کرونا کی وجہ سے گھر میں نماز کی رخصت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-24

کرونا کی وجہ سے گھر میں نماز کی رخصت

prayers-at-home-due-to-corona

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنَ اتِّبَاعِهِ، عُذْرٌ ، لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى
جس نے اذان سنی اور اسے مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے سے کسی عذر نے نہ روکا، تو اس کی وہ نماز جو اس نے (مسجد کے علاوہ ) پڑھی ہے، قبول نہیں کی جائے گی۔
پوچھا گیا کہ عذر کیا ہے؟
تو فرمایا: خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ (خوف یا بیماری)
سنن أبي داود: 551

کرونا کی وجہ سے پوری قوم دو حصوں میں تقسیم ہے یا تو کرونا کے مریض ہیں ، یا پھر کسی سے کرونا وائرس منتقل ہونے کے خوف میں مبتلا۔ لاکھوں افراد خفیہ بائیولوجیکل ویپن [biological weapon] اٹھائے پھر رہے ہیں، جو ہر ملنے والے کو آگے منتقل کر رہے ہیں۔ اور ہمارے ملک میں بھی ہزاروں افراد اس مہلک مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ تو ایسی صورت میں یقیناً گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت شریعت میں موجود ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے خوف یا مرض کو عذر قرار دیا ہے کہ جس کی بناء پہ نماز گھر پہ پڑھی جاسکتی ہے۔

جنگ جس میں میں جان جانے کا خوف ہوتا ہے اسکے لیے شریعت اسلامیہ نے باجماعت نماز کا الگ طریقہ کار متعین فرمایا ہے۔ اور جب یہ خوف زیادہ بڑھ جائے تو حکم دیا ہے :
فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا
اگر تم (زیادہ) خوف محسوس کرو تو پیادہ یا سوار (نماز ادا کرلو)
سورة البقرة: 239

یعنی جب خوف بڑھ جائے ، اجتماعی طور پہ با جماعت نماز ادا کرنے کی وجہ سے دشمن کی طرف سے نقصان کا خدشہ ہو تو پھر جماعت کی پابندی ختم ہو جاتی ہے اور جو جہاں ہے ، جیسے اسے سہولت ہے نماز ادا کر لے ، خواہ بھاگتے دوڑتے ہوئے، یا سواریوں میں سوار، بہر حال نماز ادا کرے۔

موجودہ صورتحال کچھ اسی طرح کی ہے ، لوگوں میں ذمہ دارانہ رویہ مفقود ہے،ہسپتالوں اور قرنطینہ سے راہ فرار اختیار کرنے والے مریض یہ مہلک بیماری گلی کوچوں میں بانٹتے پھرتے ہیں، اور یہی لوگ مساجد کا رخ کرکے نمازیوں کو بھی شکار کرنے کے درپے ہیں۔

ایسی صورت میں اصل کام تو یہ تھا کہ جب اس وباء کے پھیلاؤ کی خبریں موصول ہونا شروع ہوئیں اسی وقت ہی حکومت وقت اپنی سرحدوں کو بند کر دیتی تاکہ ملک صحت وسلامتی کا استعارہ بنا رہتا۔کہ یہ مطلوب شریعت ہے۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
«إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا»
جب تم کسی سرزمیں میں طاعون کا سنو تو اس میں نہ جاؤ اور جب یہ طاعون کی علاقہ میں پھیل جائے اور تم وہیں موجود ہو تو پھر وہاں سے نہ نکلو۔
صحیح البخاري: 5728

نبی محترم صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان وبائی امراض کے سرکل کو توڑنے کے لیے اک رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ کہ جس علاقے میں خطرناک موذی وباء پھیل چکی ہو اسکا لاک ڈاؤن کر دیا جائے۔ نہ کوئی وہاں داخل ہو اور نہ ہی کوئی وہاں سے نکلے۔ تاکہ دیگر لوگ اس سے وباء کا شکار نہ ہو جائیں۔

اسکے بعد جب یہ بیماری ملک میں در آئی تو بھی بیمار افراد کو قرنطینہ میں رہنا چاہیے تھا، اور مکمل محتاط رہتے ہوئے اس بیماری کو قابو کرنے میں حکومت کا ممدو معاون بننا چاہیے تھا۔ کہ شریعت نے حکم دیا ہے:
«لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ»
کوئی بیمار اونٹوں والا اپنے اونٹوں کو تندرست اونٹوں میں نہ ملائے۔
صحیح البخاری: 5771

نیز فرمایا:
لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ
نہ نقصان اٹھاؤ ، نہ نقصان پہنچاؤ۔
سنن ابن ماجه: 2340

اور وبائی مرض کے ایام میں گھروں میں بیٹھ رہنے کا حکم دیا گیا ہے:
فَلَيْسَ مِنْ رَجُلٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ، فَيَمْكُثُ فِي بَيْتِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الشَّهِيدِ
جو شخص بھی طاعون پھیلنے کے بعد اپنے گھر میں ثواب کی نیت سے صبر کرکے رہے ، یہ جانتے ہوئے کہ اسے وہی کچھ ہو گا جو اللہ نے اسکے لیے لکھ دیا ہے، تو اسکے لیے شہید جیسا اجر ہوگا۔
مسند أحمد: 26139

اور جب گھروں میں بیٹھے رہنے سے شہید جیسے عظیم المرتبت شخص کے برابر اجر ملنے کا وعدہ کیا گیا ہے تو پھر گھروں میں محصور رہ کر شریعت کی عطاء کردہ رخصت سے فائدہ اور اجر دونوں حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وباء کے پھیلاؤ کے بعد گھروں میں رہنے کی ترغیب ہے تو اس میں گھر میں ہی نماز ادا کرنے کی رخصت بھی شامل ہے۔

لیکن کتاب وسنت کے ان صریح احکام کے باوجود لاعلمی وجہالت کی بناء پر یا کسی بھی اور وجہ سے انکا پاس نہیں کیا گیا اور اس تقصیر کے بعد بیماری اور اسکا خوف ملک کے اطراف واکناف میں پھیل چکا ہے، اور اس بیماری کی شد ت اور اس سے ہونے والی اموات نے اس وبائی مرض کو بھی خوف کی علامت بنا دیا ہے۔سو اس خدشہ کی بناء پر گھروں میں نماز ادا کرنا ہی اولى و بہتر ہے۔

اور اگر حکومت وقت اس سلسلے میں کو اقدام کرتی ہے ، اور مساجد سے لوگوں کو جبری منع کیا جاتا ہے، تو اس میں حکومت وقت کا ساتھ دینا اور اسکے احکام پہ عمل کرنا صرف اولی اور بہتر ہی نہیں رہتا بلکہ لازم اور ضروری ہو جاتا ہے۔کیونکہ اس وباء سے بچنے کی یہ آخری تدبیر ہے، اسکے بعد سوائے الہ العالمین کے حضور تضرع و عاجزی سے التجاء و دعاء کرنے اور اسے منانے اور راضی کرنے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ جس طرح حرم میں چند متعلقہ افراد اذان و جماعت کے فریضہ کو قائم رکھے ہوئے ہیں ، اسی طرح ریاست پاکستان میں بھی مساجد سے اذان کی صدائیں بلند ہوتی رہیں اور جماعت و جمعہ کا فریضہ متعین مخصوص لوگ انجام دیتے رہیں ، اور وہ مسجد میں ہی قرنطینہ میں ہوں۔ اس طرح ایک تو ہم حفاظتی تدابیر کو ہر ممکن اختیار کرنے والے بن جائیں گے اور دوسرا رب العالمین کے گھر مساجد کو مقفل کرنے سے بھی بچ جائیں گے۔

جو حکومت واسا، میونسپل کمیٹی، واپڈا، ٹیلی کام، کال سنٹرز، بینک، دفاع سے متعلقہ انڈسٹریز، ہیلتھ سروسز، ہسپتال ، گراسری سٹور، جنرل سٹور، شاپنگ مال کا گراسری والا حصہ، ڈارئی پورٹ، کسٹم، سبزی کی دوکانیں، گوشت کی دوکانیں،فش شاپس،دودھ دہی کی دکانیں،غلہ منڈی،پٹرول پمپ، آٹو ورکشاپس، میڈیا ہاؤسز وغیرہ کھلے رکھنے کے لیے لائحہ عمل تیار کر سکتی ہے اسے مساجد کو کھلا رکھنے کے لیے بھی مناسب لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ خواہ مسجد کے مؤذن و امام وخطیب کو ہی مسجد میں معتکف بنا دیں، اور دیگر تمام اہل وطن اپنے گھروں میں فریضہ نماز ادا کرنے کے پابند ہوں۔
هذا ، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم.

***
بشکریہ و بہ اجازت: شیخ محمد رفیق طاہر
کرونا کی وجہ سے گھر میں نماز کی رخصت

Prayers at home due to Corona, Article by: Mohammad Rafeeq Tahir.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں