جدت پسند شاعر اور ہنر مند نثر نگار - ڈاکٹر رؤف خیر سے عالمِ شر میں ایک مصاحبہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-03

جدت پسند شاعر اور ہنر مند نثر نگار - ڈاکٹر رؤف خیر سے عالمِ شر میں ایک مصاحبہ

dr-rauf-khair-interview

ڈاکٹر رؤف خیر (پ: 1948) جدت پسند شاعر اور ہنر مند نثر نگار ہیں۔ اصنافِ شاعری میں انھوں نے نئے تجربے کیے جس سے اُن کی انفرادیت قائم ہوئی۔ زبان وبیان سے بے جا کھلواڑ سے بچتے ہوئے روزمرہ کی زبان میں دل میں اُتر جانے والے شعر کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں۔ ان کی غزل لطیف قسم کی کاٹ سے عبارت ہے۔ طنز کے سبب قاری کو فوراً اپیل کرتی ہے۔ رؤف خیر کے ہاں غزل میں فطری اور سچا اظہار ہوتاہے۔ یہی بات اُن کے تخلیقی جہت کی کامیابی ہے۔ (غ۔ا)

غضنفر اقبال:
غزل کی تعریف کیا ہوگی؟
رؤف خیر:
زندگی سے وابستہ ہر پہلو کو غزل کے اُصول وضوابط کا لحاظ رکھتے ہوئے فنی رچاؤ کے ساتھ بیان کرنے کا نام غزل ہے۔ اب غزل محض محبوب سے یا محبوب کی باتیں کرنے سے عبارت نہیں رہ گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ بھی غزل کا ایک ناگزیر پہلوہے۔ میں فنی رچاؤپر زور دیتاہوں۔ انگریزی Funny نہیں۔ ورنہ تجرباتی قسم کی'شب خونی' شاعری تو ادبی خونی بواسیر کی طرح ٹپکنے لگتی ہے۔ جو ادب کے نام پر دھبّا ہے۔ قطرہئ منی ٹپکانے کے فطری تقاضے کو حسین پیرائے میں فانی بدایونی نے انتہائی سلیقے سے فنی رچاؤ کے ساتھ بیان کیاہے؛
گرا کے قطرۂ شبنم گلوں کے دامن پر
تجلیات کے دریا بہا دیے ہم نے

غضنفر اقبال:
آپ کن شعرا سے متاثر ہیں؟
رؤف خیر:
میر، غالب اور اقبال نے اپنے فکروفن پرخاص طورپر توجہ دی تو شاہ کار تخلیقات ادب کو دیں۔ میر کا اژدرنامہ، غالب کی چکنی ڈلی یا اقبال کی نظم "۔۔۔۔۔۔کی گو دمیں بلی دیکھ کر" تفنن طبع کے طورپر کہی ہوئی تخلیقات ہیں۔ میں میر و غالب واقبال کا قدردان ہوں۔ متاثر ہونے والا ان کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش میں "وہ جو شاعری کا سبب ہوا"جیسا شاعر ہو کر رہ جاتاہے جس کی شاعری میں خواہ مخواہ میر سے مماثلت تلاش کرنے والے سعی ناکام کرتے ہیں۔ چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک۔۔۔۔غالب سے متاثر ہونے والے یاس یگانہ پر اتنے منفی اثرات مرتب ہوئے کہ وہ غالب شکن ہی ہوگئے۔ علامہ اقبال کی پیروی میں کچھ پُر جوش ؔ سیمابیؔ ہستیاں اپنے طورپر ادب کے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچ گئیں کچھ ہستیاں شاعر آخرالزماں کہلانے لگیں۔ حاصل سوائے لاحاصل کے کچھ نہ ہوا۔ اس لیے عربی کہاوت ہے:
"خُذ ما صَفا وَدَع مَا کَدر(اچھی چیز لے لے بری چھوڑدے)
اس میں اپنی بھی عزت ہے۔ بل میں بل اپنا بل۔ اس لیے میں میر وغالب واقبال کے علاوہ یگانہ چنگیزی، خورشید احمد جامی، پروین شاکر کو پسند کرتا ہوں مگر متاثر نہیں ہوں۔

غضنفر اقبال:
کیا شاعری زندگی کی ترجمان ہے؟
رؤف خیر:
یقیناً ترجمان ہے ورنہ شاعری کا جواز ہی کیا رہ جاتاہے۔ اوریہ شاعری خود اپنی زندگی، اپنے عزیز واقارب، اپنے سماج کی زندگی کی ترجمان ہونی چاہیے جن سماجی وسیاسی حالات سے شاعر گزرتاہے ا ن کا اظہار ہی تو ادب ہے۔ اپنے طورپر جو کچھ وہ محسوس کرتاہے اسے ایسی ادبی زبان دینا کہ گویا وہ ہر شخص کے جذبات کی ترجمانی لگے۔ یہی تو کمال ہے۔ بہ قول غالب؛
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

غضنفر اقبال:
جدید غزل کی پہچان کیاہے؟
رؤف خیر:
ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ہر دور کا اپنا محاورہ ہوتا ہے۔ اپنے دور کے حالات ومشاہدات کو اپنے دور کے محاورے میں پیش کرنا ہی جدید غزل کی پہچان ہے۔ مثلاً میرے شعر ہیں؛
میں اپنا فون کبھی بند ہی نہیں رکھتا
نہ جانے کب اُسے توفیقِ گفتگو ہو جائے
سنا ہے آپ وہاں بھی قیام کرتے ہیں
جہاں کبھی کوئی نیٹ ورک ہی نہیں لگتا
ہردور کے اپنی لفظیات ہوتی ہیں جو اس دور کے قارئین وسامعین کی سمجھ میں بھی آتی ہیں اگر آپ آج انیس ودبیر، غالب واقبال کے لہجے میں بات کریں گے تو سننے والوں کے سروں پر سے گزر جائے گی۔ کلام کی شرح کرنی پڑے گی۔ اس لیے میں نے صاف صاف کہا ہے؛
میں کسی مملکتِ شعر کا والی تو نہیں
میں نہ غالب سہی منت کشِ حالی تو نہیں
غالب کے شعر خود اس کے دور میں سمجھے نہ جاسکے تو ان کے شاگرد خواجہ الطاف حسین حالی کو بعض اشعار کی شرح کر کے سمجھانا پڑا کہ غالب کا مطلب کیاہے۔ غالب کو غالب بنانے میں حالی کا ہاتھ ہے۔

غضنفر اقبال:
نئی اصنافِ شعر کا مستقبل؟
رؤف خیر:
ہردور کے اپنے تقاضوں کے مطابق ادب مروجہ اصناف میں لکھا جاتا رہاہے۔ کسی زمانے میں مثنویوں کا دورتھا تو'قطب مشتری'، 'پھول بن'، سحرالبیان'، 'گلزارِ نسیم'، 'زہرِ عشق'، 'اژدرنامہ'وغیرہ وغیرہ جیسی مثنویاں لکھی گئیں۔ مسدس کے فارم میں بے شمار مرثیے لکھے گئے۔ یہان تک کہ خواجہ الطاف حسین حالی نے 'مدوجزرِ اسلام'اور اقبال نے 'شکوہ، جوابِ شکوہ' جیسے شاہ کار ادب کو دیے۔ مسدس، مخمس، رباعیات وقطعات کے زمانے لد گئے، اب اگر کوئی ان اصناف میں سرگرداں ہے تو دراصل وہ یہ دکھانا چاہتاہے کہ وہ روایت کی پاس داری کا بوتا بھی رکھتاہے۔
اب شاعری چودہ مصرعوں کے سانیٹ، آٹھ مصرعوں کے رائیلے، سے ہوتی ہوئی تین تین مصرعوں کی 'ثلاثی'، ماہئیے، ہائیکو تک آگئی ہے۔ ادب میں تجربات ہونے چاہئیں بشرطیکہ ان میں کچھ نئی بات بھی کہی جائے۔ دو دو مصرعوں کے دو ہے کا بھی احیا کیا گیا مگر معاف کرنا دوہے کے تعلق سے میری دوٹوک رائے ہے کہ اُردو کو ہندیانے کی سازش ہے۔ اچھا بھلا مسلمان بھی دوہے کے حوالے سے رام رحیم، بھگوان رحمن کو شعور ی یا غیر شعوری طورپر ایک سمجھنے لگتاہے۔
اس مرحلے پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک نئی صنفِ سخن "یک مصرعی نظم"کی بنیاد ڈالی ہے۔ یعنی صرف ایک ہی مصرعے میں ایک نظم۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بیشتر شاعروں کے صرف ایک ایک ہی مصرعے ضرب المثل کی طرح عوام وخواص کی زبانوں پر ہوتے ہیں۔ میں نے ایک تجربہ کیا کہ صرف ایک ہی مصرعے میں ایک خیال کو نظم کاروپ دے دیا۔ جیسے:

سفارش:ہر سند سے بڑی سفارش ہے
ATMکا چوکیدار: بیٹھا ہوا ہے پیاسا کنویں کے منڈیر پر
سرکاری مسلمان:دفتر کی کنجیوں میں قلم رکھ کے آگئے
بہتات:خوش بو کے اضافے سے بھی دم گھٹتاہے
ہم سفر:مزہ سفر کا تو بس ہم سفر سے آتا ہے
مسلمان بیوی:نصف بہتر تین پتھر کے مثلث پر ٹکی ہے

ایسی بے شمار یک مصرعی نظمیں میرے شعری مجموعوں میں بھری پڑی ہیں۔ رسائل و جرائد میں یہ شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس صنف کا میں ہی موجد اور میں ہی خاتم ہوں۔ افسوس اس بات کا ہوتاہے کہ ادبی حلقوں میں اس کی ویسی پذیرائی نہیں ہوئی جیسی کہ ہونی چاہیے۔ اصل میں ہمارے ادب میں تنگ نظری اور علاقائی عصبیت بہت ہے۔
دیگر نئی اصناف کے ساتھ میری ایجاد کردہ صنف یک مصرعی نظم کا مستقبل بھی تاب ناک ہے۔ کیوں کہ قاری کے پاس موٹی موٹی ناولیں، لمبے چوڑے افسانے یا طویل ترین مثنویاں اور مسدس پڑھنے کی فرصت و فراغت نہیں ہے۔ کم سے کم وقت میں کم سے کم الفاظ میں مافی الضمیر اگر پہنچ رہاہو تو اس کی پذیرائی تو ہونی چاہیے۔ جہاں تک میری یک مصرعی نظم کا تعلق ہے؛
مضمونِ او بہ مصرع برجستۂ تمام
منت پذیر مصرع دیگر نمی شود
خود اس شعر میں بات پہلے مصرعے میں پوری ہوگئی ہے۔ اورنگ آباد کے قمر اقبال کی ثلاثیاں جن کوانھوں نے تثلیثات کا نام دیاتھا خوب ہیں مگر ان کوبھی بھلا دیاگیا۔ حمایت علی شاعر میڈیا کے شاعر تھے پبلسٹی کے ہنرسے واقف تھے ثلاثی کے حوالے سے مشہور ہوگئے۔ ماہئیے کی ترویج اشاعت میں جرمنی کے حیدرقریشی نے سردھڑکی بازی لگا دی۔ ہائیکو کو اُردو میں روشناس کروانے میں محسن بھوپالی نے اہم رول ادا کیا۔ بہرحالی یہ نئی اصناف اُردو میں خوب برتی گئیں مگر سہل انگاری اور تساہل کی وجہ سے ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ایک نئی صنف نثری نظم کے نام سے بھی اُردو میں درآئی۔ معاف کرنا میرا خیال ہے صنف یا تو نثر ہو یا نظم۔ مگر نثری نظم سجاد حیدر یلدرم، سلطان حیدر جوش، سجاد ظہیر، نیاز فتح پوری، عظمت اللہ وغیرہ نے ادبِ لطیف کے طورپر لکھی ضرور مگر اُردو ادب میں یہ بار نہیں پاسکی۔ اس کا مستقبل بھی تاریک ہے۔ میرے خیال میں مصرعے میں غنائیت ہوتی ہے جو نثری آہنگ پر بہ ہر حال حاوی ہوتی ہے۔

غضنفر اقبال:
آپ کی شعری کتاب 'اقرا' پر صاحبِ اسلوب ادیب، ڈاکٹرظ۔ انصاری مرحوم نے لکھاتھا۔ اس وقت آپ کا کیا احساس تھا؟
رؤف خیر:
آپ نے بڑا اچھا سوال کیا۔ میرا پہلا شعری مجموعہ 'اقرا'1977ء میں شائع ہواتھااور 30/ستمبر 1978کے ہفت وار بلٹز بمبئی میں خدا لگتی کے عنوان کے تحت ڈاکٹرظ۔ انصاری نے بڑا تعریفی تبصرہ کیا تھا۔ ان کا پہلا ہی جملہ میرے لیے سند کا درجہ رکھتاہے:
"حیدرآباد کے رؤف خیر کا شعری مجموعہ کھولا تو ایسا معلوم ہوا کہ گیلی لکڑیوں کی ٹال پر جو ایندھن تُلوایا تھا اس میں صندل کی ٹہنی بھی چلی آئی ہے، مہکتی ہوئی۔ "
جس دن بلٹز حیدرآباد پہنچا اس تبصرے کی دھوم مچ گئی بلکہ پورے ہندوپاک میں جہاں جہاں بلٹز پہنچا وہاں وہاں اربابِ نظر نے داد دی ہوگی۔ میں بھی بہت خوش ہوا۔ یقین جانیے مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ ڈاکٹرظ۔ انصاری کس قدآور شخصیت کا نام ہے۔ میں زندگی میں کبھی ان سے نہ مل سکا۔ بعد میں جان سکا کہ ان کا اسلوب کس قدر دل نشیں ہوتاہے اور بعضوں کے لیے جان لیوا بھی ہوتاہے(جو ان کی زدمیں آجاتے ہیں۔)
اس تبصرے کے تعلق سے ایک تلخ باد بھی وابستہ ہے۔ حیدرآباد میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے حامد مجاز۔ انھوں نے جب یہ تبصرہ پڑھا تو پیپر منٹ قریش کی گولیاں (میٹھی گولیاں) جو ایک آدھ آنے میں چار چھے مل جاتی تھیں، منگوائیں اور مجھے کھلائیں۔ اور دیگر موجود احباب کو بھی کھلائیں۔ بعد میں مجھے رحمت یوسف زئی نے بتایا کہ حامد مجاز کا طنز دراصل مجھ پر یوں تھا کہ میاں تمھاری عمر پیپر منٹ (گولیاں) کھانے کی ہے۔ ایسے بڑے قدآور نقاد کے ایسے قابلِ تعریف تبصرے کے ابھی تم مستحق نہیں۔ لو گولیاں کھاؤ۔ اس طرح حامد مجاز نے اپنی ذہنیت کا اظہار کیا۔ ایسی ذہنیت آج بھی کارفرما ہے۔
پاکستان کا مشہور ماہ نامہ "الحمرا" لاہور تقریباً ساٹھ سال سے نکل رہا ہے اس کے سال نامے 2019 میں "گوشۂ ڈاکٹر رؤف خیر" نکلا۔ اس کے مدیر شاہد علی خاں صاحب نے مجھ سے میری تصاویر منگوائی ضرور تھیں مگر رسالہ آنے تک مجھے خبر ہی نہیں تھی کہ وہ میرا گوشہ نکال رہے ہیں۔ میرے تین مضامین اور تین غزلیں اور مجھ پر ایک مضمون شائع کیا گیا تھا۔ یہ سال نامہ الحمرا حیدرآباد میں بعض احباب کو میں نے دکھایا مگر کوئی اچھا تاثر ردعمل میں نہیں آیا۔ ایسی بے حسی کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔

غضنفر اقبال:
اُردو کے نامور شعرا شاہ نصیر، امیر مینائی، داغ دہلوی اور فانی بدایونی آپ کے وطنِ مالوف حیدرآباد دکن میں آسودۂ خاک ہیں۔ مذکورہ شعرا کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
رؤف خیر:
شاہ نصیر کو زبان وبیان پر خاصی دسترس تھی۔ وہ مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہا کرتے تھے۔ ابراہیم ذوق کے استادتھے۔ کسی معاملے میں دونوں میں نا چاقی ہوگئی تھی تو دونوں ایک دوسرے کی ہجو لکھتے رہے۔ دونوں کے معرکے "نقوش"میں پڑھے جاسکتے ہیں۔ شاگرد ناخلف سہی مگر یہ کیسے استاد ہیں جو شاگرد کی ہجو کررہے ہیں!عاق کردیتے۔۔۔۔۔!اوریہ کیساشاگرد ہے جو استاد کے منہ آ رہا ہے۔ امیر مینائی اور داغ دونوں شاعروں کی بیشتر شاعری نچلے دھڑکی شاعری ہے۔ داغ کی مجبوری تھی کہ وہ کوٹھوں کے حوالے سے جانا جاتاہے۔ امیر مینائی نے البتہ نثر میں کارنامے انجام دیے ہیں۔ مگر ان کارناموں پر ایسے شعر پانی پھیرتے ہیں؛
رخسار نازک ہوں تو ہوں آج ایک مانوں گا نہ میں
دو بو سے لوں گا جانِ من اک اِس طرف اک اُس طرف
موصوف کو بوسہ لینے کا سلیقہ بھی نہیں ہے۔ کسی خوش ذوق شاعر نے کیا خوب کہا ہے؛
عارض و لب کے لیے ابرو کے شانے کے لیے
چار ہی بوسے لیے لیکن ٹھکانے کے لیے
اپنے اپنے ذوق کے مطابق مقامات بدلے بھی جاسکتے ہیں مگر چار بر حق ہیں۔
فانی بدایونی کی ساری تک ودو موت کے اطراف ہے۔ انھوں نے زندگی کا منفی پہلو اختیار کیاہے۔ ان کو دکھ ہے کہ ان کا گلاس آدھا خالی کیوں ہے۔ بلکہ ان کا گلاس تو پورا خالی دکھائی دیتاہے۔ یہی کہتے کہتے چپ ہوگئے؛
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
معاف کرنا یہ چاروں شاعر یک طرفہ زندگی گزار کر مرگئے۔ ان کے شعر عبرت حاصل کرنے کے کام آتے ہیں۔

غضنفر اقبال:
ڈاکٹر شیخ محمد اقبال پر آپ نے کتاب"اقبال بہ چشم خیر"تحریر کی ہے۔ میرا احساس ہے کہ اقبال ہر صدی کا شاعر ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
رؤف خیر:
میں آپ سے بڑی حد تک متفق ہوں۔ علامہ اقبال کے موضوعات میں تنوع ہے اُردو ادب کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے شاعر ہونے کی وجہ سے مشرق ومغرب کے اہم فلسفے ان کی نظرمیں ہیں۔ وہ اسلامی شاعر بھی شمار ہوتے ہیں۔ خودی کا فلسفہ اُردو ادب کو دیا۔ اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی کے حوالے سے انفرادی حیثیت اور قومی وملی تشخص کی اہمیت دکھائی۔ اُردو اور فارسی ادب میں جو سرمایہ اقبال نے چھوڑاہے اتنا اور ایسا سرمایہ کسی اور سے نہیں ملتا ہے۔ اقبال کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مصلحت اور مصالحت سے کام لیتے تھے کسی کو ناراض نہیں کرتے تھے۔ اقبال کے تعلق سے میرا ایک شعر ہے؛
بدعتی اور خبیث بھی خوش تھے
اُن سے اہلِ حدیث بھی خوش تھے
ایسا شاعر جو سب کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل کرتاہو وہ زیادہ دن زندہ رہتاہے۔ چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں ساری دنیا میں اقبال کے چرچے ہیں البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اگلی صدی میں بھی اقبال کی یہ مقبولیت برقرار رہے گی۔ قوم وملت سے متعلق جو خیالات اقبال کے ہیں وہ تو ہردور میں قابلِ داد رہیں گے لیکن، بیشتر موضوعات ازکاررفتہ بھی ہوچکے ہیں۔ اقبال کی زبان سمجھنے والے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ اقبال کی دو تہائی شاعری فارسی میں ہے اور فارسی زبان ہندوستان میں مرچکی ہے۔ ایرانی اقبال کو لاہوری کہتے ہیں۔ سبک ہندی کا شاعر کہہ کر چشم کم سے دیکھتے ہیں۔ اُردو میں بھی اقبال جو کچھ کہتے ہیں وہ بھی فارسی جانے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔ ایسی اُردو اب بولی جاتی ہے نہ سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے جب زبان ہی کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو اقبال کو ہر صدی کا شاعر سمجھ لینا خوش گمانی ہے۔

غضنفر اقبال:
حیدرآباد دکن کے کون سے سخنور قومی منظر نامے میں دکھائی دیتے ہیں؟
رؤف خیر:
آپ نے ادبی منظر نامے کی جگہ قومی منظر نامے کا سوال اُٹھایا ہے تو گوایااس میں مذہب شامل ہوگیاہے۔ کیوں کہ قوم کا تشخص مذہب سے ہوتاہے۔ اس لحاظ سے امجد حیدرآبادی کا نام لیا جاسکتاہے۔ قوم کے لیے ان کی ایک رباعی تو سدا بہار پیغام کا درجہ رکھتی ہے؛
ہر چیز مسببِ سبب سے مانگو
منت سے خوشامد سے ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو
بندے ہو اگر رب کے تو رب سے مانگو
سوال یہ ہے کہ کیا قوم امجد حیدرآبادی کے اس پیغام پر عمل پیرا ہے؟ ویسے دوسری ہی سانس میں امجد وحدت الوجود کا راگ بھی الاپتے دکھائی دیتے ہیں، ممکن نہیں دو وجود تو بھی میں بھی۔
قومی منظر نامے پر فی الحال امجد حیدرآبادی کے علاوہ اور کوئی سجھائی نہیں دے رہاہے۔

غضنفر اقبال:
عزیز احمد کے فن کے امتیازات کیا ہیں؟
رؤف خیر:
اُردو ادب میں دو شخصیتیں بے مثال گزری ہیں جو بے انتہائی پڑھی لکھی تھیں۔ شاعری میں علامہ اقبال اور نثر میں عزیز احمد۔ سب سے پہلی فضلیت یہ کہ عزیز احمد کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اُردو، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، اطالوی وغیرہ۔ دانتے کی مشہور زمانہ کتاب "THE DIVINE COMEDY" کا ترجمہ "طربیۂ خداوندی" کے نام سے راست اطالوی زبان سے اُردو میں کیا۔ مقالاتِ گارساں دتاسی کا ترجمہ فرانسیسی زبان سے راست اُردو میں کیا(اس میں شک نہیں ڈاکٹر یوسف حسین خان اور اختر حسین رائے پوری کا اشتراک بھی تھا) البتہ بغیر کسی اشتراک کے راست فرانسیسی زبان سے بعض افسانے اُردو میں ترجمہ کیے۔ کئی معرکہ آرا ناول لکھے جیسے 'ایسی بلندی ایسی پستی'، 'آگ'، 'گریز'، 'شبنم' وغیرہ کئی لاجواب افسانے لکھے جن کے مجموعے ہیں 'رقص ناتمام'، 'بے کار دن بے کار راتیں'، 'مدن سینا صدیاں'وغیرہ۔
طویل شاہ کار نظمیں لکھیں جسے ماہ لقا، عمر خیام، فردوس برروئے زمیں، ولیم شیکسپئر کی نظموں اور ڈراموں کے تراجم کیے۔ ورڈزورتھ، براؤننگ، شیلے کی چند نظموں کے تراجم کیے۔ ٹی ایس ایلیٹ کی The Waste Landکا ترجمہ"خراب آباد"کے نام سے کیا۔ ہیرالڈ لیمب کا چنگیز خان اور تاتاریوں کی یلغار کے نام سے ترجمہ کیا۔ اِبسن کے ڈرامے کا معمار اعظم کے عنوان سے ترجمہ کیا۔ اسلامی تاریخ:ہندوپاک کے تمدن کے حوالے سے کئی کتابیں انگریزی میں لکھیں جن کا ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کیا۔ کہاں تک ان کے امتیازات گناؤں۔ میں نے ان کے فکر و فن پر پی ایچ ڈی مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی سے کر رکھی ہے۔

غضنفر اقبال:
اُردو شاعری کیا اُردوزبان کو زندہ رکھنے میں معاون ثابت ہوگی؟
رؤف خیر:
جس طرح کی شاعری ان دنوں مشاعروں میں سنائی دے رہی ہے اوررسائل وجرائد میں پڑھنے کو ملتی ہے اس سے یہ توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ اُردو زبان کو زندہ رکھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ اُردو زبان کی چاشنی چیزے دیگر ہے۔ اس کی پاس داری اورآب یاری بہت کم ادیب وشاعر کررہے ہیں۔ کسی زمانے میں فلموں میں نغمے لکھنے والے بھی شعروادب کا پاس ولحاظ رکھنے والے تھے جیسے ساحرلدھیانوی، شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری، ان کے نغموں میں اُردو شاعری کی روح سانس لیتی محسوس ہوتی تھی۔ آج وہاں بھی وہ صورتِ حال نہیں رہ گئی۔ اُردو زبان کو زندہ رکھنے کے جتن اُردو شاعری میں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔

غضنفر اقبال:
عہد موجود میں آپ ادبی لحاظ سے کس مقام پرکھڑا پاتے ہیں؟
رؤف خیر:
الحمد للہ ادبی لحاظ سے میں نے جو مقام بنایا ہے وہ نظم ونثر میں اپنی انفرادیت کی وجہ سے بنایاہے۔ اربابِ نظر سے میں نے اپنے آپ کو منواکے چھوڑاہے۔ اسے آپ تعلّی نہ سمجھیں تو عرض کروں کہ ہر صنفِ سخن میں جو کچھ میں نے لکھاہے ایسا اور اتنا جنوبی ہند سے شاید ہی کسی نے لکھا ہو۔ نظم، غزل، غزل نما، سانیٹ، ترائیلے، ہائیکو، ماہیئے، تکونی، خاص طورپر ایجاد بندہ یک مصرعی نظم وغیرہ اورنثر میں تنقید، انشائیہ، ڈراما، افسانچے(پوپ کہانی)، تبصرے اور اقبالیات کے حوالے سے چونکانے والے مضامین گواہ ہیں۔ الحمد للہ کئی ہندوپاک، کل ہند مشاعرے پڑھے یہاں تک کہ انڈین ایمبسی کی دعوت پر سعودی عرب میں بھی مشاعرے پڑھے اور عمروں کی سعادت سے بھی مشرف ہوا۔ میری کئی کتابیں ریختہ ڈاک کام پر پڑھی جاسکتی ہیں اوراقبالیات سے متعلق میرے تقریباً پچیس لکچرس یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ جیساکہ میں نے بتایا تھا کہ پاکستان کے مشہور ومعروف ماہ نامے الحمرا لاہور نے جنوری 2019کے اپنے سالنامے میں میرا گوشہ نکالا۔ یہ سب ادبی مقام جو اللہ نے مجھے سرفراز فرمایاہے یہ اُسی کا کرم ہے کہ ادبی حلقوں میں مجھے منواکے چھوڑا۔ ورنہ لکھنے والے تو بہت ہیں۔ الحمد للہ الحمد للہ صلاحیتوں سے نوازنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے وہی سربلند کرتاہے تو بندہ Head & Shoulder Above ٹھہرتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے نظر انداز نہیں کرپاتی۔

غضنفر اقبال:
شعبۂ غزل کے دیوانوں کے لیے آپ کا پیغام؟
رؤف خیر:
بہ ظاہر آسان نظر آنے والی صنفِ سخن غزل ریاضت اور مطالعہ مانگتی ہے۔ کسی پیر کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنا نہیں چاہتے ہیں تو ایسے دیوانوں کو زیادہ سے زیادہ اسلاف کے کارناموں سے آگہی حاصل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ زبان وبیان برتنے کا سلیقہ یوں ہی نہیں آجاتا۔ بزرگوں کی صحبت ہی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ جولوگ ان امور سے بے نیازی دکھاتے ہیں، سرخ رو نہیں ٹھہر سکتے۔ نئی نسل کو چاہیے کہ عجلت پسندی سے کام لے کر کاتا اور لے دوڑی پر عمل نہ کریں۔ آج کل تخلیق کی آنول بھی ابھی پوری طرح نہیں کٹتی ہے اُسے فیس بک، وھاٹس ایپ یعنی سوشیل میڈیا کے حوالے کردیا جاتاہے۔ یہ روش لے ڈوبتی ہیں۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ شعر کہنا تو آسان ہے، مصرع کہنا مشکل ہے۔
شعر کہنا اگر آجائے تو مصرع کہنا
آتے آتے تمھیں آجائے گا مطلع کہنا
بے ریاضت کوئی پہچان کہاں بنتی ہے
شعر کہنا ہی اگر ہے تو مرصع کہنا

یہ بھی پڑھیے:
مابعد جدیدیت اور ہندو توا کے مابین قریبی تعلق - فضیل جعفری سے انٹرویو (ڈاکٹر غضنفر اقبال)
مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں افسانہ طرازی (ڈاکٹر غضنفر اقبال)

***
"SAIBAN", Zubair Colony, Hagarga Cross, Ring Road, Gulbarga - 585104.
Email: ghazanfaronnet[@]yahoo.com
Mob. : 09945015964
ڈاکٹر غضنفر اقبال

Interview with Dr. Rauf Khair (Hyderabad). Article: Dr. Ghazanfar Iqbal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں