نوجوانی کیا ہے؟ - از ڈاکٹر مرزا انور بیگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-09

نوجوانی کیا ہے؟ - از ڈاکٹر مرزا انور بیگ

naujawani-kya-hai

نوجوانی سے متعلق بےشمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور ان سب کتابوں میں نوجوانی کے تعلق سے جو بحث کی گئی ہے اس کا اقتباس یہ ہے کہ یہ زمانہ انسان کے لیے ایک نہایت ہی نازک اور خطرناک زمانہ ہوتا ہے اور اس زمانے ہی میں انسان کی پوری فطرت اور طبیعت بدل جاتی ہے۔ ہم بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ زمانہ انتہائی نازک ہوتا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ اس میں انسان کی طبیعت یا فطرت یکسر بدل جاتی ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ سنِ بلوغ بڑھتے ہوئے بچے کے لیے زندگی کے نئے نئے مسائل اور آزمائشیں پیدا کرتا ہے۔ بچہ یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اب وہ زندگی کو صحیح معنوں میں سمجھنے لگا ہے اور دراصل وہ دوسروں پر یہی ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ اب بچہ نہیں رہا۔
یہ فطری عمل ہے جو کہ ہر بچے میں ہوتا ہے لیکن سیانوں کا عمل اکثر غیرفطری ہوتا ہے، وہ یہ کہ بات بات پر وہ نوجوانوں کو ٹوکتے ہیں یا ان کے کام میں نقص نکالتے ہیں۔ اگر بچوں کی خامیاں نکالنے کے بجائے ان کا حوصلہ بڑھایا جائے اور ساتھ ہی ان کو یہ بھی سمجھایا جائے کہ وہ جس زمانے میں قدم رکھ رہے ہیں اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہے بلکہ یہ ایک معمولی اور فطری چیز ہے کہ وہ جوان ہو گئے ہیں تو بہت سے نوجوان غیرضروری الجھنوں سے بڑی حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔

جوانی کے زمانے میں اکثر نوجوان لڑکے لڑکیاں ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے پورے مرد یا عورت ہونے کا اعلان کر رہے ہیں اور یہ اعلانات ان کے اپنے ذہنوں میں پہلے سے موجود خاکوں کے مطابق ہی ہوتے ہیں جو کہ ان کے بچپن کو متاثر کر چکے ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر بچے کے ذہن میں جوان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اب ہر قسم کی نگرانی، پابندی، روک ٹوک اور ہر قسم کی بندشوں سے آزاد ہو چکا ہے تو یہ بچہ اپنے ہر فعل سے سیانوں کی برابری کرے گا۔ وہ اپنی ہر پابندی اور قید کی مخالفت کرے گا۔ ایسے بچے اکثر تمباکو نوشی کی عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا گالیاں بکتے ہیں اور رات گئے تک گھر سے غائب رہتے ہیں۔ بعض اپنے والدین سے غیرمتوقع طور پر مخالفت شروع کر دیتے ہیں، پھر ماں باپ پریشان ہوتے ہیں کہ یکایک ان کا فرماں بردار، سرکشی و نافرمانی پر کیسے اتر آیا؟ جب کہ اس معاملے میں بھی ماں باپ یا ہمارا معاشرہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ ہم یہاں ایسے ہی نوجوانوں کی مثال پیش کر رہے ہیں جن پر یہ الزام عائد ہے کہ وہ بالکل فلموں کے ہیرو ہو گئے ہیں۔ لیکن کیوں؟

اس طرح کا ایک نوجوان ہر بات میں ماں باپ کی نافرمانی کرتا تھا اور کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ بات بے بات پر اپنے چھوٹے بھائیوں کو مارتا تھا اور لڑکیوں کے پیچھے گھومتا تھا۔ ماں باپ اس کو ذہنی مریض تصور کرنے لگے تھے جب کہ یہ نوجوان جذباتی و سنجیدہ قسم کا لڑکا تھا اور اس میں بظاہر کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کی بنا پر اسے مریض کہا جاتا۔ البتہ قدرے وقفہ سے وہ ایک گہری سانس لیتا تھا۔ ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جبکہ انسان ہر وقت اپنے خیالوں میں کھویا رہتا ہو یا اسے کسی بات سے سخت صدمہ پہنچا ہو۔ اس کی کہانی اس طرح ہے کہ وہ ایک لڑکی کو چاہتا تھا، وہ لڑکی بھی اسے چاہتی تھی، دونوں کا مذہب و فرقہ ایک تھا، گھر والوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن لڑکی کے گھر والوں نے اپنے رواج کے مطابق استخارہ نکالا تو اس میں بدشگون نکلا۔ پھر کیا تھا، رسم و رواج کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے سیدھے سادے ماں باپ نے انکار کر دیا۔
یہ نوجوان اپنی حسرت لیے یہاں وہاں دیوانوں کی طرح بھٹکتا رہا۔ وقت نے مرہم رکھا اور کچھ دنوں بعد ایک دوسری لڑکی اس کی زندگی میں آئی لیکن یہاں اڑچن یہ تھی کہ دونوں کے فرقے مختلف تھے۔ اب آگے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ان حالات میں اس نوجوان کے رویے سے اگر اس کے ماں باپ اور معاشرے کو شکایت ہے تو اس میں غلطی کس کی ہے؟

حقیقت میں نوجوانوں کا رویہ نہیں بدلتا بلکہ ان کے دلوں میں ماں باپ اور معاشرے کی مخالفت چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک دوسرا نوجوان تھا۔ لیکن وہ بہت شرمیلا تھا۔ بات کرتے وقت نگاہیں نیچی کیے رہتا تھا اور اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آتے تھے۔ یہ جذباتی نوجوان طرح طرح کے وسوسوں میں گرفتار تھا۔ اس کے دل میں اپنے باپ کے خلاف سخت نفرت تھی۔ اس کے باپ کا ایک چھوٹا سا ورک شاپ تھا اور وہ اس میں کام کرتا تھا۔ اس کا باپ ذرا ذرا سی بات پر اسے جھڑکیاں دیا کرتا تھا۔ باپ کا خیال تھا کہ اس کا بیٹا نکما ہے اور اپنے بل پر کوئی کام نہیں کر سکتا۔ روز روز کی اس تکرار نے اس کے ذہن میں احساسِ بےبسی پیدا کر دیا اور یہ سنجیدہ نوجوان شدید قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گیا۔

اکثر ایسے ہی نوجوان جن کے باپ ان کو ہمیشہ ڈرایا دھمکایا کرتے ہیں اور جو خود کو ہمیشہ مطیع و فرمانبردار ظاہر کرتے ہیں رفتہ رفتہ سخت نفرت کرنے لگتے ہیں اور پھر بدلہ لینے کے منتظر رہتے ہیں اور جب وہ جوان اور قوی ہو جاتے ہیں تو ایک روز اپنے باپ کو لڑنے کی دعوت دیتے ہیں اور اس کی خوب پٹائی کرتے ہیں اور پھر گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

عام طور پر جوانی کے زمانے میں لڑکوں کو زیادہ آزادی اور خودمختاری دے دی جاتی ہے، لیکن اگر والدین اپنی نگرانی رکھنے کی کوشش جاری رکھتے ہیں تو نوجوان لڑکے اس نگرانی سے بچنے کے لیے اس سے زیادہ کوشش کرتے ہیں۔ یہاں والدین کا یہ رویہ فطری ہوتا ہے کیونکہ ان کی نظر میں وہ ابھی بچے ہی ہوتے ہیں لیکن نوجوان یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ معاملہ الٹا ہے یعنی کہ وہ اب بچے نہیں رہے۔ اس کشمکش کا نتیجہ اکثر و بیشتر یہی نکلتا ہے کہ نوجوان مخالفانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بچے جوانی کے زمانے کے لیے اچھی طرح تیار نہیں کیے جاتے، جب سماجی زندگی، محبت و شادی کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں اور خود کو سوسائٹی سے علیحدہ کر کے گوشۂ نشین ہو جاتے ہیں کیونکہ ہر کام کے متعلق ان کو یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہوں گے، اس لیے شادی کرنے سے گھبراتے ہیں اور عورتوں سے ملنے جلنے میں شرما جاتے ہیں۔ بعض بچے جوان ہو کر بھی بچے ہی رہنا چاہتے ہیں اور بچوں کی طرح گفتگو کرتے ہیں، اپنے سے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور اپنی حرکتوں سے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بچے ہی رہ سکتے ہیں۔ بعض بچے ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ اپنی زندگی کے مسئلوں کو حل نہیں کر پاتے تو مجرمانہ زندگی اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض اعصابی ہیجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ایسے نوجوان جو جوانی کے زمانے میں اکثر ناکام ہوتے ہیں، زیادہ تر لاڈ و پیار میں پلے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے جوانی کی ذمہ داریوں کا مقابلہ کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ بعض بچے ایسے ہوتے ہیں جو اپنی نئی آزادی سے قوت حاصل کرتے ہیں اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیقی کاوشیں ان کے کام آتی ہیں اور یہ اپنی عملی زندگی میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔

لڑکوں کی طرح لڑکیاں بھی اپنی تعریف سننا چاہتی ہیں بلکہ لڑکیوں میں یہ جذبہ لڑکوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ لڑکیاں اپنے آپ پر کافی اعتماد نہیں رکھتیں لہذا جب تک ان کی تعریف نہ کی جائے یا حوصلہ نہ بڑھایا جائے وہ کچھ کر ہی نہیں سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیاں اکثر ایسے لوگوں کا شکار ہو جاتی ہیں جو خوشامد کرنا خوب جانتے ہیں۔ ایسی لڑکیاں جن کی گھر میں قدر افزائی نہیں کی گئی ان میں سے اکثر نے باہر جنسی تعلقات قائم کر لیے محض اس لیے کہ انہوں نے ایک ایسا موقف پیدا کر لیا جہاں ان کی قدر شناسی ہوئی اور وہ توجہ کا مرکز بنیں۔ بعض لڑکیاں اکثر لڑتی جھگڑتی رہتی ہیں اور ہمیشہ یہی سمجھتی رہتی ہیں کہ ان کو بےجا طور پر روکا جا رہا ہے، اس لیے احتجاجاً کسی مرد سے جنسی تعلقات قائم کر لیتی ہیں۔

بعض لڑکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو کہ اپنی جنس کو پسند نہیں کرتیں اور مردانہ دعوے کرنے لگتی ہیں۔ وہ مردوں کو ناپسند کرتی ہیں اور ان کو اپنے سے کمتر سمجھتی ہیں۔ ان سے ملنے سے کتراتی ہیں، ان کی محفلوں میں شریک ہونا نہیں چاہتیں۔ اپنی سہیلیوں کے شوہروں میں عیب نکالتی ہیں۔ ایسی عورتیں خود اپنی شادی کے لیے بھی کسی طرح کا جذباتی اظہار نہیں کرتیں۔ بعض اوقات ایسی عورتوں کی اپنی جنس سے نفرت ان کو تباہی کے راستے پر لے جاتی ہے کیونکہ ان میں سے اکثر لڑکوں کی تقلید کرنا چاہتی ہیں۔ تمباکو نوشی کرتی ہیں، شراب پینا اور گالیاں بکنا اختیار کر لیتی ہیں۔ آوارہ لڑکوں کے ساتھ دوستی کر لیتی ہیں اور جنسی آزادی کا بےباکی کے ساتھ مظاہرہ شروع کر دیتی ہیں۔

اس طرح لڑکے اور لڑکیاں دونوں مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ خصوصاً جب وہ اپنی جنس کے فرائض اور ذمہ داریوں سے پورے طور پر واقف نہ ہوں۔ بچوں کے لیے غیرضروری اور نامناسب جنسی معلومات پہنچانا بھی ان کے لیے محرک ثابت ہوتا ہے۔ اکثر والدین بچوں کو بہت چاہتے ہیں اور بچے بھی انہیں چاہتے ہیں۔ ماں باپ محبت میں اضافہ کرنے کی خاطر بچوں کو لپٹا کر یا گلے لگا کر پیار کرتے ہیں۔ یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ اس سے جوان ہوئے یا ہونے والے بچوں میں جذباتی ہیجان کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور یہی سب فحش تصاویر یا فلمیں دیکھنے سے بھی ہوتا ہے۔

اگر بچوں کو اس قسم کی تربیت دی جائے کہ وہ محسوس کر سکیں کہ وہ سوسائٹی کے اہم رکن ہیں اور سماج کی خدمت کرنا ان کا فرض ہے اور یہ کہ دوسری جنس والے ان کے برابر والے اور ساتھی ہیں تو ایسے بچے جوان ہو کر جوانی کے زمانے کے تمام مسائل اپنی تخلیقی قوتوں کو کام میں لاتے ہوئے خود ہی حل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ جوانی کے متعلق غلط تاثرات لیے ہوئے ہیں تو ان بچوں کو گمراہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

ماخوذ از کتاب:
نفس امارہ (اشاعت سوم: ستمبر-1988 ، ناشر: شاہدہ بیگ، باندرہ، بمبئی)۔
مصنف : ڈاکٹر مرزا انور بیگ

Naujawani kya hai? Article: Dr. Mirza Anwar Baig.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں