لیلیٰ کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری - از قاضی عبدالغفار - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-15

لیلیٰ کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری - از قاضی عبدالغفار - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

Laila-ke-Khutoot_Majnoon-ki-Diary

قاضی عبدالغفار (پ: دسمبر 1889 ، م: 17/جنوری 1956)
اردو کے ممتاز ناول نگار، افسانہ نگار، ادیب، نقاد، ڈراما نویس، انشائیہ نگار، شاعر، مترجم اور تحریک نفاذ اردو کے علمبردار تھے۔ وہ تقریباً سات سال تک انجمن ترقی اردو دہلی کے فعال اور سرگرم سکریٹری بھی رہے۔ آزادئ ہند سے قبل کے فکشن نگاروں میں انہیں ایک ممتاز مقام حاصل رہا ہے۔ ان کی تصنیفات "لیلی کے خطوط" ، "مجنوں کی ڈائری" ، افسانوں کے دو مجموعے "عجیب" اور "تین پیسے کی چھوکری" اردو فکشن کا قابل قدر سرمایہ ہیں۔ جان گالزوردی کے ناول [The Apple Tree] کا ترجمہ "سیب کا درخت" اور خلیل جبران کی تصنیف "البنی" کا اردو ترجمہ "اس نے کہا" قاضی صاحب کی ترجمہ نگاری کا جہاں ایک نایاب کام ہے وہیں ان کی کتب "آثار جمال الدین افغانی" ، "آثار ابوالکلام آزاد" اور "حیات اجمل" کو سوانح نگاری کا اعلا ترین نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں قاضی صاحب کے سفرنامے "نقش فرنگ" کو اپنے دور میں غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ اردو صحافت کی تاریخ بھی قاضی صاحب کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں۔ ہمدرد، ترجمان، صداقت، جمہور (کلکتہ)، صباح (دہلی) اور پیام (حیدرآباد) جیسے اخبار و رسائل قاضی صاحب کی صحافتی زندگی کا نمایاں ثبوت ہیں۔
قاضی عبدالغفار کی معروف ترین تصنیف "لیلیٰ کے خطوط" پہلی بار 1932 میں شائع ہوئی تھی جس کے بعد 1934 میں "مجنوں کی ڈائری (روزنامچہ)" اشاعت پذیر ہوئی۔
1991 میں مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نے ان دونوں کتابوں کو یکجا کر کے شائع کیا، جو تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 14 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

یونس سلیم صاحب نے ایک مرتبہ قاضی عبدالغفار صاحب سے پوچھا تھا:
کیا 'لیلیٰ کے خطوط' لکھتے وقت الیگزنڈر دوما [Alexandre Dumas fils] کی تصنیف 'لیڈی ودھ دی کیمیلیس' [Lady with the Camellias] آپ کے پیش نظر رہی تھی؟
قاضی عبدالغفار صاحب نے اثبات میں سر ہلایا مگر بات کچھ آگے نہ بڑھ سکی۔

ڈاکٹر ہارون ایوب اپنے ایک مضمون "اردو ناول نگاری اور لیلیٰ کے خطوط" میں لکھتے ہیں ۔۔۔
قاضی عبدالغفار صاحب کا ناول "لیلیٰ کے خطوط" 1932 میں منظر عام پر آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نئی اور پرانی اقدار میں تصادم بڑھ رہا تھا ۔۔۔ پریم چند اس دور کے بہترین غماز کی صورت میں ابھر کر سامنے آ چکے تھے۔ انہوں نے حقیقت سے کام لے کر اپنے ناولوں میں اس دور کی نشاندہی کی مگر ابھی وہ اپنا شاہکار ناول "گئودان" لکھ نہ پائے تھے کہ قاضی صاحب نے "لیلیٰ کے خطوط" پیش کر دیا جس نے اردو ناول نگاری میں ایک نیا باب کھول دیا۔
قاضی صاحب انگریزی ادب سے متاثر تھے، انہوں نے خطوط کی جو تیکنیک استعمال کی، وہ انگریزی ادب کی دین ہے اور یہ شاید اردو کا پہلا ناول ہے جس میں خطوط کی تیکنیک کو استعمال کیا گیا ہے۔ اس ناول کی تیکنیک بھی اس کی مقبولیت کا سبب بنی، حالانکہ موضوع نیا نہیں ہے پھر بھی جو انداز قاضی صاحب نے اختیار کیا ہے وہ دوسرے تمام ناول نگاروں سے مختلف ہے۔ آپ نے ایک ایسی طوائف کی زندگی کو پیش کیا ہے جو مردوں کے بنائے ہوئے سماج سے بیزار ہے۔ اپنے خطوط میں وہ اس سماج پر گہرے طنز کرتی ہے۔ اس طرح ناول کا موضوع ضرور محدود ہو کر رہ جاتا ہے لیکن ایک طوائف کا ذہنی ارتعاش پوری طرح کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔
قاضی صاحب کا برجستہ اسلوب اردو ناول کو نئی زندگی عطا کرتا ہے اور ناول نگاری کی روایت میں انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ اسی بنا پر عزیز احمد نے "لیلیٰ کے خطوط" کو پہلا ترقی پسند ناول قرار دیا ہے۔ حالانکہ ترقی پسند تحریک اس ناول کی اشاعت کے تقریباً چار سال بعد وجود میں آئی تھی۔

ڈاکٹر عبدالمغنی اپنے مضمون "قاضی عبدالغفار بحیثیت ادیب" میں فرماتے ہیں ۔۔۔
قاضی عبدالغفار ایک صاحب علم ادیب تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں سماجی اور سیاسی مسائل سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ اس دلچسپی کا عکس ان کی ادبی تخلیقات پر نمایاں تھا۔ ادبی نقطۂ نظر سے قاضی عبدالغفار کی اہم تصانیف دو ہیں:
1) لیلیٰ کے خطوط
2) مجنوں کی ڈائری
بظاہر یہ دو مستقل بالذات کتابیں ہیں۔ پہلی کتاب مکتوب نگاری کی صنف میں ہے اور دوسری روزنامچے کی صنف میں۔ لیکن دونوں کا مواد و موضوع ایک ہی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک افسانہ ہے، جس کے دو حصے ہیں، یعنی ایک ہی ماجرا پر مشتمل ایک ناول دو جلدوں میں لکھا گیا ہے۔ ایک جلد میں لیلیٰ کے خیالات ہیں اور دوسری میں مجنوں کی کیفیات۔ یہ خیالات و کیفیات اس طرح ایک دوسرے سے وابستہ و پیوستہ ہیں کہ اگر انہیں ایک ہی کتاب میں جمع کر کے مکالمے کی شکل دی جاتی تو ایک اچھا خاصا ڈراما بن جاتا۔ بہرحال دونوں کتابوں میں درج قصے کی جان وہ انشا پردازی ہے جس کا جوہر ہیروئین اور ہیرو دونوں دکھاتے ہیں، گرچہ اس میں ہیروئین کو پلہ بھاری ہے اور اس کا کردار بھی زیادہ زوردار، کہنا چاہیے کہ مجنوں کی ڈائری ، لیلیٰ کے خطوط کی بازگشت ہے۔

کتاب "لیلیٰ کے خطوط" کے مقدمہ میں قاضی عبدالغفار لکھتے ہیں ۔۔۔
مجھ پر ظلم ہوگا اگر ان صفحات کو ناول یا افسانہ سمجھ کر پڑھا گیا، حقیقت یہ ہے کہ اس کاغذی پیرہن میں خراب آباد ہندوستان کی نسوانی زندگی کے چند نقوش پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہ اگر اس بدنصیب ملک میں کچھ لوگ ان نقوش کے معنی سمجھ سکیں تو سمجھ لیں۔ اور یہ بھی سمجھ لیں کہ جس وقت تک ہندوستان کی عورت کے ساتھ پورا انصاف نہ کیا جائے گا سیاسی آزادی اور قومی ترقی کا ادعا محض حرف غلط رہے گا۔
یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک بازاری عورت کی ظاہری اور باطنی زندگی کا یہ عکس مبالغہ سے یکسر پاک ہے، مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ حسن فروشی کے بازار میں ہندوستانی عورت کی خونچکاں فطرت کا یہ ایک "مطالعہ" ہے جو زبان اردو کی علمی دنیا اور ہندوستانیوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں چشم عبرت کا محتاج ہے۔ اس دردناک تصویر کی رنگ آمیزی اس کو جاذب نظر بنانے کے لیے ضروری تھی ؎
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

لیلیٰ کے قلم سے جو خطوط لکھوائے گئے ہیں، ان کا یہ مجموعہ نہ انشاپردازی کی مشق ہے، نہ زور قلم کا مظاہرہ ہے۔۔۔ بلکہ ان خطوط میں جو دیکھ سکتے ہوں، ان کے لیے، لیلیٰ کا تبسم ایک فوارۂ خون، اس کی بذلہ سنجی ایک فریاد اور اس کی ظرافت ایک دکھی کی پکار ہے۔ اس کی شوخیوں میں اس کے دل کا درد مستور ہے، اس کی شرارتوں میں اس کی جراحتیں پوشیدہ ہیں! لیلیٰ کی زندگی کا فلسفہ اس قدر نفرت انگیز نہیں جس قدر درد انگیز ہے۔ وہ ہنس ہنس کر اپنے ان زخموں سے کھیلتی ہے جو اس کے وجود معنوی پر ناسور بن کر رہ گئے ہیں۔
اپنی مختصر داستان میں وہ اپنی ان لاکھوں بدنصیب بہنوں کی روئداد زندگی بیان کرتی ہے جو اس ملک میں مردوں کی نفس پرستی پر قربان کی جاتی ہیں۔ لیلیٰ کی زندگی کا ہر نقش فریادی ہے !!
ان خطوط کے اجمال میں، مظلوم کی طرف سے ظالم کی جانب چند اشارے ہیں، مگر ظالم مظلوم کی تصویر دیکھنے سے ہمیشہ گھبرایا کرتا ہے اس لیے کہ اس کو اس آئینہ میں اپنی اصلی صورت نظر آیا کرتی ہے۔ پس تعجب نہیں کہ بعض حلقوں میں یہ خطوط سختی کے ساتھ ناپسند کیے جائیں۔ لیکن عورت کی دنیا میں جہاں ہندوستان کی تقریباً نصف آبادی ابھی تک پابۂ زنجیر اور مہر بہ لب ہے، مجھے امید ہے کہ ان اوراق کا بیشتر حصہ غور کے ساتھ پڑھا جائے گا۔

مجھے معلوم ہے کہ بعض حلقوں میں یہ فریاد ہمدردی کے ساتھ سنی گئی، اب ان خطوط کی یکجا اشاعت سے مقصود صرف یہ ہے کہ جو لوگ لیلیٰ کے مخاطبِ اصلی ہیں، ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے ایک قطرۂ خون نکال کر خوردبین کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ اس ایک قطرہ سے ان تمام جراثیم کا پتہ چل جائے جو ہمارے نظام زندگی کو گھن لگا رہے ہیں۔
لیلیٰ درحقیقت ہمارے جسد اجتماعی کا صرف ایک قطرۂ خون ہے جو میں ان "بزرگانِ ملت" کی خدمت میں نذر لایا ہوں، جن کا فرض تھا کہ مصلوں پر تسبیح لے کر بیٹھنے اور ممبروں پر بےمعنی اور بےنتیجہ وعظ فرمانے کے بجائے اپنی تہذیب کے اس ناسور کے لیے، جس کا ایک قطرۂ خون لیلیٰ ہے، کوئی مرہم تجویز کرتے۔ اور اپنی "لیڈری" کے پلیٹ فارم پر محض تقریریں کر کے اپنے مجرم ضمیر کو تسکین دینے کی کوشش نہ کرتے۔

- عبدالغفار
لکھنؤ۔ 4/دسمبر 1932۔


یہ بھی پڑھیے:
قاضی عبدالغفار ایک ہمہ جہت شخصیت - از: نسیمہ تراب الحسن

***
نام کتاب: لیلیٰ کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری
مصنف: قاضی عبدالغفار
تعداد صفحات: 297
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 14 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Laila Ke Khutoot Majnoon Ki Diary_Qazi Abdul Ghaffar.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

لیلیٰ کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری - از قاضی عبدالغفار :: فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1عرض ناشر (لیلیٰ کے خطوط)8
2مقدمہ9
3پہلی کتاب (خطوط - 1 تا 23)14
4دوسری کتاب (خطوط - 24 تا 29)98
5تیسری کتاب (خطوط - 30 تا 52)108
6روزنامچہ یا مجنوں کی ڈائری181
7شرح کلام185
8عرض ناشر (مجنوں کی ڈائری)193
9روزنامچہ195
10خاتمۂ کلام295

Laila ke Khutoot, Majnoo ki Diary, Book by Qazi Abdul Ghaffar, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں