اردو صحافت کے مسائل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-21

اردو صحافت کے مسائل

problems-of-urdu-journalism

اردو صحافت کے مسائل دوسری زبانوں کے مسائل سے بہت مختلف ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو صحافت کے مسائل ان مسائل سے زیادہ پیچیدہ ہیں جن سے عموماً دوسری زبانوں کی صحافت کا واسطہ رہتا ہے۔
ایک طرف وسائل کا مسئلہ ہے دوسری طرف پڑھنے والوں ، وہ بھی خرید کر پڑھنے والوں کی شدید قلت ہے، ایسے میں اعتبار، سنجیدگی، متانت، معیار اور وقار کو بر قرار رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ اس لیے اردو کے بیشتر اخبارات اور رسائل باوجود ہر امکانی کوشش کے، انگریزی اور دوسری زبانوں کے اخبارات اور رسائل کی ہمسری نہیں کر پاتے ہیں۔ انگریزی کے کتنے ہی ایسے اخبارات اور رسائل ہیں جو سو سو برس سے بڑے وقار سے نکل رہے ہیں لیکن اردو میں جو دو ایک پرانے اخبارات اور رسائل ہیں وہ بس سسک رہے ہیں۔

سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ بڑے بڑے تجارتی گھرانوں نے اردو صحافت کو اپنانے کا اب تک کوئی ارادہ نہیں کیا ہے جبکہ انگریزی اور ہندی کے اخبارات بڑے بڑے تجارتی گھرانے ہی نکال رہے ہیں اسی لیے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور زبردست منافع حاصل ہو رہا ہے جس کو مختلف بہانوں اور طریقوں سے کر نقصان میں بدل کر دکھایا جا رہا ہے۔
روزنامہ ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، اسٹیٹس مین، انڈین ایکسپریس، ہندو، پانیر ، وغیرہ جیسے معیاری اور بھاری بھرکم اخبارات اردو میں نہیں نظر آتے۔ انتہائی نفیس کاغذ ، اعلی طباعت اور معیاری مضامین اور دنیا جہاں کی خبریں۔ مختلف النوع معلوماتی مضامین ان اخبارات کی زینت ہوتے ہیں۔ ان کے روبرو ہمارے روزنامے قومی آواز ، انقلاب، سیاست ، ہند سماچار، دعوت، ملاپ، پرتاپ، اردو ٹائمز ، اخبار مشرق، پاسبان ، روزنامہ آزاد ہند، آفتاب جدید، ندیم، افکار، سنگم، قومی تنظیم، وغیرہ جیسے اخبارات ہیں جن کا کسی بھی اعتبار سے کوئی مقابلہ اور موازنہ نہیں ہے۔
اردو کے باشعور قاری چاہتے ہیں کہ انہیں انگریزی اخبارات کے بالکل برابر معیاری اردو اخبارات نہیں تو کم از کم تھوڑے بہت معیار کے تو ملیں۔ وہ ایسے ہوں جن کو دیکھ کر پڑھنے کو دل چاہے اور پڑھنے کے بعد کوفت نہ ہو خبر ہو تو تازہ اور معیاری و معتبر ہو اور مضمون ہو تو اس سے معلومات میں اضافہ ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ جو لوگ اردو کے اخبارات و رسائل نکالتے ہیں وہ حوصلے، عزم، محنت ، جانفشانی اور اکثر صلاحیت میں کسی سے کم نہیں ہوتے لیکن ان کے ہاتھ پیر کٹے ہوتے ہیں ان کے پاس اپنا جیسا کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ کاغذ ، طباعت اور گٹ اپ کے بارے میں کیا کہا جائے۔

اردو کے جو اخبارات اور رسائل تھوڑے بہت فروخت ہوتے ہیں، انہیں اشتہارات ملتے ہیں، وہ اتفاق سے ایسے لوگوں اور ایسی کمپنیوں کے ہوتے ہیں جو معیار بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس لیے باشعور قارئین کا ایک بڑا طبقہ اردو سے دلچسپی رکھتے ہوئے بھی اردو کا اخبار نہیں خریدتا اور نہ ہی پڑھتا ہے۔ اس لیے اردو اخبارات اور رسائل کا حلقہ محدود اور کم معیاری یا بس اوسط درجے کا رہتا ہے، ان کو اخبارات اور رسائل کسی نہ کسی طرح مطمئن کر لیتے ہیں اس لیے یہ امید بھی نہیں کی جا سکتی کہ قارئین کے مطالبے اور اصرار سے اخبار یا رسالے کا معیار بلند ہو۔

اخبارات اور رسائل اپنے مقصد میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک وہ عوام، اور خواص کے ہاتھوں تک بڑی تعداد میں نہ پہنچیں ، اردو زبان کے اخبارات اور رسائل کی یہی کمزوری ہے کہ وہ دور دور تک حلقہ اثر نہیں بنا پاتے ہیں، وسائل کی کمی یا نایابی کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تجربہ کار باصلاحیت، ایماندار اور محنت سے کام کرنے والے صحافی اردو میں ناپید ہیں، نئی نسلیں اردو ہی نہیں جانتی ہیں تو صحافت کیا جانیں گی۔

صحافت کبھی ایک آدمی کے ذوق کی تسکین کا ذریعہ رہی ہو آج یہ ایک باقاعدہ صنعت ہے اور کسی صنعت کو چلانے کے لیے سب سے پہلے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور تجربہ کار باصلاحیت اور محنتی لوگوں کی ٹیم کی۔ اب صرف ایک، چاہے وہ ابو الکلام ہوں، عبدالمجید سالک ہوں، مولانا عبدالماجد دریابادی ہوں ، یا کوئی ہو۔۔ تن تنہا کامیاب اخبار اور رسالہ نہیں نکال سکتا۔
اب اخبارات کو محض باصلاحیت ترجمہ کرنے والے یا انشا پرداز درکار نہیں ہیں۔ ایک مکمل اور کامیاب اخبار کے لیے ضروری ہے کہ ایک اڈیٹر، ایسوشی ایٹ ایڈیٹر ، چیف و سب چیف رپورٹر، کرائم رپورٹر، اسپورٹس رپورٹر اور جگہ جگہ پر نمائندے ہوں جن کی اتنی معقول تنخواہ ہو کہ وہ بے فکر ہو کر تندہی سے اپنے فرائض انجام دے سکیں اور بہتر سے بہتر اور تازہ سے تازہ خبریں اور مضامین لکھ سکیں۔
اس کے بعد باقاعدہ شعبہ اشتہارات اور شعبہ سرکو لیشن ہو جس میں محنتی اور تجربہ کار عملہ ہو۔ جب یہ سب بہتر ہوگا تو اردو کے اخبارات یقیناً معیاری اور دیدہ زیب و پر کشش ہو سکیں گے۔ پھر وہ کسی بھی زبان کے اخبارات کا آسانی سے مقابلہ کر سکیں گے۔ تب وہ جو اردو نہیں جانتے، اسی طرح اردو اخبارات و رسائل خریدنے لگیں گے جس طرح کہ انگریزی نہ جانتے ہوئے بھی لوگ انگریزی کے خوبصورت رسالے اور اخبارات خریدتے ہیں اور فخر سے لیے ہوئے گھومتے ہیں۔

آج اردو صحافت مسائل سے دوچار ہے یا گھری ہوئی ہے، اس کا واحد سبب یہ ہے کہ جو لوگ اردو صحافت سے دلچسپی رکھتے ہیں صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انہیں کہیں سے کوئی تعاون یا مدد نہیں ملتی، نہ حکومت نہ کوئی اور، نہ عوام۔ کوئی ان کے مسائل سے دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ ایسے میں طرح طرح کے کرتب دکھانے والے شعبده باز اور پست ذوق اور معیار رکھنے والے، صحافت کو ذریعہ معاش بنائے ہوئے ہیں۔ اگر وہ صرف ذریعہ معاش بنائے ہوتے تب بھی کوئی اعتراض نہ تھا، لیکن وہ اوچھی حرکتیں کر کے غلط طرز سے خودنمائی کر کے اس مقام کو حاصل کر لیتے ہیں جس کے وہ ہر گز اہل نہیں ہوتے۔ اس سے باصلاحیت، تجربہ کار اور غیرتمند اور باشعور اور باضمیر صحافیوں کی حق تلفی ہوتی ہے، وہ بہت مایوس ہو جاتے ہیں، بجھ جاتے ہیں اور ان کو دیکھ کر دوسرے عبرت حاصل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اردو صحافت کوئی ایسی مضر چیز ہے جس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ مفلسی، بے غیرتی اور محرومیاں مقدر بن جاتی ہیں۔

پہلے اردو صحافت کے بارے میں کتابت، طباعت کی دشواریوں کا ذکر بڑے زور و شور سے ہوتا تھا مگر اب ایسی کوئی پریشانی نہیں ہے کتابت کی جگہ کپیوٹر ہے اور طباعت کے بجائے آفسیٹ ہے۔ خبر رسانی کے وہ تمام وسائل موجود ہیں جو کسی بھی زبان کے پاس ہیں۔
اردو کے معیاری اخبار کو بھی پروگرام ڈیزائنر، لے آؤٹ ایکسپرٹ، پچ میکر، آرٹسٹ وغیرہ کی ضرورت ہے۔ اور اگر سرمایہ ہو تو یہ سب حاصل ہو سکتا ہے اور جب یہ سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے تو اردو میں بھی یقیناً ویسے ہی دیدہ زیب، معیاری اور قابل قدر اخبارات نکل سکتے ہیں جیسے کہ انگریزی اور دوسری زبانوں میں نکل رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے سرمایہ سے ایک بڑا اخبار نکالا جائے، اس کی پالیسی طے کر لی جائے اور اسی کے مطابق چیف ایڈیٹر کی تلاش ہو۔ باقی سارا کام چیف ایڈیٹر پر چھوڑ دیا جائے۔ اس کے کام میں ہر گز مداخلت نہ کی جائے اور نہ ہی سرمایہ لگانے والا اس کو اپنا زر خرید غلام سمجھے (جیسا کہ بد قسمتی سے ہوتا ہے)۔ انگریزی اخبارات کے چیف ایڈیٹر کی طرح ہی اختیارات اور سہولیات فراہم کی جائیں اور بالکل وہی انفراسٹرکچر اندرونی ڈھانچہ) جو کہ بڑے بڑے انگریزی اخبارات کا ہے دیا جائے۔

آج کوئی بھی بڑا اخبار چار شعبوں پر منحصر ہوتا ہے: شعبہ ادارت ، شعبہ اشتہارات ، شعبہ اشاعت یعنی سرکلیشن اور شعبہ نظامت جس کا سربراہ مینجنگ ڈائرکٹر یا ڈائرکٹر جنرل ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اردو کے پچانوے فیصد اخبارات میں ایسا نہیں ہے۔
ان تمام امور پر نہایت سنجیدگی اور خلوص سے غور کیا جائے تو اردو صحافت کے مسائل خود بخود واضح ہو جائیں گے۔
یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ اردو صحافت کا کوئی مستقبل نہیں یا اس کا کوئی اسکوپ نہیں ہے۔ دو تین کروڑ روپے کے سرمائے سے اسی طرح اردو صحافت کو اپنایا جائے جس طرح کہ کسی بھی صنعت کو اپنایا جاتا ہے تو یقیناً یہ بہت سود مند کاروبار ہوگا کیونکہ امکانات روشن ہیں اور گنجائش بہت ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

***
ماخوذ از کتاب:
اردو صحافت کا جائزہ (سن اشاعت: جنوری 2000)۔
مصنف: احمد ابراہیم علوی

The certain problems of Urdu Journalism, Research article: Ahmed Ibrahim Alavi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں