مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین - انتخاب - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-08

مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین - انتخاب - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

mirza-farhatullah-beg-mazameen

مرزا فرحت اللہ بیگ (پ: ستمبر 1883 ، م: 27/اپریل 1947)
بیسویں صدی کے ان ممتاز انشا پردازوں میں سے ایک ہیں جو ادبی حلقوں میں بحیثیت طنز و مزاح نگار معروف رہے ہیں۔ پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی کی طرح مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں نے بھی اردو داں طبقے میں خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ اگرچہ انہوں نے ادب کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ، تحقیق، سوانح وغیرہ پر خامہ فرسائی کی مگر مزاحیہ رنگ غالب رہا۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کی تمام تحریروں میں ان کے تین مضامین کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی: (1) نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی۔ (2) دہلی کی آخری شمع (1261ھ میں دہلی کا ایک مشاعرہ)۔ (3) پھول والوں کی سیر۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کے (21) منتخب شگفتہ مضامین کی کتاب "مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین - انتخاب" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً پونے تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 13 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

ڈاکٹر اصلاح الدین اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں ۔۔۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور ہے۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی ہے اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔
مرزا فرحت اللہ بیگ انقلابِ 1857ء کے 26 سال بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1905 میں بی۔اے کا امتحان پاس کر کے 1907 تک دہلی میں رہے۔ 1908 میں حیدرآباد میں وارد ہوئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادرگھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا ، پھر ہائیکورٹ کے مترجم کی خدمات پر مامور ہوئے، اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔
دورانِ تعلیم مرزا فرحت اللہ بیگ کے روابط ڈپٹی نذیر احمد سے قائم ہوئے۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دلچسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی" لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، حق شاگردی ادا کیا بلکہ انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن کو بےنظیر اور نذیر احمد کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔

اسی کتاب کے مضمون "میری داستان" سے ایک دلچسپ اقتباس ۔۔۔
پیدا ہونے کے بعد بڑے بوڑھوں کی قید میں بچوں کی جس طرح گزرتی ہے وہ ناقابلِ اظہار ہے۔ یہ بزرگ سمجھتے ہیں کہ بچے ہمارے دستِ نگر اور بجز ہماری مدد کے جی نہیں سکتے۔ اس لیے ہم کو حق حاصل ہے کہ جس طرح چاہیں ان کو چلائیں اور جس طرح چاہیں ان کو ستائیں۔ جس کام سے چاہیں ان کو روکیں۔ اور جس کام کو چاہیں انہیں کرنے دیں۔ یہ اختیارات استعمال ہو رہے ہیں یا نہیں، اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔
فرض کیجیے کہ ایک بچہ ہے۔ وہ ماں کے گھرکنے پر خفا ہو کر بھاگتا ہے۔ اور کوئی ایسا کام کرنا چاہتا ہے جس کو اس کے بزرگ پسند نہیں کرتے۔ وہ اس کو اپنی طاقت کے زور پر اس کو یہ کام کرنے سے روک دیتے ہیں۔ اب آپ خود ہی ارشاد فرمائیے کہ کیا اس بچے کی آزادی پر جبر نہیں ہے؟ اور کیا یہ اس کی آزادئ خیال اور آزادئ افعال کے گرد ایک گھیرا نہیں ہے؟ ہے اور ضرور ہے۔ یہ کیوں ہوتا ہے؟ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ یہ بزرگ ایک طرح اپنے آپ کو خالق اور بچے کو مخلوق سمجھتے ہیں۔ مگر سچی بات منہ سے نہیں نکالتے۔ بلکہ اس کے بجائے یہ کہتے ہیں کہ کیا کریں۔ ہم کو بچوں سے محبت ہے۔
ممکن ہے کہ ہو۔ مگر بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ محبت نہیں، ضرورت ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ جہاں محبت کے ساتھ غرض کا دُم چھلہ لگ جاتا ہے۔ تو وہ محبت نہیں رہتی ضرورت ہو جاتی ہے۔ آپ اس مسئلے کو ایک مثال سے سمجھ لیجیے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی شخص بطور تفنن طبع چوری کرتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ چنانچہ اس اصول کو نظیر اکبرآبادی نے یوں بیان کیا ہے کہ:
نٹ کھٹ، اچکے، چور، دغاباز، راہ مار
عیار، جیب کترے، نظرباز، ہوشیار
سب اپنے اپنے پیٹ کے کرتے ہیں کاروبار
کوئی خدا کے واسطے کرتا نہیں شکار
بلی بھی مارتی ہے چوہا پیٹ کے لیے

جس طرح بلی اپنے پیٹ کے لیے چوہا مارتی ہے، اسی طرح ہمارے بزرگ اپنا دل خوش کرنے کے لیے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ "اور کوئی خدا کے واسطے نہیں کرتا پیار"۔ خیر یہ تو فلسفہ کا ایک بڑا گہرا مسئلہ ہے۔ اس کو چھوڑئیے اور اصل مطلب پر آئیے۔ یعنی یہ کہ پیدا ہونے کے بعد ہر بچہ کسی نہ کسی طرح بزرگ کی قید میں رہتا ہے۔ لیکن مزا تو یہ ہے کہ بعد میں کوئی بھی ان بزرگوں کے خلاف کچھ نہیں لکھتا اور شاید اس لیے نہیں لکھتا کہ ایک دن اس کو خود بڑا بننا اور اس خطرناک مقولہ کی تائید کرنا ہے کہ: ع
خطائے بزرگاں گرفتن خطا ست!

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔

***
نام کتاب: مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین - انتخاب
تعداد صفحات: 277
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 13 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Mirza Farhatullah Beg ke mazameen.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین :: فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
الفحرفِ آغاز7
بمقدمہ9
جشروع34
1یاد ایام عشرت فانی35
2ہم اور ہمارا امتحان63
3میری داستان69
4جزیرہ بورنیو کا سفرنامہ86
5ایک نواب صاحب کی ڈائری90
6پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکر120
7کل کا گھوڑا133
8اڈیٹر صاحب کا کمرہ146
9دیارِ عشق151
10کہانی159
11کم سنی کی شادی170
12انجمن اصلاح حال بدمعاشاں177
13اصلاحِ سخن کے متعلق میرے خیالات192
14مردہ بدست زندہ206
15ایک اور ایک چار212
16مہینے کی پہلی تاریخ222
17پٹنا232
18نانی چندو239
19بہرا248
20غلام258
21نئی دہلی265

Mirza Farhatullah Baig ke Mazameen, Essays by Mirza Farhatullah Baig, pdf download.

3 تبصرے: