1914ء میں ایک ہیبت ناک آگ نے جنگ عظیم کی صورت اختیار کرکے دنیا کو اپنی آتشیں لپیٹ میں لے لیا۔ اس آگ کا اولین شعلہ آسٹریا کے ولی عہد سلطنت اور اس کی بیوی کے قتل کا واقعہ تھا۔ یہ شعلہ راجیوؤ ہی سے اٹھا تھا۔ اس اہم واقعہ نے راجیوو کا نام اقصائے عالم میں مشہور تو کردیا لیکن اس بات سے بہت کم لوگ واقف تھے اور غالباً اب بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ خطہ یورپی مسلمانوں کے نزدیک مقدس ترین مقامات سے ہے۔ سراجیوو کی زیارت حج مکہ کے برابر سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ آس پاس کے باشندے عموماً غریب ہیں اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جو سفر عرب کی استطاعت رکھتے ہوں۔ جنوب مشرقی یور میں لکھوکھا مسلمان آباد ہیں اور صرف پولینڈ میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے۔ یہ سب مسلمان سراجیوو کو سارے بر اعظم میں علوم دینیہ کا واحد مرکز تصور کرتے ہیں۔ یہاں ایک یونیورسٹی بھی موجود ہے جسے نوداب کہتے ہیں۔ یوگو سلافیہ پولینڈ، بلگیریا اور روملہ کے وہ طالب علم جو قاضی بننا چاہتے ہوں اسی یونیورسٹی سے علوم دینیہ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں داخلے کی اجازت صرف ان امیدواروں کو دی جاتی ہے جو پہلے سراجیوو کے شریعت کالج سے بی اے کی سند حاصل کرلیں۔ نیز اس کے لئے عربی اور ترکی زبان کی تحصیل لازمی ہے۔ غرضیکہ تواب ایسی درسگاہ ہے جہاں دینیات کی تعلیم تکمیل کو پہنچ جاتی ہے۔ یہاں کا کتب خانہ قلمی نسخوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا کے اہم ترین کتب خانوں میں شمار ہوتا ہے۔
مملکت یوگو سلافیہ کی حدود کے اندر بوسنیا، ہرسیگونیا اور اس کے صدر مقام سراجیوو کے مسلمان عموماً وہ عیسائی ہیں۔ جو ترکوں کی صدہا سال کی حکومت کے دوران میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔
یوگو سلافیہ کے جنوبی علاقے میں حقیقی مسلمان آباد ہیں۔ یعنی وہ ترک جنہیں آپ رومانیہ اور بلگیریا میں دیکھتے ہیں اور جو اس سے پہلے یونان میں بھی بہت بڑی تعداد میں آباد تھے۔ صرف آخر الذکر ملک نے ترکی کے ساتھ اپنے ہم قوموں کا تبادلہ کرلیا چنانچہ یونان کی مسجدیں اب مومنوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے سونی پڑی ہیں۔ اور مرمت نہ ہونے کے باعث زمیں بوس ہوتی جارہی ہیں۔ پولینڈ کے مسلمان تاتاریوں کی اولاد ہیں۔
بوسنیا، ہرسگونیا اور جنوبی یوگو سلافیہ کے قریباً تمام باشندے مشرقی طرز کا لباساور فیض (ترکی ٹوپی) پہنتے ہیں۔ آپ ایک مسلمان اور ایک عیسائی میں تمیز صرف اس کی پیٹی کے رنگ سے کر سکیں گے۔ کیونکہ مسلمان کی پیٹی کا رنگ ہمیشہ سبز ہوگا۔ یا پھر ان کے چلنے کے طریق سے پہچانیں گے۔ مسلمان ہمیشہ اس گھوڑے یا گدھے کے آگے آگے چلے گا جس پر اس کی بیوی سوار ہوگی۔ لیکن ایک عیسائی ہمیشہ آگے آگے سوار جارہا ہوگا۔ اور اس کی بیوی پا پیادہ پیچھے آرہی ہوگی۔
لیکن آپ کو یہ باتیں یوں اجمالاً بتانے کا کیا فائدہ۔ آئیے میں آپ کو اپنے ساتھ سراجیوو کی سیر کراؤں۔ میں آپ کو یہاں کی ہرچیز دکھاؤں گا۔یہاں کے مرد، عورتیں بازار اور گلیاں اور یہاں کے رسم و رواج اور وہ ہر چیز جو اس متبرک شہرمیں موجود ہے۔
ساحل اڈریاٹک کے راستے سے سراجیوو کی طرف آتے ہوئے بوسینا ہرسیگونیا کا قریب قریب تمام علاقہ عبور کرنے کے بعد ہم ایسی وادیوں میں سے گزرتے ہیں جن کے گرد اگر د سوکھی اور برہنہ پہاڑیوں کی کورٹنکی ہوئی ہے آپ دور دور تک نظردوڑائیے۔ آپ کی حد نگاہ تک مشکل ہی سے کوئی درخت نظر آئے گا۔ کسی زمانے میں یہ پہاڑیان سر سبز جنگلوں سے لہلہارہی تھیں۔ لیکن گردونواح کے تمام راستے اور آبادیاں ان ڈاکوؤں کی تاخت و تاراج کا نشانہ بنی ہوئی تھیں۔ جو اپنا خونیں کام سر انجام دینے کے بعدان گھنے جنگلوں میں پناہ گزیں ہوجاتے تھے۔ چنانچہ ملک کو ان رہزنوں کے قہرمانی وجود سے پاک کرنے کے لئے یہ جنگل کاٹ ڈالے گئے۔
آج کل یہ سڑکیں کلیتاً محفوظ ہیں۔ اور ان عورتوں اور مردوں سے آباد نظر آرہی ہیں جو یورپ کے مکہ کو جارہے ہیں۔ اب ان پہاڑیوں کے خشک اور برہنہ رہنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ ہر طرف امن و امان نظر آرہا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات کہیں کہیں کوئی برقعہ پوش عورت سڑک کے گردوغبار میں یکہ و تنہا سفر کرتی دکھائی دے جاتی ہے۔
عام طور پر گھوڑوں اور خچروں کے بڑے بڑے کارواں دکھائی دیتے ہیں۔ جن پر ٹوکرے ، چوبی صندوق، بوریاں، عورتیں اور بچے لدے ہوتے ہیں۔ اور پھر کہیں کہیں برقعہ پوش عورتوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ جن کے آگے آگے ایک آدھ مرد بڑا سا سفید پگڑ سر پر رکھے اور سبز پٹکا باندھے چلاجارہا ہے۔ یہ سب لوگ اسی مقدس شہر کی طرف جارہے ہیں ، ہم بھی اسی سمت کو چلتے ہیں کیونکہ ہمارا مقصود بھی وہی ہے۔ لیکن ذرا تیز تیز چلئے ، جوں جوں ہم سراجیوو کے نزدیک پہنچتے جاتے ہیں۔ بھیڑ زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ بعض گروہ تو ایسے ہیں کہ ان کے چلنے سے گردوغبار کے بگولے اٹھتے ہیں اور آسمان پر چھا جاتے ہیں۔ کل حج کا دن ہے مسلمانوں کا وہ بڑامیلہ جو رمضان سے دو مہینے دس دن کے بعد منعقد ہوتا ہے۔
آپ جانتے ہوں گے"حج بیرم" چار روز تک منائی جاتی ہے اس کی ابتدابھیڑوں کی قربانی سے ہوتی ہے جو حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی یادگار ہے اس کا عملی مفاد و مقصد ملک کے نادار اور غریب افراد کو کھانابہم پہنچانا ہے۔
سڑک پر یا گاؤںمیں جہاں سے بھی ہم گزریں ہم ہر کسی کو سلام کرتے ہیں۔ سوائے عورتوں کے۔ کیونکہ یہاں کا رواج اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی مرد غیر عورت کو سلام کرے۔ ہر مسلمان سے ہم سلام علیک کہتے ہیں۔ اور ہر عیسائی کو دوبردان(روز بخیر) آپ یہ تو جانتے ہیں کہ ہم پٹکے کے رنگ سے ہر شخص کو پہچان لیتے ہیں۔ ہم جلد ہی شہر کے اندر داخل ہوجاتے ہیں ایک ایسی سہانی صبح کو جو سراجیوو جیسے خوبصورت مقام کے حسن کو اور بھی نکھار دیتی ہے۔ رنگا رنگ زندگی کے بو قلموں نظارے یکایک ہماری آنکھوں میں چکا چوند پید اکردیتے ہیں۔ ہمارے کانوں میں مصروف زندگی کا ایک مدھم سا نغمہ پہنچتا ہے اور یہ دو گونہ سحر ا پنے حسن و لطافت سے ہمیں مسحور کردیتا ہے۔ سنئے۔مینارہ مسجد سے موذن کی صدا بلند ہوتی ہے۔ وہ ایمان والوں کو نماز کے لئے بلارہا ہے اس کی سریلی آواز ایک مسرت زا نغمے کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ ایسی مسرت جو صرف زاہدوں کی عطا ہوتی ہے۔ اور پھر بعض اوقات اسی نغمے سے ایسے ہلکے اور امن و سکون کی کیفیت طاری کرنے والے سر نکلتے ہیں جو اس دنیا کے بجائے کسی اور دنیا سے متعلق معلوم ہوتے ہیں۔ موذن کی آواز شہر کے گلی کوچوں پر چھا جاتی ہے۔ جامع بیگو وہ کا مینار سراجیوو کا ہوشیار پہرہ دار ہے جو اسلام کے ہر پیرو کو اس کے فرائض یاددلاتا رہتا ہے۔مبادا دنیا کی دلفریبیاں اسے اپنے پیغمبر کے احکامات سے غافل کردیں۔
مسجد کے صحن میں ایک سکوت کا عالم طاری ہے۔ کھجور کے صد سالہ درخت خاموش کھڑے ہیں اور ان کی ٹہنیوں کے سائے ان کے سالخوردہ تنوں پر اٹکھیلیاں کررہے ہیں۔ پرانے چشمے میں سے پانی کی ہلکی ہلکی گنگناہٹ نمازیوں کی دعاؤں کی آوازیں انہی کی ہمنوا معلوم ہوتی ہے۔ اور مسجد کی پر ہیبت اور شاندار عمارت اس چمکتی ہوئی دھوپ میں اپنے بنانے والوں کی عظمت و جلال کااظہار کررہی ہے۔ سورج کی گرم گرم کرنیں سایوں کو چیرتی ہوئی اندر تک جا پہنچتی ہیں اور ستونوں کے گرداگرد سنہری فرش بچھارہی ہیں۔
اور مسجد سے باہر زندگی کے کاروبار اپنے تمام زوروشور کے ساتھ جاری ہیں۔ مسجد بیگوویا کے گردونواح میں تمام تر مشرقی آبادی ہے جو ایک طرف تونیچے دریائے ملاشکا تک چلی گئی ہے اور دوسری طرف اوپر پہاڑیوں کی گھاٹی تک جا پہنچتی ہے۔ بازار میں زندگی کی ایک لہر چل رہی ہے۔ مسلمان عورتیں فریجوں میں لپٹی ہوئی اور مسلمان مرد فیض ٹوپی اور سبز پٹکے پہنے ہوئے چلے جارہے ہیں۔ قہوہ خانوں میں سے گانے والی لڑکیوں کی یکساں آوازیں بلند ہورہی ہیں۔
سراجیوو ایک بلند پہاڑی پر ہے۔
میر ا محبوب دور پردیس میں گیا ہوا ہے
چھوٹی چھوٹی دکانیں گرانبہا مشرقی سازوسامان سے اٹی پڑی ہیں۔ فحدل کی دوکان مین مختلف النوع اشیاء کی نمائش سے متاثر ہو کر ہم اندر جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہاں نہ صرف جواہرات ، رنگا رنگ کی زنجیریں اور عہد عتیق کے ایرانی زربفت و کمخواب ہیں بلکہ زمانہ قدیم کے سنہری اور روپہلی ہتھیار اور گزری ہوئی شان و شوکت کی ہزاروں دوسری نشانیاں بھی موجود ہیں۔
فحدل اپنے ہم وطن مسلمان بھائیوں کی روایات پر پوری طرح عمل کرتا ہے۔ وہ ہم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ ہم کیا خریدنا چاہتے ہیں وہ صرف ہماری خاطر تواضع کرے گا کیونکہ سراجیوو کا یہی دستور ہے۔ سب سے پہلے وہ ہمیں چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں ترکی قہوہ پیش کرتا ہے اور پھر ہم ان گزرے ہوئے اچھے دنوں کا ذکر لے بیٹھتے ہیں جو اب کبھی نہ لوٹیں گے۔ ترکوں کی حکومت کا زمانہ اس کے اہل و عیال کی خیروعافیت اور پھر آخر کار گفتگو ان چیزوں کی طرف لوٹتی ہے جن سے اس کی دکان بھری پڑی ہے۔ ہمارے عین سامنے سناروں کا بازار ہے۔ جہاں سے بے شمار ہتھوڑوں کے چلنے کی آواز آرہی ہے لیکن یہ تمام شور فحدل کی دلچسپ کہانیوں کے سننے میں مخل نہیں ہوتا۔
اس کی دکان میں آئے ہوئے ہمیں قریباً ایک گھنٹہ ہوگیا ہے اور یہ وت خوب کٹا ہے بوڑھا فحدل بڑا تجربہ کاراور جہاندیدہ شخص ہے۔ یکایک وہ جلد ی سے اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے ، ہم حیران رہ جاتے ہیں کیونکہ ایسی حرکت اس کی طبیعت کے سراسر خلاف ہے۔
ماشاء اللہ ، اس کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے۔ آنے والا یقینا عیسائی ہے اور ہمیں اس سے کچھ دلچسپی سی ہوجاتی ہے۔ ہم خاموشی سے ان کے مزاج پرسی کے فقرات سنتے رہتے ہیں۔ آخر وہ دونوں قالین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ہاروٹس آفندی، اس کے بعد فحدل ہمارا تعارف کراتا ہے، اس دفعہ ہم اسی رسمی علیک سلیک اور مزاج پرسی میں الجھ جاتے ہیں۔۔۔ماتھوں کو سینے پر رکھتے ہیں۔۔ اور پھر جلدی ہی ہم سراجیوو کے متعلق باتیں کرتے کرتے گردوپیش کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ہاروٹس غیر معمولی ذہانت کامالک اور ایک مہذب انسان ہے۔ وہ بیرسٹر بھی ہے اور جنوبی یورپ کے مسلمانوں کے حالات پر اسے پور ا عبورحاصل ہے۔ میں عیسائی ہوں ، اس نے کہا لیکن میرے دل میں اپنے ہم مذہب بھائیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لئے زیادہ عزت اور محبت ہے۔ عیسائیوں میں ابھی بے شمار ایسی باتیں موجود ہیں جن پر انہیں شرمسار ہونے کی ضرورت ہے لیکن وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں اور میرے دوستوں کی ذہنیت کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ یہی دوسروں کو چڑانے والا طرز عمل اس خلیج کو وسیع تر کرتا چلاجارہا ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان حائل ہے۔
دوپہر ہونے کو آئی ہے۔ ہم فحدل کی دکان سے رخصت ہوتے ہیں۔بازاروں اور گلیوں کی بھیڑ میں سے ڈاکٹر ہاروٹس ہماری رہنمائی کررہے ہیں۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہاں کا ہر بازار ایک علیحدہ تجارت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ان بازاروں کو یہاں چار شیا کہتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم باش چارشیا یا اصلی چارشیا ہے یہ ایک چھوٹا سا چوک ہے جس کے عین درمیان ایک اخبار فروش کی دکان ہے۔
یہاں روزانہ ایک بازار لگتا ہے۔ اس جگہ نقاب پوش عورتیں بھی انڈے ، مکھن، اور چوزے بیچتی نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر ہاروٹس کہتی ہیں کہ جنگ عظیم سے قبل کوئی مسلمان خاتون اس طرح شارع عام میں آنے کی جرات نہ کرسکتی تھی۔ لیکن افلاس و غربت نے رسوم و رواج اور روایات کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔
ہاں، اسی طرح رفتہ رفتہ تمام روایات غائب ہوتی جارہی ہیں۔ پردے کے رواج کو بھی بڑا ضعف پہنچا ہے۔ اگرچہ دوسری رسوم کے مقابلے میں کم۔ یہاں سراچی بازار میں جہاں صرف موچی ہی بیٹھا کرتے تھے ابھی سے کئی دوسری دکانیں کھل گئی ہیں۔
تجارتی مقابلہ سخت تر ہوتا چلاجارہا ہے۔ کارخانے ہر قسم کی دستکاریوں کو تباہ کررہے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کئی پکا مسلمان کسی راہرو کو اپنی دکان میں بلانے کے لئے کبھی متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ صبح سے شام تک وہ اپنی دکان میں سامان تجارت سے گھرا ہوا آلتی پالتی مارے قالین پر بیٹھا رہے گا۔ بعض اوقات اس کے پاس دوست یا گاہک بھی آبیٹھیں گے جن کی تواضع وہ قہوے اور حقے سے کرتا رہے گا۔ وہ اپنی تقدیر پر شاکر ہے۔ جو اگر یاور ہوئی تو گاہک کو خود ہی اس کی دکان پر لے آئے گی۔ انشاء اللہ۔ اگر خدا نے چاہا۔ اور اگر خدا نے نہ چاہا تو بھی وہ راضی بہ رضا ہے۔ کیونکہ خدا کی مرضی یہی تھی۔ چنانچہ دولت اور تجارت آہستہ آہستہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے دولت کی کمی کے ساتھ ساتھ تعلیم کے امکانات بھی لازمی طور پر کم ہورہے ہیں اور وہ اپنے آپ کو غلط روایات کی پابندی سے ایک پس ماندہ قوم بنارہے ہیں۔ اور دل میں سمجھتے ہیں کہ اللہ کی مشیت اسی میں ہے۔
سراجیوو میں سو سے کچھ اوپر مساجد ہیں لیکن ان سب میں دو مسجدیں اپنی عظمت و شان کے لحاظ سے اہم ترین خیال کی جاتی ہیں۔ جامع زاریوہ، اور جامع بیگووہ۔ انمیں آخر الذکر بزرگ تر اور زیادہ قیمتی سازوسامان سے مزین ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترکوں کے پنج صد سالہ دور حکومت میںمشرقی رسم و رواج اور خیالات یوگو سلافیہ کے باشندوں کے رگ و دریشے میں ایسے سرایت کرگئے کہ اب ان کی قلب ماہیت ہوچکی ہے اور وہ مشرقی خصوصیات کے پتلے بن گئے ہیں۔ وہ نوشتہ تقدیر کے قائل ہیں ل یکن انہوں نے ترکی تاثرات کے ماتحت اس خصوصیت میں بھی مبالغے کی حد تک ترقی کرلی ہے کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایک مغربی قوم نے مشرقیت کو اس قدر جذب کرلیا ہے ، اس حقیقت کو ڈاکٹر ہاروٹس نے مندرجہ ذیل کہانی کے ذریعے سے واضح کیا:
"میرے ہم وطن بھی، الف لیلہ، اور سخی آقا اور وفادار خادم، جیسی کہانیوں سے بہت شغف رکھتے ہیں۔ آپ نے غالباً محسوس کیا ہوگا کہ جامع زاریوہ یعنی شاہی مسجدبہت ہی چھوٹی ہے اور سراجیوو کی سب سے بڑی مسجد پر سلطنت کے ایک عہدہ دار حستریف بیگ کا نام کندہ ہے۔ لوگوں نے اس معمے کی توجیہ پربہت غوروفکر کیا ہے۔ اور اس غوروفکر کا نتیجہ مندرجہ ذیل افسانے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں استنبول میں سلطان فاتح حکمران تھا جوبڑا صاحب دل اور خدا دوست انسان تھا۔ اس نے اپنے وزیر حستریف بیگ کو ہمارے شہر میں دو مسجدیں تعمیر کرنے کا حکم دیا۔بیگ شہنشاہ کا بڑا وفادار اور فرمانبردار خادم تھا۔ اس نے شہنشاہ کے احکام کی پوری پوری تعمیل کی۔ چنانچہ اس نے جو بڑی مسجد تعمیر کرائی اس پر شہنشاہ کا نام لکھا گیا اور چھوٹی مسجد پراس کا اپ نا نام نقش کیا گیا۔ اور یہی اس کے آقا کے احکام تھے۔ استنبول میں واپس جاکر اس نے بادشاہ کی مسجد کی بہت تعریف کی۔ شہنشاہ نے کہا میرے بیٹے تونے مجھ پر بڑا احسان کیا لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج سے اس بڑی اور خوبصورت مسجد پر تیرا نام لکھاجائے اور چھوٹی مسجد میرے نام سے مشہور ہو، کیونکہ میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت چھوٹا اور حقیر سمجھتاہوں۔
ہمارا مہربان رہبر ہمیں ایک عجیب جگہ دکھاتا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں ایک عمارت تھی جس کا نام طاشلی حان(حان خانہ) تھا۔ یہ عمارت کئی منزلوں پرمشتمل تھی اور شہر کے تجارتی مرکز میں واقع تھی۔ اس کی عجیب و غریب خصوصیت اس کے مالکانہ حقوق کی نوعیت تھی۔ سب سے نچلی منزل کامالک زمین مالک بھی تھا۔ لیکن اوپر کی منزل کے مالک کو صرف ہواپرمالکانہ حقوق حاصل تھے۔
جامع زاریوہ کے نزدیک جس پر مسلمانوں کا سبز جھنڈا لہرا رہا ہے۔ پاووا کے سینٹ النطون کا گرجا بھی واقع ہے۔ جمعہ کے روز پانچ بجے شام کے قریب ڈاکٹر ہاروٹس ہمیں لئے ہوئے وہاں پہنچتے ہیں۔ گرجے کی عمارت میں کوئی تعمیری حسن نہیں ہے لیکن اس میں کوئی خاص بات ضرور ہے۔ ہر منگل اور جمعہ کے دن تیسرے پہر کے قرییب عیسائی، مسلمان اور یہودی زائر دور دور سے آکر یہاںجمع ہوجاتے ہیں۔ سینٹ النطون گمشدہ چیزوں کی بازیافت میں ممدومعاون ہوتے ہیں خدا جانے یہ غیر معمولی قبولیت انہیں کس طرح حاصل ہوئی کہ ہر مذہب و ملت کے انسان ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر اپنی ذات اور عقیدت کے پھول ان کے بت پر چڑھاتے ہیں۔
نصف گھنٹے کے بعد ہم باش چار شیتہ سے آگے ایک ڈھلوان گلی میں چڑھتے ہیں۔ یہاں سنان تکیہ، یعنی رقص کرنے والے مسلمان درویشوں کی خانقاہ ہے۔ ہمارے دائیں ہاتھ کر ایک تنگ سی گلی میں ایک تنہا مینار آسمان سے باتیں کررہا ہے۔ یہ گمشدہ مینار ہے۔ اس سے متعلقہ مسجد نیچے شہر کی آبادی میں واقع ہے لیکن مینار اس جگہ اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس حصہ شہر کے لوگ موذن کی آواز سے محروم نہ رہ جائیں۔
طبینا بازار میں متمول مسلمان رہتے ہیں۔ اگرچہ عام مسلمان افلاس و غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں لیکن بعض کے پاس ابھی تک اپنے آبا و اجداد کا کچھ نہ کچھ اندوختہ باقی ہے۔ مسلمانوں کے گھروں کی حالت ان کی نکبت و افلاس کی آئینہ دار ہے ۔ بازار سے گزر کر ہمیں گھروں کی چار دیواری کے اوپر لک ڑی کے پردے نظر آتے ہیں۔ یہ پردہ گھر کی عورتوں کو ہمسایوں اور رہ گزروں کی گستاخ نگاہوں سے محفوظ رکھنے کے لئے لگایا گیا ہے۔ گھر کی عورتوں میں ایک بیوی ماں بہنیں اور بیٹیاں ہوتی ہیں۔ یہاں کے مسلمان تعدد ازدواج کے قائل نہیں ہیں۔
مسلمانوں کو ہمسائے کی جائیداد خریدنے کے لئے حق شفع حاصل ہے۔ حق شفع اختیار ی حق ہے۔ جس سے استفادہ کرنا اپنی مرضی پر موقوف ہے۔ ایک مشہور قول ہے؛
"اپنی جائداد کو نا مرغوب ہمسائیگی سے بچاؤ۔۔"
ہم باش چار شیہ، کی طرف واپس آتے ہیں جہاں بڑی بھیڑ ہو رہی ہے۔ آؤ دیکھیں یہاں کیاہورہا ہے۔ اس بھیڑ کے درمیان ایک عجیب ہیئت کا آدمی ایک سفید گھوڑے پر بیٹھا ہے۔ باوجود مقطع صورت ہونے کے وہ ایک عجیب و غریب شخصیت کا مالک معلوم ہوتا ہے۔
یہ شیخ عثمان ہے، ڈاکٹر ہاروٹس ہمیں بتاتے ہیں۔ بد قسمت عاشقاس کی پرستش کرتے ہیں۔ وہ دیکھئے کاغذ کے چھوٹے چھوٹے پرزوں پر تعویذ لکھ لکھ کر ا پنے عقیدت مندوں میں تقسیم کررہا ہے۔ اورانہیں کہہ رہا ہے کہ متواتر تیرہ دن تک انہیں ہر روز علی الصباح بازار کے نلوں سے پانی پینا ہوگا چودھویں صبح کو دل کی مراد حاصل ہوجائے گی۔ اس کا فوٹو نہ اتارئیے اسے ان باتوں سے نفرت ہے اس کا عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن اسے اپنی ہر تصویر میں جان ڈالنی پڑے گی۔
رات کے وقت بازار سنسان ہوجاتے ہیں۔ اور گلیوں پر سکوت چھاجاتا ہے۔ سوائے مسجدوں کے جہاں کھجور کے پرانے درخت ایک ہلکا اور میٹھا راگ الاپ رہے ہیں۔ لیکن شہر سے پرلے پہ اڑ کی ان گھاٹیوں میں جہاں مسلمان آباد ہیں محبت بھرے اور غم ناک گیتوں کی لے تاریک فضا میں گونجتی ہوئی ستاروں سے سر گوشیاں کررہی ہیں۔ ان گیتوں کو سودالیوک کہتے ہیں اور انہیں کے ذریعے سے شیخ عثمان کے معتقد اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ ان میں کچھ عشاق زیادہ خوش قسمت بھی ہیں جو ا پنے محبوب کے مکان کی کھڑکی کے نیچے کھڑے ہوئے سروشبانہ کے ذریعہ سے اپنا افسانہ محبت سنا سکتے ہیں۔ انہیں اس بات کا علم ہے کہ ان کی محبوبہ کھڑکی کی آہنی سلاخوں کے پیچھے موجود اس نغمہ محبت کو سن رہی ہے۔ عاشق و معشوق کی اس قسم کی ملاقات کو آشک لیوک کہتے ہیں۔ یوسنیا کے نوجوان مسلمانوں کو دوسرے اسلامی ملکوں کے رسوم و رواج کے خلاف اس طور پر اپنی محبوبہ سے ملاقات کرنے کی اجازت ہے۔ لڑکا اپنے لئے ایک لڑکی کا انتخاب کرلیتا ہے اور پھر صرف والدین سے اجازت حاصل کرنا باقی رہ جاتا ہے۔ ان ملاقاتوں میں صرف ایک پابندی لازمی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ نوجوان عاشق اپنی محبوبہ کو حرم کی کھڑکی سے ہفتہ میں صرف ایک مرتبہ جمعہ کی شام کو دیکھ سکتا ہے۔
ان تکلیف دہ ڈھلوان گلیوں میں سے ہم اوپر ہی اوپر چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اس پہاڑی کی چوٹی پر ہنچ جاتے ہیں جو سراجیووکے نواح میں سب سے بلند ہے۔ شہر کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ بے شمار جگنوؤں کی طرح دورنیچے نظر آرہے ہیں اور ان کا عکس دریائے ملاشکا کی سطح پر پڑ کر شہر کے حسن کو دوبالا کررہا ہے۔ شہر کے شوروشغب کی جگہ ایک مدھم سی میٹھی راگنی ہم تک پہنچ کر فضا ئے آسمانی میں غائب ہورہی ہے۔۔۔ایسے جیسے کوئی ان دیکھا عاشق اس زندہ جاوید شہر کا مدحی نغمہ ہلکے ہلکے سروں میں گارہا ہو۔
Sarajevo, the Mecca of Europe.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں