دنیائے ادب کا درویش - خواجہ حسن نظامی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-16

دنیائے ادب کا درویش - خواجہ حسن نظامی

khaja-hasan-nizami

"بیٹا، میں دنیا سے جا رہا ہوں، میں نے ساری عمر جلد سازی کرکے پیٹ پالا اور حلال روزی سے تمہیں پرورش کیا۔ دیکھو، میرے نقش قدم پر چلنا، نذر نیاز پر نہ رہنا، اپنی محنت سے حلال روزی حاصل کرنا۔ تم کو لوگ جلد ساز کا بیٹا کہیں تو برا نہ ماننا کہ یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے، ہاں اگر تم کو کوڑیاں مانگنے والا درگاہ کا مجاور کہیں تو شرمانا چاہئے کہ تمہارے بزرگوں کا یہ کام نہ تھا۔
یاد رکھو، اگر تم حلال کی روزی سے اپنا پیٹ بھرتے رہے تو تمہاری بات میں۔۔۔ تمہاری علمیت میں، تمہاری روحانیت میں، تمہارے ایمان میں ترقی ہوگی۔"

یہ تھی وہ وصیت جو خواجہ حسن نظامیؒ کو ان کے والد نے مرتے وقت کی۔ اس وقت خواجہ صاحب بارہ سال کے تھے۔
خواجہ صاحب کے والد درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے پیرزادے تھے ، لیکن عام پیر زادوں سے بہت مختلف۔ درگاہ کی نذر نیاز سے انہوں نے کبھی تعلق نہ رکھا۔ قرآن مجید کی جلدیں باندھتے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے۔
خواجہ صاحب جس ماحول میں پیدا ہوئے ، وہ درگاہ کے پیر زادوں کا ماحول تھا، لیکن انہوں نے اس ماحول کا ہو رہنے کے بجائے اپنے والد کی وصیت کو حرز جاں بنایا۔

خواجہ حسن نظامی سیلف میڈ انسان تھے۔ زندگی کا آغاز انہوں نے درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ میں زائرین کے جوتوں کی حفاظت سے کیا اور پھر پیہم محنت سے یہ مقام حاصل کیا کہ ہز ہائی نس نظام دکن انہیں حیدرآباد بلاتے تھے تو وہ معذرت کر دیتے تھے۔
یتیم ہونے کے بعد بچے عام طور پر بے راہ ہو جاتے ہیں، لیکن خواجہ صاحب سے چونکہ قدرت کو اسلام اور اردو زبان کی خدمت کا کام لینا تھا، اس لیے وہ تعلیم کی خاطر سہارن پور پہنچ گئے ، یہاں انہوں نے جن اساتذہ سے پڑھا، ان میں مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا انور شاہ کاشمیریؒ جیسے بزرگ شامل تھے۔ تعلیم حاصل کر چکنے کے بعد بھی انہوں نے محنت مزدوری کو اپنا شعار بنایا مکتبۂ مجتبائی دہلی سے کمیشن پر کتابیں لیتے اور کتابوں کا گٹھا سر پر رکھ کر گلیوں اور بازاروں میں فروخت کرتے۔

خواجہ صاحب نے سب سے پہلا مضمون پندرہ برس کی عمر میں لکھا۔ اس کی "شان نزول" یہ ہے کہ ایک شام وہ دہلی کی جامع مسجد سے مغرب کی نماز پڑھ کر نکلے ، تو سیڑھیوں میں ایک بڈھے اور اندھے فقیر کو دیکھا جو مٹی کا پیالہ ہاتھ میں لئے دردناک آواز میں کہہ رہا تھا:
"یا اللہ! ایک پیسے کا آٹا دلوا دے، تو ہی دے گا، تو ہی دے گا، ایک پیسے کا آٹا دلوا دے۔"
خواجہ صاحب اس فقیر کی آواز کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ جامع مسجد سے مٹیا محل اور پھر کلو خواص کی حویلی تک گئے اور جب فقیر اپنے کچے مکان میں جانے لگا تو انہوں نے اس سے پوچھا:
"تم کون ہو؟"
فقیر نے کہا:
"میں بہادر شاہ ظفر کا نواسہ قمر سلطان ہوں۔"
یہ سن کر خواجہ صاحب پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے "بھکاری شہزادہ" کے عنوان سے ایک مضمون اخباروں کو بھیجا، جس کے چھپنے کے بعد اس کی بڑی شہرت ہوئی اور لوگوں نے "بھکاری شہزادے" کی خاصی امداد کی۔

خواجہ صاحب اپنے مضمون کی مقبولیت سے بہت خوش تھے۔ اچانک انہیں ڈپٹی کمشنر دہلی کی طرف سے خفگی کا ایک خط ملا جس میں لکھا تھا:
"آئندہ ایسے مضامین نہ لکھنا، ورنہ سخت سزا دی جائے گی۔"
خواجہ صاحب پر اس دھمکی کا کوئی اثر نہ ہوا ، اور وہ مضامین لکھ کر مختلف اخباروں کو بھجواتے رہے ، انہی دنوں علامہ جلال الدین سیوطی کی ایک عربی تصنیف ان کے ہاتھ لگی ، جس میں مفلسی دور کرنے کے اعمال تھے۔ خواجہ صاحب نے اس کتاب کا ترجمہ کیا۔ یہ شائع ہوئی ، تو دو ماہ میں اس کے دو ایڈیشن فروخت ہو گئے۔ اب خواجہ صاحب کی ہمت بندھی اور انہوں نے تصنیف و تالیف کو مستقل طور پر اپنا لیا۔

1910ء میں انہوں نے ہندوستان کی درگاہوں سے بازاری عورتوں کا ناچ گانا بند کروانے کے لئے تحریک شروع کی اور ایک ہی سال کی جدو جہد سے اس وبا کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس مقصد کے لئے وہ نظام دکن سے بھی ملے اور انہیں مجبور کر کے یہ قانون منظور کرایا کہ ریاست کی کسی درگاہ میں طوائفوں کا ناچ گانا نہیں ہو سکے گا۔

1911ء میں مسلمانوں کی خستہ حالی کے بارے میں ان کی علامہ اقبالؒ سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور طے پایا کہ سید جمال الدین افغانیؒ کے مشن کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ چنانچہ علامہ اقبالؒ کی ایما پر انہوں نے مصر، شام، فلسطین، عراق اورعرب وغیرہ اسلامی ممالک کا دورہ کیا اور وہاں کے مسلمانوں کو بتایا عالم اسلام کی سلامتی کا راز اسی میں مضمر ہے کہ سب مسلمان، خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں بھی مقیم ہوں، ہر قسم کے اختلافات دور کر کے متحد ہو جائیں۔
1911ء کے دربار میں علما و مشائخ کو جارج پنجم کے سامنے لے جانے اور سلام کرانے کی خدمت دہلی کے ایک تیموری شہزادے کے سپرد کی گئی جو پنجاب میں کہیں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ شاہزادہ صاحب ، خواجہ صاحب کے پاس بھی تشریف لائے اور بلاوا دیا۔ جاڑے کا موسم تھا اور صبح کا وقت ، خواجہ صاحب نے لحاف اوڑھ رکھا تھا، شہزادے کی بات سن کر بولے:
"صاحب عالم، لحاف بڑا مزا دے رہا ہے، اس مزے سے محروم نہ کیجئے۔"
انہوں نے زیادہ مجبور کیا، تو بولے:
"میں وہ منظر دیکھنا گوارا نہیں کر سکتا کہ قلعے کے جھروکوں میں جہاں آپ کے اجداد بیٹھتے تھے وہاں جارج پنجم بیٹھیں۔"

خواجہ صاحب نہیں گئے اور اپنے اخبار میں دربار میں شریک ہونے والوں کے متعلق ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا:
"جبہ و عمامہ کی کورنش"
علما و مشائخ کو ہاتھیوں پر سوار کر کے جلوس کی شکل میں شہر سے دریا کے کنارے جھروکوں کے نیچے پہنچایا گیا تھا۔ خواجہ صاحب نے ان علما و مشائخ پر "اصحاب فیل" کی پھبتی کسی۔
دربار میں شریک ہونے والوں نے ڈپٹی کمشنر سے شکایت کی کہ خواجہ صاحب نے ہماری توہین کی ہے۔ اس پر خواجہ صاحب کو طلب کر لیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر (کرنل بیڈن) فوجی افسر تھا ، دیکھتے ہی چیخا:
"ویل، ٹم جبہ عمامہ کورنش لکھا؟"
خواجہ صاحب نے کہا:
"ہاں، لکھا ہے، مگر سلام کرنے کا ذکر تو سب اخباروں میں چھپا ہے۔"
ڈپٹی کمشنر بولا:
’’ٓآپ لکھا، اصحاب فیل، یہ برا بات۔"
خواجہ صاحب نے کہا:
"اصحاب فیل کے معنی ہیں: ہاتھی والے، ہاتھی نشین، ہاتھی نشینی بری بات کیسے ہے؟"
انگریزی ڈپٹی کمشنر، 'الم تر کیف' والے اصحاب فیل سے واقف نہ تھا۔ خواجہ صاحب کے جواب سے مطمئن ہو گیا۔

خواجہ صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ "شدھی تحریک" کا مقابلہ ہے۔ اپنی تحریروں اور تقریروں سے انہوں نے سوامی شردھانند کا ناطقہ بند کر دیا تھا۔ اس زمانے میں خواجہ صاحب نے بے شمار تبلیغی دورے کئے، وہ نفسیات کے عالم نہیں تھے ، لیکن نفسیات کے فطرتاً ماہر تھے، چٹکلوں میں دیہاتی مسلمانوں کا رخ ادھر سے اُدھر پھیر دیتے۔
سوامی شردھانند دیہاتی مسلمانوں میں "شدھی" کا کام کرتا تھا۔ ضلع متھرا کے اطراف کا واقعہ ہے۔ علمائے کرام وہاں کے دیہاتیوں کو اسلام کے دلائل دیتے دیتے تھک گئے ، تو خواجہ صاحب نے ان سے سوال کیا:
"مجھے بتاؤ جس دین کی نشانی پکی ہو، سچا وہ ہے یا جس دین کی نشانی کچی ہو وہ؟"
دیہاتی مسلمان بولے:
" جی، سچا وہ جس کی نشانی پکی۔"
خواجہ صاحب نے فرمایا:
"تو یاد رکھو، ہندو مت کی نشانی چوٹی ہے اور اسلام کی نشانی ختنہ۔ چوٹی ہر آن کٹ سکتی ہے، ختنہ مٹائے نہیں مٹ سکتا۔"
ان پڑھ دیہاتی اس دلیل کو فوراً مان گئے۔

کاٹھیا واڑ میں ایک چھوٹی سی ریاست 'وزیریہ' تھی۔ والئ ریاست نومسلم راجپوت تھے اور ٹھاکر صاحب کہلاتے تھے۔ ٹھاکر صاحب اور ان کے پانچ چھ لاکھ ہم قوم آریہ ہونے پرتل گئے۔خواجہ صاحب نے ٹھاکر صاحب سے فرمایا:
"ہمارے علاقے کے مسلم راجپوتوں نے تو آریہ سماجیوں کو یہ جواب دیا تھا کہ تم کہتے ہو مسلمانوں کی تلوار سے بنیے نہیں ڈرے، چمار چوہڑے نہیں ڈرے، مگر بہادر راجپوت ڈر گئے اور تلوار کے ڈر سے مسلمان ہو گئے۔ یہ ہمارے باپ دادا کی توہین ہے ، ہم بہادر ہیں اور ہم نے بہادروں کا دین قبول کیا ہے۔"

خواجہ صاحب کی تبلیغ کا طریقہ بڑا موثر تھا۔ ہر شخص سے اس کی ذہنی استعداد کے مطابق بات چیت کرتے اور اسلام کی حقانیت سمجھاتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے:
بیگمات کے آنسو - 1857 غدر کی کہانیاں - خواجہ حسن نظامی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
ڈاکٹر محی الدین قادری زور - از: خواجہ حسن نظامی

ماخوذ:
سنہ 1971 کے اردو ڈائجسٹ سے

Khaja Hasan Nizami. by: Abid Nizami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں