بالی ووڈ فلمی صنعت اور فلمسازوں کے مسائل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-04

بالی ووڈ فلمی صنعت اور فلمسازوں کے مسائل

bollywood-film-producers

فلمی/ادبی رسالہ "شمع" (نئی دہلی) کے ممبئی میں مقیم خصوصی صحافتی نمائندے رازداں ایم۔اے بحیثیت فلمساز بھی ممبئی فلمی صنعت میں کارگزار رہے۔ "ایک خط باتیں ہزار" کے عنوان سے ان کا ایک مستقل کالم 80-90 کی دہائی میں شمع میں شائع ہوتا تھا جس میں ماضی اور حال کے جھروکوں سے بالی ووڈ فلم انڈسٹری کی ماہانہ جھلک دلچسپ انداز میں پیش کی جاتی تھی۔ شمع کے ایک شمارے سے ایسی ہی ایک فلمی جھلک یہاں پیش ہے۔

کامیڈین، رائٹر، ڈائرکٹر آئی۔ایس۔جوہر مرحوم بڑے ہی حاضر جواب تھے۔ انہوں نے بہت سی فلمیں بنائیں اور لاکھوں روپیہ کمایا۔ تفریحی فلموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملک کے سیاسی اور سماجی ماحول سے بہت فائدہ اٹھایا۔
جوہر محمود ان گوا، جوہر محمود ان کشمیر اور نس بندی وغیرہ فلمیں فلم بینوں کو اب تک یاد ہوں گی۔ غیرملکی فلموں کی نقل کرنے میں وہ اتنے ہی یکتا تھے جتنا فلموں نے انوکھے نام رکھنے میں۔ اس سلسلے میں "شرط" اور "ہم سب چور ہیں" کو آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا۔ وہ ایک پڑھے لکھے انسان تھے۔
لوگوں کو شاید یاد ہوگا کہ ملک سے بٹوارے سے پہلے کی فلموں میں جو لاہور (پاکستان) میں بنیں، وہ اپنے نام کے ساتھ "بی۔اے، ایل ایل بی" لکھا کرتے تھے۔ عام بات چیت میں ان کی مزاحیہ طبیعت ایک پھلجھڑی کی طرح کھلتی تھی۔ اس وقت ان کے متعلق ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ایک بار ہم سب ایک لیبارٹری کے باہر کھڑے ایک پروڈکشن منیجر کا انتظار کر رہے تھے۔ پروڈیوسر بھی ہمارے ساتھ تھا۔ اس نے اپنے پروڈکشن منیجر کو ٹیکسی کا کرایہ دے کر کہہ رکھا تھا کہ فوراً ٹیکسی سے لیباریٹری پہنچ جانا۔ کئی لوگوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ مالک سے ٹیکسی کا کرایہ تو وصول کر لیتے ہیں مگر منزل مقصود پر بس یا ریلوے ٹرین سے پہنچتے ہیں اور اس طرح اپنے ذاتی اخراجات کے لیے روزانہ کچھ نہ کچھ روپے بچا لیتے ہیں۔ یہ پروڈکشن منیجر بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔ جب پروڈیوسر جوہر صاحب اور میں ۔۔۔ ہم سب اس کے انتظار میں لیباریٹریز کے باہر کھڑے کھڑے تھک گئے تو ذہن میں اس کی کمینہ حرکت پر اس کے لیے گالیاں ابھرنے لگیں۔
جوہر صاحب نے کہا: سالا، کہیں دارو پینے بیٹھ گیا ہوگا۔
پروڈیوسر بھنا رہا تھا کہ آج ہی منیجر کو نوکری سے نکال دے گا۔
میری رائے یہ تھی کہ ہو سکتا ہے کہ کہیں کسی مجبوری میں وہ پھنس گیا ہو۔ اس لیے ابھی اور انتظار کیا جائے۔ بہرحال کافی دیر کے بعد ہم نے اس پروڈکشن منیجر کو دور سے آتے ہوئے دیکھا۔ وہ پیدل چلا آ رہا تھا۔ لیکن جوں ہی اس نے ہم تینوں کو دیکھا، وہ دوڑنے لگا اور دوڑتے دوڑتے ہم تک آ پہنچا۔ آتے ہی اس نے ایک کہانی بیان کرنا شروع کی کہ:
جیب کٹ گئی، یہ ہوا اور وہ ہوا۔ دیکھو میں دیر کے ڈر سے بھاگتا ہوا چلا آ رہا ہوں اور اب تک سانس پھولی ہوئی ہے۔
ہم تینوں دور سے اسے پیدل آتے ہوئے اور اور ہمیں دیکھتے ہی دوڑتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔ ہم سب مسکرائے مگر کیا کر سکتے تھے۔ جوہر صاحب کہنے لگے:
"یہ بالکل جھوٹ بولتا ہے۔ اگر یہ ایک ذمہ دار ملازم ہے اور اسے ذمہ داری کا احساس ہے اور اسی احساس کی بدولت وہ یہاں تک پہنچنے کے لیے لگاتار دوڑتا ہوا آیا ہے تو اس کی نبض اور دل کی دھڑکن تیز تیز چلنی چاہیے"
اور پھر انہوں نے پروڈیوسر سے کہا:
"آپ فوراً اپنا ہاتھ رکھ کر اس کی نبض اور دل کی دھڑکن کو محسوس کیجیے کہ دھکنی کی طرح چل رہی ہے یا نہیں؟ ابھی سب فیصلہ ہو جائے گا۔"
مجھے یاد ہے، عجیب منظر تھا۔ میں اور جوہر صاحب ایک طرف کھڑے تھے اور ہمارے نزدیک پروڈیوسر کبھی پروڈکشن منیجر کی نبض کی پھڑپھڑاہٹ گن رہا تھا اور کبھی دل کی دھڑکنیں۔
لوگ آ جا رہے تھے اور شاید سوچ رہے تھے کہ نہ جانے دونوں میں سے کون پاگل ہے ۔۔۔؟ پروڈکشن منیجر یا پروڈیوسر جو آرٹسٹوں کو تو لاکھوں روپیہ دیتا ہے اور اپنے ذاتی دل کی دھڑکنوں کو خطرے میں ڈالتا ہے، مگر یہاں تین چار روپے کی بچت کے لیے پروڈکشن منیجر کی گرم گرم اور تیز تیز نبضیں اور دھڑکنیں ٹٹول رہا ہے۔

۔۔۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کئی پروڈیوسروں کی دھڑکنیں رک گئیں اور پروڈیوسروں کی اسوسی ایشن کو ایک عجیب حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ بات ایسی ہوئی کہ گووندا (کہتے ہیں کہ جس کے پاس ان دنوں تیس چالیس فلمیں تھیں) شوٹنگ کی تاریخوں کے داؤ پیچ میں ایسا پھنسا کہ بہت سے پروڈیوسروں کو ناراض کر بیٹھا۔ سارے جھگڑے کو اسوسی ایشن میں لانا پڑا۔ بھلا ہو امپا (پروڈیوسروں کی اسوسی ایشن) کا جس نے سارا معاملہ بڑی صلاحیت سے سلجھایا اور گووندا نے بھی پورا تعاون دیا۔
لیکن یہ بھی ایک عجیب منظر تھا کہ "امپا" کے دفتر کے باہر پروڈیوسروں یعنی مالکوں کی درجنوں کاروں کی ایک قطار لگی ہوئی تھی اور سب اس انتظار میں تھے کہ ان کی فلم کا ایک کارکن، کام کرنے کے لیے کس تاریخ پر حاضر ہونے کا وعدہ کرتا ہے؟

اس سلسلے میں آئی ایس جوہر کی ایک اور پرانی بات مجھے یاد آ رہی ہے۔ کئی برس پہلے راول فلمز کی فلم "مس انڈیا" (نرگس اور پردیپ کمار) کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ جوہر صاحب اس فلم کے ڈائرکٹر تھے۔ لنچ کا وقت تھا اور سب دوپہر کا کھانا کھا چکے تھے۔ کچھ کھانا بچ گیا تھا۔ جوہر صاحب نے پروڈکشن منیجر سے کہا:
"کھانا ضائع نہیں ہونا چاہیے، اسے کتوں کو کھلا دینا"۔
اسٹوڈیو کے احاطے میں کچھ کتے سوئے ہوئے تھے اور کچھ جاگے ہوئے ادھر ادھر کھڑے تھے۔ پروڈکشن منیجر نے سوئے ہوئے کتوں کو جگا کر کھانا کھلانا شروع کیا تو دور سے، پروڈکشن منیجر کی اس حرکت پر جوہر صاحب کی نظر پڑی، وہ پلٹ کر اس کے پاس آئے اور کہنے لگے:
"ارے بیوقوف، جو کتے جاگ رہے ہیں، انہیں کھانا کھلا، وہ یقیناً بھوکے ہوں گے۔ جو کتے چین کی نیند سو رہے ہیں انہیں کیوں جگا رہا ہے؟ وہ کھانا کھا چکے ہوں گے، ان کا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ بھوکے ہوتے تو دوسروں کی طرح جاگ رہے ہوتے۔"

ہمارے بیشتر پروڈیوسروں کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ سب ان ہی آرٹسٹوں کی طرف بھاگتے ہیں جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں اور جو چین کی نیند سو رہے ہیں۔ پروڈیوسروں کی مشکلات سے بےخبر اور اپنی ہی بدمستی میں مگن۔۔۔ کوئی جیے یا کوئی مرے، اس بات کی پروا بہت ہی کم آرٹسٹوں کو ہے۔
ایک قصہ میری اپنی ذات سے متعلق ہے، جو پروڈیوسروں کی بےبسی اور آرٹسٹوں کی بےپناہ طاقت پر کافی روشنی ڈالتا ہے۔ فلم "الفت" کے سلسلے میں، فلم کے ہیرو راج کمار سے میرا جھگڑا چل رہا تھا اور میں نے انصاف کے لیے "امپا" کا دروازہ کھٹکھٹا رکھا تھا۔ اسوسی ایشن کی نوٹس کے باوجود راج کمار پنچایت میں حاضر نہیں ہوتا تھا اور کبھی پانی پت، کبھی کلکتہ اور کبھی ماریشس چلا جاتا تھا۔ کئی مقررہ تاریخیں نکل گئیں۔ آخر ایسوسی ایشن نے اسے ایک خط لکھا کہ ایک مقررہ تاریخ تک برادری میں حاضر ہو کر اس نے اپنی صفائی پیش نہ کی تو اس کے فلمی کام پر پابندی لگا دی جائے گی۔ اس وقت ہمارے لیڈروں میں بہت سے مضبوط پروڈیوسر بھی تھے۔ جیسا کہ پی۔این۔اروڑہ (جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں)، سری رام بوہرہ، بی آر چوپڑہ، سبودھ مکرجی، راج کمار کوہلی، پاچھی، آر سی کمار، سنتوش سنگھ جین وغیرہ وغیرہ۔ ان سب نے میری بہت مدد کی اور اپنے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے راج کمار کو پنچایت کی میٹنگ میں آنے کے لیے راضی کر لیا مگر راج کمار نے ایک شرط لگا دی کہ میٹنگ کھار، باندرہ میں رکھی جائے۔ جب وہ شام کو ورلی سے اپنے جوہو والے بنگلے پر جائے گا تو راستے میں کچھ دیر رک کر دوسروں کی کہانی سن لے گا اور اپنی سنا دے گا۔
یہ واقعہ آج بھی ہماری ایسوسی ایشن کے ریکارڈ میں درج ہے کہ یہ خاص ہنگامی میٹنگ لنکنگ روڈ، کھار پر واقع یونائیٹیڈ پروڈیوسرز کے دفتر میں منعقد ہوئی جہاں کونسل، امپا اور سنے آرٹس ایسوسی ایشن کے انیس بیس اہم لیڈر اپنی اپنی کاروں میں تشریف لائے۔۔۔ یعنی عدالت لگی، مگر مجسٹریٹ کی مقرر کی ہوئی سرکاری جگہ پر نہیں بلکہ ایک "ملزم" کے پسندیدہ علاقے میں!

اذیت پسندی، بدسلوکی، شراب، عورت، جوا ۔۔۔ یہ ہیں وہ لعنتیں جو کامیابی کے بعد آدمی کو جونک کی طرح چمٹ جاتی ہیں اور ان کے خطرناک نتائج کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک انسان ناکامی یا گمنامی کے غار میں نہیں گرتا۔ کہتے ہیں جس شاخ پر زیادہ پھل لگے، وہ شاخ پھل کے بوجھ سے جھک جاتی ہے لیکن فلم انڈسٹری میں بیشتر حالتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کامیاب اور امیر آدمی کے پاس اگر کوئی ضرورت مند اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آئے تو اس کی مانگ کو صبر سے ضرور سننا چاہیے اور حتی الامکام حلیمی سے اس کی مدد کرنا چاہیے۔۔۔ اس لیے کہ زمین پر گری ہوئی کسی بھی چیز کو اٹھانے کے لیے جھکنا ضرور پڑتا ہے۔۔۔ مگر فلم انڈسٹری میں بیشتر حالتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس روز میں ایک کامیاب ڈائرکٹر کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں چپراسی نے آ کر کہا:
"کوئی صاحب ملنے کے لیے آئے ہیں اور شاید ایکٹر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔"
ڈائرکٹر نے ان صاحب کو (جنہیں میں نے بھی کبھی نہیں دیکھا تھا) میرے کہنے پر اندر بلایا اور اس نوجوان کی تصویروں کے پلندے پر نظر دوڑانے کے بعد چلاتے ہوئے کہا:
"گھر چھوڑنے سے پہلے، بمبئی آنے سے پہلے، آپ لوگ شیشے میں اپنا مونہہ دیکھ کر کیوں نہیں آتے؟ ۔۔۔ صرف یہی ایک لائن رہ گئی ہے قسمت آزمائی کے لیے؟ جاؤ، کوئی اور کام کرو اور میرا وقت ضائع نہ کرو۔"
نوجوان چپکے سے چلا گیا اور میں سوچنے لگا کہ کسی دن اگر یہی نوجوان خوش قسمتی سے دھرمیندر یا امیتابھ بچن بن گیا تو وقت سے گن گن کر کیا بدلے نہیں لے گا؟

دھن بہت بڑی چیز ہے۔
مگر دھن کے لیے فنی قدروں کی ضرورت کو بھلا دینا حماقت ہے۔ پچھلے دنوں مدراس سے ملیالم فلموں کے مشہور ڈائرکٹر ہری ہرن اپنے رائٹر واسودیو نائر کے ساتھ بمبئی تشریف لائے۔ وہ اپنی ملیالم فلم کے لیے کسی ہندی موسیقار کی خدمات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ میں نے بات چیت کے دوران نوشاد صاحب کا ذکر کیا تو وہ سوچ میں پڑ گئے کہ اتنا بڑا سنگیت کار، ایک علاقائی زبان کی فلم میں سنگیت دینے کے لیے کہاں راضی ہوگا؟ میں نے تجویز رکھی کہ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟
نوشاد صاحب کو فون کیا گیا۔ انہوں نے اپنے گھر آنے کے لیے کہا۔ ہم سب ان کے ہاں گئے۔ انہوں نے بڑی آؤ بھگت کی اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا کہ ملیالم انڈسٹری کے قدردانوں نے انہیں اس زبان کی فلم اور سنگیت کی خدمت کرنے کا ایک موقع دیا ہے۔
آخر میں جب انہیں بتایا گیا کہ ملیالم فلم کے سب ہی گیت انہیں تین ہفتے کے اندر اندر ریکارڈ کرنے ہوں گے۔
نوشاد صاحب نے بڑے پیارے لہجے میں کہا:
"میں آپ لوگوں سے معافی چاہتا ہوں کہ میں یہ کام اتنی جلدی نہ کر پاؤں گا۔ آج تک میرا طریقہ یہ رہا ہے کہ میں فلم کی پوری کہانی سنتا ہوں۔ گیت سے پہلے کا سین کیا ہے، مجھے اس کی پوری خبر ہونی چاہیے، کہانی کا اسکرین پلے میرے ذہن میں اتر جائے تو میں فلم کے سنگیت سے پورا پورا انصاف کر سکتا ہوں اور اس سارے کام میں کم سے کم دو مہینے لگیں گے۔"
ملیالم ڈائرکٹر اور رائٹر کی اپنی کوئی مجبوری ہوگی، جس کی وجہ سے وہ نوشاد صاحب کی خدمات سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔

دھن کی طاقت کی ایک اور کہانی سنیے۔
ایک ہیرو جو فلم سائن کرنے سے پہلے ہزاروں مین میخ نکالتا ہے، ہزاروں سوال پوچھتا ہے کہ ڈائرکٹر کون ہے، کہانی کیا ہے، اپنا رول کیا ہے، دوسروں کا رول کیا ہے۔۔۔
ایسے ہیرو کو سائن کرنے کے لیے ایک پروڈیوسر اس کے گھر گیا اور اپنے ساتھ ایک چھوٹا سا اٹیچی کیس بھی لے گیا جس میں پانچ لاکھ روپے تھے۔ کہتے ہیں، پروڈیوسر نے اس سے کہا:
"یہ پانچ لاکھ روپے معاہدہ قبول کرنے کی پہلی قسط ہوگی۔ اگر آپ ہاں کہہ دیں تو یہ اٹیچی میں آپ کی طرف سرکا دوں گا ۔۔۔ مگر میری دو تین شرطیں ہیں: آپ ہمارے ڈائرکٹر کے تحت کام کریں گے، ڈائیلاگ میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے اور شوٹنگ کی مطلوبہ تاریخوں کو منسوخ نہیں کریں گے۔"
پانچ لاکھ روپے اگر پہلی قسط ہے تو ہیرو کی پوری قیمت کیا ہوگا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ لہذا اٹیچی سرک کر ہیرو کے ہاتھ میں آ گئی اور وہ دو تین ہی دن کے بعد خوشی خوشی اس فلم کی شوٹنگ میں شریک ہو گیا۔

اس ضمن میں ڈینی کی مثال قابل تقلید ہے۔ وہ ایک وقت میں لگ بھگ آٹھ دس فلموں میں کام کرتا ہے اور ایک دن میں صرف ایک شفٹ کرتا ہے۔ اگر وہ شوٹنگ کے لیے پروڈیوسر کو ایک شفٹ دیتا ہے تو اس شفٹ میں صرف شوٹنگ ہی کرے گا۔ اگر وہ مکالموں کی ڈبنگ کے لیے پروڈیوسر کو ایک شفٹ دیتا ہے تو اس شفٹ میں صرف مکالمے ہی ڈب کرے گا۔ شوٹنگ کی شفٹ میں وہ ڈبنگ کا کام نہیں کرتا۔ وہ ڈسپلن کا قائل ہے۔ وہ خود بھی ڈسپلن کا پابند ہے اور دوسروں سے بھی ڈسپلن کی پابندی کی توقع رکھتا ہے۔ اگر سب ہی ڈینی جیسے ہو جائیں تو فلم انڈسٹری کی کایا پلٹ سکتی ہے۔
۔۔۔ مگر ہماری لائن ہر قسم کے آدمیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں وہ بھی ہیں جو کشمیر میں شوٹنگ کے بل چھوڑ کر چلے آتے ہیں۔ یہاں وہ بھی ہیں جو فلم کی کامیابی پر ہر بار بونس بانٹتے ہیں۔ یہاں وہ بھی ہیں جو دکھ دیتے ہیں۔ یہاں وہ بھی ہیں جو سکھ میں سب کو حصہ دار بناتے ہیں۔ یہاں بدمزاج بھی ہیں اور خوش مزاج بھی۔ یہاں بہکنے والے بھی ہیں اور لعنتوں سے بچنے والے بھی!
فلمیں بنتی چلی جا رہی ہیں ۔۔۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ:
"اک جھولی میں پھول بھرے ہیں، اک جھولی میں کانٹے رے ۔۔۔ کوئی کارن ہوگا"!!

ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ "شمع" ، اپریل-1988

The issues of film producers in Bollywood film Industry. Article: RaazdaaN.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں