولاد سے وابستہ رہے۔ خوشترؔ گرامی صاحب کے بارے میں یہ عام خیال تھا کہ ان کا کالم "تیر و نشتر،فکر تو نسوی، ظفر پیامییا کوئی اور صاحب لکھتے تھے، یہ بھی غلط ہے، خوشترؔ گرامی صاحب فکر و نظر قلمکار تھے، انہوں نے 1974ء میں اپنے پچیس برسوں میں لکھے گئے ’تیر و نشتر، کا انتخاب کتابی صورت میں شائع کیا تھا جس یں ملک کی متعدد بڑی شخصیات کے بارے میں وہ دلچسپ تحریریں بھی شامل ہیں جو وہ ’قلمی چہرے، کے عنوان سے کارٹونوں کے ساتھ لکھا کرتے تھے۔ اس کتاب میں انہوں نے بڑی سنجیدگی اور عقیدت سے مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، ڈاکٹر راجندر پرساد، سی راج گوپال آچاریہ، مولانا ابوالکلام آزاد، سبھاش چندر بوس، لالہ لاجپت رائے، سیف الدین کچلو، بھگت سنگھ، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں، علامہ اقبال، رابندر ناتھ ٹیگور، اندرا گاندھی اور لال بہادر شاستری کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ کتاب میں کرشن چندر اور پروفیسر منوہر سہائے انور کے تقریظی مضامین میں خوشترؔ گرامی کی ادبی اور صحافتی عظمت کا ذکر کیا گیا ہے، خوشترؔ صاحب کی سب سے اہم تعریف آنجہانی جسٹس آنند نرائن ملا کا خط ہے جو ان کی ہی تحریر میں کتاب کی پشت پر شائع کیا گیا ہے، جس ملا نے لکھا ہے: "اردو میں بلند پایہ طنز نگاروں کی کمی نہیں، خوشترؔ گرامی اس بلند سلسلہ کوہ کی ایک نمایاں اور فلک بوس چوٹی ہیں۔ ان کا طنز محض طنز نہیں بلکہ طنزو مزاح کی آمیزش ہے۔ ایک ایسا منفرد انداز بیاں ہے جس میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں۔ خوشترؔ گرامی کے طنز کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا گرجانتے ہیں، انہیں طنز پارے کا موجد کہنا غلط نہ ہوگا، خوشترؔ گرامی زندگی میں ہی روایت بن چکے ہیں، وہ دنیائے ادب کی ایک مخصوص تہذیب بھی ہیں اور ایک شمع راہ بھی، وہ آج کے تعصب زدہ ماحول میں بھی عصمت ادب کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ ’بیسویں صدی، ان کی اولاد بھی ہے اور ان کی تصویر بھی اور ان کی نہ مٹنے والی یادگار بھی۔"(آنندنرائن ملا، ممبر راجیہ سبھا)۔ راقم الحروف نے اردو کے اردو ادب کے بہت سے پنجابی عظما کو قریب سے دیکھا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک دو کو چھوڑ کر سبھی کشادہ ذہن اور وسیع النظر ملے، لیکن خوشترؔ صاحب کی طرح ہندو مسلم اتحاد کا زبردست حامی اور فرقہ پرستی سے شدید نفرت کرنے والا دوسرا نہیں دیکھا، انہوں نے جن سنگھ، ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کو زندگی بھر سخت تنقید کا نشانہ بنائے رکھا۔ زندگی کے آخری کئی سال خوشترؔ گرامی نے دہرہ دون میں گزارے۔ وہاں رہ کر بھی وہ ’بیسویں صدی، کیلئے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے۔ 28؍جون 1977ء کو انہوں نے رحمان نیر کے نام اپنے خط میں ایمرجنسی کے دوران دہلی کے ترکمان گیٹ میں مسلمانوں کے ساتھ سنجے گاندھی کے وحشیانہ مظالم کے خلاف اپنے خیالات کا علمی اظہا اس طرح کیا ہے: "تیرونشر، کارٹون اور ’قلمی چہرہ، بعنوان ترکمان گیٹ ارسال خدمت ہے، ترکمان گیٹ کے موضوع پر آپ نے بہت کچھ پڑھا ہوگا، اسے بھی دیکھئے، یہ ان سب سے جدا بھی ہے اور سنگین بھی۔" (ضیاء الرحمن نیر:حیات و خدمات، مرتبہ ڈاکٹر شمیع افروز زیدی، ص 297)۔ 15 جنوری 1988ء کو دہلی میں خوشترؔ گرامی کا انتقال ہوگیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اردو ادب و صحافت کتنی ہی بلندپر پہنچ جائیں خوشترؔ گرامی جیسا عاشق اردو دوبارہ پیدا نہیں ہوسکتا۔

Khushtar Girami - a legendary journalist of 20th century

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں