مجدد عصر - امام محمد بن عبدالوہابؒ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-22

مجدد عصر - امام محمد بن عبدالوہابؒ


دنیا امام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ کو مصلح امت کے نام سے جانتی ہے۔
بلا شبہ آپؒ مصلحین امت میں سے ہیں۔ آپؒ کی بود و باش جزیرہ عرب کی سیدھی سادی فضا اور خالص عربی ماحول میں ہوئی۔ آپ جزیرہ عرب کے قلب میں پلے بڑھے اور پروان چڑھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جس وقت جزیرۂ عرب جاہلیت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا اور عرب کے ماحول کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے کوئی واسطہ نہیں رہ گیا تھا۔
جو چیز اللہ سے مانگنی چاہئے تھی لوگ اسے شجر و حجر سے مانگنے لگے تھے۔ کسی اور قوم کا نہیں عربوں کا یہ حال تھا ، ظلم و بہیمیت، قتل و غارتگری اور قبیلوں کے مابین لوٹ کھسوٹ، غرضیکہ عربوں کا اتنا بدتر حال تھا کہ طاقتور کمزور کو ہڑپ کر جانے کے درپے نظر آتا تھا۔ دین و ایمان ایک کھلواڑ اور انوکھی چیز بن کر رہ گیا تھا۔

شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ان مذکورہ ناگفتہ بہ حالات میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ حالات ہیں جن کا پورے جزیرہ عرب اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں دور دورہ تھا۔ ان نامساعد حالات میں ایک دینی اور علمی گھرانے میں آپ کی ساخت و پرداخت ہوئی اور شروع سے ہی آپ کو دینی ماحول ملا چنانچہ آپ نے سب سے پہلے حصول علم کی غرض سے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کو اپنے لئے باعث صد افتخار سمجھا۔
رفتہ رفتہ علم کی تشنگی بڑھتی گئی اور اس کی آسودگی کے لئے آپ نے نجد سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پھر بصرہ کا سفر کیا اور بصرہ میں وہاں کے جید علماء اور فضلاء سے مستفید ہونے کی غرض سے آپ نے ایک خاصی مدت تک قیام فرمایا۔ وہیں سے آپ کی شخصیت سازی ہوئی چنانچہ جب آپ کی شخصیت میں نکھار آ گیا اور اس میں پائیداری کی قلعی چڑھ گئی اور آپ نے تجربات کے ذریعہ اپنی شخصیت کو مستحکم کر لیا اور اس ملک کے مختلف رجحانات اور انواع و اقسام کے مکاتب فکر نے آپ کو دعوت حق کی امانت اپنے کاندھوں پر اٹھانے اور حق کی طرف سے دفاع کرنے کے لئے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا تو پھر کیا تھا، اس انگارۂ خاکی میں دعوت حق کا شعلہ موجزن ہوکر پورے جزیرۂ عرب کو منور کرتا ہوا نظر آنے لگا۔

اس کے بعد آپ کی شخصی و فکری اور علمی صلاحیتوں کا فیضان شروع ہو گیا اور آپ نے بصرہ ہی میں دعوت و اصلاح کے کام کا آغاز فرما کر وہاں کے عوام میں رائج شرکیہ رسم و رواج اور حرام قسم کے اعمال و افعال کی بیخ کنی کرتے ہوئے اپنی دعوت و تجدید کی مہم کا افتتاح فرمایا اور منکر پر وہاں کے علمائے کرام کے سکوت کا سختی سے نوٹس لیا اور علمی حلقہ میں جمود و تعطل کو ختم کرنے کی طرف توجہ مبذول فرمائی۔
چنانچہ مقامی علماء میں سے شیخ مجموعی رحمہ اللہ نے آپ کے اس جراتمندانہ اقدام کو سراہا اور اس کی تعریف کی۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے لوگوں کو توحید خالص سے روشناس کرانے اور عوام و جاہل طبقہ کو علم عقیدہ کے اصول و مبادی سے متعارف کرانے کی غرض سے بصرہ ہی میں اپنی مشہور کتاب "کتاب التوحید" تحریر فرمائی اور ایک دوسری روایت کے مطابق بصرہ سے واپسی پر آپ نے "کتاب التوحید" جزیرہ عرب کے مشہور شہر حریملاء میں لکھی اور اس کو آخری شکل دے کر منظر عام پر لائے۔

اس دور میں دین حنیف کے اصل سر چشمہ سے دوری اور اس کی طرف سے بے توجہی اور لاپرواہی اور رسم و رواج کی اندھی تقلید کی وجہ سے آپ کو عوام اور خواص کی طرف سے اذیتوں اور آزمائشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ آپ کو دعوت کی راہ میں لوگوں نے بڑی اذیتیں دیں اور آپ کو بھرپور طریقہ سے معرض ہدف بنایا حتی کہ آپ کو دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں اکیلے پاپیادہ بصرہ سے نکل جانے کے لئے مجبور کیا گیا۔ چنانچہ آپ نے وہاں سے شام کی طرف کوچ کر جانے کا ارادہ فرمایا تاکہ علم و معرفت کی رہی سہی تشنگی بھی دور ہو جائے لیکن ساز و سامان اور خرچہ و نفقہ کی چیزیں چوری ہو جانے کی وجہ سے آپ کو شام کی طرف جانے کا ارادہ ترک کرنا پڑا، چنانچہ وہاں سے آپ الاحساء واپس تشریف لے آئے اور وہاں کے علمائے کرام کے پاس آکر پڑاؤ ڈال دیا۔ پھر کبار علماء سے شیخ عبداللہ بن محمد بن عبداللطیف الاحسائی شافعی رحمہ اللہ کی ضیافت میں ملاقات کی۔ اس طرح آپ کا یہ پر خطر اور پر مشقت سفر اختتام پذیر ہوا جس میں آپ کو اپنے والد اور اپنے آبائی وطن سے دوری اور جدائی کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔

بہرحال آپ کا مشکل ترین مصائب و آلام سے پر سفر اختتام پذیر ہوا اس طرح شیخ علیہ الرحمہ اپنے جلو میں علوم و معرفت کا خزانہ سمیٹے ہوئے واپس نجد تشریف لے آئے اور کتب تفسیر و عقیدہ اور حدیث کے پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہو گئے۔ جس نے آپ کے ذہن و دماغ کے دریچے کھول دئے اور آپ کی فکر و رائے کو روشنی عطا فرما کر جلا بخش دی اور آپ کی ذات کو علم دین کی فہم صحیح سے روشناس کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ونیز اندھی تقلید اور جمود و تعطل سے آپ کو مزکئ و مصفیٰ کر دیا اور اصلی و حقیقی مراجع اور علم دین کے بنیادی سرچشموں سے حصول حق کی جستجو کی چنگاری کو اس نے ہوا دے کر آپ کے سویداء قلب میں اسے شمع فروزاں بنا دیا۔

اس کے بعد شیخ محترم رحمہ اللہ نے دعوت الی اللہ کے فریضہ کی انجام دہی اور دین خالص کے مٹے ہوئے نقوش کے دوبارہ اجراء اور صاف و شفاف توحید کے احیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اور لوگوں کو عقیدۂ خالص کے گھنیرے سایہ میں کھنچ کر لانا، شرکیات کی آلودگی سے ان کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا اور رب العالمین کی توحید سے انہیں روشناس کرانا شیخ محترم رحمہ اللہ کا محبوب مشغلہ بن گیا۔
لیکن اس راہ میں بھی آپ کے رقیبوں نے آپ کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ اس سلسلہ میں بھی وہ آپ کی راہ میں آڑے آ گئے اور انہوں نے اس راہ میں بھی آپ کی سخت مخالفت کی اور آپ کو بڑی اذیتیں اور تکلیفیں دیں لیکن اس کے باوجود آپ کے پایہ استقامت میں ذرہ برابر جنبش نہ آئی اور عزم و استقلال کا پہاڑ بن کر آپ نے ان کا مقابلہ کیا نیز ان کا دندان شکن جواب بھی دیا اور پورے جوش و خروش کے ساتھ آپ نے اپنے مشن کو جاری رکھا۔ اس راہ میں آپ نے ان دعاۃ مخلصین کی اتباع اور پیروی کو اپنا نصب العین بنایا جو سید الانبیاء والمرسلین ﷺ کی سچی اور پکی اتباع کرنے والے تھے۔

یہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی سیرت کے چند تابندہ نقوش تھے جس کو تذکرہ نگاروں اور ان لوگوں نے، جو آپ کی سیرت و سوانح سے واقف ہیں اور آپ کی حیات علمیہ کے مورخین ہیں، اپنے اپنے انداز سے لکھا اور پیش کیا ہے۔
لیکن ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ ہر مصلح اور داعی کے حاسدین اور ناقدین ضرور ہوا کرتے ہیں جو ان کی دعوت اور اصلاحی کاموں میں ہر وقت رخنہ اندازی کے درپے رہتے ہیں! یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ تاریخ دعوت و عزیمت انبیاء علیہم السلام سے لے کر اس آخری دور کے مصلحین امت اور داعیان شرع متین تک اس قسم کی مثالوں سے لبریز ہے کیونکہ ہمیشہ داعیان حق کی دعوت اور اصلاح کی خلاف ورزی ان کی قوم کے لوگوں اور ان کے ہم عصروں نے ہی کی اور ان کے لئے طرح طرح کی رخنہ اندازیاں، بیان بازیاں کر کے ان کی ساکھ کو کمزور اور ان کی نیک نامی کو داغ دار کرنے کی انتھک کوشش کی۔
بعینہ یہی حال ہمارے شیخ موصوف علیہ الرحمہ کا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ہمارے شیخ علیہ الرحمہ اس معاملہ میں مظلوم زمانہ ہیں۔ ان پر ان کے دشمنوں اور حاسدوں نے یکجا ہو کر یک مشت وار کیا ہے لیکن ہمارے شیخ علیہ الرحمہ کی قوت عزیمت کے سامنے ان کے ترکش سے چلائے گئے تیر نشانہ بہدف نہ ہو سکے بلکہ وہ اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ نے شیخ موصوف کی شان کو سربلندی عطا فرما کر دوام بخش دیا اور ان کے ذکر کو زندۂ جاوید بنا کر زباں زد خاص و عام کر دیا اور آپ کے حاسدوں نیز آپ سے بغض و عداوت رکھنے والوں کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ گیا اور گم نامی و عدم قبولیت ان کا مقدر بن گئی۔
یہی وجہ ہے کہ آج امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو دنیا مجدد دین اور مصلح امت کے نام سے جانتی اور یاد کرتی ہے اور تاریخ دعوت و عزیمت میں آپ کا نام شہ سرخی میں لکھا جاتا ہے اس کے برعکس آپ کے مخالفین کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے شیخ علیہ الرحمہ کو رشد و ہدایت کی راہ میں مشعل راہ بناکر اللہ تعالیٰ نے ان سے اس زمانے میں اپنے دین کی تجدید کا کام لیا ہے اور آپ کے نام کو تاریخ عالم کا جز بنا دیا ہے۔

اس طرح تعلیم و تعلم ، علم و معرفت ، دعوت و اصلاح، عبادت و ریاضت ، مجاہدہ اور تزکیہ نفس سے لبریز زندگی گزارتے ہوئے آپ نے 1206ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی وسیع و عریض رحمتوں کی بارش فرمائے اور آپ کی اور تمام مسلمانوں کی بھرپور مغفرت فرما کر ان کو اپنی رحمت واسعہ کے سایہ عاطفت میں لے لے۔ آمین

***
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 4/اپریل 2008۔

Muhammad ibn Abd al-Wahhab

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں