سعادت حسن منٹو (پ: 11/مئی 1912 ، لدھیانہ - م: 18/جنوری 1955 ، لاہور)
کا آج 108 واں یومِ پیدائش ہے۔
منٹو کی المناک موت کا تذکرہ ان کے بھانجے حامد جلال نے اپنے مضمون بعنوان "منٹو ماموں کی موت" میں کیا تھا جو رسالہ "نقوش" کے "منٹو نمبر" (49-50 ، 1955) میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون کے چیدہ چیدہ اقتباسات کو مختلف قلمکاروں اور مقالہ نگاروں نے اپنے اپنے تحقیقی مضامین میں بطور حوالہ استعمال کیا ہے۔ سائبر دنیا میں یہ یادگار مضمون کہیں بھی مکمل شکل میں موجود نہیں۔ ہر چند کہ مضمون کا دو تہائی حصہ معروف کالم نگار "ہارون الرشید" نے 18/ستمبر 2015 کو روزنامہ "دنیا" کے پورٹل پر یہاں شائع کروایا تھا۔
مکمل مضمون اب تعمیرنیوز پر ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
لیکن۔۔۔ سب سے پہلے نقوش کے متذکرہ 'منٹو نمبر' کا اداریہ (بعنوان: طلوع) بھی ضرور پڑھیے۔
طلوع - نقوش منٹو نمبر (شمارہ: 49-50 ، سال: 1955)یار منٹو نمبر نکالو۔
جی!
میں کہتا ہوں۔ نقوش کا منٹو نمبر نکالو۔
آج یہ آپ کیسی باتیں ۔۔۔
تمہارا خیال یہ ہے کہ میں نشہ میں ہوں اور بکواس کر رہا ہوں۔
آخر اتنی جلدی کیا ہے۔ چھپ جائے گا۔
میں اس کا انتظار نہیں کر سکتا۔ کہ پہلے مر کے دکھاؤں۔ پھر نمبر چھپے۔
مرنے کا نام نہ لیجیے۔ ابھی آپ کی بڑی ۔۔۔
اب جی کر بھی کیا کروں گا؟ اب تو میں خود مرنے پر راضی ہو گیا ہوں۔
اچھا یہ بتائیے، اس نمبر میں کیا کیا ہوگا؟
اب تک جتنی گالیاں ملی ہیں۔ وہ سب سے پہلے چھپیں گی۔ اور جتنے بےوقوفوں نے میری تعریف کی ہے، وہ سب سے آخر میں چھپے گی۔ بیچ میں میرے تین چار غیرمطبوعہ افسانے اور اسکیچ ہوں گے۔ بہرحال تمہیں زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ نمبر تمہیں میں مرتب کر دوں گا۔
اگر آپ مرتب کر دیں گے۔۔۔ تو میں کیا کروں گا؟
تم جھک مارنا۔
اس صورت میں تو آپ خود ہی ایک مجموعہ مرتب کر لیں۔ اور اسے کتابی صورت میں چھاپ دیں۔
میں چاہتا ہوں۔ نقوش کا منٹو نمبر نکلے۔
تو پھر آپ کا اس نمبر کی ترتیب و تدوین سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ میں کسی کی رائے تک برداشت نہیں کر سکتا۔
تو اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟ کیا تو مجھ سے زیادہ قابل ہے؟
قابلیت کو چھوڑئیے۔ یہ معاملہ ذمہ داری کا ہے۔
ذمہ داری کو چھوڑو۔ یہ معاملہ قابلیت کا ہے۔
اس معاملہ میں مجھے آپ کی قابلیت سے انکار ہے۔
اچھا تو تم پھر جیسی میری درگت بنانی چاہتے ہو، میری زندگی ہی میں بنا ڈالو۔
---
اگرچہ یہ واقعہ ایک برس پہلے کا ہے، لیکن میں آج بھی یہ نمبر منٹو کی زندگی ہی میں شائع کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ منٹو کسی اور کے خیال میں مرا ہو تو مرا ہو، میرے نزدیک نہیں مرا۔
- محمد طفیل
منٹو ماموں کی موت - از: حامد جلال (شائع شدہ: نقوش منٹو نمبر - شمارہ: 49-50 ، سال: 1955)کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ منٹو ماموں میانی صاحب کے قبرستان سے اٹھ کر گھر چلے آئے تو میں ان سے کیا کہوں گا؟ مجھے یقین ہے کہ میں ان کی حیات ثانی کے معجزے کو نظرانداز کر کے ان سے صرف اتنا کہوں گا: "منٹو ماموں۔ آپ نے آج تک جتنی غیر ذمہ دارانہ حرکتیں کی ہیں، ان میں سب سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ حرکت آپ کی موت تھی"۔
بہاول پور میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کرکٹ کا دوسرا ٹسٹ میچ ہو رہا تھا اور میں ڈرنگ اسٹیڈیم میں بیٹھا طالع یار خاں کو میچ کا چشم دید حال نشر کرنے میں مدد دے رہا تھا کہ لاہور سے میرے نام ایک ٹرنک کال آئی اور مجھے بتایا گیا کہ آج صبح سعادت حسن منٹو کا انتقال ہو گیا۔
میں فوراً غم سے بےقابو نہیں ہو گیا بلکہ مجھ میں شدید برافروختگی پیدا ہو گئی۔ مجھے منٹو ماموں پر انتہائی شدید غصہ آ رہا تھا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ یہ سلوک کس طرح کر سکتے ہیں؟ لیکن میں نے اس کا اظہار نہیں کیا۔ اور جب میں بولا تو میری آواز سے غیرمعمولی تشویش نمایاں تھی۔ میں نے پوچھا:
"کہاں انتقال ہوا؟"
جواب ملا: "گھر پر"۔
اس جواب سے مجھے بڑا اطمینان ہوا۔ کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ اچانک گھر سے باہر کسی اور مقام پر موت سے ہم آغوش نہ ہو گئے ہوں۔ عین ممکن تھا کہ کسی تانگے پر، کسی ریستوران میں، کسی پبلشر کے دفتر میں بیٹھے بیٹھے یا کسی فلم اسٹوڈیو میں انہیں اچانک موت آ گئی ہو ۔۔۔۔
جب میں اپنی جگہ پر واپس گیا تو میچ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والے ساتھیوں نے اشاروں سے پوچھا کہ کیا بات تھی؟ میں نے ایک کاغذ پر یہ جملہ لکھ دیا:
"امپائر نے سعادت حسن منٹو کو آخر آؤٹ دے ہی دیا۔ آج صبح ان کا انتقال ہو گیا"۔
منٹو ماموں کو آؤٹ دینے کے لیے امپائر سے کئی بار اپیلیں کی جا چکی تھیں لیکن ہر بار اپیل مسترد کر دی گئی تھی۔ اب ان کی بےصبر اور ڈانواڈول اننگس ختم ہو گئی تھی۔ وہ کرکٹ کے کھلاڑی ہوتے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ کبھی حنیف محمد کی طرح ہوشیار اور محتاط کھلاڑی نہیں بن سکتے تھے جسے وہ لاہور کے تیسرے ٹسٹ میچ میں کھیلتے ہوئے دیکھنے کے بےحد مشتاق تھے۔ اس کا علم مجھے ان کی موت کے چوبیس گھنٹے بعد گھر پہنچ کر ہوا۔ درحقیقت ان کی زندگی کی آخری دو خواہشوں میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی۔ اپنی موت سے ایک دن پہلے انہوں نے ایک ریستوراں میں اپنے دوستوں سے کہا تھا:
"حامد جلال کو واپس آ جانے دو۔ میں اسی کے ساتھ ٹسٹ میچ میں حنیف کا کھیل دیکھنے جاؤں گا"۔
ان کی دوسری خواہش اس بےیار و مددگار عورت کی موت پر افسانہ لکھنے کی تھی جس کی برہنہ لاش گجرات میں سڑک کے کنارے پائی گئی تھی۔ اخباروں میں شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس عورت اور اس کی ننھی سی بچی کو بس کے اڈے سے اغوا کیا گیا اور نصف درجن کے قریب ہوس پرستوں نے اپنی بہیمانہ خواہش کی تکمیل کی اور جب وہ کڑکڑاتی سردی میں ان کے چنگل سے نکل کر بھاگی تو اس کے جسم پر لباس کا ایک تار بھی نہ تھا چنانچہ دونوں ماں بیٹی نے منجمد کر دینے والی سردی میں دم توڑ دیا۔ اس المیہ سے منٹو ماموں بےحد متاثر ہوئے تھے۔ اسی روز شام کو گجرات سے کچھ لوگ ان کے پاس آئے تھے اور انہوں نے حادثہ کی مزید تفصیلات بتائی تھیں۔ اس سے ان میں ضرور اشتعال اور ہیجان پیدا ہوا ہوگا اور میرا خیال ہے کہ اس کے بعد منٹو ماموں نے زیادہ شراب پی لی ہوگی جو ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔
وہ کافی شام گزرنے کے بعد گھر واپس آئے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں خون کی قے ہوئی۔ میرے چھ سالہ بچّے نے، جو ان کے قریب ہی کھڑا تھا، خون کی دھاریوں کی طرف انہیں متوجہ کیا، تو ماموں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ کچھ نہیں، یہ تو پان کی پیک ہے۔ انہوں نے یہ تاکید بھی کر دی کہ وہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرے۔ اس کے بعد انہوں نے حسبِ معمول کھانا کھایا اور سو گئے۔ گھر بھر میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی بات خلافِ معمول ہوئی ہے کیونکہ میرے لڑکے نے منٹو ماموں کا راز کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ ممکن ہے خود منٹو ماموں کو بھی اس کے متعلق کوئی تشویش نہ ہوئی ہو۔ یوں بھی وہ گھر والوں کو ایسے معاملات سے بے خبر رکھنا ہی پسند کرتے تھے کیونکہ ہر طرف سے شراب ترک کر نے کا مطالبہ شروع ہو جاتا تھا۔
رات کا پچھلا پہر تھا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اٹھا کر بتایا کہ وہ شدید درد محسوس کر رہے ہیں اور اب تک بہت سا خون ضائع ہو چکا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا جگر پھٹ گیا ہے۔ ان کی بیوی نے جب یہ دیکھا کہ وہ اس صورتِ حال کا تنِ تنہا مقابلہ نہیں کر سکتیں تو انہوں نے گھر کے دوسرے لوگوں کو جگایا اور انہیں موت کے منہ سے نکالنے کی جدوجہد شروع ہو گئی۔ اس سے پہلے کئی شدید علالتوں کے بعد وہ شفایاب ہو چکے تھے۔ اس لیے کسی کو یہ خیال تک نہیں ہو سکتا تھا کہ اب وہ صرف چند گھنٹوں کے مہمان ہیں۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ انہیں آؤٹ دینے کے لیے امپائر کی انگلی اسی وقت سے فضا میں بلند ہونا شروع ہو گئی تھی، جب منٹو ماموں کو خون کی پہلی قے آئی تھی۔
منٹو ماموں کے آخری لمحات کے متعلق میں نے جو سنا ہے، اس سے میں یہی اندازہ لگا سکا ہوں کہ کافی دیر تک انہیں خود بھی یقین نہیں تھا کہ ان کا وقت اب آ گیا ہے۔ ڈاکٹر کے انجیکشن وغیرہ لگانے کے گھنٹہ ڈیڑھ بعد تک وہ مایوس نہیں ہوئے تھے، لیکن اس علاج کے بعد بھی ان کی حالت خلافِ معمول نہیں سنبھلی۔ ان کی نبض برابر ڈوبتی گئی اور درد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ خون کی قے بھی بند نہیں ہوئی۔ صبح کو ڈاکٹر نے تجویز پیش کی کہ منٹو ماموں کو ہسپتال پہنچا دیا جائے۔
اس وقت منٹو ماموں کے ہوش و حواس بالکل بجا تھے اور ہسپتال کا نام سنتے ہی وہ بول اٹھے :
''اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ مجھے ہسپتال نہ لے جاؤ اور یہیں سکون سے پڑا رہنے دو"۔
گھر کی عورتوں کے لیے یہ منظر ناقابلِ برداشت تھا۔ انہوں نے رونا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر منٹو ماموں فوراً مشتعل ہو گئے اور انہوں نے غضبناک آواز میں کہا : ''خبردار جو کوئی رویا"
یہ کہہ کر انہوں نے اپنا منہ رضائی سے بند کر لیا۔
منٹو کا یہ اصلی روپ تھا۔ جس شخص کی زندگی کا کوئی گوشہ آج تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہا تھا، وہ کس طرح برداشت کر سکتا تھا کہ لوگ اسے مرتا ہوا دیکھیں۔ منٹو ماموں مجسم غیظ و غضب بنے ہوئے تھے۔ معلوم نہیں، وہ اپنے آپ سے ناراض تھے یا شراب سے۔۔۔ جو ان کی قبل از وقت موت کی ذمہ دار تھی۔
ایمبولینس آنے سے پہلے صرف ایک یا دو بار انہوں نے اپنے منہ سے رضائی ہٹائی۔ انہوں نے کہا :
''مجھے بڑی سردی لگ رہی ہے۔ اتنی سردی شاید قبر میں بھی نہیں لگے گی۔ میرے اوپر رضائیاں ڈال دو"
کچھ دیر توقف کے بعد ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نمودار ہوئی۔ انہوں نے آہستہ سے کہا : ''میرے کوٹ کی جیب میں ساڑھے تین روپے پڑے ہیں۔ ان میں کچھ اور پیسے ملا کر تھوڑی سی وہسکی منگا دو۔۔۔"
شراب کے لیے ان کا اصرار جاری رہا اور ان کی تسلی کے لیے ایک پوا منگا لیا گیا۔ انہوں نے بوتل کو بڑی عجیب اور آسودہ نگاہوں سے دیکھا اور کہنے لگے : ''میرے لیے دو پیگ بنا دو"
اور یہ کہتے ہوئے درد اور شدید تشنجی دورے کے باعث وہ کانپ سے اٹھے۔
منٹو ماموں کی آنکھوں میں اس وقت بھی اپنے لیے رحم کا کوئی شائبہ موجود نہ تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کا وقت آ پہنچا ہے لیکن ایک بار بھی اور ایک لمحے کے لیے بھی انہوں نے اپنے اوپر جذباتیت نہیں طاری ہونے دی۔ انہوں نے اپنے بچّوں یا کسی اور کو اپنے پاس نہیں بلایا۔ وہ نگاہِ واپسیں یا وصیت کے کبھی قائل نہیں تھے۔ ان جیسی شخصیتوں کے لیے زندگی اور موت کے درمیان حد فاصل بہت ہی مبہم اور غیر واضح ہوتی ہے اور یہی ہونا چاہیے کیونکہ ان کی زندگی اور روح تو پہلے ہی ان کے جسم سے ان کی کتابوں میں منتقل کی جا چکی ہوتی ہے۔۔۔ وہاں پہنچ کر انہیں غیر فانی ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔ وہاں وہ ابد تک زندہ رہتے ہیں۔ ہنستے بولتے رہتے ہیں۔ محبت کرتے رہتے ہیں۔
بسترِ مرگ پر منٹو ماموں نے شراب کے سوا کوئی اور چیز نہیں مانگی۔ انہیں پہلے معلوم ہو چکا تھا کہ شراب ان کی جانی دشمن ہے اور وہ اسے موت کا ہم معنی سمجھنے لگے تھے، جس پر جسمانی فتح کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔ جس طرح مو ت کے آگے کوئی انسان کچھ نہیں کر سکتا، اسی طرح منٹو ماموں شراب کے سامنے بالکل بے بس ہوتے تھے لیکن ان کی فطرت چونکہ ہمیشہ سے باغیانہ تھی، اس لیے انہوں نے موت سے بھی بغاوت کی تھی۔ انہیں شکست سے بھی سخت نفرت تھی۔ خواہ وہ موت کے ہاتھوں ہی کیوں نہ ہو اور یہی وجہ تھی کہ موت سے تنہائی میں آنکھیں چار کرنا چاہتے تھے، جہاں کوئی انہیں مرتا نہ دیکھ سکے، جہاں کوئی ان کی شکست کا نظارہ نہ کر سکے۔
ان سے کم درجے کا آدمی شاید ایک ڈرامائی موت کا اہتمام کرتا تاکہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کا چرچا کریں۔ اس پر مضامین لکھے جائیں اور اس کے اعزا و احباب کہہ سکیں کہ اس کی زندگی ضرور ایسی تھی، جسے ہم ناپسند کرتے تھے لیکن مرنے سے پہلے وہ منفعل ہو گیا تھا اور اچھا آدمی بن گیا تھا لیکن منٹو ماموں ریاکار نہیں تھے۔ انہوں نے اس خواہش کا سختی سے مقابلہ کیا۔ ان کی موت کے وقت صرف ایک پہلو ڈرامائی تھا یعنی شراب طلب کرنے کا منظر۔ لیکن اس کا فائدہ بھی مرکزی کردار کو پہنچ سکتا تھا کیونکہ اس کا صحیح مفہوم صرف وہی سمجھ سکتا تھا۔
میں اس وقت موجود ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ اپنے ذہن کو ایک حد تک میرے سامنے بے نقاب کر دیتے اور یہ کچھ مشکل بھی نہیں تھا کیونکہ انہیں صرف اتنا کہنے کی ضرورت تھی: سانپ اور انسان کی کہانی نہ بھولنا۔ میں اپنے سر کو اثبات میں جنبش دیتا اور شراب کا آخری جام انہیں پینے کو دے دیتا۔ صرف یہی ایک جملہ ہر بات واضح کر دینے کے لیے کافی ہوتا۔
سانپ اور انسان کی کہانی صرف اتنی تھی کہ ایک آدمی نے اپنے دوستوں کے منع کرنے کے باوجود ایک زہریلا سانپ پال رکھا تھا اور ایک دن سانپ نے اپنا سارا زہر اس کے جسم میں اتار دیا تو اس نے بھی سانپ کو پکڑ لیا اور اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا۔
ایمبولینس جیسے ہی دروازے پر آکر کھڑی ہوئی، انہوں نے شراب کا پھر مطالبہ کیا۔ ایک چمچہ وہسکی ان کے منہ میں ڈال دی گئی لیکن شاید ایک قطرہ مشکل سے ان کے حلق سے نیچے اتر سکا ہوگا۔ باقی شراب ان کے منہ سے گر گئی اور ان پر غشی طاری ہو گئی۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اپنے ہوش و حواس کھوئے تھے۔ انہیں اسی حالت میں ایمبولینس میں لٹا دیا گیا۔
ایمبولینس ہسپتال پہنچی اور ڈاکٹر انہیں دیکھنے کے لیے اندر گئے تو منٹو ماموں مر چکے تھے۔ دوبارہ ہوش میں آئے بغیر راستے میں ان کا انتقال ہو چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
منٹو کا ایک خط عالم بالا سے - محمد طفیل
سعادت حسن منٹو - ایک جائزہ
منٹو ایک اخلاقی فن کار - مضمون از ممتاز شیریں
دھواں - ایک جائزہ - سعادت حسن منٹو
ماخوذ:
نقوش (لاہور) - شمارہ: 49-50 - منٹو نمبر
نقوش (لاہور) - شمارہ: 49-50 - منٹو نمبر
Manto Mamu ki maut. by: Hamid Jalal
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں