اردو ہے جس کا نام ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-12

اردو ہے جس کا نام ۔۔۔

Thou which name is Urdu
اردوزبان کے شیدائیوں کیلئے آج جشن کا دن ہے ؟ہمیں نہیں معلوم مگرہم نے برسوں سے یہ روایت ضرور دیکھی ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم ولادت کی مناسبت سے اردو برادری اُردو کامرثیہ ہی نہیں پڑھتی بلکہ اِس کی عظمت اور مقبولت کاخواہ مخواہ ڈنکا بھی بجاتی ہے۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ دراصل یہی وہ دن بھی ہے ،جب اردو کے ادیبوں،شاعروں، دانشوروں اور مفکروں کو بزم سجانے اور اردو کی کسمپرسی کا قصہ بیان کرنے کابہترین موقع دے دیا جاتا ہے۔اگریہ سچ ہے تو پھر ہمیں ذرا بھی حیرت نہیں ہوگی،اگر ایک بارپھر محبان اردو آج مجمع لگائیں اورحسب روایت اردوکے ماتمی اجلاسوں کے انعقادکے ذریعہ اردونوازی کادَم نہ بھریں کیونکہ یہ دن اُن کا ہے!البتہ یہ سوال ضرور کھڑاہوجاتا ہے کہ "یوم اردو"اردووالوں کی عیاریوں،مکاریوں،فریب کاریوں اور اردو کے تئیں اُن کی تمام تر بداعمالیوں پر پردہ ڈالنے کاذریعہ ہے یاپھر اردو کے حق میں نعرے بازیوں سے دوقدم آگے بڑھ کر خود احتسابی کا ایک موقع اورعملی دنیاآباد کرنے کاوسیلہ؟
یوم اردو کے انعقاد کے جواز پر کوئی تبصرہ کئے بغیرہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ اردوزبان بہ حیثیت مجموعی زوال کے دور سے گزررہی ہے اوراس کی دنیا بہ سرعت تمام محدود ہوتی چلی جارہی ہے۔' اُردوادب' اور'اردوزبان'کی دنیا چونکہ الگ الگ ہے،اس لئے ادب اور زبان کی نشوونماکا عمل بھی الگ الگ انداز میں جاری ہے ،جس کے فرق کوسمجھے بغیرگفتگو کے سلسلے کو دراز کیا جانامناسب نہیں۔اردوادب اگر عروج کی راہ پر گامزن ہے؟تواس سوال کاجواب یقیناًادیب اور نقاد زیادہ مناسب انداز میں ہی دیں گے لیکن اردو زبان کی صورتحال کیا ہے، اِس سوال کا جواب اردو کا ہر وہ طالب علم دینے کا مجاز کہلاسکتا ہے،جو اس زبان سے واقف ہو اور زبان کے فروغ کی صورتحال کا مشاہد ہو۔چنانچہ جب ہم اردو زبان کے ایک طالب علم کی نگاہ سے اردو زبان کی نشو و نما کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ادب کے برخلاف' اردوزبان' اور'اردوصحافت' زوال کی راہ پر گامزن دکھائی دینے لگ جاتی ہے۔ چنانچہ مشاہدے کی بنیادپریہ رائے قائم کرسکتے ہیں کہ اُردوز بان اگر زندہ ہے تو اِس میں فضل خداوندی کا کمال ہے یا پھراسے اردو کی کرشمہ سازی کاعرفان کہہ لیجئے کہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود یہ زبان سخت جان واقع ہوئی اور اردو کے نمک خواروں کو منہ چڑھانے پر مجبور بھی کہ" دیکھو تمہاری عیاریوں اور مکاریوں کے باوجود ہم زندہ ہیں!۔

ایک زمانہ وہ تھا جب حضرت داغ نے اس زبان کی غیرمعمولی مقبولت کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہاتھاکہ

اردوہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اور ایک زمانہ وہ بھی آیا جب اُردو سیاست کی قربان گاہ پربھینٹ چڑھادی گئی اور نتیجہ یہ سامنے آگیا کہ اردومذہباًمسلمان بن گئی!یہ صورتحال اُن اردونوازوں کیلئے باعث اذیت بھی بن گئی،جنہوں نے "محبت " کی علامت سمجھ کر اردو کو گلے لگایا ہوا تھا اور جن کا دین ودھرم یہ تھاکہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن جب پھر بھی اردوکو مسلمان بنادیاگیا توصداامبالوی ؔ جیسے شاعرکو یہ کہنے پر مجبورہونا پڑ گیا کہ

اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اب سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے

حقیقت یہ نہیں ہے کہ اُردواب صرف مسلمانوں کی زبان بن گئی ،بلکہ تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ اُن مسلمانوں نے بھی اُردو زبان کو اپنے گھر سے بے گھر کردیاہے جن کے یہاں کبھی اُردو زبان کو سکہ رائج الوقت کا درجہ حاصل تھا۔کہاجاسکتا ہے کہ وطن عزیزکی تقسیم کے فوراً بعد اردو کیلئے عرصہ حیات تنگ کرنے کی جوشعوری کوشش کی گئی،اُس میں خود ہماری حکومت بھی کہیں نہ کہیں شریک رہی،جس کاواضح ثبوت یہ بھی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں اردوکی جڑیں کاٹنے کیلئے باضابطہ ایک حکم نامہ جاری کیا گیا، جس کے تحت اردوکی تعلیم کابرسوں پراناروایتی نظام قصۂ پارینہ بن گیا اورنتیجتاً وہ گہوارۂ علمی جہاں چراغ اردومسلسل روشن رہا کرتاتھا،خزاں رسیدہ بن گیا۔اردوبہ حیثیت زبان آج کس حد تک زندہ ہے اوراس کی بارگاہ میں حاضری دینے والے کون لوگ ہیں،یہ تجزیہ کا بہت بڑا موضوع ہے، کیونکہ عمومی طورپر جب ہم صورتحال پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑاتے ہیں تو اندازہ یہی ہوتا ہے کہ متوسط طبقہ کی مسلم آبادی سے تعلق رکھنے والی نئی نسل بھی فی زمانہ اردو سے بے گانہ ہوچکی ہے،جبکہ فی زمانہ غیر مسلم اردو آبادی کا اب کہیں کوئی نام و نشان ہے ہی نہیں جہاں اردو بہ حیثیت زبان فروغ پارہی ہو ۔ایسے ماحول میں جبکہ ما بعد آزادی غیر مسلم اردو والوں نے فرض سے فرار اختیارکیااورموقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اردو کے کاز کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھا،یہ سوال بھی کھڑا ہوجانا فطری ہے کہ کیا ہندوستان میں غیر مسلم اردو آبادی کا کہیں کوئی تصور موجود ہے؟اردو میںآج بھی غیر مسلم قلم کاروں کی موجودگی ہمیں دیکھنے کو مل جاتی ہے،مگر غیر مسلم عوام جو کہ اردو سے متعلق ہو اورجسے ہم "غیر مسلم اردو آبادی"کہہ سکیں،شایدایسا معاشرہ اب ڈھونڈنے سے بھی ہمیں نہیں مل سکتا کیونکہ یہ ایک بہت بڑی اور کڑوی حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد کے تبدیل شدہ منظر نامہ میں غیر مسلم عوام نے اردو زبان سے خود کو اس طرح دور کر لیا کہ عوامی سطح پر اردو زبان مسلم حلقے میں سمٹتی چلی گئی۔چنانچہ بہ حیثیت زبان اردو اب پسماندہ مسلمانوں کی زبان قرار پا چکی ہے،جس کو بہ ظاہر جھٹلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

'یوم اردو'کاانعقاد اوراِ س موقع سے منعقد ہونے والی تقاریب میں اردوزبان کے تحفظ سے متعلق کئے جانے والے قول و قرار کی عملی جہت کیا ہے،یہ بھی قابل غور اور لائق تجزیہ موضوع ہے لیکن اس مسئلہ پر اظہارِخیال سے قبل ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اردوزبان کا عصری منظرنامہ کیا ہے؟کسی بھی زبان کا تحفظ اوراس کی بقاء اس وقت تک ممکن نہیں ،جب تک کہ اس زبان کاتعلیمی نظام چست اور درست نہ ہو۔جب اس ضمن میں صورتحال کاجائزہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے تو مایوسی اور محرومی چہار سواپنے وجود کااحساس دلاتی ہے۔آج کے تعلیمی منظر نامہ پر نگاہ دوڑانے اور عصری تعلیم گاہوں پر ایک نگاہ دوڑانے کے بعد یہ حقیقت واضح صورت میں ابھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ملک بھر میں پرائمری اور ثانوی سطح پر اردو زبان کا تحفظ ممکن نہیں ہو پارہا ہے۔بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو زبان کی تعلیم کیلئے کوئی ایسا معقول بندو بست نہیں کیا جاسکا ہے،جس سے اردو کے بقاء کی صورت پیدا ہوسکے۔مثلاًاُن طلباء کیلئے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے شعبوں میں حصول تعلیم کے مواقع موجود نہیں ہیں،جو اردو کوباضابطہ ذریعہ تعلیم بنانے کے خواہشمند ہوں۔یہاں اُن چند اردو اسکولوں کا تذکرہ نہیں کیاجارہاہے،جہاں اردو ذریعۂ تعلیم کی سہولت دستیاب ہے بلکہ اُن تعلیم گاہوں کاعمومی طورپر تذکرہ کیا جارہاہے،جو ریاستی حکومت کے ذریعہ چلائے جارہے ہیں یا جن کی براہ راست سرپرستی مرکزی حکومت کررہی ہے۔خصوصاً سنٹرل اسکولوں میں وغیرہ میں اردو کی تعلیم کی گنجائش ہے آیا نہیں،یہ لائق تجزیہ ہے۔
اس پس منظر میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ پرائمری اور ثانوی سطح پر عمومی منظرنامہ میں اردو کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رکھی گئی ہے۔ اسے المیہ ہی کہاجاسکتاہے کہ ابتدائی اور ثانوی سطح پر باضابطہ اردو کی جڑیں کاٹ دی گئیں اور ظاہری طورپر اردو والوں کی تسکین کا سامان فراہم کرانے کیلئے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اردوکی باضابطہ تعلیم کا بندوبست کیاگیا۔ اردوکے روشن خیال طبقہ میں بھلے ہی یہ صورتحال اطمینان بخش قرار پائی لیکن اس مسلمہ سچائی سے انکار یا فرار کی گنجائش نہیں کہ چونکہ ابتدائی اور ثانوی سطح پر اردو کیلئے کو ئی گنجائش باقی نہیں رکھی گئی، اس کی بناپر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل طلبا علمی لحاظ سے اعلیٰ صلاحیت کے مالک بن کرسامنے نہیںآسکے۔ اس کا نتیجہ کچھ یوں سامنے آتا گیا کہ بڑی بڑی ڈگریاں اور اسناد رکھنے کے باوجود اردوکا ایک ایسا خواندہ معاشرہ وجود میںآتاگیا جس کی علمی صلاحیت اورلیاقت پرسنگین نوعیت کے سوالات قائم کئے جاسکتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ بھی رہی کہ آگے چل کر" اردوخواندہ معاشرہ" کی ترجمانی کرنے والے "اہل علم" مختلف یونیورسٹیوں میں پہلے بحیثیت لیکچرار مقرر کئے گئے اور بعدازاں شعبہ ہائے اردو کے صدور کے طورپربھی ان کی تقرریاں عمل میں آگئیں ۔
اردو کے ممتاز دانشور شمس الرحمن فاروقی کا یہ خیال صدفیصد درست معلوم ہوتا ہے جس میں انہوں نے اس قلق کا اظہارکیاہے کہ "یونیورسٹی کے اردو شعبوں میں انہی جاہل طالب علموں کی بھرتی بطور استاد شروع ہوئی پھر ان اساتذہ کے شاگردوں کی کھیپیں تیار ہونا شروع ہوئیں اور جاہل در جاہل کا یہ سلسلہ اب خداجانے کب رکے۔ یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں میں برسرکاراساتذہ جہلا کی چوتھی نسل ہیں۔"
ہوسکتاہے کہ شمس الرحمن فاروقی کا یہ تلخ تبصرہ اردو کے موجودہ اساتذہ کرام کو ناگوار گزرے لیکن سچ اس حقیقت کی چغلی کھا رہی ہے کہ فی زمانہ مختلف یونیورسٹیوں کے ذریعہ درس وتدریس کے حوالہ سے اردو کی بقا کیلئے جو خدمات انجام دی جارہی ہیں، وہ سوالات کے گھیرے میں ہے۔ البتہ یہ ضرور کہاجاسکتا ہے کہ جس طرح کوئلوں کے درمیان سے ہیرا تلاش کیا جاناناممکن نہیں ہواکرتا ٹھیک اسی طرح یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلبا کے درمیان چند ایسے ہونہار اور باکمال دانشور یا اسکالر ضرور سامنے آرہے ہیں جن کی علمی صلاحیتوں پر آج بھی اردو معاشرہ فخر کرسکتاہے لیکن ایسے ہونہار اور باکمال فارغین کی تعداد یقیناآٹے میں نمک کے برابر ہے۔

اردو پر قسطوں میں ستم ڈھایاگیااور ارباب اقتدار وصاحبان سیاست نے وقتاً فوقتاً اردوکشی کا عملی ثبوت بھی دیا، یہ ایک مسلمہ سچائی تو ہے لیکن اسے مکمل سچ ہر گز نہیں کہاجاسکتا۔ کیونکہ جب ہم اردو معاشرہ کی بے حسی پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑاتے ہیں اور آزادی کے بعد کے مختلف ادوار کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت واضح شکل وصورت میں سامنے آجاتی ہے کہ اردو کی مٹی پلید کرنے میں خود اردووالے بھی نہایت خلوص کے ساتھ ہاتھ بٹاتے رہے ۔ صرف یہ کہہ کر جان چھڑانے کی گنجائش نہیں نکلتی کہ اردو کے تعلق سے ارباب اقتدار یاسیاستدانوں کارویہ منافقانہ یادشمنانہ رہابلکہ اس بات کا تجزیہ بھی کیاجانا ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ اردو کو زندہ درگور کرنے کی جوکوششیں عہد بہ عہد کی جاتی رہیں، ان میں اردو والوں کا رول کیارہا۔ظاہری طور پر جو نکتہ ابھر کر سامنے آتاہے ، اس سے اس حقیقت کی قلعی کھل جاتی ہے کہ اردو کا جو طبقہ اشرافیہ کسی زمانہ میں زبان کی ترویج وترقی کے حوالہ سے ہراول دستہ میں شمار ہواکرتا تھا، اس نے تبدیل شدہ منظرنامہ میں نہایت ایمانداری کے ساتھ اس منافقانہ روش پرآگے بڑھنا ضروری سمجھ لیا کہ" اردو کو حصول آمدنی کا ذریعہ تو بنایاجائے لیکن خود اپنے معاشرہ میں بھی اردو کی ترویج وترقی کی کوشش نہ کی جائے"۔ آج کے اردو معاشرہ پرنگاہ دوڑانے کے بعد یہ حقیقت اپنے سیاق وساق کے ساتھ سامنے آجاتی ہے کہ اردو کے وہ اتالیق جو مختلف دانش گاہوں میں شعبۂ ارد وکی سرپرستی کابھی فریضہ انجام دیتے رہے ہیں، خود ان کے بچے اوربچیاں بھی اردو رسم الخط سے ناواقف اورنابلد ہیں ۔ فرد خاص پر کسی طرح کی الزام تراشی کے بغیر یہ ضرور کہاجاسکتاہے کہ اردوکی سربرآوردہ شخصیتوں نے اردوزبان کی ترقی کامعاملہ مفلوک الحال اردو معاشرہ پر پوری طرح چھوڑ دیا اور اس طرح اردوعملاً مسلمانوں کے مفلوک الحال طبقہ کی نمائندہ زبان بن کر رہ گئی ۔ آج بھروسہ کے ساتھ یہ کہاجاسکتا ہے کہ اردو کا عصری منظرنامہ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ اس وادی کی سیاحی وہی لوگ کررہے ہیں، جنہیں عرف عام میں ستم رسیدہ طبقہ کہاجاسکتاہے۔ طبقہ اشرافیہ کی نئی نسل کو اردو سے کوئی سروکارنہیں رہ گیا ہے ۔
جہاں تک اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار نہ دینے والوں کاتعلق ہے تو بلاخوف تردد یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ آج ہندوستان میں اردو کا عصری منظرنامہ ہمیں یہ کہنے کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ عام ہندوستانیوں کی زبان ہے۔ کیونکہ ہم بھروسہ کے ساتھ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ابھی کی نئی نسل نے اردو سے اپنا رشتہ پوری طرح منقطع کررکھاہے۔ جو چند صاحبان قلم مذہباً مسلمان نہیں ہیں، لیکن جرأت اظہار کاذریعہ اردو کو بنائے ہوئے ہیں، وہ انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہیں۔ خود ان کے بچے بھی اردو زبان اوررسم الخط سے اسی طرح ناواقف اور نابلدہیں جس طرح شمالی ہند کے طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مسلم طبقہ کی نئی نسل اردوسے پوری طرح لاعلم ہے۔
ایسے میں یہ سوال فطری طور پر کھڑا ہوجاتاہے کہ کیا اردوزبان (ادب نہیں)کے مستقل پرمنڈلاتے خطرات کا مقابلہ کرنے کی ہم میں صلاحیت ہے ؟اب تک کی کارگزاریوں پرایک عمومی نگاہ دوڑانے کے بعد یہ کہاجاسکتاہے کہ اردووالوں کو صرف اور صرف جذباتی تسکین کاسامان تو فراہم کرایاجاتا رہا ہے لیکن اردوزبان کو صحتمنداور توانا بنانے کیلئے اردووالے جو کوششیں کربھی سکتے تھے،وہ انہوں نے نہیں کئے۔جولوگ اردوزبان کی تنزلی کے قائل نہیں ہیں،انہیں چاہئے کہ اپنی آنکھوں پر لگی نظریاتی پٹیوں کو کھول کر کربناک صورتحال کاخود مشاہدہ کریں کہ آج جو زبان ہمارے درمیان رواج پارہی ہے،وہ کیسی ہے،املوں کی غلطیاں،صرفی و نحوی قواعد سے انحراف اورزبان کاقیمہ بنانے والی کیفیتیں کس طرح اپنے جلوے دکھارہی ہیں،اُس کی تصویر دیکھنی ہو تو کسی بھی اردو اخبار پر ایک نگاہ دوڑالینا شاید کافی ہوگاکیونکہ عہد حاضرکی زبان کی حقیقی تصویرکشی اردوکے اخبارات سے زیادہ بہتر اور کہیں ہو بھی نہیں سکتی۔ ویسے ایک بات یہ ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اردو کے مستقبل کے حوالہ سے خواص وعوام دونوں سطح پر اندیشہ ہائے دراز کا جو اظہار کیا جاتارہاہے جس پر اردوکے علمبرداروں کوآج ذراٹھہر کر سنجیدگی کے ساتھ غورکرنے کی ضرورت ہے ۔ شاعرنے خوب کہاہے ؂

میری اللہ سے بس اتنی دعا ہے راشد
میں جو اردو میں وصیت لکھوں بیٹا پڑھ لے

(مضمون نگار روزنامہ "ہندوستان ایکسپریس" کے نیوز ایڈیٹر ہیں )
موبائل : 08802004854 , 09871719262
shahid.hindustan[@]gmail.com
شاہد الاسلام

Thou which name is Urdu. Article: Shahidul Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں