ڈاکٹر محی الدین قادری زور - خواجہ حسن نظامی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-26

ڈاکٹر محی الدین قادری زور - خواجہ حسن نظامی

ڈاکٹر زورؔ صاحب کے متعلق بہت سی ایسی باتیں سچائی کے ساتھ کہی جاسکتی ہیں جو ہر بڑے آدمی کے متعلق تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ اب تک کہی جا چکی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے اپنی ان تھک محنت سے بڑے کا رہائے نمایاں انجام دئیے ۔ وہ اپنی ذات سے ایک انجمن اور ایک ادارہ تھے ۔ ان کی سیرت آنے والوں کیلئے ایک نمونہ بنی رہے گی وغیرہ۔ مجھے اس قسم کی کوئی بات عرض نہیں کرنی ہے کیونکہ زورؔ صاحب کی عوامی زندگی اور علمی، ادبی خدمتوں سے بے شمار لوگ واقف ہیں اور بہت عمدگی سے اس زندگی اور ان خدمات کا تذکرہ کر سکتے ہیں ۔ میں تو صرف وہ واقعات اور تاثرات لکھنا چاہتا ہوں جن سے مجھے زورؔ صاحب کے بڑے قریب آنے کے بعد سابقہ پڑا اور جن کی وجہہ سے وہ مجھے بڑے آدمیوں میں بھی بڑے نظر آنے لگے ۔ میرے والد حضرت خواجہ حسن نطامی مرحوم، ڈاکٹر زورؔ صاحب کے بڑے قدر داں تھے ۔ ان کے "ادارہ ادبیات اردو" کو "ایوان اردو" کا خطاب 1936ء میں خواجہ صاحب ہی نے دیا تھا۔ اور ڈاکٹر زورؔ صاحب بھی خواجہ صاحب سے بڑا خلوص رکھتے تھے ۔ اس لئے ہوش سنبھالنے کے بعد مجھے ڈاکٹر زورؔ صاحب سے دلی اور حیدرآباد میں ملنے کا اکثر اتفاق رہا۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ بزرگانہ شفقت سے پیش آتے اور میں ان سے اسی ادب اور احترام کے ساتھ ملتا جس ادب اور احترام کے ساتھ مجھے اپنے والد کے دوستوں سے ملنا چاہئے تھا۔ لیکن والد کے انتقال کے بعد دسمبر 1955ء میں میں حیدرآباد گیا اور ڈاکٹر زورؔ صاحب کے پاس حاضر ہواتوہ و بالکل نئے اندازمیں مجھ سے ملے ۔ میں فیصلہ نہیں کر سکا کہ اس انداز میں بڑے بھائی کی جھلک زیادہ ہے یا بے تکلف اور مخلص ترین دوست کا رنگ نمایاں ہے ۔ اس کے بعد ملاقات میں ان کی بے تکلفی بڑھتی چلی گئی اور مجھے ان کو کسی قدر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور جتنا میں ان کے قریب ہوا اتنا ہی ان کی بڑائی کا احساس زیادہ ہوتا گیا۔ ڈاکٹر زورؔ صاحب کی شخصیت میں بے شمار خوبیاں تھیں ۔ خامیاں بھی یقینا ہوں گی لیکن ان کی شخصیت کا ایک پہلو مجھے نظر آیا جو غالباً سب پہلوؤں سے نمایاں تھا اور جس کی وجہہ سے ان کی ہر خوبی میں چار چاند لگ جایا کرتے تھے اور ہر کمزوری نظر کے سامنے سے ہٹ جاتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب جب خلوص برتتے تھے تو اس میں بناوٹ اور دکھاوے کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔ کہنے کو یہ بات معمولی سی ہے لیکن اس کا علم کچھ ڈاکٹر صاحب کے خلوص سے آشنا ہونے کے بعد ہی ہوتا تھا کہ روز مرہ ہم کو جس قسم کے خلوص سے سابقہ رہتا ہے اس میں کتنے فی صد تکلف کی ملاوٹ ہے ۔ کتنے فی صد مروت کا لحاظ ہے ۔ کتنا دکھاوا ہے ۔ کس قدر منافقت ہے اور اس کے بعد اصل خلوص کی مقدار کتنی رہ گئی! ڈاکٹر زورؔ صاحب کے خلوص میں منافقت اور بناوٹ تو کیا مروت اور تکلف کو بھی دخل نہیں ہوتا تھا۔ کم ازکم میں نے ایسا ہی محسوس کیا۔ وہ بڑے عملی آدمی تھے ۔ تھوڑے وقت میں سارا کام کرڈالتے تھے ۔ اور اس کا راز ان کی محبت کے علاوہ غالباً یہی تھا کہ وہ ادھر ادھر کی بیکار، فضول اور لاگ لپیٹ کی باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے تھے ۔ ان کی ہر بات اور ان کا ہر کام ٹودی پوائنٹ ہوتا تھا۔ ان کے خلوص میں اس قدرشدت تھی کہ بعض اوقات باغ و بہار طبعیت کے باوجود اجنبی آدمی کو وہ کھچ اکل کھرے سے معلوم ہونے لگتے تھے ۔ ہر آدمی کے دل میں نمایاں کام کرنے کا جذبہ ہوتا ہے تاکہ وہ سب کے سامنے اسکے اور اس کو خوش حالی میسر آئے ۔ یہ جذبہ کچھ برا جذبہ نہیں ہے لیکن اس جذبے کو ہماری تہذیب کے تکلفات اور بناوٹوں نے ایسا گھیر رکھا ہے کہ کچھ لوگ تو بے غرض کام کے نام پر اغراض پوری کر کے اپنے کو ساری عمر دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور کچھ یا توخاکساری کے مارے کچھ کام نہیں کرپاتے یا چوروں کی طرح میدان میں آتے ہیں ۔ اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس جذبے کی شدت میں ایسے میدان میں کہ شہرت طلبی کی تہمت ان کے سر دھری جاتی ہے اور ان کے اچھے کام کو بھی نہایت بے انصافی کے ساتھ نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر زورؔ صاحب کا خلاص اس بت کدۂ آذری میں ابراہیمی انداز رکھتا تھا۔ میرے ڈاکٹر صاحب نے جن جن لوگوں سے کام لیا اور جن جن کو وہ کچھ بنا گئے ان سب کو انہوں نے پہلے کام کے مقصد اور اصلی خلوص سے آگاہ کیا۔ "حسن میاں ہم اس دنیا میں کچھ کام کرنے کیلئے آئے ہیں اور یقینا کا کریں گے اس کا پورا پورا معاوہ چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو ہم کو ملنا چاہئے ۔ اس لئے کام کرو اور سلیقے سے کرو کہ وہ کام دنیا کو نظر بھی آئے اور لوگ اس کو دیکھ کر فائدہ بھی اٹھاسکیں اور تم کو اس کا کسی نہ کسی شکل میں معاوضہ بھی ملے !" ایک دفعہ میں ہندوستان کے مشہور آرکیٹکٹ برادرم مولوی فیاض الدین نظامی صاحب کے بلاوے پر کسی کو اطلاع دئیے بغیر حیدرآباد گیا تھاتاکہ کچھ دن سکون کے ساتھ حیدرآباد کے موسم اور خلوص کا لطف اٹھایا جائے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ملنا ضروری تھا "رفعت منزل" پہنچا تو مجھے دیکھ کر بہت بگڑے کہ یہ کیا طریقہ ہے نہ تمہارے آنے کی خبر اخبار میں چھپی نہ کسی مخلص کو خط سے اطلاع ملی۔ میں نے ہنس کر عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب ان باتوں میں کیا رکھا ہے ۔ ہم لوگ پیدا ہونے سے پہلے خواجہ صاحب کے روزنامچے چھپنے لگے تھے اس لئے چھپنے اور شائع ہونے کا شوق نہیں رہا! کہنے لگے یہ سب بیکار باتیں ہیں ۔ مجھے شمالی ہندوستان میں خواجہ صاحب نے بہتر متعارف کرایا۔ میرے تعارف سے لوگ "ادارہ ادبیات اردو" سے واقف ہوئے اور اس واقفیت نے سب کو فائدہ پہنچایا۔ تم بھی ایک مشن اور ایک کام سے وابستہ ہو۔ اس لئے خواہ مخواہ کی خاکساری دکھا کر آنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مشن کو نقصان پہنچاتے ہو جس میں ملنا جلنا بہت ضروری ہے ۔ تم کو تفریح کے وقت بھی کام کو یاد رکھنا چاہئے ۔ آج کل کٹیا میں بیٹھنے سے تصوف کی کوئی خدمت نہیں ہو سکتی! ڈاکٹر صاحب حیدرآباد کے ایک مشہور قادری بزرگ کے صاحب زادہ تھے ۔ لیکن انہوں نے اپنے بجائے اپنے بڑے فرزند حضرت میاں تقی الدین صاحب کو گدی پر بٹھادیا تھا اور خود اپنے لئے کام کی دوسری اور ذرا آزاد روش مقرر کر لی تھی۔ جس سے سب واقف ہیں ۔ چند سال پہلے کا ذکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب دلی آئے اور معمول کے مطابق مرے ساتھ درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ میں حاضری دی۔ وہ روضہ شریف کے اندر فاتحہ پڑھ رہے تھے اور میں باہر کھڑا تھا۔ اتنے میں کسی خادم نے مجھ سے پوچھا کہ اندر کون صاحب ہیں ؟ میں نے بتایا کہ حیدرآباد کے فلاں مشہور بزرگ کے صاحبزادے ہیں اور یہ نام ہے ۔ خادم صاحب بڑے منہ پھٹ تھے ۔ انہوں نے بڑی بدتمیزی سے ایک فقرہ کسا جسے ڈاکٹر صاحب نے بھی روضے کے اندر سن لیا۔ تھوڑی دیر بعد مسکراتے ہوئے باہر نکلے اور بڑی زندہ دلی سے پوچھے لگنے کہ یہ شخص تم سے کیا دریافت کر رہا تھا۔ میں نے کہاکہ آپ کو پوچھتا تھا۔ میں نے بتادیا کہ فلاں صاحب ہیں ۔ بولے اور کچھ؟ میں نے عرض کیا اور کچھ بھی نہیں ! خوب ہنسے اور کہنے لگے کہ حسن میاں ! میں نے اس کا ریمارک سن لیا ہے مگر ایک دفعہ تمہاری زبان سے سننا چاہتا ہوں تکلف نہ کرو کہہ دو! چنانچہ مجھے کہنا کہ پڑا کہ خادم نے کہا تھا کہ "یہ بزرگ کیسے صاحب زادے ہیں ؟ شکل سے تو ایکٹر معلوم ہوتے ہیں ؟ ڈاکٹر صاحب پھر خوب ہنسے اور اس کے بعد ایک دم سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے " کیسی سچی بات کہی اس نے ! بالکل ٹھیک کہا! مگر کسی کو اپنے پارٹ کی خبر ہے ۔ کسی کو نہیں ۔ شکر ہے میں اپنا پارٹ جانتا ہوں ! مگر آئندہ تم کسی سے میرا یہ "بزرگانہ"تعارف نہ کرانا۔ یہ تعارف تقی میاں کیلئے مخصوص رکھو ۔ کیونکہ ان کو یہی پارٹ کرنا ہے ۔ میرا پارٹ دوسرا ہے !" پھر کہنے لگے کہ میرابڑا جی چاہتا ہے کہ تقی میاں کچھ دن تمہارے ساتھ رہیں اور تم میرے ساتھ رہو۔ تقی میاں یہاں رہیں گے تو ان میں طریقت اور شریعت کا ذوق پیدا ہو گا اور تم میرے ساتھ رہو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ دنیا سے کس طرح فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ تم نہ لمبا کرتا پہنتے ہو نہ کہ سر کے اور داڑھی کے بال بڑھاتے ہو۔ نہ پیروں اور مرشدوں کی طرح برتاؤ کرتے ہو اور شوق یہ ہے کہ کچھ بزرگوں کے مشن کا کام کریں ! مجھے اس نصیحت پر ہنسی آ گئی۔ کہنے لگے کہ خاص وضع قطع اختیار کئے بغیر لوگ تم سے متاثر نہیں ہوں گے اور متاثر کئے بغیر تمہیں کامیابی نہیں ہو سکتی! مجھے ڈاکٹر صاحب کی اس آخری رائے سے اتفاق تھا اور اب بھی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کام کے متعلق جو اصول انہوں نے بنا رکھے تھے یہ مشورہ ان کے عین مطابق تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے انتقال سے شاید دیڑھ دو ہفتے پہلے "ایوان اردو" حیدرآباد میں قوالی کی مجلس ہوئی۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب کی بیگم صاحبہ اور بچے سب کشمیر میں تھے ۔ ڈاکٹر صاحب اکیلے حیدرآباد آئے ہوئے تھے ۔ اتفاق سے ان ہی دنوں میں بھی حیدرآباد پہنچ گیا۔ ڈاکٹر صاحب افسردہ تھے ۔ نشست کی چوکی کے پاس خلاف معمول سوٹ کیس رکھا تھا اور گھر کے دوسرے کمروں کے دروازے بند تھے ۔ کہنے لگے دیکھو گھر میں بھی پابہ رکاب ہوں ! طبعیت بہت گھبرا رہی ہے ۔ تم آ گئے بڑا اچھا ہوا۔ ایوان اردو و میں تعمیر کے بعد سے اب تک قوالی کی کوئی مجلس نہیں ہوئی ہے ۔ ایک زور دار محفل ہو جائے ۔ چنانچہ پروگرام بنا اور حیدرآبادکے بہت سے عمائد اور مشائخ مدعو کئے گئے اور عزیزاحمد خاں کی قوالی ہوئی( افسوس ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں "ایوان اردو" کی یہ آخری مجلس تھی!) ڈاکٹر صاحب کے ہاں جب بھی محفل ہوتی تھی ان کے بڑے فرزند تقی میاں صاحب کو مشائخ کے صدر میں بٹھایا جاتا تھا اور ڈاکٹر صاحب خود الگ مودب ہو کر بیٹھ جاتے تھے ۔ اس دفعہ تقی میاں کشمیر میں تھے ۔ اس لئے میں نے بڑے اصرار سے ڈاکٹر صاحب کو اپنے پاس بٹھایا اور قوالی میں نذریں ان کی طرف بڑھانی شروع کیں تو وہ بہت جز بز ہوئے ۔ بار بار میرا ہاتھ دباتے تھے اور جھک کر کہتے تھے کہ مجھے نذر نہ دو۔ یہ میرا کام نہیں ہے ۔ اردو کے نامی گرامی قلمکار اور خدمت گذار ایک ایک کر کے اٹھتے جاتے ہیں ۔ ہر روز کسی نہ کسی سنادنی کا دھڑکا لگا رہتا ہے ۔ بوڑھوں کے بارے میں تو یہ کہہ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ وہ اپنی عمر طبعی کو پہنچ چکے تھے لیکن یہاں تو آئے دن بڑے بڑے کڑیل نوجوانوں کو رونا پڑتا ہے مر موت کی اس گرم بازاری کے باوجود یہ خیال کسی کو نہیں ہوتا تھا کہ ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ بھی یوں آناً فاناً ہم سے رخصت ہو جائیں گے ۔ ڈاکٹر صاحب کے کام اور ان کی رفتار کی توانائی اور ان کے ز زندگی بخش ولولے نے سب کو یہ باور کرا رکھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب جوانوں سے زیادہ جوان اور زندوں سے زیادہ زندہ ہیں ۔ موت ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی۔ لیکن موت آئی اور ایسے دبے پاؤں آئی کہ لوگ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد ہی چونک بھی سکے ۔ بچانے والوں کو یہ حسرت ہی رہی کہ کاش کچھ کوشش تو کر سکتے ۔ نتیجہ جو بھی ہوتا لیکن ڈاکٹر صاحب کیلئے کچھ کرنے کا ارمان تو ضرور نکل جاتا۔ ڈاکٹر صاحب نے کشمیر یونیورسٹی میں اردو ڈپارٹمنٹ کو سنھال رکھا تھا۔ وہیں یکایک دل کا دورہ پڑا اور ڈاکٹر صاحب دیکھتے دیکھتے ختم ہو گئے ۔ ڈاکٹر صاحب ایوان اردوکو سنسان کرگئے ۔ اﷲ اردو والوں کو صبر دے اور جانے والے کی مغفرت فرمائے ۔

غزل
کیسے بے دردو بداندیش یہاں ہیں کچھ لوگ
جو سمجھتے نہیں پابند فغاں ہیں کچھ لوگ
پینے والے مئے و مینا پہ نظر رکھتے ہیں
چشم ساقی کی طرف کیوں نگراں ہیں کچھ لوگ
ہم غریبوں پہ امیروں کی خدائی چلتی
باعث برہمی بزم بتاں ہیں کچھ لوگ
قافلے چل بھی پڑے لے کے شعور فروا
اور بھی مست مئے خواب گراں ہیں کچھ لوگ
طرح افسانہ و افسوس کی حقیقت معلوم
درپس کار گہ شیشہ گراں ہیں کچھ لوگ
بانی فکر جدید آزر طرز فرد
انہیں گم نام غریبوں میں نہاں ہیں کچھ لوگ
ہم سے شرح غم و اندہ عزیزاں مت پوچھ
محو تغیری حدیث و گراں ہیں کچھ لوگ
ایک نگاہ غلط انداز سہی دیکھ تو لیں
آپ کے چاہنے والوں میں یہاں ہیں کچھ لوگ
زندہ زندہ دلی، ذوق طلب، شوق عمل
عہد پیری میں بھی اے زورؔ جواں ہیں کچھ لوگ

Dr. Mohiuddin Quadri Zor - Article by: Khwaja Hassan Nizami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں