صدر جمہوریہ ہند دارالعلوم دیوبند میں - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-19

صدر جمہوریہ ہند دارالعلوم دیوبند میں - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

india-president-in-darul-uloom-deoband

دارالعلوم دیوبند کا آغاز ایک چھوٹے سے مدرسہ کے طور پر 15/محرم 1283ھ (مطابق: 30/مئی 1866ء) کو دیوبند (ضلع سہارنپور، اترپردیش) میں مولانا محمدقاسم نانوتوی کے ہاتھوں ہوا تھا۔ مولانا محمود حسن عثمانی دیوبندی، شبیر احمد عثمانی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا حسین احمد مدنی، علامہ سید انورشاہ کشمیری کے علاوہ سینکڑوں مفسر، محدث، مجاہدین، ادیب اور تلامذہ اسی جامعہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ اور انہی ہستیوں نے جنوبی ایشیا اور اس سے باہر اسلام کی شمع کو روشن رکھنے کی روایت کا سلسلہ جاری کیا۔
13/جولائی 1957 بروز ہفتہ ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد، حکومت ہند کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے ذاتی شوق اور دارالعلوم دیوبند کی درخواست پر ادارہ میں تشریف لائے تھے۔ صدر جمہوریہ کے اس یادگار دورہ کی تفصیلات کے حوالے سے دارالعلوم کے اشاعتی مرکز نے یہ اہم کتابچہ اگست 1957ء میں شائع کیا۔
ملک کے موجودہ دگرگوں سیاسی حالات کے پیش نظر دارالعلوم دیوبند کی تاریخ و تہذیب سے نئی نسل کو واقف کروانے کی خاطر یہ اہم اور مفید کتابچہ تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً پچاس صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 2 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس کتاب کے مختلف ابواب سے چند مفید اور قابل مطالعہ اقتباسات پیش ہیں ۔۔۔
دارالعلوم دیوبند کی ہمہ گیر عظمت و شہرت اور قومی حکومت کی تشکیل میں اس کی مساعی کے پیش نظر قومی حکومت کے ارباب اقتدار کا اس کی طرف رجحان قدرتی تھا، جس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہا۔ انہی رجحانات کے ماتحت مملکت ہند کی سب سے بڑی شخصیت صدر جمہوریۂ ہند عالی جناب ڈاکٹر راجندر پرشاد کے دل میں دارالعلوم دیکھنے کا شوق و جذبہ اور دارالعلوم کے ارباب انتظامیہ کے دلوں میں انہیں دعوت دینے کا داعیہ ابھرنا لازمی تھا۔ 1955 اور 1956 کے دوران دارالعلوم کی درخواست پر کسی سبب عمل نہ ہو سکا۔ پھر جون 1957 کے آخری ہفتہ کے اخبارات میں صدر مملکت کے دارالعلوم میں تشریف لانے کی خبر شائع ہوئی تو نہ صرف یہ کہ دارالعلوم کے وسیع علمی حلقے میں مسرت و انبساط کی خاص لہر دوڑی بلکہ ہند یونین کے ہر مسلمان نے اس خبر سے مسرت محسوس کی۔
صدر جمہوریہ عالی جناب ڈاکٹر راجندر پرشاد نے 12/13 جولائی کی درمیانی شب میں بذریعہ ٹرین ایک بجے دیوبند ریلوے اسٹیشن پر، جس کو محکمہ ریلوے نے آراستہ کر رکھا تھا، تشریف فرما ہوئے اور اسٹیشن ہی پر صبح تک اپنے سیلون میں قیام فرمایا۔
دارالعلوم دیوبند کے موقر اراکین مولانا سید حسین احمد و دیگر نے صبح 8 بجے دیوبند اسٹیشن پر صدر جمہوریہ کا استقبال کیا، جس کے بعد صدر جمہوریہ اپنی کار میں دارالعلوم کے لیے روانہ ہوئے۔ اسٹیشن سے لے کر دارالعلوم تک، سڑک کے ہر موڑ اور اہم موقع پر خوشنما گیٹ میونسپلٹی کی طرف سے اور دارالعلوم کے قریب ایک دروازہ منجانب دارالعلوم بنایا گیا تھا۔ پورا راستہ دو رویہ رنگ برنگ کی جھنڈیوں سے آراستہ تھا، اسٹیشن کے قریب سب سے پہلے دروازہ پر لکھا تھا:
دیدہ و دل فرش راہ
دارالعلوم سے تقریباً دو فرلانگ کے فاصلے تک طلبائے دارالعلوم کی دو رویہ قطاریں کھڑی ہوئی تھیں۔ ہند و بیرون ہند کے طلبا کے علیحدہ علیحدہ گروپ بنا دئے گئے تھے ، جن میں ہندوستان کے تقریباً ہر صوبہ کے طلبا شامل تھے، جو متعدد پیغامات کے بینر تھامے ہوئے تھے۔ بیرونی ممالک کے طلبا میں پاکستان، برما، ملایا، تبت، جنوبی افریقہ اور افغانستان وغیرہ کے طلبا اپنے اپنے مخصوص تعارفی نشانوں کے ساتھ صدر مملکت کے استقبال کے لیے صف آرا تھے۔ جب طلبا کی ان دلکش قطاروں کے درمیان سے صدر محترم کی کار گذرنی شروع ہوئی تو دیوبند کی فضا اللہ اکبر، دارالعلوم دیوبند زندہ باد، صدر جمہوریہ زندہ باد اور جمہوریۂ ہندوستان زندہ باد کے استقبالیہ نعروں سے گونچ اٹھی۔

لائبریری کا معائنہ
صدر محترم ساڑھے آٹھ بجے حضرت مولانا مدنی اور دیگر کے ہمراہ نودرہ سے اس کمرہ میں تشریف لے گے جو دارالحدیث کی عظیم الشان عمارت کے جنوب میں واقع ہے۔ یہاں صدر کے ملاحظہ کے لیے کتب خانہ دارالعلوم کے نادر و نایاب مخطوطات کے نسخے، شاہی عطیات میں سعودی عرب، ترکی، مصر، افغانستان، ایران اور نظام دکن کی عطا کی ہوئی کتابیں اور اکابر دارالعلوم کی تصانیف کے علاوہ دارالعلوم کے 94 سالہ آمد و صرف کا مرقع، شعبہ جات کی کارگزاری کے نقشے، شعبہ صنعت و حرفت کی طرف سے طلبائے دارالعلوم کی دستکاریوں کے نمونے اور شعبہ خوشخطی کے طلبا کے قلم سے لکھے ہوئے کتبے اور ہئیت کے آلات رکھے گئے تھے۔ صدر محترم نے قدر شناسی کی ، شوق و ذوق اور دلچسپی کے ساتھ ان کو ملاحظہ فرمایا۔ قرآن شریف کے قدیم ترین نسخوں کو دیکھ کر صدر جمہوریہ بار بار دلچسپی کا اظہار فرماتے رہے۔ فارسی کے متعدد مخطوطات کو پڑھ کر دیکھا۔ مخطوطات میں بعض نسخے آٹھ آٹھ سو سال پرانے تھے، مخطوطات کی حفاظت کے لیے صدر محترم نے اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازا۔

صدر کو کتابوں کا علمی ہدیہ
دارالعلوم کے مہتمم صاحب نے صدر وطن کو اکابر و اسلافِ دارالعلوم اور دوسرے اکابر فضلا دارالعلوم کی تصنیف کردہ 26 کتابوں کا علمی ہدیہ پیش کیا جن میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے مخصوص اوصاف اور ممتاز شان کو پیش کیا گیا ہے۔ کتابوں کے علاوہ بانئ دارالعلوم کی وہ اساسی آٹھ وصیتیں بھی صدر کو پیش کی گئیں جو دارالعلوم کے نظام کو چلانے میں بنیادی دستور کی حیثیت رکھتی ہیں، اور اس وقت دارالعلوم اور اس کی بیشمار شاخیں انہی اصولوں پر چل رہی ہیں۔
صدر محترم کو جو کتابیں پیش کی گئیں ان میں خاص خاص کتابوں کے نام یہ ہیں:
حجۃ الاسلام - مصنفہ مولانا محمد قاسم نانوتوی (بانئ دارالعلوم دیوبند)۔
اشاعتِ اسلام - مصنفہ مولانا حبیب الرحمن سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند۔
اسلام اور فرقہ واریت - مصنفہ مولانا محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند۔
سائنس اور اسلام - مصنفہ مولانا محمد طیب
سوانح قاسمی - سوانح عمری مولانا محمد قاسم نانوتوی
نقشِ حیات - سوانح عمری مولانا حسین احمد صاحب صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
شانِ رسالت - مصنفہ مولانا محمد طیب

صدر جمہوریہ کی تقریر کے اقتباسات
صدر محترم نے بیٹھ کر تقریر فرمائی، وہ بڑی صاف اور شستہ اردو بول رہے تھے۔۔۔ صدر جمہوریہ کی تقریر کے متن سے چند اقتباسات ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔۔۔
۔۔۔ مجھے عرصہ سے دارالعلوم میں حاضر ہونے کا اشتیاق تھا اور پچھلے دنوں جب دعوت ملی تو میں نے اسے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیا، اس لیے نہیں کہ دارالعلوم میں میرا آنا موجب مسرت ہوگا بلکہ اس لیے کہ اس سے ان واقعات کی یاد تازہ ہو جائے گی جو آزادی کی جدوجہد کے ایک سو سال کے عرصہ میں پیش آتے رہے ہیں۔
یہ ایک تاریخی بات ہے کہ ہندوستان میں انگریزی سلطنت کو کبھی خوشی کے ساتھ برداشت نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانہ میں بھی ملک میں کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو بغاوتیں کرتے رہتے تھے۔ اسی سلسلہ کا بہت بڑا واقعہ 1857ء کی جنگ آزادی تھا، جس میں اس علاقہ کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے علاقوں نے بھی حصہ لیا اور آزادی کے لیے لوگوں نے سخت جدوجہد کی۔ تمام وہ علما کرام جنہوں نے اس دارالعلوم کو قائم کیا، جنگ آزادی میں شریک تھے، چنانچہ دارالعلوم کے قیام سے پہلے اور اس کے بعد بھی انہوں نے جنگ آزادی کو جاری رکھا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے نے اپنی روحانی تعلیم و تربیت کے ساتھ آزادی کا بھی اہتمام کیا۔
جیسا کہ سپاس نامہ میں فرمایا گیا کہ اس مدرسہ کا آٖغاز بہت چھوٹے پیمانہ پر ہوا، اس کی سالانہ آمدنی صرف چار سو روپے تھی لیکن آج یہ نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کا ایک عظیم الشان ادارہ ہے اور روز بروز ترقی کر رہا ہے اور اب اس کا سالانہ خرچ بڑھ کر پانچ لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔ اور یہاں ڈیڑھ ہزار طلبا تعلیم پاتے ہیں، ڈیڑھ دو سو اساتذہ موجود ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو کام یہاں ہو رہا ہے اسے ملک کے عوام کس طرح قبول کر رہے ہیں اور کس طرح اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں اور یہ کہ جو کام یہاں ہو رہا ہے اس کو صرف جاری ہی رہنا نہیں چاہیے بلکہ اسے اور زیادہ بڑھتے رہنا چاہیے۔ دارالعلوم کے بزرگوں نے سمجھ لیا تھا کہ تعلیم کو آزاد رہنا چاہیے۔ میرے خیال میں یہ بہت درست نظریہ تھا، آپ نے نہ تو کبھی حکومت سے کوئی امداد مانگی اور نہ آپ کو کوئی امداد ملی۔
۔۔۔ میں ان دنوں کو کبھی نہ بھول سکوں گا جب میں حضرت مولانا کے ساتھ کانگریس کی میٹنگوں میں شریک ہوا کرتا تھا اور ہم لوگ حضرت مولانا کے مشوروں سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ آزادی کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہاں کے سب ہی رہنے والوں کے درمیان اتفاق ہے۔
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں مختلف مذاہب کے پیرو ، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف رسم و رواج اور طرز زندگی رکھنے والے آباد ہیں۔ ایک ایسے ملک میں سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے خلوص، رواداری اور محبت کا سلوک کریں اور ایک دوسرے کی تکالیف اور مشکلات میں کام آئیں، خود تکلیف اٹھائیں لیکن دوسروں کو تکلیف نہ ہونے دیں۔

ملک کا آئین بنانے والوں نے اس حقیقت کو پیش نظر رکھا تھا، چنانچہ آئین میں مذہبی آزادی کو محفوظ رکھا گیا ہے اور آج اس ملک میں ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ سب ہی مذاہب کے پیرو یہاں آرام سے رہتے ہیں اور اپنے مذہب کے فرائض کو ادا کر سکتے ہیں۔
ہندوستان جیسے عظیم ملک میں جہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ آباد ہیں کوئی باہمی تنازعہ یا جھگڑے کا ہو جانا تعجب کی بات نہیں، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر اتفاق سے رہیں، مل جل کر کام کریں اور ایک دوسرے کی آزادی کا احترام کریں، اور جس طریقہ کو ہم نے جنگ آزادی کے دوران میں اپنائے رکھا تھا آج بھی اس کو اپنائے رکھیں۔ ہم خود آزاد ہیں اور دوسروں کی آزادی کو بھی اتنا ہی قیمتی سمجھیں جتنا اپنی آزادی کو سمجھتے ہیں۔ پچھلے 40-50 برسوں میں ہمارا جو طور طریقہ رہا ہے اور جس طرح سے ہم نے آزادی کی جنگ میں مل جل کر کام کیا ہے اس کا یہ نتیجہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ ہم ایک دوسرے پر پوری طرح سے اعتبار رکھیں اور ہر طرح سے اس بات کے لیے تیار رہیں کہ کسی پڑوسی پر ایک آفت آئے تو ہم دو آفتیں برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں۔ ہمیں اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے!
ہمارے ملک میں ہمیشہ یہ کمزوری رہی ہے اور باہمی جھگڑوں کے سبب سے باہر کے لوگ آ کر ہمارے ملک پر حاوی ہو گئے۔ جہاں تک مجھے تاریخ کا علم ہے ہندوستان کے لوگ کسی میدان میں دوسرے ملکوں کے رہنے والوں سے پیچھے نہیں رہے ہیں، لڑائی میں اگر ہم ہارے تو آپس کی پھوٹ کے سبب سے۔ اب ہم آزاد ہیں اور اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں مل جل کر آگے بڑھنا ہے، میں ہمیشہ یہی درخواست کرتا رہا ہوں کہ ہمارا یہ ماحول بنا رہے تاکہ ہمیں طاقت ملے اور ہم اپنی آزادی پر قائم رہیں۔

دارالعلوم نے صرف اس ملک کے رہنے والوں ہی کی خدمت نہیں کی بلکہ اس نے اپنی خدمات سے اتنی شہرت حاصل کر لی ہے کہ غیر ممالک کے طالب علم بھی یہاں آتے ہیں اور یہاں سے تعلیم پا کر اور جو کچھ یہاں انہوں نے سیکھا ہے، اپنے ملکوں میں اس کی اشاعت کرتے ہیں۔ یہ بات اس ملک کے سبھی باشندوں کے لیے قابل فخر ہے! میں امید کرتا ہوں کہ اپ جس خلوص اور نیک نیتی اور جس عزم و ارادہ کے ساتھ اس کام کو آج تک کرتے آئے ہیں آئیندہ بھی اسے جاری رکھیں گے اور مجھے امید ہے کہ یہ دارالعلوم دن بدن اور ترقی کرتا جائے گا اور صرف اس ملک ہی کی نہیں بلکہ غیر ملکوں کی بھی خدمت کرتا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ریشمی رومال تحریک

***
نام کتاب: صدر جمہوریہ ہند دارالعلوم دیوبند میں
شائع کردہ: دفتر اہتمام دارالعلوم دیوبند
تعداد صفحات: 52
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 2 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
India President In Darul Uloom Deoband.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

صدر جمہوریہ ہند دارالعلوم دیوبند میں :: فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1پیش لفظ2
2دارالعلوم دیوبند میں صدر جمہوریہ کی تشریف آوری6
3صدر جمہوریہ کا استقبال7
4لائبریری کا معائنہ9
5جلسۂ خیر مقدم میں تشریف آوری10
6مولانا حفظ الرحمٰن صاحب کی افتتاحی تقریر11
7قراءت اور نظمیں12
8سپاس نامہ15
9صدر کو کتابوں کا علمی ہدیہ23
10صدر جمہوریہ کی تقریر24
11حضرت مولانا مدنی کی تقریر شکریہ28
12دوپہر کا کھانا29
13عصرانہ30
14عصرانہ میں صدر کی تقریر32
15صدر جمہوریہ کی واپسی33
16نقشہ خدمات حضرات منتظمین35
17اخبارات کے تبصرے36

India President In Darul Uloom Deoband, Published by Darul Uloom Deoband, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں