زندہ لفظوں کا روشن مینار - رامپور رضا لائبریری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-07-12

زندہ لفظوں کا روشن مینار - رامپور رضا لائبریری

Rampur-Raza-Library
رامپور میں بھی ایک تاج محل ہے۔
اس تاج محل سے بالکل مختلف جس کے بارے میں ساحر لدھیانوی جیسے حساس شاعر نے کہا تھا
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
آگرہ کا یہ تاج محل فردیت کی علامت ہے تو دارالسروررامپور کا تاج محل اجتماعیت کا استعارہ۔ شاہجہاں کا تاج محل مظہر الفت اور نشان سطوت شاہی کے ساتھ محض ایک مقبرہ ہے مگر مہابھارت کے عہد میں پنچال بادشاہت کا حصہ رہ چکے رامپور کے تاج محل میں زندہ لفظوں کے روشن مینار ہیں۔ اس میں انسانی تہذیب و تاریخ کے اجتماعی شعور اور لاشعور کے ساتھ ساتھ عجائبات اور نوادرات کا خزینہ ہے۔ اس تاج محل میں احساس کی قندیلیں ہیں، ذہن کی جولانیاں ہیں، فکر کی تابانیاں ہیں، خیال کی رعنائیاں ہیں۔ جمنا کنارے شاہجہاں کا تاج محل تو صرف سنگ و خشت کا ایک خوبصورت مجسمہ ہے جبکہ کوسی (جس کا پانی بقول غالب اتنا میٹھا کہ پینے والے کو شربت صاف کا گماں گزرے، ہاضم اور سریع النفوذ پانی)، ناہل، رام گنگا کے درمیان واقع رامپور کے تاج محل کی اساس عرفان وآگہی کی اینٹوں پر ہے۔ 1648 میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والے مغل طرز تعمیر کے شاہ کار تاج محل سے صرف احساس کا ارتعاش ہوتا ہے جبکہ 1744 میں نواب فیض اﷲ خاں کی تشکیل کردہ ریاست رام پور میں واقع تاج محل سے انسان کا باطن آگہی کی آگ سے روشن ہوتا ہے اور باطن میں صنوبر کے درخت اگتے ہیں۔ ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کردہ تاج محل میں صرف تخیل کا رومان ہے جبکہ اجتماعی حافظے اور انسانی احساس کے تحفظ کے لیے تعمیر کردہ رامپور کا تاج محل تخیل اور تعقل کی جولان گاہ ہے۔ یہاں وہ تہذیبی، ثقافتی، علمی سرمایہ ہے جس سے کوئی بھی قوم اپنی تاریک تقدیر کو تابندہ کر سکتی ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ روہیلہ پٹھان جن کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں ان میں کیسے یہ احساس بیدار ہوا کہ تلواروں سے نہیں، تحریروں سے تقدیریں بدل سکتی ہیں کہ تلواریں نگوں ہو جاتی ہیں مگر تحریریں ہمیشہ سربلند رہتی ہیں۔ تلواروں سے جنگیں تو جیتی جا سکتی ہیں مگر دل، ذہن اور ضمیر نہیں۔ اس تبدیلی احساس نے ان کے اندر علم و ادب کی ایک ایسی کائنات کو روشن کر دیا جس سے صرف ان کے ذہن منور نہیں ہوئے بلکہ اس کی تابانی دور دور تک پھیلی اور اسی تابانی کی تشکیل کتابوں کے تاج محل رضا لائبریری کی شکل میں ہوئی اور اس کے معمار ہیں وہ نوابین رامپور جو علم و ادب کے شیدائی تھے، جن کی علم دوستی اور ادب پروری نے ایک چھوٹے سے شہر رامپور کو بلدۂ کمال و جمال میں تبدیل کر دیا اور ملک بھر کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے اس سرزمین کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز کیا۔
غدر کے زمانے میں دلی میں ابو ظفر محمد سراج الدین بہادرشاہ ظفر (24؍اکتوبر 1775۔ 7؍نومبر 1862) کا دربار ویران ہوا، تو رامپور کا دربار آباد ہوا۔کتنے شعرا و ادبا نے یہاں اقامت اختیار کی اور نوابین کی سرپرستی نے ان کے احساس و اظہار کی تابندگی کو مزید جلا بخشی۔ نوابین رام پورشعر و ادب کا شائستہ مذاق رکھتے تھے بلکہ بعض نوابین تو خود شعر گوئی میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ نواب یوسف علی خاں بہادر فردوس مکاں (1816-1865) بھی شاعر تھے۔ ان کا تخلص ناظم تھا۔ تلمیذ غالب ناظم کا 'آب زر'سے لکھا ہوا دیوان لائبریری میں محفوظ ہے۔ ان لوگوں کی وجہ سے رامپور کی سرزمین تخلیقی اعتبار سے باغ و بہار بن گئی۔ غالب (27؍دسمبر1797 ۔ 15؍فروری1869) جیسے شاعر نے بھی یہاں کے راج دوارا میں ڈاک خانے سے متصل مکان میں اقامت اختیار کی جو اب ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی کے مطابق لکشمی نواس میں بدل گئی ہے اور غالب نواب کلب علی خاں بہادر خلد آشیاں (1834-1887) جنہیں 23؍جنوری 1875 میں فرزند دل پذیر دولت انگلشیہ کا خطاب ملا تھا اور 1877 میں 15بندوقوں کی سلامی دی گئی تھی اور جو بقول غالبؔ بہ اعتبار اخلاق آیتہ رحمت اور خزانہ فیض کے تحویلدار تھے۔ ، کے الطاف خسروانہ سے مستفیض ہوئے، جس کا اظہار اپنے ایک شعر میں غالبؔ نے یوں کیا
در پہ امیر کلب علی خاں کے ہوں مقیم
شائستہ گدائی ہر در نہیں ہوں میں
اور میر مہدی مجروح کو یہ لکھا کہ جو لطف یہاں ہے وہ اور کہاں ہے، Romantic Disposition کے شاعر مومن خاں مومن (1851-1800)، نواب مرزا خاں داغ دہلوی (1905-1831) اور امیر مینائی لکھنوی (1900-1826) جیسے شاعروں کا بھی اس شہر سے رشتہ رہا ہے۔
ارباب کمال کی اس سرزمین رام پور میں بکھنگم پیلس (Buckingham Palace) کا مثنیٰ نظر آنے والی رضا لائبریری کی پرشکوہ عمارت Indo-Sarasenic طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ کتب خانہ جس کا سفر نواب سید علی محمد خاں(1705-1749) کے صاحبزادے نواب سید فیض اﷲ خاں (1733-1794) کے دور میں 1774 میں توشہ خانے سے شروع ہوا تھا، نواب سید محمد سعید خاں بہادر جنت آرام گاہ (1786-1855) کی خصوصی توجہ سے اس کے لیے ایک الگ کمرہ مختص کیا گیا، لکڑی کی الماریاں تیار کی گئیں اور ایک افغانی اسکالر آغا یوسف علی محوی کو لائبریری کی ترتیب و تنظیم کے لیے مامور کیا گیا اور لائبریری کی کتابوں کے لیے فارسی میں ایک مہر بنائی گئی جس پر یہ شعر کندہ تھا
ہست ایں مہر بر کتب خانہ
والئ رامپور فرزانہ
لائبریری کو نوادرات سے مالامال کرنے کے لیے نواب کلب علی خاں کی مساعی جمیلہ بھی کم نہیں رہی ہیں۔ انہوں نے نایاب مخطوطے اور پینٹنگس اور اسلامی خطاطی کے نمونوں کے لیے بے پناہ کوششیں کیں۔ مختلف ملکوں کا دورہ کیا اور انہی کی وجہ سے لائبریری کو قرآن کریم کا وہ نسخہ ملا، جو چمڑے پر لکھا ہوا ہے اور حضرت علی سے منسوب ہے۔ ان کے بعد نواب مشتاق علی خاں بہادر عرش آشیاں (1856-1889) نے لائبریری کی ترقی اور توسیع کے لیے بجٹ مختص کیا اور نئی عمارت تعمیر کی۔ عالیجاہ فرزند دل پذیر دولت انگلشیہ مخلص الدولہ ناصر الملک امیر الامرا نواب سر سید محمد حامد علی خاں بہادر جنت مکاں (1875-1930) نے اپنے عہد میں عالیشان عمارتیں بنوائیں۔ انہوں نے ہی خاص باغ میں قلعہ کے اندر حامد منزل تعمیر کروائی، جس کے چیف انجینئرW۔C۔Wright تھے۔ اسی حامد منزل میں 1957 میں لائبریری منتقل کر دی گئی اور پھر جب فرزند دل پذیر نواب ڈاکٹر سر سید محمد رضا علی خاں بہادر فردوس مکیں (1966-1906) مسند نشیں ہوئے تو انہوں نے لائبریری کی تنظیم نو کی۔ وہ خود بھی ہندوستانی موسیقی کے دلدادہ تھے، اس لیے انہوں نے ہندوستانی موسیقی سے متعلق بہت سے نایاب مخطوطے خریدے۔ 1949 میں وفاق ہند میں رام پور ریاست کے الحاق کے بعد یہ لائبریری ٹرسٹ کے حوالے کر دی گئی اور یکم جولائی 1975 میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت یہ لائبریری مرکزی حکومت کی تحویل میں چلی گئی اور اس وقت نواب سید مرتضیٰ علی خاں (1982-1923) نوتشکیل شدہ بورڈ کے وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔
نواب رضا علی خاں سے موسوم یہ لائبریری اب خود مختار قومی ادارہ ہے جہاں ملک اور بیرون ملک کے اسکالرس آتے ہیں اور تحقیقات عالیہ سے دنیا کو فیضیاب کرتے ہیں۔ نوادرات اور مخطوطات کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کی شناخت ہے۔ نواب لوہارو کے علمی ذخیرہ کی شمولیت سے اس کی افادیت میں اور اضافہ ہوا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی (3؍جون 1857۔ 18؍نومبر 1914)جیسے دانشور اور مفکر نے 6؍اپریل 1914 کو جب اس لائبریری کی زیارت کی تو انہوں نے اعتراف کیا کہ "ہندوستان میں اس سے بہتر کوئی ذخیرہ نہیں ہے۔ میں نے شام، ترکی اور یورپ کی لائبریریاں بھی دیکھی ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان تمام لائبریریوں سے زیادہ عمدہ ذخیرے کی حامل ہے۔"
اس لائبریری میں 20 ہزار مخطوطے، 5ہزارمنی ایچر پینٹنگس، 3 ہزاراسلامی خطاطی کے نایاب نمونے اور 80 ہزار مطبوعہ کتابیں ہیں جن میں سنسکرت، ترکی، تمل اور ہندی کتابیں بھی شامل ہیں اور ایسے نوادرات بھی ہیں جن کی نظیر دنیا کے کتب خانوں میں نہیں ملتی۔ علوم ومعارف کے اس قدیم خزینے کو دیکھ کر کویت میوزیم کے سابق ڈائریکٹر نے کہا کہ کویت میوزیم سے زیادہ نایاب اور قیمتی مخطوطات یہاں ہیں۔ تاریخ، فلسفہ، مذاہب، سائنس، آرٹ، ادب، طب، فلکیات، نجومیات، ریاضیات، طبقات الارض، فنون لطیفہ سے متعلق مخطوطات ہیں۔ جس کی تفصیلات مولانا امتیاز علی خاں عرشی کی 6 جلدوں پر محیط عربی مخطوطات کی فہرست، حافظ احمد علی شوق کی مرتب کردہ فہرست اور حکیم محمد حسین خاں شفا کی مخطوطات رام پور میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ واحد کتب خانہ ہے جہاں اونٹ کے چمڑے پر لکھا ہوا کوفی رسم الخط میں قرآن کریم کا ایک نسخہ ہے جو حضرت علی سے منسوب ہے۔ بغداد کے وزیر اعظم ابن مقلہ کا لکھا ہوا قرآن کریم کا ایک نسخہ صرف یہاں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ راج کمار منوہر اور راج کماری مدھو مالتی کی داستان عشق پر مبنی ملک منجن کی مدمالتی اور ملک محمد جائسی (1664-1542) کی اودھی زبان میں لکھی ہوئی مشہور عشقیہ داستان پدماوت کی مکمل کاپی صرف یہیں محفوظ ہے۔ مولانا امتیاز علی خاں عرشی کے بقول جو اس لائبریری کے ناظم تھے۔ "اس لائبریری کی سب سے پرانی کتاب قرآن مجید کا ایک نسخہ ہے، جسے بغداد کے وزیر اعظم ابن مقلہ (ابو علی محمد بن علی بن حسن بن عبداﷲ بن مقلہ بیضاوی، 272ہجری میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ 3عباسی خلفا مقتدر باﷲ، قاہر باﷲ اور راضی باﷲ کے دور میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے، حاسدین کی وجہ سے جیل میں ان کے ہاتھ کاٹ ڈالے گئے مگر اس کے باوجود وہ اپنے بازو کے ساتھ قلم باندھ کر خطاطی کرتے تھے۔ ثلث، ریحان، محقق، توقیع، نسخ اور رقع انہی کی ایجاد ہے۔ابجد کی نئی ترتیب بھی ان ہی کی دین ہے۔ راضی باﷲ کے عہد میں اس نابغہ عصر کو قتل کر دیا گیا۔ ح 1) نے 939ء سے دو تین سال پہلے لکھا تھا۔ یہی وہ شخص ہے، جس نے کوفی خط کو ایسا موڑ دیا کہ موجودہ خط نسخ پیدا ہو گیا۔ تذکرہ نگاروں نے بتایا ہے کہ ابن مقلہ نے اپنی زندگی میں قرآن مجید کی صرف دو کاپیاں تیار کی تھیں۔ رضا لائبریری کی خوش قسمتی ہے کہ ان میں سے ایک یہاں محفوظ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صرف ایک یہی نسخہ ہزارہا پونڈ قیمت کا ہے۔ یہ نسخہ اس لحاظ سے بھی نادر ہے کہ کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب کا بہت پرانا نمونہ ہے۔ قرآن مجید کی جو تفسیریں دنیا میں موجود ہیں، ان میں سب سے پرانی امام سفیان ثوری کی تفسیر ہے، اس کتاب کا یکتا نسخہ بھی یہاں موجود ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر حکومت ہند کی مدد سے لائبریری نے ابھی حال ہی میں اسے شائع کر دیا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی کا ایک عرب شاعر جریر بن عطیہ ہے۔ اس کا دیوان کئی بار چھپ چکا ہے، مگر رضا لائبریری میں اس کی جو کاپی محفوظ ہے اس میں ابن حبیب بغدادی کی مفصل شرح بھی شامل ہے۔ جو لوگ ابن حبیب بغدادی سے واقف ہیں، وہ اس شرح کی اہمیت کو پہچان گئے ہوں گے۔ فارسی قلمی کتابیں بھی اپنی تعداد اور حسن و خوبی کے لحاظ سے عربی کے ہم پلہ ہیں ان میں خصوصیت کے ساتھ تصوف، طب، تاریخ اور ادب پر اتنی اور ایسی ایسی کتابیں محفوظ ہیں کہ کوئی تحقیقی کام کرنے والا بھی ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ مثلاً "تفسیر طبری" کے فارسی ترجمے کی پہلی جلد یہاں ہے، جو اپنی قدامت اور خوشخطی دونوں کے لحاظ سے ایک قیمتی ہیرا ہے۔ "تفسیر زاہدی" فارسی نثر کے پرانے نمونوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے تین مکمل نسخے یہاں ہیں، جو خط بہاری کے بھی عمدہ نمونے مانے جاتے ہیں۔ کلیات سعدی، کلیات خسرو اور شاہنامہ فردوسی کے بھی بہت اعلیٰ اور پرانے نسخے محفوظ ہیں۔ عہد فیروز شاہی کی ایک فارسی کتاب محفوظ ہے، جو ہے تو فن ریاضی پر مگر اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں دفتری اصطلاحیں کیا تھیں اور مختلف انتظامی عہدوں کے فرائض کیا قرار دیے گئے تھے۔ اس کا نام "دستور الالباب فی علم الحساب" ہے۔ اس کی قدر و قیمت کی ہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا تک سے اس کے مائیکرو فلم طلب کیے گئے ہیں۔ طب کی مشہور کتاب "ذخیرۂ خوارزم شاہی" (ایران کے نامور طبیب سید اسمٰعیل جرجانی کا یہ طبی انسائیکلوپیڈیا ابن سینا کے القانون کی طرح ہے، جس میں منافع الاعضا ، تشریح الاعضا، علم الجنین ، تشخیص، سلعات، سرطانات، حفظان صحت اور دیگر طبی موضوعات و مباحث ہیں۔ ح الف) کا ایک ایسا نسخہ یہاں محفوظ ہے، جو مؤلف کے انتقال سے صرف 34 برس بعد 565ھ میں لکھا گیا ہے۔ اردو کی قلمی کتابیں اگرچہ تعداد میں عربی و فارسی سے کم ہیں، مگر قدر و قیمت کے اعتبار سے کسی طرح کم وزن نہیں۔ دیوان زادہ شاہ حاتم، کلیات میر، کلیات سودا، کلیات جرأت، کلیات حسن، دیوان سوز اور دیوان غالب کے بڑے اہم مخطوطے یہاں ملتے ہیں۔ انشاؔ کی "رانی کیتکی کی کہانی" کے دو قلمی نسخے یہاں محفوظ تھے، جن کی مدد سے اس کہانی کا صحیح ترین ایڈیشن تیار کیا جا سکا۔ یہاں غالب کا وہ اردو دیوان بھی موجود ہے، جسے غالب نے 1857 سے کچھ قبل مرتب کر کے نواب صاحب رام پور کو تحفے میں پیش کیا تھا۔ ہندی کی قلمی کتابوں میں بھی بہت سے نایاب نسخے ہیں۔ ملک منجن کی "مدمالتی" کی پوری کاپی صرف یہاں ہے۔ ملک محمد جائسی کی "پدماوت" کی جو کاپی یہاں ہے، وہ "پدماوت" پر کام کرنے والوں کے نزدیک بڑی قیمتی ہے، اس لیے کہ اس میں ہر لفظ کا صحیح تلفظ بتایا گیا ہے اور سطروں کے بیچ میں ہر ہندی لفظ کے فارسی معنی لکھے گئے ہیں۔ اس سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اب سے تین سو سال پہلے "پدماوت" کو کیسے پڑھا گیا تھا اور اس کا کیا مطلب سمجھا گیا تھا۔ سید غلام نبی رسلین بلگرامی کی "انگ درپن" اور شاہ محمد کاظم کی "نعمات الاسرار" اور شاہ عالم ثانی کی "نادرات شاہی" بھی رضا لائبریری کی دستار کا پھول ہیں۔"
رامپور رضا لائبریری میں رشید الدین فضل اﷲ کی منگول قبائل کی تاریخ پر محیط جامع التواریخ، شاہنامہ فردوسی، دیوان حافظ، سنسکرت کے پنج تنتر کا عربی ترجمہ کلیلہ و دمنہ کے مصور نایاب مخطوطے ہیں۔ فارسی نستعلیق میں بالمیکی کی رامائن اور بھگوت گیتا کی 13خطی جلدیں ہیں۔فارسی میں رامائن کا مصور نسخہ دیکھ کر ہندوستان میں سنگاپور کے سفیر نے کہا کہ انہوں نے رنگین تصویروں والی ایسی قدیم کتاب نہیں دیکھی ہے۔ اس لائبریری میں مشہور رومانی رزمیہ شاعر حکیم نظام الدین ابو محمدالیاس نظامی گنجوی (1202-1140) کی خمسہ نظامی گنجوی بھی ہے جس میں مخزن الاسرار، مثنوی خسرو و شیریں، لیلیٰ و مجنوں، ہفت پیکر، سکندر نامہ پانچ مثنویاں ہیں جس کی وجہ سے یہ خمسہ کہلاتی ہے اور وہ دیوان جامی بھی جس پر شہنشاہ اکبر کی ماں علی اکبر کی بیٹی حمیدہ بانو بیگم کی مہر ثبت ہے۔ نفحات الانس کا وہ نسخہ بھی اسی کتب خانے میں ہے جس کے سرورق پر بقول مولانا عرشی "داراشکوہ کی دو دستخطی تحریریں ثبت ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے خود اس کتاب کی تصحیح کی ہے اور دوسری بار جب اس کا مطالعہ کیا ہے تو اس وقت وہ نو شہرہ (صوبہ سرحد) میں مقیم تھا۔ یہ زمانہ وہی ہے جبکہ داراشکوہ (1659-1615) سکینتہ الاولیا لکھنے میں مصروف تھے۔ اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس نے نفحات کے اسی نسخے کو اپنی تصنیف میں پیش نظر رکھا تھا۔" مشہور رباعی گو منازل السائرین، زاد العارفین، کتاب اسرار کے مصنف اور مناجات کے لیے معروف خواجہ عبداﷲ انصاری (1088-1006) کا رسالہ خواجہ عبداﷲ انصاری بھی ہے جس کے آخری صفحے پر شاہ جہاں کی بڑی بیٹی جہاں آرا بیگم (1681-1614) کے دستخط ثبت ہیں اور یہ وہی نسخہ ہے جو شہنشاہ جہانگیر کے بیٹے السلطان الاعظم و الخاقان المکرم ابوالمظفر شہاب الدین محمد صاحبقرانی ثانی شاہجہاں(1666-1592) نے جہاں آرا کو دیا تھا۔ صد پند لقمان جیسی اہم کتاب بھی، جو ہرات کے میر علی (م 1544) جیسے خطاط کے خط نستعلیق میں ہے۔ مولانا امتیاز علی عرشی کے بقول پہلے مغل بادشاہ بابر (1530-1483) کی ترکی نظموں کا وہ مجموعہ بھی یہاں موجود ہے جسے اس نے خود پڑھ کر درست کیا اور آخر میں اپنے قلم سے ایک رباعی کا اضافہ کر دیا۔ اس کے شروع میں بیرم خاں کی تحریر اور آخر میں شاہجہاں کی تصدیق ہے۔"
رضا لائبریری کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں مغل، ترک، راجپوت، پہاڑی، اودھ اور فارسی پینٹنگس کے نایاب نمونے بھی ہیں۔ خاص طور پر جلال الدین محمد اکبر کے بیٹے نور الدین سلیم جہانگیر (1627-1569) کی وہ پینٹنگ ہے جس میں وہ جھروکے سے باہر دیکھ رہے ہیں۔ 17ویں اور 19ویں صدی کے بہت سے پورٹریٹس ہیں جو ہندوستانی آرٹ کے شائقین کے لیے نمونہ حیرت بھی ہیں۔ Barbara Schmitz اور Ziyaud-Din A۔ Desai نے رضا لائبریری میں مصور مخطوطوں اور مغل اور فارسی پینٹنگس کے تعلق سے 276 صفحات پر مشتمل ایک کتاب تحریر کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رضا لائبریری میں مصوری کے ایسے نادر و نایاب نمونے ہیں جو یقیناًہندوستانی آرٹ کو ایک نئی سمت سے آشنا کر سکتے ہیں۔ Indian Paintings Under the Mughal کے مصنف Percy Brown نے 22؍ستمبر 1917 میں جب اس لائبریری میں مصوری کے شاہکار دیکھے تو انہوں نے کہا یہ تصویریں مسرت کا سرچشمہ ہیں اور ان میں بعض نایاب اور نادر ہیں۔
رضا لائریری میں بقول سید احمد رامپوری فنان و خطاط "مشاہیر خطاطین کی نایاب وصلیاں بھی ہیں، جن میں میر علی ہروی، محمود شہابی، میر عماد، آقا عبدالرشید دیلمی، سید علی خاں حسینی جواہر رقم، حافظ نور اﷲ، خلیل اﷲ، محمد معز الدین محمد حسینی، محمد حسین کشمیری زریں قلم کے نام اہم ہیں۔ سید احمد ہی کے مطابق "رام پور رضا لائبریری میں میر علی ہروی کی وہ نادر نایاب وصلیاں محفوظ ہیں، جو دبستان ہرات اور دبستان بخارا میں تیار ہوئیں۔ ہرات کے نقش و نگار پر اصفہانی تزئین کاری کا غلبہ ہے اور بخارا کی وصلیوں پر ازبکستانی فن کا غلبہ۔" اسی تعلق سے رضا لائبریری کے افسر بکار خاص ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی نے 'خط کی کہانی تصویروں کی زبانی' کے مقدمے میں لکھا ہے کہ "رام پور رضا لائبریری میں خوش نویسان قدیم سلطان علی مشہدی، میر علی ہروی، میر عماد الحسن، محمد حسین کشمیری، آغا عبدالرشید دیلمی، عبدالباقی حداد اور دوسرے نامور خوش نویسان جن کی تعداد 400 سے زیادہ کی ڈھائی ہزار سے زیادہ نادر و نایاب وصلیاں محفوظ ہیں، جو کبھی شاہان مغلیہ کے کتب خانوں کی زینت تھیں۔"
اسی لائبریری میں فلکیاتی آلات بھی ہیں، قبل جدید عہد کے تقریباً 18 ایسے فلکیاتی آلات ہیں جن سے سائنس اور ٹکنالوجی کی تاریخ کی تشکیل کے سلسلے میں ہمیں مدد مل سکتی ہے۔ خاص طور پر السراج دمشقی، ضیاء الدین محمد، محمد ابن جعفر کے گلوب، جمال الدین محمد علی الحسینی کا جیب الزاویہ، مرزا افضل علی کا شب نما و روز نما اور اصطرلاب دائرہ نما موجود ہیں۔ Sreeramula Rajeswara Sarma نے Astronomical instruments in the Rampur Raza Library میں ساری تفصیلات درج کی ہیں۔
کسی بھی ادارے کی عظمت اور وقعت کا معیار اس سے وابستہ افراد بھی ہوتے ہیں۔ اس باب میں بھی رضا لائبریری کو اختصاص حاصل ہے کہ وہاں سے ممتاز مجاہد آزادی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پہلے چانسلر مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں (1863-1927) کی وابستگی رہی ہے۔ جنہوں نے کتب خانے کے افسر اعلیٰ کی حیثیت سے طب کی نادر کتابیں جمع کیں اور کتب خانے کے وقار میں اضافہ کیا۔ تذکرہ کاملان رامپور اور تاریخ کتاب خانہ رضا کے مصنف حافظ احمد علی خاں شوق (1863-1932)، تاریخ اودھ اور اخبار الصنادید کے مصنف علامہ نجم الغنی خاں، ممتاز محقق مولانا امتیاز علی خاں عرشی (8؍دسمبر 1904 ۔ 25؍فروری 1981) جیسی علم و فضل میں بے مثال ہستیاں بھی بحیثیت ناظم کتب خانہ رضا لائبریری سے وابستہ رہی ہیں۔ مولانا امتیاز علی خاں عرشی نے 31؍جولائی 1932 میں ناظم کتب خانہ کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تھا اور اپنی مدت کار میں انہوں نے ابو عبید القاسم بن سلام الہروی بغدادی کی کتاب الاجناس کی تدوین و تصحیح کے بعد اشاعت کا اہتمام کیا۔ اس کے علاوہ مجالس رنگیں (سعادت یار خاں رنگیں)، سید علی احمد یکتا کی تصنیف دستور الفصاحت (فارسی)، جلال الدین شاہ عالم ثانی کے مجموعہ کلام نادرات شاہی، دیوان الحادرہ (عربی)، کنور پریم کشور فراقی کی وقائع عالم شاہی، دیوان غالب، مرزا محمد حارث بدخشی دہلوی کی تاریخ محمدی اور تاریخ اکبری کی اشاعت انہی کے دور میں عمل میں آئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہی امام سفیان بن سعید بن سرور الثوری الکوفی کی تفسیر القرآن کریم، انشا اﷲ خاں انشا (1817-1757) کی رانی کیتکی کی کہانی اور ان کی غیر منقوط کتاب سلک گوہر کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ منشی امیر احمد امیر مینائی کا تعلق بھی اس کتب خانے سے رہا ہے۔ خط نسخ کے ماہرین مرزا غلام رسول، مرزا احمد حسن اور خط نستعلیق کے ماہر میر عوض علی عدیل ملیح آبادی بھی اس کتب خانے سے جڑے رہے ہیں جن کی وجہ سے فن خطاطی کو نہ صرف نئی جہت ملی، کتابوں کی تزئین کاری کے نئے امکانات روشن ہوئے بلکہ خوش نویسی کے فن کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ ایسے تزئین کاروں اورخوش نویسوں میں مولوی الٰہی بخش مرجان رقم، حکیم محمد مرتضیٰ، مولوی کریم اﷲ خاں لودھی، میر ناظر علی، میر رجب علی اور میر احمد حسن الحسینی، سید عزت علی، مہدی مرزا، محمد اکبر، محمد عبید اﷲ، جلیل احمد خاں، سید سعادت علی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ان لوگوں کی تزئین کاری اور تذہیب کاری کی وجہ سے لائبریری کی وقعت میں اضافہ ہوا۔
رضا لائبریری میں شعبہ اشاعت بھی قائم ہے جس کے زیر اہتمام بہت سی نادر و نایاب کتابوں اور مخطوطوں کی اشاعت عمل میں آئی۔ رضا لائبریری سے شائع ہونے والی بیشتر کتابیں حوالہ جاتی حیثیت کی حامل ہیں۔ محققین اور ناقدین کو ان کتابوں سے کافی رہنمائی ملتی رہی ہے۔ ان کتابوں میں وقائع عالم شاہی (فارسی)، تاریخ اکبری (فارسی)، تاریخ محمدی (مرزا رستم بدخشانی مرتبہ نثار احمد فاروقی)، انگ درپن، اخبار الصنادید، تاریخ شاہیہ نیشا پوریہ، واقعات مشتاقی (شیخ رزق اﷲ مشتاقی انگریزی ترجمہ و ترتیب :پروفیسر اقتدار حسین صدیقی اور وقار الحسن صدیقی)، فرہنگ قؤاس، یقظۃ النائمین (شاہ حامد ہرگامی)، مدھو مالتی، دستور الفصاحت کے علاوہ اوراق گل، مکاتیب شاہ ولی اﷲ (مرتب نثار احمد فاروقی)، اردو زبان اور لسانیات (پروفیسر گوپی چند نارنگ)، گھومتی ندی (وارث کرمانی)، اردو شاعری کے نیم وا دریچے (وارث کرمانی)، 19ویں صدی کے اردو اخبارات (ڈاکٹر شعائر اﷲ خاں)، سرگذشت دہلی (درخشاں تاجور)، رامپور کا دبستان شاعری (شبیر علی خاں شکیبؔ )، ادب گاہ رامپور (ہوش نعمانی)، فلسفہ الہندیہ القدیمہ (مولانا عبد السلام خاں)، خط کی کہانی تصویروں کی زبانی (سید احمد رامپور، فنان و خطاط) رام پور رضا لائبریری (مونوگراف 151 وقار الحسن صدیقی) رام پور رضا لائبریری کی علمی وراثت جیسی کتابیں شامل ہیں۔ 16؍اگست 1993 سے ممتاز آرکیالوجسٹ ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی نے افسر بکار خاص کی حیثیت سے عہدہ سنبھالتے ہی لائبریری کی اشاعتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور مخطوطات اور نوادرات کے تحفظ کے لیے بھی کوششیں کی ہیں۔ لائبریری کی ترتیب اور تنظیم نو میں ان کی مساعی جمیلہ ناقابل فراموش اور قابل تحسین ہیں۔ وقار الحسن صاحب کی دلچسپی اور لگن کی وجہ سے ہی لائبریری کا ترجمان "رضا لائبریری" جرنل کے نام سے تواتر کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جس میں نہ صرف متنوع موضوعات ہوتے ہیں بلکہ مختلف ادبیات کے حوالے سے گرانقدر تحقیقی مضامین کی شمولیت ہوتی ہے۔ نئے تحقیقی انکشافات اور نئی جہتوں کی جستجو اس مجلے کا امتیاز ہے۔ جرنل سے ہندوستانی تہذیب و تاریخ کے تعلق سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور رضا لائبریری رام پور کی علمی و تحقیقی پیش رفت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ جرنل کے شمارہ 13، 12 کی فہرست سے اس کے تنوع کا احساس ہوتا ہے۔ فارسی ادبیات، اردو ادبیات، تحفظ مخطوطات، اسلامیات، غالبیات، اودھ اور روہیل کھنڈ، شخصیات، وفیات کے ذیلی ابواب کے تحت قیمتی نگارشات شامل ہیں۔ وقار الحسن صدیقی نے تاریخی، تہذیبی وراثت کے تحفظ کے لیے گرانقدر کوششیں کی ہیں اور لائبریری کو بقول مشفق خواجہ ایک عظیم الشان علمی ادارے میں تبدیل کر دیا ہے جہاں اسکالرز مختلف موضوعات پر کام کرتے ہیں اور کچھ اسکالرز مخطوطات کی فہرست سازی اور نوادرات کے تحفظ میں بھی مصروف ہیں۔ مختلف موضوعات پر سیمنار بھی کرائے جاتے ہیں جس سے تاریخ اور تہذیب کی نئی صورتیں اور شکلیں سامنے آتی ہیں۔
یہ لائبریری اتنی اہمیت اور معنویت کی حامل ہے کہ اس کے نوادرات مخطوطات کے حوالے سے مشاہیر نے مضامین لکھے ہیں، جن میں قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی کا کتب خانہ رامپور 'معارف' اعظم گڑھ (مارچ1929)، سید ہاشم ندوی رام پور اور لکھنؤ کے کتب خانے کی سیر اور اس کی روداد 'معارف' اعظم گڑھ (1929)، مہدی خواجہ کا کتاب خانہ رضا رامپور جنرل آف عربک اینڈ پرشین انسٹی ٹیوٹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
رام پور کی رضا لائبریری دراصل کوہ نور ہیرا کی مانند ہے، وہی کوہ نور جو اس سرزمین کے راجہ سروا کے پاس تھا، جو شاید مہابھارت کی جنگ میں مارے گئے تھے۔

***
haqqanialqasmi[@]gmail.com
موبائل : 09891726444
D-64, Abul Fazal Encalve, Jamia Nagar, New Delhi
حقانی القاسمی

The lighthouse of language and literature, Rampur Raza Library . Article: Haqqani Al-Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں