اردو کی ہندوستانی بنیاد - گوپی چند نارنگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-21

اردو کی ہندوستانی بنیاد - گوپی چند نارنگ

urdu-foundation-in-india

اردو کا تعلق ہندوستان اور ہندوستان کی زبانوں سے بہت گہرا ہے۔
یہ زبان یہیں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی۔ آریاؤں کی قدیم زبان سنسکرت یا انڈک چار پشتوں سے اس کی جد امجد قرار پاتی ہے۔ یوں تو ہندوستان میں زبانوں کے کئی خاندان ہیں لیکن ان میں سے دو خاندان خاص ہیں:
ایک دراوڑی اور دوسرا ہند آریائی۔
ہند آریائی خاندان کی زبانیں پورے شمالی ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جنوب میں گجرات اور مہاراشٹر تک انہیں کا چلن ہے۔ مسیح کی پیدائش سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب آریا ہندوستان میں داخل ہوئے تو جو عوامی بولیاں وہ بولتے تھے، ان کے مجموعے کو انڈک کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ چاروں وید انہیں عوامی بولیوں میں تخلیق کیے گئے تھے۔ بعد میں پانینی اور پاتنجلی کے زمانے تک انہیں بولیوں کے منزہ اور ششتہ روپ کو "سنسکرت" کے نام سے پکارا جانے لگا۔ بودھوں اور جینیوں کے دور میں یہی بولیاں اپنے ارتقاء کی دوسری منزل میں داخل ہو گئیں اور "پراکرتیں" یعنی فطری بولیاں کہلائیں، اور آگے چل کر پانچویں صدی عیسوی کے لگ بھگ ان کی بگڑی ہوئی شکلیں جو "اپ بھر نشیں" کہلاتی تھیں، استعمال میں آنے لگیں۔ یہ ہند آریائی کے ارتقاء کی تیسری منزل تھی۔ بعض پراکرتیں شروع سے رائج تھیں۔ اپ بھر نشوں میں سب سے زیادہ اثر والی مرکزی اپ بھرنش 'شور سینی اپ بھرنش' کہلاتی تھی۔ یہ اپ بھرنش پنجاب کے مشرقی حصوں سے لے کر اودھ کے مغربی حصوں تک رائج تھی اور اس کی کئی بولیاں تھیں۔
دسویں صدی عیسوی کے لگ بھگ یہ اور دوسری ہند آریائی بولیاں اپنے ارتقا کی چوتھی منزل میں داخل ہوئیں جسے جدید ہند آریائی زبانوں کا دور کہا جاتا ہے۔ یہی زمانہ مسلمانوں کے ہندوستان آنے کا بھی ہے، جب سیاسی نقشے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے تہذیبی اور لسانی نقشے میں بھی تیزی سے تبدیلیاں ہونے لگیں۔ ہندی، اردو اور پنجابی اسی شور سینی اپ بھرنش کی جانشیں ہیں۔ گریرسن کی تقسیم کے مطابق ہندی کی دو شاخیں ہیں:
مشرقی ہندی اور مغربی ہندی۔
مشرقی ہندی میں اودھی، بگھیلی ، چھتیس گڑھ، وغیرہ بولیاں شامل ہیں اور مغربی ہندی میں کھڑی، برج، ہریانی وغیرہ۔ جدید معیاری اردو اور جدید معیاری ہندی دونوں کا تعلق اسی مغربی ہندی سے ہے۔ اس لحاظ سے اردو اور ہندی کا رشتہ سگی بہنوں کا ہے اور ان دونوں کی بنیاد ایک ہے۔

اردو کے ارتقاء کی کہانی ہندی کے ارتقاء کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ داستان خاصی دلچسپ ہے کہ ان دونوں کا ارتقاء مغربی ہندی کی بولیوں کے ساتھ مل کر کیسے ہوا۔ اردو کی ساخت، ڈول اور کینڈے کا تعین دسویں، گیارہویں صدی سے سترھویں اٹھارویں صدی تک ہوتا رہا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اشتراک اور نئی تاریخی اور تہذیبی ضرورتوں کے تحت جو زبان پیدا ہو رہی تھی وہ کئی ناموں سے پکاری جاتی تھی۔ کبھی وہ ہندوی کہلاتی تھی، کبھی گجری، کبھی ریختہ، کبھی اردو، کبھی ہندی اور کبھی دکنی۔
شاہ جہاں کے زمانے کے بعد قلعۂ معلی کی رعایت سے اسے زبان اردوئے معلی بھی کہا جانے لگا۔ عام زبان 'ہندوستانی' کے نام سے جانی جاتی تھی۔ بازاروں میں جہاں لین دین ہوتا تھا اور جہاں تجارت کی مجبوریوں سے ایک ملی جلی زبان بولنی پڑتی تھی وہاں تو اس نوزائیدہ زبان کا استعمال ہوتا ہی تھا، اس کے علاوہ یہ سنتوں اور صوفیوں کی زبان بھی بن گئی تھی۔ عوام کے دلوں تک پہنچنے کے لیے نہ تو سنسکرت کا استعمال کیا جا سکتا تھا، نہ فارسی کا بلکہ کسی ایسی زبان کی ضرورت تھی جو عام فہم ہو اور جو سب کی سمجھ میں آ سکے۔ اور یہ منصب اسی گری پڑی ملی جلی ریختہ زبان کو نصیب ہوا۔
ہندی والے اس کی ابتدا برنج کے آغاز سے کرتے ہیں اور اردو والے پنجابی اور کھڑی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عہد وسطی میں ہندو تہذیبی روایتوں کا لسانی وسیلۂ اظہار برج تھی ، اور ہندو اور مسلمانوں کے پہلے ہمہ گیر تہذیبی اور لسانی سابقے کی سرزمین پنجاب تھی۔ برج تو شورسینی کی سچی جانشین تھی ہی اور اس کا ارتقاء تو ہونا ہی تھا، عین ممکن ہے کہ وہ بولی جو آگے چل کر 'کھڑی' کہلائی، بڑی حد تک ہندوؤں اور مسلمانوں کے لسانی اور تہذیبی اشتراک سے اپنی نشوونما میں براہ راست طور پر متاثر ہوئی ہو۔ وہ یوں کہ پرانی ہندوی بولی کے نمونوں کا ذکر بارھویں اور تیرھویں صدی سے ملنے لگتا ہے۔ قیاس کہتا ہے کہ یہ نوزائیدہ زبان ایک طرف تو پرانی پنجابی سے مختلف ہوگی ، دوسری طرف برج سے۔ افسوس کہ مسعود سعد سلمان کا، جو محمود غزنوی کے زمانے میں لاہور کے شاعر تھے، ہندوی کلام دستیاب نہیں۔
محمد عوفی نے اپنے تذکرہ 'لباب الالباب' میں تصدیق کی ہے کہ مسعود نے ہندوی میں شعر کہے تھے۔ اگر اس زبان کی ابتدا گیارھویں اور بارہویں صدی میں غزنویوں کے زمانے میں تسلیم نہ بھی کی جائے تب بھی اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ امیر خسرو کے زمانے تک بہ زبان ایک خاص حد تک ترقی کر چکی تھی۔ امیر خسرو نے اپنے تیسرے فارسی دیوان میں ہندوی میں شعر کہنے کا فخریہ اعتراف کیا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ امیر خسرو کو اردو اور ہندی والے دونوں اپنا پہلا شاعرتسلیم کرتے ہیں۔
امیر خسرو کا انتقال 1325ء میں ہوا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پہلے خلجیوں کی فوجوں نے دکن پر حملہ کیا تھا، اور اس کے بعد جب محمد تغلق نے پایۂ تخت دیوگیر (دولت آباد) منتقل کیا تو یہی زبان وہاں جا کر گجری اور دکنی کے نام سے موسوم ہوئی اور نہایت تیزی سے ادبی زبان کا درجہ حاصل کر گئی۔
شمالی ہندوستان میں ابھی فارسی کا اثر تھا، اس لیے شمال کے مقابلے میں دکن میں اس پرتوجہ زیادہ تھی۔ مگر شمال میں بھی عوامی تحریکوں اور صوفیوں اور سنتوں نے اس کی مقبولیت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اگرچہ کرشن بھگتی تحریک اور اکبر کے آگرہ کو راجدھانی بنانے سے برج کا ستارہ پھر سے چمک اٹھا لیکن شاہجہاں نے جب دہلی کو دوبارہ بسایا تو کھڑی بولی اس وقت تک اپنے آپ کو پہچان چکی تھی اور دہلی کی سیاسی اور تہذیبی مرکزیت کی وجہ سے اس کا اثر نئی ریختہ زبان پر غالب آنے لگا، اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو، زبانِ اردوئے معلی کے منصب پر فائز ہو گئی، اور اورنگ زیب کے بعد سے تو اس میں جیسے شعر و شاعری کی شاہراہ کھل گئی، اور زبردست ادبی سرگرمی شروع ہو گئی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ہندی ادب ابھی برج، اودھی اور راجستھانی بولیوں کا رہین منت تھا۔ یہ سب بولیاں بھی ہندی کہلاتی تھیں، اور اردو کو بھی ہندی کہنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ دراصل اس وقت تک اردو اور ہندی دو زبانیں تھیں ہی نہیں ورنہ فضل علی فضلی اپنی 'کربل کتھا' کی زبان کو 'ننژ ہندی' کیوں کہتے؟ یا محمدحسین خاں عطا حسین 'نو طرز مرصع' کے سبب تالیف میں "عبارت رنگین بہ زبان ہندی" لکھنے پر فخر محسوس کیوں کرتے؟ یا غالب اپنی اردو نثر کے لیے لفظ "ہندی" استعمال کیوں کرتے؟
فورٹ ولیم کالج میں اردو اور ہندی میں الگ الگ درسی کتابیں لکھوائی گئیں۔ یہاں چند ہندی منشیوں کو خاص اس خدمت پر مامور کیا گیا کہ وہ اس زمانے کی ضرورت کے پیش نظر ہندی نثر کی کتابیں تیار کریں۔ اس کے بعد کے برطانوی تسلط، سامراجی حکمت عملی ، سیاسی دباؤ اور باہمی شک و شبہ نے ایک پیڑ کی دوشاخوں کو الگ الگ کر کے رکھ دیا اور ایک بڑے تنے سے دو درخت الگ الگ بنتے چلے گئے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہندی اور اردو کے الگ الگ ادبی زبان بن جانے سے ان دونوں کا لسانی رشتہ ختم ہو گیا۔ دونوں کی ادبی روایتیں، ادبی معیار، ادبی موضوعات اور ادبی تاریخ کتنی ہی الگ الگ کیوں نہ سہی ، دونوں کا لسانی ڈھانچہ اب بھی ایک ہے۔ اول تو دونوں کی تقریباً چالیس آوازوں میں صرف پانچ چھ کو چھوڑ کر باقی سب کی سب ایک ہیں۔
ہند آریائی زبانوں کی سب سے بڑی پہچان ہکار آوازوں ۔۔۔ بھ، پھ، تھ ، دھ، چھ، جھ، کھ، گھ، کا پورا سیٹ ہے جو اردو میں پورا کا پورا موجود ہے۔ اس کے علاوہ معکوسی آوازیں ٹ، ڈ، ڑ، اور ٹھ، ڈھ، ڑھ، بھی اردو میں جوں کی توں موجود ہیں۔ یہ آوازیں نہ عربی میں ہیں نہ فارسی میں۔ صرف و نحو کا معاملہ یہ ہے کہ اسمائے صفت تو اردو نے بڑی تعداد میں عربی فارسی سے لیے لیکن اردو فعل کا سرمایہ سارا کا سارا دیسی ہے۔ اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، آنا، جانا۔۔۔ سینکڑوں ہزاروں فعل جو زبان کی ریڑھ کی ہڈی ہیں کلیتاً ہند آریائی ہیں۔
یہی معاملہ مرکب افعال، مثلاً آ جاتا، گر پڑنا، مار ڈالنا، ٹوٹ جانا ،سن لینا، دے دینا وغیرہ کا ہے۔ یہ جیسے ہندی میں ہیں ویسے ہی اردو میں۔
یہی حال فعل سے بننے والے محاوروں کا ہے۔ مثلاً: آنکھیں بچھانا، آنکھیں بھر آنا، آنکھیں ٹھنڈی ہونا، آنکھیں روشن ہونا، وغیرہ یا پھر محاورے ہیں جو دونوں زبانوں کے مختلف سرمائے کا بیش قیمت حصہ ہیں۔ مثلاً : جیسا دیس ویسا بھیس، گھر کی مرغی دال برابر ، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، پچہ بغل میں ڈھنڈھورا شہر میں، مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال، گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔
اور تو اور ہندی اور اردو کی بنیادی لفظیات ایک ہیں۔ مصدر ایک ہے۔ امدادی افعال ایک ہیں۔ حروف جار میں، سے، پر، تک، کا، کے، کی، کو، سب ایک ہیں۔ اسی طرح ضمیریں ایک ہیں۔ سوالیہ مادے ایک ہیں۔ بنیادی اور توصیفی اعداد ایک ہیں۔ گنتی ایک ہے۔ جسم کے اعضا کے نام ایک ہیں اور تو اور رشتہ داریاں ایک ہیں اور گالیاں ایک ہیں۔

یہ واقعہ ہے کہ اردو ہندوستان کی انتہائی ترقی یافتہ زبانوں میں سے ہے۔ اگر ایک طرف اس کا دامن سامی اور ایرانی زبانوں سے بندھا ہوا ہے تو دوسری طرف اس کی بنیاد آریائی ہے۔ اس کا رسم الخط ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے بیسیوں ملکوں میں قدرے اختلاف کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ اردو کے تقریباً ساٹھ ہزار الفاظ میں سے دو تہائی الفاظ یعنی چالیس ہزار الفاظ سنسکرت اور پراکرتوں کے ماخذ سے آئے ہیں۔
جس زبان کی جڑیں اپنے ملک کے لسانی ذخیرے اور اس کی تہذیبی سرزمین میں اتنی گہری ہوں، جس کا دامن اتنا وسیع ہو، جس کے لہجے میں ایک خاص کشش اور کھنک ہو، جس کے انداز میں ایک خاص شستگی اور شائستگی ہو، جس کی قومی خدمات خاصی وقیع ہوں اور جس کا ادبی سرمایہ بشمول میر، نظیر، غالب، انیس، اقبال، فراق، فیض اتنا شاندار ہو، وہ زبان کبھی مٹ نہیں سکتی۔
اس زبان پر ہندوستان کا ایسا حق ہے جو کبھی ٹھکرایا نہیں جا سکتا۔ اور اردو کا بھی ہندوستان پر ایسا حق ہے جو ضرور وصول ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:

ماخوذ از کتاب:
گھر جو تقسیم ہو گیا
مصنف: شیخ سلیم احمد (سن اشاعت: 2007)

The foundation of Urdu in India. Article: Gopichand Narang.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں