نیک نام - محی الدین نواب کی 6 کہانیوں کا مجموعہ - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-25

نیک نام - محی الدین نواب کی 6 کہانیوں کا مجموعہ - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

Naik-Naam_Mohiuddin-Nawab

محی الدین نواب (پ: 4/ستمبر 1930 ، کھڑگ پور، مغربی بنگال - م: 6/فروری 2016 ، کراچی)
اردو دنیا کے بےمثال اور مقبول عام ادیب و افسانہ/ناول نگار تھے۔ ان کی بین الاقوامی شہرت کا بنیادی سبب ٹیلی پیتھی کے مرکزی خیال پر مبنی "دیوتا" نامی طویل اردو سلسلہ وار کہانی ہے جس کا آغاز سن 1976 سے ہوا تھا اور جو نواب صاحب کے انتقال تک جاری رہا۔ نواب صاحب کی 6 عدد منتخب کہانیوں کا ایک مجموعہ "نیک نام" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
تقریباً دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 14 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

محی الدین نواب کی ان 6 کہانیوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے ۔۔۔
رشتہ
ماضی کے آئینے میں دکھائی جانے والی اس دور کی کہانی جب اپنے بیگانے ہو گئے تھے، زمین اور زبان کو شناخت بنا لیا گیا تھا اور نفرتوں کی ایسی آندھی چلی تھی جو اپنے ساتھ برسوں کی محبتیں، رفاقتیں، رشتے ناتے اور دوستیاں سب کچھ اڑا کر لے گئی تھی اور ہمارا وجود دو لخت ہو گیا تھا، انسانی لہو بےقیمت ہو کر رہ گیا تھا۔ دردمند اور حساس دل اس وقت بھی لہو رو رہے تھے اور آج بھی ان کی حالت تقریباً ویسی ہی ہے۔

ممتا کا عذاب
کون نہیں جانتا کہ ماں کا رشتہ عظیم اور مقدس ہوتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے اور محسوس کرتے ہیں کہ مائیں ساری زندگی اپنی ممتا کا عذاب سہتی رہتی ہیں۔ اس کہانی میں اسی عذاب کو پیش کیا گیا ہے۔ نواب نے ایک ایسی ماں کے جذبات پیش کیے ہیں جو فلموں کی سدابہار ہیروئین یعنی محبوبہ تھی اور اندر سے ماں تھی۔ ایک طرف زندہ رہنے کے لیے اداکاری کا پیشہ ضروری تھا دوسری طرف ممتا لازمی اور فطری تھی۔ وہ بیٹے کو بیٹا نہیں کہہ سکتی تھی کیونکہ اسے جبراً ماں بنایا گیا تھا اور جب ماں نے ممتا کا سبق سیکھ لیا تو وہ سبق، وہ ممتا کی فطرت، ایک عذاب بن گئی۔ کون ایسا ہے جو عذاب سے نجات نہیں چاہتا؟ ایک ماں نے ممتا کے عذاب سے نجات پانے کے لیے جو قربانی دی وہ اس کہانی کی صورت میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گی۔

حالات
اس کہانی میں قلمکار کا قلم کہتا ہے کہ: ہم بھلے یا برے حالات خود ہی پیدا کرتے ہیں۔ پھر حالات کے غلام بن جاتے ہیں اور دنیا کے سامنے تقدیر کا شکوہ کرتے ہیں۔ اپنی مجبوری اور بےبسی پر روتے ہیں، دوسروں کا سہارا مانگتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا نہیں چاہتے کہ جو کچھ ہوا، اس کی تحریک ہم سے چلی تھی۔
جب یہ اعتراف ہو کہ ہم اپنے پیدا کردہ حالات سے گزرتے ہیں تب یہ آگہی ملتی ہے کہ ہم سب قدرت کے آگے بےبس ہیں۔ ہم محبت میں، جذبوں کی روانی میں اور انتہائے شوق میں کچھ سمجھے بوجھے بغیر کچھ کر گزرتے ہیں۔ اور نادانستگی میں آنے والے وقت کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مخصوص حالات میں مخصوص انجام کے ساتھ آئے۔
بےشک تقدیر بھی اپنے داؤ پیچ دکھاتی ہے لیکن کامیاب و کامران ہونے والوں کی زندگی کے حالات گواہ ہیں کہ جو لوگ اپنے ہر عمل سے پہلے انجام سے باخبر رہے، تقدیر ان پر اپنے داؤ پیچ آزمانے کے بجائے ان کے لیے پھولوں کا ہار بنتی رہی۔ زیرنظر کہانی کے کسی کردار کو پھولوں کا ہار نہ مل سکا۔ اسے پڑھنے کے بعد آپ کچھ دیر تنہائی میں بیٹھ کر غور کریں کہ آپ خود انتہائے شوق میں کیا کرتے آ رہے ہیں؟ ہر عمل کے مخصوص نتائج کا پہلے سے اندازہ کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ ایک قلمکار اپنی تحریر کے ذریعہ جو سمجھانا چاہتا ہے، اسے آپ بخوبی سمجھ کر عمل کرین تو یہی قلمکاری کا سب سے بڑا کارنامہ ہوتا ہے۔ نواب صاحب کی یہ کہانی نصف ماخوذ اور نصف طبع زاد ہے۔

ضرورت
اب یہ پرانی کہاوت ہو گئی ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ لیکن اس کہاوت کا مفہوم کبھی پرانا نہیں ہوگا۔ اس کہانی میں قلمکار کا قلم کہتا ہے کہ: آپ میں سے کتنے ہی لوگ ابھی دریافت (ایجاد) نہیں ہوئے ہیں کیونکہ آپ نے انسانوں کے بازار میں اپنی اہمیت یا اپنی ضرورت کا سکہ نہیں جمایا ہے۔ جب لوگ آپ کی ضرورت محسوس کریں گے تو آپ کو دریافت کرتے کرتے بامِ عروج تک پہنچا دیں گے۔ لیکن لوگ آپ کی ضرورت کب محسوس کریں گے؟ اس سوال کا جواب اس کہانی میں موجود ہے۔

سدابہار
نواب صاحب محبت کے موضوع پر لکھتے رہے ہیں ، لکھ رہے ہیں اور لکھتے رہیں گے کیونکہ محبت انسان کا جذبۂ اول اور جذبۂ آخر ہے۔ محبت کے موضوع پر سب نے لکھا ہے لیکن نواب صاحب کی تحریر سب سے مختلف ہے۔ یہ کہانی پڑھیے اور دل پکڑئیے۔

نیک نام
محی الدین نواب کی کہانیوں کے متعلق ایک عام شکایت یہ ہے کہ ان کہانیوں کے ولن یا بدمعاشوں کو ان کی غلطیوں یا گناہوں کی سزا نہیں ملتی۔ جواباً عرض ہے کہ حقیقتاً سزا نہیں ملتی۔ اگر ملتی تو ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ راتوں رات دولت مند نہ بن پاتے۔ ایک جوان بیوہ پردے کے باہر مزدوری کر کے اپنی جھگی میں صوفے اور ٹی۔وی نہ لاتی۔ مسجد سے کوئی گھڑی یا ایمپلی فائر چرا کر نہ لے جاتا۔ ہمارے ملک میں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ اس لیے کہ بھوک سے نیند ہی نہیں آتی۔ رات بھر دماغ میں جرائم کی تدبیریں پکتی رہتی ہیں۔ کوئی کسی سے یہ نہیں ہوچھتا کہ بھائی! تم پندرہ روپے کی مزدوری کرتے ہو، تمہاری کلائی میں دو ہزار روپے کی گھڑی کیسے بندھی ہے؟
ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، وہاں ہر سانس میں ایک سوال ہے۔ اور ہر سوال کے پیچھے ایک خواہش ہے کہ خطاکاروں کو سزا ملے۔ آپ محض کھلی آنکھوں سے نہیں، کھلے ذہن سے بھی اپنے آس پاس دیکھیں تو یہ انکشاف ہوگا کہ دس میں سے ایک بدنام کو سزا ملی باقی نیک نام رہے۔ یہ کہانی جو آپ پڑھنے جا رہے ہیں، آپ کے لیے ایک چیلنج ہے۔ آپ جواب دیں کہ اس کہانی میں جو خطاکار ہے، اسے آپ کس طرح سزا دیں گے؟

یہ بھی پڑھیے:
محی الدین نواب - 5 کہانیوں کا مجموعہ - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
محى الدین نواب ایک بے مثال ادیب، ایک عظیم ناول نگار - ڈاکٹر وسیم المحمدی
تذکرہ : نامور مصنف " محی الدین نواب " کا ۔۔۔

***
نام کتاب: نیک نام (6 منتخب کہانیاں)
مصنف: محی الدین نواب
تعداد صفحات: 192
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 14 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Naik-Naam_Mohiuddin-Nawab-6-Stories.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

نیک نام - از: محی الدین نواب :: فہرست کہانیاں
نمبر شمارجملہ صفحاتعنوانصفحہ نمبر
125رشتہ3
221ممتا کا عذاب29
338حالات51
434ضرورت90
535سدا بہار125
629نیک نام161

Naik Naam, a collection of 6 Urdu short stories by Mohiuddin Nawab, pdf download.

1 تبصرہ: