فاطمہ عالم علی (پ: 16/نومبر 1923 ، مرادآباد - م: 4/مئی 2020 ، حیدرآباد)
حیدرآباد (دکن) کی ادبی دنیا کی معروف و مقبول شخصیت تھیں۔ وہ اردو کے ممتاز ناول نگار، افسانہ نگار، ادیب، نقاد، ڈراما نویس، انشائیہ نگار، شاعر و مترجم قاضی عبدالغفار کی دختر تھیں۔
فاطمہ عالم علی کے مضامین انشا پردازی کی شگفتگی کے علاوہ طنز و مزاح کی چاشنی لئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے روزمرہ زندگی میں رونما ہونے والی سماج کی بہت سی برائیوں کی نشان دہی کی ہے اور اصلاح کی کوشش کی ہے۔ زبان سادہ و سلیس ہے اسی لئے ان کی تحریروں میں زیادہ شگفتگی اور برجستگی ہے جو اپنے اندر لطف وا نبساط کے وافر خزانے چھپائے ہوئے ہے۔ فاطمہ عالم علی کے مزاج کے تعلق سے ممتاز مزاح نگار یوسف ناظم نے یوں رائے دی تھی :
"مصنفہ کے مزاج اور مراح میں صرف ایک نقطے کا فرق ہے، ان کی خوش طبعی اور شگفتہ تحریر نے مضامین کو انار بنا دیا ہے، وہ انار نہیں جس کا شربت پیا جاتا ہے بلکہ وہ انار جس سے روشنیاں پھوٹتی ہیں۔"پروفیسر حبیب ضیا کی مرتب کردہ کتاب "حیدرآباد کی مزاح نگار خواتین (تذکرہ)" میں فاطمہ عالم علی کا تحریرکردہ مختصر سوانحی مضمون جو شائع ہوا تھا، وہ یہاں پیش خدمت ہے۔
اس کے علاوہ ان کی تصنیف "یادش بخیر" سے ایک انشائیہ "سوکن" بھی پیش کیا جا رہا ہے۔
طویل عمر کی مختصر کہانیمیں فاطمہ عالم علی ہوں، قاضی محمد عبدالغفار مرحوم اور افضال بیگم یعنی بیگماں مرحومہ کی بیٹی، یہ وہی قاضی صاحب ہیں جو صحافی تھے ، ادیب تھے، سوانح نگار تھے ، مولانا محمد علی جوہر کے اخبار "ہمدرد" سے صحافت کا آغاز کیا۔ مولانا محمد علی جوہر کو صحافت میں اپنا گرو مانتے تھے۔ والد مرحوم صاحب طرز ادیب مانے جاتے تھے۔ لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ بیٹی بھی باپ کے نقش قدم پر چلے؟ ہم پر جو لکھنے کی تہمت لگائی جاتی ہے یہ ابّا کے دوستوں اور چاہنے والوں کی سازش ہے، اس میں پروفیسر زینت ساجدہ کا بڑا ہاتھ ہے!!
تعارف از: فاطمہ عالم علی
تعلیم مرادآباد سے شروع ہوکر لکھنؤ اور پھر حیدرآباد تک قسطوں میں جاری رہی، اسی لئے پڑھنا لکھنا تو آگیا قابلیت صفر رہی۔ طبیعت میں شوخی اور چہل نچلا نہ بیٹھنے دیتی۔ نئی نئی شرارتیں ایجاد کرتی، سزائیں پاتی۔ مسلم گرلس ہائی اسکول جو اب کرامت حسین گرلز کالج ہے، وہاں بورڈنگ ہاؤس تھا۔ میں نے پہلا مضمون "میرا بورڈنگ ہاؤس" اسکول میگزین کے لئے لکھا تھا۔ اسکول کے ڈراموں میں مزاحیہ کردار ادا کرتی رہی۔ اپنے والد کے پاس حیدرآباد آ گئی تو ویمنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ بیگم زین یار جنگ (رقیہ بیگم) پرنسپل تھیں، محترمہ جہاں بانو نقوی صاحبہ اردو پڑھاتی تھیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے عنوان "رکشا والا" دیا مضمون لکھنے کے لئے۔ میں نے اس عنوان پر افسانہ لکھا ، انہوں نے رسالہ "شہاب" میں چھپوا دیا۔ پرچہ میرے نام آیا، کھول کر دیکھا تو "رکشا والا" دیکھ کر اس وقت جو خوشی ہوئی ناقابل بیان ہے۔
میں نے جب بھی لکھا فرمائش پر لکھا خود اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ مزاح نگاری اور خاکہ نگاری میری پسند رہی۔ ضرورتمندوں کے لئے میرا دل بے چین ہو جاتا ہے۔ خاص کر غریب عورتیں اور بچے میری توجہ کا مرکز رہے۔ اسی لئے میں NFIW میں شریک ہو گئی۔ مجھ سے کسی کا کچھ بھلا ہوا یا نہیں البتہ عورتوں کی زندگی اور ان پر ہونے والے مظالم کا مجھے اندازہ ہوا۔ مرد اتنا ظالم ہو سکتا ہے، پتہ چلا۔
چند سال اردو مجلس کی معتمد رہی، محترم جانکی پرشاد صاحب مرحوم اس کے صدر تھے۔ تقریباً 12 سال "محفل خواتین" کی معتمد رہی، محترمہ عظمت عبدالقیوم اس محفل کی بانی بھی تھیں صدر بھی رہیں۔ میں 1993ء میں اس سے سبکدوش ہو گئی۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کی نائب صدر رہی۔ انجمن ترقی اردو کی عاملہ کی رکن ہوں۔ معظم جاہی گرلز ہائی اسکول کی کمیٹی ممبر ہوں ، ادارہ ادبیات اردو کی عاملہ کی رکن اور شعبہ خواتین ادارہ ادبیات اردو کی صدر ہوں۔ اتنی انجمنوں سے وابستہ ہونا الگ بات ہے اور کچھ کردکھانا الگ بات۔ تو جناب معاملہ یہ ہے کہ: خوان بڑا خوان پوش بڑا کھول کے دیکھو تو ادھا بڑا!!
میں 16/نومبر 1923ء کو مرادآباد میں پیدا ہوئی، معلوم نہیں کہ اللہ کی کیا مصلحت تھی کہ ٹھیک دسویں دن یعنی 26/نومبر 1923ء کو ہماری ماں، بچی کو اپنے بھائی بہن کے حوالے کر 28 سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں، رہے نام اللہ کا۔ میں اپنے ماموں سر محمد یعقوب کے پاس رہی۔ ماموں میاں 1940ء میں بحیثیت مشیر اصلاحات حیدرآباد آئے اور 1942ء اکتوبر میں وفات پائی، خطۂ صالحین میں دفن ہوئے۔ اس طرح میں نے اپنے والد کے گھر دوبارہ جنم لیا۔ جنہوں نے ہماری پرورش میں دکھ جھیلے ان کا نام کوئی نہیں جانتا، قاضی صاحب کی بیٹی سے ہماری پہچان بنی۔ کسی نے ٹھیک کہا تھا کہ ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں جس کا ہاتھی اس کا ناؤں۔
"یادش بخیر" از فاطم عالم علی پڑھئے، سارا کچھا چٹھا سامنے آ جائے گا۔ ہر روز کچھ سوچئے۔ مرتبہ فاطمہ عالم علی پڑھ کر دیکھئے شاید کوئی بات دل میں اتر جائے۔
سوکننہیں صاحب! ناممکن اور قطعی ناممکن !
ماخوذ از: یادش بخیر (اشاعت: 1989)
ہماری ان کی نہ کبھی بنی ہے نہ بنے گی۔ یہ جھگڑا تو زندگی کے ساتھ ہے اگر ختم ہونے والا ہوتا تو کب کا ختم ہوگیا ہوتا۔ ارمان رہ گیا کہ کبھی ہم سے سیدھے منہ بات کرلی ہوتی یا کم از کم ہماری طرف پیار سے دیکھ ہی لیا ہوتا۔ وہاں تو حال یہ ہے کہ جب دیکھو منہ پھلائے روٹھی کھڑی ہیں۔ اگر کان میں بھنک بھی پڑ جائے کہ ہم نے میاں کے ساتھ کہیں جانے کا ارادہ کیا ہے تو پھر دیکھئے ہماری راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے کیسے کیسے ڈھنگ اختیار کئے جاتے ہیں۔ خدا کی قسم ہر ایک کو دل میں بٹھاتی ہیں۔ سنی سنائی نہیں اپنی آنکھوں سے ان کا پیار دیکھا ہے، بلکہ یوں سمجھئے کہ ہم کو دکھا دکھاکر پیار کیا جاتا ہے گویا ہم کو جلانے کے سامان کئے جاتے ہیں۔ خدا نہ کرے کہیں ہم سامنے آ جائیں تو پھر تماشا دیکھئے کلیجے میں ایسی آگ لگتی ہے کہ منہ سے دھواں اگلنے لگتی ہیں۔ جہاں کھڑی ہوں گی چپک کر رہ جائیں گی، کیا مجال جو ایک قدم بھی ہماری طرف بڑھ جائیں۔ اگر کوئی صلح صفائی کی کوشش کرے تو ایسا طمانچہ رسید کریں کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جائے، ان کے نخرے خدا کی پناہ!
یوں تو ہمارے شوہر نامدار ایک نہیں کئی لائے اور لاتے ہی رہتے ہیں۔ ارے صاحب یہ ان کا محبوب مشغلہ ہے یعنی کہ Hobby ہابی ہے اب یہ گلہ ہی بیکار ہے کہ وہ کیوں لاتے ہیں اور پھر ان کی اس Hobby سے ہمیں کبھی تکلیف بھی تو نہیں پہونچی۔ ان آنے والیوں میں ایک سے ایک حسین بھی رہیں۔ جوان، ادھیڑ اور بوڑھی بھی شامل ہیں۔ غرض ان آنے والیوں میں ہر قسم اور ہر ذات کی آتی رہیں اور جاتی رہیں۔ ان کے دنیا بھر کے چونچلے ہوئے مگر کیا مجال کہ ہم سے چوں بھی کی ہو۔ لہذا ہم اپنی جگہ مگن رہے اور اب جو یہ بسورتی صورت آئی ہیں تو اللہ نے چاہا تو ایک نہ ایک دن ان کا بھی بوریا بستر سمٹ ہی جائے گا مگر کب؟ یہ اللہ بہتر جانتا ہے !
غرض پہلی والیوں نے جیسا جی خوش رکھا یہ کم بخت توڑ ثابت ہوئی اور غضب یہ ہوا کہ میاں کو جو حسن ان میں نظر آیا وہ پہلے کسی میں نظر نہ آیا تھا۔ نگوڑی کی کچھ شکل بھی ہو، آئے ہے کوئی چیز اپنی جگہ پر نہیں۔ رنگ و روغن تک ٹھکانے کا نہیں۔ صورت پہ جیسے پھٹکار برس رہی ہو۔ آئے دن کی مریض، ہر وقت کی رنگ رنگ، کبھی آواز بیٹھ گئی تو کبھی کان پٹ گئے۔ آگ لگے پیٹ کو، جہنم کی آگ بجھتی ہی نہیں۔
توبہ ہے میں تمہید میں ایسی گم ہوئی کہ یہ بتانا ہی یاد نہ رہا کہ آخر اشارہ کس طرف ہے؟ توبہ توبہ میرے میاں کے متعلق کوئی ایسا ویسا خیال بھی دل میں نہ لائیے گا:
"ہمارے میاں ایک نہیں کئی لا چکے ہیں"
تو کیا خدا نخواستہ آپ سمجھ رہے ہیں: "بیویاں"؟
جی نہیں جناب عرض ہے کہ موٹر یعنی کار! ہم کو تو گنتی یاد نہیں دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ہم سال میں چار قسم کی موٹروں میں نظر آتے ہیں۔ نئی سے نئی، کھٹارا سے کھٹارا، بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی۔
ایک مرتبہ ایک لمبی چوڑی موٹر آئی۔ دل میں خوب خوب منصوبے باندھے کہ اس میں کس طرح بیٹھیں اور کس ادا سے اترائیں۔ لیکن اس میں بیٹھ کر اترانے اور اکڑنے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی۔ ہوا یوں کہ بڑی تیاری کے ساتھ اس میں بیٹھ کر عابد روڈ گئے اور اسی دن شام کو ہم نے ایک محترمہ سے سنا کہ:
"صبح آپ کی موٹر نظر آئی تھی مگر آپ اس میں نہیں تھیں"
اب یہ غضب نہیں تو کیا ہے "پھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان"۔ ایسی موٹر کی بڑائی کو لے کر کیا کریں جس میں ہماری ہستی ہی گم ہو کر رہ جائے۔ اس موٹر کا نام میں نے "کنبہ گھسیٹ" رکھا تھا۔
اس کے بعد جو موٹرآئی اس کے متعلق اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اس میں ہم لوگ بیٹھتے ہی نہیں تھے بلکہ ٹھونسے جاتے تھے۔ پھر ایک ایسی موٹر آئی جس کو سرے سے موٹر کہنا ہی زیادتی تھی کیونکہ یہ غالباً اللہ کے نام اور وظیفوں کے زور پر چلتی رہی۔ ایک دن باغ عام کے قریب اس کا پہیہ اس زور سے نکل کر بھاگا کہ آج تک پتہ نہ چلا کہ کدھر کو گیا۔
خدا جانے میاں کی کون سی نیکی کام آئی کہ موٹر فٹ پاتھ سے رگڑ کھاکر رک گئی، ڈیڑھ سو روپے میں وہیں کھڑے کھڑے ہراج کرکے گھر تشریف لے آئے۔
یہ ساری موٹریں بے چاریاں خواب و خیال ہو چکی ہیں اب ہمارے پاس نہیں ہیں، لیکن ان کی یادیں باقی ہیں۔ اب جو ہمارے پاس موٹر صاحبہ ہیں ان کی ادائیں دنیا سے نرالی ہیں میرے ساتھ تو وہ سوکناپا ہے کہ خدا کی پناہ! اپنی مرضی چلانے پر تلی رہتی ہیں، ان کی مرضی کے خلاف کوئی انہیں جگہ سے ہلادے تو ہم جانیں!
اچھی خاصی عمر ہے مگر نخرے چھوکریوں جیسے ہیں۔ وہ تو کہئے ان کا جنم ولایت کا ہے کہ اتنی چل گئیں ورنہ نہ جانے کب کی کسی کباڑی کی دکان میں ڈھیر نظر آتیں۔ ان کو چلنے پر آمادہ کرنے کے لئے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے اور اگر اتفاق سے چل پڑیں تو پھر دیکھئے چلنے کا وہ ہنگامہ خیز انداز ہے کہ کچھ نہ پوچھئے۔ اٹھلا کر ان کا قدم اٹھانا بھی غضب ہے۔ چند قدم چلنے پر سارا کھایا پیا ہضم ہو کر بھوک پلٹ آتی ہے اور کبھی کبھی تو یہ اٹھلاتی چال ، معلوم ہوتا ہے کہ پیٹ کے سارے ساز و سامان کو دیوانی ہانڈی میں تبدیل کر کے رکھ دے گی۔
پھر چال تو جیسی کچھ ہے، ہنگامہ وہ غضب کا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے کچھ ایسا ڈنکے کی چوٹ چلتی ہیں کہ میلوں آگے سے لوگ پلٹ پلٹ کر دیکھتے اور راستے سے ہٹنے لگتے ہیں گویا ہارن کا کام بھی نکلتا رہتا ہے۔ آوازیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں، غرفش، چر چوں سے لے کر ڈھر پڑ کھڑ تک سب ہی شامل ہیں۔
بیٹھنے والے کو یہ گمان رہتا ہے کہ وہ موٹر پر نہیں آوازوں پر سوار ہے اس میں بیٹھ کر ساتھی سے بات کرنے کی کوشش کرنا بے سود ہے۔ منہ سے کچھ نکلتا ہے سنائی کچھ دیتا ہے۔ اس میں تو بس اس طرح اچھلتے کودتے چلتے ہیں گویا بچے کے ہاتھ میں گیند اچھل رہی ہو۔ پھر اچھل کود بھی وقتی، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کب ساکت ہو جائے!
رشید احمد صدیقی صاحب نے لکھا تھا کہ ان کی موٹر کی ہر چیز بجتی ہے سوائے ہارن کے۔ اس معاملے میں ہماری موٹر دو جوتے آگے ہی ہے، کیونکہ جہاں اس کی ہر چیز بجتی ہے وہیں اگر غلطی سے ہارن پر ہاتھ پڑ جائے تو بس قیامت ہے۔ معلوم ہوتا ہے صور پھونکا جا رہا ہے، ہارن بند ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تاوقتیکہ گاڑی روک کر اس کی کان گوشی نہ کی جائے۔
بہرحال سوکن کو دیکھ کر خدا کی شان نظر آتی ہے۔ ترچھی نظروں کی کیا تعریف کیجئے، جب لائٹ کھولئے سڑکوں سے گزوں اونچی۔ کبھی درختوں پر کبھی عمارتوں کی کمپاؤنڈ وال پر پڑ رہی ہے۔ کیا مجال جو سڑک پر کچھ نظر آ جائے۔ چلانے والے کو تو بہرصورت ٹٹول ٹٹول کر ہی چلانا پڑتا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ چوراہے کے پولیس والے کی تشفی کی خاطر لائٹ کھول دی جاتی ہے!
دل کی حالت بھی ایسی خاص اطمینان بخش نہیں ڈاکٹر تو علاج کرکے ہار چکے تھے مگر ایک دن ہمارے صاحبزادے نے غور و فکر کے بعد علاج دریافت کر ہی لیا، آخر کس باپ کے بیٹے ہیں۔ ذرا یہ عجیب و غریب علاج بھی ملاحظہ ہو کہ:
اب یہ ہوتا ہے کہ جہاں چلتے چلتے دھڑکنیں رکتی محسوس ہوئیں، فوراً ہی سیدھے ہاتھ کا دروازہ کھول کر پوری قوت سے دھڑ سے بند کیا کیجئے، اکھڑی سانسیں پھر ہموار ہو گئیں۔
نقاہت کا یہ عالم ہے کہ توبہ بھلی، پیروں میں دم نہیں چال ٹھہری چھبیلی۔ رستہ دیکھیں نہ گھر جنگل دیکھے نہ گاؤں، جہاں جی چاہا اکڑ کر کھڑی ہو گئیں۔ معلوم یہ ہوا کہ پہئے کی ہوا نکل گئی، اب بیٹھے سر پکڑ کر! آئیں ایسی چھڑے چھاٹ کہ ساتھ کوئی سامان یعنی فالتو اسٹیپنی بھی غائب، جیک ندارد کہ پہیہ نکال کر ہی درست کر لیا جاتا۔ غرض دنیا کی مصیبت جھیلنا پڑتی ہے، مگر نظروں سے اوجھل کرنا میاں کے بس کی بات نہیں۔ کہتے ہیں اس میں ایک عدد ڈکی بھی ہے جو سدا بند دیکھی۔
ایک مرتبہ ریل کا سفر درپیش تھا۔ بہ مشکل تمام ڈکی میں سامان لے کر اسٹیشن پہونچے، یقین مانئے ڈکی کھولنے میں ایسے لگے کہ ٹرین سامنے سے نکل گئی۔ جو سوکناپا اس نے میرے ساتھ روا رکھا، کسی نے نہ رکھا تھا۔
میاں کی تو ظاہر ہے نور نظر ٹھہریں مگر مجھ سے خدا جانے کہاں کا بیر ہے۔ اگر دل میں بھی میاں کے ساتھ موٹر میں بیٹھنے کا ارادہ کرلوں تو میرے ارادہ کا خمیازہ بے چارے میاں کو پیدل دفتر تک بھگتنا پڑتا ہے مگر کوفت تو یہی ہے کہ اس دشمنی کو، جو اب ڈھکی چھپی بھی نہیں رہی، شوہر نامدار "اتفاق" کہتے ہیں۔ مجھے تو بس ڈر ہی لگا رہتا ہے کہ کل ہی کی تو بات ہے مجبور کرکے موٹر میں بیٹھایا، ہزار کہا کہ صاحب! آپ کی موٹر سے ہمارے ستارے نہیں ملتے، کیوں جان جوکھوں میں ڈالتے ہو؟ مگر وہاں سنتا کون ہے، بولے:
"بھئی بہترین چل رہی ہے، ابھی تو بچوں کو اسکول پہونچا کر آیا ہوں اتنی جلدی کیا خراب ہوگی۔"
خیر صاحب ہم بازو بیٹھ گئے، اب جو سلف دباتے ہیں تو ایک فش کی آواز نکلی اور سناٹا ہو گیا، ہارن پر ہاتھ رکھا تو وہ بھی دبی سی آواز نکال کر خاموش ہو گیا، کہنے لگے:
"بھئی، بیٹری ڈاؤن ہو گئی۔"
میں نے کہا "مہربان، یہ ہمارے قدموں کی برکت ہے، آپ بیٹری لئے پھرتے ہیں میں کہتی ہوں نروس بریک ڈاؤن نہ ہو جائے"
غرض سڑک کے چند چھوکروں اور گھر کے ملازمین کی مدد سے ڈھکیل کر بہ مشکل تمام اسٹارٹ ہوئی۔ مجھے تھوڑی ہی دور تو جانا ہی تھا، ابھی گیٹ میں داخل بھی نہ ہوئے تھے کہ اسٹیرنگ آگیا میاں کے ہاتھ میں! گویا سوکن بالکل بے لگام ہو گئیں مجبوراً جہاں پہونچے تھے، موٹر چھوڑ کر میکانک کی تلاش میں روانہ ہو گئے۔ میں نے دبی زبان میں پوچھا: "کیا اس کو بھی اتفاق کہو گے؟"
اس نے تو ایسے ایسے گل کھلائے ہیں کہ اگر وقت اجازت دیتا تو دفتر لکھ ڈالتی۔ جب ستانے پر آتی ہے تو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ میاں کے دوستوں اور بیویوں کے ساتھ پکنک کا پروگرام بنا، مرتا کیا نہ کرتا۔ دو چار کو اس موٹر میں بھی بٹھانا پڑا۔ اللہ اللہ کرکے کار روانہ ہوئی، راستے بھر دعا کرتی رہی کہ اللہ میاں لاج رکھ لیجیو مگر کہاں شنوائی ہوتی؟ دعا کے الفاظ پورے ادا بھی نہ ہوئے تھے کہ پٹرول پمپ پر پٹرول لینے رکے تو وہیں کے ہو رہے۔
سوکن نے چلنے سے صاف انکار کر دیا۔ مجبوراً ٹھنڈے ٹھنڈے آئے تھے گرم گرم اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ شرم سے میری حالت خراب۔ میں اپنے ہی کو مجرم سمجھ رہی تھی کہ اگر میں نہ بیٹھتی تو شاید موٹر خراب نہ ہوتی۔ ستم ظریفی تو دیکھئے کہ ہمارے میاں اس کو بھی 'اتفاق' کہتے ہیں۔ بہرحال انہیں عشق میں کچھ سمجھائی نہیں دیتا اور یہاں دن رات کا یہ سابقہ زندگی اجیرن کئے ہوئے ہے۔ اگر سوکن سے چھٹکارا پانے کا کوئی ٹوٹکا عنایت کریں تو باعث تشکر ہوگا!
ماخوذ از کتاب: یادش بخیر
مصنفہ : فاطمہ عالم علی
مصنفہ : فاطمہ عالم علی
یہ بھی پڑھیے:
یادش بخیر - خاکے اور مضامین از فاطمہ عالم علی - pdf download
لیلیٰ کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری - از قاضی عبدالغفار - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
Saukan. Humorous Essay: Fatima Alam Ali.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں