ہندوستان میں قومی کتب خانہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-18

ہندوستان میں قومی کتب خانہ

india-national-library

آزادی سے قبل ہندوستان میں صرف ایک کتب خانہ تھا لیکن آزادی کے بعد سالوں میں ملک کی سائنسی اورتکنیکی میدان میں معلومات کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر علم کی مخصوص شاخوں کے لئے قومی سطح پر کتب یا حوالہ جاتی خدمت فراہم کرنے کے ادارے قائم کئے گئے۔ اس وقت ملک میں درج ذیل کتب خانے یا حوالہ جاتی خدمات فراہم کرنے کے لئے مراکز قائم ہیں:
  • قومی کتب خانہ (کلکتہ)
  • قومی کتب خانہ برائے سائنس (دہلی)
  • قومی کتب خانہ برائے طب (دہلی)
  • انسڈاک - ہندوستانی قومی مرکز برائے ترتیب حوالہ جاتی سائنس (INSDOC - Indian national scientific documentation centre)
  • سماجی علوم میں تحقیق کی ہندوستانی کونسل کا مرکز ترتیب حوالہ جات (ICSSR - Indian Council of Social Science Research)
  • سنڈاک - چھوٹی صنعتوں کے لئے ترتیب حوال کا قومی مرکز (SENDOC: Small Enterprises National Documentation Centre)
  • سائنس، مواصلات اور اطلاعاتی وسائل کا قومی مرکز (NISCAIR - National Institute of Science Communication and Information Resources)

قومی کتب خانہ
نیشنل لائبریری یا قومی کتب خانہ کے قیام کی ابتدا 1952ء میں اس وقت ہوئی، جب بنگال میں کلکتہ پبلک لائبریری قائم ہوئی۔ موجودہ کتب خانہ کا اساسی ذخیرہ کلکتہ پبلک لائبریری کی کتابیں ہیں جو 1902ء کے امپریل لائبریری ایکٹ کے تحت اسے ملیں۔ اسی طرح قومی کتب خانہ کو فورٹ ولیم کالج کی نایاب کتابیں بھی مل گئیں۔
کتب خانہ کا افتتاح لارڈ کرزن وائسرائے اور گورنر جنرل نے 1903ء میں کیا اور اپنی افتتاحی تقریر میں کتب خانہ کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ:
"یہ نہ کتابیں مستعار دینے والا کتب خانہ ہے اور نہ عام کتب خانہ۔ مستعار دینے والے کتب خانے کی کتابوں کی لوگ پروا نہیں کرتے ہیں اور ایسے کتب خانے عموماً سستے ناول اور افسانوں کی کتابوں کو فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں۔"
کرزن کے سامنے برٹش میوزیم کی مثال تھی اور وہ اس کتب خانہ کو بھی انھیں خطوط پر پروان چڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ 1903ء میں کتب خانہ کے قیام سے متعلق بی۔ایس۔کیساون [B. S. Kesavan] کی انڈیاز نیشنل لائبریری - 1961 ، ونیز نیشنل لائبریری آف انڈیا کریٹیکل اسٹڈی بمبئی-1970 ، میں جو گزٹ شائع ہوا تھا، اس میں کتب خانہ کے مقاصد کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
"ہمارا مقصد اسے مراجعہ کا ایک کتب خانہ بنانا ہے، یہ علم کے متلاشی کی علمی سرگرمیوں کا مقصد اور مستقبل میں ہندوستان کی تاریخ مرتب کرنے والے مورخ کے لئے درکار علمی مواد کا منبع ہوگا جہاں ہندوستان کی تاریخ سے متعلق ہر تحریر شدہ علمی مواد چاہے اس کا تعلق کسی دور سے ہو، دیکھا جا سکے گا"

آزادی سے قبل یہ کتب خانہ مٹکاف ہاؤس میں قائم تھا، آزاد ہندوستان سے پہلے ہندوستانی گورنر بنگال شری راج گوپال آچاریہ نے اسے بیلویڈیر [Belvedere] کے مقام پر وائس رائے کے سابق محل میں منتقل کر دیا۔ یہ عمارت 56 ہزار مربع فٹ سے زیادہ کے رقبہ میں پھیلی ہے اور اس سے ملحق عمارت کا رقبہ تقریباً 80 ہزار مربع فٹ ہے۔ کتب خانہ کے سب سے پہلے لائبریرین برٹش میوزیم کے سابق لائبریرین جان میکفرلین [John Macfarlane] تھے۔ 1930ء سے آئندہ سترہ برس تک کتب خانہ کی عنان خان بہادر ایم اسد اللہ کے ہاتھ میں رہی۔ اسد اللہ انڈین لائبریری ایسوسی ایشن کے بانیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ پدم شری ہی ایس کیساون کا دور قومی کتب خانہ کی توسیع کا سنہرا دور تھا۔

قومی کتب خانہ میں کتابوں اور رسائل کی مجموئی تعداد 20 لاکھ کے قریب ہے، سالانہ اضافہ کا اوسط 4000 ہے۔ کتب خانہ میں تقریباً ساڑھے بارہ ہزار رسائل منگوائے جاتے ہیں۔ یہاں ہندوستانی زبانوں میں کتابوں کی تعداد تقریباً 3 لاکھ ہے۔ کتب خانہ میں 6700 نقشہ جات اور 3000 مخطوطات ہیں۔
یہاں قانون کے تحت کتب خانہ کو ملک میں شائع ہونے والی ہر کتاب کا ایک نسخہ ملتا ہے، ایک مہم کے ذریعہ اس کے دائرہ میں اخبارات و رسائل کے پہلے شمارے بھی آتے ہیں۔ اس کتب خانہ میں ملک کے چند ذاتی کتب خانے محفوظ کرا دئے گئے ہیں۔
کتب خانہ سعد عبدالرحیم
کتب خانہ سراشوتوش مکھرجی
کتب خانہ جادو ناتھ سرکار
کتب خانہ سریندر ناتھ سین
کتب بہادر سیبرو

1973ء میں کتب خانہ کے جملہ کاموں کا جائزہ لینے کی غرض سے مرکزی حکومت نے ایک کمیٹی مقرر کی تھی۔ کمیٹی نے کتب خانہ کے مقاصد کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
1: ملک میں شائع ہونے والے جملہ علمی تعاون کی فراہمی اور ان کا تحفظ۔ 2: ملک کے بارے میں دنیا کے کسی بھی حصہ اور زبان میں شائع کرانا یا اس کی نقل حاصل کرنا۔
3: قومی نقط نظر سے اہم مخطوطات کو حاصل کرتا اور انھیں محفوط کرنا۔
4: ہندوستان کے باہر شائع ہونے والے ایسے علمی مواد کو جن کی ملک میں ضرورت ہونے کا امکان ہے، ایک منصوبہ کے تحت حاصل کرنا۔
5: زمانہ ماضی یا حال میں شائع ہونے والے علمی مواد کی کتابیات سازی اور فراہمی حوالہ کی خدمت انجام دینا۔
6: کتابیاتی معلومات کے جملہ ماخذ کا صحیح علم رکھنا اور قارئین کو اس بارے میں معلومات فراہم کرانے کے لئے حوالہ جاتی مرکز کا رول ادا کرنا۔
7: عکسی نقول فراہم کرنا۔
8: متبادلہ کتب اور مستعار کتب خدمت میں دینے کے لئے بین الاقوامی سطح پر ایک مرکز کا رول ادا کرنا۔

کتب خانہ کے انتظام کے لئے مرکزی حکومت نے ایک اعلی سطح کی مجلس انتظامیہ تشکیل کی ہے جو کہ ماہرین تعلیم، سائنس داں اور ماہرین علم کتب خانہ داری پر مشتمل ہے۔ کتب خانہ کا افسر اعلی ایک ڈائرکٹر ہے جس کا عہدہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے مساوی ہے۔ کتب خانہ کا مصنف وار کٹیلاگ شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ درج ذیل حوالہ جاتی مواد بھی شائع ہوئے ہیں۔
بہار لائبریری کیٹلاگ جلد اول (فارسی مخطوطات)
بہار لائبریری کیٹلاگ جلد اول (عربی مخطوطات)
ببلوگرافی آف انڈولاجی

یہ بھی پڑھیے:

***
ماخوذ از مقالہ:
اردو کتب خانے، مسائل اور ان کا حل
پی۔ایچ۔ڈی مقالہ از: احمد الدین (گائڈ: ڈاکٹر مصباح الاسلام، صدر شعبۂ اردو)
کرائسٹ چرچ کالج، کانپور۔ (شعبہ اردو، 2008)

National Library in India, Research article: Ahmed Uddin.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں