بگولے - افسانے از شموئل احمد - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-04

بگولے - افسانے از شموئل احمد - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

Bagole_Shamoil-Ahmad

شموئل احمد (پیدائش: 4/مئی 1943 ، بھاگل پور، بہار)
ہمارے عہد کے نامور افسانہ/ناول نگار ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے سول انجینئر اور حکومت بہار کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ سے بحیثیت چیف انجینئر 2003 میں ریٹائر ہوئے۔ شموئل بےباک لہجے اور منفرد اسلوب کے تخلیق کار ہیں جو زندگی کے عمرانی رویوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں جنس موضوع نہیں وسیلہ ہے جسے انہوں نے اپنے افسانوں میں تخلیقی سطح پر بہت عمدگی سے برتا ہے۔
شموئل احمد کے افسانوں کا پہلا مجموعہ "بگولے" 1988 میں پٹنہ سے شائع ہوا تھا۔ 14 افسانوں پر مشتمل یہی مجموعہ تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

منفرد اسلوب، تیکھے لب و لہجے اور موضوعات کی رنگا رنگی کی وجہ سے شموئل احمد نے ہم عصروں میں اپنی پہچان الگ بنائی ہے۔ ان کے پیرایۂ اظہار میں دل موہ لینے والی تازگی اور کشش ہے۔ ان کے یہاں علامت نگاری بطور فیشن نظر نہیں آتی بلکہ ہر کہانی موضوع اور مواد کے اعتبار سے اپنے فطری اسلوب میں اس طرح ڈھلی ہوتی ہے کہ علامتی مفہوم ازخود واضح اور روشن نظر آتے ہیں۔
جنس کی نفسیات پر شموئل احمد کی نظر گہری ہے لیکن ان کی کہانیاں عصری مسائل سے بھی آنکھیں نہیں چراتیں۔
بےبسی اور شکستگی فرد اور سماج کی نوعیت اور سیاسی جبر و استحصال کو جس فنی مہارت سے انہوں نے کہانی کے سانچے میں ڈھالا وہ ان ہی کا حصہ ہے۔
بگولے، آدمی اور مین سوئچ، آخری سیڑھی کا مسافر، قصبہ کا المیہ، مرگھٹ اور عکس عکس سیریز کی کہانیوں سے گزرنے کا مطلب ہے اردو افسانے کی نئی جہت اور گہرے معنیاتی امکانات سے دوچار ہونا۔

محمد غالب نشتر، شموئل احمد کے ایک افسانوی مجموعہ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ۔۔۔
شموئل احمد کی کئی کہانیاں ہند و پاک کے مختلف انتھالوجیز میں شامل ہوتی رہی ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن کے حوالے سے کئی رسالوں کے خصوصی نمبر قابل ذکر ہیں۔ چہار سو (راولپنڈی) ، نیا ورق (ممبئی) اور مژگاں (کلکتہ) اس سلسلے میں اہم ہیں۔ اردو کے علاوہ ہندی میں بھی شموئل احمد مقبول رہے ہیں۔ ہندی کے رسالے 'سمبودھن' نے بھی اُن پر خصوصی گوشہ شائع کیا۔ اُن کے فن کے حوالے سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر درجنوں تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں جن میں ایک تحقیقی مقالہ ہندی میں بھی قابل ذکر ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود شموئل احمد کو دوحہ قطر کے (عالمی اردو ایوارڈ) کے علاوہ سہیل عظیم آبادی فکشن ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا جا چکا ہے۔
شموئل احمد کا تعلق اردو افسانہ نگاری کے اس عہد سے ہے جب جدیدیت کا رجحان طلوع ہو رہا تھا اور اپنی شعاعیں اردو دنیا پرمسلّط کرنے کے درپے تھا۔ یہ وہی عہد ہے جب علامت و تجرید کو بہ طورِ فیشن برتا جا رہا تھا اور قاری کا رشتہ افسانے سے ٹوٹ رہا تھا۔ شموئل احمد نے ایسے ہی عہد میں افسانہ نویسی کی ابتدا کی۔ ان کی دور اندیشی کہیے یا مصلحت پسندی، انھوں نے کسی تحریک یا رجحان کا تتبع نہیں کیا بل کہ اپنی راہ خود نکالی۔ اس سے ان کو کتنا فائدہ یا نقصان ہوا، یہ الگ مسئلہ اور ادب کے الگ باب کا متقاضی ہے۔
شموئل احمد کی پچاس سالہ افسانوی زندگی کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے افسانوی موضوعات کسی ایک نہج پر مرکوز نہیں ہوتے بل کہ دنیا جہان کے مسائل، سیاسی وسماجی حالات اور اسی طرح کے دوسرے مسائل کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ ان کے پچاس سالہ افسانوی سفر میں کئی اہم موڑ آئے اور اسالیب و موضوعات کی سطح پر بھی تبدیلیاں واقع ہوئیں لہٰذا شموئل احمد نے اپنے عہد میں نمو پانے والے اکثر موضوعات کو افسانے کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اگر اُن کے اسلوب کی بات کی جائے تو اُن کے تہہ دار بیانیے کا قائل ہر قاری و ناقد ہے البتہ انھوں نے چند علامتی افسانے بھی لکھے ہیں لیکن کہانی کے جوہر کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔ نیم علامتی کہانیوں کی فہرست میں آخری سیڑھی کا مسافر، عکس سیریز کی کہانیاں، سبز رنگوں والا پیغمبر کو رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح موضوعات کی بات کریں تو سیاسی و معاشرتی تشدد کے ذیل میں باگمتی جب ہنستی ہے، سنگھار دان، آنگن کا پیڑ، بدلتے رنگ، چھگمانس، گھر واپسی، سراب اور عدم گناہ کو رکھ سکتے ہیں۔ علم نجوم سے شموئل احمد کو خاص مناسبت ہے۔ اس ’’ہنر‘‘ نے انھیں ایک خاص عزت و شرف سے نوازا ہے۔ اردو کے کم ہی فکشن نگار ہوں گے جنھیں علم نجوم سے مناسبتِ خاص ہو۔ جنھیں مناسبت ہے بھی، وہ اپنی تحریروں میں اس فن کو بروئے کار لانے سے گریز کرتے ہیں۔ شموئل احمد نے ’نجوم‘ کا فائدہ اٹھا کر اپنے متن کو بامعنی اور جاندار بنایا ہے۔ چھگمانس، القمبوس کی گردن، مصری کی ڈلی اورنملوس کا گناہ وغیرہ افسانوں میں اس علم کی واضح صورتیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ناول ’’ندی‘‘ اور ’’گرداب‘‘ میں بھی کہیں کہیں اس فن کے نمونے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
جنس، انسانی زندگی کا ایک ایسا باب ہے جسے کسی بھی طور پر فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کے تقریباً ہر بڑے فکشن نگار نے جنس کو موضوع بنا کر فن پارہ تخلیق کیا ہے۔ منٹو، ممتاز مفتی، محمد حسن عسکری سے لے کر شموئل احمد، انیس رفیع، علی امام نقوی، اسرار گاندھی،م ناگ، احمد رشید، شاہد اختر، شبیر احمد، صغیر رحمانی اور اشتیاق سعید تک ایسے کئی اہم لکھنے والوں کی فہرست ہے جن کے فن پارے کو جنس زدہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شموئل احمد کا نام اس بھیڑ میں اپنی الگ ہی شناخت رکھتا ہے۔ ان کے فن پارے پر جنسیت کا الزام لگا، حضرت ناصح نے ایسے نازیبا حرکات سے باز رہنے کی تاکید کی لیکن بہ قول فیض ’’ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب۔۔ ۔ وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے‘‘ کے مصداق انھوں نے بھی اس سے کنارہ کشی تو نہ کی بلکہ ان کے فن پارے میں اس سے مزید نکھار آ گیا۔ بگولے، مصری کی ڈلی، منرل واٹر، عنکبوت، ظہار، اونٹ، عکس۔ ۳، بدلتے رنگ، کایا کلپ، جھاگ جیسی کہانیوں کو محض جنسیت کا الزام لگا کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیے:
کوچۂ قاتل کی طرف - شموئل احمد کے افسانوں کا نیا انتخاب (ورڈ فائل + کنڈل فائل)
اکیسویں صدی کے ہندوستانی اردو ناول نگار ۔ وہاٹس ایپ مذاکرہ
گرداب - شموئل احمد کا ایک ناول (ورڈ فائل + کنڈل فائل)

***
نام کتاب: بگولے (افسانے)
مصنف: شموئل احمد
تعداد صفحات: 139
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Bagole - Short stories by Shamoil Ahmad.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

بگولے - افسانے از شموئل احمد :: فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1قصبہ کا المیہ9
2قصبہ کی دوسری کہانی19
3مرگھٹ29
4باگمتی جب ہنستی ہے37
5سبز رنگوں والا پیغمبر47
6آخری سیڑھی کا مسافر55
7ٹوٹی دشاؤں کا آدمی63
8وہ71
9عکس عکس79
10ایک عکس اور87
11عکس تین95
12عکس چار105
13آدمی اور مین سوئچ115
14بگولے127

Bagole, urdu short stories by Shamoil Ahmad, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں