یہ ایک سپاس نامہ ہے جو ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد کی خدمت میں اس وقت پیش کیا گیا تھا جب وہ پہلی مرتبہ دارالعلوم دیوبند میں 13/جولائی 1957ء کو تشریف لائے تھے۔ انہوں نے مکمل ایک دن دارالعلوم کا دورہ کیا جس کی مفصل رپورٹ ایک کتابچہ کی شکل میں یہاں پیش کی جا چکی ہے۔
یہ سپاس نامہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم جناب محمد طیب نے دارالعلوم کے اراکین مجلس شوریٰ کی جانب سے پڑھ کر سنایا تھا۔ اس میں وہ نو (9) بنیادی اصول و مقاصد بیان ہوئے ہیں جو دارالعلوم جیسے عظیم الشان ادارے کی بنیاد ہیں۔
جناب والا عزت مآب صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد۔
آپ ایک فاضل تاریخ داں اور سیاسی مفکر کی حیثیت سے بخوبی واقف ہیں کہ 1857ء کی تمام ناکامیوں اور ہولناک مصیبتوں کے بعد بھی محبان وطن اور فدایانِ ملک و ملت کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ان ناامیدیوں میں بھی امید کی کرن سامنے تھی اور کشت زار غور و فکر میں ایک تعمیری شعور جنم لے رہا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے بانی ان ہی باہمت بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے چٹان بن کر اس طوفان کا مقابلہ کیا اور جیسے ہی یہ سیلاب پایاب ہوا انہوں نے تمام حالات کا جائزہ لے کر طے کیا کہ ملک و ملت کی ناکامیوں کا رخ بدلنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔
ایک روح کی حفاظت ، دوسرے تعمیری رجحان۔
اس لیے کہ جو قوم روحانیت پر ایمان رکھتی ہے اور اپنی روح بیدار رکھ سکتی ہے، وہ خدا کی مدد سے اپنے حالات میں ایک تعمیری انقلاب لا سکتی ہے۔ یہ دارالعلوم اسی تعمیری انقلاب کا نمونہ ہے۔
اس عظیم ادارے کی بنیاد جن اصولوں پر قائم ہے، وہ مختصر سے مختصر الفاظ میں یہ ہیں ۔۔۔۔(1)
ایک قوم کے لیے سب سے پہلی چیز خدا پر بھروسہ (توکل علی اللہ) ہے۔ ہر بڑے نصب العین کے لیے یہ ہی ایک بڑا سرمایہ ہے۔ دارالعلوم کا پہلا بجٹ نوے سال پہلے چار سو روپے پر مشتمل تھا، آج ساڑھے پانچ لاکھ ہے۔ یہ سب اسی توکل علی اللہ کا نتیجہ ہے۔
(2)
تعلیم اور تعمیر جیسے نصب العین کے لیے اجتماعی جدوجہد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ عوام کی مشترک محنت سے جو کام کیا جائے گا اس میں خیر و برکت بھی ہوگی اور قبول عام بھی حاصل ہوگا۔ یہ دارالعلوم اجتماعی جدوجہد کا پہلا نمونہ ہے۔
(3)
تعلیم انگریزی ہو یا عربی، دنیاوی ہو یا دینی، مادری زبان میں دی جائے۔ دارالعلوم نے اس اصول کو نوے (90) سال پہلے تجربہ کی کسوٹی پر پرکھا اور کامیاب ہوا اور نہ صرف یہ کہ اس تجربے کی بدولت اردو بولنے والے طلبا کی بہت سی مشکلیں آسان ہو گئیں بلکہ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ اردو، براعظم ایشیا اور افریقہ وغیرہ کے ان تمام ممالک میں پہنچ گئی جو اس دارالعلوم سے علمی اور روحانی رابطہ رکھتے ہیں۔ تیسرے سال کی بات ہے جب ہمارے ملک کے وزیراعظم پنڈت نہرو روس کا دورہ کرتے ہوئے تاشقند پہنچے تو وہاں ان کو سپاس نامہ اردو میں پیش کیا گیا، اور اردو میں ہی پنڈت جی نے اس کا جواب دیا۔ یہ سپاس نامہ پیش کرنے والے اسی دارالعلوم کے فاضل ایک تاجیک عالم تھے۔ غالباً اسی سال چینی حجاج کا وفد ہندوستان آیا، اس کا خیرمقدم مسلمانوں سے زیادہ آپ کی وسیع المشرب حکومت نے کیا۔ ہندوستانیوں کے سامنے ہندوستانی زبان میں ان کا تعارف کرانے والے اسی وفد کے ایک رکن مولانا حامد احمد چینی تھے جو بیس سال پہلے اسی دارالعلوم میں تعلیم پا رہے تھے۔
(4)
تعلیم کو آزاد ہونا چاہیے! یہ ہے وہ اصول جس کی بنا پر دارالعلوم ایک آزاد تعلیمی ادارے کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ یہ دارالعلوم اس وقت بھی آزاد تھا جب ملک غلام تھا، ملک کی آزادی کے لیے اس دارالعلوم کی تاریخی خدمات اسی عظیم اصول کا نتیجہ ہیں، جس پر دنیا کے تعلیمی ماہرین آج پہنچ رہے ہیں۔
(5)
استاد کو شاگرد سے بہت قریب اور اس کے دکھ درد کا شریک رہنا چاہیے تاکہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہوتی رہے اور طلبا کی شخصیت اس سانچے میں ڈھل سکے جو اس تعلیم کا مقصد ہو۔ یہ ہے دارالعلوم کا وہ پرانا اصول جس کی برتری، بہتری اور کامیابی کے اعتراف پر آج کے ماہرین تعلیم جدید مجبور ہو رہے ہیں۔
(6)
تعلیم بےقیمت اور مفت ہونی چاہیے، غالباً یہ دارالعلوم دنیا کی واحد درسگاہ ہے جو اکانوے (91) سال سے تمام طلبا کو فری تعلیم دے رہا ہے۔ اور ان کے جملہ اخراجات حتیٰ کہ کورس کی کتابوں کا خرچہ بھی برداشت کر رہا ہے۔
(7)
سادگی، صفائی، جفاکشی اور محنت پسندی۔۔۔ یہ وہ اصول ہیں جو اس دارالعلوم کے بزرگوں کے خاص شعار ہیں۔ یہاں اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا عیب نہیں بلکہ ایک تہذیبی خوبی ہے۔ اسی اصول کی برکت سے کم سے کم اخراجات کے نتیجہ میں بہتر سے بہتر علما قومی اور ملی خدمت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دے چکے اور دے رہے ہیں۔
(8)
علم خود ایک مقصد ہے، اس کو اگر واسطہ بنایا جا سکتا ہے تو صرف تکمیل روح اور تعمیر انسانیت کا۔ کسی مادی مقصد کے لیے اس کو واسطہ بنانا علم کی توہین ہے۔ یہ دارالعلوم کا وہ مقدس اصول ہے جس کی بنا پر اس نے کبھی پسند نہیں کیا کہ اس کی سند سرکاری ملازمتوں کا ذریعہ بنائی جائے۔
(9)
علم ایک دریا ہے، جس کی فطرت بخل کو برداشت نہیں کر سکتی۔ دارالعلوم کا یہ ہی مسلک ہے جس کی بنا پر نہ صرف مسلمان بلکہ علم دوست برادران وطن کی ہمدردیاں بھی اس ادارے کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔ انتہا یہ کہ جب تک فارسی نے اپنی پرانی دلچسپی اور مقبولیت ختم نہیں کی تھی تو مسلمان بچوں کے ساتھ ہندو بچے بھی اس کے درجات فارسی سے فیضیاب ہوتے تھے۔
جناب والا صدر جمہوریہ!
دارالعلوم کے یہی مقاصد ہیں جن کی وجہ سے وہ تمام مادی ذرائع اور وسائل کے فقدان کے باوجود ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے قدم بڑھاتا رہا۔ یہاں تک کہ صرف ایک استاد اور ایک شاگرد سے وجود پذیر ہونے والا مکتب آج یہ عظیم الشان جامعہ ہے جس میں ہند و پاکستان کے علاوہ ایران، افغانستان، تبت، چینی ترکستان، روسی ترکستان، سنکیانگ، برما، انڈونیشیا، سیلون اور افریقہ وغیرہ کے طلبا بھی علمی پیاس بجھا رہے ہیں اور دارالعلوم ان طلبا کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ایک بین الاقوامی بستی بنا ہوا ہے۔
فللہ الحمد۔
ماخوذ از کتابچہ:
صدر جمہوریہ ہند دارالعلوم دیوبند میں
صدر جمہوریہ ہند دارالعلوم دیوبند میں
Objectives and characteristics of Darul Uloom Deoband.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں