آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائیبریری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-19

آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائیبریری


آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائیبریری ، افضل گنج ، حیدرآباد

حضور نظام نواب میر عثمان علی بہادر کا شمار ان حکمرانوں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ اپنی رعایا کی بھلائی کی بہبود و ترقی کا خیال رکھا کرتے تھے ۔ لیکن افسوس کہ مفاد پرست اور شر پسند عناصر حضور نظام کے بارے میں اپنی گندی زبانوں سے بے ہودہ الفاظ ادا کرتے ہیں ۔ ان کم ظرفوں کو یہ نہیں معلوم کہ آصف جاہ سابع نواب میر عثمان خان بہادر نے بلحاط مذہب و ملت عوام کی بہبود کو اولین ترجیح دی ۔
ریاست کے تمام بڑے آبیاشی پراجکٹس آصف جاہی حکمرانوں کی دین ہے ۔ اسی طرح آرٹی سی ، ریلویز سڑکیں ، بجلی وغیرہ بھی آصف جاہی حکمرانوں کے کارنامہ ہیں ۔ افسوس کے مسلمانوں کی خاموشی کے نتیجہ میں تمام تاریخی عمارتوں کی شناخت مٹائی جا رہی ہے ۔

عمومی طور سے ایسا لگتا ہے کہ حیدرآباد کے شہریوں میں اپنی شناخت کے تحفظ کا جذبہ ہی باقی نہیں رہا وہ ہر ناانصافی کو مسکرا کر سہہ لیتے ہیں ۔ جہاں تک آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کا سوال ہے حضور نظام نواب عثمان علی خان بہادر نے اس لائبریری میں سنسکرت ، تلگو ، مرہٹی ، کنڑی ، اور ہندی کی قیمتی کتابیں رکھنے کا حکم دیا تاکہ اسکالرس کو مدد مل سکے ۔ اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ کتب خانہ آصفیہ کی شناخت کو مٹانے کو کوششوں کو روکے ۔ ریلنگ کی اونچائی کم ہونے کے بہانے ریلنگ تبدیل کی جارہی ہے ۔ اگر اتنا ہی کرنا تھا تو پھر نیچے سے دیوار اٹھا کر قدیم ریلنگ اس دیوایں نصب کی جاسکتی ہے ۔۔

سلطنت آصف جاہی کے خاتمہ کے ساتھ ہی ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم حکمرانوں کے دور میں تعمیرکردہ تاریخی عمارتوں مقامات کی شناخت بدلنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
سب سے پہلے دنیا کی پہلی اردو یونیورسٹی "عثمانیہ یونیورسٹی" کی شناخت مٹانے کی ناپاک کوشش کرتے ہوئے اردو ذریعہ تعلیم کا ختم کیا گیا ۔ متعصب عناصر نے یونیورسٹی کے اس Emblem کی شکل بدل ڈالی جس پر عربی کلمہ اور حضور نظام کا تاج کنند کیا گیا تھا ۔
اسی طرح آندھراپردیش ہائی کورٹ سے لے کر باغ عامہ اسمبلی سے لے کر سکریٹریٹ ہر مقام کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی گئیں اور مسلمان بڑی بے بسی سے دیکھتے رہے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوموں کے نام و نشان کو مٹانے سے قبل اس کے تاریخی آثار کو تباہ کیا جاتا ہے ۔

شہر کی ایک ایسی تاریخی عمارت اور ریاست کے سب سے بڑے کتب خانہ یعنی آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کے بارے میں بھی یہ علم ہوا ہے کہ آج اس تاریخی عمارت کی بھی شناخت مٹائی جارہی ہے ۔

یہ کتب خانہ آصفیہ فروری 1891ء میں مولوی سید حسین بلگرامی نواب عماد الملک کی کوششوں سے شروع کیا گیا تھا لیکن 1936ء میں آصفیہ اٹیٹ سنٹرل لائبریری کی موجودہ عمارت کی 3 لاکھ روپیے کی لاگت سے تعمیر مکمل ہوئی تھی اور اس کا افتتاح آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر نے بہ نفس نفیس انجام دیا ۔
اس موقع پر حضور نظام نے فرمایا تھا کہ یہ کتب خانہ ملک کے دوسرے کتب خانوں سے کسی طرح کم نہیں ۔ یہاں اپنی ممتاز نوعیت و خصوصیت کی حامل کتب کا قمیتی ذخیرہ موجود ہے ۔

لیکن افسوس کے آج اس کتب خانہ کہ ہئیت و شناخت کو بدلنے کی کوشش کی جاری رہی ہے ۔ سابقہ دور میں اس کتب خانہ کو سارے ملک بلکہ بر صغیر ایشیا میں کافی اہمیت حاصل تھی ۔اس تعمیر کے موقع کےپر جو ریلنگ نصب کئ گئی تھیں اس میں آصف جاہ سابع کے آصف جاہی کا اور سلطنت کا مونو گرام دکھایا گیا تھا ۔ کتب خانے کی ریلنگ میں 60 مقامات پر اس طرح کے مونو گرام نصب کئے گئے تھے۔
لیکن اب ریلنگ نکالنے کے بہانے ان مونو گراموں کو تباہ کیا جارہا ہے تاکہ اس تاریخی عمارت پر حضور نظام یا سلطنت آصف جاہی کی کوئی نشانی باقی نہ رہے ۔ حد تو یہ ہے کہ آصفیہ اسٹیٹ لائبریری میں تعمیر کے وقت کسی مندر کا وجود نہیں تھا لیکن آج وہاں دو مندروں کو دیکھا جا سکتا ہے ۔

شہر کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی خاموشی کے نتیجہ میں متعصب عہدہ دار اور شرپسند افراد اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں ۔ ایک بزرگ شہری کے خیال میں حکومت کو چاہیے کہ آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کی ریلنگ کو دوبارہ نصب کردیا جائے اور جو بیڑ سے تیار کردہ مونو گرام نکالے گئے ہیں ان کی دوبارہ تنصیب عمل میں لائی جائے ۔

متعصب عہدیداروں اور سیاستدانوں کے باعث ہی آندھرا پردیش میں اعلیٰ سطح پر اردو ذریعہ تعلیم کا خاتمہ ہوا۔
جبکہ ایم بی بی ایس کے پہلے بیچ نے اردو میڈیم سے ہی اس کورس کی تکمیل کی تھی ۔ اسی طرح قانون کی تعلیم بھی اردو میں ہوا کرتی تھی۔ 1968 ء تک بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔

واضح رہے کہ کتب خانہ آصفیہ سلطنت حیدرآباد کا واحد علمی مرکز و خزانہ تھا جہاں نادر نایاب کتب رکھی گئیں تھیں ۔ بیرون ملک سے بھی ریسرچ اسکالرس یہاں آکر کتابوں سے استفادہ کیا کرتے تھے ۔ دو منزلہ اس عمارت کو شہریوں پر حضور نظام نواب میر عثمان علی خان بہادر کا احسان سمجھا جانا چاہیے ۔ اس کا ہر گوشہ مسلم طرز کا تعمیر بہترین نمونہ ہے ۔ سیڑھیاں اندرونی حصہ کے دو انتہائی پر کشش بلند و بالا ہال ، کھڑکیاں اور ان پر لگائے گئے رنگین شیشے اور جالیاں دیکھ کر ماہرین تعمیرات بھی حیرت میں پڑ جاتے ہیں ۔
اس عمارت کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا بیرونی مرکزی حصہ ، نصف دائرہ نما ہے ۔ بعض مورخین اور بزرگ شہریوں کا کہنا ہے کہ اس عمارت کا آرکیٹکچر کتاب کے نمونے پر تخلیق کیا گیا یے ۔
1956 تک اس کا نام کتب خانہ آصفیہ ہی رہا لیکن بعد میں "آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائبریری" سے موسوم کیا گیا اور پھر تعصب و شر انگیزی کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے اسے "اسٹیٹ سنٹرل لائبریری" کہا جانے لگا ۔ اس کتب خانہ میں عربی ، تلگو ، انگریزی ، ہندی وغیرہ کی 5 لاکھ سے زائد کتب ہیں جب کہ یہاں بچوں کے لیے اور طلبہ کے لیے بھی درسی کتابوں کا علحدہ سیکشن رکھا گیا ہے ۔

کاش ملت کے ہمدرد اس لائبریری کی حالت زار پر توجہ دیتے اور گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے میں مصروف جہد کاروں کو اپنے ساتھ لے کر حکومت سے نمائندگی کرتے تو شاید یہ نہایت معقول اور انصاف پسندانہ بات ہوتی۔

Asifia State central library

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں