رمضان کریم کی تین عشروں میں تقسیم بےبنیاد ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-15

رمضان کریم کی تین عشروں میں تقسیم بےبنیاد ہے

ramzan-3-ashra baseless

اس میں کوئی شک نہیں کہ رمضان المبارک بیش بہا نعمتوں اور برکتوں کا حامل ہے۔ اس ماہ کی فضیلت پر قرآن مجید کی متعدد آیات کے علاوہ کئی احادیث مبارکہ شاہد ہیں۔ اس میں شب قدر ہے جو قرآن مجید کی آیت کے مطابق ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
اس ماہ کی فضیلت اور برکت مسلمہ ہے تاہم بعض خطباء، وعاظ اور عوام الناس میں یہ بات مشہور ہے کہ:
اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ آگ سے نجات ہے۔
بعض مساجد کے خطباء اور وعاظ اس تقسیم پر ایک حدیث طیبہ کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس میں رمضان المبارک کے تین عشروں، رحمت، مغفرت اور آگ سے نجات کی تقسیم کا ذکر ہے۔
رمضان المبارک کی یہ تقسیم اس قدر عام ہے کہ لوگ اسے صحیح سمجھنے لگے ہیں جبکہ مختلف ذرائع ابلاغ پر بھی اس کی تشہیر ہوتی رہتی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ماہ مبارک کی یہ تقسیم غلط اور بے بنیاد ہے۔

رمضان کے پہلے عشرے کو رحمت، دوسرے کو مغفرت اور تیسرے کو جہنم سے نجات قرار دینے والی جس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے، وہ درج ذیل ہے:
وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة وآخره عتق من النار
رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ہے، دوسرا عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ آگ سے نجات ہے۔
اس حدیث کو انہی کلمات کے ساتھ علامہ ناصر الدین الالبانی نے "السلسلہ الضعيفہ" میں نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ :
"یہ حدیث منکر ہے"
جبکہ اپنی دوسری کتاب ضعيف الجامع میں بھی نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ضعيف جدا" یعنی یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے۔

رمضان کو تین عشروں، رحمت، مغفرت اور آگ سے نجات میں تقسیم کرنے والی یہ حدیث جو اوپر مذکور ہے جس پر علامہ البانی کی رائے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، دراصل ایک طویل حدیث کا ایک حصہ ہے، اصل حدیث یوں ہے:

حضرت سلمان فارسی نے کہا: شعبان کی آخری رات میں رسول اکرمؐ نے ہمیں خطہ دیتے ہوئے فرمایا:
"اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہے، وہ مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ایک ہزار ماہ سے بہتر ہے، اس کے دن کے روزوں کو اللہ تعالی نے فرض اور رات میں قیام کو نفل قرار دیا ہے۔ اس میں جو آدمی خیر کا کوئی کام کرے گا تو اس نے گویا فرض ادا کیا ہو (يعنی نقل کام پر فرض کام جیسا ثواب دیا جائے گا ) اور فرض ادا کرنے والا گویا دیگر مہینوں میں 70 فرض ادا کر چکا ہو (یعنی فرض کام پر 70 گنا ثواب ملے گا) یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کی جزا جنت ہے، یہ دل جوئی کا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں جس نے روزہ دار کا روزہ کھلوایا تو اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور آگ سے نجات دلائی جائے گی، اس کے لیے بھی اتنا ہی اجر ہے جتنا روزہ دار کا ہوگا مگر روزہ دار کے اجر میں کمی نہیں کی جائے گی۔"
لوگوں نے کہا: ہم میں یہ سکت نہیں کہ ہم روزہ دار کا روزہ افطار کروائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ثواب الله تعالی اسے دے گا جو کسی روزہ دار کو چند کھجوروں یا پانی یا دودھ کے چند گھونٹوں پر افطار کروائے گا۔ یہ ماہ ایسا ہے جس کے اول میں رحمت، درمیان میں مغفرت اور آخر میں آگ سے نجات ہے۔ اس ماہ میں جس نے اپنے غلام پر تخفیف کی تو اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کرے گا اور اسے آگ سے نجات دلائے گا لہذا اس ماہ میں خیر کے کام کثرت سے کیا کرو اور چار باتوں پر زیادہ توجہ دو، ان میں سے دو باتوں میں تمہارے رب کی رضا ہے اور جبکہ دو باتیں ایسی ہیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ وہ دو باتیں جن میں تمہارے رب کی رضا ہے وہ یہ ہیں کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس سے استغفار کرو جبکہ وہ دو باتیں جن سے تم بے نیاز نہیں رہ سکتے وہ یہ ہیں کہ تم اللہ سے اس کی جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو۔ اس ماہ میں جس نے پیٹ بھر کر روزہ دار کو کھانا کھلایا تو اللہ تعالی اسے میرے حوض سے پانی پلائے گا جس کے پینے کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا"۔

یہ ہے اصل حدیث جسے امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں 3/191-192 میں نقل کیا جبکہ اسی حدیث کو امام بیہقی نے شعب الايمان 7/215-217 میں اور علامہ اصفہانی نے ترغیب و ترہیب 3/349-350 میں نقل کیا۔

آئیے پہلے اس کی تخریج اور رواة کا تجزیہ کرتے ہیں۔
امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں رمضان المبارک کی فضیلت پر مشتمل باب میں نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
باب فی فضائل شهر رمضان ان صح الخبر۔
رمضان المبارک کی فضیلت پر مشتمل باب میں (یہ حدیث نقل کرتا ہوں) اگر وہ صحیح ہے۔
آخری جملہ لکھنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ امام ابن خزیمہ اس حدیث کی سند کے خود بھی مطمئن نہیں تھے۔ اس حدیث کی سند یوں ہے:
حدثنا علي بن حجر السعدی، حدثنا يوسف بن زیاد، حدثنا همام بن يحيى عن علی بن زید بن جدعان عن سعيد بن المسيب عن سلمان الفارسی۔
(بتایا علی بن حجر سعدی نے، بتایا یوسف بن زیاد نے، بتایا هام بن یحیی نے، علی بن زید بن جدعان سے، سعید بن مسیب سے، سلمان فارسی سے۔)

اس حدیث کی سند میں علی بن زید بن جدعان ہے، جسے محدثین نے یادداشت کی کمزوری کے باعث ضعیف قرار دیا ہے۔
علامہ ابن سعد نے اس راوی کو سخت ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ: اس کی روایتیں قابل حجت نہیں۔
علاوہ ازیں علی بن زید بن جدعان کو امام احمد، ابن معین، امام نسائی، امام ابن خزیمہ، جوزجانی اور دیگر ائمہ ضعیف قرار دیتے ہیں۔
(حوالہ کے لیے دیکھیے: سیر اعلام النبلاء ، 5/207)

مذکورہ حدیث کی تخریج اور تجزیہ کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں سخت ضعف ہے۔ اس کے علاوہ رمضان کو تین عشروں میں نقسیم کرنے والی یہ حدیث درج ذیل اسباب کے بنا پر ناقابل التفات ہے:
اول یہ کہ یہ حدیث ہم تک بطریق حصرف سعید بن مسیب پہنچی جنہوں نے اسے جلیل القدر صحابی حضرت سلمان فارسی سے سنا۔
یہ بات معروف ہے کہ حضرت سعید بن مسیب جلیل القدر تابعی تھے جو حضرت عمر بن خطاب کی خلافت کے دوسرے سال یعنی 14 ہجری کو پیدا ہوئے اور ان کی وفات 94 ہجری میں ہوئی، جبکہ حضرت سلمان فارسی کی وفات حضرت عثمان غنی کے دور میں ہوئی۔
محدثین کرام اس حدیث کو اس لئے ناقابل التفات قرار دیتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے یہ بات ثابت نہیں کہ حضرت سعید بن مسیب نے حضرت سلمان فارسی سے سنا یا علم حاصل کیا۔ اس انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث سخت ضعیف ہے جبکہ حدیث کی صحت کیلئے رواۃ میں تسلسل ضروری ہے۔

اس ضعت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کے الفاظ کی عربیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ممکن نہیں کہ آپؐ فصاحت و بلاغت کی انتہا پر تھے جبکہ متن حدیث کی عربیت شدید کمزور ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ الله تعالی کے وسیع فضل و کرم پر کسی کو شک نہیں مگر نفل عبادت نفل ہی ہے اور فرض کا اپنا مقام ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ نیک اعمال کا اللہ تعالی کے ہاں 10 گنا اجر ملتا ہے جو 700 گنا اور اس سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ زیادتی رمضان اور غیر رمضان میں بھی ہے۔

اس حدیث کو ناقابل التفات اس لئے بھی قرار دیا جائے گا کہ اس میں رمضان کی فضیلت کو واضح کرنے اور اللہ تعالی کی رحمت سے امید دلانے کے بجائے اللہ تعالی کے فضل و کرم کو محدود کیا گیا ہے۔ مذکورہ حدیث کے مطابق اس کا پہلا عشرہ رحمت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کی 11 ویں تاریخ سے رحمت کا دروازه بند ہو جاتا ہے۔ گویا اللہ کی رحمت کو 10 دنوں تک محدود کیا گیا، جبکہ اللہ تعالی کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔
اسی طرح دوسرا عشره مغفرت کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس عشرے سے پہلے اور بعد میں کسی کی مغفرت نہیں کی جائے گی، جبکہ یہ بھی اللہ کے فضل وکرم کو محدود کرنا ہے۔
تیسرا عشرہ آگ سے نجات کا ہے جبکہ یہ مفہوم صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ:
"رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کئے جاتے ہیں"۔
اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ:
"اور اللہ تعالی اپنے کچھ بندوں کی گردنیں جہنم سے چھڑاتا ہے اور یہ عمل رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے"۔
معلوم ہوا کہ آگ سے نجات دلانے کا عمل آخری عشرے تک محدود نہیں بلکہ یہ رمضان کو ہر رات میں ہوتا ہے۔

رمضان کی تین عشروں میں تقسیم والی حدیث کو سعودی عرب کے سربرآوردہ علما بورڈ نے بھی ناقابل التفات قرار دیا ہے۔

***
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 26/جون 2015۔

Division of Ramadan into three ten is baseless

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں